تانیہ
محفلین
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بنت عمیس
نام و نسب:۔اسماء نام، قبیلہ خثعم سے تھیں، سلسلہ نسب یہ ہے، اسماء بنت عمیس معد بن حارث بن تیم بن کعب بن مالک بن قحافہ بن عامر بن ربیعہ بن عامر بن معاویہ بن مالک ابن بشیر بن وہب اللہ بن شہران بن عفرس بن حلف بن اقبل(خثعم) ماں کا نام ہند(خولتہ) بنت عوف تھا۔ اور قبیلہ کنانی سے تھیں، اسی بناپر حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا(ام المومنین) اور اسماء رضی اللہ تعالی عنہا اخیا فی بہنیں تھیں۔
نکاح:۔
حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بڑے بھائی تھے اور دس برس بڑے تھے نکاح ہوا۔
اسلام:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خانہ ارقم میں مقیم ہونے سے قبل مسلمان ہوئیں، حضرت جعفر نے بھی اسی زمانہ میں اسلام قبول کیا تھا،[سیرت ابن ہشام ج1ص136، اصابہ ج8ص9بحوالہ ابن سعد]
عام حالات:۔
حبشہ کی ہجرت کی، اور کئی سال تک مقیم رہیں، سن سات ہجری میں جب خیبہ فتح ہوا، تو مدینہ آئیں ، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر گئیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی آ گئے، پوچھا یہ کون ہیں، جواب ملا اسماء بولے "بولے ہاں وہ حبش والی وہ سمند والی" حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا ہاں وہی، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ہمکو تم پر فضیلت ہے، اس لیے کہ ہم مہاجر ہیں، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کو یہ فقرہ سنکر غصہ آیا، بولیں،" کبھی نہیں! تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ بھوکوں کو کھلاتے اور جاہلوں کر پڑھاتے تھے لیکن ہماری حالت بالکل جدا نہ تھی، ہم نہایت دور دراز مقام میں صرف خدا اور رسول کی خوشنودی کے لیے پڑے رہے اور بڑی بڑی تکلیفات اٹھائیں" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکان پر تشریف لائے تو انہوں نے سارا قصہ بیان کیا، ارشاد ہوا،
"انہوں نے ایک ہجرت کی اور تم نے دو ہجرتیں کیں۔ اس لیے تمکو زیادہ فضیلت ہے۔"حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا اور دوسرے مہاجرین کو اس سے اس درجہ مسرت ہوئی کہ دنیا کی تمام فضیلتیں ہیچ معلوم ہوتی تھیں، مہاجرین حبشہ جوق درجوق حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آتے اور یہ واقعہ دریافت کرتے تھے۔[صحیح بخاری ج2ص607،608]
سن پانچ ہجری غزوہ موتہ میں حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ نے شہادت پائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی(حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی دیکھا کہ حضور آبدیدہ تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ غمگین کیوں ہیں۔ کیا جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے، حضور نے ارشاد فرمایا کہ ہاں وہ شہید ہو گئے ہیں، بچوں کو نہلا دھلا کر ہمراہ لے گئی تھی، حضور نےبچوں کو اپنے پاس بلایا اور میں چیخ اٹھی)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل بیت کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا، جعفر(رضی اللہ تعالی عنہ) کے بچوں کے لیے کھانا پکاؤ۔ کیونکہ وہ رنج و غم میں مصروف ہیں۔[مسندج6ص370]
اسکے بعد مسجد میں جا کر غم زدہ بیٹھے، اور اس خبر کا اعلان کیا، اسی حالت میں ایک شخص نے آکر کہا کہ جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کی مستورات ماتم کر رہی ہیں اور رو رہی ہیں۔ آپ نے انکو منع کرا بھیجا، وہ گئے اور واپس آ کر کہا کہ میں نے منع کیا لیکن وہ باز نہیں آتیں۔ آپ نے دوبارہ بھیجا ، وہ دوبارہ گئے اور واپس آکر عرض کی کہ ہم لوگوں کی نہیں چلتی، آپ نے ارشاد فرمایا"تو انکے منہ میں خاک بھردو" یہ واقعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے صحیح بخاری میں منقول ہے، صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس شخص سے کہا کہ"خدا کی قسم تم یہ نہ کرو گے(منہ میں خاک ڈالنا) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف سے نجات نہ ملے گی۔"[صحیح بخاری ج2ص611]
تیسرے[مسندج6ص369] دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر تشریف لائے، اور سوگ کی ممانعت کی،[جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اسکو چار ماہ دس دن سوگ کرنا چاہیے، مسئلہ یہی ہے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کی اس روایت سے شبہہ میں نہ پڑنا چاہیے، اس لیے کہ یہ روایت تمام صحیح احادیث کے خلاف ہے اور شاذ ہے۔ اور اجماع اسکے مخالف۔ امام طحاوی کے نزدیک یہ روایت منسوخ ہے اور امام بیہقی کے نزدیک منقطع ہے، ملاحظہ ہو فتح الباری ج9ص529 انکے سوا اور بہت سے جوابات ہیں جنکی تفصیل کا موقع یہاں نہیں ہے۔] تقریبا چھ مہینے کے بعد شوال سن آٹھ ہجری میں جو غزوہ حنین کا زمانہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے انکا نکاح پڑھا دیا۔[اصابہ ج8ص9] جسکے دو برد بعد ذوقعدہ سن دس ہجری میں محمد بن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے، اس وقت حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا حج کی غرض سے مکہ آئیں تھیں چونکہ محمد ذوالحلیفہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے دریافت کرایا کہ میں کیا کروں؟ ارشاد ہوا نہا کر احرام باندھیں۔[صحیح مسلم ج1ص385،394]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں حضرت ام سلمہ اور اسماء رضی اللہ تعالی عنہما نے ذات الجنب تشخیص کر کے دوا پلانی چاہی، چونکہ گوارہ نہ تھی، آپ نے انکار فرمایا، اسی ممانعت میں غشی طاری ہو گئی، انہوں نے منہ کھول کر پلادی، افاقہ کے بعد آپکو احساس ہوا تو فرمایا، یہ مشورہ اسماء(رضی اللہ تعالی عنہا) نے دیا ہو گا۔ وہ حبشہ سے اپنے ساتھ یہی حکمت لائی ہیں، عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ سبکو دوا پلائی جائے چنانچہ تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کو دوا پلائی گئی۔[صحیح بخاری ج2وطبقات ج2قسم2ص31،32 و مسند ج6ص438]
سن تیرہ ہجری میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے وفات پائی تو وصیت کی کہ اسماء غسل دیں۔[اصابہ ج8ص9بحوالہ ابن سعد] ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح عقد میں آئیں، محمد بن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بھی ساتھ آئے اور حضرت علی کے آغوش تربیت میں پرورش پائئ، ایک دن عجیب لطیفہ ہوا، محمد بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ اور محمد بن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے باہم فخراً کہا کہ ہم تم سے بہتر ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے باپ تمھارے باپ سے بہتر تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ کرو۔ بولیں کہ تمام نوجوانوں پر جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کو اور تمام بوڑھوں پر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو فضیلت حاصل ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بولے "پھر ہمارے لیے کیا رہا؟"[اصابہ ج8ص9] سن 38 ہجری میں محمد بن ابوبکر مصر میں قتل ہوئے اور گدھے کی کھال میں انکی لاش جلائی گئی حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے اس سے تکلیف دہ واقعہ کیا ہو سکتا تھا؟ انکو سخت غصہ ایا، لیکن نہایت صبر سے کام لیا، اور مصلے پر کھڑی ہو گئیں۔[ایضاً]
وفات:۔
سن چالیس ہجری میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے شہادت پائی اور انکے بعد حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی انتقال ہو گیا۔[خلاصہ تہذیب ص488]
اولاد:۔
جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے تین نکاح کیئے چنانچہ حضرت جعفر سے محمد، عبداللہ، عون، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے محمد، اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے یحیی پیدا ہوئے۔[استیعاب ج2ص725]
ریاض النضرہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دو لڑکے ہوئے تھے۔ یحیی اور عون۔[ریاض النضرہ ج2ص649، مسندج6ص36] لیکن علامہ ابن اثیر نے اسکو غلط کہا ہے اور کہا ہے کہ یہ ابن کلبی کا خیال ہے جو مشہور دروغ گو تھا۔
فضل و کمال:۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے ساٹھ حدیثیں مروی ہیں، جنکے راویوں کے نام یہ ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ، ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ، عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، قاسم بن محمد، عبداللہ ب نشداد بن الہاد، عروہ ابن مسیب، ام عون بنت محمد بن جعفر، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت علی، ابو یزید مدنی،
آنحضرت صلی اللہ سے براہ راست تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت و تکلیف میں پڑھنے کے لیے انکو ایک دعا بتائی تھی،
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کے بچوں کو دبلا دیکھا تو پوچھا کہ یہ اس قدر دبلے کیوں ہیں، اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا انکو نظر بہت لگتی ہے، تو تم جھاڑ پھونک کرو، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کو ایک منتر یاد تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا، فرمایا"ہاں یہی سہی"[صحیح مسلم ج2ص223]
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کو خواب کی تعبیر میں بھی دخل تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اکثر ان سے خوابوں کی تعبیر پوچھتے تھے۔[اصابہ ج8ص9]