محمد وارث
لائبریرین
انڈیا کی پانچ ریاستوں میں پچھلے ماہ پولنگ ہوئی تھی جن کے رزلٹ آج آ رہے ہیں۔ جن پانچ ریاستوں میں الیکشن ہوئے ان میں اُتر پردیش (یو پی)، اُتر کھنڈ، پنجاب، گوا اور منی پور شامل ہیں۔
بی بی سی کی اس وقت کی رپورٹ کے مطابق، یو پی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو واضح سبقت حاصل ہے۔ بی جے پی اس وقت مرکز میں بھی حکمران ہے، جب کہ پنجاب میں کانگریس کو برتری حاصل ہے۔
یہ انتخابات اور موصولہ نتائج کئی حوالوں سے دلچسپ ہیں۔ خاص طور پر یو پی اور پنجاب کے۔
اتر پردیش
شمالی ہند میں واقع انڈیا کی یہ ریاست خاص اہمیت کی حامل ہے۔ یہ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست ہے اور اس وقت اس کی آبادی 20 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ اس ریاست کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس کی لگ بھگ 20 فیصد (چار کروڑ) آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ انڈیا کے کئی ایک مشہور اور متنازع اور تاریخی اہمیت کے شہر اور مقامات اسی ریاست میں ہیں، جیسے لکھنؤ، کانپور، الہ آباد، فیض آباد، ایودھیا، بنارس، مراد آباد، غازی آباد، بریلی، جھانسی، اعظم گڑھ، دیوبند، علی گڑھ وغیرہ۔ تقسیم سے پہلے کی سیاست میں بھی یو پی کا ایک اہم کردار رہا ہے لیکن فی الحال اس کو چھوڑتے ہیں۔
اس ریاست کی سیاست حد سے زیادہ الجھی ہوئی ہے، ایک طرف یہاں اونچی جاتی (ذات) کے ہندؤں کی بڑی تعداد بستی ہے تو دوسری طرف پچھڑی جاتوں (نچلی ذاتوں) کے بھی کثیر ہندو موجود ہیں اور ہندوں کے کچھ مقدس ترین مقامات بھی یہیں ہیں اور پھر مسلمان کی ایک اچھی خاصی بڑی تعداد۔ اس وجہ سے یہ ریاست دائیں بازو (ہندتوا) اور بائیں بازو (سیکولر) کے سیاستدانوں کی آماجگاہ ہے، دائیں بازو والے جہاں ہندتوا کی بات کرتے ہیں وہیں بائیں بازو والے سیکولر ازم اور مسلمان ووٹ بنک کو ذہن میں رکھتے ہیں۔
تاریخی طور پر آزادی کے بعد سے1989ء تک یہاں کانگریس کا راج رہا۔ بیچ میں وقفے وقفے سے کچھ دوسری پارٹیوں کے وزیرِ اعلیٰ کچھ مہینوں کے لے آتے رہے جیسے 1967ٰء میں کرانتی دَل کے چوہدری چرن سنگھ وزیرِ اعلیٰ بنے تھے (جو بعد میں انڈیا کے وزیرِ اعظم بھی بنے)۔ اور پھر 1977ء میں دو سال کے لیے جنتا پارٹی کی یہاں حکومت رہی۔
1989ء میں جب مرکز میں راجیو گاندھی کی کانگریس کو شکست سامنا کرنا پڑا تھا اور مرکز میں وی پی سنگھ کی جنتا دَل کی حکومت بنی تھی تو اسی سال ریاست میں جنتا دل کی حکومت ملائم سنگھ یادو کی سربراہی میں بنی۔
یہ وہی وقت ہے جب بھاج پا (بی جے پی) انڈین سیاست میں اپنی گرفت مضبوط کر رہی تھی۔ 1990ء میں جب ایل کے ایڈوانی نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے اپنی رام رتھ یاترا نکالی تھی تو ملائم سنگھ یادو ہی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے اور انہوں نے واشگاف کہا تھا کہ وہ آڈوانی کو یو پی میں گھسنے نہیں دیں گے اور ان کو یو پی کی سرحد پر گرفتار کر لیا جائے گا، گو اس سے پہلے ہی آڈوانی کو بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادو نے بہار میں گرفتار کر لیا تھا۔ اس تحریک کے دوران کٹر ہندو کی جانب سے ملائم سنگھ یادو کو "مولانا ملائم سنگھ یادو" کا طنزیہ خطاب دیا گیا تھا۔
1991ء کے مرکزی (لوک سبھا) اور یو پی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی ایک مضبوط طاقت کے طور پر ابھری۔ یو پی میں بی جے پی کے کلیان سنگھ کی سربراہی میں حکومت بنی اور اسی عہد میں بابری مسجد کے انہدام کا سانحہ پیش آیا اور اسی دن مرکز نے ان کی حکومت برخاست کر کے صدر راج نافذ کر دیا۔
اس کے بعد سے یو پی کی سیاست تین پارٹیوں کے ارد گرد گھوم رہی ہے، بی جے پی، ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کا جیسے اس انتہائی اہم ریاست کی سیاست میں صفایا ہی ہو چکا ہے۔ حالانکہ حالیہ الیکشن میں کانگریس نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے سماج وادی پارٹی سے اتحاد بنا کر حصہ لیا ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ہی ہار گئے ہیں۔ 1991ء کے بعد بی چے پی نے 1997ء سے 2002ء تک اس ریاست پر حکومت کی جب کہ 1998ء سے 2004ء تک مرکز میں اسی پارٹی کے واجپائی کی حکومت تھی۔
اس وقت یہاں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے، اور مرکز میں بی جے پی کی۔ تازہ ترین نتائج کے مطابق یہاں پھر بی جے پی کی حکومت بننے جا رہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت ہمیشہ ہی تنازعات میں گھری رہتی ہے اس لیے ایک بار پھر سے اس ریاست میں تنازعات کی سیاست دکھائی دے رہی ہے۔
پنجاب
پنجاب کو بھی انڈیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے کہ اس کی طویل سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے۔ 1966ء میں انڈین سرکار نے پنجاب کو تین حصوں، پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش میں تقسیم کر دیا تھا جس کے بعد باقی ماندہ پنجاب میں سکھوں کی اکثریت ہو گئی تھی۔
پنجاب کی سیاست میں کانگریس اور اکالی دَل دو ہی اہم جماعتیں رہی ہیں۔ آزادی کے بعد سے 1967ء تک یہاں کانگریس کی حکومت رہی اور اس کے بعد اکالی دل اور کانگریس وقفوں وقفوں سے حکومتیں کرتی رہیں جب کہ اس دوران کافی عرصے تک یہاں صدر راج بھی نافذ رہا۔
اندرا گاندھی، پنجاب کی سیاست کو خاص اہمیت دیتی تھیں اور 1977ء کے الیکشن میں شکست فاش کے بعد انہوں نے پنجاب میں کانگریس کی تنظیم نو اور اکالی دل کو پچھاڑنے کا ٹاسک اپنے چھوٹے صاحبزادے سنجے گاندھی کو دیا تھا جنہوں نے پنجاب کے کانگریسی وزیرِ اعلیٰ رہ چکے گیانی ذیل سنگھ کے ساتھ مل کر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کا نہ صرف انتخاب کیا بلکہ ان کو اکالی دل کے مقابلے میں لے آئے لیکن بعد میں یہ حرکت ان کو مہنگی پڑی اور بھنڈرنوالہ کے خلاف سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹمپل میں آپریشن بلیو سٹار کرنا پڑا اور اسی کے نتیجے میں اندرا گاندھی کا قتل ہوا۔
طویل صدر راج کے بعد 1992ء میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں کانگریس کے بیانت سنگھ وزیر اعلیٰ بنے لیکن 1995ء وہ بھی تشدد کی بھینٹ چڑھ گئے۔
پنجاب کے موجودرہ وزیر اعلیٰ اکالی دل کے پرکاش سنگھ بادل 2012ء میں پانچویں بار وزیرِ اعلیٰ بنے تھے، پہلی بار 1970ء میں بنے تھے اور اب 2007ء سے مسلسل وزیر اعلیٰ ہیں۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اکالی دَل اور بی جے پی دونوں کا بہت پرانا اتحاد ہے، اس وقت سے جب بی جے پی کا نام جَن سنگھ ہوا کرتا تھا۔ یہ نہ صرف مرکز میں اتحادی رہے ہیں بلکہ پنجاب میں بھی لیکن موجودہ انتخابات میں اب تک کے نتائج کے مطابق کانگریس کو اکیلے ہی حکومت بنانے کی اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔
جب کہ عام آدمی پارٹی پنجاب کے انتخابات میں شد و مد سے حصہ لینے اور حکومت بنانے کی تمام تر پیشن گوئیوں کے باوجود خاص کارکردگی نہیں دکھا سکی۔
یہ ایک انتہائی اہم نتیجہ ہے کیونکہ مرکز میں بی جے پی کے مودی کی حکومت ہے اور کانگریس کا پچھلے مرکزی عام انتخابات 2014ء میں صفایا ہو گیا تھا اور لوک سبھا میں ان کے پاس حکومت کو "کڑی چنوتی" دینے کے لیے بھی تعداد نہیں تھی۔ اب آئندہ دنوں میں پنجاب میں کانگریس کی حکومت بننے کے بعد بھارتی سیاست میں گرمی بڑھ جائے گی۔
بی بی سی کی اس وقت کی رپورٹ کے مطابق، یو پی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو واضح سبقت حاصل ہے۔ بی جے پی اس وقت مرکز میں بھی حکمران ہے، جب کہ پنجاب میں کانگریس کو برتری حاصل ہے۔
یہ انتخابات اور موصولہ نتائج کئی حوالوں سے دلچسپ ہیں۔ خاص طور پر یو پی اور پنجاب کے۔
اتر پردیش
شمالی ہند میں واقع انڈیا کی یہ ریاست خاص اہمیت کی حامل ہے۔ یہ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست ہے اور اس وقت اس کی آبادی 20 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ اس ریاست کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس کی لگ بھگ 20 فیصد (چار کروڑ) آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ انڈیا کے کئی ایک مشہور اور متنازع اور تاریخی اہمیت کے شہر اور مقامات اسی ریاست میں ہیں، جیسے لکھنؤ، کانپور، الہ آباد، فیض آباد، ایودھیا، بنارس، مراد آباد، غازی آباد، بریلی، جھانسی، اعظم گڑھ، دیوبند، علی گڑھ وغیرہ۔ تقسیم سے پہلے کی سیاست میں بھی یو پی کا ایک اہم کردار رہا ہے لیکن فی الحال اس کو چھوڑتے ہیں۔
اس ریاست کی سیاست حد سے زیادہ الجھی ہوئی ہے، ایک طرف یہاں اونچی جاتی (ذات) کے ہندؤں کی بڑی تعداد بستی ہے تو دوسری طرف پچھڑی جاتوں (نچلی ذاتوں) کے بھی کثیر ہندو موجود ہیں اور ہندوں کے کچھ مقدس ترین مقامات بھی یہیں ہیں اور پھر مسلمان کی ایک اچھی خاصی بڑی تعداد۔ اس وجہ سے یہ ریاست دائیں بازو (ہندتوا) اور بائیں بازو (سیکولر) کے سیاستدانوں کی آماجگاہ ہے، دائیں بازو والے جہاں ہندتوا کی بات کرتے ہیں وہیں بائیں بازو والے سیکولر ازم اور مسلمان ووٹ بنک کو ذہن میں رکھتے ہیں۔
تاریخی طور پر آزادی کے بعد سے1989ء تک یہاں کانگریس کا راج رہا۔ بیچ میں وقفے وقفے سے کچھ دوسری پارٹیوں کے وزیرِ اعلیٰ کچھ مہینوں کے لے آتے رہے جیسے 1967ٰء میں کرانتی دَل کے چوہدری چرن سنگھ وزیرِ اعلیٰ بنے تھے (جو بعد میں انڈیا کے وزیرِ اعظم بھی بنے)۔ اور پھر 1977ء میں دو سال کے لیے جنتا پارٹی کی یہاں حکومت رہی۔
1989ء میں جب مرکز میں راجیو گاندھی کی کانگریس کو شکست سامنا کرنا پڑا تھا اور مرکز میں وی پی سنگھ کی جنتا دَل کی حکومت بنی تھی تو اسی سال ریاست میں جنتا دل کی حکومت ملائم سنگھ یادو کی سربراہی میں بنی۔
یہ وہی وقت ہے جب بھاج پا (بی جے پی) انڈین سیاست میں اپنی گرفت مضبوط کر رہی تھی۔ 1990ء میں جب ایل کے ایڈوانی نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے اپنی رام رتھ یاترا نکالی تھی تو ملائم سنگھ یادو ہی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے اور انہوں نے واشگاف کہا تھا کہ وہ آڈوانی کو یو پی میں گھسنے نہیں دیں گے اور ان کو یو پی کی سرحد پر گرفتار کر لیا جائے گا، گو اس سے پہلے ہی آڈوانی کو بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادو نے بہار میں گرفتار کر لیا تھا۔ اس تحریک کے دوران کٹر ہندو کی جانب سے ملائم سنگھ یادو کو "مولانا ملائم سنگھ یادو" کا طنزیہ خطاب دیا گیا تھا۔
1991ء کے مرکزی (لوک سبھا) اور یو پی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی ایک مضبوط طاقت کے طور پر ابھری۔ یو پی میں بی جے پی کے کلیان سنگھ کی سربراہی میں حکومت بنی اور اسی عہد میں بابری مسجد کے انہدام کا سانحہ پیش آیا اور اسی دن مرکز نے ان کی حکومت برخاست کر کے صدر راج نافذ کر دیا۔
اس کے بعد سے یو پی کی سیاست تین پارٹیوں کے ارد گرد گھوم رہی ہے، بی جے پی، ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کا جیسے اس انتہائی اہم ریاست کی سیاست میں صفایا ہی ہو چکا ہے۔ حالانکہ حالیہ الیکشن میں کانگریس نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے سماج وادی پارٹی سے اتحاد بنا کر حصہ لیا ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ہی ہار گئے ہیں۔ 1991ء کے بعد بی چے پی نے 1997ء سے 2002ء تک اس ریاست پر حکومت کی جب کہ 1998ء سے 2004ء تک مرکز میں اسی پارٹی کے واجپائی کی حکومت تھی۔
اس وقت یہاں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے، اور مرکز میں بی جے پی کی۔ تازہ ترین نتائج کے مطابق یہاں پھر بی جے پی کی حکومت بننے جا رہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت ہمیشہ ہی تنازعات میں گھری رہتی ہے اس لیے ایک بار پھر سے اس ریاست میں تنازعات کی سیاست دکھائی دے رہی ہے۔
پنجاب
پنجاب کو بھی انڈیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے کہ اس کی طویل سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے۔ 1966ء میں انڈین سرکار نے پنجاب کو تین حصوں، پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش میں تقسیم کر دیا تھا جس کے بعد باقی ماندہ پنجاب میں سکھوں کی اکثریت ہو گئی تھی۔
پنجاب کی سیاست میں کانگریس اور اکالی دَل دو ہی اہم جماعتیں رہی ہیں۔ آزادی کے بعد سے 1967ء تک یہاں کانگریس کی حکومت رہی اور اس کے بعد اکالی دل اور کانگریس وقفوں وقفوں سے حکومتیں کرتی رہیں جب کہ اس دوران کافی عرصے تک یہاں صدر راج بھی نافذ رہا۔
اندرا گاندھی، پنجاب کی سیاست کو خاص اہمیت دیتی تھیں اور 1977ء کے الیکشن میں شکست فاش کے بعد انہوں نے پنجاب میں کانگریس کی تنظیم نو اور اکالی دل کو پچھاڑنے کا ٹاسک اپنے چھوٹے صاحبزادے سنجے گاندھی کو دیا تھا جنہوں نے پنجاب کے کانگریسی وزیرِ اعلیٰ رہ چکے گیانی ذیل سنگھ کے ساتھ مل کر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کا نہ صرف انتخاب کیا بلکہ ان کو اکالی دل کے مقابلے میں لے آئے لیکن بعد میں یہ حرکت ان کو مہنگی پڑی اور بھنڈرنوالہ کے خلاف سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹمپل میں آپریشن بلیو سٹار کرنا پڑا اور اسی کے نتیجے میں اندرا گاندھی کا قتل ہوا۔
طویل صدر راج کے بعد 1992ء میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں کانگریس کے بیانت سنگھ وزیر اعلیٰ بنے لیکن 1995ء وہ بھی تشدد کی بھینٹ چڑھ گئے۔
پنجاب کے موجودرہ وزیر اعلیٰ اکالی دل کے پرکاش سنگھ بادل 2012ء میں پانچویں بار وزیرِ اعلیٰ بنے تھے، پہلی بار 1970ء میں بنے تھے اور اب 2007ء سے مسلسل وزیر اعلیٰ ہیں۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اکالی دَل اور بی جے پی دونوں کا بہت پرانا اتحاد ہے، اس وقت سے جب بی جے پی کا نام جَن سنگھ ہوا کرتا تھا۔ یہ نہ صرف مرکز میں اتحادی رہے ہیں بلکہ پنجاب میں بھی لیکن موجودہ انتخابات میں اب تک کے نتائج کے مطابق کانگریس کو اکیلے ہی حکومت بنانے کی اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔
جب کہ عام آدمی پارٹی پنجاب کے انتخابات میں شد و مد سے حصہ لینے اور حکومت بنانے کی تمام تر پیشن گوئیوں کے باوجود خاص کارکردگی نہیں دکھا سکی۔
یہ ایک انتہائی اہم نتیجہ ہے کیونکہ مرکز میں بی جے پی کے مودی کی حکومت ہے اور کانگریس کا پچھلے مرکزی عام انتخابات 2014ء میں صفایا ہو گیا تھا اور لوک سبھا میں ان کے پاس حکومت کو "کڑی چنوتی" دینے کے لیے بھی تعداد نہیں تھی۔ اب آئندہ دنوں میں پنجاب میں کانگریس کی حکومت بننے کے بعد بھارتی سیاست میں گرمی بڑھ جائے گی۔
آخری تدوین: