پاکستان میں تتلیاں اور جگنو دن بہ دن کم ہوتے جا رہے ہیں ، اور اس کی وجہ فصلوں پر ادویات کا بیجا استعمال ہے ، ذرا تصور کریں کہ یہ دنیا جگنو اور تتلیوں کے بغیر کتنی بے رنگ اور پھیکی لگے گی۔ یہ نظم اسی پس منظر میں ہے ۔
وہ بلبل کا بچہ
جو کھاتا تھا کھچڑی
جو پیتا تھا پانی
جو میرے سرہانے کبھی بیٹھتا تھا
وہ بلبل کا بچا جو روٹھا ہوا تھا
نہ جانے کہاں اب وہ گم ہو گیا ہے
وہ تاروں بھری رات کیوں سو گئ ہے
وہ تتلی کی رنگت کہاں کھو گئ ہے
کیوں جگنوں چمکتے نہیں رات بھر اب
یہ قدرت کا کیسا ستم ہو گیا ہے
وہ بلبل کا بچہ جو روٹھا ہوا تھا
نہ جانے کہاں اب وہ گم ہو گیا ہے
وہ جھرنوں کے نغمے وہ پھولوں کی خوشبو
وہ چڑیوں کی چوں چوں وہ کوئل کی کوکو
وہ بارش کی بوندوں کی سوندھی سی خوشبو
سپنا تھا جیسے ختم ہو گیا ہے
وہ بلبل کا بچہ جو روٹھا ہوا تھا
نہ جانے کہاں اب وہ گم ہو گیا ہے