انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
مندرجہ بالا تحریر مجھے آج ہی وٹزایپ پہ میری سہیلی نے بھیجی ہے۔
آج میں اس پہ غور کرنے کا ارادہ کر رہی ہوں کہ کس کس نعمت کے شکرانے پہ کیا کیا، کس کس کو دوں؟
آپ بھی سوچیے اور مجھے ضرور بتائیے گا، مجھے راہنمائی کی شدید ضرورت ہے۔:)

اللہ تعالیٰ کی ہم پر کیا کیا نعمتیں ہیں کوئی انہیں نہیں گن سکتا۔ جو نعمتیں ظاہر ہیں، نظر آرہی ہیں ان ہی کا شمار ممکن نہیں تو نادیدہ نعمتیں کیسے شمار ہوں گی۔
اس لیے ہر نعمت کے بدلے صدقہ تو قارون کا خزانہ بھی ادا نہیں کرسکتا، نہ ہی اللہ اور رسول ہمیں اس کی ترغیب دیتے ہیں۔ لہٰذا صدقہ اللہ کی نعمتوں کے بدلہ میں نہیں ان کے ارشاد کے مطابق ادا کیا جائے جو انہوں نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
یسئلونک ماذا ينفقون قل العفو۔ (البقرہ، ۲۱۹)
(اے نبی) لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کتنا خرچ کریں؟ آپ فرمادیجیے جو تمہاری ضرورت سے زائد ہو (اس میں سے خرچ کرو)۔
یہ حکم زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔ کیوں کہ زکوٰۃ تو ہر صورت میں ادا کرنی ہے۔ اس کے علاوہ جتنی حیثیت ہے مال نکالتے رہیں، لیکن ایسا نہ ہو کہ اپنی ضروریات پوری نہ ہوں، خود تنگی میں آجائیں اور دوسروں سے قرض ادھار مانگنے کی ضرورت پیش آجائے!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ایک دفعہ آپ “شُکر” کو اپنی زندگی میں لے آئیں یہ کائنات آپ پر ایسے ایسے راز کھولے گی کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔
بیشک یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ انسان پر ایسے راز کھلتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی۔۔۔۔۔بس شکر ادا کرنے والے بن جائے !!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ تعالیٰ کی ہم پر کیا کیا نعمتیں ہیں کوئی انہیں نہیں گن سکتا۔ جو نعمتیں ظاہر ہیں، نظر آرہی ہیں ان ہی کا شمار ممکن نہیں تو نادیدہ نعمتیں کیسے شمار ہوں گی۔
اس لیے ہر نعمت کے بدلے صدقہ تو قارون کا خزانہ بھی ادا نہیں کرسکتا، نہ ہی اللہ اور رسول ہمیں اس کی ترغیب دیتے ہیں۔ لہٰذا صدقہ اللہ کی نعمتوں کے بدلہ میں نہیں
بلاشبہ ایسا ہی ہے !!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والے بچے
اور نہ جانے کیا کیا نعمتیں ہیں جن پر آپ دن رات صبح شام شکر ادا کرنا شروع کر دیں تو بھی کم ہے۔

یاد رہے ۔۔۔۔ شکر دل سے ادا ہونا چاہئے آپ کے احساسات اور دل کی دھڑکنوں تک سے شکرگزاری کے جذبات پھوٹ رہے ہوں، آپ بات بات پر پورے خلوص دل کے ساتھ “الحمدللہ” کہہ رہے ہوں۔
مالک سے دعا ہے وہ ہمیں ایسا بنا دے آمین !
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ تعالی ہر چیز کو آپ کی سیٹ کی ہوئی فریکوئنسی پر لگا دیتے ہیں۔ انتخاب اور مرضی آپ کی اپنی ہے۔.....آپ “شکر گزاری” کا چینل سیٹ کرتے ہیں یا خود کو “شکوے شکایتوں” کی فریکوئنسی پر ٹیون کرتے ہیں۔
شکر گزاری کا چینل کس کس چیز کا شکر بس اس کے لئیے جو ہمیشہ اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ ہر دم عطا کی ہوئی نعمتوں پہ نظر رکھو شکر گذاری سرشت کا حصہ بنتی جائے۔خود بخود جب آپ اپنی عادت بنالیں تو یہ شخصیت کا حصہّ بن جائے گی۔
 

سیما علی

لائبریرین
آج میں اس پہ غور کرنے کا ارادہ کر رہی ہوں کہ کس کس نعمت کے شکرانے پہ کیا کیا، کس کس کو دوں؟
آپ بھی سوچیے اور مجھے ضرور بتائیے گا، مجھے راہنمائی کی شدید ضرورت ہے۔
  • اپنی صبح کا آغاز شکر گزاری کے اظہار سے کریں
شکر کی عادت کا بیج بونے کے لئے سب سے بہترین صبح کا وقت۔ یعنی دن کا آغاز ہے. سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا۔۔۔۔
پہلی دعا، پہلے شکر کا اثر دن بھر کے تمام کاموں پر پڑتا ہے۔ کے لئے شکریہ اللہ میاں۔۔۔ میں شکر گزار ہوں کہ مجھے ایک نیا دن عطا کیا گیا!!!!!!
  • منفی چیزوں کے اندر بھی مثبت تلاش کرنا اس یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ آپ کی خود اعتمادی میں اضافے کا سبب بنتا ہے!!!
  • شکر گزار ہوں کہ میری زندگی میں محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں!!!!

 

جاسمن

لائبریرین
شُکر (Thanks) کی فریکوینسی

اس دنیا میں ایک قانون موجود ہے اور اسکو “
Law of attraction” (قانون کشش) کہتے ہیں۔

اس کی مثال بڑی سادہ ہے ہمارے اردگرد ہر جگہ “لہریں” موجود ہیں۔

یقین کرنا ہے تو ریڈیو آن کریں اور فریکوئنسی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دیں، آپ کو کسی چینل پر کوئی “غمزدہ خبر” سننے کو ملے گی۔۔۔۔ اب یہ آپ کا اختیار ہے کہ آپ فریکوئنسی تبدیل کردیں تو دوسرے چینل پر کوئی “خوشگوار بات” سننے کو مل جائے گی۔

آپ کا موڈ اور آپ کا مزاج بھی اس خبر اور اس کے اثرات کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ “غمزدہ خبر” والی لہریں کمرے سے چلی گئی ہیں یا اس فریکوئنسی پر “غمزدہ خبر” موجود ہی نہیں رہی

بلکہ آپ نے اپنی فریکوئنسی کو “خوشگوار باتوں” کی طرف موڑ دیا ہے اسلئیے ہر طرف سے لہریں آپ کو “خوشگوار باتیں” سنانے پر مجبور ہیں۔

بالکل یہی معاملہ “قانون کشش” کا ہے۔ جب آپ شکر گزار ہوتے ہیں تو پوری کائنات حرکت میں آجاتی ہے

اللہ تعالی ہر چیز کو آپ کی سیٹ کی ہوئی فریکوئنسی پر لگا دیتے ہیں۔ انتخاب اور مرضی آپ کی اپنی ہے۔.....آپ “شکر گزاری” کا چینل سیٹ کرتے ہیں یا خود کو “شکوے شکایتوں” کی فریکوئنسی پر ٹیون کرتے ہیں۔

آپ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں، جیسا بننا چاہتے ہیں، ویسا سوچنا شروع کر دیں۔ اگر آپ شکر گزار ہیں تو پھر آپ کو صبح سے شام تک شکر گزار لوگ ہی ملیں گے اور اگر کوئی ناشکرا مل بھی گیا تو آپ اس کے بھی شکر گزار ہو جائیں گے۔

اپنے پیسے، رشتے، روزگار، بچے، بیوی تعلقات اور پڑوس وغیرہ ،...... جس چیز کی زیادتی آپ کی زندگی میں ہوگی اور آپ اس سے خوش ہوں گے تو دراصل اس کے بارے میں آپ زیادہ شکر گزار رہتے ہیں اور جس چیز میں کمی اور کوتاہی ہے دراصل وہ آپ کے” کم شکر گزار” ہونے یا “نا شکری” کا نتیجہ ہے۔

بلوں کے بروقت ادا ہوجانے،
تنخواہ وقت پر مل جانے،
بچوں کی فیسیں ادا ہو جانے،
تین وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھا لینے،
جسم پر صاف ستھرے کپڑے،
اچھی کمپنی کس موبائل،
گھر میں خیال کرنے والی ماں، بیوی، بہن، بیٹی,
آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والے بچے
اور نہ جانے کیا کیا نعمتیں ہیں جن پر آپ دن رات صبح شام شکر ادا کرنا شروع کر دیں تو بھی کم ہے۔

یاد رہے ۔۔۔۔ شکر دل سے ادا ہونا چاہئے آپ کے احساسات اور دل کی دھڑکنوں تک سے شکرگزاری کے جذبات پھوٹ رہے ہوں، آپ بات بات پر پورے خلوص دل کے ساتھ “الحمدللہ” کہہ رہے ہوں۔

صبح کوڑا لینے آنے والے سے لے کر شام کو گھر چھوڑنے والے ڈرائیور تک کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایک دفعہ تھینکس، شکریہ، جزاک اللہ تو بول کر دیکھیں ۔۔۔۔ آپ کا انگ انگ جھوم نا اٹھے تو بات کریں۔

اللہ تعالی اس کائنات کو، اسکی ساری قوتوں کو آپ کی خدمت میں لگا دے گا۔

نہایت ہی کم ظرف اور ناشکرے ہیں ہم لوگ۔ سارا دن ہم اپنی فریکوئنسی کو “گلے شکوں” پر ٹکا کر رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہر طرف سے شکر گزاری کی لہریں آتی رہیں۔

اپنی زندگی کو اگر دنیا میں جنت بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہر کسی کے لیے اپنے دل اور دماغ سے گلے، شکوے اور شکایتیں نکال کر پھینک دیں۔ ہر انسان کا، ہر چیز کا، اس کائنات کا اور اللہ تعالی کا ہر لمحہ شکر ادا کرتے رہیں۔

ایک دفعہ آپ “شُکر” کو اپنی زندگی میں لے آئیں یہ کائنات آپ پر ایسے ایسے راز کھولے گی کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔
اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے. آمین!
جزاک اللّہ خیرا کثیرا
 

سیما علی

لائبریرین
سُن! آدمی کا وجود دودھ کی مثل ہے۔ دودھ میں لسی بھی ہوتی ہے،دہی اور مکھن بھی ہوتااور گھی بھی ہوتا ہے، اِسی طرح آدمی کے وجود میں نفس بھی ہوتا ہے،قلب بھی ہوتا ہے، روح بھی ہوتی ہے اور سربھی ہوتا ہے اور یہ چاروں ایک ہی جگہ جمع ہوتےہیں۔ مرشد کو اُس عورت کی طرح ہونا چاہیے جو دودھ میں مناسب مقدار میں لسی ڈال کر رکھ دیتی ہے، ساری رات دہی جمتا رہتا ہے۔
صبح کو دہی بلوتی ہے تو مکھن نکل آتا ہے اور لسی الگ ہوجاتی ہے،
پھر مکھن کو آگ پر چڑھاتی ہے تو مکھن سے کثافت دور ہوجاتی
ہے اور گھی نکل آتا ہے ،مرشد کو عورت سے کمتر نہیں ہوناچاہیے
کہ جیسے عورت دودھ کے کام کوانتہا تک پہنچاتی ہے اُسی طرح مرشد کا کام بھی یہ ہے کہ طالب کواُس کے وجود میں مقامِ نفس، مقامِ قلب ، مقامِ روح ،مقامِ سر ، مقامِ توفیقِ الہٰی ، مقامِ علمِ شریعت وطریقت وحقیقت ومعرفت اور مقامِ خناس وخرطوم وشیطان وحرص وحسد وکبر علیحدہ علیحدہ کرکے دکھائے۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ ہمیں عمل کی توفیق اور آسانی عطا فرمائے. آمین!
جزاک اللّہ خیرا کثیرا
جیتی رہیے بٹیا شاد و آباد رہیے اللّہ ہمیشہ آسانیاں بانٹنے والا رکھے سچ کبھی کبھی ایسے لگتا ہے ایک دوسرے کو دیکھ کے بات کر رہے آپ ہمیں اپنے لفظوں میں نظر آتیں ہیں بٹیا ڈھیر سارا پیار:in-love::in-love::in-love::in-love::in-love:
 

سیما علی

لائبریرین
*الحمد للہ کب کہیں* ❓

*کسی کو بخار ہو گیا ہے*---- آپ کے پیسے گم ہو گئے ہے ---آپ کو امی ابا یاد آ رہے ہیں۔ کوئی بھی چیز جس سے آپ کو رونا آ رہا ہو۔
لیکن زبان سے *الحمداللہ !*
*اللہ میں راضی ہوں۔*
اور پھر یہ صرف زبان سے نہ ہو بلکہ دل سے ہو۔
ایسے سب مواقع پر انسان دل سے اللہ کا شکر کرتا رہے، کہے اس میں بھی خیر ہے۔
اس کے ذریعے اللہ تعالی مجھے بھلائی عطا کریں گے۔
اور کسی بھی ناپسندیدہ صورت حال کے پیش آنے پر یہ تو لازم ہوتا ہے کہ گناہ جھڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور نیکیاں لکھی جانے لگتی ہیں-
پرابلم (problem ) اپنی جگہ ہے لیکن جو آخرت کا اجر ہے وہ ملنا ہی شروع ہو جاتا ہے اگر انسان صبر سے کام لیتا ہے۔
پھر اسی طرح ایک اور بات یاد رکھئے---

️ہمیشہ خیر کے کلمات زبان سے نکالنے چاہئیں-
مثلا اگر کوئی فوت ہو جائے تو اس وقت بھی زبان سے اللہ تعالی کی ناراضگی کا کوئی جملہ نہ نکلے۔
ام سلمی کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمی کے پاس تشریف لائے تو ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بند کر دیا، پھر فرمایا: "
*جب روح قبض کی جاتی ہے تو نگاہ اس کے پیچھے جاتی ہے روح کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔*"
تو جب آپ نے ان کو بتایا کہ یہ فوت ہو چکے ہیں تو گھر والوں نے رونا شروع کر دیا۔ تو آپ (ص) نے فرمایا :
*" اپنے آپ پر خیر ہی کی دعا کیا کرو، بے شک فرشتے تمہاری بات پر آمین کہتے ہیں-"*
اسی طرح اگر آپ بیمار ہو گئے، یا بچہ بیمار ہو گیا، کوئی بیماری چھوٹی موٹی نظر آ رہی ہے تو برے لفظ زبان سے نہیں نکالنے ۔
اچھی بات زبان سے نکالنی ہے۔
انتہائی تکلیف دہ حالت میں بھی positive رہنا ہے۔
اور اللہ سبحان و تعالی آپ کے اس صبر اور شکر ، اور اس رضا، اور اللہ کی حمد ثنا پر آپ کو اجرِ عظیم عطا کرے گا۔
️ پھر صبر کے ساتھ اللہ کی مدد مانگنی چاہیے،
" کہ اللہ تعالی اس مشکل کو آسان کر دے۔ اس بیماری کو دور کر دے۔ اس مالی مصیبت کا کوئی ہمیں بہترین صلہ عطا کر دے۔"
تو ایسے صبر کرنے والوں کی قرآن مجید میں تعریف کی گئی ہے کہ:
*"وہ متقی لوگ ہیں-"*
️افضل ایمان صبر اور نرمی ہی ہے۔
️جنت میں داخلے کا میزان ہے۔
یعنی صابرین کو اللہ تعالی کا ساتھ ملتا ہے۔
*وصبرو ان اللہ مع الصابرین*
️صبر سب سے بہتر اور وسیع نعمت ہے۔
️اللہ کی مدد آتی ہے۔
️جتنی بڑی آزمائش ہوتی ہے اتنا بڑا اجر انسان کو ملتا ہے۔
️اور بے صبری جہنم میں لے جانے والی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" *بے شک فساق جہنمی ہے" کہا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فساق کون ہے؟ آپ نے فرمایا: "عورتیں* *ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول کیا وہ ہماری مائیں، بہنیں، بیویاں نہیں؟*
*تو آپ نے فرمایا:*
*"*کیوں نہیں! لیکن جب ان کو نعمتیں ملتی ہیں تو شکر ادا نہیں کرتیں،*
*اور جب ان کو آزمایا جاتا ہے تو صبر نہیں کرتیں۔*

تو ہم نے اپنے اندر یہ دو چیزیں لانی ہیں-
️نعمت ملنے پر شکر،
️ اور تکلیف آنے پر صبر۔
ان شاءالله
*رب اعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك*

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بار ویسپا سکوٹر پر جاتے ہوئے راستے میں سامنے کتا آگیا..
اس کو بچانے کے چکر میں کنٹرول میری گرفت سے نکل گیا اور میں سکوٹر سمیت سڑک کی بغل والے نالے میں گر گیا.
بڑی مشکل کے بعد جیسے تیسے میں نالے سے باہر نکلا تو دیکھا ایک خوبصورت خاتون اپنی کار روکے میری طرف دیکھ رہی تھی.
انہوں نے پوچھا "کہیں لگی تو نہیں"
"نہیں.... نہیں".... میں نے جواب دیا.
"میرا گھر نزدیک ہی ھے" انہوں نے کہا...."چلو کپڑے صاف کرلو اور تھوڑا آرام بھی کر لو, آپ کو زیادہ زخم آئے ھیں یا نہیں یہ بھی چیک کر لیتے ھیں".
میں نے جواب دیا "آپ کا بہت بہت شکریہ... میں ضرور اپ کے ساتھ چلتا لیکن میری بیوی ناراض ہو جائےگی".
"آپ بالکل ٹینشن نہ لیں... میں ایک ڈاکٹر ھوں... چلئے"... انہوں نے زور دے کر کہا.
"میں دیکھنا چاہتی ھوں کے کہیں آپ کو فریکچر تو نہیں ھوا ھے".
در حقیقت وہ ایک خوبصورت اور اچھے اخلاق کی خاتون تھیں اور میں نا نہیں کر پایا.
میں نے کہا "ٹھیک ھے میں آرہا ھوں لیکن مجھے یقین ھے کے میری بیوی ضرور ناراض ھو جائےگی".
ھم اس کے گھر ائے, کپڑے, ہاتھ پیر صاف کرنے کے بعد انھوں نے میری جانچ کی اور مجھے ٹھنڈا جوس دیا.
میں نے جوس پیا اور کہا "اب میں پہلے سے بہتر محسوس کر رھا ھوں.... میری بیوی یقینا آگ بگولہ ھو جائے گی.... اب میں چلتا ھوں".
انھوں نے مسکراتے ھوے کہا
"رک جائیے اب, اپ کی بیوی کو کچھ بھی پتہ نھیں چلے گا..... وہ تو گھر پر بیٹھی ھو گی نا"...
"نہیں..... نہیں..... شاید وہ ابھی بھی نالے میں ہی ھوگی".
مشتاق احمد یوسفی
 

سیما علی

لائبریرین
کراچی کے پوش ایریا کلفٹن میں واقع ایک اعلیٰ معیار کے مشہور اسکول/کالج کی پرنسپل صاحبہ بہت ہی اسمارٹ اور اعلیٰ تعلیمیافتہ خاتون تھیں۔
ایک دن داخلہ لینے کے متمنی جب ایک لڑکے نے (اچھے نمبروں سے پاس) میٹرک کا سرٹیفکٹ اور دیگر کاغذات خوش رو چہرے کے ساتھ پیش کئے تو لڑکے کے والد نے بتایا وہ اپنے اسی لڑکے کو اس اسکول میں داخل کرانے آئے ہیں۔
میڈم نے صرف ایک سوال کیا: "آپ کہاں سے آئے ہیں؟"

جب میڈیم کو پتہ چلا وہ بلیدہ (بلوچستان) کے ہیں اور اب لیاری میں رہتے ہیں اور وہیں سے آئے ہیں تو ان کی طرف دیکھ کر کہنے لگیں:
"دیکھیں! یہاں وقت ضائع نہ کریں۔ جہاں سے آپ آئے ہیں وہیں جاکر کھیتی باڑی کریں اور سکون کی زندگی گزاریں!"۔
یہ سن کر باپ بیٹا خاموشی کے ساتھ اس کمرے سے نکلے۔ باپ نے بیٹے کی طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ میں نے پہلے کہا ہمیں یہاں نہیں آنا چائیے تھا۔

جناب! یہ تو کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ آج وہی لڑکا انگلستان کے کیمبرج یونیورسٹی میں نہ صرف ایک استاد ہے بلکہ خلائی سائنس سے وابستہ پہلا پاکستانی نوعمر سینئر ریسرچ سائنٹسٹ ہے!!!

ڈاکٹر یارجان عبدالصمد 20 مارچ 1986 کو کیچ مکران (بلیدہ) میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم کا مرحلہ وہیں طے کیا پھر لیاری آکر روز ایجوکیشنل سوسائٹی کے وائٹ روز اسکول بغدادی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ کلفٹن کی خوشگوار فضا میں مزید تعلیم کا حصول ممکن نہیں ہوا تو ہمت نہیں ہاری۔ علم کی جستجو انہیں ڈی جی سائنس کالج اور پھر کے پی کے میں غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئیرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنولوجی تک لے گئی جہاں قابل اور مشفق اساتذہ کی نگرانی میں ان کی ذہانت اور صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔

ان کی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں اسکالرشپ کے ساتھ امریکہ بھیجاگیا۔ ماسٹرز کے مراحل طے کرکے انہوں نے ٹیکنولوجی کے شعبہ میں امریکہ سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں انہوں نے عملی طور پر جاپان اور جرمنی کے ٹیکنیکل ماہرین کے ساتھ مل کر نہ صرف خلائی سائنس کے شعبہ میں اپنی استعداد بڑھائی بلکہ اس سرکل میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ گو کہ وہ ابھی نوجوان ہی ہیں لیکن اس عمر میں وہ کیمبرج یونیورسٹی یوکے میں سینئیر ریسرچ سائنٹسٹ کی حیثیت سے ٹیکنولوجی پڑھاتے ہیں اورآجکل Space Base Project سے منسلک ہیں۔

ڈاکٹر یارجان بلوچ لیاری سے نکل کر "خلا" کے قریب ہی پہنچ گئے ہیں لیکن یہاں سے اپنا رابطہ برقرار رکھا ہے۔ خاص طور پر وائٹ روز اسکول کے منتظمین۔ ٹیچرز اور اپنے دوستوں کے ایک حلقہ سے ان کا ناطہ جڑا رہا۔

دو دن پہلے روز ایجوکیشنل سوسائٹی کے ڈائرکٹر انور علی بھٹی نے اپنے سابق طالبعلم یارجان بلوچ کے ساتھ ایک بہت ہی حسین شام منائی۔ اس دلفریب تقریب میں ڈاکٹر صاحب تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک کیمبرج یونیورسٹی یو کے سے آن لائن رہے۔ پہلے تو بھٹی صاحب۔ میڈم نجمہ۔ سابقہ ٹیچرز سر تبسم۔ سر ماجد اور اپنے کئی کلاس فیلوز کی باتیں سنتے رہے اور پھر محبت اور اپنائیت سے اپنے اسکول کے یادگار لمحات کو خوشی سے لبریز چہرے کے ساتھ ان سب سے شئیر کیا۔

ہم بھی وہاں موجود تھے۔ ڈاکٹر یارجان بلوچ کی باتیں ہم نے بھی سنیں۔ سوچ رہے تھے سائنسدان قسم کے آدمی ہیں اور اب "آسمانوں میں" رہتے ہیں اس لئے جو بات کریں گے وہ اول تو فلسفہ اور سائنسی فارمولوں پر مبنی ہوگی اور پھر انداز بھی کچھ "شاہانہ" قسم کا ہوگا لیکن یقین جانئیے اس نوجوان کو ہم نے خلا میں نہیں زمین ہی پر پایا۔ نرم لہجہ۔ سادہ الفاظ۔ انکساری کا مظاہرہ۔ یہ سب ان کے اچھے کردار کی نشانیاں تھیں۔

باتوں باتوں میں انہوں نے اپنی کامیابی (گرچہ وہ آخر تک انکساری سے کام لیتے رہے کہ ابھی تو ان کا علمی سفر شروع ہوا ہے) کو مسلسل جدوجہد۔ آگے بڑھنے کے عزم و ہمت اور ذہن میں منزل کے تعین سے جا ملالیا لیکن ہمارا خیال ہے ان کے چہرے پر ہروقت جو مسکراہٹ ہمیں نظر آئی یہی وہ راز ہے جو ان کی خوداعتمادی کی عکاسی کرتی ہے یہی وہ کنجی ہے جس نے ایک غریب اور پسماندہ ماحول میں پلنے والے ایک باہمت نوجوان کے لئے علم و آگہی کے تمام دروازے کھول دئے۔ ہمارے سب نوجوانوں کو اپنی زندگی کو بامقصد بنانے اور آگے بڑھنے کے لئے اسی کنجی کی کھوج لگانی ہوگی۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک شخص پہاڑی کے راستے سے گزر رہا تھا۔ اچانک اس کی آواز آئی "رکو"
وہ رک گیا۔ وہ رکتے ہی اس کے سامنے ایک بڑی چٹان گر گئی۔ وہ آواز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آگے بڑھا۔

کچھ دن بعد ، وہ شخص پھر کہیں جارہا تھا۔ تب وہی آواز آئی .. رکو۔" وہ رک گیا۔ تب ایک کار اس کے پاس سے بہت تیزی سے گزری۔ اس نے پھر *آواز* کا شکریہ ادا کیا۔ اور پوچھا ، "بھائی تم کون ہو؟" کون بار بار میری جان بچا رہا ہے؟ " *آواز* آئی ،

"حفاظت کرنے والا ... فرشتہ۔"
اس نے پھر شکریہ ادا کیا اور روتے ہوے پوچھا : *شادی کے وقت اپ کہاں تھے بھائ ؟

جواب آیا ۔۔۔
اور بجاو ڈھول زور زور سے۔۔۔
آواز تو اس وقت بھی لگائ تھی!:cool::cool::cool::cool::cool:
 

سید عمران

محفلین
خوش رہنا شروع کیجئے

ایک وقت تھا خوشی بہت آسانی سے مل جاتی تھی۔ دوستوں سے مل کر، عزیز رشتہ داروں سے مل کر، نیکی کرکے، کسی کا راستہ صاف کرکے، کسی کی مدد کرکے۔خربوزہ میٹھا نکل آیا، تربوز لال نکل آیا،آم لیک نہیں ہوا، ٹافی کھا لی،سموسے لے آئے، جلیبیاں کھا لیں، باتھ روم میں پانی گرم مل گیا،اسکول میں داخلہ ہوگیا، پاس ہوگئے، میٹرک کرلیا، ایف اے کرلیا، بی اے کر لیا، ایم اے کرلیا، کھانا کھالیا، دعوت کرلی،عمرہ اور حج کرلیا، چھوٹا سا گھر بنا لیا، امی ابا کے لیے سوٹ لے لیا، بہن کے لیے جیولری لے لی،لڑکا لڑکی شریف خاندان سے ہیں،آمدنی گزارے لائق ہے، بس شادی کردی، پھر اولاد ہوگئی، اولاد بڑی ہوگئی،ان کی شادیاں کردیں، نانے نانیاں بن گئے، دادے دادیاں بن گئے۔۔۔۔۔
سب کچھ خوشگوار چل رہا تھا۔۔۔۔
پھر ہم نے پریشانیاں ڈھونڈنا شروع کردیں۔۔۔!!!
بچہ کون سے اسکول میں داخل کرانا ہے، پوزیشن کیا آئے، نمبر کتنے ہیں، جی پی اے کیا ہے، لڑکا کرتا کیا ہے،گاڑی کون سی ہے،تنخواہ کیا ہے، کپڑے برانڈڈ چاہیئں یا پھر اس کی کاپی ہو،جھوٹ بولنا پھر اس کا دفاع کرنا۔۔۔۔۔
اس دکھلاوے سے ہمارے ہم سے دور ہوگئے۔۔۔۔
ہمیں شاید ہی فوج کے عہدوں کا پتہ ہو، پر ڈی ایچ اے کون سے شہر میں ہیں، سب پتہ ہے۔ گھر اوقات سے بڑے ہوگئے، اور ہم دور دور ہو گئے، ذرائع آمدن نہیں بڑھے پر قرضوں پر گاڑیاں، موٹر سائیکل، ٹی وی، فریج، موبائل سب آگئے، سب کے کریڈٹ کارڈ آگئے۔
پھر ان کے بل، بجلی کا بل، پانی کا بل،گیس کا بل،موبائل کا بل،سروسز کا بل، بچوں کی وین، بچوں کی ٹیکسی، بچوں کا ڈرائیور، بچوں کی گاڑی، بچوں کے موبائل، بچوں کے کمپیوٹر، بچوں کے لیپ ٹاپ، بچوں کے ٹیبلٹ، وائی فائی، گاڑیاں، جہاز، فاسٹ فوڈ، باہر کے کھانے، پسند کی شادیاں، دوستیاں، طلاق پھر شادیاں، جم، پارک، اس سال کہاں جائیں گے،یہ سب ہم نے اختیار کرلیے۔
اپنی طرف سے ہم زندگی کا مزا لے رہے ہیں لیکن۔۔۔۔
کیا آپ کو پتہ ہے آپ نے خوشی کو کھودیا ہے۔۔۔۔!!!!!
جب زندگی سادہ تھی تو خوشی کی مقدار کا تعین ناممکن تھا۔۔۔۔
اب دھوم دھڑکا تو بہت ہے پر پریشانی کا بھی کوئی حساب نہیں۔
اپنی زندگی کو سادہ بنائیے۔
تعلق بحال کیجئے۔
دعوت گھر پر کیجئے،بے شک چائے پر بلائیں یا پھر آلو والے پراٹھوں کا ناشتہ ساتھ کیجئے، دور ہونے والے سب چکر چھوڑ دیجئے، واٹس ایپ فیس بک کم استعمال کیجئے، انجان لوگوں سے تعلقات مت بڑھائیے، جاننے والوں کو قریب لائیے، آمنے سامنے بیٹھیے، دل کی بات سنیئے اور سنائیے، دل دکھانے والے جملوں سے پرہیز کیجیے، زبان کاٹ دار باتوں سے آلودہ مت کیجیے،خوشیاں بکھیرنے والی باتیں کیجیے، ہنسیے اور مسکرائیے۔ یقین کیجئے خوشیاں بہت سستے میں مل جاتی ہیں بلکہ مفت میں۔۔۔!!!
خوشی چارٹرڈ طیارے میں سفر کرنے میں نہیں ہے۔۔۔۔
دوستوں، رشتہ داروں اور ہمسائیوں سے ملنے میں ہے۔ان سے دوستی اور محبت کی باتیں کیجئے، ان کو دبانے کے لیے ڈگریوں،فیکٹریوں کا ذکر ہرگز مت کیجئے۔بس مسکراہٹ واپس آجائے گی۔۔۔
پرانے وقت میں جایئے جب ایک ٹافی کے دوحصے کرکے کھاتے تھے۔
فانٹا کی بوتل آدھی آدھی پی لیتے تھے۔
ہم نے ایسے چائے خانہ کا کیا کرنا جہاں پچاس قسم کی چائے ملتی ہے پر محبت نہیں۔ ہمیں وہاں جانا ہے جہاں سب کے لیے ایک ہی چائے بنتی ہے، محبت کی مٹھاس میں گھلی ہوئی، ملائی مارکے تے دودھ چینی ہلکی رکھ کے۔۔۔۔
***تو چلو آؤ، پھر سے خوش رہنا شروع کرتے ہیں***
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ہم نے ایسے چائے خانہ کا کیا کرنا جہاں پچاس قسم کی چائے ملتی ہے پر محبت نہیں۔ ہمیں وہاں جانا ہے جہاں سب کے لیے ایک ہی چائے بنتی ہے، محبت کی مٹھاس میں گھلی ہوئی، ملائی مارکے تے دودھ چینی ہلکی رکھ کے۔۔۔۔
***تو چلو آؤ، پھر سے خوش رہنا شروع کرتے ہیں***
بالکل درست بات ہے چائے کا تعلق چاہ سے ہے !!!!!چاہ نہیں چائے کڑوی کسیلی ہوجاتی ہے !بے شک ہمیں وہیں جانا چاہیے جہاں ملائی مار کے تے دودھ پتی ہلکی رکھ کے!!!!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
رابطہ اور تعلق ...

ایک دفعہ ایک صحافی اپنے پرانے ریٹائرڈ استاد کا انٹرویو کر رہا تھا اور اپنی تعلیم کے پرانے دور کی مختلف باتیں پوچھ رہا تھا۔ اس انٹرویو کے دوران نوجوان صحافی نے اپنے استاد سے پوچھا۔۔سر ایک دفعہ آپ نے اپنے لیکچر کے دوران ۔۔contact ...اور connection ... کے الفاظ پر بحث کرتے ہوے ان دو الفاظ کا فرق سمجھایا تھا اس وقت بھی میں کنفیوز تھا اور اب چونکہ بہت عرصہ ہو گیا ہے مجھے وہ فرق یاد نہیں رہا ۔آپ آج مجھے ان دو الفاظ کا مطلب سمجھا دیں تاکہ مجھے اور میرے چینل کے ناظرین کو آگاہی ہو سکے۔

استاد مسکرایا اور اس سوال کے جواب دینے سے کتراتے ہوے صحافی سے پوچھا ۔کیا آپ اسی شھر سے تعلق رکھتے ہیں ؟ شاگرد نے جواب دیا ۔۔جی ہاں سر میں اسی شھر کا ہوں۔ استاد نے پوچھا آپ کے گھر میں کون کون رہتا ہے۔ شاگرد نے سوچا کہ استاد صاحب میرے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے اس لیے ادھر ادھر کی مار رہے ہیں۔ بہر حال اس نے بتایا میری ماں وفات پا چکی ہے۔والد صاحب گھر میں رہتے ہیں۔ تین بھائی اور ایک بہن ہے اور سارے شادی شدہ ہیں۔
ٹیچر نے مسکراتے ہوے نوجوان صحافی سے پوچھا ۔۔تم اپنے باپ سے بات چیت کرتے رہتے ہو؟ اب نوجوان کو غصہ بھی آیا اور کہا جی میں باپ سے گپ شپ کرتا رہتا ہوں۔ استاد نے پوچھا یاد کرو پچھلی دفعہ تم باپ سے کب ملے تھے؟ اب نوجوان نے غصے کا گھونٹ پیتے ہوے کہا ۔شاید ایک ماہ ہو گیا ہے جب میں ابو کو ملا تھا۔

استاد نے کہا تم اپنے بہن بھائیوں سے تو اکثر ملتے رہتے ہوگے۔ بتاو پچھلی دفعہ تم سب کب اکٹھے ہوے تھے اور گپ شپ حال احوال پوچھا تھا؟ اب تو صحافی صاحب کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور لینے کے دینے پڑ گیے وہ سوچنے لگا میں تو استاد کا انٹرویو لینے چلا تھا مگر الٹا استاد میرا انٹرویو لینے لگا ہے۔

اس نے ایک آہ بھر کر لمبا سانس لیتے ہوئے بتایا کہ شاید دو سال ہو گیے جب ہم بہن بھائی اکٹھے ہوے تھے۔ استاد نے ایک اور سوال داغتے ہوے پوچھا تم لوگ کتنے دن اکٹھے رہے تھے؟۔ نوجوان نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے جواب دیا ہم لوگ تین دن اکٹھے رہے تھے۔ استاد نے پوچھا تم اپنے والد کے پاس بیٹھ کر کتنا وقت گزارتے ہو؟ اب تو نوجوان صحافی بہت پریشان ہو گیا اور نیچے میز پر رکھے کاغذ پر کچھ لکھنے لگا۔ استاد نے پوچھا کبھی تم نے باپ کے ساتھ ناشتہ۔لنچ یا ڈنر بھی کیا ہے؟کبھی آپ نے ابو سے پوچھا وہ کیسے ہیں ؟کبھی تم نے باپ سے دریافت کیا کہ تمھاری ماں کے مرنے کے بعد اس کے دن کیسے گزر رہے ہیں؟ٍ

اب تو انٹرویو کرنے والے صحافی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو برسنے لگے۔ استاد نے صحافی کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ بھائی پریشان، شرمندہ، مایوس یا اداس ہونے کی ضرورت نہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے بے خبری میں تمھیں ہرٹ کیا اور دکھ پہنچایا۔ لیکن میں کیا کرتا مجھے آپ کے سوال Contact اور connection .. کا جواب دینا تھا۔

اب سنو۔۔۔ ان دو لفظوں کا فرق یہ ہے کہ تمھارا contact یا رابطہ تو تمھارے ابو سے ہے مگر connection یا تعلق ابو سےنہیں رہا یا کمزور ہے۔کیونکہ تعلق یا کنکشن دلوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ جب کنکشن یا تعلق ہوتا ہے تو آپ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں
ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں۔ ہاتھ ملاتے گلے سے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام خوشی خوشی سرانجام دیتے ہیں۔ جیسے ایک معصوم بچے کی ماں اس کو سینے سے لگاتی ہے چومتی بغیر مانگے دودھ پالاتی ہے اس کی گرمی سردی کا خیال رکھتی ہے جب وہ چلنا شروع کرتا ہے تو ساے کی طرح اس کے پاس رہتی ہے تاکہ وہ گر نہ جاے کوئی غلط چیز نہ کھا لے۔گر پڑے تو اس بچے کو گلے سے لگا کر چپ کراتی ہے۔ تو میرے پیارے شاگرد آپ کے باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ صرف contact یا رابطہ ہے مگر آپ کے درمیان connection یا تعلق نہیں ہے۔

نوجوان صحافی نے اپنے آنسو رومال سے صاف کیے اور استاد کا شکریہ ادا کرتے ہوے کہا سر آپ نے مجھے آج ایک بہت بڑا سبق پڑھا دیا جو زندگی بھر نہیں بھولے گا۔

آج ہمارے معاشرے کا یہی حال ہے کہ ہمارے آپس میں بڑے رابطے ہیں مگر کنکشن بالکل نہیں۔ آج فیس بک پر ہمارے پانچ ھزار فرینڈز ہیں مگر حقیقی زندگی میں ایک بھی نہیں۔آج ہم صبح سویرے سیکڑوں دوستوں کو گڈ مارننگ کہ کر بغیر خوشبو کے پھول بھیجتے ہیں حقیقی زندگی میں ایک پھول کی پتی بھی نہیں ملتی آج ہمارے فیس بک پر ھزاروں ہیپی برتھ ڈے کے پیغامات اور خوبصورت کیک کی تصویریں ملتی ہیں حقیقی زندگی میں ایک بھی یار نہیں جو گھر آکے گلے سے ملکر سالگرہ کی مبارک دے اور سینے سے سینہ بھینچ کر کہے سالگرہ مبارک میرے یار۔۔ آج ہم تمام لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہیں اور کاغذ کے بے خوشبو پھولوں ۔بڑے کیک کی تصویروں سے دل بہلاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

چرچلِ ثانی آپ کی نذر ہماری ایک دوست کا بھیجا واٹس ایپ پیغام
 
آخری تدوین:
Top