انٹر نیٹ سے چنیدہ

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میرا پہلا روزہ اور عید کا چاند
مستنصر حسین تارڑ

میری عمر کے باباجات کے ساتھ صحت کے کچھ مسائل کے علاوہ ایک اور ٹریجڈی یہ ہوتی ہے کہ لوگ ہمیں پتھر کے زمانے کا سمجھتے ہیں کہ اچھا آپ کے زمانے میں ہوائی جہاز ایجاد ہو گیا تھا۔ اچھا اگر آپ کے بچپن میں برگر اور پیزا نہیں ہوتا تھا تو آپ کھاتے کیا تھے۔ علاوہ ازیں ہر ایک آپ کی صحت کے بارے تشویش کا اظہار کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے۔ یعنی آپ کسی پارک میں ذرا دھیرے دھیرے احتیاط سے سیر کر رہے ہیں تو ایک نوجوان آپ کو پہچان کر سلام دعا سے فارغ ہو کر پہلا سوال یہ کرتا ہے کہ تارڑ صاحب آپ کی صحت کیسی ہے، ٹھیک تو ہیں ناں؟ اس پر میں نہایت تحمل سے جواب دیتا ہوں کہ جی اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے، شکر ہے اس ذات کا کہ ماشاء اللہ روزانہ تین چار کلو میٹر پیدل چل لیتا ہوں۔ بے شک آہستہ آہستہ لیکن چل لیتا ہوں۔ اس پر وہ نوجوان جو کہ خود بھی پچاس کے پیٹے میں ہے کہتا ہے کہ…آپ کو شوگر کا عارضہ تو نہیں، تو میں جواب دیتا ہوں کہ ابھی تک تو نہیں، بعد ازاں بلڈ پریشر، گھٹنوں کے درد اور عارضہ قلب کے بارے میں تشویش ظاہر کی جاتی ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ جی وہ بلڈ پریشر کے لیے چند گولیاں پھانک لیتا ہوں، ابھی تک تو قابو میں ہے، گھٹنے کبھی کبھار اٹھتے ہوئے کچھ کڑ کڑاتے ہیں ورنہ شکر ہے اور کوئی ایسا عارضہ لاحق نہیں جس کی تفصیل بیان کی جا سکے۔ وہ نوجوان بے حد مایوس ہوتے ہیں بلکہ رنجیدہ اور خفا سے لگتے ہیں اور رخصت ہوتے ہوئے کہتے ہیں، ویسے اس عمر میں اپنا خیال رکھنا چاہئے۔ یہ شاید ہماری نفسیات میں شامل ہے کہ ہم ادھیڑ عمر حضرات سے توقع رکھتے ہیں کہ انہیں کوئی نہ کوئی بیماری لاحق ہو…اگر دل کا عارضہ ہو تو سن کرکھل اٹھتے ہیں اور فوری طور پر امراض قلب کے چند ماہرین کے پاس فوری طور چیک اپ کے لیے جانے کا مشورہ دیتے ہیں کہ میرے والد صاحب بھی ان کے زیر علاج تھے، ابھی پچھلے برس ہی ان کا انتقال ہوا ہے۔ لیکن اس رمضان میں سب سے دلچسپ سوال ایک بچے نے کیا کہ انکل کیا آپ کے زمانے میں بھی عید ہوا کرتی تھی تو میں نے مسکراتے ہوئے اپنے بچپن کی عیدوں کا کچھ تذکرہ کیا لیکن بچے نے ایک اور عجیب سوال داغ دیا، تو انکل آپ کے زمانے میں بھی رویت ہلال کمیٹی ہوا کرتی تھی تو میں نے ذرا گڑ بڑا کر کہا کہ نہیں وہ تو نہیں ہوتی تھی تو بچہ ذرا پریشان ہو کر بولا، تو پھر آپ کو کیسے پتہ چلتا تھا کہ عید کب ہو گی۔ ایسے تمام پریشان بچوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہمارے زمانے میں کسی بھی نوعیت کی کمیٹی وغیرہ نہ ہونے کے باوجود عید ہو جاتی تھی اور ظاہر ہے رمضان کے چاند کے بارے میں بھی ہمیں خبر ہو جاتی تھی۔ ہے ناں حیرت انگیز بات۔ ان دنوں بھی دو عیدیں اکثر ہو جاتی ہیں اور ان دنوں بھی دو سے زیادہ عیدیں تو ہرگز نہ ہوتی تھیں حالانکہ ہمیں رویت ہلال کمیٹی کی سہولت بھی ہرگز حاصل نہ ہوتی تھی۔ مجھے اپنا آخری روزہ یاد ہو کہ نہ یاد ہو، پہلا روزہ خوب یاد ہے جیسے کل کی بات ہو…اور یہ پوری پون صدی پیشتر کا قصہ ہے۔ میں ننھیال میں ہوں اور منع کرنے کے باوجود روزہ رکھنے کا شوق ہے، سحری کے وقت نانی جان اپنے ہاتھوں سے مکھن کا پراٹھا تیار کر کے اس کے اوپر بھی چاٹی کے مکھن کا ایک پیڑہ رکھ کر جس پر چینی چھڑکی گئی ہے مجھے کھلاتی ہیں۔ لسی پلاتی ہیں اور جونہی مقامی مسجد سے اذان بلند ہوتی ہے، وہ دودھ کا ایک کٹورہ مجھے تقریباً زبردستی پلا دیتی ہیں۔ اگلے روز جو مجھ پر گزری وہ میں جانتا ہوں۔ شدید گرمیوں کے زمانے تھے، دس بجے تک پیاس سے برا حال ہو گیا، مجھے متعدد بار ہینڈ پمپ کے نیچے بٹھا کر نہلایا گیا اور جب اس سے بھی افاقہ نہ ہوا تو امی جان نے سمجھایا کہ بچوں کے لیے گنجائش ہے وہ بارہ بجے روزہ کھول سکتے ہیں لیکن میں اتنا نادان بھی نہ تھا کہ ’’چڑی روزے‘‘ پر اکتفا کر جاتا، ڈٹا رہا… پھر نانی جان نے میری حالت دیکھ کر بتایا کہ صرف پانی پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، تب بھی میں نہ مانا کہ میں خوب جانتا تھا کہ گھر والے شام تک بھوکے پیاسے بیٹھے رہتے ہیں، پانی نہیں پیتے۔ ہمارے صحن میں دھریک کا ایک گھنا درخت تھا، نانی جان جنہیں میں بے بے جی کہتا تھا انہوں نے میرا دھیان لگانے کی خاطر کہا کہ دیکھو اس دھریک کا ابھی کوئی سایہ نہیں، تھوڑی دیر بعد دوپہر ہو گی۔ سورج ڈھلنے لگے گا تو اس کا سایہ نمودار ہو گا۔ پہلے صحن میں پھیلے گا اور پھر گھر کی دیوار پر چڑھنے لگے گا۔ جب یہ سایہ دیوار کے نصف حصے پر چھا جائے گا تو روزہ کھولنے کی تیاری شروع ہو جائے گی۔ اب میں کبھی نیم اندھیارے پسار میں بچھے ہوئے پلنگ پر جا لیٹتا۔ کچھ دیر ناتوانی سے اونگھتا اور پھر اٹھ کر صحن میں جا کر دھریک کے سائے کا بغور جائزہ لیتا۔ مجھے لگتا کہ سایہ دیوار کی دوسری اینٹ سے اوپر جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جان بوجھ کر ٹھہر گیا ہے۔ اس دوران بے بے جی نے رات کے پانی میں بھگوئے ہوئے باداموں کا کٹورہ میرے سامنے رکھ دیا کہ ایک ایک کر کے ان کے چھلکے اتارو، جب آخری بادام کا چھلکا اتار لو گے تو بس یوں سمجھو کہ افطاری کا وقت قریب آ گیا ہے اور اس ناتوانی اور پیاس میں باداموں کے چھلکے اتارنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اب میں ایک بادام کاچھلکا بمشکل اتارتا اور پھر دیوار پر دھریک کے سائے کو ایک نظر دیکھتا۔ نہ بادام کم ہوتے اور نہ سایہ دیوار پر ذرہ بھر حرکت کرتا۔ اس دوران مجھے ایک بار پھر قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ صرف شربت کے دو گھونٹ پینے سے تو روزہ ہرگز نہیں ٹوٹتا اور شربت پھتوشیخ کی اماں کا بنایا ہوا جس کا نام شاید بزوری تھا۔ ویسے اب مجھ میں اتنی سکت بھی نہ رہی تھی کہ شربت کا گلاس تھام سکتا۔ قصہ مختصر بالآخر میں نے سارے باداموں کے چھلکے اتار دیئے اور وہ کٹورے میں سفید موتیوں کی مانند دمکنے لگے۔ بے بے جی نے ان باداموں کو کونڈی میں ڈال کر خوب گھوٹا اور پھر دودھ ملا کر خوب پھینٹا۔ اُدھر دیوار بھی آخر کار پورے سائے میں چلی گئی۔ مولوی صاحب نے اذان شروع کی تو وہ میری زندگی کی سب سے خوبصورت اور مترنم آواز تھی۔ باداموں والے دودھ کے دو تین کٹورے پینے کے بعد میرے حواس بحال ہوئے تو بے بے جی اور امی جان نے مجھے خوب خوب پیار کیا اور ایک ایک روپے کے دو سکے مجھ پر نچھاور کیے۔ اس رمضان کی انتیسویں کی شب روزہ کھولنے کے بعد، اور ہاں میرے لیے وہ ایک روزہ ہی کافی تھا۔ محلے کی چھتیں لوگوں سے بھر گئیں۔ کوئی میلے کا سا سماں تھا۔ سب لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے اور سب کی نظریں آسمان پر تھیں کہ دیکھیں آج چاند نظر آتا ہے کہ نہیں۔ بچے خاص طور پر یکدم غل مچا دیتے کہ وہ مسجد کے مینار کے اوپر ابھی ابھی دکھائی دیا تھا۔ جانے کہاں چلا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب شام کی تاریکی کچھ بڑھ گئی اور چاند نظر نہ آیا تو بیشتر لوگ اگلے روزے کی تیاری کے لیے چھتوں سے اتر گئے۔ کچھ دیربعد پھر شور اٹھا کہ چاند نظر آ گیا ہے اور پھر بھگدڑ مچ گئی اور سب لوگ واپس اپنی اپنی چھتوں پر۔ اس دوران مسجد کے صحن میں رکھی نوبت کی آواز آنے لگی جو اگلے روز عید ہو جانے کی نوید تھی۔ چھتوں پر لڑکیاں بالیاں چڑیوں کی مانند چہکنے لگیں۔ چوڑیاں کھنکنے لگیں، مہندی گھولی جانے لگی، گاؤں کے واحد حلوائی نے کڑھائی چڑھا کر جب جلیبیاں تلنی شروع کیں تو ان کی گرم میٹھی خوشبو ہر گھر کے اندر داخل ہو کر گویا عید مبارک کہنے لگی۔ امی جان دہکے ہوئے کوئلوں کی بھاری استری سے میرا عید کا نیا جوڑا استری کرنے لگیں اور وہ کتنی خوبصورت لگ رہی تھیں مجھے یاد ہے ذرا ذرا…اور بے بے جی نے لالٹین کے شیشے لشکا کر اسے روشن کیا اور اب اندھیرے میں اترتی صحن کی دیوار پر رکھ دیا…پون صدی پہلے کی عید مبارک!
 

شمشاد

لائبریرین
رسی

کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور اور معروف محقِّق ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے“

صدیقی صاحب مرحوم نے فوراً ٹوکا کہ اس کو رسی نہیں 'الگنی' بولتے ہیں۔پھر جالبی صاحب سے مخاطب ہو کر بولے رسی کو بلحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

مثلاً گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کے لئے چھوڑا جاتا ہے تو اس ڈر سے کہ کہیں بھاگ نہ جائے اس کی اگلی ٹانگوں میں رسی باندھ دیتے ہیں اسے 'دھنگنا' کہتے ہیں۔

گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ 'اگاڑی' 'پچھاڑی' کہلاتی ہیں۔

گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوار جو رسی پکڑتا ہے وہ 'لگام' کہلاتی ہے

اور گھوڑا یا گھوڑے تانگے اور بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسی 'راس' کہلاتی ہے۔

اس لئے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کے لئے جو رسید لکھی جاتی تھی اس پہ یہ الفاظ لکھے جاتے تھے کہ 'یک راس گھوڑے کی قیمت' اور ہاتھی کے لیے 'یک زنجیر ہاتھی' استعمال ہوتا تھا۔

گھوڑے کو جب سدھانے کے لئے سائیس پھراتا ہے اَسے 'کاوا پھرانا' بولتے ہیں۔ اُس رسی کو جو سائیس اس وقت پکڑتا ہے اسے 'باگ ڈور' کہتے ہیں۔

پھر مرحوم نے کہا کہ بیل کے ناک کے نتھنوں میں جو رسی ڈالتے ہیں اس کو 'ناتھ' بولتے ہیں (اسی لئے ایسے بیل کو 'نتھا ہوا بیل' بولتے ہیں۔ اس کے بعد ہی بیل کوہلو یا ہل وغیرہ میں جوتنے کے کام آتا ہے)۔

اونٹ کی ناک میں 'نکیل' ہوتی ہے اور کنویں سے بڑے ڈول کو یا رہٹ کو بیل کھینچتے ہیں اس میں جو موٹا رسا استعمال ہوتا ہے اسے 'برت' یا 'برتھ' بولتے ہیں۔

چارپائی جس رسی سے بُنی جاتی ہے اسے 'بان' اور چارپائی کی پائنتی میں استعمال ہونے والی رسی کو 'ادوائن' کہتے ہیں۔ پھانسی کے لئے استعمال ہونے والی رسی 'پھندہ' کہلاتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
"لو ا پنے جی میں ا تار لیا
لو ہم نے تم سے ادھار لیا
کسقد ر خوبصورت اور انمول بات کر گئیے انشاء جی پرودگار مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے آمین !!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
ادیبوں کی حیران کر دینے والی عادات
ادب کا اِنسان کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ ہر دور کا ادب اپنے عہد کا آ ئینہ ہوتا ہے۔ کامیاب ادیب اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنی تحریروں میں اپنے اردگرد پیش رُونما ہونے والے واقعات، معاشرتی رویوں اور بدلتے رجحانات کی تہذیبی اقدار اور طرزِ زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کی بھرپور عکاسی کرسکے۔ شاید اسی لیے ادیب کو اپنے عہد کا حقیقی عکاس سمجھا جاتا ہے۔ ادیب اور قاری کا رشتہ اسی صورت میں مستحکم ہو سکتا ہے جب پڑھنے والے کو اس کی تحریروں میں اپنی زندگی کی تصویر نظر آئے اور وہ ان تحریروں کو اپنے دل کی آواز سمجھے۔

وہ لوگ جو ادب سے لگائو رکھتے ہیں اور مطالعے سے جن کو خاص شغف ہے وہ یقینا مشہور و معروف ادیبوں کی کتابوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔ لیکن لکھتے وقت یہ بڑے ادیب جو عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں، ان سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ حالانکہ وہ نہایت دلچسپ ہیں۔ یہ ادیب لکھتے وقت نہایت منفرد اور دلچسپ انداز اختیار کرتے تھے اور عام قاری بھی یقینا جاننا چاہتا ہے کہ اُس کا پسندیدہ ادیب کیسے اتنی منفرد و شاہکار تحریریں تخلیق کر ڈالتا ہے۔
اس مضمون میں ہم ان چند مشہور ادیبوں کے متعلق جاننے کی کوشش کریںگے جو بڑے انوکھے انداز سے اپنے ادبی شہ پارے تخلیق کرتے تھے۔


اُردو کے مشہور اور منفرد افسانہ نگار سعادت حسن منٹو لکھتے وقت صوفے پر بیٹھ کر دونوں گھٹنے سکیڑ لیتے اور ایک چھوٹی سی پنسل سے لکھتے۔ افسانہ شروع کرنے سے پہلے وہ 786ضرور لکھتے تھے جو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔


اُردو کے مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار کرشن چندر تنہائی میں کمرا بند کرکے لکھتے تھے۔ ایک بار ان کی بیگم نے چپکے سے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ کرشن چندر اردگرد سے بے خبر اپنے لکھنے کے پیڈ پر جھکے ہوئے تھے۔ اس لمحے ان کا چہرہ بہت گمبھیر، بھیانک اور اجنبی سا لگا، تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں، ہونٹ بھینچے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھ میں قلم خنجر کی طرح نظر آرہاتھا۔کچھ دیر بعد کرشن چندر کمرے سے نکلے اور سیدھے کھانے کی میز کی طرف آئے۔اس وقت ان کا چہرہ پُرسکون،تازہ اور بہت معصوم تھا۔

فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو کی یہ عادت تھی کہ وہ لکھتے وقت سیدھے کھڑے ہوجاتے اور لکھنے کے لیے اپنے کندھے جتنی اونچی میز (ڈیسک)استعمال کرتے۔ ونسٹن چرچل بھی ابتدا میں لکھتے وقت اسی قسم کا انداز اپناتے تھے۔
انگریزی کے مشہور ادیب آسکروائلڈ تو سب سے بازی لے گئے۔ انہوں نے اپنا سالِ پیدائش1854ء کے بجائے 1856ء کر لیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے خود کو کم عمر ثابت کرسکیں۔

فرانسیسی ناول نویس الیگزینڈر ڈومالکھتے وقت لیموں کے علاوہ اور کسی پھل کا مشروب نہیں پیتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ الیگزینڈر ڈوما رسالوں کے لیے مضامین لکھتے وقت گلابی کاغذ، اپنی شاعری پیلے کاغذ اور ناول کے لیے نیلے رنگ کا کاغذ اِستعمال کرتے تھے۔
اُردو کے منفرد اور ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمن ہمیشہ کھڑے ہوکر لکھا کرتے تھے۔اِسی طرح انگریزی کی ادیب کیرولین ویج وڈ کہتی تھیں کہ لکھتے ہوئے بعض اوقات ریڈیو سُننے سے انہیں خیالات مجتمع کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
آئرلینڈ کے مشہور ناول نگار جیمز جوائس نے اپنی تمام تحریریں بستر پر اُلٹے لیٹ کر لکھیں۔ ان کا کہنا تھا: ’’میں اس طریقے سے لکھتے ہوئے آرام محسوس کرتا ہوں۔‘‘

بچوں کے عظیم محسن حکیم محمد سعید عام طور پر رَف لکھتے وقت اشتہارات کے پچھلے حصے کا اِستعمال کرتے تھے۔ یہ اشتہارات مختلف اخبارات میں ہوتے تھے یا عموماً ایڈورٹائزنگ کے لیے لوگ ان کا اِستعمال کرتے تھے۔ حکیم صاحب کے بقول۔’’ یہ قوم ابھی اتنی امیر نہیں ہوئی کہ بہترین کاغذ کا اِستعمال کرسکے۔‘‘ حالانکہ حکیم صاحب کے پاس کس چیز کی کمی نہ تھی لیکن اُن کی یہ بات اِس قوم کو سادگی اور کفایت شعاری کا درس دیتی ضرور نظر آتی ہے۔
کئی ادیب و شاعر لکھتے وقت سگریٹ کا اِستعمال کرتے تھے کیونکہ اُن کے مطابق سگریٹ اُن کے دماغ کو متحرک رکھتی ہے۔ حالانکہ اسی سگریٹ نوشی کی وجہ سے وہ مہلک بیماریوں میں مبتلا رہے۔

میں ایک بُک سٹال پر کھڑا تھا۔اسی دوران ایک شخص سے مختلف ادیبوں کے حوالے سے بات چیت شروع ہوگئی۔ جب اُسے پتا چلا کہ میں لکھتا ہوں، تو اُس نے سگریٹ سُلگائی اور مجھے آفر کی۔ جب میں نے کہا بھائی صاحب میں سگریٹ نہیں پیتا، تو کہنے لگا۔’’حیرت ہے، آپ لکھتے ہیں مگر سگریٹ نہیں پیتے۔‘‘
اسی طرح بعض ادیب لکھتے ہوئے چائے پینے کے عادی ہوتے ہیں۔ مشہور ادیب ایڈگر رائس اپنی دلچسپ اورچونکادینے والی کہانیاںچائے کی بے شمار پیالیاں پی کر لکھتے تھے۔ فرانسیسی ادیب بالزاک چائے کے بجائے کافی پیتے تھے۔ وہ آدھی رات سے لے کر اگلے دن کی دوپہر تک لکھا کرتے تھے۔ اس دوران وہ کافی کی لاتعداد پیالیا ں پی جاتے۔ ایک دفعہ انہوں نے مذاقاً کہا تھا۔ ’’میں کافی کی دس ہزار پیالیاں پی کر مروں گا۔‘‘
بعض ادیب ایسے بھی گزرے ہیں جو لکھنے کے دوران اپنے قریب سیب یا شہد رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیب یا شہد کی خوشبو سونگھنے سے ان کے خیالات کو تحریک ملتی تھی۔

ایک زمانہ تھا، جب ادیب اتنے نازک مزاج ہوتے تھے کہ بلی کی میائوں میائوں اور مُرغ کی ککڑوں کوں سے پریشان ہوجاتے اور ایک دم ان کے قلم رُک جاتے۔ آپ اسے ملکہ وکٹوریہ کا دور کہہ سکتے ہیں۔ تاہم آج کے بیشتر ادیب لکھتے وقت اردگرد ہلکا پھلکا شور گوارا کرلیتے ہیں، شاید وہ شور کے عادی ہوگئے ہیں۔
معروف ادیب جے بی پریسٹلے صرف کِسی تحریر کو درست کرنے یا دستخط کرنے کے لیے پنسل اِستعمال کرتے تھے۔ اس کے برعکس لارڈ ڈیوڈ سسلی نے اپنی طویل سوانح عمری پنسل سے لکھی تھی۔

اُردو کی مشہور افسانہ نگار، ڈراما نگار عصمت چغتائی اوندھی لیٹ کرلکھتی تھیں اور لکھتے ہوئے عموماً برف کی ڈلیاں چباتی جاتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈلیاں چپانے سے میرے ذہن میں نت نئے خیالات آتے ہیں۔
مشہور انگریز ادیب جارج برنارڈشا ابتدا میں اِس قدر شرمیلا تھا کہ وہ اپنے دوستوں کو ملنے سے بھی گھبراتا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ اپنے دور کا بہترین مقرر تھا۔

انگریزی کے ادیب ڈیکسٹر اپنی تحریر میں کامے، فل اسٹاپ اور ڈیش وغیرہ نہیں لگاتے تھے۔ وہ اپنی تحریر میں انگریزی لکھائی کے اس قاعدے کا بھی لحاظ نہیں رکھتے تھے کہ ہر نیا جملہ بڑے حروفِ تہجی سے شروع ہو۔ اس وجہ سے ان کی تحریر ایک طویل ترین جملہ لگتی تھی۔ ان کی کتاب کے ناشر نے ایک دفعہ پریشان ہوکر انہیں لکھا کہ اس میں نہ تو کاما ہے، نہ فل اسٹاپ، میں کیا کروں؟ ڈیکسٹر کو تائو آگیا۔ انہوں نے کچھ کاغذوں پر بے شمار کامے، ڈیش، فل اسٹاپ وغیرہ لکھے اور انہیں ناشر کو اِس نوٹ کے ساتھ روانہ کردیا کہ جہاں جہاں ضرورت ہو، وہ اس کاغذ سے کامے، ڈیش اور فل اسٹاپ وغیرہ لے لے۔
برطانیہ کے معروف ادیب کومپٹن میکنزی لکھتے وقت پسِ منظر میں کلاسیکی موسیقی کی دُھنیں سُنا کرتے تھے۔ میکنزی کا کہنا تھا کہ ایسی موسیقی اس کے خیالات کو توانائی بخشتی ہے۔

اب توکمپیوٹر کا دورآگیا ہے، لیکن اگلے وقتوں میں تحریر صاف رکھنے کے لیے عموماً ٹائپ رائٹر اِستعمال کیا جاتاتھا۔ مشہور ادیب چارلس ڈکنز اس کااِستعمال نہیں جانتے تھے، اس لیے ڈکنز کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریریں پڑھنا بہت دشوار ہوتا تھا۔ ان کی تحریریں خاردار تاروں کی طرح اُلجھی ہوئی نظر آتیں۔ یقینا ڈکنز کی تحریروں نے ناشرین کو بڑا پریشان کیا ہوگا۔ چارلس ڈکنز کے بارے میں یہ پڑھ کر آپ یقینا حیران ہوں گے کہ اگر اِس کے بستر کا رُخ شمال کے بجائے مشرق یا مغرب کی طرف کر دیا جاتا، تو اسے نیند ہی نہیں آتی تھی۔ وہ تمام رات جاگ کر گزار دیتا لیکن جب بستر کا رُخ شمال کی طرف کردیا جاتا، تو وہ گہری نیند سو جاتا تھا۔

سب سے عجیب عادات و حرکات اُن ادیبوں کی تھیں جو خاص قسم کے ماحول میں خاص قِسم کا لباس پہن کر لکھتے تھے۔ مثلاً مشہور ادیب ڈیوما لکھتے ہوئے ایک اونچی لمبی ٹوپی، پھول دار جاپانی چوغے کے ساتھ پہنتے۔ وہ کہتے تھے:

’’میرے آدھے خیالات اس ٹوپی کے اندر ہوتے ہیں اور آدھے اِس چوغے میں، جو میں روحانی مناظر لکھتے وقت پہنتا ہوں۔‘‘

مختصر افسانے کے بانی مشہور مصنف ایڈگرایلن پو کے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ لکھتے وقت اکثر اپنی پالتوبلی کو کندھے پر بٹھا لیتا تھا۔
( اُردو ڈائجسٹ فروری 2014 سے منقول
 
Top