FB-IMG-1578367830304.jpg
20180428-211046.jpg

آپ کی پوسٹ دیکھ کر مجھے لگ بھگ دو سال پہلے بیتا یہ واقعہ یاد آ گیا۔ آج تک نا کبھی کہیں اس کا ذکر کیا تھا نا تصویر پوسٹ کی تھی۔ لیکن پھر اس اجنبی ڈرائیور کا چہرہ یاد آیا تو سوچا تفصیلاً لکھ دیتا ہوں۔



اپریل 2018 کو ایک رات ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ دفتر بند کر کے گھر کو ہوا تو پلازہ کے عین سامنے جی ٹی روڈ پر ایک ہائی ایس مسافر کوچ جو راولپنڈی سے پشاور جا رہی تھی نے سڑک کراس کرتے اس بے زبان کو ٹکر مار دی ۔ آنکھوں کے سامنے اسے ٹکراتے، گرتے اور پھر اٹھ کر لنگڑاتے ہوئے دیکھا۔ پلازے کے ایک چوکیدار اور میں نے ملکر اس کتے کو پکڑ لیا۔جانور شدید تکلیف میں تھا۔ معائنہ کرنے پر اندازہ ہوا کہ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ ہم دو تین لوگوں نے ملکر اس کے گلے میں چھوٹی سی رسی ڈالی اور پول کے ساتھ باندھ دیا تاکہ دوران علاج یہ تکلیف کی وجہ سے کاٹ نا لے۔ میں واپس پلازے میں آیا اور دفتر کھول کر فرسٹ ایڈ کا جو تھوڑا بہت سامان پڑا تھا وہ لیا۔ نزدیکی اڈے پر موجود ایک ریڑھی والے سے فروٹ کی پیٹی میں استعمال ہونے والی آٹھ دس پھٹیاں لائیں، انھیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا۔ پھر باہر نظر آنے والے زخم پر دوا لگائی اور اوپر لکڑی کے پیس رکھ کر پٹی باندھ دی۔ رات کو اسے وہیں بندھا رہنے دیا تاکہ حرکت کرنے سے کہیں پٹی کھل نا جائے۔ اگلے آٹھ دس دن بھی اسے پلازے کی بیک سائیڈ پر باندھ کے رکھا۔ چھٹے ساتویں دن پلازے کے چوکیدار نے کی اس کی دوبارہ بینڈیج کی۔ دو ہفتے بعد تک یہ معمولی لنگڑاہٹ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اس سارے کاموں کا زیادہ حصہ ہمارے پلازے کے چوکیدار نے سر انجام دیا جبکہ میں ساتھ تھوڑی بہت مدد کرتا رہا۔

لیکن۔۔۔۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ رہی کہ ہائی ایس والے نے اپنی گاڑی روکی اور بھاگ کر واپس ہماری طرف آیا۔ کتے کو تکلیف میں دیکھ کر اس نے مسافروں سے کہا کہ میں فی الحال آگے نہیں جاؤں گا، جسے جلدی ہے وہ کرایہ لے لے اور چلا جائے، میں کچھ دیر ادھر ہی رکوں گا۔ کوئی دس پندرہ منٹ ہم اسے سمجھاتے بجھاتے رہے کہ آپ جائیں، گاڑی میں کافی مسافر ہیں آپ ان کا خیال کریں وہ لیٹ ہو رہے ہیں ہم اس کی دیکھ بھال کر لیں گے۔ لیکن وہ بضد رہا اور بڑی مشکل سے جانے کے لیے راضی ہوا۔ جاتے جاتے اس نے ہمیں ہزار روپے کا نوٹ پکڑانا چاہا کہ اس کو دوا اور دودھ وغیرہ دینا جو ہم نے انکار کر دیا لیکن وہ نوٹ پھینک کر چلا گیا۔

مجھے اس نوجوان پختون ڈرائیور کے چہرے کی پریشانی آج تک نہیں بھولی۔ :)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
20180428-211046.jpg

آپ کی پوسٹ دیکھ کر مجھے لگ بھگ دو سال پہلے بیتا یہ واقعہ یاد آ گیا۔ آج تک نا کبھی کہیں اس کا ذکر نہیں کیا تھا نا تصویر پوسٹ کی تھی۔ لیکن پھر اس اجنبی ڈرائیور کا چہرہ یاد آیا تو سوچا تفصیلاً لکھ دیتا ہوں۔



اپریل 2018 کو ایک رات ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ دفتر بند کر کے گھر کو ہوا تو پلازہ کے عین سامنے جی ٹی روڈ پر ایک ہائی ایس مسافر کوچ جو راولپنڈی سے پشاور جا رہی تھی نے سڑک کراس کرتے اس بے زبان کو ٹکر مار دی ۔ آنکھوں کے سامنے اسے ٹکراتے، گرتے اور پھر اٹھ کر لنگڑاتے ہوئے دیکھا۔ پلازے کے ایک چوکیدار اور میں نے ملکر اس کتے کو پکڑ لیا۔جانور شدید تکلیف میں تھا۔ معائنہ کرنے پر اندازہ ہوا کہ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ ہم دو تین لوگوں نے ملکر اس کے گلے میں چھوٹی سی رسی ڈالی اور پول کے ساتھ باندھ دیا تاکہ دوران علاج یہ تکلیف کی وجہ سے کاٹ نا لے۔ میں واپس پلازے میں آیا اور دفتر کھول کر فرسٹ ایڈ کا جو تھوڑا بہت سامان پڑا تھا وہ لیا۔ نزدیکی اڈے پر موجود ایک ریڑھی والے سے فروٹ کی پیٹی میں استعمال ہونے والی آٹھ دس پھٹیاں لائیں، انھیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا۔ پھر باہر نظر آنے والے زخم پر دوا لگائی اور اوپر لکڑی کے پیس رکھ کر پٹی باندھ دی۔ رات کو اسے وہیں بندھا رہنے دیا تاکہ حرکت کرنے سے کہیں پٹی کھل نا جائے۔ اگلے آٹھ دس دن بھی اسے پلازے کی بیک سائیڈ پر باندھ کے رکھا۔ چھٹے ساتویں دن پلازے کے چوکیدار نے کی اس کی دوبارہ بینڈیج کی۔ دو ہفتے بعد تک یہ معمولی لنگڑاہٹ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اس سارے کاموں کا زیادہ حصہ ہمارے پلازے کے چوکیدار نے سر انجام دیا جبکہ میں ساتھ تھوڑی بہت مدد کرتا رہا۔

لیکن۔۔۔۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ رہی کہ ہائی ایس والے نے اپنی گاڑی روکی اور بھاگ کر واپس ہماری طرف آیا۔ کتے کو تکلیف میں دیکھ کر اس نے مسافروں سے کہا کہ میں فی الحال آگے نہیں جاؤں گا، جسے جلدی ہے وہ کرایہ لے لے اور چلا جائے، میں کچھ دیر ادھر ہی رکوں گا۔ کوئی دس پندرہ منٹ ہم اسے سمجھاتے بجھاتے رہے کہ آپ جائیں، گاڑی میں کافی مسافر ہیں آپ ان کا خیال کریں وہ لیٹ ہو رہے ہیں ہم اس کی دیکھ بھال کر لیں گے۔ لیکن وہ بضد رہا اور بڑی مشکل سے جانے کے لیے راضی ہوا۔ جاتے جاتے اس نے ہمیں ہزار روپے کا نوٹ پکڑانا چاہا کہ اس کو دوا اور دودھ وغیرہ دینا جو ہم نے انکار کر دیا لیکن وہ نوٹ پھینک کر چلا گیا۔

مجھے اس نوجوان پختون ڈرائیور کے چہرے کی پریشانی آج تک نہیں بھولی۔ :)
بہت اعلی!، زندہ باد چوہدری صاحب۔
 

جاسمن

لائبریرین
20180428-211046.jpg

آپ کی پوسٹ دیکھ کر مجھے لگ بھگ دو سال پہلے بیتا یہ واقعہ یاد آ گیا۔ آج تک نا کبھی کہیں اس کا ذکر کیا تھا نا تصویر پوسٹ کی تھی۔ لیکن پھر اس اجنبی ڈرائیور کا چہرہ یاد آیا تو سوچا تفصیلاً لکھ دیتا ہوں۔



اپریل 2018 کو ایک رات ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ دفتر بند کر کے گھر کو ہوا تو پلازہ کے عین سامنے جی ٹی روڈ پر ایک ہائی ایس مسافر کوچ جو راولپنڈی سے پشاور جا رہی تھی نے سڑک کراس کرتے اس بے زبان کو ٹکر مار دی ۔ آنکھوں کے سامنے اسے ٹکراتے، گرتے اور پھر اٹھ کر لنگڑاتے ہوئے دیکھا۔ پلازے کے ایک چوکیدار اور میں نے ملکر اس کتے کو پکڑ لیا۔جانور شدید تکلیف میں تھا۔ معائنہ کرنے پر اندازہ ہوا کہ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ ہم دو تین لوگوں نے ملکر اس کے گلے میں چھوٹی سی رسی ڈالی اور پول کے ساتھ باندھ دیا تاکہ دوران علاج یہ تکلیف کی وجہ سے کاٹ نا لے۔ میں واپس پلازے میں آیا اور دفتر کھول کر فرسٹ ایڈ کا جو تھوڑا بہت سامان پڑا تھا وہ لیا۔ نزدیکی اڈے پر موجود ایک ریڑھی والے سے فروٹ کی پیٹی میں استعمال ہونے والی آٹھ دس پھٹیاں لائیں، انھیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا۔ پھر باہر نظر آنے والے زخم پر دوا لگائی اور اوپر لکڑی کے پیس رکھ کر پٹی باندھ دی۔ رات کو اسے وہیں بندھا رہنے دیا تاکہ حرکت کرنے سے کہیں پٹی کھل نا جائے۔ اگلے آٹھ دس دن بھی اسے پلازے کی بیک سائیڈ پر باندھ کے رکھا۔ چھٹے ساتویں دن پلازے کے چوکیدار نے کی اس کی دوبارہ بینڈیج کی۔ دو ہفتے بعد تک یہ معمولی لنگڑاہٹ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اس سارے کاموں کا زیادہ حصہ ہمارے پلازے کے چوکیدار نے سر انجام دیا جبکہ میں ساتھ تھوڑی بہت مدد کرتا رہا۔

لیکن۔۔۔۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ رہی کہ ہائی ایس والے نے اپنی گاڑی روکی اور بھاگ کر واپس ہماری طرف آیا۔ کتے کو تکلیف میں دیکھ کر اس نے مسافروں سے کہا کہ میں فی الحال آگے نہیں جاؤں گا، جسے جلدی ہے وہ کرایہ لے لے اور چلا جائے، میں کچھ دیر ادھر ہی رکوں گا۔ کوئی دس پندرہ منٹ ہم اسے سمجھاتے بجھاتے رہے کہ آپ جائیں، گاڑی میں کافی مسافر ہیں آپ ان کا خیال کریں وہ لیٹ ہو رہے ہیں ہم اس کی دیکھ بھال کر لیں گے۔ لیکن وہ بضد رہا اور بڑی مشکل سے جانے کے لیے راضی ہوا۔ جاتے جاتے اس نے ہمیں ہزار روپے کا نوٹ پکڑانا چاہا کہ اس کو دوا اور دودھ وغیرہ دینا جو ہم نے انکار کر دیا لیکن وہ نوٹ پھینک کر چلا گیا۔

مجھے اس نوجوان پختون ڈرائیور کے چہرے کی پریشانی آج تک نہیں بھولی۔ :)

ماشاءاللہ!
اللہ آپ سب کو اس نیک کام کا اجر عظیم دے اور ہم سب کو ایسے جذبے سے نوازے۔ آمین!
 

محمد وارث

لائبریرین
پتا نہیں یہ کیسی سوچ ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو زبردستی کام پر لگائے رکھو وگرنہ وہ بھیک مانگیں گے۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پیشہ وارانہ بھیک مانگنے والوں کے بچے سرے سے کوئی کام کرتے ہی نہیں ہیں۔ وہ پہلے دن ہی سے اپنے ماں باپ یا بڑوں کے ساتھ بھیک ہی مانگ رہے ہوتے ہیں، عام مشاہدے کی بات ہے کہ کسی بھکارن کے ساتھ کئی ایک بچے بھی ہوتے ہیں جو اکھٹے اور علیحدہ علیحدہ بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں، یہی ان کا پیشہ ہے وہ کوئی دوسرا کام کرتے ہی نہیں۔

دوسری طرف میرا مشاہدہ بھی ہے اور پیشہ وارانہ تجربہ بھی کہ عام طور پر غریب اور انتہائی لوئر مڈل کلاس گھرانوں کے بچے کام کرتے ہیں جو بھکاری نہیں ہوتے۔ ایسے گھرانے جن میں اولاد کی کثرت ہوتی ہے اور کمانے والا ایک آدھ سو وہ بچوں کو بھی کام پر لگا دیتے ہیں یا وہ گھرانے جن کا سربراہ نشہ کرتا ہے، ان کی عورتیں بھی کام کر کے پیٹ پالتی ہیں اور بچے بھی کام کرتے ہیں اور اسی طرح کے دوسرے لوگ۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھکاری بچوں اور کام کرنے والے بچوں، چائلڈ لیبر، میں فرق ہے۔ بھکاری بچے اور بھکاریوں کے بچے سرے سے کام کرتے ہی نہیں اور جو بچے کام کرتے ہیں وہ کسی وجہ سے کرتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ چائلڈ لیبر والے بچوں کو کام پر لگائے رکھو وگرنہ وہ بھکاری بن جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے جو بچے کام کرتے ہیں ان کو پڑھایا جائے اور ان کے والدین کو سمجھایا جائے۔

آخری بات یہ کہ نوے کی دہائی میں، آئی ایل او، فیفا اور سیالکوٹ چیمبر کے تحت سیالکوٹ کی فٹبال انڈسٹری سے چائلڈ لیبر ختم کرنے کا پروگرام 'اٹلانٹا معاہدے' کے تحت شروع ہوا تھا۔ اس پروگرام کے تحت، سیالکوٹ کے دور دراز کے دیہاتوں میں فٹبال سینے والے بچوں کے لیے اسکولوں کا انتظام کیا گیا اور ان کے والدین کے لیے وظیفوں کا۔ آئی ایل او کی ٹیموں نے نگرانی کی اور بین الاقوامی خریداروں نے صاف کہہ دیا کہ اگر ان کے فٹبال سینے میں بچوں کا کام ہوا تو وہ اس کمپنی کے ساتھ کام نہیں کریں گے جس نے بچوں سے کام لیا ہوگا۔

چند سال کے اندر اندر سیالکوٹ فٹبال انڈسٹری سے چائلڈ لیبر کا نوے فیصد سے زائد خاتمہ ہو گیا تھا اور اس پروگرام کی تعریف اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی کی تھی۔ سیالکوٹ سرجیکل انڈسٹری میں یہ وبا ابھی تک موجود ہے لیکن اب وہ بھی بہت محتاط ہو چکے ہیں اور عام طور پر سیالکوٹ کی کسی فیکٹری میں سولہ یا اٹھارہ سال سے کم عمر بچے کو نوکری نہیں دی جاتی۔
 

عدنان عمر

محفلین
پتا نہیں یہ کیسی سوچ ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو زبردستی کام پر لگائے رکھو وگرنہ وہ بھیک مانگیں گے۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پیشہ وارانہ بھیک مانگنے والوں کے بچے سرے سے کوئی کام کرتے ہی نہیں ہیں۔ وہ پہلے دن ہی سے اپنے ماں باپ یا بڑوں کے ساتھ بھیک ہی مانگ رہے ہوتے ہیں، عام مشاہدے کی بات ہے کہ کسی بھکارن کے ساتھ کئی ایک بچے بھی ہوتے ہیں جو اکھٹے اور علیحدہ علیحدہ بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں، یہی ان کا پیشہ ہے وہ کوئی دوسرا کام کرتے ہی نہیں۔

دوسری طرف میرا مشاہدہ بھی ہے اور پیشہ وارانہ تجربہ بھی کہ عام طور پر غریب اور انتہائی لوئر مڈل کلاس گھرانوں کے بچے کام کرتے ہیں جو بھکاری نہیں ہوتے۔ ایسے گھرانے جن میں اولاد کی کثرت ہوتی ہے اور کمانے والا ایک آدھ سو وہ بچوں کو بھی کام پر لگا دیتے ہیں یا وہ گھرانے جن کا سربراہ نشہ کرتا ہے، ان کی عورتیں بھی کام کر کے پیٹ پالتی ہیں اور بچے بھی کام کرتے ہیں اور اسی طرح کے دوسرے لوگ۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھکاری بچوں اور کام کرنے والے بچوں، چائلڈ لیبر، میں فرق ہے۔ بھکاری بچے اور بھکاریوں کے بچے سرے سے کام کرتے ہی نہیں اور جو بچے کام کرتے ہیں وہ کسی وجہ سے کرتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ چائلڈ لیبر والے بچوں کو کام پر لگائے رکھو وگرنہ وہ بھکاری بن جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے جو بچے کام کرتے ہیں ان کو پڑھایا جائے اور ان کے والدین کو سمجھایا جائے۔

آخری بات یہ کہ نوے کی دہائی میں، آئی ایل او، فیفا اور سیالکوٹ چیمبر کے تحت سیالکوٹ کی فٹبال انڈسٹری سے چائلڈ لیبر ختم کرنے کا پروگرام 'اٹلانٹا معاہدے' کے تحت شروع ہوا تھا۔ اس پروگرام کے تحت، سیالکوٹ کے دور دراز کے دیہاتوں میں فٹبال سینے والے بچوں کے لیے اسکولوں کا انتظام کیا گیا اور ان کے والدین کے لیے وظیفوں کا۔ آئی ایل او کی ٹیموں نے نگرانی کی اور بین الاقوامی خریداروں نے صاف کہہ دیا کہ اگر ان کے فٹبال سینے میں بچوں کا کام ہوا تو وہ اس کمپنی کے ساتھ کام نہیں کریں گے جس نے بچوں سے کام لیا ہوگا۔

چند سال کے اندر اندر سیالکوٹ فٹبال انڈسٹری سے چائلڈ لیبر کا نوے فیصد سے زائد خاتمہ ہو گیا تھا اور اس پروگرام کی تعریف اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی کی تھی۔ سیالکوٹ سرجیکل انڈسٹری میں یہ وبا ابھی تک موجود ہے لیکن اب وہ بھی بہت محتاط ہو چکے ہیں اور عام طور پر سیالکوٹ کی کسی فیکٹری میں سولہ یا اٹھارہ سال سے کم عمر بچے کو نوکری نہیں دی جاتی۔
وارث بھائی! بہت مفید اور چشم کشا معلومات فراہم کیں آپ نے۔ یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ جو بچے کام کرتے ہیں انھیں پڑھایا جائے اور ان کے والدین کو سمجھایا جائے۔ میرے خیال میں سندھ کی طرح پنجاب میں بھی سرکاری اسکولوں میں تعلیم بالکل مفت ہے۔ تعلیم ویسے بھی ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔

میں اصولی طور پر آپ کی ہر بات سے متفق ہوں۔ بس ایک بات کی وضاحت چاہوں گا۔ وہ بچے جن کے سر پر باپ نہیں ہوتا یا غیر ذمہ دار ہوتا ہے، وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پالنے کے لیے مجبوراً کام کرتے ہیں؛ اگر انھیں کام سے محروم کر دیا جائے گا، تو وہ اور ان کے اہلِ خانہ کہاں سے کھائیں گے۔ دکھ بیماری میں علاج، مکان کا کرایہ، کپڑے لتے اور دیگر بنیادی ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بچے بہت زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی! بہت مفید اور چشم کشا معلومات فراہم کیں آپ نے۔ یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ جو بچے کام کرتے ہیں انھیں پڑھایا جائے اور ان کے والدین کو سمجھایا جائے۔ میرے خیال میں سندھ کی طرح پنجاب میں بھی سرکاری اسکولوں میں تعلیم بالکل مفت ہے۔ تعلیم ویسے بھی ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔

میں اصولی طور پر آپ کی ہر بات سے متفق ہوں۔ بس ایک بات کی وضاحت چاہوں گا۔ وہ بچے جن کے سر پر باپ نہیں ہوتا یا غیر ذمہ دار ہوتا ہے، وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پالنے کے لیے مجبوراً کام کرتے ہیں؛ اگر انھیں کام سے محروم کر دیا جائے گا، تو وہ اور ان کے اہلِ خانہ کہاں سے کھائیں گے۔ دکھ بیماری میں علاج، مکان کا کرایہ، کپڑے لتے اور دیگر بنیادی ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بچے بہت زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں ہیں۔
آپ کی بات درست ہے۔ ایک "مثالی دنیا" میں ایسے یتیموں اور بیواؤں کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ نہیں تو کم از کم عزیز و اقارب یا ارد گرد کے مخیر حضرات۔ یہ بھی نہیں تو پھر واقعی کوئی صورت نہیں بچتی ایسے بچوں کے لیے۔

لیکن وہ بچے جو گھر کے سربراہ کی موجودگی میں، کثرتِ اولاد کی وجہ سے گھر کا خرچہ چلانے کے لیے یا نشئی اور ہڈ حرام باپ کا خرچہ پورا کرنے کے لیے یا محض پیسے کے لالچ کے لیے کام کرنے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں وہ انتہائی مظلوم ہیں۔ ان کے والدین کو سمجھانا چاہیئے اور ان کو شعور و آگاہی دینی چاہیئے۔ بچوں بیچاروں نے بڑے ہو کر ساری عمر کام ہی کرنا ہے، کم از کم بچپن تو پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کودنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیئے۔
 

ٕٕعاٸشہ

محفلین
20180428-211046.jpg

آپ کی پوسٹ دیکھ کر مجھے لگ بھگ دو سال پہلے بیتا یہ واقعہ یاد آ گیا۔ آج تک نا کبھی کہیں اس کا ذکر کیا تھا نا تصویر پوسٹ کی تھی۔ لیکن پھر اس اجنبی ڈرائیور کا چہرہ یاد آیا تو سوچا تفصیلاً لکھ دیتا ہوں۔



اپریل 2018 کو ایک رات ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ دفتر بند کر کے گھر کو ہوا تو پلازہ کے عین سامنے جی ٹی روڈ پر ایک ہائی ایس مسافر کوچ جو راولپنڈی سے پشاور جا رہی تھی نے سڑک کراس کرتے اس بے زبان کو ٹکر مار دی ۔ آنکھوں کے سامنے اسے ٹکراتے، گرتے اور پھر اٹھ کر لنگڑاتے ہوئے دیکھا۔ پلازے کے ایک چوکیدار اور میں نے ملکر اس کتے کو پکڑ لیا۔جانور شدید تکلیف میں تھا۔ معائنہ کرنے پر اندازہ ہوا کہ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ ہم دو تین لوگوں نے ملکر اس کے گلے میں چھوٹی سی رسی ڈالی اور پول کے ساتھ باندھ دیا تاکہ دوران علاج یہ تکلیف کی وجہ سے کاٹ نا لے۔ میں واپس پلازے میں آیا اور دفتر کھول کر فرسٹ ایڈ کا جو تھوڑا بہت سامان پڑا تھا وہ لیا۔ نزدیکی اڈے پر موجود ایک ریڑھی والے سے فروٹ کی پیٹی میں استعمال ہونے والی آٹھ دس پھٹیاں لائیں، انھیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا۔ پھر باہر نظر آنے والے زخم پر دوا لگائی اور اوپر لکڑی کے پیس رکھ کر پٹی باندھ دی۔ رات کو اسے وہیں بندھا رہنے دیا تاکہ حرکت کرنے سے کہیں پٹی کھل نا جائے۔ اگلے آٹھ دس دن بھی اسے پلازے کی بیک سائیڈ پر باندھ کے رکھا۔ چھٹے ساتویں دن پلازے کے چوکیدار نے کی اس کی دوبارہ بینڈیج کی۔ دو ہفتے بعد تک یہ معمولی لنگڑاہٹ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اس سارے کاموں کا زیادہ حصہ ہمارے پلازے کے چوکیدار نے سر انجام دیا جبکہ میں ساتھ تھوڑی بہت مدد کرتا رہا۔

لیکن۔۔۔۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ رہی کہ ہائی ایس والے نے اپنی گاڑی روکی اور بھاگ کر واپس ہماری طرف آیا۔ کتے کو تکلیف میں دیکھ کر اس نے مسافروں سے کہا کہ میں فی الحال آگے نہیں جاؤں گا، جسے جلدی ہے وہ کرایہ لے لے اور چلا جائے، میں کچھ دیر ادھر ہی رکوں گا۔ کوئی دس پندرہ منٹ ہم اسے سمجھاتے بجھاتے رہے کہ آپ جائیں، گاڑی میں کافی مسافر ہیں آپ ان کا خیال کریں وہ لیٹ ہو رہے ہیں ہم اس کی دیکھ بھال کر لیں گے۔ لیکن وہ بضد رہا اور بڑی مشکل سے جانے کے لیے راضی ہوا۔ جاتے جاتے اس نے ہمیں ہزار روپے کا نوٹ پکڑانا چاہا کہ اس کو دوا اور دودھ وغیرہ دینا جو ہم نے انکار کر دیا لیکن وہ نوٹ پھینک کر چلا گیا۔

مجھے اس نوجوان پختون ڈرائیور کے چہرے کی پریشانی آج تک نہیں بھولی۔ :)
 

عدنان عمر

محفلین
آپ کی بات درست ہے۔ ایک "مثالی دنیا" میں ایسے یتیموں اور بیواؤں کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ نہیں تو کم از کم عزیز و اقارب یا ارد گرد کے مخیر حضرات۔ یہ بھی نہیں تو پھر واقعی کوئی صورت نہیں بچتی ایسے بچوں کے لیے۔
میری نظر میں یتیموں اور بیواؤں کی کسمپرسی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ان کے (بالخصوص خوش حال) عزیز و اقارب ہیں؛ اور پھر اہلِ محلہ و علاقہ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے، آمین۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک "مثالی دنیا" میں ایسے یتیموں اور بیواؤں کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
یہ مثالی دنیا نہیں ہے یہیں مغرب میں ریاست تمام بیروزگاروں، غریبوں، یتیموں، بیواؤں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ اور وہ ایسے کہ ہر کمانے والے پر 36 فیصد ٹیکس اور ہر خریداری پر 25 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ جو یہ نہیں کرتا وہ جیل جاتا ہے۔ جب تک ٹیکس چور آزاد گھومتے رہیں گے ریاست کسی کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتی۔
 
تو علم و ہنر سے خائف ہے
تو روشنیوں سے ڈرتا ہے
او امن کے غارت گر دشمن
تو اس دن سے بھی ڈر دشمن
جب تجھ کو تیرے اپنے ہی
بچوں کا دشمن کر دوں گا
تعلیم سے روشن کر دوں گا

IMG-20200312-191445.jpg
 
Top