پروفیسر شوکت اللہ شوکت
محفلین
بُلبل مذکر ہے یا مؤنث؟
ایک پروفیسر صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ ان سے جب کوئی سوال پوچھا جاتا تو وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک کہ پوری تفصیل اور تسلی سے جواب نہ دے دیں؛ بلکہ بعض اوقات تو سوال کرنے والا تنگ آکر اس وقت کو کوستا جب اس نے ان سے سوال کیا تھا۔
ایک صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں اور پروفیسر صاحب ایک لائبریری میں بیٹھے تھے، کہ میرے ذہن ایک سوال آیا، جو غلطی سے پروفیسر صاحب سے پوچھ لیا؛ میں نے دریافت کیا کہ حضرت! یہ بتائیے کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟ پروفیسر صاحب کسی کتاب کے مطالعے میں محو تھے، میرا سوال سن کر موصوف نے کتاب بند کی، ایک لمحے کو سوچا، پھر مسکرا کر گویا ہوئے "میاں! بلبل مذکر ہے" میں نے شکریہ ادا کیا اور جواب سے مطمئن ہوگیا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ایک شام میرے دروازے پر دستک ہوئی، گھر میں اس وقت کچھ مہمان بیٹھے ہوئے تھے، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا موصوف پروفیسر صاحب کھڑے ہیں، میں نے پوچھا کہ پروفیسر صاحب! خیریت تو ہے؟ آپ میرے غریب خانے پر اس وقت؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے "میاں! اس روز آپ نے پوچھا تھا کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث اور میں نے جواب دیا تھا کہ بلبل مذکر ہے؛ لیکن آج مرزا غالب کا ایک مصرع نظر سے گزرا،
ع.....بلبلیں سُن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں؛
لہذا اس مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے۔" میں نے ان کے خلوص و محبت کا بہت شکریہ ادا کیا کہ وہ بے چارے میرے سوال کا جواب دینے میرے گھر تک تشریف لائے۔
ابھی چند ہی روز گزرے ہوں گے کہ ایک صبح میرے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی، میں گہری نیند میں تھا، دستک کی آواز سنی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، اور دروازہ کھولا تو پروفیسر صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے، میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور صبح صبح تشریف آوری کا سبب دریافت کیا۔ پروفیسر صاحب فرمانے لگے "میاں! کچھ روز قبل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ غالب کے مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے، لیکن آج صبح جب میں "کلیاتِ اقبال" کا مطالعہ کر رہا تھا تو ایک شعر نظر سے گزرا:
ٹہنی پہ کسی شجر کی
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
علامہ اقبال چونکہ شاعر مشرق ہیں، ان سے زیادہ مستند کس کی رائے ہوسکتی ہے؛ لہذا اس شعر کی روشنی میں آپ بلبل کو مذکر ہی سمجھیے۔ میں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ چلو اب اس بلبل والے قصے سے تو جان چھوٹی۔ لیکن میرے ایسے نصیب کہاں!!
ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا ہوگا کہ میں شام کو ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے میں مگن تھا؛ دروازے پر دستک ہوئی، دروازے پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب کھڑے ہیں، اور چند فٹ کے فاصلے پر ایک عدد گدھا بھی کھڑا تھا جس پر بہت سی کتابیں لدی ہوئی تھیں، اس دن پروفیسر صاحب کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی، میں نے حیرت سے دریافت کیا؛ پروفیسر صاحب! یہ کیا معاملہ ہے؟ وہ اسی مسکراہٹ کے ساتھ کچھ یوں گویا ہوئے
"میاں!! آپ کے سوال پر میں نے بہت تحقیق کی اور بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا،اس گدھے کے دائیں جانب جو کتابیں لدی ہیں ان کے مطابق بلبل مذکر ہے، جبکہ بائیں جانب والی کتابوں کی رو سے بلبل مؤنث ہے، اب آپ فیصلہ خود کرلیں کہ آپ کس کی رائے سے اتفاق کریں گے اور مجھے اجازت دیجیے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے۔"
ان کے رخصت ہوتے ہی میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور سچے دل سے توبہ کی کہ آئندہ پروفیسر صاحب سے کوئی سوال نہ پوچھوں گا۔۔۔۔۔۔۔!!
| کتاب "فنِ مضمون نگاری" صفحہ 63-60 |
ایک پروفیسر صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ ان سے جب کوئی سوال پوچھا جاتا تو وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک کہ پوری تفصیل اور تسلی سے جواب نہ دے دیں؛ بلکہ بعض اوقات تو سوال کرنے والا تنگ آکر اس وقت کو کوستا جب اس نے ان سے سوال کیا تھا۔
ایک صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں اور پروفیسر صاحب ایک لائبریری میں بیٹھے تھے، کہ میرے ذہن ایک سوال آیا، جو غلطی سے پروفیسر صاحب سے پوچھ لیا؛ میں نے دریافت کیا کہ حضرت! یہ بتائیے کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث؟ پروفیسر صاحب کسی کتاب کے مطالعے میں محو تھے، میرا سوال سن کر موصوف نے کتاب بند کی، ایک لمحے کو سوچا، پھر مسکرا کر گویا ہوئے "میاں! بلبل مذکر ہے" میں نے شکریہ ادا کیا اور جواب سے مطمئن ہوگیا۔
اس واقعے کے کچھ روز بعد ایک شام میرے دروازے پر دستک ہوئی، گھر میں اس وقت کچھ مہمان بیٹھے ہوئے تھے، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا موصوف پروفیسر صاحب کھڑے ہیں، میں نے پوچھا کہ پروفیسر صاحب! خیریت تو ہے؟ آپ میرے غریب خانے پر اس وقت؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے "میاں! اس روز آپ نے پوچھا تھا کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث اور میں نے جواب دیا تھا کہ بلبل مذکر ہے؛ لیکن آج مرزا غالب کا ایک مصرع نظر سے گزرا،
ع.....بلبلیں سُن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں؛
لہذا اس مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے۔" میں نے ان کے خلوص و محبت کا بہت شکریہ ادا کیا کہ وہ بے چارے میرے سوال کا جواب دینے میرے گھر تک تشریف لائے۔
ابھی چند ہی روز گزرے ہوں گے کہ ایک صبح میرے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی، میں گہری نیند میں تھا، دستک کی آواز سنی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، اور دروازہ کھولا تو پروفیسر صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے، میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور صبح صبح تشریف آوری کا سبب دریافت کیا۔ پروفیسر صاحب فرمانے لگے "میاں! کچھ روز قبل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ غالب کے مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے، لیکن آج صبح جب میں "کلیاتِ اقبال" کا مطالعہ کر رہا تھا تو ایک شعر نظر سے گزرا:
ٹہنی پہ کسی شجر کی
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
علامہ اقبال چونکہ شاعر مشرق ہیں، ان سے زیادہ مستند کس کی رائے ہوسکتی ہے؛ لہذا اس شعر کی روشنی میں آپ بلبل کو مذکر ہی سمجھیے۔ میں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ چلو اب اس بلبل والے قصے سے تو جان چھوٹی۔ لیکن میرے ایسے نصیب کہاں!!
ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا ہوگا کہ میں شام کو ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے میں مگن تھا؛ دروازے پر دستک ہوئی، دروازے پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب کھڑے ہیں، اور چند فٹ کے فاصلے پر ایک عدد گدھا بھی کھڑا تھا جس پر بہت سی کتابیں لدی ہوئی تھیں، اس دن پروفیسر صاحب کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی، میں نے حیرت سے دریافت کیا؛ پروفیسر صاحب! یہ کیا معاملہ ہے؟ وہ اسی مسکراہٹ کے ساتھ کچھ یوں گویا ہوئے
"میاں!! آپ کے سوال پر میں نے بہت تحقیق کی اور بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا،اس گدھے کے دائیں جانب جو کتابیں لدی ہیں ان کے مطابق بلبل مذکر ہے، جبکہ بائیں جانب والی کتابوں کی رو سے بلبل مؤنث ہے، اب آپ فیصلہ خود کرلیں کہ آپ کس کی رائے سے اتفاق کریں گے اور مجھے اجازت دیجیے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے۔"
ان کے رخصت ہوتے ہی میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور سچے دل سے توبہ کی کہ آئندہ پروفیسر صاحب سے کوئی سوال نہ پوچھوں گا۔۔۔۔۔۔۔!!
| کتاب "فنِ مضمون نگاری" صفحہ 63-60 |