ہاہاہا۔ سائنسی علوم کوئی دائمی حتمی علوم نہیں ہیں۔ جو سائنسدان آج کہتے ہیں وہ کل نہیں کہیں گے۔ جیسے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت سے پہلے تمام سائنس دان کلاسیکل فزیکس کو ہی حقیقی فزکس سمجھتے تھے۔ اسوقت ہمارے علماء بھی اسی ڈگر پر قرآن و حدیث کے ذریعے کلاسکل فزکس کی اسلامی ”تائید“ کرتے نظر آتے تھے۔ اور اب جبکہ وہ سائنسی نظریہ پرانا ہو گیا ہے اور نظریہ اضافیت نے اسکی جگہ لے لی ہے تو پھر اسی قرآن و حدیث سے اس نظریے کی تائید میں تاویلیں گھڑنا شروع کر دی گئیں ہیں۔ کل کلاں کو اگر نظریہ اضافیت بھی غلط ثابت ہوگیا یا اس سے بہتر تھیوری سامنے آگئی تو پھر کیا ہوگا؟ وہی پرانا ڈرامہ؟
ایلو پیتھک جدید ترین طریقہ علم ہے۔ جبکہ قدیم طب صدیوں سے ”قدرتی طریقہ علاج“ پر عمل کر رہی ہے۔ آپ کی بات درست ہے کہ جب ایلوپیتھک والے اس پر تحقیقی کریں گے تو ایسا ہی کریں گےایلوپیتھک نظام میں اگر اس کی تحقیق ہوئی تو وہ یہ دیکھیں گے کہ اونٹنی یا اونٹ، کس کے پیشاب کا اثر ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ پیشاب کا کون سا یا کون سے جزو ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔ اس طرح جب یہ بات واضح ہو جائے گی تو پھر وہ اجزاء یا تو پیشاب سے الگ کر کے یا پھر کیمیائی طور پر تیار کر کے دوائی کی شکل میں بیچے جائیں گے
بالکل درست فرمایا بھائی آپ نے۔ ہم جیسے عام لوگ کسی حدیث بالخصوص صحیح بخاری میں موجود کسی حدیث پر شک و شبہ کا اظہار کرکے اپنے ایمان کو خراب کرنے کا رسک نہیں لے سکتےاس حدیث کے بارے میں میں شک کا اظہار تو میں نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ تو کوئی علم رجال کا ماہر ہی بتاسکتا ہے
مندرجہ بالا صفحہ آن لائن صحیح بخاری سے کاپی کیا گیا ہے۔
میں یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ آخر میں "قتادہ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ یہ " حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے""۔ اس سے کیا مراد ہے ؟؟
رہنمائی فرمائیں ۔۔۔ شکریہ ۔۔
قرآن میں جن جرائم کی سزا مذکور ہے، انہیں ’حدود‘ (واحد ’حد‘)کہتے ہیں، جیسے قتل، شراب نوشی، زنا وغیرہ۔قتل کی اسلامی سزا قصاص یعنی قتل کے بدلہ قتل ہے۔لیکن چونکہ اس واقعہ میں ایسا نہیں کیا گیا بلکہ قاتل کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر ان کی آنکھوں پر سلائی پھیر دی گئی تھی، لہذا یہ بات یقینی ہے کہ قتل کی اسلامی سزا (حدود) اس وقت تک نازل نہ ہوئی ہوں گی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور قاضی اپنی طرف سے مجرموں کو یہ سزائیں دیں تھیں۔ آج ایسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قتل کی سزا قرآن میں نازل ہوچکی ہے
مندرجہ بالا صفحہ آن لائن صحیح بخاری سے کاپی کیا گیا ہے۔
میں یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ آخر میں "قتادہ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ یہ " حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے""۔ اس سے کیا مراد ہے ؟؟
رہنمائی فرمائیں ۔۔۔ شکریہ ۔۔
بھائی ایسا کس نے اور کب مانا ہے؟؟؟ کیا اس حدیث کے ”اقرار“ کا یہی مطلب ہے کہ ہر حرام چیز کو دوا کے طور پر استعمال کرنا جائز مان لیا گیا ہے؟ یا ایک مخصوص بیماری کے علاج کے لئے اونٹنی کے دووھ میں اونٹنی کے پیشاب کو ملا کر پینے کو ”فائدہ مند اور جائز“ قرار دیا گیا ہے؟ آپ ذرا اپنے بیان کو دوبارہ پڑھ کر غور کریں تو خود آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس حدیث کی جو ”تشریح آپ کے ذہن“ میں ہے، وہ سراسر غلط ہے جبھی تو آپ اسی غلط سوچ کی بنیاد پر ایک صحیح حدیث کا ”انکار“ کر رہے ہیں۔دوسری بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم آزادانہ طور پر ہر حرام چیز کو دوا کے طور پر استعمال کرنا جائز مان لیں تو پھر مغرب کی جن دواؤں میں سؤر کی چربی وغیرہ استعمال ہوتی ہے تو اس پر اتنا اعتراض کیوں ہوتا ہے کہ آپ مختلف مذہبی جماعتوں کے پاس سے اکثر ایک لسٹ لے کر آتے ہیں جن میں ایسی اشیاء یا دوائیں( خاص کر جن دواؤں میں ایک خامرہ پیپسین موجود ہوتا ہے جو سؤر کی چربی سے حاصل کیا جاتا ہے) شامل ہوتی ہیں اور کہا جاتا ہے ایسی کوئی بھی پروڈکٹ استعمال نہ کریں باوجود اسکے کو وہ کافی جلدی اثر دکھاتی ہیں۔
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔قرآن میں جن جرائم کی سزا مذکور ہے، انہیں ’حدود‘ (واحد ’حد‘)کہتے ہیں، جیسے قتل، شراب نوشی، زنا وغیرہ۔قتل کی اسلامی سزا قصاص یعنی قتل کے بدلہ قتل ہے۔لیکن چونکہ اس واقعہ میں ایسا نہیں کیا گیا بلکہ قاتل کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر ان کی آنکھوں پر سلائی پھیر دی گئی تھی، لہذا یہ بات یقینی ہے کہ قتل کی اسلامی سزا (حدود) اس وقت تک نازل نہ ہوئی ہوں گی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور قاضی اپنی طرف سے مجرموں کو یہ سزائیں دیں تھیں۔ آج ایسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قتل کی سزا قرآن میں نازل ہوچکی ہے
واللہ اعلم بالصواب
شاکر بھائی! یہ ایک عمومی فورم ہے، کوئی تحقیقاتی تجربہ گاہ نہیں۔ اور ابھی تک یہاں کسی محفلین نے اپنے بارے میں یہ نہیں بتلایا کہ وہ کسی کیمیکل ریسرچ لیب میں بطور سائنسدان کام کرتا ہے یہ اتنا آسان کام نہیں۔ اس پر طویل تحقیق کی ضرورت ہے اور (مسلم یا غیر مسلم)محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس قسم کی احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ”بغض“ نہ رکھتا ہو اور آزاد انہ تحقیق کی شہرت رکھتا ہو۔اصل بات وہیں کہیں کھو گئی ۔۔۔ ۔ کیا علم جدید کے نمائندہ کوئی ایسے صاحب ہیں یہاں پر جو ایک ذرا اس کا کیمیائی تجزیہ اور لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد اس کی افادیت اور اس میں پائے جانے والے اجزا پر بات کرے
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔
میرے ایک دوست کا سوال ہے کہ کیا حدود کی وجہ سے پیشاب کا استعمال بند ختم تو نہیں کر دیا گیا تھا، یعنی یہ صرف اسی وقت اور اسی قبیلہ کے لیے دوا تجویز کی گئی تھی۔ بعد میں اس پہ حد تو نہیں لگائی گئی ؟؟
رہنمائی فرمائیں ۔۔۔
دراضل آپ کے دوست کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ شاید کسی چیز کے حرام یا حلال ہونے کا تعلق حدود سے ہوتا ہے ۔۔۔ یہ بات نہیں میرے بھائی بلکہ حدود کا تعلق اسلامی سزاؤں سے ہے ۔۔۔ اوپر جو حدیث نقل کی گئی ہے اس میں بیان شدہ واقعات کے مطابق ۔ جن لوگوں کو چرواہے کے پاس بھیجا گیا تھا کہ وہ دودھ اور پیشاب کو وہاں سے حاصل کر کے بطور دوا استعمال کریں انہی لوگوں نے صحت یاب ہونے کے بعدجزاک اللہ خیرا ۔۔۔
میرے ایک دوست کا سوال ہے کہ کیا حدود کی وجہ سے پیشاب کا استعمال بند ختم تو نہیں کر دیا گیا تھا، یعنی یہ صرف اسی وقت اور اسی قبیلہ کے لیے دوا تجویز کی گئی تھی۔ بعد میں اس پہ حد تو نہیں لگائی گئی ؟؟
رہنمائی فرمائیں ۔۔۔
میں نے آپ سے پہلے ہی گذارش کی تھی کہ کسی حدیث کو جانچنے کا حق صرف علمِ رجال کے ماہروں کا ہے ۔ کیا آپ ایک حدیث کو صرف اس وجہ سے صحیح مان سکتے ہیں کہ وہ صحیح بخاری میں آئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر میں آپ کو بہت سی ایسی احادیث سنا سکتا ہوں جو صحیح بخاری میں موجود تو ہیں پر اس پر علماء کی اکثریت تحفظ کا اظہار بھی کرتی ہے۔بھائی ایسا کس نے اور کب مانا ہے؟؟؟ کیا اس حدیث کے ”اقرار“ کا یہی مطلب ہے کہ ہر حرام چیز کو دوا کے طور پر استعمال کرنا جائز مان لیا گیا ہے؟ یا ایک مخصوص بیماری کے علاج کے لئے اونٹنی کے دووھ میں اونٹنی کے پیشاب کو ملا کر پینے کو ”فائدہ مند اور جائز“ قرار دیا گیا ہے؟ آپ ذرا اپنے بیان کو دوبارہ پڑھ کر غور کریں تو خود آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس حدیث کی جو ”تشریح آپ کے ذہن“ میں ہے، وہ سراسر غلط ہے جبھی تو آپ اسی غلط سوچ کی بنیاد پر ایک صحیح حدیث کا ”انکار“ کر رہے ہیں۔
اول بات تو یہ ہے کہ ایک بات آپ کر رہے ہیں قران کی یعنی شراب کی حرمت تو قران میں بیان ہوئی ہے جس سے انکار ممکن نہیں پر دوسری بات آپ حدیث کی کر رہے ہیں حدیث بلاشبہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ صحیح ہے تو وہ قران کا ہی درجہ رکھتی ہے لیکن ایک فرق تو بہر حال یہ ہے نہ کہ حدیث کے بارے میں صحیح اور موضوع کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو قران کی کسی آیت کیلئے استعمال نہیں ہوسکتے۔ دوسرا آپ نے کہا کہ یہ عمل آنحضرت (ص)نے کیا تو حدیث سے بھی یہ ثابت کہیں بھی نہیں ہے کہ آپ نے ایسا عمل خود کیا ۔ حالانکہ شراب پہلے حلال تھی پر چونکہ اسکو حرام قرار دیا جانا تھا اسلئے نہ صرف آپ (ص) نے بلکہ آپ کے اہلِ بیت میں سے بھی کسی نے کبھی شراب نہیں پی ۔ دوسرے انبیاء نے تو ترک اولٰی کیا پر ہمارے نبی سے تو وہ بھی کبھی سرزرد نہیں ہوا۔ دوسرے جب ایک عمل ثابت ہی نہیں کہ آپ(ص) نے کیا ہو یا اسکو کرنے کا حکم دیا ہو تو اس سے منع کرنا چہ معنی۔- تیسری بات وہی جو کامل صاحب نے کہی کہ جب اونٹنی کے حلال ہونے کی وجہ سے ہم اسکے پیشاب کو دودھ میں ملا کر پینے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے اور قران مجید میں بھی اسکی ممانعت نہیں ہے تو گائے بھی تو حلال جانور ہے قرآن میں اسکے بارے میں بھی کہیں منع نہیں آیاتو ہندوؤں کا پیشاب پینا ہمیں اتنا برا کیوں لگتا ہے وہ بھی اسکو اسی لئے پیتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں اس سے بیماریاں دور ہوتی ہیں ۔
(×) یہ بھی آپ کا ذاتی تصور ہے، جو غلط ہے۔ اونٹنی کے پیشاب کو دودھ میں ملا کر پینے میں کوئی قباحت نہ ہونی کی وجہ، اونٹ کا حلال ہونا نہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا اور بعد میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ” اس عمل“ کو نہ کرنے کی ہدایت نہیں کی۔ جیسے پہلے بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما شراب پیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کرتے تھے۔ لیکن بعد میں شراب پینے اور خرید و فروخت سے منع کردیا گیا۔ کیا کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ علاج سے منع کیا؟؟؟
اسکا تو یہ مطلب ہوا کہ ہمارا اللہ اور رسول اللہ(ص) کچھ اور کہتے ہیں اور عقل کچھ اور۔ آپ کی اس بات کا فائدہ اٹھا کر اگر کوئی یہ کہ دے کہ مسلمانوںکا تو عقیدہ ہی عقل سے دور ہے تو ہم سب کو آگ لگ جائے گی۔ ارے بھائی اسلام دینِ فطرت ہے ہم نے عقل سے ہی اللہ کو پہچانا ہے ورنہ جسکے پاس عقل نہیں ہے وہ ہی اس دین سے دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی کو کبھی ہزیان نہیں ہوسکتا کوئی بھی نبی نعوذو باللہ دیوانہ نہیں ہوسکتا اسکو دماغ کی بیماری نہیں ہوسکتی اور وہ کبھی بھی ماورائے عقل کوئی بات نہیں کرسکتاپہلے آپ نے ایک غلط تصور قائم کیااور پھر اس غلط خیال کی بنیاد پر ایک غلط مثال پیش کی۔ ہم مسلمان بنیادی طور پر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے غلام ہیں، عقل کے نہیں۔ جیسے اسلام میں طہارت اور صفائی کی بڑی اہمیت ہے حتیٰ کہ طہارت کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ دن میں کم از کم پانچ مرتبہ ”نصف غسل“ یعنی وضو اور ہفتہ میں کم از کم ایک دن یعنی جمعہ کو مکمل غسل کرنے کو کہا گیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ہماری عقل شریف میں بھی آتی ہیں کہ وضو اور غسل کے بے شمار فائدے ہیں۔ انسان تازگی محسوس کرتا ہے۔ بیماریوں سے دور رہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب غسل یا وضو کے لئے پانی دستیاب نہ ہو اور ہم ”گندے“ بھی ہوں تو حکم ہے کہ ”پاکی کے حصول“ کے لئے ہم زمین کی مٹی کو ہاتھ اور منہ پر مَل لیں (تیمم کر لیں)۔ اب اگر ہم اپنی ”عقل“ کو استعمال کریں تو پہلے ہی ناپاکی اور ”گندگی“ کی حالت میں ہاتھوں اور منہ پر خاک مَلنے کا کیا مطلب ہوگا؟ لیکن جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم آ جائے تو پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ایسی ہر بات بے چون و چرا خوش دلی سے مان لیں۔ ہم نے اگر ایسا نہ کیا تو یقیناً ہم اپنے ایمان کو نقصان پہنچانے کا سبب بنیں گے
واللہ اعلم بالصواب
جزاک اللہ خیرا ۔۔آپ کا سوال غیر واضح ہے یا کم از کم میری ناقص سمجھ سے بالا تر ہے۔ حدود کا اونٹنی کے پیشاب کے استعمال سے کیالنک ہے بھلا؟
1۔ ایسی کوئی حدیث موجود نہیں ہے (یا کم از کم مجھےاس کا علم نہیں) جس میں یہ ذکر ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ کے لئے اس طریقہ علاج کو منع کردیا گیا تھا۔ اگر ایسی کوئی صحیح حدیث کسی کے علم میں ہو تو وہ یہاں ضرور شیئر کرے۔
2۔ اس حدیث میں یہ بھی ذکر نہیں کہ یہ طریقہ علاج صرف اسی وقت کے لئے یا صرف اسی قبیلہ کے لئے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل تا قیامت پیروی کے لئے ہے۔ الا یہ کہ کسی خاص عمل کے لئے کوئی خاص وضاحت کردی گئی ہو۔
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔۔۔۔دراضل آپ کے دوست کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ شاید کسی چیز کے حرام یا حلال ہونے کا تعلق حدود سے ہوتا ہے ۔۔۔ یہ بات نہیں میرے بھائی بلکہ حدود کا تعلق اسلامی سزاؤں سے ہے ۔۔۔ اوپر جو حدیث نقل کی گئی ہے اس میں بیان شدہ واقعات کے مطابق ۔ جن لوگوں کو چرواہے کے پاس بھیجا گیا تھا کہ وہ دودھ اور پیشاب کو وہاں سے حاصل کر کے بطور دوا استعمال کریں انہی لوگوں نے صحت یاب ہونے کے بعد
انکے یہ دونوں افعال ایسے جرم تھے جو اسلامی حدود سے تعلق رکھتے تھے لیکن اس وقت تک اسلامی حدود کے بارے میں قرآنی آیات نازل نہ ہوئی تھیں
- چرواہے کو قتل کر دیا
- اونٹوں کو ہانک کر لے گئے
اس لیے آنحضور ضلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ سزا دی کہ:
اب کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ اسلام میں تو قتل کا بدلہ قتل ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سزا کیوں دی
- انکے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے
- ان کی آنکھوں میں سلائی پھروا دی گئی
اسی لیے شارح نے وضاحت کر دی کہ یہ واقعہ اس وقت ہوا تھا جب حدود متعین نہیں ہوئیں تھیں