اوزانِ رباعی کے دو قاعدے

رباعی اہلِ فارس کی ایجاد ہے جس کے لیے انھوں نے نہایت اہتمام سے چار نئے زحافات بھی ابداع کیے۔ جب، ہتم، زلل اور بتر۔ اس کے مستعمل ارکان دس ہیں اور ان کی ترتیب کے لیے "سبب پئے سبب است و وتد پئے وتد است" کا مصرع اصول کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ قاعدہ یگانہؔ چنگیزی نے اردو میں غالباً پہلی مرتبہ اپنی کتاب "چراغِ سخن" میں بیان کیا اور ماہرینِ فن کے ہاں اب اسے قبولِ عام حاصل ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے جناب محمد وارث کا مضمون رباعی کے اوزان پر ایک بحث دیکھا جا سکتا ہے۔
گو کہ بادی النظر میں رباعی کے چوبیس اوزان مستحضر کرنے کے لیے یہ قاعدہ نہایت سہل معلوم ہوتا ہے اور اس سے انکار نہیں کہ اس سے پیشتر ان اوزان کو یاد رکھنا نہایت دشوار تھا مگر واسطہ پڑنے پر معلوم ہوتا ہے کہ بات اب بھی اتنی سادہ نہیں۔ یگانہؔ کے اصول کے مطابق جو شخص اوزانِ رباعی کو سمجھنا چاہے اسے مندرجہ ذیل تمام باتیں ذہن میں رکھنا پڑتی ہیں:
  1. دس مستعمل ارکان یہ ہیں: مفاعیلن، مفاعلن، مفاعیل، فاعلن، مفعولن، مفعول، فعول، فاع، فعل، فع۔
  2. ہر مصرع میں چار ارکان ہونے ضروری ہیں۔
  3. سبب پر ختم ہونے والے رکن کے بعد سبب سے شروع ہونے والا رکن آنا لازم ہے۔
  4. وتد پر ختم ہونے والے رکن کے بعد وتد سے شروع ہونے والا رکن آنا لازم ہے۔
  5. وتدِ مقرون اور وتدِ مفروق دونوں وتد ہی گنے جائیں گے۔ یعنی کوئی رکن وتدِ مفروق پر ختم ہو تو بھی اگلا رکن وتدِ مجموع سے شروع ہو گا۔
  6. صدر و ابتدا میں مفعول یا مفعولن کے سوا کوئی رکن نہیں آ سکتا۔
  7. عروض و ضرب میں فع، فاع، فعل یا فعول کے سوا کوئی رکن نہیں آ سکتا۔
  8. فع، فاع، فعل اور فعول حشو ہائے اول و دوم میں نہیں آ سکتے۔
  9. مفاعلن حشوِ دوم میں نہیں آ سکتا۔
  10. فاعلن حشوِ دوم میں نہیں آ سکتا۔
پروفیسر عندلیب شادانی نے "اوزانِ رباعی کے متعلق ایک نئی دریافت" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جسے سید عابد علی عابدؔ نے اپنی کتاب "اصولِ انتقادِ ادبیات" میں نقل کیا ہے۔ اس مضمون میں شادانی صاحب نے مشرقی پاکستان کے ایک شاعر، ماہرِ عروض اور ریاضی دان جناب امیر الاسلام شرقی کے اوزانِ رباعی کے لیے وضع کردہ ایک نئے فارمولے کا ذکر کیا ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ اس فارمولے کو بیان کرنے کے علاوہ اس کا تقابل بھی یگانہؔ کے اصول سے کر سکوں۔
شرقی صاحب کی سب سے بڑی بدعت یا اجتہاد یہ ہے کہ رباعی کے اوزان کو انھوں نے ہزج کی بجائے رجز سے استخراج کیا ہے۔ رجز بحورِ مفردہ میں سے ہے اور اس کا رکنِ اصلی مستفعلن متصل ہے جس کی مصرع میں ہزج مثمن ہی کی طرح چار بار تکرار ہوتی ہے۔ شرقی صاحب نے اس پر مندرجہ ذیل زحافات کے عمل سے رباعی کے لیے اس کے چھ فروع حاصل کیے ہیں:
  1. حذذ اور حذف سے فع (احذ محذوف)
  2. قطع سے مفعولن (مقطوع)
  3. طے سے مفتعلن (مطوی)
  4. خبن سے مفاعلن (مخبون)
  5. عرج سے مفعولان (اعرج)
  6. طے اور اذالہ سے مفتعلان (مطوی مذال)
اب اوزانِ رباعی کے اس فارمولے کے اصول ملاحظہ فرمائیے:
  1. چار ارکان یاد رکھنے کے لائق ہیں: فع، مفعولن، مفتعلن اور مفاعلن۔
  2. ہر مصرع میں چار ارکان ہونے ضروری ہیں۔
  3. فع ہمیشہ اور صرف صدر و ابتدا میں آئے گا۔
  4. مفاعلن صرف حشوِ دوم میں آ سکتا ہے۔
  5. عروض و ضرب میں مفعولن کی جگہ مفعولان اور مفتعلن کی جگہ مفتعلان بھی آ سکتا ہے۔
اب ہم اس قاعدے کی مثالیں دیکھتے ہیں اور ان کا رباعی کے کلاسیکی اوزان سے موازنہ کرتے ہیں۔ دائیں ہاتھ پر شرقی صاحب والے اوزان جبکہ بائیں ہاتھ پر کلاسیکی اوزان رکھے گئے ہیں:
فع مفعولن مفعولن مفعولن =مفعولن مفعولن مفعولن فع
فع مفتعلن مفتعلن مفتعلن = مفعول مفاعیل مفاعیل فعل
فع مفتعلن مفاعلن مفعولن = مفعول مفاعلن مفاعیلن فع
فع مفعولن مفتعلن مفتعلن = مفعولن مفعول مفاعیل فعل
فع مفتعلن مفاعلن مفتعلان = مفعول مفاعلن مفاعیل فعول
فع مفعولن مفاعلن مفعولان = مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع
ان مثالوں سے واضح ہو گیا ہو گا کہ رباعی کے چوبیس کے چوبیس مروجہ اوزان شرقی صاحب کے فارمولے سے بھی نکل سکتے ہیں۔ اور نہ صرف یہ استخراج ممکن ہے بلکہ کلاسیکی اوزانِ رباعی کی بہ نسبت کہیں زیادہ آسان ہے۔
ایک اور روایت شکنی جو شرقی صاحب نے کی ہے وہ زحافات کا استعمال ان کے محل سے ہٹ کر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر کلاسیکی عروض میں حذذ اور حذف عروض و ضرب سے مخصوص ہیں جبکہ موصوف نے ان کا عمل صدر و ابتدا میں کیا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ رباعی کے کلاسیکی اوزان میں بھی یہ کوتاہی اسی طرح موجود رہی ہے اور اخرب و اخرم وغیرہ ارکان جن کا مقام دراصل صدر و ا بتدا ہیں، حشو میں بھی روا رکھے گئے ہیں۔
اب ہمارے سامنے صرف ایک سوال رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ رباعی کے اوزان کو روایتی طرز پر ہزج سے نکالنا ہی صحیح ہے یا کسی اور بحر کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال میں لانا جائز ہے۔ اس سوال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ کیا رباعی کا ہزج سے کوئی ایسا اٹوٹ رشتہ ہے جو رجز سے نہیں ہو سکتا؟
ہماری ذاتی رائے میں جب اوزان ایک سے ہیں، آہنگ وہی ہے، باقی شرائط جو رباعی کو رباعی بنانے میں ممد ہیں ویسی کی ویسی ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اوزانِ رباعی کا استخراج رجز سے کر لیا جائے۔ بصورتِ دیگر ہم پر یہ ثابت کرنے کا بار آتا ہے کہ ہزج کے نام اور نسبت سے محروم ہو کر رباعی رباعی نہیں رہتی جو کم از کم مجھ ہیچ مدان کے بس سے باہر ہے۔

اطلاع نامہ:
محمد وارث ، مزمل شیخ بسمل ، ظہیراحمدظہیر ، الف عین ، سید عاطف علی ، محمد ریحان قریشی اور فاتح صاحبان
 

محمد وارث

لائبریرین
عمدہ طریقہ ہے یہ بھی راحیل صاحب۔ یہ سارے طریقے نظری ہیں اور مشکل ہیں۔ عملی طور پر بہت آسان ہے۔ میرا عملی طریقہ ہاتھوں کی پوروں پر گننا ہے، جیسے نمازی حضرات نماز کے بعد اپنی اپنی تسبیح گنتے ہیں :)
 
میں اکثر کہتا ہوں کہ عروض جب اردو میں آیا ہے تو اسے سمجھنے والے لوگ بہت ہی کم تھے۔ اور جو سمجھتے تھے وہ بغیر کچھ کہے اور بغیر کچھ لکھے گزر گئے۔ اور اب تو یہ حال ہے کہ میری ناہنجار و گمراہ طبیعت مجھے قدر بلگرامیؔ کے علاوہ کسی کو عروضی ماننے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔
بہر حال۔ رباعی کی کہانی بھی سن لیجیے۔
رباعی کے دس، بارہ، بیس یا چوبیس نہیں۔ صرف دو اوزان ہیں۔ اور باقی سارے اوزان انہی کی فرع ہیں۔ اور یہ اصل اوزان یوں ہیں۔
1۔ مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعل
2۔ مفعول مفاعلن مفاعیلُ فعل

بس ان دو اوزان کو یاد رکھ لیں تو گویا آپ نے چوبیس اوزان یاد کرلیے۔ اب ان میں جہاں بھی تین حرکات مسلسل ہیں ان میں سے درمیان والی کو ساکن (تسکینِ اوسط) کردیں۔ آخری رکن فعل کو ایک ساکن بڑھا کر فعول بھی کر سکتے ہیں جو کہ عروض میں معمول ہے۔ پہلے وزن سے سولہ مزید اوزان اور دوسرے سے آٹھ اوزان پورے چوبیس اوزان نکل آئیں گے انہی دو سے۔
مزید اوزان کی ترکیب اور زحافات کی تفصیل یہاں ملاحظہ فرما لیں۔
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
بصورتِ دیگر ہم پر یہ ثابت کرنے کا بار آتا ہے کہ ہزج کے نام اور نسبت سے محروم ہو کر رباعی رباعی نہیں رہتی جو کم از کم مجھ ہیچ مدان کے بس سے باہر ہے۔
یہ بار تو وہ دے گا جسے مضمون سمجھ میں آئے گا۔:p
تفنن برطرف، شرقی صاحب کا اجتہاد سمجھنے اور یاد رکھنے کے لیے واقعی آسان ہے۔ گو کہ عملی طور پر ذہن میں ہی جمناسٹک کرنی پڑتی ہے۔
 
تمام اصولی باتیں اپنی جگہ درست اور اہم ، تاہم محض وزن پر گرفت حاصل کرنے کے لیے ایک بے تکا سا طریقہ یہ بھی ہے:

رباعی کا وزن پانچ "فعلن" پر مشتمل ہے :

(فعْلن) + (فعْلن یا فعِلن) + (فعْلن یا فاعِلُ یا فعول) + (فعْلن) + (فعْلن یا فعِلن یا فعْلان یا فعِلان)

یعنی دوسرے فعلن میں دو ، تیسرے میں تین اور پانچویں میں چار احتمال ہیں۔

1 × 2 × 3 × 1 × 4 = 24

اس کے آسان ترین دو وزن ہیں ایک کو ارکان سے اور دوسرے کو عربی دعا سے یاد رکھا جاسکتا ہے:

(1) فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن

(2) لا حول ولا قوۃ الا باللہ
 
آخری تدوین:
ریاضی کا تو کوئی ذکر ہی نہیں. :)

یگانہ کے اصول سے شرقی صاحب کا قاعدہ بظاہر تو آسان ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ فقط چار زحافات یاد کرنے کی ضرورت ہے. بحور کو نام دینے میں بهی آسانی ہو گی.
 
یہ اشارے قطعاً ہماری سمجھ میں نہیں آئے۔ خصوصاً تابش بھائی والا۔ اس میں جو جہاز دکھایا گیا ہے اسے دیکھ کر ذہن میں نہایت عجیب عجیب باتیں آتی ہیں۔ :eek::eek::eek:
بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے!​
بیک وقت پُرمزاح اور متفق :)
وجہِ اتفاق پر مطلع کیا جاوے تو عین نوازش ہو گی!
اب کے ہماری باری ہے کوئی اور ہی کہانی بُننے کی! :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
 
یہ اشارے قطعاً ہماری سمجھ میں نہیں آئے۔ خصوصاً تابش بھائی والا۔ اس میں جو جہاز دکھایا گیا ہے اسے دیکھ کر ذہن میں نہایت عجیب عجیب باتیں آتی ہیں۔ :eek::eek::eek:
بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے!​

وجہِ اتفاق پر مطلع کیا جاوے تو عین نوازش ہو گی!
اب کے ہماری باری ہے کوئی اور ہی کہانی بُننے کی! :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
دراصل آپ کے مراسلے کے مطابق کوئی ریٹنگ سسٹم میں موجود نہ تھی. تو تخلیق کرنے کی ناکام کوشش کی ہے.
یعنی آپ کا مراسلہ تمام تر تفصیلات کے ساتھ اتنا ہی اوپر سے گزرا، جتنا اوپر سے ایک جہاز گزرتا ہے.
 

لاریب مرزا

محفلین
یہ اشارے قطعاً ہماری سمجھ میں نہیں آئے۔ خصوصاً تابش بھائی والا۔ اس میں جو جہاز دکھایا گیا ہے اسے دیکھ کر ذہن میں نہایت عجیب عجیب باتیں آتی ہیں۔ :eek::eek::eek:
بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے!​

وجہِ اتفاق پر مطلع کیا جاوے تو عین نوازش ہو گی!
اب کے ہماری باری ہے کوئی اور ہی کہانی بُننے کی! :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
ہم نے تو اس اشارے کو کچھ یوں لیا کہ "سر کے اوپر سے گزرنا" اور جہاز جتنی بلندی دیکھ کر تو خوب ہنسی آئی :p
 
میرا عملی طریقہ ہاتھوں کی پوروں پر گننا ہے، جیسے نمازی حضرات نماز کے بعد اپنی اپنی تسبیح گنتے ہیں :)
بھائی، ہمیں بھی بتائیے۔ :in-love::in-love::in-love:
بہر حال۔ رباعی کی کہانی بھی سن لیجیے۔
رباعی کے دس، بارہ، بیس یا چوبیس نہیں۔ صرف دو اوزان ہیں۔ اور باقی سارے اوزان انہی کی فرع ہیں۔ اور یہ اصل اوزان یوں ہیں۔
1۔ مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعل
2۔ مفعول مفاعلن مفاعیلُ فعل

بس ان دو اوزان کو یاد رکھ لیں تو گویا آپ نے چوبیس اوزان یاد کرلیے۔ اب ان میں جہاں بھی تین حرکات مسلسل ہیں ان میں سے درمیان والی کو ساکن (تسکینِ اوسط) کردیں۔ آخری رکن فعل کو ایک ساکن بڑھا کر فعول بھی کر سکتے ہیں جو کہ عروض میں معمول ہے۔ پہلے وزن سے سولہ مزید اوزان اور دوسرے سے آٹھ اوزان پورے چوبیس اوزان نکل آئیں گے انہی دو سے۔
رباعی کی یہ کہانی ہماری بھی نظر سے گزری ہے۔ اس میں ہمارے خیال میں کوئی آسانی درحقیقت پیدا نہیں کی گئی۔ محض تلخیص اور وہ بھی ایک نظری معاملے میں تب بالکل بےمعنیٰ ہو جاتی ہے جب موضوع کو عملی ضروریات کے تحت برتنے کے لیے دوبارہ کھولنا پڑے۔ ہم اپنی بات کی وضاحت کر دیتے ہیں۔
دو اصلی اوزان جو کہ ہماری رائے میں بھی درحقیقت رباعی کی اصل ہی ہیں، میں سے دوسرے میں تسکینِ اوسط کی ایک مثال دیکھیے:
فعلن فعلن مفاعلن مفعولن
اب معاملہ یہ ہے کہ یوں تسکینِ اوسط تو بدرجۂِ اولیٰ عمل میں آ گئی ہے مگر تقطیع غیرحقیقی ہو گئی ہے۔ علامہ بلگرامی اس بابت کیا کہتے ہیں؟
پھر اگر تقطیعِ حقیقی کرنی مقصود ہے تو اس کے لیے زحافات اور افاعیل کا وہی پنڈورا باکس کھولنا پڑے گا جسے آپ نے اس ملخص کی صورت میں بند کر کے رکھ دیا تھا۔ کیا اس صورت میں شرقی صاحب والا اصول قابلِ ترجیح نہ ہو گا؟
مدعا یہ ہے کہ جب برتنے میں چوبیس اوزان ہی آنے ہیں تو ان کے لیے کیوں نہ ایک سادہ قاعدہ وضع کیا جائے بجائے ایسی تلخیص کے جو بجائے خود مبتدیوں کے لیے کسی جنجال کا باعث ہو۔ اگر تقطیعِ غیرحقیقی میں آپ مضائقہ نہیں سمجھتے تو اور بات ہے ورنہ اس تلخیص میں جو قباحت ہے وہ آپ کی سمجھ میں اچھی طرح آ گئی ہو گی۔
رباعی کے معاملے میں مزمل صاحب کی تحقیق زیادہ تشفی بخش ہے ، سمجھنے کے لیے بھی آسان ہے اور عمل کرنے کے لیے بھی۔ :)
سچ مچ؟
ریاضی کا تو کوئی ذکر ہی نہیں. :)
ہمارا تو اب تک یہی خیال ہے کہ موصوف کا ذہن ریاضیاتی نہ ہوتا تو وہ یہ کمال کا استخراج نہ کر سکتے!
 
رباعی کی یہ کہانی ہماری بھی نظر سے گزری ہے۔ اس میں ہمارے خیال میں کوئی آسانی درحقیقت پیدا نہیں کی گئی۔ محض تلخیص اور وہ بھی ایک نظری معاملے میں تب بالکل بےمعنیٰ ہو جاتی ہے جب موضوع کو عملی ضروریات کے تحت برتنے کے لیے دوبارہ کھولنا پڑے۔ ہم اپنی بات کی وضاحت کر دیتے ہیں۔
دو اصلی اوزان جو کہ ہماری رائے میں بھی درحقیقت رباعی کی اصل ہی ہیں، میں سے دوسرے میں تسکینِ اوسط کی ایک مثال دیکھیے:
فعلن فعلن مفاعلن مفعولن
اب معاملہ یہ ہے کہ یوں تسکینِ اوسط تو بدرجۂِ اولیٰ عمل میں آ گئی ہے مگر تقطیع غیرحقیقی ہو گئی ہے۔
آپ فرما رہے ہیں کہ تسکینِ اوسط والے قاعدے کو اس لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسا کرنے سے تقطیع غیر حقیقی ہو جائے گی؟
میرے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ عجمی عروض کا یہ قاعدۂ کلیہ ہے کہ تسکینِ اوسط کو بالاتفاق رواں رکھتے ہیں۔ اور اس میں تقطیع کا غیر حقیقی ہونا چہ معنی؟
ویسے غیر حقیقی تقطیع کیا ہوتی ہے؟ آیا کوئی عروضی اصطلاح ہے؟ میرے خیال میں تو ایسا نہیں ہے۔ یہ تو لکھنو کے معمولی عروضی شود بود رکھنے والے شاعروں پر طنز کے لیے استعمال ہونے والی ایک ترکیب ہے جو یونہی تنگ کرنے کی خاطر وجود میں آئی تھی۔ خیر۔ سچی بات یہ ہے کہ غیر حقیقی تقطیع کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اور اگر ہو تو بھی یہاں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مزید برآں آپ فرماتے ہیں:
دو اصلی اوزان جو کہ ہماری رائے میں بھی درحقیقت رباعی کی اصل ہی ہیں، میں سے دوسرے میں تسکینِ اوسط کی ایک مثال دیکھیے:
فعلن فعلن مفاعلن مفعولن
یہ ارکان تو آپ نے اپنی صوابدید پر اس طرح لکھ دیے ہیں جس کی وجہ سے اسے غیر حقیقی کہہ رہے ہیں۔
مفعولُ مفا علن مفا عیل فعل
پہلے دوسرے رکن کے، اور تیسرے چوتھے رکن کے درمیان تسکینِ اوسط کا اطلاق کریں تو یہ ارکان بنتے ہیں:
مفعولن فاعلن مفاعیلن فع
تفصیل کے لیے اوپر لنک کردہ مضمون ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
 
ان مثالوں سے واضح ہو گیا ہو گا کہ رباعی کے چوبیس کے چوبیس مروجہ اوزان شرقی صاحب کے فارمولے سے بھی نکل سکتے ہیں۔ اور نہ صرف یہ استخراج ممکن ہے بلکہ کلاسیکی اوزانِ رباعی کی بہ نسبت کہیں زیادہ آسان ہے۔
ایک اور روایت شکنی جو شرقی صاحب نے کی ہے وہ زحافات کا استعمال ان کے محل سے ہٹ کر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر کلاسیکی عروض میں حذذ اور حذف عروض و ضرب سے مخصوص ہیں جبکہ موصوف نے ان کا عمل صدر و ابتدا میں کیا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ رباعی کے کلاسیکی اوزان میں بھی یہ کوتاہی اسی طرح موجود رہی ہے اور اخرب و اخرم وغیرہ ارکان جن کا مقام دراصل صدر و ا بتدا ہیں، حشو میں بھی روا رکھے گئے ہیں۔​
عرض ہے کہ عروض میں کسی بھی قسم کی بدعت کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور جو حضرات ایسا کرتے ہیں وہ عروض کو آسان نہیں بلکہ مشکل ہی بناتے ہیں۔
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ حذذ اور حذف کو صدر و ابتدا میں، اور خرم و خرب کو حشو میں استعمال کرکے، اور عروض کے روایتی قوانین کو توڑ کر رجز سے ہی نہیں، بلکہ بحر وافر سے بھی رباعی اخذ کی جاسکتی ہے۔ لیکن ان کاموں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کرتا۔
اور آپ کی اس بات پر بھی اعتراض ہے:
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ رباعی کے کلاسیکی اوزان میں بھی یہ کوتاہی اسی طرح موجود رہی ہے اور اخرب و اخرم وغیرہ ارکان جن کا مقام دراصل صدر و ا بتدا ہیں، حشو میں بھی روا رکھے گئے ہیں۔
ایسا صرف وہی کرسکتا ہے جو عروض کی بنیادی ہیئت اور اجمال سے ناواقف ہو۔ اسی لیے کئی عروضی کتابوں میں ایسی غلطیاں پائی جاتی ہیں کہ زحافات کو بے محل لگا کر وزن اور نام پورا کردیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ در حقیقت وہی زحاف استعمال ہوا ہے۔
اگر اس حوالے سے آپ کو کسی بحر میں کوئی اشکال ہے تو ضرور پیش کیجیے گا۔ ناقص اپنی سی کوشش کرے گا کہ اصل زحاف اور اس کا محل واضح کردے۔
 

اے خان

محفلین
یہ اشارے قطعاً ہماری سمجھ میں نہیں آئے۔ خصوصاً تابش بھائی والا۔ اس میں جو جہاز دکھایا گیا ہے اسے دیکھ کر ذہن میں نہایت عجیب عجیب باتیں آتی ہیں۔ :eek::eek::eek:
بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے!​
اپنی کم علمی کی بدولت ہم آپ کے مراسلے کو پڑھ تو سکے،لیکن سمجھ بالکل نہیں آئی۔
 
آپ فرما رہے ہیں کہ تسکینِ اوسط والے قاعدے کو اس لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسا کرنے سے تقطیع غیر حقیقی ہو جائے گی؟
میرے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ عجمی عروض کا یہ قاعدۂ کلیہ ہے کہ تسکینِ اوسط کو بالاتفاق رواں رکھتے ہیں۔ اور اس میں تقطیع کا غیر حقیقی ہونا چہ معنی؟
آپ سمجھے نہیں۔ میرا اعتراض تسکینِ اوسط پر نہیں تھا۔ پریشانی یہ ہے کہ تسکینِ اوسط کو کام میں لا کر افاعیل کو ان کی اصل صورت میں بحال کرنے کے لیے پھر زحافات کی فہم کی ضرورت پڑتی ہے۔ تسکینِ اوسط تو تقریباً ہر جگہ ہی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد جو افاعیل آپ کے سامنے آئیں گے ان کا فیصلہ کیونکر ہو گا کہ وہ درست ہیں یا غلط۔
میرا بھی یہی ادعا ہے کہ رباعی کے تمام اوزان انھی دو سے تسکینِ اوسط کے ذریعے استخراج کیے جا سکتے ہیں۔ مگر یہ جو آپ نے فرمایا ہے کہ
یہ ارکان تو آپ نے اپنی صوابدید پر اس طرح لکھ دیے ہیں جس کی وجہ سے اسے غیر حقیقی کہہ رہے ہیں۔
کیا ضمانت ہے کہ کوئی مبتدی بعینہ یہی غلطی نہیں کرے گا؟
پہلے دوسرے رکن کے، اور تیسرے چوتھے رکن کے درمیان تسکینِ اوسط کا اطلاق کریں تو یہ ارکان بنتے ہیں:
مفعولن فاعلن مفاعیلن فع
یہی کیوں؟ اس کا قاعدہ کیا ہے؟ یہی دراصل اس مسئلے کی کلید ہے۔ یعنی اسی وزن کو مندرجہ ذیل صورت میں بیان کرنے میں کیا شے مانع ہے؟
فعلن فعلن مفاعلن مفعولن
اگر آپ غور فرمائیں تو دوسری صورت (جسے میں نے بطورِ مثال نقل کیا ہے) زحافات کا کماحقہ شعور نہ ہونے کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ یہی باور کرانا میرا مقصود ہے کہ اگر تسکینِ اوسط کے بعد بھی زحافات کا شعور لازم ہے تو پھر دو مذکورہ اوزان کی صورت میں بحث سمیٹنے کا فائدہ تو نہ ہوا نا؟
اسی بنا پر مجھے شرقی صاحب کا کلیہ فائق معلوم ہوتا ہے کہ وہاں یہ معاملہ چار زحافات اور تقریباً چار ہی افاعیل میں نمٹ جاتا ہے۔
ویسے غیر حقیقی تقطیع کیا ہوتی ہے؟ آیا کوئی عروضی اصطلاح ہے؟ میرے خیال میں تو ایسا نہیں ہے۔ یہ تو لکھنو کے معمولی عروضی شود بود رکھنے والے شاعروں پر طنز کے لیے استعمال ہونے والی ایک ترکیب ہے جو یونہی تنگ کرنے کی خاطر وجود میں آئی تھی۔ خیر۔ سچی بات یہ ہے کہ غیر حقیقی تقطیع کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اور اگر ہو تو بھی یہاں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مجھے حیرت ہے۔ سخت حیرت!
ایسا صرف وہی کرسکتا ہے جو عروض کی بنیادی ہیئت اور اجمال سے ناواقف ہو۔ اسی لیے کئی عروضی کتابوں میں ایسی غلطیاں پائی جاتی ہیں کہ زحافات کو بے محل لگا کر وزن اور نام پورا کردیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ در حقیقت وہی زحاف استعمال ہوا ہے۔
اگر اس حوالے سے آپ کو کسی بحر میں کوئی اشکال ہے تو ضرور پیش کیجیے گا۔ ناقص اپنی سی کوشش کرے گا کہ اصل زحاف اور اس کا محل واضح کردے۔
تو گویا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مثلاً "مفعولن مفعولن مفعولن فع" میں دوسرا اور تیسرا رکن اخرم نہیں ہے؟ کیونکہ خرم تو اصولاً صدر و ابتدا سے مخصوص ہے اور حشو میں وارد نہیں ہو سکتا۔ پہلے رکن کی حد تک تو جائز ہے دوسرا اور تیسرا مفعولن کیا ہے؟ یہاں پر ہزج کے کون سے زحاف کو کام میں لائیں گے حضور؟ اسناد بھی مہیا کر دیں گے تو بہتر ہو گا۔
 
آپ سمجھے نہیں۔ میرا اعتراض تسکینِ اوسط پر نہیں تھا۔ پریشانی یہ ہے کہ تسکینِ اوسط کو کام میں لا کر افاعیل کو ان کی اصل صورت میں بحال کرنے کے لیے پھر زحافات کی فہم کی ضرورت پڑتی ہے۔ تسکینِ اوسط تو تقریباً ہر جگہ ہی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد جو افاعیل آپ کے سامنے آئیں گے ان کا فیصلہ کیونکر ہو گا کہ وہ درست ہیں یا غلط۔
در اصل یہ کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ارکان کی ہیئت کیا ہوگی۔ کیونکہ یہ تو عروض میں عام مسئلہ ہے کہ ایک رکن کو دوسرے پر فوقیت دی جاتی ہے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ ایک رکن کو مفاعیل پڑھیں یا فعولان۔ کیونکہ دونوں درست ہیں اور قابلِ قبول بھی۔ یہ بحثیں اتنی فروعی ہیں کہ ان میں پڑنا ہی بے جا ہے۔ تفصیل آگے آتی ہے۔

اسی بنا پر مجھے شرقی صاحب کا کلیہ فائق معلوم ہوتا ہے کہ وہاں یہ معاملہ چار زحافات اور تقریباً چار ہی افاعیل میں نمٹ جاتا ہے۔
پریشانی تو یہ ہے کہ کوئی کلیہ کسی بدعت پر کیوں بنایا جائے جب متبادل موجود ہو؟

تو گویا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مثلاً "مفعولن مفعولن مفعولن فع" میں دوسرا اور تیسرا رکن اخرم نہیں ہے؟ کیونکہ خرم تو اصولاً صدر و ابتدا سے مخصوص ہے اور حشو میں وارد نہیں ہو سکتا۔ پہلے رکن کی حد تک تو جائز ہے دوسرا اور تیسرا مفعولن کیا ہے؟ یہاں پر ہزج کے کون سے زحاف کو کام میں لائیں گے حضور؟ اسناد بھی مہیا کر دیں گے تو بہتر ہو گا۔
آپ نے بجا فرمایا کہ خرم کو صدر و ابتدا کے علاوہ نہیں لاسکتے۔
لیکن اگر آپ میزان الافکار شرح معیار الاشعار یا پھر قواعد العروض از قدر بلگرامی ملاحظہ کریں تو روایتی عجمی عروض میں یہ سارے عوامل پہلے ہی موجود تھے۔ لیکن ان کے لیے الگ سے زائچے نہیں بنائے جاتے تھے۔ ایسا کیوں؟
ایسا اس لیے ہے کہ زائچے بنا کر آپ کلیات کو منتشر کردیتے ہیں۔ اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سارے اوزان کے لیے اور ہر رکن کے لیے ایک الگ اصول وضع کرنا پڑتا ہے۔
آپ نے استفسار فرمایا کہ خرم کو حشوین میں کیسے لایا گیا؟
عرض ہے کہ خرم کو حشوین میں نہیں لایا گیا۔
عجمی عروض میں دو رویے رائج رہے ہیں۔ اگر ایک ہی رکن میں تین متحرکات یکجا ہو جائیں تو ان میں درمیان والے کو ساکن کردیا جاتا۔ اور اسے تسکینِ اوسط کا نام دیتے۔ اور اگر دو ارکان کو جمع کرکے تین متحرکات یکجا ہو رہے ہیں تو بھی درمیان والے کو ساکن کیا جاتا، لیکن اسے تسکینِ اوسط نہیں، بلکہ تحنیق کہا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ تحنیق کی اصطلاح کم ہوگئی اور اس رویے کو مجموعی طور پر تسکینِ اوسط کہا جانے لگا۔ چنانچہ ہزج میں مفعولن جب شروع میں آتا تو اسے اخرم کہا جاتا، اور جب درمیان میں آتا تو محنق (تحنیق سے) کہا جاتا۔ اگر تحنیق کی جگہ سے تسکین کہیں اور مسکن رکن کہیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

رہی یہ بات کہ مبتدی کے غلطی کرنے کا خدشہ ہے، تو ظاہر ہے کہ مبتدی سے تو یہ بھی خدشہ ہے کہ وہ حذف کو صدر یا ابتدا میں لائے اور خرم کو عروض و ضرب میں۔ اس کا حل تو صرف یہی ہے کہ مبتدی کو عروضی رویے سکھائے جائیں۔
 
Top