آپ نے سنا ہو ہو گا کہ داعش نے عراق میں یزیدی خواتین اور لڑکیوں کو پکڑ کر بطور کنیز باندیاں انکی خرید و فروخت شروع کر دی ہے۔ تو جو داعش میں امیر لوگ ہیں، وہ ان یزیدی خواتین اور لڑکیوں کو خرید کر ان سے مباشرت کرتے ہیں، اور جب انکا دل بھر جاتا ہے تو انہیں پھر اگلے داعش کے مالک کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں تاکہ وہ بھی ان سے مباشرت کر سکے۔
افسوس کہ داعش یہ کام اپنی طرف سے نہیں کر رہی ہے، بلکہ انکے پاس یہ تمام دلائل مذہب سے موجود ہیں کہ یہ شریعت کا حصہ ہے اور کئی شریعت کے اصولوں کو منسوخ نہیں کر سکتا۔
مذہب کا یہ پہلو خاصا تکلیف دہ ہے۔
اوپر
x boy صاحب نے لکھا ہے کہ اس موضوع پر علیحدہ لڑی قائم کی جائے۔ چنانچہ میں مختصراً یہاں کچھ نکات لکھ رہی ہوں اور انکے تمام ثبوت اگر آپ چاہیں گے تو نئی لڑی میں پیش کر دوں گی۔
اگر کسی مسلمان بھائی یا بہن کا دل دکھے تو معذرت ۔۔۔ مگر مذہب اسلام کے مطابق:
۔ غلام و کنیز کی خرید و فروخت جائز ہے۔ کنیز باندیوں سے مباشرت جائز ہے (جسے آجکی اصطلاح میں ہم سیکس بالجبر کہہ سکتے ہیں)۔ مالک اپنا دل بھر جانے پر اس کنیز باندی کو اپنے بھائی کے حوالے کر سکتا ہے کہ وہ مباشرت کرے۔ اور جب اس بھائی (بھائیوں) کا بھی دل بھر جائے تو آگے نئے آقا کو وہ سیکس بالجبر کے لیے فروخت کی جا سکتی ہے۔
۔ کنیز باندی کو اسلامی ریاست میں اجازت نہیں ہوتی تھی کہ وہ سر پر حجاب لے۔ بلکہ اگر کوئی کنیز باندی حجاب لیتی تھی تو زبردستی اسکا حجاب اتروا دیا جاتا تھا اور اسے کہا جاتا تھا کہ وہ حجاب لے کر آزاد مسلم عورتوں کی برابری نہ کرے۔
۔ کنیز عورت کا ستر آزاد مرد کی طرح تھا۔۔۔ یعنی فقط ناف سے لے کر گھٹنوں تک۔
۔۔۔۔ ہزاروں کنیز باندیاں معاشرے میں بغیر حجاب کے گھومتی تھیں،۔۔۔ اور انکے سینے بھی کھلے ہوتے تھے۔ ۔۔۔ پلیز shock میں نہ آئیے گا اور صبر سے سنتے رہیے۔
۔ یہ کنیز عورتیں بھیڑ بکریوں کی طرح بازاروں میں فروخت ہوتی تھیں۔ جس طرح بھیڑ بکریوں کو خریدتے وقت خریدار انکو ٹٹول ٹٹول کر دیکھتے ہیں، اسی طرح بازاروں میں کنیز عورتوں کے خریدار پہلے ٹٹول ٹٹول کر انکے جسم، حتیٰ کے نازک اعضا کا بھی ٹٹول کر دیکھتے تھے، اور پھر خریدتے تھے۔
۔ اگر مالک غلام کا خون کر دیتا تھا تو مالک پر کوئی حد نہیں تھی۔
۔ غلاموں اور کنیزوں کی گواہی قابل قبول نہیں تھی، جو کہ حیرت انگیز بات ہے اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا سارے غلام اور باندیاں کذاب تھے جو انکی گواہی کو ٹھکرا دیا گیا؟ تو پھر تقویٰ اور سب کے جان و مال برابر ہونے کے دعوے کہاں گے؟