اُمید افزا اور ہمت بڑھانے والے اشعار

جاسمن

لائبریرین
بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے
چلو محتاج کے منہ میں نوالہ رکھ دیا جائے
رضا مورانوی
 

جاسمن

لائبریرین
میں کہ ایک محنت کش، میں کہ تیرگی دشمن
صبحِ نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے
مجروح سلطانپوری
 

جاسمن

لائبریرین
بچوں کے لیے ترانہ
(الطاف حسین حالی)
وہی لوگ پاتے ہیں عزت زیادہ
جو کرتے ہیں دنیا میں محنت زیادہ

اسی میں ہے عزت خبردار رہنا
بڑا دکھ ہے دنیا میں بیکار رہنا

زمانے میں عزت ، حکومت یہی ہے
بڑی سب سے دنیا میں دولت یہی ہے

ہری کھیتیاں جو نظر آ رہی ہیں
ہمیں شان محنت کی دکھلا رہی ہیں

جو محنت نہ ہوتی تجارت نہ ہوتی
کسی قوم کی شان و شوکت نہ ہوتی

ہمارا ، تمہارا ، سہارا یہی ہے
اندھیرے گھروں کا اُجالا یہی ہے

جو ہاتھوں سے اپنے کمایا وہ اچھا
جو ہو اپنی محنت کا پیسہ وہ اچھا

مری جان غافل نہ محنت سے رہنا
اگر چاہتے ہو فراغت سے رہنا
 

اربش علی

محفلین
آدمِ نَو کا ترانۂ سفر

فریب کھائے ہیں رنگ و بو کے، سراب کو پُوجتا رہا ہوں
مگر نتائج کی روشنی میں خود اپنی منزل پہ آ رہا ہوں

جو دل کی گہرائیوں میں صبحِ ظہورِ آدم سے سو رہی تھیں
میں اپنی فطرت کی ان خُدا داد قوّتوں کو جگا رہا ہوں

میں سانس لیتا ہوں ہر قدم پر کہ بوجھ بھاری ہے زندگی کا
ٹھہر ذرا گرم رَو زمانے! کہ میں ترے ساتھ آ رہا ہوں

جہاز رانوں کو بھی تعجب ہے میرے اس عزمِ مطمئن پر
کہ آندھیاں چل رہی ہیں تند اور میں اپنی کشتی چلا رہا ہوں

طلسمِ فطرت بھی مسکراتا ہے میری افسوں طرازیوں پر
بہت سے جادو جگا چکا ہوں، بہت سے جادو جگا رہا ہوں

یہ مہرِ تاباں سے کوئی کہہ دے کہ اپنی کرنوں کو گِن کے رکھ لے
میں اپنے صحرا کے ذرّے ذرّے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں

مرا تخیّل، مرے ارادے کریں گے فطرت پہ حکمرانی
جہاں فرشتوں کے پر ہیں لرزاں میں اُس بلندی پہ جا رہا ہوں

یہ وہ گھروندے ہیں جن پہ اک دن پڑے گی بنیادِ قصرِ جنّت
نہ سمجھیں سُکّان ِبزمِ عصمت کہ میں گھروندے بنا رہا ہوں

یہ ناز پروردگانِ ساحل ڈریں ڈریں مری گرم رَو سے
کہ میں سمندر کی تند موجوں کو روندتا پاس آ رہا ہوں


جمیل مظہری
 

جاسمن

لائبریرین
آدمِ نَو کا ترانۂ سفر

فریب کھائے ہیں رنگ و بو کے، سراب کو پُوجتا رہا ہوں
مگر نتائج کی روشنی میں خود اپنی منزل پہ آ رہا ہوں

جو دل کی گہرائیوں میں صبحِ ظہورِ آدم سے سو رہی تھیں
میں اپنی فطرت کی ان خُدا داد قوّتوں کو جگا رہا ہوں

میں سانس لیتا ہوں ہر قدم پر کہ بوجھ بھاری ہے زندگی کا
ٹھہر ذرا گرم رَو زمانے! کہ میں ترے ساتھ آ رہا ہوں

جہاز رانوں کو بھی تعجب ہے میرے اس عزمِ مطمئن پر
کہ آندھیاں چل رہی ہیں تند اور میں اپنی کشتی چلا رہا ہوں

طلسمِ فطرت بھی مسکراتا ہے میری افسوں طرازیوں پر
بہت سے جادو جگا چکا ہوں، بہت سے جادو جگا رہا ہوں

یہ مہرِ تاباں سے کوئی کہہ دے کہ اپنی کرنوں کو گِن کے رکھ لے
میں اپنے صحرا کے ذرّے ذرّے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں

مرا تخیّل، مرے ارادے کریں گے فطرت پہ حکمرانی
جہاں فرشتوں کے پر ہیں لرزاں میں اُس بلندی پہ جا رہا ہوں

یہ وہ گھروندے ہیں جن پہ اک دن پڑے گی بنیادِ قصرِ جنّت
نہ سمجھیں سُکّان ِبزمِ عصمت کہ میں گھروندے بنا رہا ہوں

یہ ناز پروردگانِ ساحل ڈریں ڈریں مری گرم رَو سے
کہ میں سمندر کی تند موجوں کو روندتا پاس آ رہا ہوں


جمیل مظہری
واہ ! بہت خوب!
اس غزل کا ایک شعر تو کافی عرصے سے کمپیئرنگ میں استعمال کر رہی تھی لیکن مکمل غزل پڑھی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
وہی ستارہ ستاروں کا حکمراں ٹھہرا
لرز رہا تھا جو پہلی زقند بھرتے ہوئے
طارق نعیم
 
Top