اُڑنے نہ پائے تھے ۔۔۔ (ایک سوال کے ممکنہ جوابات)

محمداحمد

لائبریرین
اُڑنے نہ پائے تھے ۔۔۔
ایک سوال کے ممکنہ جوابات تلاش کرنے کی ایک سعی!
تحریر: محمد احمد​
ہمارے نوجوان عشق میں کیوں گرفتار ہوتے ہیں؟

مسکرا لیجے! آپ بھی کہیں گے یہ کیسا سوال ہے؟ یہ تو فطری بات ہے۔ کلیوں نے کھلنا کیسے جانا، موجوں نے ملنا کیسے جانا، وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ اگر آپ ان مثالوں پر اکتفا نہ بھی کریں تو بھی ہم کیا کر لیں گے۔ اس لئے مان لیتے ہیں کہ یہ فطری بات ہے۔

فطری بات تو ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اور بھی کئی ایک عوامل ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو فطری تقاضوں سے کہیں پہلے انگلی پکڑ کر لے جاتے ہیں اور محبوب کی گلیوں میں (حقیقی نہ سہی ورچوئل ہی سہی) جوتیاں چٹخانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں تو اس طرح کے عوامل ان گنت ہیں لیکن ہم ان میں سے چند ایک کا جائز ہ لیتے ہیں۔

بچوں کی کہانیاں

اب تو نہیں لیکن جب ہمارے ہاں بچوں کو کہانیاں سُنائی جاتی تھیں۔ اُن میں اولین کہانیاں وہی ہوتی تھیں کہ جن میں کسی شہزادی کو کوئی جن اُٹھا کر لے جاتا اور شہزادہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اور جن (ولن) سے لڑ کر شہزادی کو واپس لاتا، اور آخر میں شہزادے کی شادی شہزادی سے ہو جاتی۔ دیکھا جائے تو اس طرح کی کہانیاں اچھی خاصی لو اسٹوری ہوا کرتی تھی۔ ایسی کہانیوں میں شہزادے اور شہزادی کی شادی کے بغیر تمام لوگوں کو ہنسی خوشی رہنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

کہانی کا سبق آپ لاکھ بہادری یا جفا کشی بتائیں لیکن کہانی سننے والے بچے بچیاں اپنی کہانی میں خود کو شہزادہ اور شہزادی ہی تصور کرتے ہیں ۔ ایسے میں اگر جن صاحب کوہِ قاف سے اُتر کر شہزادی کو اغوا کرنا بھول جائیں تو پھر کہانی میں شادی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔

والدین

بچوں کو عشق نگری کا سُراغ والدین کی بہت سی باتوں سے بھی ملا کرتا ہے۔

ماں باپ بچوں کے سامنے مذاق ہی مذاق میں ان کے رشتے ان کے کزنوں سے جوڑ دیتے ہیں۔ حرا اور اسد ایک ساتھ بیٹھے کتنے اچھے لگتے ہیں۔ صمد اور سارہ کی جوڑی بہت اچھی رہے گی۔ بچے کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ایک راہ پر چل دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ اپنے کزنوں میں ہی دلچسپی لیں۔ وہ مزید دستیاب آپشنز پر غور شروع کر دیتےہیں۔ اُسے بھی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے جس کی جوڑی ماں باپ نہیں بناتے اور کسی اور بہن بھائی کی بنا دیتے ہیں۔ پھر اُسے اپنے معاملات خود دیکھنا پڑتے ہیں۔

کچھ مائیں اپنی ناسمجھی میں ہی پورا کیس تیار کر دیتی ہیں۔ پھپھو کی مہرین کی طرف تو دیکھنا بھی مت۔ قیامت بھی آ جائے تو میں اس سے تمہاری شادی نہیں کروں گی۔ اگلی ملاقات پر بچہ مہرین کو بڑے غور سے دیکھتا ہے، اور بہت کچھ سوچنے لگتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے اُسے ہوش بھی نہیں تھا کہ مہرین صاحبہ ہیں کون؟۔

ٹی وی ڈرامے

ہمارے ہاں بچے ماؤں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی ڈرامے دیکھتے ہیں ۔ ساتھ بیٹھ کر نہ بھی دیکھیں تو گھر میں چلنے والے ٹی وی ڈراموں سے کلیتاً لا تعلق نہیں رہ سکتے۔آج کے ڈرامے تو خیر بہت آگے نکل گئے ہیں ، لیکن آج سے بیس سال پرانے ڈرامے بھی بچوں کو عشق و محبت سے روشناس کرانے کا کام بہ احسن و خوبی کیا کرتے تھے۔ ڈرامے کے ہیرو یا ہیروئن کی جگہ خود کو رکھنا بچوں کے لئے فطری سی بات ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے تئیں ہیرو یا ہیروئن بن جاتے ہیں تو پھر اپنا جوڑ ڈھونڈنا اُن کا اولین فریضہ بن جاتا ہے۔

فلمیں

کچھ لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر ہندوستانی یا مغربی فلمیں بھی دیکھا کرتے ہیں۔ گھر والوں میں بچے بھی کبھی دانستہ اور کبھی نا دانستہ طور پر شامل ہو ہی جاتے ہیں۔ فلموں کے لئے بھی وہی ڈرامے والی بات ہے کہ آج کی فلمیں تو بہت ہی "ترقی یافتہ" ہیں، آج سے پچاس سال پرانی فلم بھی عاشقی کی تربیت دینے کے لئے کافی و شافی ہے۔ جولوگ حالیہ فلمیں دیکھتے ہیں، اُن کی تو کیا ہی بات ہے کہ اُن کے بچے عاشقی سے بھی اگلے مرحلے میں براہِ راست پہنچ جاتے ہیں۔

عشقیہ داستانیں ہماری فلموں کا ایسا بنیادی موضوع ہے کہ لو اسٹوری کے نام پر ہی نہ جانے کتنی فلمیں بن چکی ہیں۔ اور ہر نئی فلم "ایک اور لو اسٹوری" ہی ہوا کرتی ہے۔

فلمی گیت

کم از کم ہندوستانی اور پاکستانی فلمیں، فلمی گیتوں کے بغیر ادھوری ہی تصور کی جاتی ہیں۔ جب تک ہیرو ہیروئن گا گا کر اظہارِ محبت نہ کر لیں، ولن کی فلم میں انٹری پر پابندی ہوتی ہے۔ کبھی ٹھنڈی اور کبھی ہیجان خیز موسیقی سے لبریز یہ فلمی گیت جذبہء عشق و محبت کو فروغ دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کوئی بعید نہیں کہ کوئی معصوم گیت آپ کے کانوں میں بھی "میرا دل یہ پکارے آ جا" قسم کے ارمان جگانے کا فریضہ دن رات سر انجام دے رہا ہو۔ بچے تو پھر بچے ہیں۔

ہندوستانی اور پاکستانی فلمی گیتوں کا اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے کہ وہ انسان کو کام دھندے سے ہٹا کر کارِ عشق میں مبتلاء کر دیں۔ کبھی سامنے والی کھڑکی میں موجود چاند سے چہرے کا ذکر تو کبھی کالج بند ہوجانے پر عارضی جدائی کا پرچار۔ ادھر صنف ِ مخالف میں سے کوئی نظر آیا ۔ اُدھر رومانوی دُھنیں بجنے لگیں۔ ہیرو ہیروئن آنکھیں پٹپٹا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اور اچانک سارا پس منظر بدل گیا۔ کالج یا بازار سے اڑتے ہوئے ہیرو ہیروئن ایک سبزہ زار میں پہنچ گئے اور تمام تر موسیقار اپنے ساز و سامان کے ساتھ درختوں کے پیچھے چھپ گئے ۔ اب اگلے پانچ سات منٹ تک فلم کی کہانی رُکی رہے گی اور محبت کے راگ الاپے جاتے رہیں گے۔ آپ بتائیے بھلا کون سا ایسا کور ذوق بچہ ہوگا جو ان سب باتوں کو سُن اور دیکھ کر بھی اپنا بستہ اُٹھا کر سیدھا ٹیوشن چلا جائے گا۔

ہماری سب کی سب فلمیں محبت اور زیادہ تر اچانک پیدا ہو جانے والی محبت کو ہی فروغ دیتی ہیں۔ فلموں میں ارینج میرج تو ہیرو ہیروئن کے بہن بھائیوں کی ہی ہو تو ہو، ہیرو ہیروئن کی نہیں ہو سکتی۔ ہم بچوں کو بچپن سے بڑے ہونے تک لو اسٹوری پر مبنی فلمیں اور ڈرامے دکھاتے رہتے ہیں اور پھر اُن سے توقع یہ رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی مرضی سے بلا چوں و چراں شادی کر لیں گے۔

شاعری

یوں تو شاعری کا ذکر ہم بین السطور فلمی گیتوں کے زمرے میں کر چکے ہیں تاہم فلمی گیتوں کے علاوہ بھی شاعری کہیں نہ کہیں نوجوانوں کو مہمیز کرتی نظر آتی ہے۔ ایک شاعری تو وہ ہے کہ جو عام طور پر سوشل میڈیا پر پائی جاتی ہے (جو شاعری نہیں ہے بلکہ شاعری کے ماتھے پر بدنما داغ ہے) جس کا کوئی قاعدہ قانون نہیں ہوتا۔ یہ شاعری تو ہر لحاظ سے مُضر ہی ہے۔ لیکن وہ شاعری بھی کہ جو شاعری کے اصولوں کی پابندہوا کرتی ہے (اور عموماًصرف اسی وجہ سے معیاری شاعری مانی جاتی ہے)، نوجوان کو عشق کی آگ میں دھکیلنے اور جلے ہوئے نوجوانوں کو مستقل سلگاتے رہنے کا کام بخوبی انجام دیتی ہے۔

اگر نوجوان شاعری کا معمولی سا ذوق بھی رکھتے ہوں تو شاعری اُن کے جذبات سے کھیلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ نوجوان جب جب صنفِ مخالف سے دو بدو ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی مصرع یا نغمہ اُن کے ذہن میں مچلنے لگتا ہے۔

کسی پر اچانک نظر پڑ جانے پر امجد صاحب کی نظم یاد آ جاتی ہے۔
وہ جب بھی کالج کی سیڑھیوں سے سہیلیوں کو لیے اُترتی تو ایسا لگتا ۔۔۔

کبھی اچانک کسی کو دیکھ کر لبوں پر کوئی مصرع آ دھمکتا ہے :
کہو مجھ سے محبت ہے ۔۔

کسی کو دیکھ کر یکلخت خیال آتا ہے:
اک بار کہو تم میری ہو۔۔

نوجوانوں کو بارہا یہی باور کروایا جاتا ہے کہ دل کی کہانی فقط دو لفظوں کی ہی ہے اور وہ دو لفظ محبت اور جوانی کے سوا کوئی اور نہیں ہیں۔ نوواردوں کو طعنے بھی دیے جاتے ہیں کہ وہ جوانی جوانی نہیں ، جس کی کوئی کہانی نہیں۔

نہ جانے کتنی محبت کی ادھوری نظمیں نوجوانوں کو آ آ کر کہتی ہیں کہ نظم تو چل جائے گی لیکن محبت ادھوری اچھی نہیں لگتی۔ وغیرہ وغیرہ۔

پھر اگر خدانخواستہ نوجوانوں کو محبت میں غم مل جائیں تو شاعری اُن کے لئے عذاب بن جاتی ہے۔ شاعری اُنہیں سب کچھ بھلا کر آگے بڑھنے نہیں دیتی اور ہمہ وقت رونے گانے کا سامان مہیا کرتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ کچھ لوگ تو اس قسم کی شاعری پڑھ پڑھ کر مایوسیوں کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہتا ہے کہ سب کی سب شاعری ہی ایسی ہوتی ہے۔ ہرگز نہیں، کچھ شاعری تو بہت اچھی ہوتی ہے۔ جسے پڑھ کر ذوق اور فکر کی بلندی حاصل ہوتی ہے اور ایسی شاعری انسان کی ذہنی بالیدگی کا باعث بھی بنتی ہے ۔ لیکن بیشتر شاعری فسانہء گل و بلبل سے آگے بڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔

عشقیہ داستانیں

ہمارے ہاں عشقیہ لوک داستانیں بھی بڑی قدر و منزلت کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں ۔ لیلیٰ مجنوں، سوہنی ماہیوال، سسی پنو، شیریں فرہاد، مرزا صاحباں اور کئی دیگر کردار ہمارے معاشرے میں کسی تعارف کے محتاج نہیں سمجھے جاتے۔ ان کی کہانیوں کو بڑی محبت اور عقیدت کے رنگ میں رنگ کر سنایا جاتا ہے کہ جیسے زندگی تو ہیر رانجھے اور شیریں فرہاد کی ہی تھی۔ تم لوگ (سُننے والے بچے یا نوجوان)تو محض گھسیارے ہو۔

الغرض ہمارے بچوں کو تمام تر ہیروز فلمی اور عشقی قسم کے ملتے ہیں۔ اور پھر ہم اُن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر سائنسدان بنیں، عالم بنیں یا اچھے مصنف و مولف بنیں۔ ویسے ہمارے ہاں بیشتر لوگ تو اپنے بچوں سے بڑا آدمی بننے کے علاوہ کوئی توقع نہیں کرتے۔

رومانوی ناولز

بچے جب کچھ بڑے ہوتے ہیں تو اُن میں سے معدودے چند کو مطالعے کا بھی شوق ہو جاتا ہے تاہم یہاں بھی اُن کی تربیت کے لیے عشقیہ داستانوں پر مبنی رومانوی ناولز موجود ہوتی ہیں۔ باقی زبانوں کی طرح ہمارے ہاں بھی اسی نوے فیصد ناولز عشقیہ ہوا کرتی ہیں۔ عشقیہ ناول پڑھ کر بچے ٹیپو سلطان تو بننے سے رہے۔ بلکہ یہاں تو حال یہ ہے کہ تاریخی ناول بھی ایک متوازی عشقیہ داستان کے بغیر نہیں لکھے جاتے۔ یوں سمجھیے کہ عشق کے اونٹ کے گلے میں تاریخ کی بلی باندھ دی جاتی ہے ۔ اگر یہ پیکیج ڈیل آفر نہ کی جائے تو تاریخ کی سوکھی سڑی بلی کو پوچھنے والے انگلیوں پر بھی نہ گنے جا سکیں۔

الغرض ہمارے ہاں معاملات میں ان چیزوں کا (ضرورت سے زیادہ ) دخل بچوں کو پڑھائی لکھائی اور ہنر سیکھنے کے بجائے ایک الگ ہی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ وہ جانے انجانے میں اپنے شہزادے شہزادی کو ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں اور جنہیں مل جائے وہ اگلی منزل کو چل نکلتے ہیں۔ جب یہ خبر گھر پر پہنچتی ہے تو مائیں سینے پر دو ہتھڑ مار کر بیٹھ جاتیں ہیں اور کہتی ہیں کہ نہ جانے میری تربیت میں کون سی کمی رہ گئی۔

ہم ایسے ماں باپ سے باادب کہنا چاہتے ہیں کہ ماشاء اللہ آپ نے تو اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی لیکن اگر پھر بھی آپ کی اولاد فرماں بردار نکل آئے تو اسے خداوندِ کریم کی عنایت سمجھیے۔

🌼🌼🌼🌼🌼
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھا جامع مضمون ہے احمد صاحب، آپ نے کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جس پر اپنی بھر پور نظر نہ ڈالی ہو! :)

ویسے میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ اگر نوجوانوں کی زندگی سے شاعری، ناول،فلمیں، ڈرامے، گیت، گانے، کہانیاں، داستانیں سب نکال دیں گے تو پیچھے صرف "حلِ مشکلاتِ الصرف و النحو" ہی بچے گا۔ :)
 

زیک

مسافر
لگتا ہے محمداحمد آپ کی عمر اب عشق پر کریک ڈاؤن والی ہو گئی ہے۔ کرنے دیں نوجوانوں کو بھی ویسا ہی عشق جیسا بڑے بوڑھے اپنے دور میں کر چکے
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھا جامع مضمون ہے احمد صاحب، آپ نے کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جس پر اپنی بھر پور نظر نہ ڈالی ہو! :)
بہت شکریہ وارث بھائی!
ویسے میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ اگر نوجوانوں کی زندگی سے شاعری، ناول،فلمیں، ڈرامے، گیت، گانے، کہانیاں، داستانیں سب نکال دیں گے تو پیچھے صرف "حلِ مشکلاتِ الصرف و النحو" ہی بچے گا۔ :)
یہ بات آپ کی درست ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اُڑنے نہ پائے تھے ۔۔۔
ایک سوال کے ممکنہ جوابات تلاش کرنے کی ایک سعی!
تحریر: محمد احمد​
ہمارے نوجوان عشق میں کیوں گرفتار ہوتے ہیں؟

مسکرا لیجے! آپ بھی کہیں گے یہ کیسا سوال ہے؟ یہ تو فطری بات ہے۔ کلیوں نے کھلنا کیسے جانا، موجوں نے ملنا کیسے جانا، وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ اگر آپ ان مثالوں پر اکتفا نہ بھی کریں تو بھی ہم کیا کر لیں گے۔ اس لئے مان لیتے ہیں کہ یہ فطری بات ہے۔

فطری بات تو ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اور بھی کئی ایک عوامل ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو فطری تقاضوں سے کہیں پہلے انگلی پکڑ کر لے جاتے ہیں اور محبوب کی گلیوں میں (حقیقی نہ سہی ورچوئل ہی سہی) جوتیاں چٹخانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں تو اس طرح کے عوامل ان گنت ہیں لیکن ہم ان میں سے چند ایک کا جائز ہ لیتے ہیں۔

بچوں کی کہانیاں

اب تو نہیں لیکن جب ہمارے ہاں بچوں کو کہانیاں سُنائی جاتی تھیں۔ اُن میں اولین کہانیاں وہی ہوتی تھیں کہ جن میں کسی شہزادی کو کوئی جن اُٹھا کر لے جاتا اور شہزادہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اور جن (ولن) سے لڑ کر شہزادی کو واپس لاتا، اور آخر میں شہزادے کی شادی شہزادی سے ہو جاتی۔ دیکھا جائے تو اس طرح کی کہانیاں اچھی خاصی لو اسٹوری ہوا کرتی تھی۔ ایسی کہانیوں میں شہزادے اور شہزادی کی شادی کے بغیر تمام لوگوں کو ہنسی خوشی رہنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

کہانی کا سبق آپ لاکھ بہادری یا جفا کشی بتائیں لیکن کہانی سننے والے بچے بچیاں اپنی کہانی میں خود کو شہزادہ اور شہزادی ہی تصور کرتے ہیں ۔ ایسے میں اگر جن صاحب کوہِ قاف سے اُتر کر شہزادی کو اغوا کرنا بھول جائیں تو پھر کہانی میں شادی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔

والدین

بچوں کو عشق نگری کا سُراغ والدین کی بہت سی باتوں سے بھی ملا کرتا ہے۔

ماں باپ بچوں کے سامنے مذاق ہی مذاق میں ان کے رشتے ان کے کزنوں سے جوڑ دیتے ہیں۔ حرا اور اسد ایک ساتھ بیٹھے کتنے اچھے لگتے ہیں۔ صمد اور سارہ کی جوڑی بہت اچھی رہے گی۔ بچے کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ایک راہ پر چل دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ اپنے کزنوں میں ہی دلچسپی لیں۔ وہ مزید دستیاب آپشنز پر غور شروع کر دیتےہیں۔ اُسے بھی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے جس کی جوڑی ماں باپ نہیں بناتے اور کسی اور بہن بھائی کی بنا دیتے ہیں۔ پھر اُسے اپنے معاملات خود دیکھنا پڑتے ہیں۔

کچھ مائیں اپنی ناسمجھی میں ہی پورا کیس تیار کر دیتی ہیں۔ پھپھو کی مہرین کی طرف تو دیکھنا بھی مت۔ قیامت بھی آ جائے تو میں اس سے تمہاری شادی نہیں کروں گی۔ اگلی ملاقات پر بچہ مہرین کو بڑے غور سے دیکھتا ہے، اور بہت کچھ سوچنے لگتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے اُسے ہوش بھی نہیں تھا کہ مہرین صاحبہ ہیں کون؟۔

ٹی وی ڈرامے

ہمارے ہاں بچے ماؤں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی ڈرامے دیکھتے ہیں ۔ ساتھ بیٹھ کر نہ بھی دیکھیں تو گھر میں چلنے والے ٹی وی ڈراموں سے کلیتاً لا تعلق نہیں رہ سکتے۔آج کے ڈرامے تو خیر بہت آگے نکل گئے ہیں ، لیکن آج سے بیس سال پرانے ڈرامے بھی بچوں کو عشق و محبت سے روشناس کرانے کا کام بہ احسن و خوبی کیا کرتے تھے۔ ڈرامے کے ہیرو یا ہیروئن کی جگہ خود کو رکھنا بچوں کے لئے فطری سی بات ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے تئیں ہیرو یا ہیروئن بن جاتے ہیں تو پھر اپنا جوڑ ڈھونڈنا اُن کا اولین فریضہ بن جاتا ہے۔

فلمیں

کچھ لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر ہندوستانی یا مغربی فلمیں بھی دیکھا کرتے ہیں۔ گھر والوں میں بچے بھی کبھی دانستہ اور کبھی نا دانستہ طور پر شامل ہو ہی جاتے ہیں۔ فلموں کے لئے بھی وہی ڈرامے والی بات ہے کہ آج کی فلمیں تو بہت ہی "ترقی یافتہ" ہیں، آج سے پچاس سال پرانی فلم بھی عاشقی کی تربیت دینے کے لئے کافی و شافی ہے۔ جولوگ حالیہ فلمیں دیکھتے ہیں، اُن کی تو کیا ہی بات ہے کہ اُن کے بچے عاشقی سے بھی اگلے مرحلے میں براہِ راست پہنچ جاتے ہیں۔

عشقیہ داستانیں ہماری فلموں کا ایسا بنیادی موضوع ہے کہ لو اسٹوری کے نام پر ہی نہ جانے کتنی فلمیں بن چکی ہیں۔ اور ہر نئی فلم "ایک اور لو اسٹوری" ہی ہوا کرتی ہے۔

فلمی گیت

کم از کم ہندوستانی اور پاکستانی فلمیں، فلمی گیتوں کے بغیر ادھوری ہی تصور کی جاتی ہیں۔ جب تک ہیرو ہیروئن گا گا کر اظہارِ محبت نہ کر لیں، ولن کی فلم میں انٹری پر پابندی ہوتی ہے۔ کبھی ٹھنڈی اور کبھی ہیجان خیز موسیقی سے لبریز یہ فلمی گیت جذبہء عشق و محبت کو فروغ دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کوئی بعید نہیں کہ کوئی معصوم گیت آپ کے کانوں میں بھی "میرا دل یہ پکارے آ جا" قسم کے ارمان جگانے کا فریضہ دن رات سر انجام دے رہا ہو۔ بچے تو پھر بچے ہیں۔

ہندوستانی اور پاکستانی فلمی گیتوں کا اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے کہ وہ انسان کو کام دھندے سے ہٹا کر کارِ عشق میں مبتلاء کر دیں۔ کبھی سامنے والی کھڑکی میں موجود چاند سے چہرے کا ذکر تو کبھی کالج بند ہوجانے پر عارضی جدائی کا پرچار۔ ادھر صنف ِ مخالف میں سے کوئی نظر آیا ۔ اُدھر رومانوی دُھنیں بجنے لگیں۔ ہیرو ہیروئن آنکھیں پٹپٹا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اور اچانک سارا پس منظر بدل گیا۔ کالج یا بازار سے اڑتے ہوئے ہیرو ہیروئن ایک سبزہ زار میں پہنچ گئے اور تمام تر موسیقار اپنے ساز و سامان کے ساتھ درختوں کے پیچھے چھپ گئے ۔ اب اگلے پانچ سات منٹ تک فلم کی کہانی رُکی رہے گی اور محبت کے راگ الاپے جاتے رہیں گے۔ آپ بتائیے بھلا کون سا ایسا کور ذوق بچہ ہوگا جو ان سب باتوں کو سُن اور دیکھ کر بھی اپنا بستہ اُٹھا کر سیدھا ٹیوشن چلا جائے گا۔

ہماری سب کی سب فلمیں محبت اور زیادہ تر اچانک پیدا ہو جانے والی محبت کو ہی فروغ دیتی ہیں۔ فلموں میں ارینج میرج تو ہیرو ہیروئن کے بہن بھائیوں کی ہی ہو تو ہو، ہیرو ہیروئن کی نہیں ہو سکتی۔ ہم بچوں کو بچپن سے بڑے ہونے تک لو اسٹوری پر مبنی فلمیں اور ڈرامے دکھاتے رہتے ہیں اور پھر اُن سے توقع یہ رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی مرضی سے بلا چوں و چراں شادی کر لیں گے۔

شاعری

یوں تو شاعری کا ذکر ہم بین السطور فلمی گیتوں کے زمرے میں کر چکے ہیں تاہم فلمی گیتوں کے علاوہ بھی شاعری کہیں نہ کہیں نوجوانوں کو مہمیز کرتی نظر آتی ہے۔ ایک شاعری تو وہ ہے کہ جو عام طور پر سوشل میڈیا پر پائی جاتی ہے (جو شاعری نہیں ہے بلکہ شاعری کے ماتھے پر بدنما داغ ہے) جس کا کوئی قاعدہ قانون نہیں ہوتا۔ یہ شاعری تو ہر لحاظ سے مُضر ہی ہے۔ لیکن وہ شاعری بھی کہ جو شاعری کے اصولوں کی پابندہوا کرتی ہے (اور عموماًصرف اسی وجہ سے معیاری شاعری مانی جاتی ہے)، نوجوان کو عشق کی آگ میں دھکیلنے اور جلے ہوئے نوجوانوں کو مستقل سلگاتے رہنے کا کام بخوبی انجام دیتی ہے۔

اگر نوجوان شاعری کا معمولی سا ذوق بھی رکھتے ہوں تو شاعری اُن کے جذبات سے کھیلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ نوجوان جب جب صنفِ مخالف سے دو بدو ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی مصرع یا نغمہ اُن کے ذہن میں مچلنے لگتا ہے۔

کسی پر اچانک نظر پڑ جانے پر امجد صاحب کی نظم یاد آ جاتی ہے۔
وہ جب بھی کالج کی سیڑھیوں سے سہیلیوں کو لیے اُترتی تو ایسا لگتا ۔۔۔

کبھی اچانک کسی کو دیکھ کر لبوں پر کوئی مصرع آ دھمکتا ہے :
کہو مجھ سے محبت ہے ۔۔

کسی کو دیکھ کر یکلخت خیال آتا ہے:
اک بار کہو تم میری ہو۔۔

نوجوانوں کو بارہا یہی باور کروایا جاتا ہے کہ دل کی کہانی فقط دو لفظوں کی ہی ہے اور وہ دو لفظ محبت اور جوانی کے سوا کوئی اور نہیں ہیں۔ نوواردوں کو طعنے بھی دیے جاتے ہیں کہ وہ جوانی جوانی نہیں ، جس کی کوئی کہانی نہیں۔

نہ جانے کتنی محبت کی ادھوری نظمیں نوجوانوں کو آ آ کر کہتی ہیں کہ نظم تو چل جائے گی لیکن محبت ادھوری اچھی نہیں لگتی۔ وغیرہ وغیرہ۔

پھر اگر خدانخواستہ نوجوانوں کو محبت میں غم مل جائیں تو شاعری اُن کے لئے عذاب بن جاتی ہے۔ شاعری اُنہیں سب کچھ بھلا کر آگے بڑھنے نہیں دیتی اور ہمہ وقت رونے گانے کا سامان مہیا کرتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ کچھ لوگ تو اس قسم کی شاعری پڑھ پڑھ کر مایوسیوں کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہتا ہے کہ سب کی سب شاعری ہی ایسی ہوتی ہے۔ ہرگز نہیں، کچھ شاعری تو بہت اچھی ہوتی ہے۔ جسے پڑھ کر ذوق اور فکر کی بلندی حاصل ہوتی ہے اور ایسی شاعری انسان کی ذہنی بالیدگی کا باعث بھی بنتی ہے ۔ لیکن بیشتر شاعری فسانہء گل و بلبل سے آگے بڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔

عشقیہ داستانیں

ہمارے ہاں عشقیہ لوک داستانیں بھی بڑی قدر و منزلت کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں ۔ لیلیٰ مجنوں، سوہنی ماہیوال، سسی پنو، شیریں فرہاد، مرزا صاحباں اور کئی دیگر کردار ہمارے معاشرے میں کسی تعارف کے محتاج نہیں سمجھے جاتے۔ ان کی کہانیوں کو بڑی محبت اور عقیدت کے رنگ میں رنگ کر سنایا جاتا ہے کہ جیسے زندگی تو ہیر رانجھے اور شیریں فرہاد کی ہی تھی۔ تم لوگ (سُننے والے بچے یا نوجوان)تو محض گھسیارے ہو۔

الغرض ہمارے بچوں کو تمام تر ہیروز فلمی اور عشقی قسم کے ملتے ہیں۔ اور پھر ہم اُن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر سائنسدان بنیں، عالم بنیں یا اچھے مصنف و مولف بنیں۔ ویسے ہمارے ہاں بیشتر لوگ تو اپنے بچوں سے بڑا آدمی بننے کے علاوہ کوئی توقع نہیں کرتے۔

رومانوی ناولز

بچے جب کچھ بڑے ہوتے ہیں تو اُن میں سے معدودے چند کو مطالعے کا بھی شوق ہو جاتا ہے تاہم یہاں بھی اُن کی تربیت کے لیے عشقیہ داستانوں پر مبنی رومانوی ناولز موجود ہوتی ہیں۔ باقی زبانوں کی طرح ہمارے ہاں بھی اسی نوے فیصد ناولز عشقیہ ہوا کرتی ہیں۔ عشقیہ ناول پڑھ کر بچے ٹیپو سلطان تو بننے سے رہے۔ بلکہ یہاں تو حال یہ ہے کہ تاریخی ناول بھی ایک متوازی عشقیہ داستان کے بغیر نہیں لکھے جاتے۔ یوں سمجھیے کہ عشق کے اونٹ کے گلے میں تاریخ کی بلی باندھ دی جاتی ہے ۔ اگر یہ پیکیج ڈیل آفر نہ کی جائے تو تاریخ کی سوکھی سڑی بلی کو پوچھنے والے انگلیوں پر بھی نہ گنے جا سکیں۔

الغرض ہمارے ہاں معاملات میں ان چیزوں کا (ضرورت سے زیادہ ) دخل بچوں کو پڑھائی لکھائی اور ہنر سیکھنے کے بجائے ایک الگ ہی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ وہ جانے انجانے میں اپنے شہزادے شہزادی کو ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں اور جنہیں مل جائے وہ اگلی منزل کو چل نکلتے ہیں۔ جب یہ خبر گھر پر پہنچتی ہے تو مائیں سینے پر دو ہتھڑ مار کر بیٹھ جاتیں ہیں اور کہتی ہیں کہ نہ جانے میری تربیت میں کون سی کمی رہ گئی۔

ہم ایسے ماں باپ سے باادب کہنا چاہتے ہیں کہ ماشاء اللہ آپ نے تو اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی لیکن اگر پھر بھی آپ کی اولاد فرماں بردار نکل آئے تو اسے خداوندِ کریم کی عنایت سمجھیے۔

🌼🌼🌼🌼🌼
تحریر کا موضوع دیکھ کر شبہ ہوا کہ محمد احمد کی تحریر ہے کہ آج کل بڑی جانفشانی اور تندہی سے اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت میں لگے ہوئے ہیں ۔ پڑھ کر یقین آگیا کہ آپ ہی نے لکھی ہے اور حسبِ معمول خوب لکھی ہے۔
ویسے محمداحمد بھائی ، یہ مضمون بیس سال بعد از وقت ہے ۔ اب تو بچوں کے ٹی وی پروگراموں اور کتابوں میں "صنفِ مخالف" سےعشق و محبت کے بجائے کسی اور ہی "صنفی معاملے "کی undertones ہوتی ہیں ۔ وقت اور اقدار تیزی سے بدل رہے ہیں ۔ آپ مضامین ذرا جلدی جلدی لکھا کیجیے۔ :):):)
 

محمداحمد

لائبریرین
لگتا ہے @محمداحمد آپ کی عمر اب عشق پر کریک ڈاؤن والی ہو گئی ہے۔
ہاہاہاہا۔۔۔!

آتے آتے ہی عقل آتی ہے۔ :)


کرنے دیں نوجوانوں کو بھی ویسا ہی عشق جیسا بڑے بوڑھے اپنے دور میں کر چکے

ویسے تفنن برطرف! انسانوں کا اور بالخصوص نوجوانوں کا صنفِ مخالف کی طرف راغب ہونا یا میلان رکھنا بالکل فطری سی بات ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔

لیکن ہمارے ہاں ہو یہ رہا ہے کہ نوجوانوں کو ہر طرف سے محض عاشقی کا ہی اشارہ (Cue) ملتا ہے۔ اور ہم چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی نوجوانوں کو ہانکا لگا کر اسی ایک میدان کی طرف لے جاتے ہیں۔

اگر نوجوان فطری رجحانات اور میلانات کے ہوتے اس طرف راغب ہو جائیں تو اور بات ہے۔ لیکن اُن کے لئے اس ایک راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہ چھوڑنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

یوسفی صاحب نے لاہور کی گلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا: "لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آ رہی ہو اور دوسری طرف سے مرد تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے۔"

بعینیہ یہی صورتحال ہمارے نوجوانوں کو درپیش ہے۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
تحریر کا موضوع دیکھ کر شبہ ہوا کہ محمد احمد کی تحریر ہے کہ آج کل بڑی جانفشانی اور تندہی سے اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت میں لگے ہوئے ہیں ۔
:) :) :)
پڑھ کر یقین آگیا کہ آپ ہی نے لکھی ہے اور حسبِ معمول خوب لکھی ہے۔
شکریہ ظہیر بھائی!:)
ویسے @محمداحمد بھائی ، یہ مضمون بیس سال بعد از وقت ہے ۔
واقعی! آپ درست فرما رہے ہیں۔ مجھے تو بہت دیر سے عقل آئی۔ لیکن کسی نہ کسی کو بہت پہلے ہی اس قسم کے موضوعات پر ضرور لکھنا چاہیے تھا۔ :)

اب تو بچوں کے ٹی وی پروگراموں اور کتابوں میں "صنفِ مخالف" سےعشق و محبت کے بجائے کسی اور ہی "صنفی معاملے "کی undertones ہوتی ہیں ۔ وقت اور اقدار تیزی سے بدل رہے ہیں ۔
یہ تو اس سے بھی زیادہ غمناک بات ہے ظہیر بھائی!

اللہ رب العزت ہمارے بچوں کو ان سب معاملات سے محفوظ فرمائے۔
 

علی وقار

محفلین
اچھا جامع مضمون ہے احمد صاحب، آپ نے کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جس پر اپنی بھر پور نظر نہ ڈالی ہو! :)

ویسے میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ اگر نوجوانوں کی زندگی سے شاعری، ناول،فلمیں، ڈرامے، گیت، گانے، کہانیاں، داستانیں سب نکال دیں گے تو پیچھے صرف "حلِ مشکلاتِ الصرف و النحو" ہی بچے گا۔ :)
📖:cautious:
 

سیما علی

لائبریرین
ہم ایسے ماں باپ سے باادب کہنا چاہتے ہیں کہ ماشاء اللہ آپ نے تو اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی لیکن اگر پھر بھی آپ کی اولاد فرماں بردار نکل آئے تو اسے خداوندِ کریم کی عنایت سمجھیے۔
بہت خوبصورت تحریر ۔۔۔ آپکا خاص انداز ہے اپنی بات کہنے کا ۔بہت اعلیٰ
ہمارے ہاں عشقیہ لوک داستانیں بھی بڑی قدر و منزلت کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں ۔ لیلیٰ مجنوں، سوہنی ماہیوال، سسی پنو، شیریں فرہاد، مرزا صاحباں اور کئی دیگر کردار ہمارے معاشرے میں کسی تعارف کے محتاج نہیں سمجھے جاتے۔ ان کی کہانیوں کو بڑی محبت اور عقیدت کے رنگ میں رنگ کر سنایا جاتا ہے کہ جیسے زندگی تو ہیر رانجھے اور شیریں فرہاد کی ہی تھی۔ تم لوگ (سُننے والے بچے یا نوجوان)تو محض گھسیارے ہو۔
ہمارے خیال میں ہر معاشرے میں عشقیہ داستانیں بڑے دلکش انداز میں ہی بیان کی جاتیں ہیں ۔۔۔رابعہ اور بکتاش کی عشقیہ داستان۔۔کچھ عرصہ قبل ایران کی ممتاز ادیبہ زہرا خانلری نے عطار کی اس شعری داستان کو نہایت شگفتگی سے نثر مین منتقل کر کے داستاں ہائے دل انگیز کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔۔۔پھر مہر و مشتری کی عشقیہ داستان ۔رومیو اور جولیٹ عالمی ادب کی لازوال داستان ہے ۔۔آپکی اس بات پہ رومیو کی بات یاد آگئی؀
محبوب محبت کے لئے بھاگتا ہے ۔۔۔۔تو بھاگنے دیں بچوں کو۔۔۔شاعری معنی جاننے پہچاننے کے ہیں معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عشق و محبت کا ذکر کرنا بھی بتایا گیا ہے۔یہ آج کے بچے ہیں وقت سے پہلے سب کچھ جان لینے والے ۔۔۔ہمارے سات سال کے میکائیل کہتے ہیں یہ کیسی شادی ہے ۔۔۔۔۔۔۔باہر رہنے والے بچے ہم بتاتے بتاتے نہیں تھکتے کہ اسلام میں ایسا نہیں ہے ۔۔۔پر بس اب بچوں کو اچھا برا بتائیں ضرور پر انکی ذہنی نشو نما اور آگاہی کو چیلنج نہ کریں ۔۔۔میکائیل۔ایکدن ہم سے پوچھ رہے تھے ۔۔۔Nova why we don’t have gay parents in Pakistan ۔
صرف اسلام ہی وہ راستہ ہے جو بتانا پڑتا ہے ان حالات میں کہ It’s not permitted in Islam۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین

وارث بھائی کے تبصرے سے جو اقتباس آپ نے لیا اُس سے میں بھی کافی حد تک متفق ہوں۔

آپ نے اپنی رائے کا کھل کر اظہار نہیں کیا۔ اور تشویش یا غم کا اظہار بذریعہ اسمائیلیز ہی کیا۔ اگر آپ کچھ تفصیل لکھ سکیں تو ممکن ہے کہ گفتگو کی مزید راہیں کُھل جائیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوبصورت تحریر ۔۔۔ آپکا خاص انداز ہے اپنی بات کہنے کا ۔بہت اعلیٰ
بہت شکریہ۔ ممنون ہوں۔
ہمارے خیال میں ہر معاشرے میں عشقیہ داستانیں بڑے دلکش انداز میں ہی بیان کی جاتیں ہیں ۔۔۔رابعہ اور بکتاش کی عشقیہ داستان۔۔کچھ عرصہ قبل ایران کی ممتاز ادیبہ زہرا خانلری نے عطار کی اس شعری داستان کو نہایت شگفتگی سے نثر مین منتقل کر کے داستاں ہائے دل انگیز کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔۔۔پھر مہر و مشتری کی عشقیہ داستان ۔رومیو اور جولیٹ عالمی ادب کی لازوال داستان ہے ۔۔آپکی اس بات پہ رومیو کی بات یاد آگئی؀
محبوب محبت کے لئے بھاگتا ہے ۔۔۔۔تو بھاگنے دیں بچوں کو۔۔۔
جی۔ یہ تو ہے۔
یہ آج کے بچے ہیں وقت سے پہلے سب کچھ جان لینے والے ۔۔۔ہمارے سات سال کے میکائیل کہتے ہیں یہ کیسی شادی ہے ۔۔۔۔۔۔۔باہر رہنے والے بچے ہم بتاتے بتاتے نہیں تھکتے کہ اسلام میں ایسا نہیں ہے ۔۔
آج کل کے بچے سمجھدار ہیں۔ تو اُن بچوں کی بہتر طریقے سے رہنمائی کے لئے والدین اور بڑوں کو اُن سے بھی زیادہ سمجھدار ہونے کی ضرورت ہے۔
پر بس اب بچوں کو اچھا برا بتائیں ضرور پر انکی ذہنی نشو نما اور آگاہی کو چیلنج نہ کریں ۔
بلاشبہ! بچوں کو ہاتھ پکڑ کر چلانے کے بجائے سمجھانا بہتر رہتا ہے۔ تاکہ وہ جو بھی فیصلہ کریں وہ خود کریں اور اچھا فیصلہ کریں۔
صرف اسلام ہی وہ راستہ ہے جو بتانا پڑتا ہے ان حالات میں کہ It’s not permitted in Islam۔۔۔
بلاشبہ! اس انتہائی فتنوں کے دور میں ہم مسلمانوں کو صرف اسلام کی خالص تعلیمات کے دامن میں ہی پناہ مل سکتی ہے۔

جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آپ کے ”فن پارے“ نے مجھے بعض مقامات پر ہنستے ہوئے فرش پر لڑھکنے پر مجبور کردیا اور بعض مقامات پر اختلاف بھی ہوا لیکن مجموعی طور پر ہماری زندگی میں یہ بظاہر عام عناصر کس طرح بچے بچیوں کو اپنے جیون ساتھی تلاش کرنے کی ترغیب دینے کی سازش کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کا دلچسپ تجزیہ تفریحی اور فکر انگیز ہے۔ آپ میڈیا اور گپ شپ کے دوران بچوں کو جنسی شعور دینے کی لاشعوری کوششوں کو بے نقاب کرنے میں کامیاب رہے۔اگر ہم آپ کی باتوں کے قائل ہوجائیں تو ماؤں کی تو گفتگو پر ہی پابندی لگ جائے گی کہ کیا بولنا چاہئے اور کیا نہیں کیونکہ آپ نے میچ میکنگ کیلئے بچوں کی ذہن سازی کا جو سامان ان کی گفتگو میں بیان فرمایا ہے، اس سے چودہ طبق روشن ہو گئے تاہم اس تمام تر مزاح کے پیچھے ایک لطیف پیغام پنہاں تھا جو آپ کے حساس جذبات کی صداقت اور گہرائی پر غور کرنے کی ترغیب دیتا محسوس ہوتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
احمد بھائی نے بلاشبہ ایک بھرپور زندگی گزاری ہے۔ اور عشق و عاشقی کے میدان میں صرف شاعری و ناول پڑھنے تک محدود نہیں رہے۔ بلکہ اپنے بھی لکھے۔۔۔۔ یہ مضمون پڑھ کر مجھے بےساختہ احمد بھائی کا ہی ایک شعر یاد آگیا۔
آج بھی لوگ عشق کرتے ہیں
سامنے کی مثال ہوتے ہوئے

مجھے یقین ہے یہ سامنے کی مثال احمد بھائی کی نہ رہی ہوگی۔ لیکن لوگوں کا کیا منہ بند کیجیے۔ کچھ بھی کہنے لگتے ہیں۔

اچھا سنجیدہ باتیں ایک طرف۔ احمد بھائی آپ کو یہ تمام پہلوؤں پر گرفت کرنے کی کیوں کر سوجھی۔۔۔۔ کیا پھر۔۔۔ بقول شاعر۔۔۔ آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی۔۔۔

تفنن برطرف۔۔۔ احمد بھائی۔۔ ۔ بہت ہی دلچسپ اور اعلی تحریر ہے۔۔۔ آپ کا خاص ناصح رنگ لیے بھی۔۔۔ یہ بالکل ایک حقیقت ہے ۔۔۔۔ اور آپ نے اس بکھرے پہلوؤں کو خوبصورتی سے یکجا کیا ہے۔ اس کے مقابل کوئی لائحہ عمل بھی ہونا چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ مسئلے کی نشاندہی بھی ایک چیز ہے لیکن اس کا تدارک خشک ہے۔ میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ میں نے اپنے بیٹے زین العابدین کو اس رنگ سے پرے رکھا۔ وہ فلم ڈرامے نہیں دیکھتا۔ کتابیں بھی نہیں پڑھتا خیر سے۔ لیکن علم کے لیے میں نے اسے ڈاکومینٹریز پر لگا دیا۔ اور تحقیق کے لیے اس پزل اور مختلف ذہنی آزمائش کے کھیل اور پروگرامز میں شامل کرنا شروع کیا۔ اس کا ایک نقصان تو علم کا ہونا ہے ہی۔ دوسرا نقصان اس لطف کا ہے جو بچے کی عمر کا خاصہ ہوتی ہے۔بدقسمتی سے میری پرورش چونکہ ویسی ہی ہے جیسا آپ نے آپ اوپر موضوع میں بیان کیا۔ تو میرے نزدیک لطافت اور ان کہے جذبے بہت معنی رکھتے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
 

علی وقار

محفلین
وارث بھائی کے تبصرے سے جو اقتباس آپ نے لیا اُس سے میں بھی کافی حد تک متفق ہوں۔

آپ نے اپنی رائے کا کھل کر اظہار نہیں کیا۔ اور تشویش یا غم کا اظہار بذریعہ اسمائیلیز ہی کیا۔ اگر آپ کچھ تفصیل لکھ سکیں تو ممکن ہے کہ گفتگو کی مزید راہیں کُھل جائیں۔
احمد بھائی، میرا خیال ہے کہ دوست احباب اور گھر کے جیتے جاگتے باشندوں سے ہی بچے سیکھتے ہیں، انٹرنیٹ اور ٹی وی شوز کے بھی اثرات بچوں پر واضح طور پر پڑتے ہیں اس لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ بچوں کی دوستی کن کے ساتھ چل رہی ہے اور وہ کیا کچھ دیکھتے پھر رہے ہیں۔ میری نظر میں سب سے اہم بات والدین کے اپنے رویے ہیں۔ اگر وہ شائستہ اطوار ہوں گے تو نوے فی صد سے زائد امکان ہے کہ بچے بھی ایسے ہی ہوں گے اور ان پر بیرون خانہ معاملات کے اثرات کم پڑیں گے۔

اصلاحی تحاریر کا سلسلہ جاری رکھیے۔ یہ مضامین عام طور پر موضوع کے لحاظ سے خشک ہوتے ہیں، اس لیے ان پر نظر کم ٹھہرتی ہے تاہم آپ کا اسلوب عمدہ ہے اس لیے ایک بار پڑھنا شروع کیا جائے تو پڑھنا مجبوری بن جاتی ہے۔ لکھتے رہیے کہ یوں بھی ان موضوعات پر لکھنے والے اب بہت کم لوگ رہ گئے ہیں۔

وارث بھائی کے مراسلے کی تو کیا ہی بات ہے، اس مراسلے میں ایک ایسا پُر مزاح جملہ تھا کہ اقتباس لینا بنتا تھا، چاہے اس میں کچھ بھی نہ لکھا جاتا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ !

سب سے پہلے تو معذرت قبول کیجے کہ عدم فرصت اور عدم یکسوئی کے باعث محفل میں حاضری نہیں ہو سکی۔ اور یہ گفتگو بھی بیچ میں رہ گئی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ کے ”فن پارے“ نے مجھے بعض مقامات پر ہنستے ہوئے فرش پر لڑھکنے پر مجبور کردیا اور بعض مقامات پر اختلاف بھی ہوا لیکن مجموعی طور پر ہماری زندگی میں یہ بظاہر عام عناصر کس طرح بچے بچیوں کو اپنے جیون ساتھی تلاش کرنے کی ترغیب دینے کی سازش کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کا دلچسپ تجزیہ تفریحی اور فکر انگیز ہے۔ آپ میڈیا اور گپ شپ کے دوران بچوں کو جنسی شعور دینے کی لاشعوری کوششوں کو بے نقاب کرنے میں کامیاب رہے۔اگر ہم آپ کی باتوں کے قائل ہوجائیں تو ماؤں کی تو گفتگو پر ہی پابندی لگ جائے گی کہ کیا بولنا چاہئے اور کیا نہیں کیونکہ آپ نے میچ میکنگ کیلئے بچوں کی ذہن سازی کا جو سامان ان کی گفتگو میں بیان فرمایا ہے، اس سے چودہ طبق روشن ہو گئے تاہم اس تمام تر مزاح کے پیچھے ایک لطیف پیغام پنہاں تھا جو آپ کے حساس جذبات کی صداقت اور گہرائی پر غور کرنے کی ترغیب دیتا محسوس ہوتا ہے۔

بہت شکریہ شاہد بھائی!

خوشی ہوئی کہ آپ تحریر سے لطف اندوز بھی ہوئے اور اس میں موجود پیغام کو بھی با خوبی سمجھ لیا۔

رہی بات اختلاف کی تو وہ آپ کا حق ہے۔ میرا کہا حرفِ آخر ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک کوشش ہے کہ اس موضوع پر اس زاویے سے گفتگو کا آغاز ہو سکے۔
 
Top