زین
لائبریرین
مسلم طالب علم کو داڑھی رکھنے کی اجازت دینے سے سپریم کورٹ کا انکار
ہندوستان کے طالبانائزیشن کی اجازت نہیں دی جا سکتی ‘مدھیہ پردیش کے کانونٹ کے طالب علم کی پٹیشن پر جسٹس مارکنڈے کا ریمارک
نئی دہلی ۳۰ مارچ۔
ایک مسلم طالبعلم کی اس درخواست کو کہ اس کو کانونٹ اسکول میں داڑھی رکھ کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ سیکولرازم کو ایک حد سے زیادہ نہیں کھینچا جاسکتا اور ملک کے طالبا نائزیشن کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس مارکنڈے کا ٹچو نے جسٹس رویندرن کی سربراہی والی بنچ کی طرف سے بولتے ہوئے کہا کہ ہم ملک کا طالبا نائزیشن نہیں چاہتے آگر طالبہ آکر کہے گی کہ وہ برقع پہننا چاہتی ہے کہ ہم اس کی اجازت دے سکتے ہیں ۔ جسٹس کاٹچو نے کہا کہ وہ مکمل طور پر سیکولر ہیں لیکن مذہبی اعتقاد کو ضرورت سے زیادہ نہیں کھینچا جاسکتا ۔ جسٹس کاٹچو نے یہ بات نرملا کانونٹ ہائیر سکنڈری اسکول کے طالب علم محمد سلیم کی عرضداشت کو مسترد کرتے ہوئے کہی ۔مدھیہ پردیش کے اقلیتی ادارہ کے طالب علم نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ اسے اسکول کے اس ضابطے سے مستثنیٰ کردیا جائے جس کے تحت ہر طالب علم کے لئے کلین شو ہونا ضروری ہے۔ سلیم نے پہلے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جہاں اس کی عرضداشت مسترد کردی گئی تھی ۔ سلیم کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو اپنے مذہبی اعتقادات پر عمل درآمد کا اختیار ہے اور ایک آزاد ملک میں کسی کو اس سے روکا نہیں جاسکتا۔ سلیم کے وکیل ریٹائرڈ جسٹس بی اے خان نے کہا کہ داڑھی رکھنا ہر مسلمان کے لئے لازمی ہے اس پر جج نے وکیل کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا کی مسٹر خان آپ داڑھی نہیں رکھتے ۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کی اقلیتی اداروں کو آئین کی دفعہ ۳۰ کے تحت اپنے اداروں کو چلانے اور ان کے لئے قواعدوضوابط بنانے کا اختیار حاصل ہے اور کسی کو اس کی خلاف ورزی کا حق حاصل نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ کی بینچ کا کہنا تھا کہ اگر کہیں ضابطہ بنا ہوا ہے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں یونیفارم نہیں پہنوںگا یا کوئی طالبہ یہ کہے کہ میں برقع ہی پہنوں گی تو اسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔
انڈیا کی مسلم تنظیموںنے عدالت کے اس فیصلے پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔
سورسز: اردو ٹائمز ممبئی
روزنامہ اورنگ آباد
ہندوستان کے طالبانائزیشن کی اجازت نہیں دی جا سکتی ‘مدھیہ پردیش کے کانونٹ کے طالب علم کی پٹیشن پر جسٹس مارکنڈے کا ریمارک
نئی دہلی ۳۰ مارچ۔
ایک مسلم طالبعلم کی اس درخواست کو کہ اس کو کانونٹ اسکول میں داڑھی رکھ کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ سیکولرازم کو ایک حد سے زیادہ نہیں کھینچا جاسکتا اور ملک کے طالبا نائزیشن کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس مارکنڈے کا ٹچو نے جسٹس رویندرن کی سربراہی والی بنچ کی طرف سے بولتے ہوئے کہا کہ ہم ملک کا طالبا نائزیشن نہیں چاہتے آگر طالبہ آکر کہے گی کہ وہ برقع پہننا چاہتی ہے کہ ہم اس کی اجازت دے سکتے ہیں ۔ جسٹس کاٹچو نے کہا کہ وہ مکمل طور پر سیکولر ہیں لیکن مذہبی اعتقاد کو ضرورت سے زیادہ نہیں کھینچا جاسکتا ۔ جسٹس کاٹچو نے یہ بات نرملا کانونٹ ہائیر سکنڈری اسکول کے طالب علم محمد سلیم کی عرضداشت کو مسترد کرتے ہوئے کہی ۔مدھیہ پردیش کے اقلیتی ادارہ کے طالب علم نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ اسے اسکول کے اس ضابطے سے مستثنیٰ کردیا جائے جس کے تحت ہر طالب علم کے لئے کلین شو ہونا ضروری ہے۔ سلیم نے پہلے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جہاں اس کی عرضداشت مسترد کردی گئی تھی ۔ سلیم کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو اپنے مذہبی اعتقادات پر عمل درآمد کا اختیار ہے اور ایک آزاد ملک میں کسی کو اس سے روکا نہیں جاسکتا۔ سلیم کے وکیل ریٹائرڈ جسٹس بی اے خان نے کہا کہ داڑھی رکھنا ہر مسلمان کے لئے لازمی ہے اس پر جج نے وکیل کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا کی مسٹر خان آپ داڑھی نہیں رکھتے ۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کی اقلیتی اداروں کو آئین کی دفعہ ۳۰ کے تحت اپنے اداروں کو چلانے اور ان کے لئے قواعدوضوابط بنانے کا اختیار حاصل ہے اور کسی کو اس کی خلاف ورزی کا حق حاصل نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ کی بینچ کا کہنا تھا کہ اگر کہیں ضابطہ بنا ہوا ہے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں یونیفارم نہیں پہنوںگا یا کوئی طالبہ یہ کہے کہ میں برقع ہی پہنوں گی تو اسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔
انڈیا کی مسلم تنظیموںنے عدالت کے اس فیصلے پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔
سورسز: اردو ٹائمز ممبئی
روزنامہ اورنگ آباد