محمداحمد
لائبریرین
اُڑنے نہ پائے تھے ۔۔۔
ایک سوال کے ممکنہ جوابات تلاش کرنے کی ایک سعی!
ایک سوال کے ممکنہ جوابات تلاش کرنے کی ایک سعی!
تحریر: محمد احمد
ہمارے نوجوان عشق میں کیوں گرفتار ہوتے ہیں؟ مسکرا لیجے! آپ بھی کہیں گے یہ کیسا سوال ہے؟ یہ تو فطری بات ہے۔ کلیوں نے کھلنا کیسے جانا، موجوں نے ملنا کیسے جانا، وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ اگر آپ ان مثالوں پر اکتفا نہ بھی کریں تو بھی ہم کیا کر لیں گے۔ اس لئے مان لیتے ہیں کہ یہ فطری بات ہے۔
فطری بات تو ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اور بھی کئی ایک عوامل ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو فطری تقاضوں سے کہیں پہلے انگلی پکڑ کر لے جاتے ہیں اور محبوب کی گلیوں میں (حقیقی نہ سہی ورچوئل ہی سہی) جوتیاں چٹخانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں تو اس طرح کے عوامل ان گنت ہیں لیکن ہم ان میں سے چند ایک کا جائز ہ لیتے ہیں۔
بچوں کی کہانیاں
اب تو نہیں لیکن جب ہمارے ہاں بچوں کو کہانیاں سُنائی جاتی تھیں۔ اُن میں اولین کہانیاں وہی ہوتی تھیں کہ جن میں کسی شہزادی کو کوئی جن اُٹھا کر لے جاتا اور شہزادہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اور جن (ولن) سے لڑ کر شہزادی کو واپس لاتا، اور آخر میں شہزادے کی شادی شہزادی سے ہو جاتی۔ دیکھا جائے تو اس طرح کی کہانیاں اچھی خاصی لو اسٹوری ہوا کرتی تھی۔ ایسی کہانیوں میں شہزادے اور شہزادی کی شادی کے بغیر تمام لوگوں کو ہنسی خوشی رہنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
کہانی کا سبق آپ لاکھ بہادری یا جفا کشی بتائیں لیکن کہانی سننے والے بچے بچیاں اپنی کہانی میں خود کو شہزادہ اور شہزادی ہی تصور کرتے ہیں ۔ ایسے میں اگر جن صاحب کوہِ قاف سے اُتر کر شہزادی کو اغوا کرنا بھول جائیں تو پھر کہانی میں شادی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
والدین
بچوں کو عشق نگری کا سُراغ والدین کی بہت سی باتوں سے بھی ملا کرتا ہے۔
ماں باپ بچوں کے سامنے مذاق ہی مذاق میں ان کے رشتے ان کے کزنوں سے جوڑ دیتے ہیں۔ حرا اور اسد ایک ساتھ بیٹھے کتنے اچھے لگتے ہیں۔ صمد اور سارہ کی جوڑی بہت اچھی رہے گی۔ بچے کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ایک راہ پر چل دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ اپنے کزنوں میں ہی دلچسپی لیں۔ وہ مزید دستیاب آپشنز پر غور شروع کر دیتےہیں۔ اُسے بھی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے جس کی جوڑی ماں باپ نہیں بناتے اور کسی اور بہن بھائی کی بنا دیتے ہیں۔ پھر اُسے اپنے معاملات خود دیکھنا پڑتے ہیں۔
کچھ مائیں اپنی ناسمجھی میں ہی پورا کیس تیار کر دیتی ہیں۔ پھپھو کی مہرین کی طرف تو دیکھنا بھی مت۔ قیامت بھی آ جائے تو میں اس سے تمہاری شادی نہیں کروں گی۔ اگلی ملاقات پر بچہ مہرین کو بڑے غور سے دیکھتا ہے، اور بہت کچھ سوچنے لگتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے اُسے ہوش بھی نہیں تھا کہ مہرین صاحبہ ہیں کون؟۔
ٹی وی ڈرامے
ہمارے ہاں بچے ماؤں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی ڈرامے دیکھتے ہیں ۔ ساتھ بیٹھ کر نہ بھی دیکھیں تو گھر میں چلنے والے ٹی وی ڈراموں سے کلیتاً لا تعلق نہیں رہ سکتے۔آج کے ڈرامے تو خیر بہت آگے نکل گئے ہیں ، لیکن آج سے بیس سال پرانے ڈرامے بھی بچوں کو عشق و محبت سے روشناس کرانے کا کام بہ احسن و خوبی کیا کرتے تھے۔ ڈرامے کے ہیرو یا ہیروئن کی جگہ خود کو رکھنا بچوں کے لئے فطری سی بات ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے تئیں ہیرو یا ہیروئن بن جاتے ہیں تو پھر اپنا جوڑ ڈھونڈنا اُن کا اولین فریضہ بن جاتا ہے۔
فلمیں
کچھ لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر ہندوستانی یا مغربی فلمیں بھی دیکھا کرتے ہیں۔ گھر والوں میں بچے بھی کبھی دانستہ اور کبھی نا دانستہ طور پر شامل ہو ہی جاتے ہیں۔ فلموں کے لئے بھی وہی ڈرامے والی بات ہے کہ آج کی فلمیں تو بہت ہی "ترقی یافتہ" ہیں، آج سے پچاس سال پرانی فلم بھی عاشقی کی تربیت دینے کے لئے کافی و شافی ہے۔ جولوگ حالیہ فلمیں دیکھتے ہیں، اُن کی تو کیا ہی بات ہے کہ اُن کے بچے عاشقی سے بھی اگلے مرحلے میں براہِ راست پہنچ جاتے ہیں۔
عشقیہ داستانیں ہماری فلموں کا ایسا بنیادی موضوع ہے کہ لو اسٹوری کے نام پر ہی نہ جانے کتنی فلمیں بن چکی ہیں۔ اور ہر نئی فلم "ایک اور لو اسٹوری" ہی ہوا کرتی ہے۔
فلمی گیت
کم از کم ہندوستانی اور پاکستانی فلمیں، فلمی گیتوں کے بغیر ادھوری ہی تصور کی جاتی ہیں۔ جب تک ہیرو ہیروئن گا گا کر اظہارِ محبت نہ کر لیں، ولن کی فلم میں انٹری پر پابندی ہوتی ہے۔ کبھی ٹھنڈی اور کبھی ہیجان خیز موسیقی سے لبریز یہ فلمی گیت جذبہء عشق و محبت کو فروغ دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کوئی بعید نہیں کہ کوئی معصوم گیت آپ کے کانوں میں بھی "میرا دل یہ پکارے آ جا" قسم کے ارمان جگانے کا فریضہ دن رات سر انجام دے رہا ہو۔ بچے تو پھر بچے ہیں۔
ہندوستانی اور پاکستانی فلمی گیتوں کا اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے کہ وہ انسان کو کام دھندے سے ہٹا کر کارِ عشق میں مبتلاء کر دیں۔ کبھی سامنے والی کھڑکی میں موجود چاند سے چہرے کا ذکر تو کبھی کالج بند ہوجانے پر عارضی جدائی کا پرچار۔ ادھر صنف ِ مخالف میں سے کوئی نظر آیا ۔ اُدھر رومانوی دُھنیں بجنے لگیں۔ ہیرو ہیروئن آنکھیں پٹپٹا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اور اچانک سارا پس منظر بدل گیا۔ کالج یا بازار سے اڑتے ہوئے ہیرو ہیروئن ایک سبزہ زار میں پہنچ گئے اور تمام تر موسیقار اپنے ساز و سامان کے ساتھ درختوں کے پیچھے چھپ گئے ۔ اب اگلے پانچ سات منٹ تک فلم کی کہانی رُکی رہے گی اور محبت کے راگ الاپے جاتے رہیں گے۔ آپ بتائیے بھلا کون سا ایسا کور ذوق بچہ ہوگا جو ان سب باتوں کو سُن اور دیکھ کر بھی اپنا بستہ اُٹھا کر سیدھا ٹیوشن چلا جائے گا۔
ہماری سب کی سب فلمیں محبت اور زیادہ تر اچانک پیدا ہو جانے والی محبت کو ہی فروغ دیتی ہیں۔ فلموں میں ارینج میرج تو ہیرو ہیروئن کے بہن بھائیوں کی ہی ہو تو ہو، ہیرو ہیروئن کی نہیں ہو سکتی۔ ہم بچوں کو بچپن سے بڑے ہونے تک لو اسٹوری پر مبنی فلمیں اور ڈرامے دکھاتے رہتے ہیں اور پھر اُن سے توقع یہ رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی مرضی سے بلا چوں و چراں شادی کر لیں گے۔
شاعری
یوں تو شاعری کا ذکر ہم بین السطور فلمی گیتوں کے زمرے میں کر چکے ہیں تاہم فلمی گیتوں کے علاوہ بھی شاعری کہیں نہ کہیں نوجوانوں کو مہمیز کرتی نظر آتی ہے۔ ایک شاعری تو وہ ہے کہ جو عام طور پر سوشل میڈیا پر پائی جاتی ہے (جو شاعری نہیں ہے بلکہ شاعری کے ماتھے پر بدنما داغ ہے) جس کا کوئی قاعدہ قانون نہیں ہوتا۔ یہ شاعری تو ہر لحاظ سے مُضر ہی ہے۔ لیکن وہ شاعری بھی کہ جو شاعری کے اصولوں کی پابندہوا کرتی ہے (اور عموماًصرف اسی وجہ سے معیاری شاعری مانی جاتی ہے)، نوجوان کو عشق کی آگ میں دھکیلنے اور جلے ہوئے نوجوانوں کو مستقل سلگاتے رہنے کا کام بخوبی انجام دیتی ہے۔
اگر نوجوان شاعری کا معمولی سا ذوق بھی رکھتے ہوں تو شاعری اُن کے جذبات سے کھیلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ نوجوان جب جب صنفِ مخالف سے دو بدو ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی مصرع یا نغمہ اُن کے ذہن میں مچلنے لگتا ہے۔
کسی پر اچانک نظر پڑ جانے پر امجد صاحب کی نظم یاد آ جاتی ہے۔
وہ جب بھی کالج کی سیڑھیوں سے سہیلیوں کو لیے اُترتی تو ایسا لگتا ۔۔۔
کبھی اچانک کسی کو دیکھ کر لبوں پر کوئی مصرع آ دھمکتا ہے :
کہو مجھ سے محبت ہے ۔۔
کسی کو دیکھ کر یکلخت خیال آتا ہے:
اک بار کہو تم میری ہو۔۔
نوجوانوں کو بارہا یہی باور کروایا جاتا ہے کہ دل کی کہانی فقط دو لفظوں کی ہی ہے اور وہ دو لفظ محبت اور جوانی کے سوا کوئی اور نہیں ہیں۔ نوواردوں کو طعنے بھی دیے جاتے ہیں کہ وہ جوانی جوانی نہیں ، جس کی کوئی کہانی نہیں۔
نہ جانے کتنی محبت کی ادھوری نظمیں نوجوانوں کو آ آ کر کہتی ہیں کہ نظم تو چل جائے گی لیکن محبت ادھوری اچھی نہیں لگتی۔ وغیرہ وغیرہ۔
پھر اگر خدانخواستہ نوجوانوں کو محبت میں غم مل جائیں تو شاعری اُن کے لئے عذاب بن جاتی ہے۔ شاعری اُنہیں سب کچھ بھلا کر آگے بڑھنے نہیں دیتی اور ہمہ وقت رونے گانے کا سامان مہیا کرتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ کچھ لوگ تو اس قسم کی شاعری پڑھ پڑھ کر مایوسیوں کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا ہے کہ سب کی سب شاعری ہی ایسی ہوتی ہے۔ ہرگز نہیں، کچھ شاعری تو بہت اچھی ہوتی ہے۔ جسے پڑھ کر ذوق اور فکر کی بلندی حاصل ہوتی ہے اور ایسی شاعری انسان کی ذہنی بالیدگی کا باعث بھی بنتی ہے ۔ لیکن بیشتر شاعری فسانہء گل و بلبل سے آگے بڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔
عشقیہ داستانیں
ہمارے ہاں عشقیہ لوک داستانیں بھی بڑی قدر و منزلت کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں ۔ لیلیٰ مجنوں، سوہنی ماہیوال، سسی پنو، شیریں فرہاد، مرزا صاحباں اور کئی دیگر کردار ہمارے معاشرے میں کسی تعارف کے محتاج نہیں سمجھے جاتے۔ ان کی کہانیوں کو بڑی محبت اور عقیدت کے رنگ میں رنگ کر سنایا جاتا ہے کہ جیسے زندگی تو ہیر رانجھے اور شیریں فرہاد کی ہی تھی۔ تم لوگ (سُننے والے بچے یا نوجوان)تو محض گھسیارے ہو۔
الغرض ہمارے بچوں کو تمام تر ہیروز فلمی اور عشقی قسم کے ملتے ہیں۔ اور پھر ہم اُن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر سائنسدان بنیں، عالم بنیں یا اچھے مصنف و مولف بنیں۔ ویسے ہمارے ہاں بیشتر لوگ تو اپنے بچوں سے بڑا آدمی بننے کے علاوہ کوئی توقع نہیں کرتے۔
رومانوی ناولز
بچے جب کچھ بڑے ہوتے ہیں تو اُن میں سے معدودے چند کو مطالعے کا بھی شوق ہو جاتا ہے تاہم یہاں بھی اُن کی تربیت کے لیے عشقیہ داستانوں پر مبنی رومانوی ناولز موجود ہوتی ہیں۔ باقی زبانوں کی طرح ہمارے ہاں بھی اسی نوے فیصد ناولز عشقیہ ہوا کرتی ہیں۔ عشقیہ ناول پڑھ کر بچے ٹیپو سلطان تو بننے سے رہے۔ بلکہ یہاں تو حال یہ ہے کہ تاریخی ناول بھی ایک متوازی عشقیہ داستان کے بغیر نہیں لکھے جاتے۔ یوں سمجھیے کہ عشق کے اونٹ کے گلے میں تاریخ کی بلی باندھ دی جاتی ہے ۔ اگر یہ پیکیج ڈیل آفر نہ کی جائے تو تاریخ کی سوکھی سڑی بلی کو پوچھنے والے انگلیوں پر بھی نہ گنے جا سکیں۔
الغرض ہمارے ہاں معاملات میں ان چیزوں کا (ضرورت سے زیادہ ) دخل بچوں کو پڑھائی لکھائی اور ہنر سیکھنے کے بجائے ایک الگ ہی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ وہ جانے انجانے میں اپنے شہزادے شہزادی کو ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں اور جنہیں مل جائے وہ اگلی منزل کو چل نکلتے ہیں۔ جب یہ خبر گھر پر پہنچتی ہے تو مائیں سینے پر دو ہتھڑ مار کر بیٹھ جاتیں ہیں اور کہتی ہیں کہ نہ جانے میری تربیت میں کون سی کمی رہ گئی۔
ہم ایسے ماں باپ سے باادب کہنا چاہتے ہیں کہ ماشاء اللہ آپ نے تو اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی لیکن اگر پھر بھی آپ کی اولاد فرماں بردار نکل آئے تو اسے خداوندِ کریم کی عنایت سمجھیے۔
🌼🌼🌼🌼🌼