حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا
نام و نسب:۔
فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نام، زہرأ لقب تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سب سے کم سن تھیں، سنہ ولادت میں اختلاف ہے، ایک روایت ہے کہ سن 1 بعثت میں پیدا ہوئیں ابن اسحق نے لکھا ہے کہ ابراہیم کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ ولیہ وسلم کی تمام اولاد قبل نبوت پیدا ہوئی، آپکی بعثت چالیس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ اس بنا پر بعضوں نے دونوں روائتوں میں تطبیق دی ہے کہ سن ایک بعثت کے آغاز میں حضرت فاطمہ پیدا ہوئی ہونگی اور چونکہ دونوں کی مدت میں بہت کم فاصلہ ہے اسلیے یہ اختلاف روایت ہو گیا ہو گا۔ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ بعثت سے پانچ برس قبل خانہ کعبہ کی تعمیر جب ہو رہی تھی، پیدا ہوئیں، بعض روائتوں میں ہے کہ نبوت سے تقریباً ایک سال پیشتر پیدا ہوئیں۔
نکاح:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا جب مشہور روایت کے مطابق 18 سال اور اگر ایک سن بعثت کو انکا سال ولادت تسلیم کیا جائے تو پندرہ سال اور ساڑھے پانچ مہینہ کی ہوئیں تو ذی الحجہ 2 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ انکا نکاح کردیا۔ ابن سعد نے روایت کی ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی، آپ نے فرمایا کہ جو خدا کا حکم ہو گا۔ پھر حضرت عمر نے جرأت کی، انکو بھی اپ نے کچھ جواب نہیں دیا، بلکہ وہی الفاظ فرمائے، لیکن بظاہر یہ روایت صحیح معلوم نہیں ہوتی حافظ ابن حجر نے اصابہ میں ابن سعد کی اکثر روائتیں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حال میں روایت کی ہیں، لیکن اس کو نظر انداز کر دیا ہے۔
بہرحال حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جب درخواست کی تو آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مرضی دریافت کی، وہ چپ رہیں، یہ ایک طرح کا اظہار رضا تھا، آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ تمھارے پاس مہر میں دینے کے لیے کیا ہے؟ بولے کچھ نہیں ہے، آپ نے فرمایا"وہ حطمیہ زرہ کیا ہوئی؟"(جنگ بدر میں ہاتھ آئی تھی) عرض کی وہ تو موجد ہے۔ آپ نے فرمایا بس وہ کافی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ اسکو چالیس درہم پر فروخت کیا۔ اور قیمت لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ بازار سے خوشبوئیں لائیں۔
زرہ کے سوا اور جو کچھ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا سرمایہ تھا، وہ ایک بھیڑ کی کھال اور ایک بوسیدہ یمنی چادر تھی۔ حضرت علی نے یہ سب سرمایہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے نذر کیا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس رہتے تھے، شادی کے بعد ضرورت ہوئی کہ الگ گھر لیں۔ حارثہ بن نعمان انصاری کے متعدد مکانات تھے جن میں سے وہ کئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نذر کر چکےتھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ان ہی سے کوئی مکان دلوا دیجیئے۔ آپ نے فرمایا کہ کہاں تک، اب ان سے کہتے شرم آتی ہے، حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سنا تو دوڑے آئے کہ حضور میں اور میرے پاس جو کچھ ہے سب آپکا ہے، خدا کی قسم میرا جو مکان آپ لے لیتے ہیں مجھکو اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ وہ میرے پاس رہ جائے، غرض انہوں نے اپنا ایک مکان خالی کر دیا، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اس میں اٹھ گئیں۔
شہنشاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عالم کو جو جہیز دیا وہ بان کی چارپائی، چمڑے کا گدا جسکے اندر روئی کی بجائے کھجور کے پتے تھے، ایک چھاگل، دو مٹی کے گھڑے، ایک مشک اور دو چکیاں ، اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہی دو چیزیں عمر بھر انکی رفیق رہیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا جب نئے گھر میں جا لیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکے پاس تشریف لے گئے، دروازے پر کھڑے ہو کر اذن مانگا، پھر اندر آئے، ایک برتن میں پانی منگوایا دونوں ہاتھ اس میں ڈالے، اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سینہ و بازوؤن پر پانی چھڑکا، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بلایا، وہ شرم سے لڑکھڑاتی آئیں، ان پر بھی پانی چھڑکا، اور فرمایا میں نے اپنے خاندان میں بہتر شخص سے تمھارا نکاح کیا ہے،(یہ تمام تفصیل صحیح بخاری ج2ص571، طبقات ابن سعد ج8، زرقانی ج2 اصابہ ج8 سے ماخوذ ہے)
داغِ پدری:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر مشہور روایت کے مطابق 29 سال کی تھی کہ جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولاد تھیں، اور اب صرف وہی باقی رہ گئی تھیں، اس لیے انکو اب صدمہ بھی اوروں سے زیادہ ہوا۔ وفات سے پہلے ایکدن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو بلا بھیجا، تشریف لائیں تو ان سے کچھ کان میں باتیں کیں، وہ رونے لگیں، پھر بلا کر کچھ کان میں کہا، تو وہ ہنس دیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دریافت کیا تو کہا۔"پہلی دفعہ آپ نے فرمایا کہ میں اسی مرض میں انتقال کرونگا۔ جب میں رونے لگی تو فرمایا کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تم ہی آکر مجھ سے ملو گی، تو ہنسنے لگی۔"(صحیح بخاری ج2ص63
وفات سے پہلے جب بار بار آپ پر غشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا یہ دیکھ کر بولیں واکرب اباہ، ہائے میرے باپ کی بے چینی! آپ نے فرمایا"تمھارا باپ آج کے بعد بےچین نہ ہوگا۔(صحیح بخاری ج2ص641) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا پر ایک مصیبت ٹوٹ پڑی، اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ"جب تک زندہ رہیں کبھی تبسم نہیں فرمایا۔"(اسد الغابہ ج5 ص 524) بخاری میں لکھا ہے کہ جب صحابہ نعش مبارک کو دفن کر کے واپس آئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا"کیا تمکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خاک ڈالتے اچھا معلوم ہوا؟"(صحیح بخاری ج2ص641)
(یہ عنوان مناسب نہیں اسکی بجائے داغ رحلت پدری ہونا چاہیے، تصحیح۔ امداد اللہ انور)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میراث کا مسئلہ پیش ہوا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ، ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن، یہ تمام بزرگ میراث کے مدعی تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی ایک قائم مقام موجود تھا،لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جائیداد خالصہ جائیداد تھی اور اس میں قانون وراثت جاری نہیں ہو سکتا تھا اس لیے زیادہ محبوب رکھتا ہوں، لیکن وقت یہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ انبیاء جو متروکہ چھورتے ہیں وہ کل کا کل صدقہ ہوتا ہے۔ اور اس میں وراث جاری نہیں ہوتی اس بنا پر میں اس جائیداد کو کیونکر تقسیم کر سکتا ہوں البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اہل بیت جس حد تک اس سے فائدہ اٹھاتے تھے اب بھی اٹھا سکتے ہیں، صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ اس گفتگو کا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو سخت قلق ہوا اور وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس قدر ناراض ہوئیں کہ آخر وقت تک ان سے گفتگو نہیں کی،(بخاری شریف ج1ص526وج2ص609)
(طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بعد کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے راضی ہو گئی تھیں۔)(طبقات ابن سعدج8ص17)
وفات:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کو چھ ماہ گزرے تھے کہ رمضان سن گیارہ ہجری میں حضرت فاطمہ نے وفات پائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی کہ"میرے خاندان میں سب سے پہلے تم ہی مجھ سے آکر ملو گی"پوری ہوئی، یہ منگل کا دن تھا اور رمضان کی تیسری تاریخ تھی، اس وقت انکا سن 29 سال کا تھا۔ لیکن اگر دوسری روائتوں کا لحاظ کیا جائے تو اس سے مختلف ثابت ہو گا، چنانچہ ایک روایت میں (29 سال) زیادہ صحیح ہے، اگر اکیالیس(محمدی) کو سال ولادت قرار دیا جائے تو اس وقت انکا یہ سن نہیں ہو سکتا تھا، البتہ البتہ اگر چوبیس سال کی عمر تسلیم کی جائے تو اس سن کو سال ولادت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ روایت صحیح مان لی جائے کہ پانچ برس قبل نبوت میں پیدا ہوئیں۔ تو اس وقت انکا سن 29 سال کا ہو سکتا ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی تجہیزوتکفین میں خاص جدت کی گئی، عورتوں کے جنازہ پر جو آجکل پردہ لگانے کا دستور ہے، اسکی ابتدا انہی سے ہوئی، اس سے پیشتر عورت و مرد سب کا جنازہ کھلا ہوا جاتا تھا۔ چونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مزاج میں انتہا کی حیا وشرم تھی، اس لیے انہوں نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بنت عمیس سےکہا کہ کھلے جنازہ میں عورتوں کی بےپردگی ہوتی ہے جسکو میں ناپسند کرتی ہوں، اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا جگر گوشہ رسول! میں نے حبش میں ایک طریقہ دیکھا ہے۔ آپ کہیں تو اسکو پیش کروں، یہ کہکر خرمے کی چند شاخیں منگوائیں اور ان پر کپڑا تانا جس سے پردہ کی صورت پیدا ہو گئی، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بےحد مسرور ہوئیں کہ یہ بہترین طریقہ ہے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بعد حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا جنازہ بھی اسی طریقہ سے اٹھایا گیا۔(اسد الغابہ ج5ص524)
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی قبر کے متعلق بھی سخت اختلاف ہے۔ بعضوں کا خیال ہے کہ وہ بقیع میں حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار کے پاس مدفون ہوئیں، ابن زبالہ نے یہی لکھا ہے اور مؤرخ مسعودی نے بھی اسی قسم کی تصریح کی ہے، مؤرخ موصوف نے سن 332 ہجری میں بقیع کی ایک قبر پر ایک کتبہ دیکھا تھا، جس میں لکھا تھا کہ"یہ فاطمہ زہرارضی اللہ تعالی عنہا کی قبر ہے۔"[(خلاصتہ الوفاص217) لیکن طبقات کی متعدد روائتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دار عقیل کے ایک گوشہ میں مدفون ہوئیں۔(طبقات ج8ص20)
ایک روایت یہ ہے کہ وہ خاص اپنے مکان میں دفن کی گئیں، اس پر ابن ابی شیبہ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ پھر پردہ دار جنازہ کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن طبقات کی ایک روایت سے اسکا یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سلمی کے گھر بیمار ہوئی تھیں۔ وہیں انتقال کیا، اور وہیں انکو غسل دیا گیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جنازہ اٹھا کر باہر لائے اور دفن کیا۔(ایضاًص1
آج حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی قبر متفقہ طور پر دار عقیل میں ہی سمجھی جاتی ہے، چنانچہ محمد لیب بک تبنونی نے جو 1327 ہجری میں خدیو مصر کے سفر حجاز میں ہمرکاب تھے، اپنے سفر نامہ میں اسکی تصریح کی ہے،(الرحلتہ الحجابیہ)
اولاد:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پانچ اولادیں ہوئیں، حسن رضی اللہ تعالی عنہ، حسین رضی اللہ تعالی عنہ، محسن رضی اللہ تعالی عنہ، ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا، زینب رضی اللہ تعالی عنہا، محسن رضی اللہ تعالی عنہ نے بچپن ہی میں انتقال کیا، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا اہم واقعات کے لحاظ سے تاریخ میں مشہور ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سب سے نہایت محبت تھی، اور حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما بھی انکو بہت محبوب رکھتے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ہی یہ شرف حاصل ہے کہ ان سے آپ کی نسل باقی رہی۔
حلیہ:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حلیہ مبارک جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا جلتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا قول ہے کہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی گفتگو، لب و لہجہ اور نشست و برخاست کا طریقہ بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔(صحیح ترمذی ص636)اور رفتار بھی بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار تھی،(صحیح بخاری2ص930)
فضل و کمال:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کتب حدیث میں 18 روائتیں منقول ہیں۔ جنکو بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ نے ان سے روایت کیا ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ابن طالب، حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما، حضرت عائشہ، حضرت ام کلثوم، حضرت سلمی ، ام رافع رضی اللہ تعالی عنہن اور حجرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ ان سے احادیث روایت کرتے ہیں۔
تفقہ پر واقعات ذیل شاہد ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کسی سفر میں گئے تھے، واپس آئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے قربانی کا گوشت پیش کیا، انکو عذر ہوا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا اسکو کھانے میں کچھ حرج نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی اجازت دے دی ہے،(مسندج6ص282)
(یہ روایت شیعہ کے مستندات میں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا کوئی بیٹا محسن نام کا بچپن میں فوت نہیں ہوا۔ امداد اللہ)
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکے ہاں گوشت تناول فرما رہے تھے کہ نماز کا وقت آ گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح اٹھ کھڑے ہوئے، چونکہ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا تھا۔ کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دامن پکڑا کہ وضو کر لیجیئے، ارشاد ہوا۔ بیٹی! وضو کی ضرورت نہیں ہے، تمام اچھے کھانے آگ ہی پر تو پکتے ہیں۔(ایضاًص383)
فضل و کمال:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولاد تھیں،(اصابہ ج8ص157)
آپ نے ارشاد فرمایا ہے،
"فاطمہ میرے جسم کا ایک حصہ ہے جو اس کو ناراض کرے گا مجھکو ناراض کرے گا۔"(صحیح بخاری ج1 ص532)
ابوجہل کی لڑکی کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا تھا، بارگاہ نبوت میں اطلاع ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور حسب ذیل خطبہ ارشاد فرمایا۔
"آل ہشام، علی بن ابی طالب سے اپنی بیٹی کا عقد کرنا چاہتی ہے اور مجھ سے اجازت مانگتی ہے لیکن میں اجازت نہ دونگا۔ اور کبھی نہ دونگا۔ البتہ ابن ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دیکر انکی لڑکی سے نکاح کر سکتے ہیں۔ فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے، جس نے اسکو اذیت دی مجھکو اذیت دی۔"(صحیح بخاری ج2ص787)
"اسکے بعد ابوالعاص بن ربیع کا جو آپکے داماد تھے ذکر فرمایا کہ اس نے مجھ سے جو بات کہی اسکو سچ کر کے دکھلا دیا اور جو وعدہ کیا وفا کیا، اور میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے نہیں کھڑا ہوا۔ لیکن خدا کی قسم! ایک پیغمبر اور ایک دشمن خدا کی بیٹیاں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں،"(صحیح بخاری ج1ص42
اسکا اثر یہ ہوا کہ جناب سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حیات تک حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دوسری شادی نہیں کی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا شمار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چند مقدس خواتین میں فرمایا ہے جو دنیا میں اللہ تعالی کی نیک برگزیدہ قرار پائی ہیں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔
"تمھاری تقلید کے لیے تمام دنیا کی عورتوں میں مریم علیہ السلام، خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا، فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا کافی ہیں۔"(ترمذی کتاب المناقب)
زہدورع کی یہ کیفیت تھی کہ گو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولاد تھیں اور اسلام میں رہبانیت کا قلع قمع بھی کر دیا گیا تھا۔ اور فتوحات کی کثرت مدینہ میں مال وزر کے خزانے لٹا رہی تھی، لیکن جانتے ہو کہ اس میں جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا حصہ تھا؟ اسکا جواب سننے سے پہلے آنکھوں کو اشکبارہو جانا چاہیے۔
سیدہ عالم رضی اللہ تعالی عنہا کی خانگی زندگی یہ تھی کہ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے مشک میں پانی بھر بھر کر لانے سے سینے پر گھڑے پڑ گیے تھے گھر میں جھاڑو دیتے دیتے کپڑے چیکٹ ہو جاتے تھے، چولہے کے پاس بیٹھتے بیٹھتے کپڑے دھوئیں سے سیاہ ہو جاتے تھے، لیکن بااینہمہ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار گھر کے کاروبار کے لیے ایک لونڈی مانگی، اور ہاتھ کے چھالے دکھائے تو ارشاد ہوا کہ جان پدر! بدر کے یتیم تم سے پہلے اسکے مستحق ہیں۔(ابوداؤد)
ایک دفعہ آپ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لائے، دیکھا کہ انہوں نے ناداری سے اس قدر چھوٹا دوپٹہ اوڑھا ہے کہ سر ڈھانکتی ہیں تو پاؤں کھل جاتے ہیں اور پاؤں چھپاتی ہیں تو سربرہنہ رہ جاتا ہے۔ شعر
"یوں کی ہے اہل بیت مطہر نے زندگی
یہ ماجراے دختر خیرالانام عنہا تھا(شبلی)
صرف یہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود انکو آرائش یا زیب و زینت کی کوئی چیز نہیں دیتے تھے بلکہ اس قسم کی جو چیزیں انکو دوسرے ذرائع سے ملتی تھیں۔ انکو بھی ناپسند فرماتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انکو سونے کا ایک ہار دیا آپکومعلوم ہوا تو فرمایا"کیوں فاطمہ(رضی اللہ تعالی عنہا)! کیا لوگوں سے کہلوانا چاہتی ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی لڑکی آگ کا ہار پہنتی ہے۔"حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فورا اسکو بیچ کر اسکی قیمت سے ایک غلام خرید لیا۔
ایک دفعہ آپ کسی غزوہ سے تشریف لائے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بطور خیر مقدم کے گھر کے دروازے پر پردے لگائے، اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما کو چاندی کے کنگن پہنائے، آپ حسب معمول حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے یہاں آئے تو اس دنیوی سازوسامان کو دیکھ کر واپس گئے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو آپکی ناپسندیدگی کا حال معلوم ہوا تو پردہ چاک کر دیا اور بچوں کے ہاتھ سے کنگن نکال ڈالے، بچے آپکی خدمت میں روتے ہوئے آئے، آپ نے فرمایا "یہ میرے اہل بیت ہیں، میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ ان زخارف سے آلودہ ہوں" اسکے بدلے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے ایک عصیب کا ہار اور ہاتھی دانت کے کنگن خرید لاؤ۔(یہ تمام واقعات ابوداؤد اور نسائی میں مذکور ہیں۔)
صدق و راستی میں بھی انکا کوئی حریف نہ تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں۔(استیعاب ج2ص772)
"میں نے فاطمہ(رضی اللہ تعالی عنہا) سے زیادہ کسی کو صاف گو نہیں دیکھا۔ انکے والد صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنی ہیں۔"
حددرجہ حیادار تھیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو طلب فرمایا تو وہ شرم سے لڑکھڑاتی ہوئی آئیں۔ اپنے جنازہ پر جو پردہ کرنے کی وصیت کی تھی وہ بھی اسی بنا پر تھی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت کرتی تھیں۔ جب وہ خوردسال تھیں اور آپ مکہ معظمہ میں مقیم تھے تو عقبہ بن ابی معیط نے نماز پڑھنے کی حالت میں ایک مرتبہ آپکی گردن پر اونٹ کی اوجھ لاکر رکھ دی، قریش مارے خوشی کے ایکدوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ کسی نے جا کر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو خبر کی، وہ اگرچہ اس وقت صرف پانچ چھ برس کی تھیں لیکن جوش محبت سے دوڑی آئیں اور اوجھ ہٹا کر عقبہ کو برا بھلا کہا اور بددعائیں دیں۔(صحیح بخاری ج 1ص38،74)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے نہایت محبت کرتے تھے، معمول تھا کہ جب کبھی سفر فرماتےتو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس جاتے اور سفر سے واپس تشریف لاتے تو جو شخص سب سے پہلے بازیاب خدمت ہوتا وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہی ہوتیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا جب آپکی خدمت میں تشریف لاتیں توں آپ کھڑے ہو جاتے انکی پیشانی چومتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے۔
آپ ہمیشہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے تعلقات میں خوشگواری پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا میں کبھی کبھی خانگی معاملات کے متعلق رنجش ہو جاتی تھی۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں صلح کرادیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا، آپ گھر میں تشریف لے گئے اور صلح صفائی کرادی، گھر سے مسرور نکلے، لوگوں نے پوچھا آپ گھر میں گئے تھے تو حالت اور تھی۔ اب آپ اس قدر خوش کیوں ہیں؟ فرمایا میں نے ان دو شخصوں میں مصالحت کردی ہے جو مجھکو محبوب تر ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پر کچھ سختی کی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لیکر چلیں۔ پیچھے پیچھے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی آئے، حضرت فاطمہ نے شکایت کی، آپ نے فرمایا "بیٹی! تمکو خود سمجھنا چاہیے کہ کون شوہر اپنی بی بی کے پاس خاموش چلا آتا ہے۔"حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر اسکا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا،"اب میں تمھارے خلاف مزاج کوئی بات نہ کرونگا۔"