اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

تانیہ

محفلین
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا
نام و نسب:۔
میمونہ نام، قبیلہ قریش سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے، میمونہ بنت حارث بن حزن ابن بحرین ہزم بن روبتہ بن عبداللہ بن ہلال بن عامر بن صعصہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن بن عکرمتہ بن خصیفتہ بن قیس بن عیلان بن مضر، والدہ قبیلہ حمیر سے تھیں اور انکا نام و نسب حسبِ ذیل ہے،
ہند بنت عوف بن زہیر بن حارث بن حماطتہ بن جرش۔
نکاح:۔
پہلے مسعود بن عمرو ب، عمیر ثقفی سے نکاح ہوا،[زرقانی ص288ج3] لیکن کسی وجہ سے علہدگی اختیار کرنا پڑی، پھر ابورہم بن ربدالعزی کے نکاح میں آئیں، ابورہم نے سن 7 ہجری میں وفات پائی تو لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتساب کی کوشش کی،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذوالعقدہ سن 7 ہجری میں عمرہ کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے تھے اسی احرام کی حالت میں حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح ہوا،[بخاری ص611ج2] حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہا نکاح کے متولی ہوئے تھے،[نسائی ص513] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ سے فارغ ہو کر جب مدینہ واپس ہوئے تو سرف میں جو مدینہ کے راستہ پر مکہ سے دس میل ہے۔[تہذیب 453ج12] قیام فرمایا، ابورافع(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام) حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کو لیکر سرف پہنچے اور یہیں رسم عروسی ادا ہوئی،[ابن سعد ص89ج2ق1] یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نکاح تھا،[ذیل المذیل طبری ج13ص2453] اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سب سے آخری بیوی تھیں۔
وفات:۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ مقام سرف میں انکا نکاح ہوا تھا اور سرف ہی میں انہوں نے انتقال بھی کیا۔[صحیح بخاری ج2ص611، مسند ابن حنبل ج6ص333] حضرت ابن عباس نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور قبر میں اتارا، صحاح میں ہے کہ جب انکا جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت ابن عباس نے کہا"یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں جنازہ کو زیادہ حرکت نہ دو۔ باادب آہستہ لے چلو۔"[صحیح بخاری ج2ص758] سال وفات کے متعلق اگرچہ اختلاف ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ انہوں نے سن اکاون ہجری میں وفات پائی۔
فضل و کمال:۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے 46 حدیثیں مروی ہیں، جن میں بعض سے انکی فقہ دانی کا پتہ چلتا ہے۔
ایک ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ پراگندہ ہوئے تو کہا بیٹا! اسکا کیا سبب ہے،؟ جوابدیا ام عمار میرے کنگھا کرتی تھیں (اور آجکل انکے ایام کا زمانہ ہے) بولیں کیا خوب! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہماری گود میں سر رکھ کر لیٹتے تھے۔ اور قرآن پڑھتے تھے، اور ہم اسی حالت میں ہوتے تھے، اسی طرح ہم چٹائی اٹھا کر مسجد میں رکھ آتے تھے، بیٹا! کہیں یہ ہاتھ میں بھی ہوتا ہے۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے جن بزرگوں نے روایت کی ہے انکے نام یہ ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بن شداد بن الہاد، عبدالرحمن بن السائب، یزید بن اصم(یہ سب انکے بھانجے تھے) ابراہیم بن عبداللہ بن معبد بن عباس، کریب(ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام) عبیدہ بن ساق، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، عالیہ بنت سبیع،
اخلاق:۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں۔[اصابہ ج8ص192بحوالہ ابن سعد]
"میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا خدا سے بہت ڈرتی اور صلہ رحمی کرتی تھیں۔"
احکام نبوی کی تعمیل میں ہر وقت پیش نظر رہتی تھیں، ایک دفعہ انکی کنیز بدیہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گئی تو دیکھا کہ میاں بیوی کے بچھونے دور دور بچھے ہیں، خیال ہوا کہ شائد کچھ رنجش ہو گئی ہے لیکن دریافت سے معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ (بیوی کے ایام کے زمانہ میں) اپنا بستر ان سے الگ کر لیتے ہیں۔ آکر حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا تو بولیں، ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ ولیہ وسلم کے طریقہ سے اس قدر کیوں اعراض ہے؟ اپ برابر ہم لوگوں کے بچھونوں پر آرام فرماتے تھے،[مسندج6ص332] ایک عورت بیمار پڑی تو اس نے منت مانی کہ شفا ہونے پر بیت المقدس جا کر نماز پڑھے گی، خدا کی شان وہ اچھی ہو گئی اور سفر کی تیاریاں شروع کیں، جب رخصت ہونے کے لیے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آئی، تو بولیں تم یہیں رہو، اور مسجد نبوی میں نماز پڑھ لو کیونکہ یہاں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں کے ثواب سے ہزار گنا زیادہ ہے۔[ایضاً ص333]
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کو غلام آزاد کرنے کا شوق تھا، ایک لونڈی کو آزاد کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمکو اسکا اجر دے۔[ایضاً332]
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کبھی کبھی قرض لیتی تھیں، ایک بار زیادہ رقم قرض لی تو کسی نے کہا کہ آپ اسکو کسطرح ادا کرینگی؟ فرمایا"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے خدا خود اسکا قرض ادا کر دیتا ہے۔"[ایضاً]
 

تانیہ

محفلین
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا
نام و نسب:۔
اصلی نام زینب تھا لیکن وہ چونکہ جنگ خیبر میں خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ میں آئی تھیں اور عرب میں غنیمت کے ایسے حصے کو جو امام یا بادشاہ کے لیے مخصوص ہوتا ہے صفیہ کہتے تھے اس لیے وہ بھی صفیہ کے نام سے مشہور ہو گئیں، یہ زرقانی کی روایت ہے۔
حضرت صفیہ کو باپ اور ماں دونوں کی طرف سے سیادت حاصل ہے۔ باپ کا نام حیی بن اخطب تھا۔ جو قبیلہ بنو نضیر کا سردار تھا۔ اور حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل میں شمار ہوتا تھا۔ ماں جسکا نام ضرو تھا، سموال رئیس قریظہ کی بیٹی تھی۔ اور یہ دونوں خاندان(قریظہ اور نضیر) بنو اسرائیل کے ان تمام قبائل سے ممتاز سمجھے جاتے تھے، جنہوں نے زمانہ دراز سے عرب کے شمالی حصوں میں سکونت اختیار کر لی تھی۔
نکاح:۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی پہلے سلام بن مشکم القریظی سے ہویی تھی۔ سلام نے طلاق دی تو کنانہ بن ابی لحقیق کے نکاح میں آئیں۔ جو ابورافع تاجر حجاز اور رئیس اور خیبر کا بھتیجا تھا۔ کنانہ جنگ خیبر میں مقتول ہوا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے باپ اور بھائی بھی کام آئے اور خود بھی گرفتار ہوئیں جب خیبر کے تمام قیدی جمع کیے گئے تو وحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لونڈی کی درخواست کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتخاب کرنے کی اجازت دی، انہوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو منتخب کیا، لیکن ایک صحابی نے آپکی خدمت میں آکر عرض کی کہ اپ نے رئیسہ بنو نضیر و قریظہ کو وحیہ کو دے دیا، وہ تو صرف آپکے لیے سزاوار ہے، مقصودیہ تھا کہ رئیسہ عرب کے ساتھ عام عورتوں کا سا برتاؤ مناسب نہیں۔ چنانچہ حضرت وحیہ رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ نے دوسری لونڈی عنایت فرمائی اور صفیہ کو آزاد کر کے نکاح کر لیا،[صحیح بخاری کتاب الصلوٰة باب مایذکرنی الفحذ، صحیح مسلمج1ص546] خیبر سے روانہ ہوئے تو مقام صہبا میں رسم عروسی ادا کی،[اصابہ ج8ص126] اور جو کچھ سامان لوگوں کے پاس تھا۔ اسکو جمع کر کے دعوت ولیمہ فرمائی، وہاں سے روانہ ہوئے تو آپ نے انکو خود اپنے اونٹ پر سوار کر لیا اور اپنی عبا سے ان پر پردہ کیا، یہ گویا اس بات کااعلان تھا کہ وہ ازواج مطہرات میں داخل ہو گئیں۔[طبقات ج8جزءالنساص86]
عام حالات:۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مشہور واقعات میں حج کا سفر ہے، جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ایام محاصرہ میں جو سن 35 ہجری میں ہوا تھا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انکی بےحد مدد کی تھی، جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پر ضروریات زندگی مسدود کر دی گئیں، اور انکے مکان پر پہرہ بٹھا دیا گیا۔ تو وہ خود خچر پر سوار ہو کر انکے مکان کی طرف چلیں، غلام ساتھ تھا، اشتر کی نظر پڑی تو انہوں نے آکر خچر کو مارنا شروع کیا، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا مجھکو ذلیل ہونے کی ضرورت نہیں میں واپس جاتی ہوں تم خچر کو چھوڑ دو۔ گھر واپس آئیں تو حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو اس خدمت پر مامور کیا،وہ انکے مکان سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس کھانا اور پانی لے جاتے تھے۔[اصابہ ج1ص127بحوالہ ابن سعد]
وفات:۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے رمضان 50 ہجری میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں، اس وقت انکی عمر ساٹھ سال کی تھی۔ ایک لاکھ ترکہ چھوڑا، اور ایک ثلث کے لیے اپنے یہودی بھانجے کے لیے وصیت کر گئیں،[زرقانی ج3ص296]
حلیہ:۔
کوتاہ قامت اور حسین تھیں۔[صحیح مسلم ج1ص548]
فضل و کمال:۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے چند حدیثیں مروی ہیں، جنکو حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ، اسحاق بن عبداللہ بن حارث، مسلم بن صفوان، کنانہ اور یزید بن معتب وغیرہ نے روایت کیا ہے، دیگر ازواج کی طرح حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی اپنے زمانہ میں علم کا مرکز تھیں، چنانچہ حضرت صہیرہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت جیفر حج کر کے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس مدینہ آئیں تو کوفہ کی بہت سی عورتیں مسائل دریافت کرنے کی غرض سے بیٹھی ہوئی تھیں، صہیرہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی یہی مقصد تھا۔ اس لیے انہوں نے کوفہ کی عورتوں سے سوال کرائے اور ایک فتوی نبیذ کے متعلق تھا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سنا تو بولیں اہل عراق اس مسئلہ کو اکثر پوچھتے ہیں،[مسندج6ص377]
اخلاق:۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا میں بہت سے محاسن اخلاق جمع تھے، اسد الغابہ میں ہے،[اسد الغابہ ج5ص490]
"وہ عقلمند عورتوں میں نہایت عقلمند تھیں۔"
زرقانی میں ہے۔[زرقانی ج3ص296]
یعنی صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا عقل والی، فاضلہ اور حلم والی تھیں۔
حلم و تحمل انکے باب فضائل کا نہایت جلی عنوان ہے، غزوہ خیبر میں جب وہ اپنی بہن کے ساتھ گرفتار ہو کر آ رہی تھیں تو انکی بہن یہودیوں کی لاشوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتی تھیں، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے محبوب شوہر کی لاش سے قریب ہو کر گزریں لیکن اب بھی اسی طرح پیکر متانت تھیں اور انکی جبین تحمل پر کسی قسم کی شکن نہیں آئی،
ایک مرتبہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انکو یہودیہ کہا، انکو معلوم ہوا۔ تو رونے لگیں، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس ایک کنیز تھی، جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے جا کر انکی شکایت کیا کرتی تھی، چنانچہ ایکدن کہا ان میں یہودیت کا اثر آج تک باقی ہے، وہ یوم السبت کو اچھا سمجھتی ہیں۔ اور یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تصدیق کے لیے ایک شخص کو بھیجا،
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جوابدیا کہ یوم السبت کو اچھا سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اسکے بدلے خدا نے ہمکو جمعہ کا دن عنایت فرمایا ہے۔ البتہ میں یہود کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہوں، وہ میرے خویش و اقارب ہیں اسکے بعد لونڈی کو بلا کر پوچھا کہ تم نے میری شکایت کی تھی؟بولی"ہاں مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔" حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا خاموش ہو گئیں اور اس لونڈی کو آزاد کر دیا،[اصابہ ج8ص127وزرقانی ج3ص296]
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی، چنانچہ جب آپ علیل ہوئے تو نہایت حسرت سے بولیں"کاش آپکی بیماری مجھکو ہو جاتی۔" ازواج نے انکی طرف دیکھنا شروع کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سچ کہہ رہی ہیں۔[زرقانی ج3ص296 بحوالہ ابن سعد](یعنی اس میں تصنع کا شائبہ نہیں ہے۔)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی انکے ساتھ نہایت محبت تھی۔ اور ہر موقع پر انکی دلجوئی فرماتے تھے۔ ایک بار آپ سفر میں تھے، ازواج مطہرات بھی تھیں، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اونٹ سوئے اتفاق سے بیمار ہو گیا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس اونٹ ضرورت سے زیادہ تھے،آپ نے ان سے فرمایا کہ ایک اونٹ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دیدو۔ انہوں نے کہا، کیا میں اس یہودیہ کو اپنا اونٹ دے دوں؟ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اس قدر ناراض ہوئے کہ دو مہینے تک انکے پاس نہ گئے،[اصابہ ج8ص126بحوالہ ابن سعدوزرقانی ج3ص296] ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انکی قدوقامت کی نسبت چند جملے کہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر سمندر میں چھوڑ دی جائے تو اس میں مل جائے[ابوداؤد ج2ص193](یعنی سمندر کو بھی گدلا کر سکتی ہے۔)
ایک بار آپ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لے گئے، دیکھا کہ رو رہی ہیں آپ نے رونے کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا کہ "عائشہ و حفصہ(رضی اللہ تعالی عنہما) کہتی ہیں کہ ہم تمام ازواج میں افضل ہیں، ہم آپ کی زوجہ ہونے کے ساتھ آپکی چچا زاد بہنیں بھی ہیں۔" آپ نے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں نہ کہدیا کہ"ہارون میرے باپ، موسی میرے چچا اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) میرے شوہر ہیں اسلیے تم لوگ کیونکر مجھ سے افضل ہو سکتی ہو،"[صحیح ترمذی ص638باب فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم،]
سفر حج میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اونٹ بیٹھ گیا تھا۔ اور و ہسب سے پیچھے رہ گئی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو دیکھا کہ زاروقطار رو رہی ہیں، آپ نے رداء اور دست مبارک سے انکے آنسو پونچھے، آپ آنسو پونچھتے جاتے تھے اور وہ بےاختیار روتی جاتی تھیں۔[زرقانی ج3ص296]
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سیر چشم اور فیاض واقع ہوئی تھیں، چنانچہ جب وہ ام المومنین بن کر مدینہ میں آئیں تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کو اپنی سونے کی بجلیاں تقسیم کیں۔[زرقانی ج3ص296]
کھانا بہایت عمدہ پکاتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تحفتہً بھیجا کرتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انہوں نے پیالہ میں جو کھانا بھیجا تھا اسکا ذکر بخاری اور نسائی وغیرہ میں آیا ہے۔
 

تانیہ

محفلین
بنات طاہرات رضی اللہ تعالی عنہن

حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں بعثت سے دس برس پہلے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تیس سال کی تھی پیدا ہوئیں۔
نکاح:۔
ابوالعاص بن ربیع لقیط سے جو حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے خالہ زاد بھائی تھے نکاح ہوا۔
عام حالات:۔
نبوت کے تیرہویں سال جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو اہل و عیال مکہ میں رہ گئے تھے، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا بھی اپنی سسرال میں تھیں، غزوہ بدر میں ابو العاص کفار کی طرف سے شریک ہوئے تھے، عبداللہ بن حیر رضی اللہ تعالی عنہ انصاری نے انکو گرفتار کیا۔ اور اس شرط پر رہا کیے گئے کہ مکہ جا کر حضرت زینب کو بھیج دینگے۔(طبقات ج8ص20)
ابوالعاص نے مکہ جا کر حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کیا، کیونکہ کفار کے تعرض کا خوف تھا۔ کنانہ نے ہتھیار ساتھ لے لیئے تھے۔ مقام ذی طوی میں پہنچے تو قریش کے چند آدمیوں نے تعاقب کیا، ہبار بن اسود نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو نیزہ سے زمین پر گرا دیا، وہ حاملہ تھیں، حمل ساقط ہو گیا، کنانہ نے ترکش سے تیر نکالے اور کہا کہ"اب اگر کوئی قریب آیا تو ان تیروں کا نشانہ ہو گا۔"لوگ ہٹ گئے تو ابوسفیان سرداران قریش کے ساتھ آیا اور کہا"تیر روک لو ہمکو کچھ گفتگو کرنی ہے۔" انہوں نے تیر ترکش میں ڈال دیئے، ابوسفیان نے کہا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ سے جو مصیبتیں پہنچی ہیں تمکو معلوم ہیں۔ اب اگر تم اعلانیہ انکی لڑکی کو ہمارے قبضہ سے نکال لے گئے لوگ کہیں گے کہ ہماری ہے۔ ہمکو زینب(رضی اللہ تعالی عنہا) کو روکنے کی ضرورت نہیں جب شوروہنگامہ کم ہو جائے اسے چوری چھپے لے جانا۔ کنانہ نے یہ رائے تسلیم کی اور حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو لیکر مکہ واپس آ گیا۔چند روز کے بعد انکو رات کے وقت لیکر روانہ ہوئے، زید بن حارثہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے بھیج دیا تھا۔ وہ بطن یا جج میں تھے۔ کنانہ نے زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو انکے حوالے کیا، وہ انکو لیکر روانہ ہو گئے۔(زرقانی ج3ص223)
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا مدینہ میں آئیں اور اپنے شوہر ابوالعاص کو حالت شرک میں چھوڑا۔ جمادی الاول سن چھ ہجری میں ابوالعاص قریش کے ایک قافلہ کے ساتھ شام کیطرف روانہ ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کو 170 سواروں کے ساتھ بھیجا، مقام عیص قافلہ ملا، کچھ لوگ گرفتار کیے گئے اور مال و اسباب لوٹ میں آیا، انہی میں ابو العاص بھی آئے تو حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے انکو پناہ دی اور انکی سفارش سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےانکا مال بھی واپس کرا دیا۔ ابوالعاص نے مکہ جا کر لوگوں کی امانتیں حوالہ کیں اور اسلام لانے کے بعد ہجرت کر کے مدینہ آئے، حجرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے انکو حالت شرک میں چھوڑا تھا، اس لیے دونوں میں باہم تفریق ہو گئی تھی، وہ مدینہ آئے تو حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا دوبارہ انکے نکاح میں آئیں، ترمذی وغیرہ میں روایت ہے کہ کوئی تجدید نکاح نہیں ہوا، لیکن دوسری روایت میں تجدید نکاح کی تصریح ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے اس روایت کو اگرچہ اسناد کے لحاظ سے دوسری روایت پر ترجیح ہے۔ لیکن فقہا نے دوسری پر عمل کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کی یہ تاویل کی ہے کہ نکاح جدید کے شرائط وغیرہ میں کسی قسم کا تغیر نہ ہوا ہو گا اسی لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اسکو نکاح اول سے ہی تعبیر کیا ورنہ بعد تفریق نکاح ثانی ضروری ہے۔
ابوالعاص نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ نہایت شریفانہ برتاؤ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے شیریفانی تعلقات کی تعریف کی،(طبقات ابن سعدج8ص21)
وفات:۔
نکاح جدید کے بعد حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا بہت کم زندہ رہیں۔ اور سن آٹھ ہجری میں انہوں نے انتقال کیا۔ حضرت ام ایمن ، حضرت سودہ، حضرت ام سلمہ اور حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہن نے غسل دیا جسکا طریقہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی، خود قبر میں اترے اور اپنے نوردیدہ کو خاک کے سپر دیا۔ اس وقت چہرہ مبارک پہ حزن و ملال کے آثار نمایاں تھے۔(طبقات ج8ص24وصحیح بخاری ج1ص167وصحیح مسلم ج1ص346واسد الغابہ ج5ص468)
اولاد:۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے دو اولاد چھوڑی، علی اور امامہ رضی اللہ تعالی عنہا علی کی نسبت ایک روایت ہے کہ بچپن میں وفات پائی، لیکن عام روایت یہ ہے کہ سن رشد کو پہنچے، ابن عساکر نے لکھا ہے کہ یرموک کے معرکہ میں شہادت پائی، فتح مکہ میں یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے، امامہ رضی اللہ تعالی عنہا عرصہ تک زندہ رہیں، انکے حال آگے تک آئے گا۔
اخلاق و عادات:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی تھیں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے انکو ریشمی چادر اوڑھے دیکھا تھا، جس پر زرد دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔(طبقات ج8ص22)
 

تانیہ

محفلین
حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
مشہور روایت کے مطابق یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں جو سن 33 قبل نبوت میں پیدا ہوئیں۔
نکاح:۔
پہلے ابولہب کے بیٹے عتبہ سے شادی ہوئی، یہ قبل نبوت کا واقعہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی ابولہب کے دوسرے لڑکے عتبہ سے ہوئی تھی۔
اسلام:۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور آپ نے دعوت اسلام کا اظہار فرمایا تو ابولہب نے بیٹوں کو جمع کر کے کہا"اگر تم محمد کی بیٹیوں سے علہدگی اختیار نہیں کرتے تو تمھارے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا حرام ہے۔" دونوں بیٹوں نے باپ کے حکم کی تعمیل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کر دی۔
عام حالات:۔
نبوت کے پانچویں سال حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے حبش کی طرف ہجرت کی، حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی ساتھ گئیں، جب واپس آئیں تو مکہ کی سرزیمن پہلے سے زیادہ خونخوار تھی۔ چنانچہ دوبارہ ہجرت کی مدت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انکا کچھ حال معلوم نہ ہوا۔ ایک عورت نے آکر خبردی کہ "میں نے ان دونوں کو دیکھا ہے۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی اور فرمایا کہ"ابراہیم علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کے بعد عثمان(رضی اللہ تعالی عنہ) پہلے شخص ہیں جنہوں نے بی بی کو لیکر ہجرت کی ہے۔"(اسدالغابہ ج5ص457)
اس مرتبہ حبش میں زیادہ عرصہ تک مقیم رہیں، جب یہ خبر پہنچی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے والے ہیں تو چند بزرگ جن میں حضرت عثمان اور حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہما بھی تھیں مکہ آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مدینہ منورہ کو ہجرت کی، جہاں انہوں نے حضرت حسان کے بھائی اوس بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر قیام کیا۔
وفات:۔
سن دو ہجری میں غزوہ بدر کا سال تھا۔ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے دانے نکلے اور نہایت سخت تکلیف ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانہ میں بدر کی تیاریاں کررہے تھے، غزوہ کے لیے روانہ ہوئے تو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو تیماداری کے لیے چھوڑ دیا۔(بخاری ج1ص442) عین اسی دن جس دن زید رضی اللہ تعالی عنہ بن حارثہ نے مدینہ میں آکر فتح کا مژدہ سنایا حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے وفات پائی، آنحضرت غزوہ کی وجہ سے انکے جنازہ میں شریک نہ ہو سکے لیکن جب واپس آئے اور اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو نہایت رنجیدہ ہو کر قبر پر تشریف لائے اور فرمایا"عثمان ابن مظعون پہلے جا چکے اب تم بھی انکے پاس چلی جاؤ"اس فقرہ نے عورتوں میں کہرام برپا کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کوڑا لیکر مارنے کے لیے اٹھے اپ نے ہاتھ پکڑ لیااور فرمایا"رونے میں کچھ حرج نہیں لیکن نوحہ و بین شیطانی حرکت ہے اس سے قطعا بچنا چاہیے۔" سیدہ عالم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئیں، وہ قبر کے پاس بیٹھکر روتی جاتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے سے انکے آنسو پونچھتے جاتے تھے،
اولاد:۔
حبش کے زمانہ قیام میں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جسکا نام عبداللہ تھا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی کنیت ابو عبداللہ اسی کے نام پر تھی، چھ سال تک زندہ رہا، ایک مرتبہ ایک مرغ نے اسکے چہرہ پر چونچ ماری اور جاں بحق تسلیم ہو گیا، یہ جمادی الاول سن 4 ہجری کا واقعہ ہے، عبداللہ کے بعد حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی،
حلیہ:۔
حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا خوبرو اور موزوں اندام تھیں، زرقانی میں ہے۔(دیکھو استیعاب ج2ص47، طبقات ج8ص24واسد الغابہ ج5ص456، 457 و زرقانی ج3ص226)
 

تانیہ

محفلین
ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
یہ تیسری صاحبزادی ہیں اور کنیت ہی کے ساتھ مشہور ہیں۔
نکاح:۔
سن تین ہجری میں جب حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال ہوا تو ربیع الاول میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ نکاح کر لیا، بخاری میں ہے کہ جب حضرت حفصہ بیوہ ہوئیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے تامل کیا لیکن دوسری روایت میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر معلوم ہوئی تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا"میں تمکو عثمان سے بہتر شخص کا پتہ دیتا ہوں۔ اور عثمان کے لیے تم سے بہتر شخص ڈھونڈتا ہوں اپنی لڑکی کی شادی مجھ سے کر دو اور میں اپنی لڑکی کی شادی عثمان سے کر دیتا ہوں"بہرحال نکاح ہوا، نکاح کے بعد حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا 6 برس تک حضرت عثمان کے ساتھ رہیں۔
وفات:۔
شعبان سن نو ہجری میں وفات پائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت صدمہ ہوا، آنکھوں سے آنسو جار ی تھے، آپ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ علی رضی اللہ تعالی عنہ، فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ بن زید نے قبر میں اتارا۔[1]
اولاد:۔
کوئی اولاد نہیں ہے۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نام، زہرأ لقب تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سب سے کم سن تھیں، سنہ ولادت میں اختلاف ہے، ایک روایت ہے کہ سن 1 بعثت میں پیدا ہوئیں ابن اسحق نے لکھا ہے کہ ابراہیم کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ ولیہ وسلم کی تمام اولاد قبل نبوت پیدا ہوئی، آپکی بعثت چالیس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ اس بنا پر بعضوں نے دونوں روائتوں میں تطبیق دی ہے کہ سن ایک بعثت کے آغاز میں حضرت فاطمہ پیدا ہوئی ہونگی اور چونکہ دونوں کی مدت میں بہت کم فاصلہ ہے اسلیے یہ اختلاف روایت ہو گیا ہو گا۔ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ بعثت سے پانچ برس قبل خانہ کعبہ کی تعمیر جب ہو رہی تھی، پیدا ہوئیں، بعض روائتوں میں ہے کہ نبوت سے تقریباً ایک سال پیشتر پیدا ہوئیں۔
نکاح:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا جب مشہور روایت کے مطابق 18 سال اور اگر ایک سن بعثت کو انکا سال ولادت تسلیم کیا جائے تو پندرہ سال اور ساڑھے پانچ مہینہ کی ہوئیں تو ذی الحجہ 2 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ انکا نکاح کردیا۔ ابن سعد نے روایت کی ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی، آپ نے فرمایا کہ جو خدا کا حکم ہو گا۔ پھر حضرت عمر نے جرأت کی، انکو بھی اپ نے کچھ جواب نہیں دیا، بلکہ وہی الفاظ فرمائے، لیکن بظاہر یہ روایت صحیح معلوم نہیں ہوتی حافظ ابن حجر نے اصابہ میں ابن سعد کی اکثر روائتیں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حال میں روایت کی ہیں، لیکن اس کو نظر انداز کر دیا ہے۔
بہرحال حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جب درخواست کی تو آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مرضی دریافت کی، وہ چپ رہیں، یہ ایک طرح کا اظہار رضا تھا، آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ تمھارے پاس مہر میں دینے کے لیے کیا ہے؟ بولے کچھ نہیں ہے، آپ نے فرمایا"وہ حطمیہ زرہ کیا ہوئی؟"(جنگ بدر میں ہاتھ آئی تھی) عرض کی وہ تو موجد ہے۔ آپ نے فرمایا بس وہ کافی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ اسکو چالیس درہم پر فروخت کیا۔ اور قیمت لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ بازار سے خوشبوئیں لائیں۔
زرہ کے سوا اور جو کچھ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا سرمایہ تھا، وہ ایک بھیڑ کی کھال اور ایک بوسیدہ یمنی چادر تھی۔ حضرت علی نے یہ سب سرمایہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے نذر کیا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس رہتے تھے، شادی کے بعد ضرورت ہوئی کہ الگ گھر لیں۔ حارثہ بن نعمان انصاری کے متعدد مکانات تھے جن میں سے وہ کئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نذر کر چکےتھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ان ہی سے کوئی مکان دلوا دیجیئے۔ آپ نے فرمایا کہ کہاں تک، اب ان سے کہتے شرم آتی ہے، حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سنا تو دوڑے آئے کہ حضور میں اور میرے پاس جو کچھ ہے سب آپکا ہے، خدا کی قسم میرا جو مکان آپ لے لیتے ہیں مجھکو اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ وہ میرے پاس رہ جائے، غرض انہوں نے اپنا ایک مکان خالی کر دیا، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اس میں اٹھ گئیں۔
شہنشاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عالم کو جو جہیز دیا وہ بان کی چارپائی، چمڑے کا گدا جسکے اندر روئی کی بجائے کھجور کے پتے تھے، ایک چھاگل، دو مٹی کے گھڑے، ایک مشک اور دو چکیاں ، اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہی دو چیزیں عمر بھر انکی رفیق رہیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا جب نئے گھر میں جا لیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکے پاس تشریف لے گئے، دروازے پر کھڑے ہو کر اذن مانگا، پھر اندر آئے، ایک برتن میں پانی منگوایا دونوں ہاتھ اس میں ڈالے، اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سینہ و بازوؤن پر پانی چھڑکا، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بلایا، وہ شرم سے لڑکھڑاتی آئیں، ان پر بھی پانی چھڑکا، اور فرمایا میں نے اپنے خاندان میں بہتر شخص سے تمھارا نکاح کیا ہے،(یہ تمام تفصیل صحیح بخاری ج2ص571، طبقات ابن سعد ج8، زرقانی ج2 اصابہ ج8 سے ماخوذ ہے)
داغِ پدری:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر مشہور روایت کے مطابق 29 سال کی تھی کہ جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولاد تھیں، اور اب صرف وہی باقی رہ گئی تھیں، اس لیے انکو اب صدمہ بھی اوروں سے زیادہ ہوا۔ وفات سے پہلے ایکدن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو بلا بھیجا، تشریف لائیں تو ان سے کچھ کان میں باتیں کیں، وہ رونے لگیں، پھر بلا کر کچھ کان میں کہا، تو وہ ہنس دیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دریافت کیا تو کہا۔"پہلی دفعہ آپ نے فرمایا کہ میں اسی مرض میں انتقال کرونگا۔ جب میں رونے لگی تو فرمایا کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تم ہی آکر مجھ سے ملو گی، تو ہنسنے لگی۔"(صحیح بخاری ج2ص638)
وفات سے پہلے جب بار بار آپ پر غشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا یہ دیکھ کر بولیں واکرب اباہ، ہائے میرے باپ کی بے چینی! آپ نے فرمایا"تمھارا باپ آج کے بعد بےچین نہ ہوگا۔(صحیح بخاری ج2ص641) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا پر ایک مصیبت ٹوٹ پڑی، اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ"جب تک زندہ رہیں کبھی تبسم نہیں فرمایا۔"(اسد الغابہ ج5 ص 524) بخاری میں لکھا ہے کہ جب صحابہ نعش مبارک کو دفن کر کے واپس آئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا"کیا تمکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خاک ڈالتے اچھا معلوم ہوا؟"(صحیح بخاری ج2ص641)
(یہ عنوان مناسب نہیں اسکی بجائے داغ رحلت پدری ہونا چاہیے، تصحیح۔ امداد اللہ انور)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میراث کا مسئلہ پیش ہوا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ، ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن، یہ تمام بزرگ میراث کے مدعی تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی ایک قائم مقام موجود تھا،لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جائیداد خالصہ جائیداد تھی اور اس میں قانون وراثت جاری نہیں ہو سکتا تھا اس لیے زیادہ محبوب رکھتا ہوں، لیکن وقت یہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ انبیاء جو متروکہ چھورتے ہیں وہ کل کا کل صدقہ ہوتا ہے۔ اور اس میں وراث جاری نہیں ہوتی اس بنا پر میں اس جائیداد کو کیونکر تقسیم کر سکتا ہوں البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اہل بیت جس حد تک اس سے فائدہ اٹھاتے تھے اب بھی اٹھا سکتے ہیں، صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ اس گفتگو کا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو سخت قلق ہوا اور وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس قدر ناراض ہوئیں کہ آخر وقت تک ان سے گفتگو نہیں کی،(بخاری شریف ج1ص526وج2ص609)
(طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بعد کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے راضی ہو گئی تھیں۔)(طبقات ابن سعدج8ص17)
وفات:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کو چھ ماہ گزرے تھے کہ رمضان سن گیارہ ہجری میں حضرت فاطمہ نے وفات پائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی کہ"میرے خاندان میں سب سے پہلے تم ہی مجھ سے آکر ملو گی"پوری ہوئی، یہ منگل کا دن تھا اور رمضان کی تیسری تاریخ تھی، اس وقت انکا سن 29 سال کا تھا۔ لیکن اگر دوسری روائتوں کا لحاظ کیا جائے تو اس سے مختلف ثابت ہو گا، چنانچہ ایک روایت میں (29 سال) زیادہ صحیح ہے، اگر اکیالیس(محمدی) کو سال ولادت قرار دیا جائے تو اس وقت انکا یہ سن نہیں ہو سکتا تھا، البتہ البتہ اگر چوبیس سال کی عمر تسلیم کی جائے تو اس سن کو سال ولادت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ روایت صحیح مان لی جائے کہ پانچ برس قبل نبوت میں پیدا ہوئیں۔ تو اس وقت انکا سن 29 سال کا ہو سکتا ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی تجہیزوتکفین میں خاص جدت کی گئی، عورتوں کے جنازہ پر جو آجکل پردہ لگانے کا دستور ہے، اسکی ابتدا انہی سے ہوئی، اس سے پیشتر عورت و مرد سب کا جنازہ کھلا ہوا جاتا تھا۔ چونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مزاج میں انتہا کی حیا وشرم تھی، اس لیے انہوں نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بنت عمیس سےکہا کہ کھلے جنازہ میں عورتوں کی بےپردگی ہوتی ہے جسکو میں ناپسند کرتی ہوں، اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا جگر گوشہ رسول! میں نے حبش میں ایک طریقہ دیکھا ہے۔ آپ کہیں تو اسکو پیش کروں، یہ کہکر خرمے کی چند شاخیں منگوائیں اور ان پر کپڑا تانا جس سے پردہ کی صورت پیدا ہو گئی، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بےحد مسرور ہوئیں کہ یہ بہترین طریقہ ہے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بعد حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا جنازہ بھی اسی طریقہ سے اٹھایا گیا۔(اسد الغابہ ج5ص524)
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی قبر کے متعلق بھی سخت اختلاف ہے۔ بعضوں کا خیال ہے کہ وہ بقیع میں حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار کے پاس مدفون ہوئیں، ابن زبالہ نے یہی لکھا ہے اور مؤرخ مسعودی نے بھی اسی قسم کی تصریح کی ہے، مؤرخ موصوف نے سن 332 ہجری میں بقیع کی ایک قبر پر ایک کتبہ دیکھا تھا، جس میں لکھا تھا کہ"یہ فاطمہ زہرارضی اللہ تعالی عنہا کی قبر ہے۔"[(خلاصتہ الوفاص217) لیکن طبقات کی متعدد روائتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دار عقیل کے ایک گوشہ میں مدفون ہوئیں۔(طبقات ج8ص20)
ایک روایت یہ ہے کہ وہ خاص اپنے مکان میں دفن کی گئیں، اس پر ابن ابی شیبہ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ پھر پردہ دار جنازہ کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن طبقات کی ایک روایت سے اسکا یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سلمی کے گھر بیمار ہوئی تھیں۔ وہیں انتقال کیا، اور وہیں انکو غسل دیا گیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جنازہ اٹھا کر باہر لائے اور دفن کیا۔(ایضاًص18) آج حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی قبر متفقہ طور پر دار عقیل میں ہی سمجھی جاتی ہے، چنانچہ محمد لیب بک تبنونی نے جو 1327 ہجری میں خدیو مصر کے سفر حجاز میں ہمرکاب تھے، اپنے سفر نامہ میں اسکی تصریح کی ہے،(الرحلتہ الحجابیہ)
اولاد:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پانچ اولادیں ہوئیں، حسن رضی اللہ تعالی عنہ، حسین رضی اللہ تعالی عنہ، محسن رضی اللہ تعالی عنہ، ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا، زینب رضی اللہ تعالی عنہا، محسن رضی اللہ تعالی عنہ نے بچپن ہی میں انتقال کیا، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا اہم واقعات کے لحاظ سے تاریخ میں مشہور ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سب سے نہایت محبت تھی، اور حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما بھی انکو بہت محبوب رکھتے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ہی یہ شرف حاصل ہے کہ ان سے آپ کی نسل باقی رہی۔
حلیہ:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حلیہ مبارک جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا جلتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا قول ہے کہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی گفتگو، لب و لہجہ اور نشست و برخاست کا طریقہ بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔(صحیح ترمذی ص636)اور رفتار بھی بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار تھی،(صحیح بخاری2ص930)
فضل و کمال:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کتب حدیث میں 18 روائتیں منقول ہیں۔ جنکو بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ نے ان سے روایت کیا ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ابن طالب، حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما، حضرت عائشہ، حضرت ام کلثوم، حضرت سلمی ، ام رافع رضی اللہ تعالی عنہن اور حجرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ ان سے احادیث روایت کرتے ہیں۔
تفقہ پر واقعات ذیل شاہد ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کسی سفر میں گئے تھے، واپس آئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے قربانی کا گوشت پیش کیا، انکو عذر ہوا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا اسکو کھانے میں کچھ حرج نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی اجازت دے دی ہے،(مسندج6ص282)
(یہ روایت شیعہ کے مستندات میں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا کوئی بیٹا محسن نام کا بچپن میں فوت نہیں ہوا۔ امداد اللہ)
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکے ہاں گوشت تناول فرما رہے تھے کہ نماز کا وقت آ گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح اٹھ کھڑے ہوئے، چونکہ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا تھا۔ کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دامن پکڑا کہ وضو کر لیجیئے، ارشاد ہوا۔ بیٹی! وضو کی ضرورت نہیں ہے، تمام اچھے کھانے آگ ہی پر تو پکتے ہیں۔(ایضاًص383)
فضل و کمال:۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولاد تھیں،(اصابہ ج8ص157)
آپ نے ارشاد فرمایا ہے،
"فاطمہ میرے جسم کا ایک حصہ ہے جو اس کو ناراض کرے گا مجھکو ناراض کرے گا۔"(صحیح بخاری ج1 ص532)
ابوجہل کی لڑکی کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا تھا، بارگاہ نبوت میں اطلاع ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور حسب ذیل خطبہ ارشاد فرمایا۔
"آل ہشام، علی بن ابی طالب سے اپنی بیٹی کا عقد کرنا چاہتی ہے اور مجھ سے اجازت مانگتی ہے لیکن میں اجازت نہ دونگا۔ اور کبھی نہ دونگا۔ البتہ ابن ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دیکر انکی لڑکی سے نکاح کر سکتے ہیں۔ فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے، جس نے اسکو اذیت دی مجھکو اذیت دی۔"(صحیح بخاری ج2ص787)
"اسکے بعد ابوالعاص بن ربیع کا جو آپکے داماد تھے ذکر فرمایا کہ اس نے مجھ سے جو بات کہی اسکو سچ کر کے دکھلا دیا اور جو وعدہ کیا وفا کیا، اور میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے نہیں کھڑا ہوا۔ لیکن خدا کی قسم! ایک پیغمبر اور ایک دشمن خدا کی بیٹیاں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں،"(صحیح بخاری ج1ص428)
اسکا اثر یہ ہوا کہ جناب سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حیات تک حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دوسری شادی نہیں کی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا شمار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چند مقدس خواتین میں فرمایا ہے جو دنیا میں اللہ تعالی کی نیک برگزیدہ قرار پائی ہیں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔
"تمھاری تقلید کے لیے تمام دنیا کی عورتوں میں مریم علیہ السلام، خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا، فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا کافی ہیں۔"(ترمذی کتاب المناقب)
زہدورع کی یہ کیفیت تھی کہ گو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اولاد تھیں اور اسلام میں رہبانیت کا قلع قمع بھی کر دیا گیا تھا۔ اور فتوحات کی کثرت مدینہ میں مال وزر کے خزانے لٹا رہی تھی، لیکن جانتے ہو کہ اس میں جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا حصہ تھا؟ اسکا جواب سننے سے پہلے آنکھوں کو اشکبارہو جانا چاہیے۔
سیدہ عالم رضی اللہ تعالی عنہا کی خانگی زندگی یہ تھی کہ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے مشک میں پانی بھر بھر کر لانے سے سینے پر گھڑے پڑ گیے تھے گھر میں جھاڑو دیتے دیتے کپڑے چیکٹ ہو جاتے تھے، چولہے کے پاس بیٹھتے بیٹھتے کپڑے دھوئیں سے سیاہ ہو جاتے تھے، لیکن بااینہمہ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار گھر کے کاروبار کے لیے ایک لونڈی مانگی، اور ہاتھ کے چھالے دکھائے تو ارشاد ہوا کہ جان پدر! بدر کے یتیم تم سے پہلے اسکے مستحق ہیں۔(ابوداؤد)
ایک دفعہ آپ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لائے، دیکھا کہ انہوں نے ناداری سے اس قدر چھوٹا دوپٹہ اوڑھا ہے کہ سر ڈھانکتی ہیں تو پاؤں کھل جاتے ہیں اور پاؤں چھپاتی ہیں تو سربرہنہ رہ جاتا ہے۔ شعر
"یوں کی ہے اہل بیت مطہر نے زندگی
یہ ماجراے دختر خیرالانام عنہا تھا(شبلی)
صرف یہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود انکو آرائش یا زیب و زینت کی کوئی چیز نہیں دیتے تھے بلکہ اس قسم کی جو چیزیں انکو دوسرے ذرائع سے ملتی تھیں۔ انکو بھی ناپسند فرماتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انکو سونے کا ایک ہار دیا آپکومعلوم ہوا تو فرمایا"کیوں فاطمہ(رضی اللہ تعالی عنہا)! کیا لوگوں سے کہلوانا چاہتی ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی لڑکی آگ کا ہار پہنتی ہے۔"حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فورا اسکو بیچ کر اسکی قیمت سے ایک غلام خرید لیا۔
ایک دفعہ آپ کسی غزوہ سے تشریف لائے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بطور خیر مقدم کے گھر کے دروازے پر پردے لگائے، اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما کو چاندی کے کنگن پہنائے، آپ حسب معمول حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے یہاں آئے تو اس دنیوی سازوسامان کو دیکھ کر واپس گئے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو آپکی ناپسندیدگی کا حال معلوم ہوا تو پردہ چاک کر دیا اور بچوں کے ہاتھ سے کنگن نکال ڈالے، بچے آپکی خدمت میں روتے ہوئے آئے، آپ نے فرمایا "یہ میرے اہل بیت ہیں، میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ ان زخارف سے آلودہ ہوں" اسکے بدلے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے ایک عصیب کا ہار اور ہاتھی دانت کے کنگن خرید لاؤ۔(یہ تمام واقعات ابوداؤد اور نسائی میں مذکور ہیں۔)
صدق و راستی میں بھی انکا کوئی حریف نہ تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں۔(استیعاب ج2ص772)
"میں نے فاطمہ(رضی اللہ تعالی عنہا) سے زیادہ کسی کو صاف گو نہیں دیکھا۔ انکے والد صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنی ہیں۔"
حددرجہ حیادار تھیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو طلب فرمایا تو وہ شرم سے لڑکھڑاتی ہوئی آئیں۔ اپنے جنازہ پر جو پردہ کرنے کی وصیت کی تھی وہ بھی اسی بنا پر تھی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت کرتی تھیں۔ جب وہ خوردسال تھیں اور آپ مکہ معظمہ میں مقیم تھے تو عقبہ بن ابی معیط نے نماز پڑھنے کی حالت میں ایک مرتبہ آپکی گردن پر اونٹ کی اوجھ لاکر رکھ دی، قریش مارے خوشی کے ایکدوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ کسی نے جا کر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو خبر کی، وہ اگرچہ اس وقت صرف پانچ چھ برس کی تھیں لیکن جوش محبت سے دوڑی آئیں اور اوجھ ہٹا کر عقبہ کو برا بھلا کہا اور بددعائیں دیں۔(صحیح بخاری ج 1ص38،74)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے نہایت محبت کرتے تھے، معمول تھا کہ جب کبھی سفر فرماتےتو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس جاتے اور سفر سے واپس تشریف لاتے تو جو شخص سب سے پہلے بازیاب خدمت ہوتا وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہی ہوتیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا جب آپکی خدمت میں تشریف لاتیں توں آپ کھڑے ہو جاتے انکی پیشانی چومتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے۔
آپ ہمیشہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے تعلقات میں خوشگواری پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا میں کبھی کبھی خانگی معاملات کے متعلق رنجش ہو جاتی تھی۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں صلح کرادیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا، آپ گھر میں تشریف لے گئے اور صلح صفائی کرادی، گھر سے مسرور نکلے، لوگوں نے پوچھا آپ گھر میں گئے تھے تو حالت اور تھی۔ اب آپ اس قدر خوش کیوں ہیں؟ فرمایا میں نے ان دو شخصوں میں مصالحت کردی ہے جو مجھکو محبوب تر ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پر کچھ سختی کی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لیکر چلیں۔ پیچھے پیچھے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی آئے، حضرت فاطمہ نے شکایت کی، آپ نے فرمایا "بیٹی! تمکو خود سمجھنا چاہیے کہ کون شوہر اپنی بی بی کے پاس خاموش چلا آتا ہے۔"حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر اسکا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا،"اب میں تمھارے خلاف مزاج کوئی بات نہ کرونگا۔"
 

تانیہ

محفلین
حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
ابوالعاص رضی اللہ تعالی عنہ بن ربیع کی صاحبزادی ہیں۔ جو زینب رضی اللہ تعالی عنہا بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بطن سے پیدا ہوئیں، آبائی شجرہ نسب یہ ہے۔ امامہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت ابوالعاص رضی اللہ تعالی عنہ بن ربیع عبدالعزی ابن عبد شمس بن عبد مناف۔
عام حالات:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امامہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نہایت محبت تھی۔ آپ انکو اوقات نماز میں بھی جدا نہیں کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ مسجد میں امامہ رضی اللہ تعالی عنہا کو کندھے پر چڑھائے ہوئے تشریف لائے اور اسی حالت میں نماز پڑھائی، جب رکوع میں جاتے تو انکو اتار دیتے، پھر جب کھڑے ہوتے تو چڑھا لیتے اسی طرح پوری نماز ادا فرمائی،(صحیح بخاری ج1ص74وزرقانی ج3ص255) اللہ اکبر!
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ کسی نے کچھ چیزیں ہدیہ میں بھیجیں جن میں ایک زریں ہار بھی تھا۔ امامہ رضی اللہ تعالی عنہا ایک گوشہ میں کھیل رہی تھیں آپ نے فرمایا میں اپنی محبوب ترین اہل کو دونگا۔ ازواج نے سمجھا یہ شرف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حاصل ہو گا لیکن آپ نے امامہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بلا کر وہ ہار خود انکے گلے میں ڈال دیا، بعض روائتوں میں ہار کی بجائے انگوٹھی کا ذکر ہے۔ (زرقانی ج3ص225بروایت مسند ابن حنبل)اور اس میں ہدیہ بھیجنے والے کا نام بھی آ گیا ہے یعنی نجاشی،(طبقات ابن سعد ج8ص27)
نکاح:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت سن شعور کو پہنچ چکی تھیں، اس لیے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انتقال فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے امامہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کر لیا، ابوالعاص رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ابن عوام کو جو عشرہ مبشرہ میں داخل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھیرے بھائی تھے امامہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کی وصیت کی تھی۔ چنانچہ یہ تقریب ان ہی کی مرضی سے انجام پائی۔ اور نکاح بھی خود انہی نے پڑھایا یہ سن گیارہ ہجری کا واقعہ ہے۔
سن چالیس ہجری میں جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے شہادت پائی تو مغیرہ بن نوفل(عبدالمطلب کے پڑپوتے) کو وصیت کر گئے کہ امامہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کر لیں، چنانچہ مغیرہ نے تعمیل کی، اسکے قبل امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا پیغام پہنچا تھا اور انہوں نے مروان کو لکھا تھا کہ ایک ہزار دینا اس تقریب میں خرچ کیے جائیں، لیکن امامہ رضی اللہ تعالی عنہا نے مغیرہ کو اطلاع دی تو انہوں نے فورا حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی اجازت سے نکاح پڑھالیا۔(طبقات ج8ص27واسدالغابہ ج5ص400 استیعاب ج2ص728)
وفات:۔
حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہا نے مغیرہ کے ہاں وفات پائی،(اصابہ ج8ص14)
اولاد:۔
مغیرہ سے ایک لڑکا پیدا ہوا، جسکا نام یحیی تھا، لیکن بعض روائتوں میں ہے کہ امامہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
صفیہ نام، عبدالمطلب جد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر تھیں ماں کا نام ہالہ بنت وہب تھا، جو حضرت آمنہ(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ) کی ہمشیرہ ہیں، اس بنا پر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہونے کے ساتھ آپکی خالہ زاد بہن بھی تھیں، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ عم رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہالہ سے پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے وہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہ حقیقی بھائی بہن تھے۔
نکاح:۔
ابوسفیان بن حرب کے بھائی حارث سے شادی ہوئی، جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اسکے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بھائی خویلد سے نکاح ہوا۔ جس سے حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے۔
اسلام:۔
40 برس کی عمر ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام پھوپھیوں میں یہ شرف صرف حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حاصل ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا۔ اسد الغابہ میں ہے۔ یعنی "صحیح یہ ہے کہ انکے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی پھوپھی ایمان نہیں لائیں۔"(اسد الغابہ ج5ص492)
عام حالات:۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہجرت کی، غزوہ احد میں جب مسلمانوں نے شکست کھائی تو وہ مدینہ سے نکلیں، صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم سے عتاب آمیز لہجہ میں کہتی تھیں کہ"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر چل دیئے؟" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو آتے ہوئے دیکھا تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر ارشاد کیا کہ حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش نہ دیکھنے پائیں، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنایا، بولیں کہ میں اپنے بھائی کا ماجرا سن چکی ہوں لیکن خدا کی راہ میں یہ کوئی بڑی قربانی نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی لاش پر گئیں، خون کا جوش تھ اور عزیز بھائی کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے لیکن انا للہ وانا الیہ راجعون کہکر چپ ہو گئیں،(اسدالغابہ ج5ص492واصابہ ج8ص129)اور مغفرت کی دعا مانگی۔ واقعہ چونکہ نہایت درد انگیز تھا۔ اس لیے ایک مرثیہ کہا، جسکے ایک شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح مخاطب کرتی ہیں۔(اصابہ ج8ص129)
"آج آپ پر وہ دن آیا ہے جس میں آفتاب سیاہ ہو گیا ہے حالانکہ پہلے وہ روشن تھا،"
غزوہ احد کی طرح غزوہ خندق میں بھی انہوں نے نہایت ہمت اور استقلال کا ثبوت دیا، انصار کے قلعوں میں فارع سب سے مستحکم قلعہ تھا، اور حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ کا تھا، یہ قلعہ یہود بنو قریظہ کے آبادی سے متصل تھا، مستورات اسی میں تھیں اور انکی حفاظت کے لیے حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ(شاعر) متعین کر دیئے گئے تھے، یہود نے یہ دیکھ کر کہ تمام جمعیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے قلعہ پر حملہ کر دیا، ایک یہودی قلعہ کے پھاٹک تک پہنچ گیا اور قلعہ پر حملہ کرنے موقع ڈھونڈ رہا تھا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دیکھ لیا، حسان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ اتر کر قتل کر دو۔ ورنہ یہ جا کر دشمنوں کو پتہ دیگا، حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک عارضہ لاحق ہو گیا تھا۔ جس نے ان میں اس قدر جبن پیدا کر دیا تھا کہ وہ لڑائی کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے تھے اسی بنا پر اپنی معذوری ظاہر کی اور کہا کہ میں اس کام کا ہوتا تو یہاں کیوں ہوتا؟ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے خیمہ کی چوب اکھاڑ لی اور اتر کر یہودی کے سر پر اس زور سے ماری کہ سر پھٹ گیا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا چلی آئیں اور حسان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ ہتھیار اور کپڑے چھین لاؤ، حسان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا جانے دیجیئے، مجھکو اسکی کوئی ضرورت نہیں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا اچھا جاؤ اسکا سر کاٹ کر قلعہ کے نیچے پھینک دو تا کہ یہودی مرعوب ہو جائیں، لیکن یہ خدمت بھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا ہی کو انجام دینی پڑی، یہودیوں کو یقین ہوا کہ قلعہ میں بھی کچھ فوج متعین ہے۔ اسی خیال سے پھر انہوں نے حملہ کی جرأت نہیں کی۔(طبقات ابن سعدج8ص27،28واسد الغابہ ج5ص493)
سن گیارہ ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو جو صدمہ ہوا ہو گا ظاہر ہے، نہایت پردود مرثیہ لکھا، جسکا مطلع یہ ہے۔
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اے آنکھ خوب آنسو بہا۔"
یہ مرثیہ ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔(اصابہ ج8ص129)
وفات:۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سن بیس ہجری میں وفات پائی اور بقیع میں دفن ہوئیں، اس وقت تہتر برس کا سن تھا۔
فضل و کمال:۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بقول صاحبِ امامہ(اصابہ ج8ص128) کچھ حدیثیں بھی روایت کی ہیں، لیکن ہماری نظر سے نہیں گزریں اور نہ مسند میں ان حدیثوں کا پتہ چلتا ہے۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
برکتہ نام، ام ایمن کنیت، ام الظباء عرف، سلسلہ نسب یہ ہے، برکتہ بنت ثعلبہ بن عمرو بن حصن بن مالک بن سلمہ بن عمرو بن نعمان، حبشہ کی رہنے والی تھیں، اور حضرت عبداللہ(پدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی کنیز تھیں۔ بچپن سے عبداللہ کے ساتھ رہیں اور جب انہوں نے انتقال کیا تو حضرت آمنہ کے پاس رہنے لگیں، انکے بعد خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ غلامی میں داخل ہونے کا شرف حاصل کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہی نے پرورش کیا اور پرداخت کی تھی۔(اصابہ ج8ص212،213)
نکاح:۔
حارث بن حزرج(صحیح بخاری ج1ص529، میں ایمن رضی اللہ تعالی عنہا کے متعلق مذکور ہے۔وھو رجل من الانصار۔) کے خاندان میں عبید بن زید ایک شخص تھے، ام ایمن کا ان ہی کے ساتھ عقد ہوا تھا، لیکن جب انہوں نے وفات پائی تو حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ بن حارثہ جو کہ محبوب خاص تھے، نکاح پڑھایا یہ بعثت کے بعد کا واقعہ ہے۔
اسلام:۔
حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ چونکہ مسلمان ہو چکے تھے، ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا نے بھی اسلام قبول کیا۔
عام حالات:۔
جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو وہ بھی گئیں اور وہاں سے ہجرت کے بعد مدینہ واپس آئیں، غزوہ احد میں شرکت کی، اس موقع پر وہ لوگوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی تیماداری کرتی تھیں، غزوہ خیبر میں بھی شریک ہوئیں۔
سن گیارہ ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا، ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا سخت مغموم تھیں، اور رو رہی تھیں۔ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے سمجھایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خدا کے پاس بہتر چیز موجود ہے، جواب ملا"یہ خوب معلوم ہے" اور یہ رونے کا سبب بھی نہیں، رونے کا اصلی سبب یہ ہے کہ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما پر اس جواب کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ بھی انکے ساتھ مل کر زاروقطار رونے لگے،(صحیح مسلم ج2ص341)
سن تئیس ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے وفات شہادت پائی، ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا کو معلوم ہوا تو بہت روئیں، لوگوں نے کہا اب کیوں روتی ہو؟ بولیں اب اس لیے کہ اسلام کمزور پڑگیا۔(اصابہ ج8ص214بحوالہ ابن سعد)
وفات:۔
ام ایمن نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔
اولاد:۔
دو اولادیں ہوئیں، ایمن اور اسامہ رضی اللہ تعالی عنہما، ایمن رضی اللہ تعالی عنہ پہلے شوہر سے تھے، صحابی ہیں خیبر میں شہادت پائی، اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب خاص تھے۔ اور انکے والد کو بھی یہی درجہ حاصل تھا، نہایت جلیل القدر صحابی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بےانتہا محبت تھی،
فضل و کمال:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کی ہیں۔ راویوں میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بن مالک، حنش بن عبداللہ صنعائی اور ابویزید رضی اللہ تعالی عنہ مدنی شامل ہیں،
اخلاق:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکی نہایت عزت کرتے اور فرماتے تھے کہ"ام ایمن(رضی اللہ تعالی عنہا) میری ماں ہیں۔" اکثر انکے مکان پر تشریف لے جاتے، ایک مرتبہ تشریف لائے تو انہوں نے شربت پیش کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی وجہ سے متردد ہوئے، اس پر ام ایمن ناراض ہوئیں۔(صحیح مسلم ج2ص341)(حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کرنے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک قسم کا نازتھا۔ یہ خفگی اسی محبت کی خفگی تھی)(نووی شرح مسلم)
انصار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے نخلستان دیئے تھے، جب بنو قریظہ اور بنو نضیر پر فتح حاصل ہوئی تو آپ نے انصار کو انکے نخلستان واپس کرنا چروع کیئے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کے کچھ باغ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور آپ نے ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا کو عطا فرمائے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا نے انکو واپس کرنے سے انکار کر دیا، اس پر مصر رہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر انکو باغ سے دس گنا زیادہ عطا فرمایا۔(صحیح بخاری، زرقانی ج3ص337)
 

تانیہ

محفلین
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت اسد

نام و نسب :۔
فاطمہ نام، اسد بن ہاشم کی بیٹی اور عبدالمطلب جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھتیجی تھیں۔
نکاح:۔
ابوطالب بن عبدالمطلب سے نکاح ہوا، جن سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے۔
اسلام:۔
آغاز اسلام میں خاندان ہاشم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے زیادہ ساتھ دیا اور ان میں اکثر مسلمان بھی ہو گئے تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی انہی لوگوں میں تھیں، اور گو انکے شوہر ایمان نہیں لائے، تاہم وہ اور انکی بعض اولاد مشرف بہ اسلام ہوئی، جب ابوطالب کا انتقال ہوا۔ تو انکی بجائے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بازو رہیں۔
ہجرت اور عام حالات:۔
جب مسلمان ہو کر ہجرت کی اجازت ملی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، یہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا عقد ہوا۔ تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت اسد سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی آتی ہیں میں پانی بھرونگا اور باہر کا کام کرونگا۔ اور وہ چکی پیسنے اور آٹا گوندھنے میں آپکی مدد کرینگی،(اسدالغابہ ج5ص517
وفات:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں وفات پائی، بعض کا خیال ہے کہ ہجرت سےقبل فوت ہوئیں لیکن یہ صحیح نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیض اتار کر کفن دیا اور قبر میں اتر کر لیٹ گئے، لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا ابوطالب کے بعد ان سے زیادہ میرے ساتھ کسی نے سلوک نہیں کیا۔ اس بنا پر میں نے انکو قمیض پہنایا کہ جنت میں انکو حُلہ ملے اور قبر میں لیٹ گیا کہ شائد قبر میں کمی واقع ہو،(اسدالغابہ ج5ص517)
اولاد:۔
حسب ذیل اولاد چھوڑی، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ، طالب عقیل۔
اخلاق:۔
اصابہ میں ہے۔
"وہ نہایت صالح بی بی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکی زیارت کو تشریف لاتے اور انکے گھر میں (دوپہر کا قیلولہ)آرام کرتے تھے۔"(اصابہ ج8ص160)
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام الفضل رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
لبابہ نام، ام الفضل کنیت، کبری لقب، سلسلہ نسب یہ ہے۔ لبابتہ الکبری بنت الحارث بن حزن بن بحرین الہرام بن رویبہ بن عبداللہ بن ہلال بن عامر بن صعصہ، والدہ کا نام ہند بنت عوف تھا۔ اور قبیلہ کنانہ سے تھیں، لبابہ کی حقیقی اور اخیانی کئی بہنیں تھیں۔ جو خاندان ہاشم اور قریش کے دوسرے معزز گھرانوں میں منسوب تھیں، چنانچہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو، لبابہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ(عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو اور اسماء رضی اللہ تعالی عنہا حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ(برادر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ) کو منسوب تھیں، اسی بنا پر انکی والدہ(ہند بنت عوف) کی نسبت مشہور ہے کہ سسرالی قرابت میں انکا کوئی نظیر نہیں،
نکاح:۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عم محترم تھے، نکاح ہوا۔
اسلام:۔
ہجرت سے قبل مسلمان ہوئیں، ابن سعد کا خیال ہے کہ انہوں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بعد اسلام قبول کیا تھا، باقی عورتیں انکے بعد ایمان لائیں، اس لحاظ سے انکے ایمان لانے کا کا زمانہ بہت قدیم ہو جاتا ہے۔
حالات:۔
ام الفضل رضی اللہ تعالی عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج بھی کیا ہے، چنانچہ حجة الوداع میں جب لوگوں کو عرفہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صائم ہونے کی نسبت شبہہ ہوا اور انکے پاس آکر ذکر کیا، تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ دودھ بھیجا، آپ چونکہ روزہ سے نہ تھے۔ دودھ پی لیا اور لوگوں کو تشفی ہوئی۔(صحیح بخاری ج1ص267)
وفات:۔
ام الفضل رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں وفات پائی، اس وقت حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ زندہ تھے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔
اولاد:۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی اکثر اولاد انہی سے پیدا ہوئی، اور چونکہ سب بیٹے نہایت قابل تھے، اس لیے بڑی خوش قسمت سمجھی جاتی تھیں۔ فضل، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ، معبد، عبیداللہ، قثم، عبدالرحمن اور ام حبیبہ ان ہی کی یادگاریں ہیں، ان میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ اور عبید اللہ آسمانِ علم کے مہر وماہ تھے۔(حضرت فضل بن عباس بھی صحابہ میں اونچے درجہ کے عالم تھے۔ امداداللہ نور مصحیح)
فضل و کمال:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تیس حدیثیں روایت کی ہیں، راوی حسب ذیل اصحاب ہیں، عبداللہ، (تمام پسران عباس رضی اللہ تعالی عنہ) انس رضی اللہ تعالی عنہ بن مالک، عبداللہ بن حارث بن نوفل، عمیر، کریب، قابوس،
اخلاق:۔
عابدہ و زاہدہ تھیں، ہر دوشنبہ و پنج شنبہ کو روزہ رکھتی تھیں،(خلاصہ تہذیب ص495)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتی تھیں، آپ اکثر انکے ہاں جاتے اور دوپہر کے وقت آرام فرماتے تھے۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
نام معلوم نہیں، ام رومان کنیت ہے، قبیلہ کنانہ کے خاندان فراس(صحیح بخاری ج1ص85)سے تھیں، سلسلہ نسب یہ ہے، ام رومان بنت عامر بن عویمر بن عبدشمس بن عتاب بن اذینہ بن سبیع بن وہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ،
نکاح:۔
عبداللہ بن ونجرہ سے نکاح ہوا۔ اور انہی کے ہمراہ مکہ آکر اقامت کی، عبداللہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے حلیف بن گئے تھے، اس بنا پر جب انہوں نے انتقال کیا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے خود نکاح کر لیا۔
اسلام:۔
کچھ زمانہ کے بعد مکہ سے اسلام کی صدا بلند ہوئی، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ انہوں نے بھی اس صدا کو لبیک کہا۔
ہجرت:۔
ہجرت کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مدینہ کو روانہ ہو گئے تھے، لیکن انکا خاندان مکہ میں مقیم تھا۔ مدینہ پہنچے تو وہاں سے زید رضی اللہ تعالی عنہ بن حارثہ اور ابو رافع مستورات کو لانے کے لیے گئے، ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا بھی انہی کے ہمراہ مدینہ میں آئیں۔
عام حالات:۔
شعبان سن چھ ہجری میں افک کا واقعہ پیش آیا، ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے یہ نہایت مصیبت کا وقت تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیکر میکہ آئیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بالاخانے پر تھے اور ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا نیچے بیٹھی تھیں،
پوچھا کیسے آئیں؟ حضرت عائشہ نے سارا واقعہ بیان کیا۔ بولیں "بیٹی اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں جو عورت اپنے خاوند کو زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ اسکی سوتیں حسد کی وجہ سے ایسا کرتی ہیں" لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اس سے کچھ تسکین نہ ہوئی۔ اور چیخ مار کر روئیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے آواز سنی تو بالا خانے سے اتر آئے اور خود بھی رونے لگے۔ پھر ان سے کہا کہ تم اپنے گھر واپس جاؤ اسکے ساتھ ہی ام رومان کو لیکر خود بھی روانہ ہوئے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو چونکہ اس صدمہ سے بخار آ گیا تھا، دونوں نے انکو گود میں لٹایا، عصر پڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اور فرمایا"عائشہ(رضی اللہ تعالی عنہا)! اگر واقعی تم سے ایسی غلطی ہوئی تو خدا سے توبہ کرو۔" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے خود جواب نہ دیا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی جس میں انکی صاف طور پر برأت کی گئی تھی تو حضرت ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا بولیں کہ"تم اٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا"میں نہ انکی مشکور ہوں اور نہ آپکی میں صرف اپنے خدا کا شکر ادا کرتی ہوں۔"(صحیح بخای ج2ص595،699،700)
اسی سن کے اخیر میں مہمانوں کا واقعہ پیش آیا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اصحاب صفہ میں سے 3 صاحبوں کو اپنے گھر لائے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو واپسی میں دیر ہو گئی، گھر آئے تو ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا کہ مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں بیٹح رہے ہو؟ بولے تم نے کھانا نہیں کھلایا؟ جواب ملا کھانا بھیجا تھا لیکن ان لوگوں نے انکار کیا، غرض کھانا کھلایا گیا اور اس قدر برکت ہوئی کہ نہایت افراط کے ساتھ بچ رہا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ اب کتنا ہے؟ بولیں 3 گنے سے زیادہ، چنانچہ سب اٹھوا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا گیا،(صحیح بخاری ج1ص84،85)
وفات:۔
حضرت ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا نے سن نو ہجری یا اسکے بعد انتقال کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود قبر میں اترے اور انکے لیے مغفرت کی دعا کی، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سن چھ ہجری میں وفات پائی تھی، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ واقعات سے اسکی تردید ہوتی ہے۔
اولاد:۔
اوپر گزر چکا ہے کہ حضرت ام رومان رضی اللہ تعالی عنہا نے دو نکاح کیے تھے۔ پہلے شوہر سے ایک لڑکا پیدا ہوا جسکا نام طفیل تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے دو اولادیں ہوئیں۔ حضرت عبدالرحمن اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا
حسب و نسب:۔
خباط کی بیٹی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ ہیں۔ ابوخذیفہ بن مغیرہ مخزومی کی کنیز تھیں۔
نکاح:۔
یاسر عبسی سے کہ ابو خذیفہ کے حلیف تھے، نکاح ہوا، حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے تو ابوخذیفہ نے انکو آزاد کر دیا۔[اصابہ ج8ص114واستیعاب ج2ص759]
اسلام:۔
ایام پیری میں مکہ میں اسلام کی صدا بلند ہوئی، تو حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا، یاسر اور عمار رضی اللہ تعالی عنہما تینوں نے اس دعوت کو لبیک کہا، تاریخ میں ہے کہ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں نمبر تھا۔ کچھ دن اطمینانسے گزرے تھے کہ قریش کا ظلم و ستم شروع ہو گیا اور بہ تدریج بڑھتا گیا۔ چنانچہ جو ژخس جس مسلمان پر قابو پاتا طرح طرح کی دردناک تکلیفیں دیتا تھا۔ ضحرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بھی خاندان مغیرہ نے شرک پر مجبور کردیا لیکن وہ اپنے عقیدہ پر نہایت شدت سے قائم رہیں۔ جسکا صلہ یہ ملا کہ مشرکین انکو مکہ کی جلتی تپتی ریت پر لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کرتے تھے، لیکن انکے عزم و استقلال کے چھینٹوں کے سامنے یہ آتش کدہ سرد پڑ جاتا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرتے تو یہ حالت دیکھ کر فرماتے، آل یاسر! صبر کرو اسکے عوض تمھارے لیے جنت ہے،
شہادت:۔
دن بھر اس مصیبت میں رہ کر شام کو نجات ملتی تھی، ایک مرتبہ شب کو گھر آئیں تو ابوجہل نے انکو گالیاں دینی شروع کیں اور پھر انکا غصہ اس قدر تیز ہوا کہ اٹھ کر ایسی برچھی ماری کہ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا جاں بحق تسلیم ہو گئیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
بنا کردند خوش رسمے بخون خاک غلیطدن
خدا رحمت کند ایں عاشقادن پاک طنیت را۔
حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی والدہ کی اس بےکسی پر سخت افسوس ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اب حد ہو گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی تاکید فرمائی، اور کہا"خداوندا! آل یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو جہنم سے بچا" یہ واقعہ ہجرت نبوی سےقبل کا ہے، اس بنا پر حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا اسلام میں سب سے پہلے شہید ہوئیں، [استیعاب ج2ص760]
غزوہ بدر میں جب ابوجہل مارا گیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا"دیکھو تمھاری ماں کے قاتل کا خدا نے فیصلہ کر دیا۔"[اصابہ ج8ص114 بحوالہ ابن سعد]
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا
نام و نسب:۔
سہلہ یا رملہ نام، ام سلیم کنیت، غمیصاء اور میصا لقب، سلسلہ نسب یہ ہے، ام سلیم بنت ملحان بن خالد بن زید بن حرام بن جندب بن عامر بن غنم بن عدی بن بخار، ماں کا نام ملیکتہ[اصابی ج8ص244] بنت مالک بن عدی بن زید متاة تھا۔ آبائی سلسلہ سے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا، سلمی بنت زید کی پوتی تھیں۔ سلمٰی عبدالمطلب جد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ تھیں اسی بناء پر ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ مشہور ہیں۔
نکاح:۔
مالک بن نضر سے نکاح ہوا۔
اسلام:۔
مدینہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں، مالک چونکہ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہنا چاہتے تھے اور ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا تبدیل مذہب پر اصرار کرتی تھیں اس لیے دونوں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور مالک ناراض ہو کر شام چلے گئے، اور وہیں انتقال کیا، ابوطلحہ نے جو اسی قبیلے سے تھے نکاح کا پیغام دیا لیکن ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کو اب بھی رہی عذر تھا یعنی ابو طلحہ مشرک تھے اس لیے وہ ان سے نکاح نہیں کر سکتی تھیں۔
غرض ابوطلحہ نے کچھ دن غور کر کے اسلام کا اعلان کیا اور ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کے سامنے آکر کلمہ پڑھا، حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ اب تم انکے ساتھ میرا نکاح کردو[اصابہ بحوالہ ابن سعد] ساتھ ہی مہر معاف کر دیا اور کہا"میرا مہر اسلام ہے" حضرت انس کہا کرتے تھے کہ یہ نہایت عجیب و غریب مہر تھا۔
عام حالات:۔
نکاح کے بعد حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت عقبہ میں شرکت کی اور چند ماہ کے بعد جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا اپنے صاحبزادے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کو لیکر حضور میں آئیں اور کہا"انس کو آپکی خدمت کے لیے پیش کرتی ہوں، یہ میرا بیٹا ہے آپ اسکے لیے دعا فرمائیں" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی،[صحیح مسلم ج2ص352وصحیح بخاری ج2ص944]
اسی زمانہ میں آپ نے مہاجرین و انصار میں مواخاة کی، اور یہ مجمع انہی کے مکان میں ہوا۔[بخاری]
غزوات میں حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے نہایت جوش سے حصہ لیا، صحیح مسلم میں ہے،[مسلم ج2ص103]
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا اور انصار کی چند عورتوں کو غزوات میں ساتھ رکھتے تھے، جو لوگوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔"
غزوہ احد میں جب مسلمانوں کے جمے ہوئے قدم اکھڑ گئے تھے، وہ نہایت مستعدی سے کام کر رہی تھیں، صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ"میں نے حضرت عائشہ و حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہما کو دیکھا کہ مشک بھر بھر کر لاتی تھیں، اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں، مشک خالی ہو جاتی تھی تو پھر جا کر بھر لاتی تھیں۔ "[صحیح بخاری کتاب المغازی ج2ص581]
سن پانچ ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کیا، اس موقع پر حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے ایک لگن میں مالیدہ بنا کر حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ بھیجا اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا کہ اس حقیر ہدیہ کو قبول فرمائیں۔[صحیں مسلم ج1ص55]
سن سات ہجری میں خیبر کا واقعہ ہوا، حضرت ام سلیم اس میں شریک تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کیا۔ تو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا ہی نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کے لیے سنوارا تھا[ایضاًص546]
غزوہ حنین میں وہ ایک خنجر ہاتھ میں لیے تھیں۔ ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا خنجر لیے ہیں آپ نو پوچھا کیا کروگی؟بولیں"اگر کوئی مشرک قریب آئے گا تو اس سے اسکا پیٹ چاک کر دونگی۔"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سنکر مسکرا دیئے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے جو لوگ فرار ہو گئے ہیں انکے قتل کا حکم دیجیئے، ارشاد ہوا"خدا نے خود انکا انتظام کر دیا ہے۔"[ایضاًج2ص103]
وفات:۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کا سال اور مہینہ معلوم نہیں لیکن قرینہ یہ ہے کہ انہوں نے خلافت راشدہ کے ابتدائی زمانہ میں وفات پائی ہے۔
اولاد:۔
جیسا کہ اوپر معلوم ہوا کہ انہوں نے دو نکاح کیے تھے، پہلے شوہر سے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے دو لڑکے پیدا ہوئے ابو عمیر اور عبداللہ، ابوعمیر صغیر سنی میں فوت ہو گئے اور عبداللہ سے نسل چلی۔
فضل و کمال:۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا سے چند حدیثیں مروی ہیں جنکو حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، زید بن ثابت، ابوسلمہ اور عمروبن عاصم نے ان سے روایت کیا ہے لوگ ان سے مسائل دریافت کرتےتھے، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ میں ایک مسئلہ میں اختلاف ہوا تھا تو ان بزرگوں نے ان ہی کو حکم مانا۔[مسند ج6ص430،431]
انکو مسائل کے پوچھنے میں کچھ عار نہ تھا۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں۔ اور کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا حق بات سے نہیں شرماتا کیا عورت پر خواب میں غسل واجب ہے، ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا یہ سوال سن رہی تھیں، بیساختہ ہنس پڑیں کہ تم نے عورتوں کی بڑی فضیحت کی؟ بھلا کہیں عورتوں کو بھی ایسا ہوتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیوں نہیں؟ ورنہ بچے ماں کے ہمشکل کیوں ہوتے ہیں۔[ایضاًص302،692و376ج6]
اخلاق:۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا میں بڑے بڑے فضائل اخلاق جمع تھے، جوش ایمان کا یہ عالم تھا کہ اپنے پہلے شوہر سے صرف اس بنا پر علہدگی اختیار کی کہ وہ اسلام قبول کرنے پر رضامند نہ تھے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نکاح کا پیغام دیا تو محض اس وجہ سے رد کر دیا کہ وہ مشرک تھے اس موقع پر انہوں نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جس خوبی سے اسلام کی دعوت دی وہ سننے کے قابل ہے مسند احمد میں ہے۔
"ام سلیم(رضی اللہ تعالی عنہا) نےکہا ابو طلحہ!(رضی اللہ تعالی عنہ) تم جانتے ہو کہ تمھارا معبود زمین سے گاہ ہے؟ انہوں نے جوابدیا ہاں، حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا بولیں تو پھر تمکو درخت کی پوجا کرتے شرم نہیں آتی؟ "[اصابہ ج8ص243بحوالہ مسند]
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ پر اس تقریر کا اتنا اثر ہوا کہ فورا مسلمان ہو گئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حددرجہ محبت کرتی تھیں، آپ اکثر انکے مکان پر تشریف لے جاتے اور دوپہر کو آرام فرماتے تھے۔ جب بستر سے اٹھتے تو وہ آپکے پسینے اور ٹوٹے ہوئے بالوں کو ایک شیشی میں جمع کرتی تھیں۔[مسندج6ص376]
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشک سے منہ لگا کر پانی پیا تو وہ اٹھیں اور مشک کا منہ کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دہن مبارک مس ہوا ہے۔[صحیح مسلم ج2ص341]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان سے خاص محبت تھی، صحیح مسلم میں ہے۔
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے علاوہ اور کسی عورت کے یہاں نہیں جاتے تھے لیکن ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا مستثنی تھیں، لوگوں نے دریافت کیا، تو فرمایا مجھے ان پر رحم آتا ہے، انکے بھائی(حرام رضی اللہ تعالی عنہ) نے میرے ساتھ رہ کر شہادت پائی ہے۔"
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپ اکثر اوقات حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان پر تشریف لے جاتے تھے۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نہایت صابر اور مستقل مزاج تھیں، ابو عمیر انکا بہت لاڈلا و پیارا بیٹا تھا لیکن جب اس نے انتقال کیا تو نہایت صبر سے کام لیا اور گھر والوں کو منع کیا کہ ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اسکی خبر نہ کریں، رات کو ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو انکو کھانا کھلایا اور نہایت اطمینان سے بستر پر لیٹے۔[1] کچھ رات وقت گزرنے پر ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا، لیکن عجیب انداز سے کیا۔ بولیں اگر کوئی شخص تمکو عاریتہً ایک چیز دے اور پھر اسکو واپس لینا چاہے تو کیا تم اسکو دینے سے انکار کرو گے؟ ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کبھی نہیں، تو کہا کہ اب تمکو اپنے بیٹے کی طرف سے صبر کرنا چاہیے۔ ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ سنکر غصہ ہوئے کہ پہلے سے کیوں نہ بتلایا۔ صبح اٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور سارا واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا، خدا نے اس رات تم دونوں کو بڑی برکت دی۔[اس روایت میں یہاں پر یہ لفظ بھی ہیں کہ انہوں نے وظیفہ زوجیت یہ ادا کیا]
اسی طرح ایک مرتبہ ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے ہیں کچھ بھیج دو، حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے چند روٹیاں ایک کپڑے میں لپیٹ کر حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کو دیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر پیش کردیں، آپ مسجد میں تھے اور صحابہ کرام بھی بیٹھے ہوئے تھے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھ کر فرمایا ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے تمکو بھیجا ہے؟بولے جی ہاں، فرمایا کھانے کے لیے؟ کہاں ہاں، آپ تمام صحابہ کولیکر ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان پر تشریف لائے، ابوطلحہ گھبرا گئے، اور ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا اب کیا کیا جائے؟ کھانا نہایت قلیل ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجمع کے ساتھ تشریف لائے ہیں۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے نہایت استقلال کے ساتھ جوابدیا، کہ ان باتوں کو خدا اور سول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے، تو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا نے وہی روٹیاں اور سالن سامنے رکھدیا، خدا کی شان اس میں بڑی برکت ہوئی اور سب لوگ کھا کر سیر ہو گئے۔[صحیح بخاری ج2ص810]
حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کے فضائل و مناقب بہت ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں جنت میں گیا تو مجھکو آہٹ معلوم ہوئی، میں نے کہا کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ انس رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ غمیصاء(یہ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کا اصل نام ہے) بنت ملحان ہیں۔[صحیح مسلم ج2ص342]
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالی عنہا
نام و نسب:۔
نسیبہ نام، ام عمارہ کنیت، قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے ام عمارہ بنت کعب بن عمرو بن عوف بن مبذول بن عمرو بن غنم بن مازن بن نجار۔
نکاح:۔
پہلا نکاح زید بن عاصم سے ہوا۔ پھر عربہ بن عمرو کے عقد نکاح میں آئیں۔
اسلام:۔
اور انہی کے ساتھ بیعت عقبہ میں شرکت کی، سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ بیعت عقبہ میں 73 مرد اور 2 عورتیں شامل تھیں۔حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی انہی میں شمار ہے۔
غزوات:۔
غزوہ احد میں شریک ہوئیں اور نہایت پامردی سے لڑیں، جب تک مسلمان فتح یاب تھے۔ وہ مشک میں پانی بھر کر لوگوں کو پلاتی رہیں لیکن جب شکست ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور سینہ سپر ہو گئیں، کفار جب آپ پر بڑھتے تو تیر اور تلوار سے روکتی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خود بیان ہے کہ میں احد میں انکو اپنے داہنے و باہیں برابر لڑتے ہوئے دیکھتا تھا، ابن قمیہ جب ڈراتا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تو حضرت عمارہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بڑھکر روکا چنانچہ کندھے پر زخم آیا۔ اور غار پڑ گیا انہوں نے بھی تلوار ماری لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا، اس لیے کارگر نہیں ہوئی۔[ابن ہشام ص84] بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے ایک کافر کو قتل کیا تھا۔ احد کے بعد بیعت الرضوان، خیبر اور فتح مکہ میں بھی شرکت کی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں یمامہ کی جبگ پیش آئی مسیلمہ کذاب سے جو مدعی نبوت تھا، مقابلہ تھا، حضرت عمارہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے ایک لڑکے حبیب کو لیکر حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ روانہ ہوئیں، اور جب مسیلمہ نے انکے لڑکے کو قتل کر دیا تو انہوں نے منت مانی کہ"یا مسیلمہ قتل ہو گا یا وہ خود جان دے دیں گے"یہ کہکر تلوار کھینچ لی اور میدان جنگ کیطرف روانہ ہوئیں اور پامردی سے مقابلہ کیا اور 12 زخم کھائے اور ایک ہاتھ کٹ گیا۔ اس جنگ میں مسیلمہ بھی مارا گیا۔
وفات:۔
اسکے بعد معلوم نہیں کب تک زندہ رہیں۔
اولاد:۔
وفات کے وقت چار اولادیں یادگار چھوڑیں، حبیب، عبداللہ پہلے شوہر سے اور تمیم، خولہ دوسرے شوہر سے۔
فضل و کمال:۔
چند حدیثیں روایت کی ہیں جو عباد بن تمیم(پوتے) لیلے(کنیز)عکرمہ، حارث ابن کعب اور ام سعد بنت سعد بن ربیع سے مروی ہیں۔
اخلاق:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انکو جو محبت تھی اسکا اصلی منظر تو غزوہ احد میں نظر آتا ہے لیکن اور بھی چھوٹے طھوٹے واقعات ہیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکے مکان پر تشریف لائے اور انہوں نے کھانا پیش کیا، ارشاد ہواتم بھی کھاؤ، بولیں میں روزہ سے ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا نوش فرمایا اور فرمایا کہ روزہ دار کے پاس اگر کچھ کھایا پیا جائے تو اس پر فرشتے درود بھیجتے ہیں۔
جوش اسلام کا نظارہ بھی اوپر کے واقعات سے ہو سکتا ہے۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا
نام و نسب:۔
نسیبہ بنت حارث نام، انصار کے قبیلہ بی مالک بن النجار سے تھیں۔[طبقات ابن سعدج8ص321،322]
اسلام:۔
ہجرت سے قبل مسلمان ہوئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو انصار کی عورتوں کو ایک مکان میں بیعت کے لیے جمع کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دروازہ پر بھیجا اور ان شرائط پر بیعت لیں کہ شریک نہ کرینگی، چوری اور زنا سے بچیں گی، اولاد کو قتل نہ کرینگی، کسی پر بہتان نہ باندھیں گی، اچھی باتوں سے انکار نہ کرینگی، عورتوں نے یہ سب تسلیم کیا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر کی طرف ہاتھ بڑھایا، اور عورتوں نے اپنے اپنے ہاتھ باہر نکالے جو بیعت کی علامت تھی اسکے بعد حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا کہ اچھی باتوں سے انکار کرنے کے کیا معنی ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نوحہ و بین نہ کرنا،[مسندج5ص409]
غزوات اور عام حالات:۔
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا عہد رسالت کے سات معاہدوں میں شریک ہوئیں جن میں وہ مردوں کےلیے کھانا پکاتیں انکے سامان کی حفاظت کرتیں مریضوں کی تیماداری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔[صحیح مسلم ج2ص105]
سن آٹھ ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال ہوا تو حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا اور چند عورتوں نے انکو غسل دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو نہلانے کی ترکیب بتلائی۔[صحیح بخاری ج1ص168و مسلم ج1ص346،347]
خلافت راشدہ کے زمانے میں انکا ایک لڑکا کسی غزوہ میں شریک تھا، بیمار ہو کر بصرہ آیا، حضرت ام عطیہ مدینہ میں تھیں، خبر ملی تو نہایت عجلت سے بصرہ روانہ ہوئیں لیکن پہنچنے کے ایکدودن قبل وہ وفات پا چکا تھا، یہاں آکر انہوں نے بنو حلف کے قصر میں قیام کیا، تیسرے روز انہوں نے خوشبو منگا کر ملی اور کہا شوہر کے علاوہ اور کسی کے لیے 3 دن سے زیادہ سوگ نہیں کرنا چاہیے۔[صحیح بخاری ج1ص170، باب احد والمراَة علی غیر زوجہا]
اسکے بعد بصرہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔[اسد الغابہ ج5ص603]
وفات:۔
وفات کی تاریخ اور سن معلوم نہیں اور نہ اولاد کی تفصیل کا علم ہے۔
فضل و کمال:۔
چند حدیثیں روایت کی ہیں، راویوں میں حسب ذیل اصحاب ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ، ابن سیرین، حفصہ بنت سیرین، اسمعیل بن عبدالرحمن بن عطیہ عبدالملک ابن عمیر، علی بن الاقمر، ام شراحیل،
صحابہ و تابعین ان سے میت کے نہلانے کا طریقہ سیکھتے تھے۔[تہذیب ج12ص455 اصابہ ج8ص259]
اخلاق:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتی تھیں، اور آپ بھی ان سے محبت کرتے تھے، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے پاس صدقہ کی ایک بکری بھیجی تو انہوں نے اسکا گوشت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس روانہ کیا، آپ گھر میں تشریف لائے تو کھانے کے لیے مانگا، بولیں اور تو کچھ نہیں ہے البتہ جو بکری آپ نے نسیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس سے بھیجی تھی اسکا گوشت رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا لاؤ، کیونکہ وہ مستحق کے پاس پہنچ چکی۔[صحیح مسلم ج1ص401]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپکے اعزہ و اقارب سے بھی خاص تعلقات تھے چنانچہ ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان میں قیلولہ فرماتے تھے۔[اصابہ ج8ص259]
احکام نبوی کی پوری پابندی کرتی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت میں نوحہ کی ممانعت کی تھی، اس پر انہوں نے ہمیشہ عمل کیا۔ چنانچہ بیعت ہی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ فلاں خاندان کے لوگ میرے ہاں رہ چکے ہیں اس لیے مجھکو بھی انکے ہاں جا کررہنا ضروری ہے، اپ نے اس خاندان کو مستثنی کر دیا۔[مسندج6ص407 و مجمع بحار الانوار ج2ص114] بعض روایات میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو کوئی جواب نہیں دیا اور جن روایات سے ثابت ہے کہ حضور نے انکو مستثنی کر دیا۔ انکا مطلب یہ ہے کہ یہ استثناء حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے خاص تھا، ورنہ اصلی مسئلہ کہ نوحہ جائز نہیں ہے اپنی جگہ پر ثابت ہے لڑکے کی وفات اور اس پر سوگ کرنے کا حال ابھی گزر چکا ہے۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت ربیع بنت معوذبن عفراء
نام و نسب:۔
ربیع نام۔ قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے۔ربیع بنت ،معوذ بن حارث بن رفاعہ بن حارث بن سواد بن مالک بن غنم بن مالک بن نجار، والدہ کا نام ام تزید تھا۔ جو قیس بن زعورا کی بیٹی تھی، حضرت ربیع رضی اللہ تعالی عنہا اور انکے تمام بھائی عفراء کی اولاد مشہور ہیں، عفراء ان لوگوں کی دادی رھیں۔[تہذیب التہذیب ج12ص418]
اسلام:۔
ہجرت کے قبل مسلمان ہوئیں۔
نکاح:۔
ایاس بن بکر لیثی سے شادی ہوئی، صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکے گھر تشریف لائے اور بستر پر بیٹھ گئے، لڑکیاں دف بجا بجا کر شہدائے بدر کے مناقب میں اشعار پڑھ رہی تھیں، اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی کچھ اشعار پڑھے۔ جن میں ایک مصرعہ یہ تھا،
"اور ہم میں وہ نبی ہے جو کل کی بات جانتا ہے،"(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو وحی کے بغیر کل کس علم غیب نہیں تھا۔ امداداللہ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ نہ کہو(اور اسکے علاوہ جو کہتی تھیں وہ کہو)[صحیح بخاری ج2ص570]
عام حالات:۔
غزوات میں شرکت کرتی تھیں زخمیوں کا علاج کرتیں لوگوں کو پانی پلاتیں اور مقتولوں کو مدینہ پہنچاتیں اور فوج کی خدمت کرتی تھیں،[مسندج6ص358]
غزوہ حدیبیہ میں بھی موجود تھیں، جب بیعت رضوان کا وقت آیا تو انہوں نے بھی آکر بیعت کی۔
سن پینتیں ہجری میں اپنے شوہر سے علہدہ ہوئیں، شرط یہ تھی کہ جو کچھ میرے پاس ہے اسکو لیکر مجھ سے دستبردار ہو جاؤ، چنانچہ اپنا تمام سامان انکو دےدیا، صرف ایک کرتی رہنے دی لیکن شوہر کو یہ بھی گوارہ نہ ہوا، جا کر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا، چونکہ ربیع نے کل چیزوں کی شرط کی تھی، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تمکو اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے۔ اور شوہر سے فرمایا کہ تم انکے جوڑا باندھنے کی دھجی تک لے جا سکتےہو،[اصابہ ج8ص80بحوالہ ابن سعد]
وفات:۔
حضرت ربیع رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کا سال نا معلوم ہے۔
اولاد:۔
اولاد میں محمد مشہور ہیں۔
فضل و کمال:۔
حضرت ربیع سے اکیس حدیثیں مروی ہیں، علمی حیثیت سے انکا یہ پایہ تھا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔[مسندج6ص358] راویوں میں بہت سے لوگ ہیں مثلاً عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت انس بن مالک، سلیمان بن یسار، ابوسلمہ بن عبدالرحمن نافع، عبادہ بن الولید، خالد بن ذکوان، عبداللہ بن محمد بن عقیل، ابوعبیدہ بن محمد(حضرت عماررضی اللہ تعالی عنہ، ابن یاسر کے پوتے)محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان،
اخلاق:۔
جوش ایمان اس سے ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ اسماء بنت مخربہ جو ابو ربیعہ مخزومی کی بیوی تھی، اور عطر بیچتی تھی چند عورتوں کے ساتھ ربیع رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر آئی اور انکا نام ونسب دریافت کیا، چونکہ ربیع رضی اللہ تعالی عنہا کے بھائی نے ابوجہل کو بدر میں قتل کیا تھا، اور اسماء قریش کے قبیلے سے تھی بولی،"تو تم ہمارے سردار کے قاتل کی بیٹی ہو؟"حضرت ربیع رضی اللہ تعالی عنہا کو ابوجہل کی نسبت سردار کا لفظ نہایت ناگوار ہوا۔ اور بولیں"سردار نہیں بلکہ غلام کے قاتل کی بیٹی ہوں۔" اسماء کو ابوجہل کی شان میں یہ گستاخی پسند نہ آئی، جھنجھلا کر کہا مجھکو تمھارے ہاتھ سودا بیچنا حرام ہے۔حضرت ربیع رضی اللہ تعالی عنہا نے برجستہ کہا، مجھکو تم سے کچھ خریدنا حرام ہے، کیونکہ تمھارا عطر، عطر نہیں بلکہ گندگی ہے۔[اسدالغابہ ج5ص456]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بےانتہا محبت تھی، آپ انکے گھر اکثر تشریف لےجاتے تھے۔[مسندج6ص352]
ایک مرتبہ آپ تشریف لائے اور ان سے وضو کے لیے پانی مانگا۔[ابوداؤدج1ص13] ایک مرتبہ دو طباقوں میں چھوہارے اور انگور لیکر گئیں، تو آپ نے زیور یا سونا مرحمت فرمایا۔[مسندج6ص359]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاایک مرتبہ کسی نے حلیہ پوچھا تو بولیں"بس یہ سمجھ لو کہ آفتاب طلوع ہو رہا ہے۔"[اسد الغابہ ج5ص452]
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا
نام و نسب:۔
فاختہ نام، ام ہانی کنیت، ابوطالب عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر تھیں ماں کا نام فاطمہ بنت اسد تھا، اس بنا پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ اور ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا حقیقی بھائی بہن ہیں۔
نکاح:۔
ہبیرہ بن عمرو(بن عائد)مخزومی سے نکاح ہوا۔
اسلام:۔
سن آٹھ ہجری میں جب مکہ فتح ہوا۔ مسلمان ہوئیں، آپ نے اس روز انکے مکان میں غسل کیا تھا، اور چاشت کی نماز پڑھی تھی، انہوں نے اپنے دو عزیزوں کو جو مشرک تھے پناہ دیدی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکو پناہ دی،[مسندج6ص342] انکا شوہر ہبیرہ فتح مکہ میں نجران بھاگ گیا تھا،
وفات:۔
ترمذی کی روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد مدت تک زندہ رہیں تہذیب میں ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں انتقال کیا۔
اولاد:۔
حسب ذیل اولاد چھوڑی، عمرو، ہانی ، یوسف، جعدہ۔
فضل و کمال:۔
حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا سے چھیالیس حدیثیں مروی ہیں، جنکے راوی حسب ذیل ہیں، جعدہ، یحیی، ہارون، ابومرہ، ابوصالح، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، عبداللہ بن حارث بن نوفل، ابن ابی لیلی، مجاہد، عروہ، عبداللہ بن عیاشی، شعبی، عطاء، کریب، محمد بن عقبہ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی کبھی مسائل دریافت کرتی تھیں، جن سے انکی فقہ دانی کا پتہ چلتا ہے، ایک مرتبہ اس آیت کی تفسیر پوچھی تھی، وتاتون فی نادیکم النکر،[مسندج6ص341]
اخلاق:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انکو جو عقیدت تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ آپ فتح مکہ کے زمانہ میں انکے مکان پر تشریف لائے اور شربت نوش فرمایا، اسکے بعد انکو دیاانہوں نے کہا میں روزہ سے ہوں لیکن آپکا جھوٹا واپس نہیں کرنا چاہتی ہوں ، بعض روایتوں میں میں ہے کہ انہوں نے پی لیا اور پھر خود ہی عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں روزہ سے ہوں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر روزہ رمضان کی قضا کا ہے تو کسی دوسرےدن یہ روزہ رکھ لینا اور اگر محض نفل ہے تو اسکی قضا کرنے نہ کرنے کا تمکو اختیار ہے۔[ایضاً ص341،342،343،344]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ فرمایا، ام ہانی! بکری لےلو اور یہ بڑی خیر برکت کی چیز ہے۔[ایضاً]
ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ میں اب بوڑھی ہو گئی ہوں اور چلنے پھرنے میں ضعف معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے ایسا عمل بتایا جائے جسکو بیٹھے بیٹھے انجام دے سکوں، آپ نے ایک وظیفہ بتلایا فرمایا کہ سبحان اللہ ایک سو مرتبہ الحمد اللہ ایک سو مرتبہ، اللہ اکبر ایک سو مرتبہ اور لاالہ الااللہ ایک سو مرتبہ کہہ لیا کرو۔[ایضاًص344]
 

تانیہ

محفلین
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت خطاب
نام و نسب:۔
فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نام، ام جمیل کنیت، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہمشیرہ ہیں۔
نکاح:۔
حضرت سعید رضی اللہ تعالی عنہ بن زید سے نکاح ہوا۔
اسلام:۔
اور انہی کے ساتھ مسلمان ہوئیں۔ یہ اوأل اسلام کا واقعہ ہے۔ انکے کچھ دنوں کے بعد ہی بھائی، یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوئے، اور انہی کے سبب سے ہوئے، اسکا قصہ جیسا کہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا رہے تھے راہ میں ایک مخزومی صحابی سے ملاقات ہوئی، پوچھا کہ تم نے اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا مذہب اختیار کر لیا؟ بولے ہاں، لیکن پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمھارے بہنوئی اور بہن نے بھی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا مذہب قبول کر لیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سیدھے بہن کے گھر پہنچے، دروازہ بند تھا اور وہ قرآن پڑھ رہی تھیں، انکی آہٹ پا کر چپ ہو گئیں اور قرآن کے اجزاء چھپا دیئے لیکن آواز انکے کان میں پڑ چکی تھی، پوچھا کہ یہ آواز کیا تھی؟ انہوں نے کہا کچھ نہیں ، بولے میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو۔ یہ کہکر بہنوئی سے دست و گریباں ہو گئے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بچانے کو آئیں تو انکی بھی خبر لی، بال گھسیٹے اور اس قدر مارا کہ انکا بدن لہو لہان ہو گیا۔ اسی حالت میں انکی زبان سے نکلا۔ عمر! جو ہو سکے کرو لیکن اب اسلام دل سے نہیں نکل سکتا ان لفاظ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دل پہ خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا، انکے بدن سے خون جاری تھا، یہ دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی، فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھکو بھی سناؤ، فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے قرآن کے اجزاء لا کر سامنے رکھ دیئے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ انکو پڑھتے جاتے تھے اور ان پر رعب چھاتا جا رہا تھا یہاں تک کہ ایک آیت پر پہنچ کر پکار اٹھے۔
اشھد ان لاالہ الا اللہ واشھد ان محمدًا رسول اللہ،[اصابہ ج8ص161واسدالغابہج4ص54]
ہجرت:۔
اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت کی۔
وفات:۔
وفات کا سن اور مہینہ معلوم نہیں۔
اولاد:۔
ایک لڑکا چھوڑا، عبدالرحمن نام تھا،
 
Top