اُسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن)

تانیہ

محفلین
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بنت عمیس
نام و نسب:۔
اسماء نام، قبیلہ خثعم سے تھیں، سلسلہ نسب یہ ہے، اسماء بنت عمیس معد بن حارث بن تیم بن کعب بن مالک بن قحافہ بن عامر بن ربیعہ بن عامر بن معاویہ بن مالک ابن بشیر بن وہب اللہ بن شہران بن عفرس بن حلف بن اقبل(خثعم) ماں کا نام ہند(خولتہ) بنت عوف تھا۔ اور قبیلہ کنانی سے تھیں، اسی بناپر حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا(ام المومنین) اور اسماء رضی اللہ تعالی عنہا اخیا فی بہنیں تھیں۔
نکاح:۔
حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بڑے بھائی تھے اور دس برس بڑے تھے نکاح ہوا۔
اسلام:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خانہ ارقم میں مقیم ہونے سے قبل مسلمان ہوئیں، حضرت جعفر نے بھی اسی زمانہ میں اسلام قبول کیا تھا،[سیرت ابن ہشام ج1ص136، اصابہ ج8ص9بحوالہ ابن سعد]
عام حالات:۔
حبشہ کی ہجرت کی، اور کئی سال تک مقیم رہیں، سن سات ہجری میں جب خیبہ فتح ہوا، تو مدینہ آئیں ، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر گئیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی آ گئے، پوچھا یہ کون ہیں، جواب ملا اسماء بولے "بولے ہاں وہ حبش والی وہ سمند والی" حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا ہاں وہی، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ہمکو تم پر فضیلت ہے، اس لیے کہ ہم مہاجر ہیں، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کو یہ فقرہ سنکر غصہ آیا، بولیں،" کبھی نہیں! تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ بھوکوں کو کھلاتے اور جاہلوں کر پڑھاتے تھے لیکن ہماری حالت بالکل جدا نہ تھی، ہم نہایت دور دراز مقام میں صرف خدا اور رسول کی خوشنودی کے لیے پڑے رہے اور بڑی بڑی تکلیفات اٹھائیں" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکان پر تشریف لائے تو انہوں نے سارا قصہ بیان کیا، ارشاد ہوا،
"انہوں نے ایک ہجرت کی اور تم نے دو ہجرتیں کیں۔ اس لیے تمکو زیادہ فضیلت ہے۔"حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا اور دوسرے مہاجرین کو اس سے اس درجہ مسرت ہوئی کہ دنیا کی تمام فضیلتیں ہیچ معلوم ہوتی تھیں، مہاجرین حبشہ جوق درجوق حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آتے اور یہ واقعہ دریافت کرتے تھے۔[صحیح بخاری ج2ص607،608]
سن پانچ ہجری غزوہ موتہ میں حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ نے شہادت پائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی(حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی دیکھا کہ حضور آبدیدہ تھے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ غمگین کیوں ہیں۔ کیا جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے، حضور نے ارشاد فرمایا کہ ہاں وہ شہید ہو گئے ہیں، بچوں کو نہلا دھلا کر ہمراہ لے گئی تھی، حضور نےبچوں کو اپنے پاس بلایا اور میں چیخ اٹھی)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل بیت کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا، جعفر(رضی اللہ تعالی عنہ) کے بچوں کے لیے کھانا پکاؤ۔ کیونکہ وہ رنج و غم میں مصروف ہیں۔[مسندج6ص370]
اسکے بعد مسجد میں جا کر غم زدہ بیٹھے، اور اس خبر کا اعلان کیا، اسی حالت میں ایک شخص نے آکر کہا کہ جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کی مستورات ماتم کر رہی ہیں اور رو رہی ہیں۔ آپ نے انکو منع کرا بھیجا، وہ گئے اور واپس آ کر کہا کہ میں نے منع کیا لیکن وہ باز نہیں آتیں۔ آپ نے دوبارہ بھیجا ، وہ دوبارہ گئے اور واپس آکر عرض کی کہ ہم لوگوں کی نہیں چلتی، آپ نے ارشاد فرمایا"تو انکے منہ میں خاک بھردو" یہ واقعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے صحیح بخاری میں منقول ہے، صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس شخص سے کہا کہ"خدا کی قسم تم یہ نہ کرو گے(منہ میں خاک ڈالنا) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف سے نجات نہ ملے گی۔"[صحیح بخاری ج2ص611]
تیسرے[مسندج6ص369] دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر تشریف لائے، اور سوگ کی ممانعت کی،[جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اسکو چار ماہ دس دن سوگ کرنا چاہیے، مسئلہ یہی ہے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کی اس روایت سے شبہہ میں نہ پڑنا چاہیے، اس لیے کہ یہ روایت تمام صحیح احادیث کے خلاف ہے اور شاذ ہے۔ اور اجماع اسکے مخالف۔ امام طحاوی کے نزدیک یہ روایت منسوخ ہے اور امام بیہقی کے نزدیک منقطع ہے، ملاحظہ ہو فتح الباری ج9ص529 انکے سوا اور بہت سے جوابات ہیں جنکی تفصیل کا موقع یہاں نہیں ہے۔] تقریبا چھ مہینے کے بعد شوال سن آٹھ ہجری میں جو غزوہ حنین کا زمانہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے انکا نکاح پڑھا دیا۔[اصابہ ج8ص9] جسکے دو برد بعد ذوقعدہ سن دس ہجری میں محمد بن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پیدا ہوئے، اس وقت حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا حج کی غرض سے مکہ آئیں تھیں چونکہ محمد ذوالحلیفہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے دریافت کرایا کہ میں کیا کروں؟ ارشاد ہوا نہا کر احرام باندھیں۔[صحیح مسلم ج1ص385،394]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں حضرت ام سلمہ اور اسماء رضی اللہ تعالی عنہما نے ذات الجنب تشخیص کر کے دوا پلانی چاہی، چونکہ گوارہ نہ تھی، آپ نے انکار فرمایا، اسی ممانعت میں غشی طاری ہو گئی، انہوں نے منہ کھول کر پلادی، افاقہ کے بعد آپکو احساس ہوا تو فرمایا، یہ مشورہ اسماء(رضی اللہ تعالی عنہا) نے دیا ہو گا۔ وہ حبشہ سے اپنے ساتھ یہی حکمت لائی ہیں، عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ سبکو دوا پلائی جائے چنانچہ تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کو دوا پلائی گئی۔[صحیح بخاری ج2وطبقات ج2قسم2ص31،32 و مسند ج6ص438]
سن تیرہ ہجری میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے وفات پائی تو وصیت کی کہ اسماء غسل دیں۔[اصابہ ج8ص9بحوالہ ابن سعد] ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح عقد میں آئیں، محمد بن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ بھی ساتھ آئے اور حضرت علی کے آغوش تربیت میں پرورش پائئ، ایک دن عجیب لطیفہ ہوا، محمد بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ اور محمد بن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے باہم فخراً کہا کہ ہم تم سے بہتر ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے باپ تمھارے باپ سے بہتر تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ کرو۔ بولیں کہ تمام نوجوانوں پر جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کو اور تمام بوڑھوں پر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو فضیلت حاصل ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بولے "پھر ہمارے لیے کیا رہا؟"[اصابہ ج8ص9] سن 38 ہجری میں محمد بن ابوبکر مصر میں قتل ہوئے اور گدھے کی کھال میں انکی لاش جلائی گئی حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے اس سے تکلیف دہ واقعہ کیا ہو سکتا تھا؟ انکو سخت غصہ ایا، لیکن نہایت صبر سے کام لیا، اور مصلے پر کھڑی ہو گئیں۔[ایضاً]
وفات:۔
سن چالیس ہجری میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے شہادت پائی اور انکے بعد حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کا بھی انتقال ہو گیا۔[خلاصہ تہذیب ص488]
اولاد:۔
جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے تین نکاح کیئے چنانچہ حضرت جعفر سے محمد، عبداللہ، عون، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے محمد، اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے یحیی پیدا ہوئے۔[استیعاب ج2ص725]
ریاض النضرہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دو لڑکے ہوئے تھے۔ یحیی اور عون۔[ریاض النضرہ ج2ص649، مسندج6ص36] لیکن علامہ ابن اثیر نے اسکو غلط کہا ہے اور کہا ہے کہ یہ ابن کلبی کا خیال ہے جو مشہور دروغ گو تھا۔
فضل و کمال:۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے ساٹھ حدیثیں مروی ہیں، جنکے راویوں کے نام یہ ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ، ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ، عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، قاسم بن محمد، عبداللہ ب نشداد بن الہاد، عروہ ابن مسیب، ام عون بنت محمد بن جعفر، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت علی، ابو یزید مدنی،
آنحضرت صلی اللہ سے براہ راست تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت و تکلیف میں پڑھنے کے لیے انکو ایک دعا بتائی تھی،
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کے بچوں کو دبلا دیکھا تو پوچھا کہ یہ اس قدر دبلے کیوں ہیں، اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا انکو نظر بہت لگتی ہے، تو تم جھاڑ پھونک کرو، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کو ایک منتر یاد تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا، فرمایا"ہاں یہی سہی"[صحیح مسلم ج2ص223]
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کو خواب کی تعبیر میں بھی دخل تھا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اکثر ان سے خوابوں کی تعبیر پوچھتے تھے۔[اصابہ ج8ص9]
 

تانیہ

محفلین
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا (بنت ابی بکر)

نام و نسب:۔
اسماء نام، ذات النطاقین لقب، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی صاحبزادی ہیں ، ماں کا نام قتلہ بنر عبدالعزی تھا، ہجرت سے 27 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئیں۔
نکاح:۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ بن عوام سے نکاح ہوا۔
اسلام:۔
اپنے شوہر کی طرح انہوں نے بھی قبول اسلام میں سبقت کی، ابن اسحاق کے قول کے مطابق انکا ایمان لانے والوں میں اٹھارہواں نمبر تھا۔
عام حالات:۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ رفیق صحبت تھے، آپ دوپہر کو انکے گھر تشریف لائے اور ہجرت کا خیال ظاہر فرمایا۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے سفر کا سامان کیا، دو تین دن کا کھانا ناشتہ دان میں رکھا، نطاق جسکو عورتیں کمر میں لپیٹتی ہیں پھاڑ کر اس سے ناشتہ دان کا منہ باندھا، یہ وہ شرف تھا جسکی بنا پر آج تک انکو ذات النطاقین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے[صحیح بخاری ج1ص553،555]
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت کے وقت کل روپیہ ساتھ لے گئے تھے۔ ابوقحافہ کو انکے والد تھے، معلوم ہوا، بولے کہ انہوں نے جانی و مالی دونوں قسم کی تکلیف دی، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا، وہ کثیر دولت چھوڑ گئے ہیں، یہ کہکر اٹھیں اور جس جگہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا مال رہتا تھا بہت سے پتھر رکھ دیئے اور ان پر کپڑا ڈال دیا، اور ابو قحافہ کو لے گئیں اور کہا ٹٹول لیجیئے، دیکھیئے یہ رکھا ہے۔ ابو قحافہ نابینا تھے اس لیے مان گئے اور کہا کھانے کے لیے بہت ہے۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کا بیان ہے کہ میں نے صرف ابوقحافہ کی تسکین کے لیے ایسا کیا تھا۔ ورنہ وہاں ایک حبہ بھی نہ تھا۔[مسند ابن حنبل ج6ص350]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر مستورات کو بلوایا تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بھی آئیں۔[اصابہ ج4ص229، طبقات ج1ق1ص161 و تہذیب ج5ص214]قبا میں قیام کیا، یہاں عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے، انکو لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ نے عبداللہ کو گود میں لیا، گھٹی دی اور انکے لیے دعا فرمائی۔[صحیح بخاری ج1ص555] عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ جوان ہوئے تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا انکے پاس رہنے لگیں کیونکہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے انکو طلاق دے دی تھی۔[فتح الباری ج6ص163 و اسد الغابہ ج5ص392]
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے گھٹی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن پیا تھا اس بنا پر جب سن شعور کو پہنچے تو فضائل اخلاق کے مجسم پیکر تھے، ادھر سلطنت بنو امیہ کا فرمانروا(یزید) سرتاپا فسق و فجور تھا۔ حضرت عبداللہ نے اسکی بیعت سے انکار کیا، مکہ میں پناہ گزیں ہوئے اور وہیں سے اپنی خلافت کی صدا بلند کی، چونکہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عظمت و جلالت کا ہر شخص معترف تھا اس لیے تمام دنیائے اسلام نے اس صدا پر لبیک کہی۔ اور ملک کا بڑا حصہ انکے علم کے نیچے آ گیا، لیکن جب عبدالملک بن مروان تخت نشین ہوا، تو اس نے اپنی حکمت عملی سے بعض صوبوں پر قبضہ کر لیا۔ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے مقابلہ کی تیاریاں کیں، شامی لشکر نے خانہ کعبہ کا محاصرہ کیا تو ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آئے، وہ بیمار تھیں پوچھا، کیا حال ہے؟ بولیں "بیمار ہوں" کہا"آدمی کو موت کے بعد آرام ملتا ہے۔" حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا "شائد تمکو میرے مرنے کی تمنا ہے، لیکن میں ابھی مرنا پسند نہیں کرتی، میری آرزو یہ ہے کہ تم لڑکر قتل ہو، اور میں صبر کروں، یا تم کامیاب ہو اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔" ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ہنس کر چلے گئے، شہادت کا وقت آیا تو دوبارہ ماں کی خدمت میں آئے، وہ مسجد میں بیٹھی تھیں، صلح کے متعلق مشورہ کیا، بولیں"بیٹا! قتل کے خوف سے ذلت آمیز صلح بہتر نہیں۔ کیونکہ عزت کے ساتھ تلوار مارنا ذلت کے ساتھ کوڑا مارنے سے بہتر ہے،" حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس پر عمل کیا اور لڑکر مردانہ وار شہادت حاصل کی، حجاج نے انکی لاش کو سولی پر لٹکا دیا، تین دن گزرنے پر حضرت اسماء کنیز کو ساتھ لیکر اپنے بیٹے کی لاش پر آئیں، لاش الٹی لٹکی تھی دل تھام کر اس منظر کو دیکھا اور نہایت استقلال سے کہا،"کیا اس سوا کے گھوڑے سے اترنے کا ابھی وقت نہیں آیا،"[اسد الغابہ ج3ص163 و استیعاب ج1ص366]حجاج کو چھیڑ منظور تھی، آدمی بھیجا کہ انکو جا کر لائے، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے انکار کیا، اس نے پھر آدمی بھیجا کہ "ابھی خیریت ہے ورنہ آئندہ جو آدمی بھیجا جائے گا وہ بال پکڑ کر گھسیٹ لائے گا۔"حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا صرف خدا کی شان جباری کی معترف تھیں، جوابدیا میں نہیں جا سکتی حجاج نے مجبورا خود جوتا پہنا اور حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں آیا اور حسب ذیل گفتگو ہوئی، حجاج نے کہا ،" کہیئے میں نے دشمن خدا(ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ) کے ساتھ کیا سلوک کیا" حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بولیں"تو نے انکی دنیا بگاڑ دی اور انہوں نے تیری عاقبت خراب کی! میں نے سنا ہے کہ تو انکو طنزاً ذات النطاقین کا بیٹا کہتا ہے، خدا کی قسم ذات النطاقین میں ہوں۔ میں نے نطاق سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا کھانا باندھا تا اور دوسرے کو کمر میں لپیٹتی تھی لیکن یہ یاد رہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم پیدا ہو گا، چنانچہ کذاب کو دیکھ چکی ہوں اور ظالم تو ہے۔" حجاج نے یہ حدیث سنی تو چپکا اٹھ کھڑا ہوا۔[صحیح مسلم ج2ص375]
چند دنوں کے بعد عبدالملک کا حکم پہنچا تو حجاج نے لاش اترا کر یہود کے قبرستان میں پھینکوا دی، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے لاش اٹھوا کر گھر منگوایا اور غسل دلوا کر جنازہ کی نماز پڑھی حضرت زبن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کا جوڑ جوڑ الگ تھا، نہلانے کے لیے کوئی عضو اٹھایا جاتا تو ہاتھ کے ساتھ چلا آتا لیکن حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ کیفیت دیکھ کر صبر کیا کہ خدا کی رحمت انہی پارہ پارہ ٹکڑوں پر نازل ہوتی ہے۔
وفات:۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا دعا کرتی تھیں کہ جب تک میں عبداللہ کی لاش نہ دیکھ لوں مجھے موت نہ آئے۔[استیعاب ج1ص366]چنانچہ ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے داعی اجل کو لبیک کہا، یہ جمادی الاولی سن 73 ہجری کا واقعہ ہے اس وقت انکی عمر سو سال کی تھی۔
اولاد:۔
حسب ذیل اولاد ہوئی، عبداللہ، منذر، عروہ، مہاجر، خدیجة الکبری، ام الحسن، عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ،[طبری ج3ص2461 اور الریاض النضرہ ص 279،280]
حلیہ:۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا باایں ہمہ کہ سو برس کی تھیں لیکن ایک دانت بھی نہیں گرا تھا اور ہوش و حواس بالکل درست تھے۔[اصابہ ج8ص8] دراز قد اور لحیم شحیم تھیں، اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی،[مسندج6ص348واسدالغابہ ج5ص394]
فضل و کمال:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے چھپن احادیث روایت کی ہیں جو صحیحین اور سنن میں موجود ہیں، راویوں میں حسب ذیل اصحاب ہیں،
عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ، عروہ، (پسران) عباد بن عبداللہ، عبداللہ بن عروہ(نبیرگان) فاطمہ بنت المنذر، ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ، عبادہ بن حمزہ بن عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن کیسان(غلام) ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، صفیہ بنت شیبہ، ابن ابی ملیکہ، وہب بن کیسان، ابوبکر و عامر(پسران ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ) مطلب بن حنطب، محمد بن منکدر، مسلم معمری، ابونوفل ابن ابو عقرب،
اخلاق:۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بالطبع نیکی کی طرف مائل تھیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسوف کی نماز پڑھا رہے تھے، نماز کو بہت طول دیا تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کیا انکے پاس دو عورتیں کھڑی تھیں۔ جن میں ایک فربہ اور دوسری لاغر تھی یہ دیکھ کر انہوں نے اپنے دل کو تسلی دی کہ مجھے ان سے زیادہ دیر تک کھڑا رہنا چاہیے،[مسندج6ص349] لیکن چونکہ نماز کئی گھنٹے تک ہوئی تھی، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کو غش آ گیا، اور سر پر پانی چھڑکنے کی نوبت آئی۔[صحیح بخاری ج1ص146] ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ انکے سر میں درد ہوتا تو سر پکڑ کر کہتیں(یہ میرا گناہ ہے اور جو گناہ خدا معاف کرتا رہتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔)
حق گوئی انکا خاص شعار تھا اسکی متعدد مثالیں اوپر گزر چکی ہیں، حجاج بن یوسف جیسے ظالم اور جبار کے سامنے وہ جس صاف گوئی سے کام لیتی تھیں، وہ بجائے خود اپنی آپ ہی نظیر ہے۔ ایکدن وہ منبر پر بیٹھا ہوا تھا، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا اپنی کنیز کے ساتھ آئیں اور دریافت کیا کہ"امیر کہاں ہے" معلوم ہوا تو حجاج کے قریب گئیں، اس نے دیکھتے ہی کہا تمھارے بیٹے نے خدا کے گھر میں الحاد پھیلایا تھا، اس لیے خدا نے اسکو بڑا دردناک عذاب دیا۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے برجستہ جواب دیا تو جھوٹا ہے، وہ ملحد نہ تھا بلکہ صائم، پارسا اور شب بیدار تھا،[مسدج6ص351]
نہایت صابر تھیں، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت ایک قیامت تھی جو انکے لیے قیامت کبری بن گئی تھی لیکن اس میں انہوں نے جس عزم، جس استقلال ، جس صبر اور جس تحمل سے کام لیا تھا اسکی تاریخ میں بہت کم نظیریں مل سکتی ہیں۔
حددرجہ خوددار تھیں، حجاج بن یوسف جیسے امیر کی نخوت بھی انکی خودداری کی چٹان سے ٹکرا کر چور چور ہو جاتی تھی۔
نہایت متواضع اور خاکسار تھیں، محنت و مشقت میں انکو بالکل عار نہ تھا، چنانچہ جب انکا نکاح ہوا، تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس کچھ نہ تھا، صرف ایک اونٹ اور ایک گھوڑا تھا۔ وہ گھؤرے کو دانہ دیتیں، پانی بھرتیں اور ڈول سیتی تھیں، روٹی پکانی نہیں آتی تھی، اس لیے آٹا گوندھ کر رکھتی اور انصار کی بعض عورتیں پکا دیتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو جو زمین عنایت فرمائی تھی وہاں جا کر وہ چھوہاروں کی گٹھلیاں چنتی اور تین فرلانگ سے سرپر لاد کر لاتی تھیں ایکدن اسی حالت میں آ رہی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی آپ نے اپنے اونٹ کو بٹھایا کہ سوار ہو جائیں، لیکن انکو شرم معلوم ہوئی اور اونٹ پر نہ بیٹھیں گھر آکر حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے سارا قصہ بیان کیا، سبحان اللہ سر پر بوجھ لادنے سے شرم نہیں آئی؟ کچھ زمانہ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے انکو ایک غلام دیا جو گھوڑے کی تربیت اور پرداخت کرتا تھا، اسی وقت حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کی مصیبت کم ہوئی، کہتی تھیں"فکأ نما اعتقنی"یعنی گویا ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ)نے مجھکو آزاد کر دیا،[صحیح بخاری ج2 ص 756]
غربت کی وجہ سے جو کچھ خرچ کرتیں ناپ تول کر خرچ کرتی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا کہ پھر خدا بھی ناپ کر دیگا۔ اس وقت سے یہ عادت چھوڑ دی، اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ آمدنی وافر ہو گئی اور پھر کبھی تنگدست نہیں ہوئیں۔[مسند ج6ص356]
حد درجہ فیاض تھیں، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے کہ میں نے ان سے بڑھکر کسی کو فیاض نہیں دیکھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنی وفات کے وقت ترکہ میں ایک جنگل چھوڑا تھا جو انکے حصہ میں آیا تھا، لیکن انہوں نے اسکو لاکھ درہم پر فروخت کر کے کل رقم عزیزوں پر تقسیم کر دی[صحیح بخاری ہبہ الواحد للجماعت] بیمار پڑتیں تو اپنے تمام غلام آزاد کر دیتی تھیں،[خلاصۂ تہذیب ص488] حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کا مزاج تیز تھا اس لیے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں بلا اجازت انکے مال سے فقراء کو خیرات دے سکتی ہوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔[مسند ج6ص353]
ایک مرتبہ انکی ماں مدینہ میں آئیں اور ان سے روپیہ مانگا، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ وہ مشرک ہیں کیا ایسی حالت میں انکی مدد کر سکتی ہوں! ارشاد ہوا"ہاں(اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو)"[صحیح بخاری ج2ص884]
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کئی حج کیئے، پہلا حج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔[صحیح مسلم ج1 ص479] اس میں جو کچھ دیکھا تھا،[صحیح بخاری ج1 ص237] انکو بالکل یاد تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب حج کے لیئے آئیں اور مزدلفہ میں ٹھہریں تو رات کو نماز پڑھی، پھر اپنے غلام سے پوچھا"چاند چھپ گیا" اس نے کہا نہیں، جب چاند ڈوب گیا بولیں کہ اب رمی کے لیے چلو، رمی کے بعد واپس آئیں اور صبح کی نماز پڑھی، اس نے کہا آپ نے بڑی عجلت کی، فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پردی نشینوں کو اس کی اجازت دی ہے،[صحیح بخاری ج1ص237] جب کبھی حجون سے گزرتیں کہتیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہاں ٹھہرے تھے، اس وقت ہمارے پاس بہت کم سامان تھا، ہم نے اور عائشہ و زبیر رضی اللہ تعالی عنہما نے عمرہ کیا تھا اور طواف کر کے حلال ہوئے تھے،[ایضاً]
نہایت بہادر تھیں، اخلاقی جرأت کے چند واقعات اوپر گزر چکے ہیں، سعید بن عاص کے زمانہ حکومت میں جب اسلام میں فتنہ پیدا ہوا، اور بدامنی شروع ہو گئی تو انہوں نے ایک خنجر رکھا تھا، لوگوں نے پوچھا اسکا کیا فائدہ، تو بولیں اگر کوئی چور آئے گا تو اس سے اسکا پیٹ چاک کرونگی۔[ذیل طبری ج13ص2461]
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کے تقدس کا عام چرچا تھا۔ لوگ ان س ےدعا کراتے تھے، جب کوئی عورت بخار میں مبتلا ہوتی او ر دعا کے لیے آتی تو اسکے سینہ پر پانی چھڑکتیں اور کہتیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسکو پانی سے ٹھنڈا کرو۔[صحیح بخاری ج2ص852] (حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ بخار آتش جہنم کی گرمی ہے، اسکو پانی سے ٹھنڈا کرو۔)[ایضاً باب الحمی میں فتح جہنم] گھر کا کوئی آدمی بیمار ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ (جسکو عائشہ نے وفات کے وقت انکے سپرد کیا تھا) دھوتی اور اسکا پانی پلاتی تھیں، اس سے بیمار کو شفا ہو جاتی تھی۔[مسندج6ص348]
 

تانیہ

محفلین
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت قیس

نام و نسب:۔
فاطمہ نام، سلسلہ نسب یہ ہے، فاطمہ بنت قیس بن خالد اکبر بن وہب بن ثعلبہ بن وائلہ بن عمرو بن شیبان بن محارب بن فہر، والدہ کا نام امیمہ بنت ربیعہ تھا اور بنی کنانی سے تھیں۔
نکاح:۔
ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ سے نکاح ہوا۔
اسلام:۔
اسلام کے ابتدائی دور میں ایمان لائیں۔
ہجرت:۔
اور ہجرت کی۔
عام حالات:۔
سن دس ہجری میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ایک لشکر لیکر یمن گئے تھے ابو عمرو بھی انکے ساتھ تھے، چلتے وقت عیاش بن ابی ربیعہ کی معرفت اپنی بیوی کو آخری طلاق(دو طلاق پہلے دے چکے تھے۔) اور پانچ پانچ صاع جو اور خرمے بھیجے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کھانے اور مکان کا مطالبہ کیا تو عیاش نے کہا کہ جو کچھ دیا گیا ہے محض احسان ہے ورنہ ہمارے ذمہ یہ بھی ضروری نہیں اس جواب پر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو غصہ آیا اور اپنے کپڑے لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئیں، خالد بن ولید وغیرہ بھی پہنچے، آپ نے دریافت فرمایا کہ انہوں نے تمکو کتنی مرتبہ طلاق دی، بولیں 3 مرتبہ، فرمایا اب تمکو نفقہ نہیں مل سکتا،[عدت کے اندر عورت کا کھانا کپڑا اسی مرد کے ذمہ ہے جس نے طلاق دی ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت قیس کی اس روایت کے متعلق بڑی بحث ہے جسکے ذکر کا یہاں موقع نہیں ہے]تم ام شریک کے ہاں عدت کے دن پورے کرو لیکن چونکہ ام شریک کے اعزہ و اقارب انکے مکان میں آتے جاتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ"ابن ام مکتوم نابینا اور تمھارے ابن عم ہیں اس لیے بہتر ہے کہ تم انکے ہاں رہو۔" عدت کا زمانہ پورا ہوا تو ہر طرف سے پیغام آئے، امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ، ابوجہم اور اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی پیغام دیا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو شخصوں کا پیغام اس لیے مسترد کر دیا کہ اول الذکر مفلس اور دوسرے تند مزاج تھے پھر فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ تم اصامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نکاح کر لو، چونکہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو خیال تھا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکو اپنی زوجیت کا شرف عطا فرمائیں گے، اس لیے انکار کر دیا، ارشاد ہوا"خدا اور سول کی اطاعت کرو اس میں تمھارے لیے بھلائی ہے۔" یہ سنکر فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا مجبور ہوئیں، اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نکاح کر لیا کہتی ہیں کہ پھر میں بھی قابل رشک بن گئی۔[صحیح مسلم ج1ص583،584،585 و مسندج6ص4411،4412،4413]
تئیس ہجری میں جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انتقال کیا تو مجلس شوری کا اجلاس فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہی کے مکان میں ہوتا تھا۔[اسد الغابہ ج5ص526]
سن چون ہجری میں حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ نے انتقال فرمایا، فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو سخت صدمہ ہوا، دوسری شادی نہیں کی اور اپنے بھائی ضحاک کے ساتھ رہیں جب یزید نے اپنے عہد حکومت میں انکو عراق کا گورنر مقرر کیا، تو فاطمہ بھی انکے ساتھ کوفہ چلی آئین اور یہیں سکونت اختیار کی۔
وفات:۔
وفات کا سال معلوم نہیں، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت تک زندہ تھیں۔[صحیح مسلم ج1ص586]
حلیہ:۔
خوبصورت تھین،[اصابہ ج8ص164]
فضل و کمال:۔
اسد الغابہ میں ہے۔
"یعنی وہ نہایت عقیل اور صاحب کمال تھیں۔"(ج5ص526)
حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی صاحبزادی، عبداللہ بن عمرو(بن عثمان) کو منسوب تھیں انہوں نے انکو تین طلاقیں دیں، فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا انکی خالہ ہوتی تھیں کہلا بھیجا کہ میرے گھر چلی آؤ۔ مروان نے قبیضہ کو بھیجا کہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سبب دریافت کرو، قبیضہ نے آکر کہا کہ آپ ایک عورت کو ایام عدت گزرنے سے قبل کیوں گھر سے نکالتی ہیں۔ بولیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھکو یہی حکم دیا تھا، اسکے بعد اپنا واقعہ بیان کیا اور اسکی قرآن مجید سے تائید کی، قرآن مجید میں ہے،
"جب ت معورتوں کو طلاق دو تو انکو عدت کے وقت تک طلاق دو اور عدت کو شمار کرو اور خدا سے ڈرو اور انکو انکے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ کہ کھلی ہوئی بےحیائی کی مرتکب ہوں۔"(طلاق۔1)
یہ مراجعہ کی صورت تھی، اسکے بعد ہے،
"پس جب میعاد کو پہنچ جائیں تو انکو اچھی طرح روکے رکھو یا اچھی طرح جدا کر دو۔"(طلاق۔10)
اس بنا پر تین مرتبہ کے بعد کسی صورت کا احتمال نہیں ہے۔ اسکے بعد فرمایا کہ چونکہ تمھارے نزدیک عورت جب تک حاملہ نہ ہو اسکا نفقہ نہ دینا چاہیے، اس لیے کہ اسکو روک رکھنا بالکل بےکار ہے،(جب مروان کو فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس فگتگو کی اطلاع ہوئی، تو کہا یہ ایک عورت کی بات ہے اور ان متعلقہ خاتون کا حکم دیا کہ اپنے گھر واپس آئیں، چنانچہ وہ واپس آئیں اور وہیں عدت گزاری۔)[صحیح مسلم ج1ص584ومسندج6ص415،416]
فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کی ہیں، جو متعدد اشخاص کے ذریعہ سے مروی ہیں، ان میں سے چند نام یہ ہیں۔
قاسم بن محمد، ابوبکر بن ابوالجہم، ابو سلمہ، سعید بن مسیب، عروہ، عبداللہ بن عبداللہ اسود، سلیمان بن یسار، عبداللہ البہی، محمد بن عبدالرحمان بن ثوبان، شعبی، عبدالرحمان ابن عاصم، تمیم،
اخلاق:۔
عادات و اخلاق نہایت شریفانہ تھے، شعبی جوان کے شاگرد تھے، ملنے کو آئے تو انہوں نے چھوہارے کھلائے اور ستو پلایا۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت شفاء رضی اللہ تعالی عنہا بنت عبداللہ

نام و نسب:۔
شفاء نام، قبیلہ قریش کے خاندان عدی سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے شفاء بنت عبداللہ بن عبد شمس بن خلف بن سداد بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی ابن کعب بن لوئی، والدہ کا نام فاطمہ بنت وہب بن عمرو بن عائذ بن عمر بن مخزوم تھا،
نکاح:۔
ابوحشمہ بن حذیفہ عدوی سے نکاح ہوا۔
اسلام:۔
ہجرت کے قبل مسلمان ہوئیں۔[اصابہ ج8ص20]
عام حالات:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انکو بہت محبت تھی، آپ کبھی انکے گھر تشریف لے جاتے تو آرام فرماتے تھے۔ انہوں نے آپکے لیے علہدہ ایک بچھونا اور ایک تہمد رکھ چھوڑی تھی، چونکہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ جذب ہوتا تھا، یہ بڑی متبرک چیزیں تھیں۔ حضرت شفاء رضی اللہ تعالی عنہا کے بعد انکی اولاد نے ان تبرکات کو نہایت احتیاط سے محفوظ رکھا، لیکن مروان نے ان سے یہ سب چیزیں لے لیں۔[اسد الغابہ ج5ص486 واصابہ ج8ص121]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو ایک مکان بھی عنایت فرمایا تھا اور وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اسی میں سکونت پذیر تھیں۔[اصابہ ص121 بحوالہ ابن سعد]
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں انکے ساتھ خاص رعایتیں کیں چنانچہ ابن سعد میں ہے:۔
"حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ انکو رائے میں مقدم رکھتے اور انکی فضیلت کی رعایت کرتے اور انکو بازار کا اہتمام کرتے تھے۔"[اصابہ ص121]
وفات:۔
وفات کا سن معلوم نہیں۔
اولاد:۔
اولاد میں دو کا پتہ چلتا ہے، سلیمان اور ایک لڑکی جو شرجیل بن حسنہ کو منسوب تھی۔
فضل و کمال:۔
جاہلیت میں دو چیزیں مشہور تھیں، جھاڑ پھونک اور لکھنا، جھاڑ پھونک کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے استفتاء کیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی اور فرمایا تھا کہ حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بھی سکھا دو لکھنے کے متعلق بھی یہی ارشاد ہوا تھا۔[مسندج6ص373] چیونٹی کے کاٹے میں یہ منتر پڑھتی تھیں۔
بسم اللہ صلو صلب جبر تعوذان اقواھھا فلاتضراحدااللھم اکشف الباس سب الناس۔[اسد الغابہ ج5ص487]
حضرت شفاء رضی اللہ تعالی عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے چند حدیثیں روایت کی ہیں جنکی تعداد صاحب خلاصہ کے نزدیک بارہ ہے، راویوں میں انکے بیٹے اور دو پوتے ابوبکر و عثمان اور ابوسلمہ، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ابو اسحاق شامل ہیں،
اخلاق:۔
اسد الغابہ میں ہے۔[اسد الغابہ ج5ص486]
"یعنی وہ بڑی عاقلہ اور فاضلہ تھیں،"
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مرتبہ انکو بلاکر ایک چادر عنایت کی اور عاتکہ بنت اسید کو ان سے بہتر چادر دی، تو وہ بولیں تمھارے ہاتھ غبار آلود ہوں، انکو مجھ سے بہتر چادر دی، حالانکہ میں ان سے پہلے مسلمان ہوئی، تمھاری بنت عم بھی ہوں، اسکے علاوہ تم نے مجھکو طلب کیا تھا اور یہ خود چلی آئیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جوابدیا کہ میں تمہیں عمدہ چادر دیتا لیکن جب یہ آگئیں تو مجھے انکی رعایت کرنی پڑی کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسباً قریب تر ہیں۔[اسد الغابہ ج5ص497حالات عاتکہ رضی اللہ تعالی عنہا]
 

تانیہ

محفلین
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا بنت ابی معاویہ
نام و نسب:۔
زینب نام، رائطہ عرف، قبیلہ ثقیف سے تھیں، سلسلہ نسب یہ ہے زینب بنت عبداللہ ابی معاویہ بن معاویہ بن عتاب بن اسعد بن غاضرہ بن حطیط بن جشم ابن ثقیف۔
نکاح:۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے نکاح ہوا، چونکہ انکا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا اور زینب رضی اللہ تعالی عنہا دستکار تھیں، اس لیے اپنے شوہر اور اولاد کی خود کفیل ہوئیں، ایک دن کہنے لگیں کہ تم نے اور تمھاری اولاد نے مجھکو صدقہ و خیرات سے روک رکھا ہے، جو کچھ کماتی ہوں تمکو کھلا دیتی ہوں، بھلا اس میں میرا کیا فائدہ؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، تم اپنے فائدہ کی صورت نکال کو، مجھکو تمھارا نقصان منظور نہیں، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور عرض کی کہ میں دستکار ہوں، اور جو کچھ اس سے پیدا کرتی ہوں شوہر اور بال بچوں پر صرف ہو جاتا ہے کیونکہ میرے شوہر کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ اس بنا پر محتاجوں کو صدقہ نہیں دے سکتی، اس حالت میں کیا مجھکو ثواب ملتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تمکو انکی خبر گیری کرنا چاہیے۔
عام حالات:۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے عام حالات بہت کم معلوم ہیں سال وفات کا بھی یہی حال ہے۔
اولاد:۔
ابو عبیدہ جو اپنے زمانہ کے مشہور محدث گزرے ہیں حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے نور نظر تھے۔
فضل و کمال:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے چند حدیثیں روایتیں کیں راویوں میں حسب ذیل اصحاب ہیں، ابو عبیدہ، عمرو بن حارث بن ابی ضرار، بسربن سعید عبید بن سباق۔ کلثوم، محمد بن عمرو بن حارث،
اخلاق:۔
بارگاہ نبوت میں انکو مخصوص درجہ حاصل تھا، اکثر آپکے مکان میں آتی جاتی تھیں۔ ایکدن وہ آپکے سر کی جویں دیکھ رہی تھی، مہاجرین کی اور عورتیں بھی بیٹھی ہوئی تھیں، ایک مسئلہ پیش ہوا تو انہوں نے اپنا کام چھوڑ کر بولنا شروع کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم آنکھ سے نہیں بولتی ہو، کام بھی کرو اور گفتگو بھی،[مسندج6ص363]
 

تانیہ

محفلین
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہ بنت یزید
نام و نسب:۔
اسماء نام، ام سلمہ کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، اسماء بنت یزید بن السکن بن رافع بن امراء القیس بن زید بن عبدالاشہل بن حارث بن خزرج بن عمرو بن مالک بن اوس۔
اسلام:۔
ہجرت کے بعد مسلمان ہوئیں اور چند عورتوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کے لیے آئیں، آپ صحابہ کے مجمع میں تشریف فرما تھے، انہوں نے عرض کی کہ مسلمان عورتوں کی طرف سے ایک پیغام لیکر آئی ہوں، خدا نے آپکو مردوعورت سب کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے، ہم نے آپکی پیروی کی ہے اور آپ پر ایمان لائے ہیں۔ لیکن ہماری حالت مردوں سے بالکل جداگانہ ہے ہم پردہ نشین ہیں، اس لیے جمعہ اور جماعت میں شریک نہیں ہو سکتے۔
اور مرد جمعہ و جماعت میں شریک ہوتے ہیں، مریضوں کی عیادت کرتے ہیں ، نماز جنازہ پڑھتے ہیں ، حج کو جاتے ہیں اور سب سے بڑھکر یہ کہ جہاد کرتے ہیں لیکن ان تمام صورتوں میں ہم گھر میں بیٹھ کر انکی اولاد کو پالتے ہیں، گھروں کی حفاظت کرتے ہیں ، کپڑوں کے لیے چرخہ کاتتے ہیں، تو کیا اس صورت میں ہمکو بھی ثواب ملے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو صحابہ سے فرمایا کہ تم نے کسی عورت سے ایسی گفتگو بھی سنی ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں، آپ نے اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کو جوابدیا کہ عورت کے لیے شوہر کی رضا جوئی نہایت ضروری چیز ہے، اگر وہ فرائض زوجیت ادا کرتی اور شوہر کی مرضی پر چلتی ہے تو مرد کو جس قدر ثواب ملتا ہے، عورت کو بھی اسی قدر ثواب ملتا ہے،[اسد الغابہ ج5ص398 واستیعاب ج2ص726]
جامع ترمذی، ابن سعد اور مسند ابن حنبل میں اس بیعت کا کسی قدر تذکرہ آیا ہے مسند میں ہے کہ اس بیعت میں اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کی خالہ بھی شریک تھیں، جو سونے کے کنگن اور نگوٹھیاں پہنے تھیں، آپ نے فرمایا انکی زکوة دیتی ہو؟ بولیں نہیں، فرمایا تو کیا تمکو یہ پسند ہے کہ خدا آگ کے کنگن اور انگوٹھیاں پہنائے، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا خالہ انکو اتار دو، چنانچہ فورا تمام چیزیں اتار کر پھینک دیں، اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم زیور نہ پہنیں گے تو شوہر بےوقعت سمجھے گا۔ ارشاد ہوا"تو پھر چاندی کے زیور بنواؤ اور ان پر زعفران مل لو کہ سونے کی چمک پیدا ہو جائے۔" غرض ان باتوں کے بعد جب بیعت کا وقت آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی چند اقرار کرائے۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں اپنا ہاتھ بڑھائیے، فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔
بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ کنگن کا واقعہ خود حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کا تھا۔[ان واقعات کے لیے دیکھو مسند ج6ص453،454،460،461 ]
عام حالات:۔
سن ایک ہجری میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی رخصتی ہوئی اور وہ میکہ سے کاشانہ نبوت میں آئین، تو جن عورتوں نے انکو سنوارا تھا، ان میں حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بھی داخل تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو جلوے میں بٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی، آپ انکے پاس آ کر بیٹھ گئے، کسی نے دودھ پیش کیا تو تھوڑا سا پی کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دے دیا، انکو شرم معلوم ہوئی اور سرجھکا لیا، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے ڈانٹا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دیتے ہیں لے لو، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دودھ لیکر کسی قدر پی لیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کو دیدیا، انہوں نے پیالہ کو گھٹنے پر رکھ کر گردش دینا شروع کیا کہ جس طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا تھا وہاں بھی منہ لگ جائے۔ اسکے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور عورتوں کو بھی دو، لیکن سب نے جوابدیا کہ ہمکو اس وقت خواہش نہیں ہے ارشاد ہوا"بھوک کے ساتھ جھوٹ بھی؟"[مسندج6ص458]
سن پندرہ ہجری میں یرموک کا واقعہ پیش آیا، اس میں حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے خیمہ کی چوب سے نو رومیوں کو قتل کیا۔[اصآبہ ج3ص13]
وفات:۔
یرموک کے بعد مدت تک زندہ رہیں، اور پھر وفات پائی، وفات کا سال معلوم نہیں ہے۔
فضل و کمال:۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کی ہیں جنکے راوی اصحاب ذیل ہیں، محمود بن عمرو انصاری، مہاجر بن ابی مسلم، شہر بن حوشب، مجاہد، اسحاق بن راشد، لیکن ان میں سب سے زیادہ شہر بن حوشب نے روائتیں کی ہیں۔
اخلاق:۔
استیعاب میں ہے۔
"یعنی وہ عقل اور دین دونوں سے متصف تھیں۔"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتی تھیں۔[مسندج6ص459] ایک بار ناقہ غضباء کی مہار تھامے تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی، انکا بیان ہے کہ وحی کا اتنا بار تھا کہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں اونٹنی کے ہاتھ پاؤں نہ ٹوٹ جائیں۔[ایضاً ص455،458]
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اکثر اوقات کاشانہ نبوت میں حاضر ہوتیں، ایک مرتبہ بیٹھی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر فرمایا، گھر میں کہرام مچ گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ واپس آئے تو وہی حالت تھی، فرمایا کیوں روتی ہو؟ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا کہ ہماری حالت یہ ہے کہ لونڈی آٹا گوندھنے بیٹھی ہے، ہمکو سخت بھوک ہوتی ہے وہ پکا کر فارغ نہیں ہوتی کہ ہم بھوک سے بیتاب ہو جاتے ہیں پھر دجال کے زمانہ میں جو قحط پڑے گا۔ اس پر کیونکر صبر کر سکیں گے (یعنی فورا اسکے دام میں پھنس جائیں گے۔) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس دن تسبیح اور تکبیر بھوک سے بچائے گی۔ پھر کہا رونے کی ضرورت نہیں، اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں خود سینہ سپر ہونگا، ورنہ میرے بعد خدا ہر مسلمان کی حفاظت کریگا،[مسندج5ص453،454]
مہمان نواز تھیں ایک بار حضرت شہر بن حوشب آئے تو انہوں نے انکے سامنے کھانا رکھا حضرت شہر بن حوشب نے انکار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ بیان کیا جس سے یہ اشارہ مقصود تھا کہ انکار مناسب نہیں ہے، انہوں نے کہا اب دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرونگا۔[ایضاًص458]
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام الدّردء رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
ام الدرداء دو تھیں، اور دونوں دونوں حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ کے عقد نکاح میں آئیں لیکن جو بڑی تھیں وہ صحابیہ ہیں۔ امام احمد بن حنبل اور یحیی بن معین کے قول کےمطابق انکا نام خیرہ تھا اور ابو حدرداسلمی کی صاحبزادی تھیں۔
وفات:۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے دو سال قبل شام میں وفات پائی اور یہ خلافت عثمانی کا زمانہ تھا۔
فضل و کمال:۔
حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں،
"وہ بڑی عاقلہ اور فاضلہ اور صاحب الرائے تھیں۔"[اصابہ ج8ص73]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے چد حدیثیں روایت کی ہیں۔ انکے شاگرد میمون بن مہران ہیں، جنکی سماعت پر جمہور کا اتفاق ہے، حافظ ابن عبدالبر نے بعض اور راویوں کے نام بھی لکھے ہیں، لیکن یہ سخت غلطی ہے کیونکہ ان میں سے کسی نے ام الدرداء رضی اللہ تعالی عنہا کا زمانہ نہیں پایا۔
اخلاق:۔
نہایت عابدہ و زاہدہ تھیں،[ایضاً]
 

تانیہ

محفلین
حضرت اُم حکیم رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
قریش کے خاندان مخزوم سے تھیں، باپ کا نام حارث بن ہشام بن المغیرہ اور ماں کا نام فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت الولید تھا، فاطمہ حضرت خالد بن ولید کی ہمشیر تھیں۔
نکاح:۔
عکرمہ بن ابوجہل سے جو انکے ابن عم تھے سے شادی ہوئی۔
عام حالات:۔
غزوہ احد میں کفار کے ساتھ شریک تھیں۔ لیکن جب سن آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا تو پھر اسلام سے چارہ نہ تھا، انکا خسر ابوجہل مکہ میں اسلام کا سب سے بڑا دشمن اور کفر کا سرغنہ رہ چکا تھا، شوہر عکرمہ کی رگوں میں بھی اسی کا خون دوڑتا تھا، ماموں خالد بھی مدت سے اسلام سے برسرپیکار رہ چکے تھے لیکن باایں ہمہ ام حکیم رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنی فطری سلامت روی کی بنا پر فتح مکہ میں اسلام قبول کرنے میں بہت عجلت کی، انکے شوہر جان بچا کر یمن بھاگ گئے تھے۔ ام حکیم رضی اللہ تعالی عنہا نے انکے لیے امن کی درخواست کی تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن عفو نہایت کشادہ تھا، غرض یمن جا کر انکو واپس لائیں، اور عکرمہ نے صدق دل سے اسلام قبول کیا، حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مسلمان ہو کر اپنے تمام گناہوں کا کفارہ ادا کیا۔ نہایت جوش سے غزوات میں شرکت کی اور بڑی پامردی و جانبازی سے لڑے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کےزمانہ خلافت میں رومیوں سے جنگ چھڑی، حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ ، ام حکیم رضی اللہ تعالی عنہا کو لیکر شام گئے اور احیا دین کے معرکہ میں داد شجاعت لیکر شہادت حاصل کی۔ حضرت ام حکیم رضی اللہ تعالی عنہا نے عدت کےبعد خالد رضی اللہ تعالی عنہ بن سعید بن العاص سے نکاح کیا، چار سو دینار مہر باندھا اور رسم عروسی ادا کرنے کی تیاریاں ہوئیں۔ چونکہ نکاح مرج الصفر میں ہوا تھا۔ جو دمشق کے قریب ہے اور ہر وقت رومیوں کے حملہ کا اندیشہ تھا، حضرت ام حکیم رضی اللہ تعالی عنہا نے خالد رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ"ابھی توقف کرو" لیکن خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ مجھے اسی معرکہ میں اپنی شہادت کا یقین ہے غرض ایک پل کا جواب قنظرہ ام حکیم رضی اللہ تعالی عنہا کہلاتا ہے رسم عروسی ادا ہوئی، دعوت ولیمہ سے لوگ فارغ نہیں ہوئے تھے کہ رومی آ پہنچے اور لڑائی شروع ہو گئی، خالد رضی اللہ تعالی عنہ میدان جنگ میں گئے شہادت حاصل کی، حضرت ام حکیم رضی اللہ تعالی عنہا اگرچہ عروس تھیں، تاہم اٹحیں کپڑوں کو باندھا اور خیمہ کی چوب اکھاڑ کر کفار پر حملہ کیا، لوگوں کا بیان ہے کہ انہوں نے اسی چوب سے کافروں کو قتل کیا تھا،[اصابہ ج8ص225]
وفات:۔
حضرت ام حکیم رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کا زمانہ معلوم نہیں اولاد کا بھی یہی حال ہے۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
نماضر نام، خنساء لقب، قبیلہ قیس کے خاندان سلیم سے ہیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے خنساء بنت عمرو بن الشرید بن رباح بن یقظہ بن عصیبتہ بن خفاف بن امراء القیس بن بہثہ بن سلیم بن منصور بن عکرمہ بن حفصہ بن قیس بن عیلان بن مضر، نجد کی رہنے والی تھیں،
نکاح:۔
پہلا نکاح قبیلہ سلیم کے ایک شخص رواحہ بن عبدالعزی سے ہوا، اسکے انتقال کے بعد مرواس بن ابوعامر کے عقد نکاح میں آئیں۔[طبقات الشعراءلابن قنیبہ ص197 اسد الغابہ ج5ص441]
اسلام:۔
پیری کا زمانہ تھا کہ مکہ کے افق سے ماہتاب رسالت طلوع ہوا۔ حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا کے خبر ہوئی تو اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ مدینہ آئیں اور مشرف بہ اسلام ہوئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک انکے اشعار سنتے اور تعجب کرتے رہے، یہ ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے۔
عام حالات:۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں جب قادسیہ(عراق) میں جنگ ہوئی تو حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا اپنے چار بیٹوں کو لیکر میدان میں آئیں اور انکو مخاطب کر کے یہ نصحیت کی، پیارے بیٹو! تم نے اسلام اور ہجرت اپنی مرضی سے اختیار کی ہے ورنہ تم اپنے ملک کو بھاری نہ تھے اور نہ تمھارے یہاں قحط پڑا تھا، باوجود اسکے تم اپنی بوڑھی ماں کو یہاں لے آئے اور فارس کے آگے ڈال دیا، خدا کی قسم! تم ایک ماں اور باپ کی اولاد ہو میں نے نہ تمھارے باپ سے خیانت کی اور نہ تمھارے ماموں کو رسوا کیا، تم جانتے ہو کہ دنیا فانی ہے اور کفار سے جہاد کرنے میں بڑا ثواب ہے خداوندتعالی فرماتا ہے یاایھاالذین امنوااصبرووصابروا وارابطوا، اس بنا پر صبح اٹھ کر لڑکے کی تیاری کرو اور آخر وقت تک لڑو۔[اسدالغابہ ج5ص442] چنانچہ بیٹوں نے ایک ساتھ باگیں اٹھائیں، نہایت جوش میں رجز پڑھتے ہوئے بڑھے، اور شہید ہوئے، حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا کو خبر ہوئی تو خدا کا شکر ادا کیا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ انکے لڑکوں کا 200 درہم سالانہ وظیفہ عطا کرتے تھے۔ انکی شہادت کے بعد یہ رقم حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہ کو ملتی رہی۔[ایضاً]
وفات:۔
اس واقعہ کے دس برس کے بعد حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا نے وفات پائی، سال وفات سن 24 ہجری ہے۔
اولاد:۔
چار لڑکے تھے جو قادسیہ میں شہید ہوئے، انکے نام یہ ہیں، عبداللہ، ابوشجرہ پہلے شوہر سے تھے۔ زید، معاویہ دوسرے شوہر سے تھے،
فضل و کمال:۔
اقام سخن میں مرثیہ میں حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں، صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں،[ایضاً ص441]
"یعنی ناقدان سخن کا فیصلہ ہے کہ خنساء رضی اللہ تعالی عنہا کے برابر کوئی عورت شاعر نہیں پیدا ہوئی۔"
لیلائے اخیلیہ کو شعراء نے تمام شاعر عورتوں کا سرتاج تسلیم کیا ہے، تاہم اس میں بھی حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا مستثنی رکھی گئی ہیں،[طبقات الشعراء ص271] بازار عکاظ میں جو شعرائے عرب کا سب سے بڑا مرکز تھا حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ انکے خیمے کے دروازے پر ایک علم نصب ہوتا تھا جس پر یہ الفاظ لکھے ہوتے تھے ارثی العرب یعنی عرب میں سب سے بڑی مرثیہ گو، نابغہ جو اپنے زمانے کا سب سے بڑا شاعر تھا، اسکو حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنا کلام سنایا تو بولا کہ اگر میں ابو بصیر(اعشیٰ) کا کلام نہ سن لیتا تو تجھکو عالم میں سب سے بڑا شاعر مانتا۔[طبقات الشعراء 198]
حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہ ابتداءً ایک دو شعر کہتی تھیں، لیکن صخر کے مرنے سے انکو جو صدمہ پہنچا اس نے انکی طبعیت میں ایک ہیجان پیدا کر دیا تھا، چنانچہ کثرت سے مرثیے لکھے ہیں، یہ شعر خاص طور پہ مشہور ہے۔
"صخر کی بڑے بڑے لوگ اقتدا کرتے ہیں۔۔۔ گویا وہ ایک پہاڑ ہے جسکی چوٹی پر آگ روشن ہے"
حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا کا دیوان بہت ضخیم ہے، 1888 عیسوی میں مع شرح کے بیروت میں چھاپا گیا ہے، اس میں حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ ساٹھ عورتوں کے اور بھی مرثیے شامل ہیں۔ 1889 میں اس کا فرنچ زبان میں ترجمہ ہوا اور دوبارہ طبع کیا گیا۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
نام معلوم نہیں، ام حرام کنیت تھی، قبیلہ خزرج کے خاندان بنو نجار سے تھیں سلسلہ نسب ہے، ام حرام، بنت ملحان بن خالد بن زید بن حرام بن جند بن عامر بن غنم بن عدی ابن نجار، والدہ کا نام ملیکہ تھا جو مالک بن عدی بن زید بن مناة بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار کی دختر تھیں، اس بنا پر ام حرام حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا کی بہن اور حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی خالہ ہوتی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی انکا یہی رشتہ تھا۔
نکاح:۔
عمرو بن قیس انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے نکاح ہوا۔[تہذیب ج12ص462] لیکن جب انہوں نے احد میں شہادت پائی تو حضرت عبادة رضی اللہ تعالی عنہ بن صامت کے عقد نکاح میں آئیں۔ جو بڑے رتبہ کے صحابی تھے،
عام حالات اور وفات:۔
آنحضرت جب کبھی قبا کی طرف تشریف لے جاتے تو حضرت ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر آتے اور کھانا نوش فرماتے تھے، حجة الوداع[زرقانی ج؟ ص66 و اصابہ ج8ص222،223] کے بعد ایک روز آپ تشریف لائے اور کھانا کھا کر آرام فرمایا تو حضرت ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا نے جویں دیکھنا شروع کیا آپکو نیند آ گئی، لیکن تھوڑی دیر کے بعد مسکراتے ہوئے اٹھے اور فرمایا میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور وہ یہ کہ"میری امت کے کچھ لوگ سمندر میں غزوہ کے ارادہ سے سوار ہیں۔" حضرت ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیجیئے کہ میں بھی ان میں شامل ہوں۔" آپ نے دعا کی اور پھر آرام فرمایا، کچھ دیر کے بعد پھر مسکراتے ہوئے اٹھے اور اسی خواب کا اعادہ کیا، حضرت ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا نے پھر اپنی شرکت کے لیے دعا کی درخواست کی" فرمایا تم پہلی جماعت کے ساتھ ہو، اس خواب کی تعبیر سن 28 ہجری میں پوری ہوئی۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے شام کے حاکم تھے، انہوں نے متعدد بار جزائر پر حملہ کرنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت نہیں دی، حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں انہوں نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو اجازت ملی، انہوںں نے جزیرہ قبرس(سائپرس) پر حملہ کرنے کے لیے ایک بیڑا تیار کیا، اس حملہ میں بہت سے صحابہ شریک تھے، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ بن صامت، حضرت ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا بھی انہی میں داخل تھیں،[اسد الغابہ ج5ص575] بیڑا احمص[زرقانی ج؟ص61] کے ساحل سے روانہ ہوا۔ اور قبرس فتح ہو گیا۔ واپسی میں حضرت ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا سواری پر چڑھ رہی تھیں کہ نیچے گریں اور جاں بحق تسلیم ہوئیں، لوگوں نے وہیں انکو دفن کردیا۔[صحیح بخاری ج2ص929]
اولاد:۔
حضرت ام حرام رضی اللہ تعالی عنہا کے تین لڑکے پیدا ہوئے، پہلے شوہر سے قیس اور عبداللہ اور حضرت عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے محمد۔
فضل و کمال:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کیں، راویوں میں حضرت عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ، عمروبن اسود، عطاء بن یسار اور یعلی بن شداد بن اوس ہیں۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت عبداللہ

نام و نسب:۔
نام معلوم نہیں، ام ورقہ کنیت اور انصار کے کسی قبیلہ سے تھیں، سلسلہ نسب یہ ہے ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث بن عویمر بن نوفل۔
اسلام:۔
ہجرت کے بعد مسلمان ہوئیں۔
غزوات:۔
غزوہ بدر پیش آیا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شرکت کی اجازت مانگی کہ مریضوں کی تیماداری کرونگی، ممکن ہے کہ اس سلسلہ میں شہادت نصیب ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"تم گھر میں رہو خدا تمکو وہیں شہادت عطا فرمائے گا۔"
شہادت:۔
چونکہ قرآن پڑھی ہوئی تھیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو عورتوں کا امام بنایا ہوا تھا، اس لیے درخواست کی کہ ایک مؤذن بھی مقرر فرما دیجیئے، چنانچہ مؤذن اذان دیتا اور یہ عورتوں کی امامت کرتی تھیں،[عورتوں کی امامت کے متعلق دیباچہ کے صفحہ 8 پر ایک نوٹ ہے، وہ ملاحظہ فرمائیں۔] راتوں کو قرآن پڑھا کرتیں انہوں نے ایک لونڈی اور ایک غلام کو مدیر بنایا یعنی اس شرط پر آزادی کا وعدہ کیا تھا کہ میرے بعد تم آزاد ہو، ان بدبختوں نے اس وعدے سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہا۔۔ اور رات کو ایک چادر ڈال کر انکا کام تمام کر دیا، یہ خلافت فاروقی کا واقعہ ہے، صبح کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں سے پوچھا، آج خالہ کے پڑھنے کی آواز نہیں آئی، معلوم نہیں کیسی ہیں؟ مکان میں گئے دیکھا تو ایک چادر میں لپٹی ہوئئ پڑی ہیں نہایت افسوس ہوا، اور فرمایا خدا اور رسول نے سچ کہا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔ کہ "شہیدہ کے گھر چلو" اسکے بعد منبر پر چڑھے اور کہا غلام اور لونڈی دونوں گرفتار کیئے جائیں، چنانچہ وہ گرفتار ہو کر آئے، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انکو سولی پر لٹکا دیا۔ یہ دونوں وہ پہلے مجرم ہیں جنکو مدینہ منورہ میں سولی دی گئی،[اصابہ ج8ص289]
 

تانیہ

محفلین
حضرت ہند رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
ہند نام، قبیلہ قریش سے تھیں، سلسلہ نسب یہ ہے ہند بنت عتبہ ابن ربیعہ بن عبدشمس ابن عبدمناف، ہند کا باپ قریش کا سب سے معزز رئیس تھا۔
نکاح:۔
فاکہ بن مغیرہ مخزومی سے نکاح ہوا، لیکن پھر کسی وجہ سے جھگڑا ہو گیا، تو ابوسفیان ابن حرب کے عقد میں آئیں جو قبیلہ امیہ کے مشہور سردار تھے۔
عام حالات:۔
عتبہ، ابوسفیان اور ہند تینوں کو اسلام سے سخت عداوت تھی اور وہ اسلام کی غیر معمولی ترقی کو نہایت رشک سے دیکھتے تھے، حتی الامکان اسکی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے تھے، ابوجہل ان سب کا سردار تھا۔ لیکن جب بدر کے معرکہ میں جو اسلام و کفر کا پہلا معرکہ تھا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اور ابوجہل اور عتبہ وغیرہ بھی قتل ہو گئے تو ابوسفیان بن حرب نے جو عتبہ کے داماد تھے اسکی جگہ لی اور ابوجہل کی طرح مکہ میں انکی سیادت مسلم ہو گئی، چنانچہ بدر کے بعد سے جس قدر معرکے پیش آئے، ابوسفیان سب میں پیش پیش تھے، غزوہ احد انہی کے جوش انتقام کا نتیجہ تھا۔ اس موقع پر انکے ساتھ انکی بیوی ہند بھی آئی تھیں، جنہوں نے اپنے باپ کے انتقام میں سنگدلی اور خونخواری کا ایسا خوفناک منظر پیش کیا، کہ جسکے تخیل سے بھی جسم لرز اٹھتا ہے، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے، انہوں نے عتبہ کو قتل کیا تھا، ہندان کی فکر میں تھیں، چنانچہ انہوں نے وحشی کو جو جبیر بن مطعم کے غلام اور حربہ اندازی میں کمال رکھتے تھے، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل پر آمادہ کیا تھا، (یہ حضرت وحشی رضی اللہ تعالی عنہ کے قبل از اسلام کا واقعہ ہے) اور یہ اقرار ہوا کہ اس کارگزاری کے صلہ میں وہ آزاد کر دیئے جائیں گے، چنانچہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ جب انکے برابر آئے تو وحشی نے حربہ پھینک کر مارا جو ناف میں لگا اور پار ہو گیا، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پر حملہ کرنا چاہا لیکن لڑکھڑا کر گر پڑے اور روح پرواز کر گئی۔
خاتونان قریش نے انتقام بدر کے جوش میں مسلمانوں کی لاشوں سے بھی بدلی لیا تھا۔ انکے ناک کان کاٹ لیئے۔ ہند نے ان پھولوں کا ہار بنایا، اور اپنے گلے میں ڈالا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش پر گئیں اور اور انکا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکالا اور چبا گئیں۔ لیکن گلے سے اتر ن ہسکا، اس لیئے اگل دینا پڑا،(حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ اور ہند کے یہ سب واقعات اسلام قبول کرنے سے پہلے کے ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فعل سے جس قدر صدمہ ہوا تھا، اسکا کون اندازہ کر سکتا ہے لیکن ایک اور چیز تھی جو ایسے موقعوں پر بھی جبینِ رحمت کو شکن آلود نہیں ہونے دیتی تھی،
اسلام:۔
چنانچہ جب مکہ فتح ہوا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے بیعت لینے کے لیے بیٹھے، تو مستورات میں ہند بھی آئیں، شریف عورتیں نقاب پہنتی تھیں، ہند بھی نقاب پہن کر آئیں جس سے اس وقت یہ غرض بھی تھی کہ کوئئ انکو پہچاننے نہ پائے بیعت کے وقت انہوں نے نہایت دلیری سے باتیں کیں جو حسب ذیل ہیں۔
ہند! یا رسول اللہ! آپ ہم سے کن باتوں کا اقرار لیتے ہیں۔
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔
ہند:
یہ اقرار آپ نے مردوں سے تو نہیں لیا، بہرحال ہم کو منظور ہے۔
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) چوری نہ کرنا۔
ہند: میں اپنے شوہر کے مال میں سے کبھی کچھ لے لیا کرتی ہوں معلوم نہیں یہ بھی جائز ہے یا نہیں؟
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)اولاد کو قتل نہ کرنا۔
ہند:ربینا ھم صغاراوقتلھم کبارافانت وھو اعلم، ہم نے تو اپنے بچوں کو پالا تھا،
بڑے ہوئے تو جنگ بدر میں آپ نے انکو مار ڈالا، اب آپ اور وہ باہم سمجھ لیں،
(اس دیدہ دلیری کے باوجود) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند سے درگزر فرمایا، ہند کے قلب پر اسکا بہت اثر ہوا۔ اور انکے دل نے اندر سے گواہی دی کہ آپ سچے پیغمبر ہیں انہوں نے کہا یا رسول اللہ! اس سے پہلے آپکے خیمہ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی مبغوض خیمہ نہ تھا لیکن اب آپکے خیمہ سے زیادہ کوئی محبوب خیمہ میرے نزدیک نہیں ہے،[صحیح بخاری]
حضرت ہند رضی اللہ تعالی عنہا مسلمان ہو کر گھر گئیں تو اب وہ ہند نہ تھیں، ابن سعد نے لکھا ہے کہ انہوں نے گھر جا کر بت توڑ ڈالا اور کہا کہ ہم تیری طرف سے دھوکے میں تھے،[اصابہ ج8ص206]
(اسد الغابہ میں انکے حسن اسلام سے متعلق لکھا ہے کہ اسلمت یوم الفتح و حسن اسلامھا)[اسد الغابہ ج5ص562]
غزوات:۔
فتح مکہ کے بعد اگرچہ اسلام کو اعلانیہ غلبہ حاصل ہو گیا تھا، اور اس لیئے عورتوں کو غزوات میں شریک ہونے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی، تاہم جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں روم و فارس کی مہم پیش آئی تو بعض مقامات میں اس شدت کا رن پڑا۔ کہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی تیغ و خنجر کا کام لینا پڑا۔ چنانچہ شام کی لڑائیوں میں جنگ یرموک ایک یادگار جنگ تھی، اس میں حضرت ہند رضی اللہ تعالی عنہااور انکے شوہر حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ دونوں نے شرکت کی اور فوج میں رومیوں کے مقابلہ کا جوش پیدا کیا۔
وفات:۔
حضرت ہند رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں انتقال کیا۔ اسی دن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے والد ابوقحافہ نے بھی وفات پائی تھی ابن سعد کی روایت ہے کہ انکی وفات حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں نہیں بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں ہوئی، کتاب الامثال سے بھی اسکی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ اس میں مذکور ہے کہ جب حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ نے وفات پائی (ابوسفیان نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں وفات پائی ہے) تو کسی نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ مجھ سے ہند رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح کردو۔ انہوں نے نہایت متانت سے جوابدیا کہ اب انکو نکاح کرنے کی ضرورت نہیں۔[اصابہ ج8ص206]
اولاد:۔
اولاد میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ زیادہ مشہور ہیں۔
اخلاق:۔
حضرت ہند رضی اللہ تعالی عنہا میں وہ تمام اوصاف موجود تھے جو ایک عرب عورت کے مابہ الامتیاز ہو سکتے ہیں، صاحب اسد الغابہ نے لکھا ہے۔
"ان میں عزت نفس، غیرت رائے و تدبیر اور دانشمندی پائی جاتی تھی،"[اسد الغابہ ج5ص563]
فیاض تھیں، حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ انکو انکے حوصلہ کے مطابق خرچ نہیں دیتے تھے اسلام لانے کے وقت جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عہد لیا کہ چوری نہ کریں تو انہو ں نے عرض کی یا رسول اللہ! ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ مجھے پورا خرچ نہیں دیتے اگر ان سے چھپا کر لوں تو جائز ہے؟ آپ نے اجازت دی۔[صحیح بخاری]
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب اور اسلام:۔
ام کلثوم کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط بن ابی عمرو بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف، والدہ کا نام اروس بنت کریز تھا، اس بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا اخیافی بھائی بہن ہیں۔ ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کا باپ عقبہ بن ابی معیط قبیلہ امیہ کا ایک ممتاز شخص تھا، اسکو اسلام سے سخت عداوت تھی، لیکن خدا کی قدرت دیکھو! اس نے اسی ظلمت کدہ میں ایمان کا چراغ روشن کیا، یعنی اسکی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا مشرف بہ اسلام ہوئیں۔
ہجرت:۔
سن ستر ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا نے مدینہ کی طرف ہجرت کی خزاعہ کے ایک شخص کے ہمراہ مکہ سے پاپیادہ روانہ ہوئیں، چونکہ بھاگ کر نکلی تھیں، اس لیے انکے بھائی انکے پیچھے سے آئے، مدینہ پہنچیں تو دوسرے دن وہ بھی پہنچ گئے، حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا نے فریاد کی کہ مجھکو اپنےایمان کا خوف ہے، میں عورت ہوں اور عورتیں کمزور ہوتی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح نامہ میں یہ شرط کی تھی کہ قریش کا کوئی آدمی مدینہ آئے گا تو واپس کر دیا جائے گا۔ اس لیے آپکو فکر ہوئیں لیکن چونکہ اس میں عورتیں داخل نہ تھیں اس لیے انکے متعلق خاص یہ آیت اتری،
"مسلمانو! جب تمھارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو انکو جانچ لو خدا انکے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے اب اگر تمکو معلوم ہو کہ وہ مسلمان ہیں تو انکو کافروں کے ہاں واپس نہ بھیجو،"
اور آپ نے اس کے مطابق ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کو واپس کرنے سے انکار کر دیا۔
نکاح:۔
حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا اب تک کنواری تھیں اس لیے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ بڑے رتبہ کے صحابی تھے، انکا نکاح کیا گیا، لیکن جب زید رضی اللہ تعالی عنہ نے غزوہ موتہ میں سہادت پائی تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ بن العوام کے عقد نکاح میں آئیں، لیکن انہوں نے طلاق دے دی۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ بن عوف سے نکاح وا۔ انکی وفات کے بعد حضرت عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بن العاص
سے نکاح پڑھایا اور یہ آخری نکاح تھا۔
وفات:۔
ایک مہینہ کے بعد وفات پائی، اس زمانہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ والی مصر تھے۔
اولاد:۔
حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بن عاص سے کوئی اولاد پیدا نہ ہوئی لیکن حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے زینب اور حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ بن عوف سے ابراہیم، حمید، محمد اور اسماعیل پیدا ہوئے۔
فضل و کمال:۔
حمید اور ابراہیم نے ان سے کچھ حدیثیں روایت کی ہیں،
 

تانیہ

محفلین
حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
زینب نام، قبیلہ مخذوم سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے، زینب بنت ابی سلمہ عبداللہ بن عبد الاسد بن عمرو بن مخزوم، حبشہ میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں، اور انہی کے ساتھ کچھ زمانہ کے بعد مدینہ کو ہجرت کی، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے دودھ پلایا،[اصابہ ج8ص96 بحوالہ ابن سعد] پہلے برہ نام تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب نام رکھا۔[صحیح مسلم ج2ص231 باب استحباب تغییر الاسم القبیح الی حسن]
عام حالات:۔
سن چار ہجری میں ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے وفات پائی، تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں آئیں، اس وقت زینب رضی اللہ تعالی عنہا شیر خوار تھیں، والدہ ماجدہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش تربیت میں آئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے محبت تھی پیروں چلنے لگیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں، آپ غسل فرماتے تو انکے منہ پر پانی چھڑکتے تھے، لوگوں کا بیان ہے کہ اسکی یہ برکت تھی کہ بڑھاپے تک انکے چہرے پر شباب کا آب و رنگ باقی رہا،
حضرت عبداللہ بن زمعہ بن اسوداسدی سے شادی ہوئی، دو لڑکے پیدا ہوئے، جن میں ایک کا نام ابو عبیدہ تھا، سن تریسٹھ ہجری میں حرا کی لڑائی میں دونوں کام آئے اور حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے سامنے انکی لاشیں لاکر رکھی گئیں، انہوں نے انا للہ پڑھا اور کہا کہ "مجھ پر بہت بڑی مصیبت پڑی، ایک تو میدان میں لڑ کر قتل ہوا، لیکن دوسرا تو خانہ نشین تھا لوگوں نے اسکو گھر میں گھس کر مارا۔"
وفات:۔
بیٹوں کے قتل ہونے کے بعد دس برس زندہ رہیں اور سن 73 ہجری میں وفات پائی فرمایا یہ طارق کی حکومت کا زمانہ تھا۔[تہذیب ج2ص421] حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جنازہ میں تشریف لائے۔
فضل و کمال:۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا فضل و کمال میں شہرہ آفاق تھیں اور اس وصف میں کوئی عورت انکی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتی تھی، اسد الغابہ میں ہے،
"وہ اپنے عصر کی فقیہ عورت تھیں۔"[اسد الغابہ ج5ص469]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ حدیثیں روایت کیں، آپکے علاوہ حضرت عائشہ ، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا بنت حجش سے بھی چند حدیثیں روایت کیں۔ جن لوگوں نے ان سے حدیث روایت کی ہے انکے نام یہ ہیں۔
امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ، ابو عبیدہ، محمد بن عطاء، عراک بن مالک، ابن نافع، عروہ، ابو سلمہ، کلیب بن وائل، ابو قلابہ جرمی۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت ام ابی ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
امیمہ نام تھا، باپ کا نام صبیح یا صفیح بن الحارث تھا۔
اسلام:۔
اگرچہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ جو انکے صاحبزادے تھے مسلمان ہو چکے تھے۔تاہم وہ مشرک تھیں، ایکدن انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سخت ناگوار ہوا۔ روتے ہوئے خدمت اقدس میں پہنچے اور کہا۔"حضور! اب میری ماں کے مسلمان ہونے کے لیے دعا فرما ئیے۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، ادھر انکی حالت میں دفعتہً انقلاب پیدا ہو گیا، غسل کر کے کپڑے پہنے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے کلمہ پڑھا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرط مسرت سے آبدیدہ ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا شکر ادا کیا۔[صحیح مسلم ج2ص357، باب فضائل ابی ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ]
وفات:۔
وفات کی تاریخ معلوم نہیں،
اولاد:۔
اولاد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ زیادہ مشہور ہیں۔
 

تانیہ

محفلین
حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب:۔
خولہ نام، ام شریک کنیت، قبیلہ سلیم سے تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ ہوتی ہیں۔[مسند ج6ص409] نسب نامہ یہ ہے۔ خولہ بنت حکیم بن امیہ بن حارثہ بن الاوقص بن م ابن ہلال بن فالج بن ذکوان بن ثعلبہ بن بہثہ بن سلیم،
نکاح:۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بن مظعون سے جو بڑے رتبہ کے صحابی تھے، نکاح ہوا۔
عام حالات:۔
مسلمان ہو کر مدینہ کو ہجرت کی۔ سن دو ہجری میں غزوہ بدر کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بن مظعون نے وفات پائی تو حضرت خولہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دوسرا نکاح نہیں کیا، اکثر پریشان رہتی تھیں، صحیح بخاری میں روایت آئی ہے کہ انہوں نے اپنے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا۔[بخاری ج2ص76، باب ہل للمرٔة ان یہب نفسہا لاعد و تہذیب ج2 ص215]
فضل و کمال:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پندرہ حدیثیں روایت کیں، راویان حدیث میں حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی وقاص، سعید بن مسیب، بشیر بن سعید، عروہ اور ربیع بن مالک داخل ہیں۔
اخلاق:۔
اسد الغابہ میں ہے کانت امرأة صالحة "وہ ایک نیک بی بی تھیں" مسند میں ہے، تصوم النھار و تقوم اللیل یعنی"دن کو روزہ رکھتی اور رات کو عبادت کرتی تھیں۔"
ابتداء ً زیور کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اگر طائف فتح ہو تو آپ مجھکو فلاں عورت کا زیور دے دیجیئے گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر خدا اسکی اجازت نہ دے تو پھر میں کیا کر سکتا ہوں،[اصابہ ج8ص70]
 

تانیہ

محفلین
حضرت حمنہ رضی اللہ تعالی عنہا بنت حجش

نام و نسب:۔
حمنہ نام، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی ہمشیرہ ہیں، سلسلہ نسب اوپر گزر چکا ہے۔
نکاح:۔
حضرت مصعب رضی اللہ تعالی عنہ بن عمیر سے نکاح ہوا،
اسلام:۔
اور انہی کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوئین۔
عام حالات:۔
مدینہ کی ہجرت کا شرف حاصل کیا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کی عورتوں سے بیعت لی تو اس میں یہ بھی شامل ہوئیں، مسند ابن حنبل اور ابن سعد وغیرہ میں اکثر عورتوں کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ کانت من المبایعات، اس سے یہی بیعت مراد ہے، چنانچہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بنت یزید کے حالات میں ہم اسکا ذکر کر آئے ہیں،
غزوات میں سے احد میں نمایاں شرکت کی وہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں، انکے علاوہ اور عورتیں بھی یہ خدمت انجام دے رہیں تھیں، چنانچہ فیدہ رضی اللہ تعالی عنہا اور رام کبشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی نسبت بھی اس قسم کی تصریحات موجود ہیں،
اس واقعہ میں حضرت حمنہ رضی اللہ تعالی عنہ کے شوہر حضرت مصعب رضی اللہ تعالی عنہ بن عمیر نے شہادت پائی، جنکے بعد انہوں نے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہ عشرہ مبشرہ میں تھے، نکاح کیا۔
افک کے واقعہ میں منافقین کے ساتھ غلطی سے جو مسلمان شریک ہو گئے تھے، ان میں حضرت حسان اور حضرت مسطح رضی اللہ تعالی عنہما کے ساتھ حضرت حمنہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی تھیں، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے منقول ہے،[صحیح بخاری ج2ص596]
"یعنی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی بہن حمنہ رضی اللہ تعالی عنہا برابر میرے خلاف رہیں، یہاں تک کہ اور اصحاب افک کی طرح برباد ہوئیں۔"
فتح الباری میں ہے کہ حضرت حمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے شریک ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں سے گرا کر حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہ(اپنی بہن) کو بلند کریں،[فتح الباری ج8ص367]
لیکن تعجب ہے کہ خود حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا، چنانچہ اسکا تذکرہ انکے حالات میں آ چکا ہے،
وفات:۔
وفات کا سن صحیح طور پر معلوم نہیں، اتنا علم ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات تک زندہ تھیں، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے سن بیس ہجری میں وفات پائی ہے۔
اولاد:۔
حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت حمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے دو لڑکے پیدا ہوئے، محمد اور عمران، محمد کو سجاد کے لقب سے شہرت حاصل تھی۔

ختم شد
 

تانیہ

محفلین
اسوہ صحابیات ( رضی اللہ تعالی عنہن) کی جو دلچسپ اور بہت پیاری کتاب کی شیئرنگ میں نے شروع کی وہ آج ختم ہو گئی اور مجھے خوشی ہو رہی کہ اپنی طرف سے ایک بہت خوبصورت تحفہ میں نے اپنے ساتھیوں‌سے شیئر کیا، امید ہے کہ آپ سب ساتھی بھی خوش ہوئے ہونگے اور ایمان تازہ ہو گا اس بہت پیاری شیئرنگز کے بعد ۔۔۔۔اسی تھریڈ میں‌اسی حوالے سے کوئی ساتھی مزید اضافہ کرنا چاہے اس موضوع پہ تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔۔۔سب ساتھیوں کا بہت شکریہ
جزاک اللہ
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ تانیہ، جزاک اللہ خیر۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو محفل کے لیے یہ بہت پیارا تحفہ ہے۔
 
Top