اٹلس مملکت عثمانیہ کا مطالعہ

ربیع م

محفلین
مملکت عثمانیہ کے بارے میں مطالعہ کرنے کا عرصہ دراز سے ہی شوق تھا ، لیکن یہ بھی دوسرے کئی خوابوں کی طرح پایہ تکمیل تک نہ پہنچا پایا ہوں اور نہ ہی زمانہ قریب میں کوئی امید ہے ۔
لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ "جھاتیاں " دائیں بائیں مارتا ہی رہتا ہوں ۔
مملکت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ کے بارے میں" سامی بن عبداللہ مغلوث " نے ایک شاندار اٹلس لکھی ہے ، جس کے مطالعہ سے مجھ جیسے نالائق کے بھی کچھ نہ کچھ پلے پڑ ہی جاتا ہے ، ورنہ تاریخ جیسے خشک موضوع کا مطالعہ کرتے وقت ساری باتیں اوپر سے ہی گزر جاتی ہیں ۔
سامی بن عبداللہ مغلوث نے کئی اٹلس تحریر کی ہیں ، جن میں تمام خلفائے راشدین کی الگ الگ اٹلس ، خلافت بنو امیہ اور خلافت عباسیہ کے بارے بارے میں الگ الگ اٹلس اور مملکت عثمانیہ کے بارے میں اٹلس ۔
اٹلس مملکت عثمانیہ کافی ضخیم کتاب ہے تقریبا 800 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ، اور چونکہ میں چاہتا ہوں کہ صرف اس کے مطالعہ میں میں ہی کھجل خوار نہ ہوں ، بلکہ محفلین کو بھی کچھ نہ کچھ حصہ ضرور پہنچنا چاہئے ، اس لئے مجبورا آپ کو بھی یہ لڑی برداشت کرنی پڑے گی ، جس کی برداشت سے باہر ہو جائے وہ پھر نظر انداز کے آپشن سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
بہرحال کچھ نہ کچھ اقتباسات بمع نقشہ جات کے پیش کرتا رہوں گا ، امید ہے میری اغلاط کی نشاندہی ہوتی رہے گی ۔

عثمانیوں کی اصل:
ترک عثمانی" زرد نسل "یا "منگول نسل "کی جانب منسوب ہیں ، یہ وہ نسل ہے جس کی جانب منگول ، چینی اور مشرقی ایشیا کی دوسری اقوام منسوب ہیں ، ترکوں کا پہلا وطن وسطی ایشیا میں مشرق میں الطائی پہاڑی سلسلےسے مغرب میں بحرقزوین کے درمیان واقع علاقے تھے ، یہ مختلف قبائل اور خاندانوں میں منقسم تھے ، جن میں سے ایک قایی قبیلہ تھا یہ اغوز ترک()ghuz Turks) ہیں جنہوں نے نے اپنے سردار کندز الپ کے زمانے میں آرمینیا کے شمال مغرب میں واقع چراگاہوں کی جانب خلاط شہر کی جانب ہجرت کی ، جب منگولوں نے چنگیز خان کی قیادت میں خراسان پر قبضہ کیا۔
جبکہ بہت سے مؤرخین کے نزدیک اس خاندان کی سیاسی زندگی پردہ اغماض میں چھپی ہے اور حقائق سے زیادہ کہانیاں منسوب ہیں ، اور ان کے بارے میں بس اتنا ہی معلوم ہے کہ یہ خاندان اس علاقے میں کچھ عرصہ ٹھہرا رہا، اس قول کی صداقت ان بہت سے پتھروں اور قبروں سے ہوتی ہے جن کی خاندان عثمان کے اجداد کی جانب نسبت کی جاتی ہے ، دستیاب معلومات سے پتا چلتا ہے کہ اس خاندان نے خلاط کے علاقے کو تقریبا 1229 ء میں سلطان جلال الدین خوارزمی کی بپا کردہ جنگوں کے نتیجے میں اس علاقے کے بدلتے عسکری حالات کے دباؤ تلے چھوڑ دیا تھا ، اور دریائے دجلہ کے حوض کی جانب کے علاقوں کی جانب یہ ہجرت کر آئے تھے ، ڈاکٹر محمد سہیل طقوش : تاریخ العثمانیین ص 25
"کندز الپ "اپنے خاندان کی حوض دجلہ کی جانب ہجرت کے اگلے سال ہی فوت ہو گیا ، اس کے بعدا س خاندان کی سربراہی اس کے بیٹے سلیمان اور پھر اس کے بعد اس کے پوتے ارطغرل نے سنبھال لی ، جس نے اپنے خاندان کے ساتھ ارزینجان شہر کی جانب سفر کیا جو کہ سلاجقہ اور خوارزمیوں کے درمیان میدان جنگ تھا، وہاں ارطغرل عظیم سلجوقی مملکت کے بکھرنے کے بعد بننے والی مختلف سلجوق امارتوں میں سے ایک سلجوقی امارت سلطان قونیہ کے سلطان علاء الدین سلجوقی کی خدمت میں پیش ہوا ، اور خوارزمیوں کے خلاف جنگوں میں اس کی مدد کی ، جس نے بدلے میں اسے انقرۃ شہر کے قریب کچھ سرسبز علاقے جاگیر کے طور پر عطا کئے ، ارطغرل سلجوقیوں کا حلیف رہا ، یہاں تک کہ سلجوقی سلطان نے اناضول کے انتہائی شمال مغر ب میں بازنطینی مملکت کی سرحدوں کے قریب " اسکی شہر" کے گرد سکود کے علاقے میں جاگیر عطا کی ، اور ارطغرل کو "اوج بکی" یعنی سرحدوں کے محافظ کا لقب دیا، یہ لقب سلجوقی حکومت کی رسوم کے مطابق تھا جو کہ کسی بھی قبیلے کے سردار کو دیا جاتا تھا جس کے حکم کی تعظیم کی جاتی اور اس کے ماتحت کئی چھوٹے خاندان ہوتے ، اس طرح سے اس خاندان نے یہاں ترکمان امارتوں کے پڑوس میں اپنی نئی زندگی شروع کی ۔
اس طرح سے سلجوقیوں نے رومیوں کے خلاف ایک طاقتور حلیف پیدا کر لیا جو رومیوں کے خلاف جہاد میں شریک ہوتا ، یہ تعلق ارطغرل کی ساری زندگی قائم رہا ،یہاں تک کہ 699ھ/1299 ء میں اس کی وفات ہوئی تو اس کے بعد سیادت اس کے بیٹے عثمان نے سنبھالی جو کہ اپنے باپ کی بازنطینی رومیوں کے علاقوں میں توسیع کی سیاست پر گامزن رہا۔


مغربی اناطولیہ میں عثمانی امارت کا قیام :

عثمانی امارت دوسری ترکمان امارتوں کی طرح قائم ہوئی جنہوں نے سلاجقہ روم کے بطن سے جنم لیا ، اس کا آغاز ان کے سردار ارطغرل کی سلجوقی سلطان علاء الدین کیبقاد کی خدمات کے نتیجے میں ہوا۔(616 -634 ھ / 1219- 1237 م)
یہ امارت چھوٹے رقبہ پر پھیلی ہونے کے باوجود مندرجہ ذیل خوبیوں سے ممتاز تھی ۔
اس معروف تجارتی راستے کے قریب تھی جو بازنطینی علاقوں کو مشرق کے ان علاقوں سے ملاتا تھا جن پر منگولوں کا قبضہ تھا ۔
یہ واحد امارت تھی جس نے بازنطینی علاقوں کے لئے سرحدی محافظ کا کام کیا تھا جو ابھی تلک فتح نہیں ہوئے تھے ، اس خصوصیت کی بنا جہاد و جنگ کے شوقین ترکمان رضاکار ، درویش ، منگولوں کے ظلم وجبر سے بھاگے کاشت کار جنہیں اپنی زرعی سرگرمیوں کیلئے یہ زرخیز زمین مناسب معلوم ہوئی ان کی جانب کھنچے چلے آئے ۔
امارت کی وحدت کا بطور خاص خیال رکھنا ، بالخصوص انتقال اقتدار کے موقع پر ایک وارث کی جانب منتقلی ، اس سیاست نے دوسری ہمسایہ امارتوں کے مقابلے میں اہم خوبی کی شکل اختیار کی جو انتقال اقتدار کے وقت مختلف ٹکڑوں میں بٹ جایا کرتی تھیں ۔
حکومت میں مرکزیت کی سیاست کا نفاذ اس کے ساتھ ساتھ علاقے کی دوسری سیاسی اور معاشرتی قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد قائم کرنے کا اسلوب۔
چونکہ ارطغرل عالی ہمت شخص تھا ، چنانچہ اس نے سلجوقی سلطان کے عطا کردہ علاقے اس کے دئیے گئے لقب اور سرحد کی نگرانی اور حفاظت پر ہی اکتفا نہ کیا ؛ بلکہ سلطان کے نام سے اناضول میں بازنطینی علاقوں پر حملے شروع کر دئیے ، چنانچہ اسکی شہر پر قبضہ کیا ، اور اسے اپنی امارت میں شامل کر دیا ، اس طرح سے نصف صدی تک جو کہ اس نے اس سرحدی علاقے پر امیر کی طرح گزارے اپنی امارت کو توسیع دیتا رہا اور 680 ھ / 1281ء کو لگ بھگ 90 سال کی عمر میں وفات پائی ۔


عثمانی امارت کے محل وقوع کی اہمیت:

اپنے باپ کی وفات کے بعد عثمان نے منصب سیادت سنبھالا اور ان کی ہی جانب یہ مملکت منسوب ہوئی ، جو کہ حقیقی معنوں میں اس مملکت کے بانی تھے ، ان کے زمانے میں ہی عثمانی ترکوں کی عسکری اور سیاسی بنیادیں طے ہوئیں ، جبکہ دینی بنیاد وسطی اور مغربی ایشیا میں ترک ماحول میں پھیلے اسلامی اثرورسوخ کے باعث پہلے ہی مضبوطی سے قائم ہو چکی تھی ۔
عسکری پہلو سے امارت عثمانیہ کے محل وقوع کا اس کی کامیابی میں گہرا ہاتھ تھا ۔ سوغوت (سکود) شہر بلندی پر واقع تھا ، جس سے ایک تو اس کا دفاع آسان تھا ، اور دوسری جانب یہ قسطنطنیہ سے قونیہ جانے والے مرکزی راستے پر تھا ، اس مرکز کی اہمیت اس علاقے کی انتشار کی شکار سیاست میں اس مرکز کی اہمیت پنہاں تھی ، جس نے چھوٹی چھوٹی اکائیوں کو پہلے سے زیادہ اہمیت دے رکھی تھی ۔
بازنطینی مملکت کی ہمسائیگی نے جنگ و جہاد کی سرگرمیوں کو بڑھانے اور سلاجقہ روم کی مملکت کا تمام بازنطینی علاقوں کی فتح اور انھیں اسلامی مملکت میں شامل کرنے کا خواب پورا کرنے کا موقع فراہم کر رکھا تھا ، اس خواب کی تکمیل میں بازنطینی مملکت اور اس کے ارکان میں نمودار ہونے والی کمزوری نے مزید تحریض پیدا کی ، جس نے مغربی اناضول میں توسیع میں آسانی اور دردانیال عبور کر کے جنوب مشرقی یورپ میں داخلے کی راہ ہموار کی بجائے اس کے کہ اپنے مسلم ہمسایہ ریاستوں کی جانب توجہ کی جائے ، اس کے ساتھ ساتھ بازنطینی یورپ میں جنگوں میں مشغول تھے ، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس علاقے میں بازنطینی مملکت کی قوت کی کمزوری میں زیادہ مبالغہ آرائی نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے امارت عثمانیہ کی سٹریٹجک اہمیت پر منفی اثر پڑتا ہے ۔
اور یہ حقیقت ہے کہ کہ بازنطینیوں نے میخائل ہشتم اور اندرونیکوس دوم ( 681- 728 ھ / 1282- 1328ء) میں سے ہر ایک کے دور میں بیثینیا (Bithynia)کے علاقے میں ترکی یلغار کو روکنے کیلئے سرحدوں کو قلعہ بند کیا جو کہ دریائے سقاریا کو عبور کر کے اس علاقے کے شہروں تک آتے تھے ، لیکن یہ قلعہ بندیاں اس دریا کے پورے بہاؤ پر جنوب سے لے کر شمال اور مغرب تک عثمانی نقل وحرکت کے سامنے بے فائدہ تھیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی دو بڑی مملکتیں سلجوقی مملکت اور بازنطینی مملکت اپنی طویل باہمی کشمکش کے نتیجے میں کمزوری کی حالت کو پہنچ چکی تھیں ، پہلی مملکت کو تاتاری یلغار کا سامنا تھا اور دوسری مملکت کو لاطینی حملوں کا سامنا تھا جس نے اناضول میں سیاسی اور عسکری خلا پیدا کر رکھا تھا ، جس نے ایسی مملکت کے ظہور کا موقع فراہم کیا جو ان دونوں بکھرتی مملکتوں کے ملبے پر اس خلا کو پورا کر سکے ۔
جبکہ سیاسی پہلو سے عثمان نے اپنی امارت کو منظم کرنے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا ، کیونکہ اس کے عہد میں ہی عثمانیوں نے قبائلی خانہ بدوش نظام سے مستقل حکومتی نظام کی جانب جست لگائی تھی ، جس نے اس کے مرکز کو مضبوط کرنے اور تیزی سے ایک عظیم مملکت بننے میں مدد کی ، پھر اس امارت کے مرکز کا نصرانی دنیا کے ہمسائے میں اناضول کے شمال مغرب میں واقع ہونے نے عثمانیوں پر سرحدی امارت ہونے کی وجہ سے مخصوص سیاسی اورعسکری نہج اپنانا لازم کر دیا تھا ، اور اناضول کی تاریخ میں یہ معروف ہے کہ وہ امارتیں جو سرحدوں پر پروان چڑھیں ان میں اندرونی امارتوں کی نسبت پروان چڑھنے اور پھیلاؤ کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے ، سلجوقی سلطان علاء الدین کیبقاد سوم ( 696 – 701 ھ / 1296 – 1301 ء ) نے عثمان کی خدمات کا تہہ دل سے مشکور ہو ا ، اور اسے عثمان غازی ، عثمان پاشا اور حارس الحدود العالی الجاہ کا لقب عنایت کیا۔

اسکی شہر : عثمانیوں کا پہلا دارلحکومت:

یہ ترک شہر ہے جو کہ اناطولیہ ( اناضول ) کے شمال مغرب میں دریائے بورسک کے کنارے انقرۃ سے تقریبا 206 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے ۔ یہ اسی نام کے صوبے کا دارلحکومت بھی ہے ، اسکی شہر کا مطلب ہے قدیم شہر ، یہ Dorylaeum شہر کی جگہ پر قائم ہو ا جو عربوں کے ہاں دورلیہ (Dorylee) کے نام سے معروف تھا ، جسےاموی قائد عباس بن ولید نے 89 ھ / 708 ء میں فتح کیا ، اور حسن بن قحطبہ 161 ھ /778 ء میں یہاں پہنچے ۔
گیارہویں صدی عیسوی میں اسکی شہر سلجوقیوں اور صلیبیوں کے درمیان فیصلہ کن معرکوں کا میدان جنگ تھا ، 1175 ء میں شاہ مانویل کومنینوس (Manuel I komnenos) نے یوروک قبائل کو یہاں سے نکالنے کے بعد جو کہ شہر کے پڑوس میں مقیم تھے اسے قلعہ بند کیا ، مگر اگلے سال ہی سلجوقی سلطان قلج ارسلان کے دباؤ تلے وہ ان قلعہ بندیوں کو منہدم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ 13 ویں صدی کے دوسرے نصف میں ارطغرل بیگ عثمانیوں کے جدامجد نے اس کے ہمسائے میں اپنے قائم کئے ، 14 ویں صدی میں یہ شہر مملکت عثمانیہ کا پہلا دارلحکومت بن گیا ۔ 1877 کی جنگ کے بعد بلقان کے علاقوں سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے اس کی جانب ہجرت کی ، جس نے اس کی اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے اور باسیوں کی تعداد پر مثبت اثر ڈالا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران عثمانیوں نے بہت سے لبنانیوں کو یہاں ہجرت پر مجبور کیا ، جن کے مملکت کے ساتھ مخلص ہونے میں شک تھا اور خوف تھا کہ وہ مخالف تحریک بپا کر سکتے ہیں ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
عثمان اول
ابو الملوک سلطان غازی عثمان خان اول بن ارطغرل بن سلیمان شاہ قایوی ترکمانی

ولادت اور ابتدائی حالات:

عثمان 8 صفر 656ھ / 13 فروری 1258 ء کو پیدا ہوئے یہ وہی دن ہے جب منگول لشکر نے خلافت عباسیہ کے دارلحکومت بغداد کوتاراج کیا اور وہاں کے باسیوں کا قتل عام کیا۔عثمان کے ابتدائی زندگی کے بہت کم حالات ملتے ہیں لیکن اکثر مراجع سے پتا چلتا ہے کہ ان کی ولادت "سکود " شہر میں ہوئی جسے ان کے والد نے اپنی امارت کا دارلحکومت بنایا تھا ۔

عثمان کی زندگی کے اس مرحلہ کے بارے میں کم معلومات میسر آنے کی وجہ یہ کہ اس سلسلے میں سب سے قدیم اور معروف مصدر سمجھی جانے والی کتب ان کی وفات کے لگ بھگ سو سال بعدلکھی گئیں ، ان مصادر میں : دستان وتواریخ ملوک آل عثمان جو کہ بایزید اول کے زمانے کے مشہور شاعر "احمد بن خضر تاج الدین1334-1413 کی تصنیف ہے جو کہ احمدی کے لقب سے معروف تھے ۔اسی طرح ایک کتاب " بہجۃ التواریخ " جو کہ مورخ شکراللہ (1464ء)کی تصنیف ہے ، اسی طرح تاریخ آل عثمان درویش احمد عاشق باشازادہ (1400 -1484ء) کی تحریر کردہ ہے ۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ مصادر کے بھی اصلی نسخے باقی نہیں رہے بلکہ ان سے کئی سال بعد نقل تیار کی گئی اس لئے اس بات کا احتمال موجود ہے کہ ان میں سے کچھ معلومات ذکر ہونے سے رہ گئی ہوں ۔ جبکہ کچھ مورخین کے خیال میں ان کےاصلی نسخوں سے ہوبہو نقل تیار کر لی گئی تھی اس لئے ان نقول اوراصلی نسخوں میں کوئی فرق نہیں ۔
امام احمد بن سلیمان بن کمال پاشا الحنفی (940ھ/1534ء) "تاریخ آل عثمان " کے مصنف کے مطابق عثمان ارطغرل کی سب سے چھوٹی اولاد تھے ، ان کی ولادت "سکود " شہر میں ہوئی جس کے وہ حاکم تھے ، مگر ان کےمطابق ان کی ولادت 652 ھ کوئی ہوئی ، اسی طرح ان کے مطابق والدہ کا نام "خایمہ خاتون" تھا ، جبکہ بعض مصاد رکے مطابق یہ دادی کا نام تھا ۔
کم عمری میں ہی گھڑسواری تیراندازی اور کمند کے ذریعے شکار میں مہارت حاصل کی اور اپنے تمام بھائیوں سے اس میدان میں زیادہ ماہر تھے ۔ اسی طرح دین اسلام کی بنیادی باتیں سیکھیں ،مشائخ صوفیہ کے قریب ہوئے اور ان سے متاثر ہوئے جن میں سرفہرست ان کے استاد الشیخ " ادہ بالی " تھے عثمان کی شخصیت اور طرززندگی پر ان کا گہرا اثر تھا۔

عہد امارت:1281-1324ء
ارطغرل کی وفات کے بعد عثمان اپنے باپ کےجانشین بنےاور امارت اور قبیلہ"قایی"کے معاملات انھوں نے سنبھال لئے ، اس وقت ان کی عمر (راجح قول کے مطابق)لگ بھگ 24 سال تھی ۔
اکثر مورخین کے مطابق عثمان پرامن طریقے سے امارت حاصل نہ کر پائے، کہا جاتا ہے کہ حصول امارت کیلئے اسے اپنے اقرباء سے جنگ کرنا پڑی تاکہ سب سے پہلے انھیں اپنے راستے سے ہٹا سکیں ، جبکہ اس معرکہ کی نوعیت کیا تھی کس کے ساتھ بپا ہوا ، کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں اس سلسلے میں مختلف تاریخی روایات پائی جاتی ہیں جن میں مورخین نے اختلاف کیا ہے ۔اکثر روایات کے مطابق اس معرکہ کے فریقین میں دوسرا فریق عثمان کا چچا" دوندار غازی " تھا جسے تمام قبائل اپنے بھتیجے سے زیادہ امارت کا حقدار سمجھتے تھے ، جبکہ جنگجوؤں اور شہسواروں نے عثمان کی حمایت کی ۔ یہ بات صحیح طرح سے معلوم نہیں کہ کس طرح جنگ کی آگ بھڑکی ، یہ معرکہ کیسے جاری رہا ، اور اس نے کیا شکل اختیار کی ، لیکن بالآخر عثمان غالب آگئے اور ان کا چچا مارا گیا۔اس کے علاوہ بھی مختلف روایات مذکور ہیں ۔

عثمان کا خواب:

کچھ ترک روایات میں عہد عثمان کے ابتداء کا ایک واقعہ ملتا ہے جس پر قدیم مسلم مؤرخین ( بالخصوص ترک ) نے بہت تبصرے کئے ، جبکہ معاصر مؤرخین کا اتفاق ہے کہ یہ واقعہ مملکت عثمانیہ کے ظہور اور پیشقدمی کی حجت کے وسیلے اور اسے ایک روحانی ہالہ بخشنے کے سوا کچھ نہیں ، بالخصوص جبکہ خلفاء عثمان نے بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کیں ، کئی صدیوں کے افتراق کے بعد ممالک اسلامیہ کو متحد کرنے میں کامیاب ہوئے ، خلافت کا عملی احیاء کیا جبکہ اس سے قبل منگولوں کے ہاتھوں آخری عباسی خلیفہ "مستعصم باللہ " کے قتل کے بعد خلافت اور خلیفہ کی محض شکل ہی باقی رہی تھی جو ممالیک مصر کی حفاظت میں ہوتا تھا۔اسی طرح انھوں نے وہ کامیابی حاصل کی جو اس سے پہلے کسی مسلم حکمران خاندان کو نصیب نہ ہوسکی ، یہ کامیابی " فتح قسطنطنیہ " اور مشرقی یورپ میں ان کی فتوحات تھیں ۔

اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے :
غازی عثمان نے اپنے مشہور شیخ " ادہ بالی " سے درخواست کی کہ وہ اپنی بیٹی"مال خاتون" کی شادی اس سے کر دیں ، لیکن شیخ نے اسے اپنا داماد بنانے سے انکار کر دیا ، اس دوران ایک بار عثمان شیخ کے پاس مہمان تھے ، انھوں نے اپنے خواب میں دیکھا کہ ایک ہلال(پہلی رات کا چاند) ان کے میزبان (شیخ ادہ بالی) کے سینے سے نکل کر چودھویں رات کا چاند بن کر ان کے سینے میں آجاتاہے پھر ان کی پشت سے سے ایک درخت نکلتا ہے جو بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا سایہ ساری زمین کو ڈھانپ لیتا ہے ،اس کے نیچے 3 پہاڑ ہیں اور اس کی جڑوں سے چار دریا نکل رہے ہیں۔اور اس درخت کے پتے نیزوں اور تلواروں کی مانند ہوا انھیں قسطنطنیہ شہر کی جانب چلا کر لے جارہی ہے ۔
عثمان نے جب یہ خواب "ادہ بالی کو سنایا تو انھوں نے یہ تعبیر بیان کی کہ اس کے اور اس کے بیٹوں کی شان و شوکت میں اضافہ ہو گا ، چنانچہ انھوں نے اپنی بیٹی کی اس سے شادی کی اور ان کیلئے دعائے خیر کی ۔

عہد عثمانی کی ابتداء میں سیاسی تعلقات:

سیاسی میدان پر نمودار ہونے کے ساتھ ہی عثمان کو شیخ "ادہ بالی " کے ساتھ رشتہ مصاہرت کی وجہ سے زعیم جہاد کا لقب حاصل ہوگیا۔بہت سے مؤرخین کے نزدیک عثمان کی الشیخ ادہ بالی کی بیٹی سے شادی ان کا پہلا دانشمندانہ سیاسی قدم تھی ، کیونکہ یہ شیخ " فرقہ بابائیۃ " کے قائد تھے جو کہ "بابا اسحق "کی جانب منسوب تھا جس نے سلاجقہ روم کے خلاف لگ بھگ 1239 ءمیں انقلابی تحریک چلائی ،یہاں تک کہ انھیں گرفتار کر لیا گیا اور پھر 1241 ء میں پھانسی دے دی گئی ،عثمان اوراس جماعت کے قائد کے درمیان رشتہ مصاہرت عثمانیوں اور امارت کرمیان کے درمیان دشمنی کے تعلق کی وجہ بھی بیان کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ معروف ہے کہ "خاندان کرمیان "کو سلاجقہ کی جانب سے بابائی انقلابی تحریک کا قلع قمع کرنے کے بدلے میں انعام واکرام سے نوازا گیا۔عثمان نے اپنی عہد امارت کی ابتداء میں ہمسایوں کے ساتھ تعلقات میں سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا ، اس کے اتحاد اور معاہدے قبائلی و دینی خطوط بھی عبور کرتے رہے ، یقینا اس نے اس سلسلے میں اپنی جبلت اور اپنے مستقبل کے سیاسی خوابوں کو بھی مدنظر رکھا ہوگا ، مگر اس کے باوجود اس نے اپنے قائم کردہ خاندانی تعلقات کے مستقبل کے نتائج کا اندازہ لگانے میں کبھی لغزش نہیں کھائی ، اس نے سلاجقہ روم کی سیاسی ثقافت کی کا ہی اعادہ کیا جو کہ اس کی امارت کی ضروریات سے ہم آہنگ تھیں ، وہ ترک اسلامی اور بازنطینی رسوم کے درمیان ہم آہنگی میں اپنی ہمسایہ ترکمان امارتوں سے زیادہ ماہر تھا ۔


عثمان کے دورامارت میں ہمسایہ ترکمان امارتیں


عثمان کا اپنے ہمسایہ بازنطینی شہروں اور بستیوں کے حکام ساتھ رویہ ہمیشہ تعاون سے بھرپوررہا ، جس کی ایک مثال عثمان اور " ہرمنکایا" بستی کے حاکم"کوسہ میخائیل " کے درمیان دوستی کا رشتہ استوار ہوگیا ۔جہاں تک اس کا منگولوں ( جن کی اکثریت مغربی اناضول کے اطراف میں منتقل ہو چکی تھی ) اور کرمیانیوں کے ساتھ تعلق تھا تو وہ دشمنی پر مبنی تھا ، کیونکہ ترک عموما منگولوں کے خلاف دشمنی کے احساسات رکھتے تھے اور پھر کرمیانی راجح قول کے مطابق " اوغوز" نہیں تھے ، بہرحال یہ واضح ہے کہ منگول اور کرمیانیوں کے مابین امارت کے ابتداء میں شدید کشمکش جاری تھی۔

اسی طرح عثمان نے "الاخیان"یعنی الاخوان جماعت سے اتحاد قائم کرلیا،یہ مخیر حضرات کی جماعت تھی جو کافی مشہور تھی یہ جماعت مسلمانوں کی مالی مدد کرتی تھی ، ان کی میزبانی کے فرائض سرانجام دیتی تھی اور غازیان اسلام کی خدمت کیلئے لشکروں کا ساتھ دیتی تھی ۔اس جماعت کے اکثر اراکین کاتعلق بڑے بڑے تاجروں سے تھا ۔جنہوں نے اپنی دولت اسلامی خدمات کیلئے وقف کررکھی تھی۔ سماجی کام مثلا مساجد ، خانقاہوں ، دوکانوں اورہوٹلوں کی تعمیر ، عامۃ الناس میں ان لوگوں کو بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ اس جماعت میں ممتا زعلما ء بھی شامل تھے جو اسلامی تہذہب کی ترویج کا فریضہ سرانجام دیتے تھے اور لوگوں کے دلوں میں تمسک بالدین کا جذبہ بیدار کرتے تھے ۔

اسی طرح اناضول آنے والے ترکمان قبائل کے ساتھ اتحاد قائم کیا جنہیں اس سرحدی علاقوں کیلئے بالعموم اور عثمانی امارت کیلئے بالخصوص دھڑکتے قلب کی سی حیثیت حاصل تھی ، کیونکہ یہ شہروں میں مستقل بسنے والے ترک باشندوں سے زیادہ سرگرم اور فعال رہتے تھے ۔ اسی طرح "المیاندر" اور " بفلاغونیۃ" کے علاقے میں بسنے والے بہت سے ترکمانوں نے اس کی سپاہ میں شامل ہوناپسند کیا ۔ یہ اچھے جنگجو ترک تھے جو جہاد وقتال کے شوقین تھے ۔ ان میں سےاکثر طریقت کے مختلف شیوخ میں سے ایک یا کسی تکیہ کی جانب منسوب تھے جہاں سے انھوں نے شریعت اسلامیہ کی بنیادی باتوں کے ساتھ ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کے معانی سیکھے ، مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ترکمان بھی تھے جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر دین اسلام کے ساتھ اتنی پختہ وابستگی نہ رکھتے تھے ۔چنانچہ عثمان نے مختلف شیوخ اور درویشوں کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ ان کی اسلامی تربیت کریں اور انھیں اسلامی اقدار میں رنگیں جو کہ داراسلام کی توسیع اور نئے علاقوں کی فتح کیلئے اہم کردار ادا کرسکیں ۔

درحقیقت یہ شیوخ اور درویش "اولیاء خراسان " کے طریقوں کی ترویج کیلئے انتہائی پرجوش تھے ، چنانچہ انھوں نے نئے آنے والے لوگوں کی خوشدلی سے تربیت کی ۔

جبکہ ترتیب اقتدار کے اعتبار سے عثمان ابتداء میں" قسطمونی" میں بنو شیبان کے امیر کے ماتحت تھا ، پھر "کوتاہیہ" میں امیر کرمیان کے واسطہ سے سلجوقی سلطان کے جو کہ تبریز میں منگول خان کے تابع تھا ۔درحقیقت سلجوقی سلطان اس دورانئے میں اپنی سلطنت پر عملی تسلط کھو چکا تھا اورمنگول خان اناضول میں مقامی حکمرانوں کے ذریعے معاملات چلاتا تھا ۔ سرحدی امراء پر لازم تھا ( جس میں عثمان بھی شامل تھا ) کہ منگول خان کے مطالبہ پر اپنے فوجیوں کو روانہ کریں ۔

بہرحال ائمہ مساجد منابرپر پہلے مصر میں موجود عباسی خلیفہ کا ذکر کرتے ، پھر تبریزمیں موجود خان ، پھر قونیہ میں موجود سلطان اور پھر مقامی حاکم کا تذکرہ کرتے ۔
امارت عثمانیہ کا پھیلاؤ
ابتدائی غزوات اور قلعہ قرہ جہ حصار

امارت سنبھالنے کے بعد عثمان کیلئے دو محاذ منتظر تھے : بازنطینی محاذ ، اور ترکمانی امارتوں کا محاذ ، جنہوں نے اس کے خلاف محاذ آرائی کھول دی خاص طور پر امارہ کرمیانیۃ ۔
لیکن عثمان نے اپنی امارت بازنطینی علاقوں میں وسعت دینے کو ترجیح دی ، اس ابتدائی مرحلہ سے ہی امارت عثمانی کا بنیادی ہدف اس سیاست کو اپنانا تھا جو" دیار روم " کے خلاف غزوہ وجہاد کے مفہوم پر قائم تھی ۔
کچھ روایا ت میں اشارہ ملتا ہے کہ عثمان کی رومیوں کے خلاف پہلی جنگ اس ہزیمت کا انتقام تھی جو اسے "ارمنی بلی" 683 یا 684 ھ بمطابق 1284 یا 1285 ء میں اٹھانی پڑی ۔ جب بازنطینیوں نے بورصہ کے عامل " تکفور " کی قیادت میں عثمان کیلئے گھات لگائی تھی ۔ باوجودیکہ عثمان کو اپنے جاسوسوں کی مدد سے اس گھات کا علم ہوگیا ، لیکن اس نے بانطینیوں کے خلاف جنگ کو ترجیح دی ، جس میں اسے ہزیمت اٹھا نی پڑی اور مجبور ا پسپا ہونا پڑا ، اس ہزیمت میں اس نے اپنے کچھ افراد بھی کھوئے جن میں" صاروخان بیگ خجا" اس کا بھتیجا (عثمان کے بھائی "ساوجی بیگ " کا بیٹا)بھی شامل تھا ۔اس وجہ سے عثمان نے 685 ھ / 1286 ء کو 300 جنگجوؤں کے ہمراہ قلعہ "قولاجہ حصار" کا رخ کیا جو کہ اینہ گول شہر سے دو فرسخ کے فاصلے پر جبل "امیرداغ "پر واقع تھا ، رات کے وقت اس قلعہ پر حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا ۔
اس طرح سے عثمانی امارت شمال کی جانب بحیرہ ازنیق کی جانب وسعت اختیار کر گئی ، قولاجہ حصار میں عثمانیوں کی اس فتح نے شہر پر مقرر رومی عامل کو بھڑکا دیا ، وہ اس بات پر راضی نہ تھا کہ ایک سرحدی مسلم امیر کے تابع اور ماتحت ہو جائے ، چنانچہ اس نے " قرہ جہ حصار " قلعہ پر متعین عامل کے ساتھ اتحاد قائم کر لی،ان دونوں کے درمیان مسلمانوں کے خلاف قتال اور مسلمانوں کی جانب سے چھینی گئی بازنطینی سرزمین کو واپس لینے پر اتفاق طے پا گیا ، چنانچہ "اکزجہ " کے مقام پر جو کہ "بیلہ جک " اور "اینہ گول " کے درمیان واقع ہے فریقین کا ٹکراؤ ہوا ، خوں ریز جنگ چھڑی جس میں" ساوجی بیگ " عثمان کا بھائی قتل ہوا ، لیکن جنگ کا نتیجہ مسلمانوں کی فتح کی صورت میں نکلا ، مسلمان " قرہ جہ حصار " قلعہ میں داخل ہوگئے ، "بیلاطس " بازنطینی سپاہ کا قائد قتل ہوا ، بیان کیا جاتا ہے کہ عثمانیوں نے پہلی بار اس شہر میں کنیسا کو مسجد میں تبدیل کیا ، جہاں پہلا خطبہ پڑھا گیا ، اور پہلا قاضی اور صوباشی حاکم شہر متعین کیا گیا ۔ مؤرخین نے اس شہر کی فتح کی تاریخ میں اختلا ف کیا ہے ، بہرحال یہ شہر 685ھ / 1286 ء سے 691 ھ / 1291 کے درمیان فتح ہوا۔
عثمان نے اس شہر کو بلاد روم کی جانب پیشقدمی کیلئے بنیادی مرکز قرار دیا ، اپنے نام کا خطبہ پڑھنے کا حکم صادر کیا ، یہ سیادت وسلطنت کے مظاہر میں سے پہلا مظہر تھا ۔
عثمان کی حاصل کردہ یہ کامیابی اس وقت تک کی سب سے بڑی کامیابی تھی ، چنانچہ سلجوقی سلطان " علاء الدین کیبقاد سوم " نے سلجوقیوں اور اسلام کے نام پر عثمان کی حاصل کر دہ ان کامیابیوں کی تہہ دل سے قدر دانی کی ، اور عثمان کو "عثمان غازی"،" حارس الحدود عالی الجاہ" کا لقب عطا کیا ، اسی طرح اسے "بیگ" کا لقب بھی عطا کیا ۔" اسکی شہر "اور" اینونو" کے گرداس کی فتح کردہ تمام اراضی اسے سونپ دیں ، اور خصوصی حکم جاری کر کے اسے ہر قسم کے ٹیکس سے معاف کیا ، اس کی جانب بہت سے تحائف بھیجے جو اس کی امارت اور سلطان کے نزدیک اس کے بلند مرتبہ ہونے کی دلیل تھے ، جس میں طلائی جنگی پرچم ، مھتر ( بڑا طبل ) طوغ( امراء کے سر پر رکھی جانے والی مخصوص کلاہ) سونے کی تلوار ، چاندی کی زین اور ایک لاکھ درہم شامل تھے ۔یہ تحائف سلجوقی وزیر" عبدالعزیز" اور" قرہ جہ بالابان چاوش" اور" آق تیمور" لے کر آئے ، اسی طرح سرکاری فرمان کے مطابق سلجوقی سلطان کی جانب سے عثمان کو اس کے ماتحت علاقوں میں اپنے نام سے خطبہ دینے کی اجازت تھی ، اسی طرح اسے اپنے نام کا سکہ ڈھالنے کی بھی اجاز ت عطا کی ۔چنانچہ عثمان عملی طور پر ایک سلطان بن گیا ، جس میں محض سلطان کے لقب کی کمی تھی ۔






بیلہ جک ، یار حصار اور اینہ کول قلعوں کی فتح :

قلعہ " قرہ جہ حصار " کی فتح کے بعد عثمان نے اپنی سپاہ کے ہمراہ شمال صقاریا کا رخ کیا، اور وہاں دو قلعوں گوینوک اور "ینیجہ طاراقلی " پر حملہ کیا ، اور مال غنیمت سے واپس لوٹا۔ اس دوران میں عثمانی روایات کے مطابق عثمان کو اپنے رومی دوست " کوسہ میخائیل " ہرمنکایا کے حاکم سے اطلاع ملی کہ "بیلہ جک "اور "یار حصار "قلعوں کے حاکم کی جانب سے اس کے خلاف سازش تیار کی گئی ہے جس میں اسے بیلہ جک قلعہ میں اپنے بیٹے کی محفل شادی میں مدعو کر کے گرفتار اور پھر قتل کیا جائے گا ۔ عثمان نے یہ سنتے ہی ایک حربی چال تیار کی ، اور اپنے 40 شہسوار عورتوں کے لباس میں قلعہ کی جانب بھیجے ، یہ سوار جب بیلہ جک میں داخل ہوئے تو انھوں نے اس شادی میں مدعو تمام لوگوں کو گرفتار کر لیا اور قلعہ فتح کر لیا ۔
قابل ذکر بات یہ کہ اس واقعہ میں ایک عورت قید ہوئی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ " تکفور " کی بیٹی تھی ، جس کا نام " ہولوفیرا" تھا جسے بعد میں نیلوفر خاتون کا نام دیا گیا ، عثمان نے اس کا انتخاب اپنے بیٹے " اورخان " کیلئے کیا ، جس نے اس سے شادی کی اور اس سے اس کابیٹا " مراد پیدا ہوا۔ اس طرح سے یہ پہلی اجنبی خاتون تھی جو کہ آل عثمان کےحرم میں داخل ہوئی ۔ عثمان نے ان دونوں قلعوں کی فتح کے بعد"اینہ گول "کے حاکم کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جس نے پہلے بھی " قرہ جہ حصار " کے حاکم کے ساتھ مل کر عثمانیوں کے خلاف اتحاد قائم کیا تھا ۔ تاکہ وہ اناطولیہ میں موجود باقی بازنطنینی امارتوں میں سے کسی سےاتحاد قائم نہ کرسکے ۔ اس کیلئے اس نے " طورغود الپ " کی قیادت میں لشکر بھیجا تاکہ اینہ گول کا محاصرہ کر سکے ، اور پھر خود بھی ان کے ساتھ آ شامل ہوا ۔ اور اس شہر کو فتح کیا ، ایک روایت کے مطابق عثمان نے یہ قلعہ " طورغود الپ " کو عطا کیا ، اسی لیے اس شہر کے پہلے مسلم امیر کی نسبت سے اس کا نام بعد میں طورغود رکھا گیا۔

سلاجقہ روم کا سقوط اور امارت عثمانیہ کی خودمختاری :
عثمان نے اپنی متعدد فتوحات کے بعد اسے دو محوروں کی جانب پھیلانے کی کوشش شروع کر دی ، جس کا مقصد جن بازنطینی شہروں کو وہ فتح کرنا چاہتا تھا انھیں کاٹ کر الگ کرنا تھا ۔ چنانچہ اس نے مشرقی جانب سے ازنیق شہر کو جانے والا راستہ کاٹ دیا ، مغرب میں لوبادیون ۔ اولوباط- اور" اورانوس "کی جانب پیش قدمی کی اور پھر " اولوطاغ" کے پہاڑی سلسلے سے شمال سے جنوب کی جانب چکر کاٹ کر بورصہ کے مضبوط قلعہ بند شہر سے بچتے ہوئے جنوب مشرق میں اپنے مسلم ہمسایوں سے آملا ۔اس دوران بازنطینی سلطنت اپنے دارلحکومت اور بلقان میں فتن اور ہنگاموں کو بجھانے اور اناطولیہ میں اپنے دوسرے طاقتور حریفوں جیسا کہ قرمانیون اور ساحلی امارتوں کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف تھی ، چنانچہ ایک لمبا عرصہ تک وہ عثمان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرسکیں ، جس نے اپنی امارت کو بازنطینی سرزمین میں توسیع دینے کیلئے آزاد پایا ۔

اس دوران سلجوقی سلطنت اپنے آخری دن گزار رہی تھی ، ترکمان امارتوں پر اس کا اثرورسوخ دن بدن کمزور ہوتا جارہا تھا ، ایل خانی منگول خاقان "محمود غازان "سلجوق سلطان "علاء الدین کیبقاد"پر شدید غضبناک تھا ، کیونکہ اس نے اپنے پایہ تخت کو سابق سلطان " غیاث الدین مسعود بن کیکاؤس " کے ساتھیوں اور حامیوں سے بڑی سختی سے صاف کرنا شروع کیا تھا ، جس کی وجہ سے سلجوق عسکری اور سیاسی حلقوں میں اس کی مقبولیت کم ہوتی جار ہی تھی ۔ چنانچہ خاقان نے اسے تبریز میں طلب کیا جہاں کچھ روایات کے مطابق اسے قتل کر دیا گیا اور اس کی جگہ سلطان غیاث الدین مسعود کو بادشاہ مقرر کیا گیا ۔دوسری روایت میں تاتاریوں اور منگولوں کے جتھوں نے 699 ھ / 1300 ء کو ایشیاء کوچک کے علاقوں پر حملہ کر دیا ، اور سلطان " علاء الدین کیبقاد" اپنے دارلحکومت قونیہ میں قتل کر دیا گیا ۔اسی طرح کہا جاتا ہے کہ غیاث الدین مسعود نے خود اسے حکومت حاصل کرنے کیلئے قتل کردیا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ علاء الدین کیبقاد اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا اور بازنطینی بادشاہ کے ہاں اس کے دارلحکومت میں اس نے پناہ لی یہاں تک کہ وہاں اسے موت نے آلیا ۔
بہرحال " غیاث الدین مسعود " کا دوراقتدار بہت مختصر مدت کیلئے تھا ، یعنی 4 سے 6 سال کے دوران ، اس کی وفات کے ساتھ ہی بالآخر سلاجقہ روم کی سلطنت کا اختتام ہوا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منگولوں نے اسے قتل کر ڈالا اور اس کی مملکت کا خاتمہ کر کے ترکمان امارتوں کیلئے خود مختاری کا دروازہ کھول دیا ۔
سلجوقی سلطنت کے زوال نے عثمان کیلئے اپنے زیر تسلط علاقے میں خود مختاری کا دروازہ کھول دیا ، اور اس نے " پادشاہ آل عثمان " کا لقب اختیار کیا ۔ اور اپنا مقصد رومی قلعوں اور محاذوں کو دیار اسلام میں شامل کرنا بنا لیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ" سلطان علاء الدین سلجوقی " کی قونیہ میں وفات کے بعد، چونکہ اس کی اولاد نہ تھی ، تمام وزراء اور اور معززین اکٹھے ہوئے اور انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب سلطنت سنبھالنےکی لیاقت عثمان غازی کے علاوہ اور کسی میں نہیں ، چنانچہ انھوں نے اسے اس کی پیشکش کی اور عثمان نے ان کی درخواست کو قبول کیا اور اس تاریخ سے وہ سلطان بن گیا۔
اکثر عثمانی روایا ت میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ عثمان نے خود مختار امارت 687 ھ / 1299ء میں قائم کی ، جبکہ بہت سے معاصر مؤرخین کے خیال میں یہ تاریخ صحیح نہیں ، کیونکہ سلاجقہ روم کی سلطنت سلطان غیاث الدین مسعود کی 1306 ء میں وفات پر ہی ختم ہوئی ، اور شایدعثمانی تاریخ میں جس خودمختاری کا تذکرہ ہے اس سے مراد یہ کہ سلطنت انتظامی کمزوریوں کے باعث سرحدی امارتوں پر اپنا تسلط کھو چکی تھی۔
امارت عثمانیہ کو عملی خود مختاری منگول خان ابو سعید بہادر خان کی 736 ھ / 1335 ء میں وفات کے بعد ہی حاصل ہوئی جس نے اپنا جانشین مقرر نہ کیا اور اس کی وفات کے بعد منگول مملکت میں اندرونی تنازعات پیدا ہو گئے جس کے نتیجے میں اناضول کی امارتوں کو عملی خودمختاری حاصل ہوئی ۔

معرکہ بافیوس:
عثمان نے امارت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے ،اندرونی معاملات سے فراغت اور مفتوحہ علاقوں کے نظم ونسق درست کرنے کے بعد ایشیاء کوچک میں تمام رومی امراء کی جانب پیغام بھیجا اور انھیں تین چیزوں میں اختیار دیا : اسلام ، جزیہ ، یا جنگ ۔ چنانچہ ان میں سے کچھ نے اسلام قبول کر لیا جن میں سرفہرست " کوسہ میخائیل " عثمان کا قدیم دوست جو کہ اس کے خصوصی مقربین میں شامل رہااو ر اس کی اولاد عثمانی تاریخ میں میخائیل اوغلو کےنام سے معروف ہے ۔ کچھ نے خراج دینا قبول کیا ، اور باقیوں نے جنگ کا فیصلہ کیا۔ بازنطینی امراء کیلئے واضح ہو گیا کہ عثمان " بورصہ " کا گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے جو کہ اناضول میں بازنطینیوں کا سب سے مضبوط شہر تھا ،تاکہ اس پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کیا جاسکے ۔چنانچہ انھوں نے مل کر700 ھ/ 1301ء میں عثمان کے خلاف جنگ کیلئے ایک صلیبی اتحادقائم کرنے کی آواز اٹھائی،جس میں بورصہ ، مادانوس ، ادرھنوس ، کتہ ، کستلہ کے امراء شامل تھے۔
عثمانیوں نے " نیقومیڈیہ " شہر کا گھیراؤ تنگ کیا اور وہاں مضافات میں واقع گندم کے کھیتوں پر قبضہ کر لیا ، جس کی وجہ سے بازنطینی انتہائی اہم معاشی ذریعہ سے محروم ہو گئے ، رومیوں نے اس پکار پر لبیک کہا ، اور اناضول میں موجود رومی امارتوں نے اس ابھرتی مملکت کے خاتمہ کیلئے اتحاد قائم کر لیا ، 1302 ء کی بہار میں بازنطینی قیصر "میخائیل نہم" نے اپنی سپاہ کے ساتھ پیش قدمی شروع کی ، کیا یہاں تک کہ مگنیسیا کے جنوبی علاقے تک پہنچا اس کا ارادہ عثمانیوں کے ساتھ جنگ کر کے انھیں سرحدی علاقوں سے نکال باہر کرنے کا تھا ، لیکن اس کے لشکر کی قیادت نے عثمانیوں کی تیاریوں اور اعلیٰ حربی صلاحیت سے متعلق موصول ہونے والی اطلاعات کے پیش نظر اسے روک دیا ۔

درحقیقت عثمانیوں نے بازنطینیوں کا عظیم الشان لشکر دیکھ ان سے جنگ سے پہلو تہی اختیار کی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نےبازنطینی چھوٹے قصبوں اور چوکیوں پر اپنے حملے جاری رکھے اور یکے بعد دیگرے ان پر قبضہ کرتے چلے گئے ، یہاں تک انھوں نے بازنطینی قیصرکو گھیرے میں لے لیا اور مگنیسیا میں بالکل کاٹ کر رکھ دیا ، چنانچہ اس کا لشکر جنگ کے بغیر ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ، اور رومی پسپائی اختیار کر کے قسطنطنیہ لوٹ آئے ، جبکہ ان میں سے کچھ نے وہاں باقی رہنے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر آخر وقت تک مسلمانوں کے خلاف دفاع کو ترجیح دی ۔

رومی بادشاہ کی جنگ کیلئے یہ پیشقدمی سرحدی مسلم شہروں اور بستیوں کیلئے تنبیہ اور یاددہانی تھی کہ ان کا وجود اس وقت تک خطرے میں رہے گا جب تلک وہ ایک طاقتور قائد کے پرچم تلے اتحاد قائم نہیں کرلیتے جو سلاجقہ روم کی سلطنت کے زوال کے بعد بازنطینی سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔جب اس علاقے کے باسیوں نے عثمان میں اعلیٰ پائے کی قائدانہ وعسکری صلاحیتیں ، دین اسلام کیلئے اخلاص دیکھا تو وہ اس کی مدد اور اس کے ساتھ اسلامی مملکت کی بنیادیں مضبوط کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے جو ان کے بکھرے ہوئے علاقوں کو متحد رکھ سکے اور بازنطینیوں کے مقابلے میں ان کیلئے حفاظتی دیوار کا کام دے ۔اسی طرح عثمان کے ساتھ کچھ رومی سالار بھی آملے جنہوں نے اپنے علاقوں میں واپس جانے پر اس کے ماتحت کام کرنے کو ترجیح دی ، اسی طرح بہت سی اسلامی جماعتیں عثمانیوں کے پرچم تلے آجمع ہوئیں ، جیسا کہ" غزاۃ الروم "(رومی غازی)کی جماعت ، یہ ایک اسلامی جماعت تھی جو کہ عباسی خلافت کے زمانہ سے ہی بازنطینی مملکت کے ساتھ ملنے والی سرحد پر پہرہ دیتی اور مسلمانوں کا ان کے حملوں سے دفاع کرتی ۔اس ذمہ داری نے رومیوں کے خلاف جنگ مٰیں ان کے تجربات میں اضافہ کردیا تھا ۔ اسی طرح "الاخیان کے سالار جن میں : غازی عبدالرحمٰن ، آقجہ خجا ، قونور الپ، طورغود الپ، حسن الپ ، صالتوق الپ ، آیکود الپ، آق تیمور ،قرہ مرسل ، قرہ تکین ، صامصا چاویش ، الشیخ محمود اور ان کے علاوہ دیگر "اخیان "قائدین اور قدیم جنگجو جنہوں نے عثمان اور اس سے قبل اس کے والد ارطغرل کی زیر قیادت معرکے لڑے تھے ۔اسی طرح ان کے ساتھ "حاجیات روم " یعنی ارض روم کے حجاج کی جماعت بھی آملی ، یہ علم شرعی اور مسلمانوں میں دینی امور کی فقہ پھیلانے کا فریضہ انجام دینے والی جماعت تھی ، جن کا ایک بڑا مقصد مجاہدین کی معاونت کرنا تھا ۔


اس دورانئے میں بازنطینی قیصر " اندرونیقوس دوم " نے اپنے بیٹے "میخائیل " کی نیقومیدیہ میں مسلمانوں کےخلاف دفاع میں ناکامی کے بعد لشکر اکٹھا کرنا شروع کیا ۔اور مختلف لشکر بھیجے جن میں مختلف دستے تھے اور اس میں موجود سپاہ کی تعداد 2000 تک پہنچتی ہے ، ان میں سے نصف تقریبا آلانیون کے کرائے کے سپاہی تھے ، جن کی قیادت " جرجس موزالون " کر رہا تھا ، انھوں نے آبنائے باسفور عبور کیا یہاں تک کہ بافیوس وادی جا پہنچے ۔ فریقین 1ذوالحجہ 701 ھ /27 جولائی 1302 ءایک کھلی وادی میں آپس میں ٹکرائے ، عثمانی لشکر عثمان کے زیر قیادت 5000 سواروں پر مشتمل تھا۔ جنگ چھڑنے کے بعد جلد ہی رومیوں کی پہلی دفاع لائن میں شگاف پیدا ہوگیا مقدمۃ الجیش کو ہزیمت ہوئی اور موزلان نے اپنی سپاہ کے ساتھ پس قدمی اختیارکرتے ہوئے "نیقومیدیہ " میں پناہ لی ، اس معرکہ کا اسلامی تاریخ میں بالعموم اور عثمانی تاریخ میں بالخصوص گہرا اثر ہے ۔ کیونکہ اکثر مؤرخین کے نزدیک اس دن کی عثمانی فتح نے " مملکت عثمانیہ " کی عملی بنیاد رکھی ، پروفیسر" خلیل اینالجک" کہتے ہیں : کہ اس معرکہ نے امارت عثمانیہ کو مستقل ، عملی کردار ادا کرنے والی اور اپنی بقاء کی حفاظت کرنے والی مملکت کی خوبیاں اور خصوصیات عطا کیں ، اور اپنی ہمسایہ ریاستوں کیلئے یہ واضح کر دیا کہ اس کا لشکر سب سے بڑے دشمن کا سامنا کرنے اور اسے ہزیمت دینے پر قادر ہے ۔ اسی طرح اس فتح نے عثمان کو کچھ عرصہ بعد ازنیق اور نیقیہ شہر پر تسلط حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ،اور بورصہ شہر کی فتح کی راہ ہموار ہوئی۔

بازنطینی سلطنت اور منگولوں کےمابین قربت:
اس فتح کے بعد عثمان نے مفتوحہ علاقوں کو اپنے اقارب اور لشکر کی قیادت پر تقسیم کیا تاکہ نئے علاقوں پر اسلامی تسلط مضبوط اور رومیوں کو وہاں گھسنے سے روکا جا سکے ۔ چنانچہ اسکی شہر اپنے بھائی گندز بیگ کو ، قرہ جہ حصار اپنے بیٹے " اور خان " کو ،یار حصار " حسن الپ " کو " اینہ گول" طور غود الپ کو عطا کیا ۔ اس دوران رومیوں کی بہت بڑی تعداد ایشیاء کوچک کے علاقوں کو چھوڑ کر قسطنطنیہ اور یورپ میں موجود بازنطینی علاقوں کی جانب کوچ کر گئی ، عثمانیوں نے انھیں امان عطا کی اور یہ اختیار دیا تھا کہ چاہیں تو اسلامی مملکت کے سائے تلے رہ لیں یا اپنے بھائیوں سے جا ملیں ، چنانچہ بہت بڑی تعداد نے ایشیاء کوچک چھوڑنے کو ترجیح دی جبکہ کچھ لوگ وہیں ٹھہرے رہے ۔ بازنطینی ایمپائر نے اس علاقے کی تیزی سے بدلتی ڈیموگرافی صورتحال کو دیکھ کر عثمانی پھیلاؤ کا دباؤ اور خطرے کی آہٹ کو محسوس کیا جو ان کی آنکھوں کے سامنے پل رہا تھا اور وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ اس نے عثمانی سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی اور جب براہ راست جنگ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، اور اس کے ساتھ ساتھ اسے بلقان کی مشکلات کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت تھی ، تو اس نے اس مقصد کے حصول کیلئے سب سے بہترین ذریعہ منگولوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے میں پایا جوکہ مشرقی اور وسطی اناضول پر قابض تھے ، چنانچہ اس نے خاقان محمود غازان کی جانب سفارت بھیجی جس میں اسے شادی کے ذریعے خاندانی قرابت اور منگول اور بازنطینی مملکت کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی پیشکش کی۔

درحقیقت اس دورانئے میں منگولوں اور ممالیک کے مابین حالات انتہائی کشیدہ تھے ، ان کشیدہ حالات نے بازنطینیوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر زیادہ توجہ دینے کا موقع فراہم نہ کیا ۔محمود غازان اس وقت دمشق اور شام کے باقی علاقوں پر دوبارہ سے چڑھائی کی تیاری کر رہاتھا ، اس سے پہلے اس نے ایک سال قبل 699ھ /1299 ء میں شام پر حملہ کیا تھا جس میں بہت سے اہل شام کو قتل کیا اور مملوک لشکر کو حمص کے قریب معرکہ وادی الخزاندار میں بھیانک شکست سے دوچار کیا ، ممالیک منگولوں سے اس ہزیمت کا انتقام لینے اور اپنی سابقہ ہزیمت کے عار کو مٹانے کی تیاری میں مصروف تھے ۔
http://s484.photobucket.com/user/badartipu148/media/usman_zps1335jg8t.jpg.html


چنانچہ 2 رمضان 702 ھ /20 اپریل 1303 ء کو منگول اور ممالیک دمشق کے قریب ایک خوں ریز معرکہ میں ایک دوسرے سے ٹکرائے ، یہ جنگ معرکہ شقحب یا معرکہ مرج الصفر کے نام سے معروف ہے ۔ جس میں ممالیک کو فتح ہوئی اور منگولوں کو بھاری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ، اس ہزیمت کے منگول سیاسی و عسکری حلقوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور اس ہزیمت نے غازان کو کوئی بھی نیا دروازہ کھولنے سے باز رکھا ، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس شکست کا صدمہ اسے اندر سے بری طرح کھا گیا ، یہاں تک کہ وہ سخت مریض ہو گیا اور اس کی ناک سے خون بہنے لگا ، اپنے لشکر کے سالاروں پر شدید غضبناک ہوا ، اور ان میں سے کچھ کی سزائے موت اور کچھ کو ذلیل کرنے کا حکم دیا ۔ اس شکست کے بعد زیادہ عرصہ تک زندہ نہ رہا ، اور 6 شوال 703 ھ /11 مئی 1304ء کو فوت ہوگیا ، جس سے بازنطینی منگول اتحاد کی امیدیں دم توڑ گئیں اور عثمانیوں کو اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھنے کا موقع میسر رہا۔




پھر ینی شہر حملہ کیا اور وہاں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور اسے اپنا عارضی دارلحکومت بنایا ، اسے قلعہ بند کیا ، فصیلوں کو مضبوط کیا اور پھر بازنطینی شہروں کی جانب مہمات روانہ کرنا شروع کیں ، اور بہت سے قلعوں کو فتح کیا جن میں : لفکہ ، آق حصار ، قوج حصار، حصن کتہ ، حصن کبوۃ ،حصن یکیجہ طرا قلوا، حصن تکرر بیکاری ، قلعہ مرمرۃ جق ، قلعہ کوبری حصار شامل ہیں ۔درحقیقت مذکور قلعوں کی فتح ینی شہر کے گرد حفاظتی دیوار قائم کرنا تھی ، اس طرح سے عثمان نے دارلحکومت کو بہت سے قلعوں سے گھیر لیا تاکہ کسی بھی خطرہ کو روکا جا سکے ۔ اسی طرح بحرمرمرۃ میں خلیج مودانیا کے قریب واقع جزیرۃ " کالولیمنی" کو فتح کیا ، جس سے عثمانیوں کا بورصہ اور قسطنطنیہ کو ملانے والے آبی راستے پر تسلط قائم ہو گیا، اس کے ساتھ بورصہ اور ازنیق کے درمیان قلعہ "تریکوکا" پر قبضہ ہو گیا جو کہ ازنیق اور ازمیت کے درمیان آمدورفت کے راستوں کی نگرانی کا کام کرتا تھا ، اس طرح سے عثمانی آبنائے باسفورس تک پھیل گئے ۔ فتوحات کے اس سلسلے نے بورصہ کے بازنطینی حاکم کو قلق میں مبتلا کردیا ، چنانچہ اس نے اپنی سپاہ کو اکٹھا کیا ، اوراترانوس ، مادنوس تکہ ، کستل ، کے امراء کے ساتھ اتحاد قائم کر کے عثمان کے خلاف جنگ کیلئے نکلے ، ایک خوں ریز جنگ میں جسے " دینباز یا دیمباز کے نام سے یا د کیا جاتا ہے دونوں فریق آپس میں ٹکرائے ، جس میں عثمانی فتح یاب ہوئے اور انھوں نے کستل اور مادنوس کو فتح کی ا، ان دونوں کے امراء معرکہ میں قتل ہوئے اسی طرح امیر "کتہ " گرفتار ہوا ، جس کے انجام کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں ، جن میں سے ایک کے مطابق اسے اس کے قلعہ کے سامنے سزائے موت دی گئی جس کے نتیجے میں اس کے حفاظتی دستے نے ہتھیار ڈال دئیے ۔



بورصہ کی فتح:
اس کے بعد عثمان نے بڑے الگ تھلگ شہروں پرتوجہ مرکوز کی اور اس کے خیال میں ابتداء بورصہ شہر سے کی جانی چاہئے ، چنانچہ اس نے اس کے گرد اس سے بلند دو قلعے تعمیر کئے جنہوں نے اس کا محاصرہ کر لیا ، ( ایک روایت کے مطابق تین قلعے ) جن میں سے ایک " قابلجہ " میں دوسرا کوہ اولو طاغ کے دامن میں ، پہلا قلعہ اس نے آق تیمور کو سونپ دیا اور دوسرے پر اپنے امراء میں سے ایک " بالابان " یا بالابانجق بیگ کو متعین کیا ۔بورصہ قلعہ کا محاصرہ 10 سے 11 سال تک جاری رہا ، اس لمبے محاصرے کی وجہ اس وقت تک عثمانیوں کے پاس قلعہ شکن سازوسامان کی عدم موجودگی تھی اس کے ساتھ ساتھ یہ شہر انتہائی مضبوط اور قلعہ بند تھا ۔اس کے حفاظتی قلعہ کی لمبائی 3400 میٹر تھی ، جس پر 14 عدد نگرانی کیلئے برج اور 6 دیوہیکل دروازئے تھے ، دو مضبوط فصیل تھیں ، محاصرے کے دوران عثمان اور اس کے سالاروں نے امارت کے ہمسایہ علاقوں کو باقی ماندہ رومی قلعوں سے پاک کرنا شروع کردیا اور یکے بعد دیگرے انھیں فتح کرتے چلے گئے ۔ ان قلعوں کے کچھ سالار اپنے دستوں کے ہمراہ عثمان کی خدمت میں بھی داخل ہوئے ، ان میں سے کچھ نے اسلام قبول کرلیا، جبکہ کچھ نصرانیت پر باقی رہے ۔ اس دوران عثمان کو مرگی کا مرض لاحق ہو گیا اور اس کیلئے شہر کے محاصرے کی قیادت کرنا آسان نہ رہا تو اس نے قیادت اپنے بیٹے اور خان کے سپرد کی اور کچھ لشکر کے ساتھ واپس دارلحکومت لوٹ آیا ۔ اورخان نے بغیر جنگ یا لڑائی کے حصار جاری رکھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے ساری دنیا سے کاٹ دیا ، چنانچہ " مودانیا" کو فتح کرکے شہر کا تعلق سمندر سے کاٹ دیا ، اسی طرح ادرانوس یا ادرنوس بورصہ کے جنو ب میں کوہ اناضولی داغ پر واقع قصبہ فتح کیا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ شہر کی کنجی ہے ۔عثمانیوں نے شہر کا سختی سے محاصرہ جاری رکھا یہاں تک کہ وہاں کے حاکم اور حفاظتی دستے کے دل مایوسی سے بھر گئے اور بازنطینی قیصر کو یقین ہو گیا کہ شہر کا مسلمانوں کے ہاتھوں سقوط محض وقت کا مسئلہ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ چنانچہ اس نے ایک مشکل فیصلہ کیا اور وہاں کے عامل کو شہر خالی کر دینے کا حکم دیا ، جس کے نتیجے میں شہر کے بازنطینی حفاظتی دستے نے انخلا کرنا منظور کیا ۔ اور اورخان 2 جمادی الاول 726 ھ / 6 اپریل 1326 کو شہر میں داخل ہوا، شہر کے باسیوں نے عثمانیوں کی سیادت کو قبول کرتے ہوئے جزیہ دینا قبول کیا،انھیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا گیا ۔ حاکم شہر " اقرینوس " نے اورخان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ، پھر اس کے سامنے اپنے قبول اسلام اور اس کے باپ عثمان کی بیعت کا اعلان کیا اور اس کی اطاعت میں داخل ہوگیا ۔اقرینوس کا اکرام کرتے ہوئے اور اس طویل محاصرے کے دوران اس کی شجاعت وصبر کے اعتراف اور قدردانی کے طور پر اسے بیگ کا لقب دیا گیا ۔ اس کے بعد سے اس کا شمار امارت عثمانیہ کے نمایاں سالاروں میں سے ہونے لگا۔اس طرزعمل سے شہر میں باقی ماندہ اور اردگرد کے قلعوں کے دیگر رومی سالار بھی متاثر ہوئے اور انھوں نے قبول اسلام کا اعلان کیا اور مملکت عثمانیہ کے پرچم تلے آملے ، اس طرح سے ایک طویل انتظار کے بعد بورصہ شہر فتح ہوا، اورخان نے بڑی سرعت سے سکود کا رخ کیا تاکہ اپنے باپ کویہ خوشخبری سنا سکے ۔
 
وہ جناب عالی۔۔۔۔ پوچھنا یہ تھا کہ اس اٹلس میں کہیں خرم سلطان اور کوسم سلطان کا بھی ذکر آئے گا یا بس جنگاں ای لگیاں رھن گیاں اور ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ میرے جیسے بہت سے محفلین صرف
:tongueout:
 

ربیع م

محفلین
وہ جناب عالی۔۔۔۔ پوچھنا یہ تھا کہ اس اٹلس میں کہیں خرم سلطان اور کوسم سلطان کا بھی ذکر آئے گا یا بس جنگاں ای لگیاں رھن گیاں اور ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ میرے جیسے بہت سے محفلین صرف

:tongueout:

چوہدرری صاحب دعا کرو اوتھے اپڑ جائیے ، فیر تواڈی خدمات دی لوڑ وی پئے گی !!!!
 

حماد علی

محفلین
وہ جناب عالی۔۔۔۔ پوچھنا یہ تھا کہ اس اٹلس میں کہیں خرم سلطان اور کوسم سلطان کا بھی ذکر آئے گا یا بس جنگاں ای لگیاں رھن گیاں اور ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ میرے جیسے بہت سے محفلین صرف

:tongueout:
ہی ہی ہی ! جناب میں بھی کب سے ان دونوں کا ہی انتظار کر رہا تھا ، سلطنت عثمانیہ کے بارے میں جاننے کا شوق انہی دو ڈراموں کی وجہ سے پیدا ہوا
 

حماد علی

محفلین
ویسے سلطان سلیمان یعنی خرم سلطان کا مجازی خدا غالباٍ ۱۰ سلطان تھا اور ابھی تو میں پہلے کا ہی پڑھ رہا
 

ابو ہاشم

محفلین
سامی بن عبداللہ مغلوث نے کئی اٹلس تحریر کی ہیں ، جن میں تمام خلفائے راشدین کی الگ الگ اٹلس ، خلافت بنو امیہ اور خلافت عباسیہ کے بارے بارے میں الگ الگ اٹلس اور مملکت عثمانیہ کے بارے میں اٹلس ۔
ان اطلسوں کے اردو ترجمے مل سکتے ہیں؟
 

ربیع م

محفلین
ان اطلسوں کے اردو ترجمے مل سکتے ہیں؟
لاہور کے ایک اشاعتی ادارہ دارالسلام نے ان کے علاوہ کچھ دیگر تاریخی اطالس کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے، جیسا کہ اٹلس فتوحات اسلامیہ، اٹلس قرآن کریم، اٹلس سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم وغیرہ.
 

ربیع م

محفلین
سلطان اورخان

سلطان غازی شجاع الدین والدنیا ، اورخان بن عثمان بن ارطغرل قایویی ، ترکمانی عثمانی ترکی میں غازى سُلطان اورخان خان بن عُثمان بن ارطُغرُل اور معاصر ترکی میں Sultan Orhan Gazi Han ben Osman اسی طرح اور خان بیگ (معاصر ترکی میں Orhan Bey) کے نام سے بھی معروف تھے ۔عثمانی خاندان کے بانی عثمان اول کے دوسرے بیٹے ۔ اپنے والد کی امارت کے دارلحکومت سکود شہر میں 687ھ بمطابق 1281ء کو مال خاتون بنت الشیخ ادہ بالی کے ہاں پیدا ہوئے ۔ دادا کا نام ارطغرل بن سلیمان شاہ اور دادی کا نام حلیمہ خاتون تھا۔


726 ھ بمطابق 1326ء کو اپنے والد کی وفات اور اپنے بھائی علاء الدین کی بخوشی ان کے حق میں تخت سے دستبرداری کے بعد سلطنت کی زمام کار سنبھالی ، اور ایک طویل عرصہ تقریبا 35 سال تک حکومت کی۔ ان کے زمانے میں امارت عثمانیہ نے بہت توسیع اختیار کی اور بہت سی اراضی اور ہمسایہ علاقے امارت میں آ شامل ہوئے اسی طرح ایشیائے کوچک میں بازنطینی اثرورسوخ اور قوت کے مراکز کا صفایا کیا ۔ عثمانی لشکر نے شاہ اندرونیقوس سوم پالیولوگ کی زیرقیادت آنے والے رومی لشکر کو معرکہ پیلیکانون میں شکست دی اور مغرب اور شمال مغربی اناضول (اناطولیہ ) میں باقی ماندہ بازنطینی قلعوں اور شہروں کو فتح کیا۔ اسی طرح اورخان نے اندرونیقوس سوم کی وفات اور نو سالہ یوحنا پنجم کی تخت نشینی کے بعد بلاد روم میں شاہی خاندان کے باہمی جھگڑوں اور اندرونی لڑائیوں سے فائدہ اٹھایا۔


اس سلسلے میں بادشاہ کے سرپرست یوحنا ششم قانتاقازون نے کم عمر بادشاہ کے حامیوں کے خلاف جن کی قیادت اس کی والدہ حنہ الساقویہ کر رہی تھی مدد طلب کی ، جس سے عثمانیوں کو تراقیا کے اطراف میں بہت سے جنگی غنائم حاصل کرنے کا موقع میسر آیا ، اورخان نے ان خدمات کے نتیجے میں بادشاہ کی بیٹی تھیوڈورا کے ساتھ شادی کی ۔ رومی سلطنت کے اندر ایک اور خانہ جنگی میں جو 1352ء سے 1357ء کے درمیان جاری رہی کانتاکوزین نے اورخان سے یوحنا پنجم کے خلاف مدد طلب کی اور اس کے بدلے میں اسے 1352 ء میں جزیرہ نما گیلی پولی میں واقع قلعہ جنبی عطاء کیا۔6 صفر 755ء بمطابق 2 مارچ 1354ء کو گیلی پولی میں آنے والے شدید زلزلے نے اسے بالکل تباہ کر دیا اور فصیلیں گر گئیں۔عثمانیوں نے سلیمان بن اورخان کی قیادت میں سمندر عبور کر کے وہاں پر تسلط حاصل کیا اور اسے ازسرنو تعمیر کیا ۔ اس طرح سے یہ بلقان میں پہلا اسلامی مرکز اور قسطنطنیہ کے خلاف حصار کیلئے پہلا عثمانی قدم تھا۔


اسلامی تاریخ میں اورخان کا کردار اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ انھوں نے مشرقی یورپ میں پہلی بار مسلمانوں کے قدم مضبوطی سے جمائے۔اسی طرح ایک نیا عسکری نظام وضع کیا اور پہلی باقاعدہ فوج (انکشاریہ /ینی چری) کی بنیاد رکھی جو ایک لمبا عرصہ اسلامی اور مسیحی دنیا میں سب سے بڑی فوج کے اعزاز کی حامل رہی ۔ اور ایک لمبا عرصہ مسلسل چار صدیوں تک شاہان یورپ ، شہزادوں اور پوپ پر ان کی دہشت طاری رہی ۔ اس کے ساتھ ساتھ عثمانی امارت کو وسعت دی جو اب انقرہ سے لے کر تراقیا تک پھیلی ہوئی تھی ۔ اورخان نے اپنے والد سے وراثت میں ملنے والی امارت کو چھ گنا زیادہ توسیع دی ۔اور اس کی امارت سے مملکت کیلئے مضبوط بنیادیں فراہم کیں ۔اپنے والد کی طرح اورخان نے بھی زاہدانہ اور تصوف سے قریب زندگی گزاری اور سلطان کا لقب اختیار نہیں کیا ۔ اس کے باوجود ان کے بارے میں لکھی کتب میں ان کا یہ لقب عام ملتا ۔بلکہ انھوں نے اپنے لئے بیگ یا امیر کا لقب اختیار کیا۔ مشہور مسلم سیاح ابن بطوطہ نے جب اورخان کے دورحکومت میں اناضول کا سفر کیا اور اس سے ملاقات کی تو اس کے بارے میں لکھا کہ "وہ ترکمان سلاطین میں سب سے بڑے سلطان ہیں ، سب سے زیادہ مال دار ،سب سے وسیع سلطنت اور بڑی فوج کے مالک ، اس کے قلعوں کی تعداد 100 تک جا پہنچتی ہے ، جن کا وہ باقاعدگی سے معائنہ کرتے ہیں اور ہر قلعے میں کچھ دن قیام کر کے وہاں کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے ہیں ۔


امارت سے قبل کی زندگی :


اپنے باپ " عثمان خان کی چھوڑی گئی امارت سنبھالنے سے قبل نوجوانی اور زندگی کے زیادہ حالات نہیں ملتے ، اسی طرح تاریخ پیدائش کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اکثر مصادر کے مطابق 687 ھ / 1281 ء اور بعض کے مطابق1274 یا 1279 یا 1287ءکو پیدا ہوئے اور مناقب اورخان کے مطابق جو کہ ان کے زمانے میں تحریر کی گئی ، 80 سال کی عمر پائی ۔


ان کی ابتدائی تربیت حصول تعلیم کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ، یہاں تک کہ یہ بھی معلوم نہیں کہ انھوں نے تعلیم حاصل کی یا امی تھے۔


تاریخ میں ان کا پہلا قابل اعتما د تذکرہ 1298 ء کو قلعہ صاحب یار کے حاکم کی بیٹی کے ساتھ شادی کے وقت ملتا ہے جس کا نام نیلوفر خاتون تھا ، اس خاتون سے ان کے بیٹے سلیمان اور مراد پیدا ہوئے ۔


اور دوسری بار ان کا تذکرہ اس وقت ملتا ہے جب ان کے والد نے 1299ء میں امارت کا مرکز "بیلہ جک " سے ینی شہر منتقل کیا ، جس میں اور خان کو ماہر تجربہ کار سالار اتابک گندز الپ کے ساتھ قرہ جہ حصار کی جانب بھیجا گیا ، 1300 ء میں اور خان نے قلعہ کوبری حصار فتح کیا ، اس کے بعد سے وہ قرہ جہ حصار میں سرحدی امیر کے طور پر تعینات رہے ، اوراس کے بعد انھوں نے بکلر بک یا امیر الامراء کا منصب حاصل کیا ، اس چھوٹی سی امارت کے لشکر کے سالار مقرر ہوئے اور اپنے والد کی تمام عسکری کاروائیوں میں شریک ہوئے ۔


چنانچہ " ازنیق" کے محاصرے میں شریک ہوئے ، 1303 میں معرکہ دیمبوس میں شریک ہوئے ، جبکہ جنگ لفکہ میں شریک نہیں ہوسکے کیونکہ اس عرصہ میں ہمسایہ امارت کرمیانیہ کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کے بعد ممکنہ حملے کے پیش نظر اسکی شہر اور قرہ جہ حصار میں ٹھہرے تھے ، اس دوران ان کے والد کے بااعتماد ساتھی جیسا کہ " کوسہ میخائیل " صالتوق الپ ان کے ساتھ موجود تھے ۔جب ان کے والد فتوحات میں مشغول تھے کرمیانی امیر " چفدر تتر" نے قرہ جہ حصار کے بازار پر حملہ کیا وہاں لوٹ مار کی اور پھر نکل گیا ، اورخان نے لوٹ مار کرنے والوں کا پیچھا کیا اور قلعہ چفدر حصارمیں انھیں آلیا ، ان سے لوٹا ہوا مال واپس چھینا ، اور چفدر تتر کے بیٹے کو قید کر لیا ، عثمان غازی نے اس قیدی کے بدلے کرمیانیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اسے اس کے والد کو لوٹا دیا ۔ اورجب عثمان نے کرمیانیوں کے کسی ممکنہ حملے کے پیش نظر قرہ جہ حصار میں رہنے کا فیصلہ کیا تو اپنے بیٹے کو اپنے عسکری قائدین ، معتمد ساتھیوں اور الاخیان کے سالاروں جیسا کہ غازی البلر ، آقچہ خُجا ، قُونور الپ ، غازی عبدالرحمن ، کوسہ میخائیل کے ہمراہ 1305ء کو سقاریا بھیجا ، عاشق پاشا زادہ کے مطابق یہ پہلی عسکر ی مہم تھی جس کی قیادت اور خان نے کی ، اس دوران اورخان نے سڑییٹجک اہمیت کے حامل قلعہ "قرہ چپوش " اور قلعہ قرہ تکین جو کہ ازنیق کے سامنے واقع ہے اور قلعہ ابسو کو فتح کیا ۔


اس کے بعد ینی شہر اپنے والد سے آملے ، ان مہمات اور جنگوں کا مقصد ازنیق کی جانب آنے والی کمک اور رسد کو کاٹنے اور وہاں کی حفاظتی سپاہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا تھا ، ان جنگوں میں اور خان نے عسکری تجربہ حاصل کیا۔بعض مصادر کے مطابق اورخان کی عمر جب 20 سال ہوئی تو ان کے والد عثمان نے انھیں "ناقہیر " علاقے میں حاکم بنا کر بھیجا لیکن وہاں زیادہ عرصہ نہیں رہے اور 1309ء میں واپس دارلحکومت سکود لوٹ آئے ۔


اس کے بعد اپنے والد کے ہمراہ بورصہ کے محاصرے میں شریک ہوئے ، اور والد کی بیماری کے باعث دارلحکومت لوٹ جانے کے بعد اس محاصرے کی قیادت کی ، اور دس سال کے طویل عرصہ بعد بورصہ شہر کو فتح کیا۔بورصہ شہر کی فتح کے بعد اورخان نے بڑی سرعت سے سکود کا رخ کیا تاکہ اپنے باپ کویہ خوشخبری سنا سکے ۔


عثمان کی جانشینی


اور خان جب سکود پہنچا تو انھیں فورا ان کے والد کے پاس لے جایا گیا ، جو کہ حالت نزع میں تھے اور کچھ ہی عرصہ میں ان کی روح پرواز کر گئی انھوں نے اپنے بعد اور خان کی امارت کی وصیت کی ، جو کہ ان کا دوسرا بیٹا تھا ، کیونکہ ان کی نظر میں اور خان اپنے بڑے بھائی علاء الدین جو دینی ورع اور تنہائی پسندی سے متصف تھا کی نسبت امارت کی باگ دوڑ سنبھالنے اور مملکت کی قیادت کر نے کا زیادہ اہل تھا ۔ اورخان نے امارت اپنے والد کی زندگی میں حاصل کی یا والد کی وفات کے بعدا س پر کافی اختلاف موجود ہے ۔بازنطینی مؤرخ " لیونیکوس خلقوقوندلیس " جس نے کسی مصدر کے بغیر یہ ذکر کیا اورخان اپنے والد کی وفات کے بعد " جبل اولوطاغ " کی جانب نکل گیا اپنے گرد سپاہ اکٹھی کی اور پھر اپنے بھائیوں باظار لی بیگ ، چوبان بیگ ، حمید بیگ ، علاء الدین پاشا اور مالک بیگ اور صاوجی بیگ سے جنگ کی اور انھیں ہزیمت سے دوچار کر کے کرسی اقتدار پر بزور بازو قبضہ کیا۔جبکہ ابن کمال عثمانیوں میں ابتدائی مؤرخ کے مطابق اورخان جماعت الاخیان کے قائدین ، مجاہدین ااور مرابطین کے فیصلے کے مطابق امیر مقرر ہوا ، جو کہ اس کے والد کیلئے مکمل احترام اور وفادار ی کے جذبات رکھتے تھے ۔


اور مروجہ رائے کے مطابق جو کہ ابتدائی عثمانی مورخین کی رائے ہے ، جیسا کہ"عاشق زادہ پاشا"، اورچ بیگ، نصری پاشا ، اور عام اور مقبول روایا ت کے مطابق عثمان غاز ی کی وفات کے بعد تمام معززین امارت عثمان کی اولاد کے ہمراہ اکٹھے ہوئے ، اس اجلاس میں اورخان نے اپنے بھائی علاء الدین کو امارت سنبھالنے کی تجویز دی ، لیکن علاء الدین نے اس تجویز کو قبول کرنے سے انکا ر کر دیا اور کہا کہ اس کے خیال میں اس کا بھائی اور خان اپنی عسکری کامیابیو ں کی وجہ سے زیادہ موزوں ہے ، تمام سالاروں نے اس رائے پر موافقت ظاہر کی، اس طرح سے اور خان اپنے باپ کی وراثت میں چھوڑی گئی امارت کا حاکم بن گیا ، اس وقت اورخان کی عمر 40 سال کے لگ بھگ تھی ۔علاء الدین نے وزارت اور داخلی معاملات کی تنظیم کا منصب سنبھالا اس طرح سے وہ عثمانی تاریخ کا پہلا صدر اعظم متعین ہوا ، اورخان کی امارت پر اتفاق عثمانیوں کی اہم کامیابیوں میں سے ایک تھا ، وہ اپنے بڑے سردار کی وفات کے بعد اس نوآموز امارت کی وحدت کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر ایک نئے دور میں داخل ہوچکے تھے ، اس طرح سے عثمانیوں نے ترک اور منگول رسوم کے برعکس طرزعمل اختیار کیا ، ان کی ہمسایہ ترکمان امارتیں بھائیوں کے درمیان سلطنت اور امارت کی تقسیم کی بنیاد پر قائم تھیں ، اس طرح سے اورخان ایک ایسی مملکت کا وارث بنا جس کے قوانین ، سکہ اور واضح حدود متعین نہ تھیں ، جسے اپنے سے طاقتور ہمسائے گھیرے ہوئے ، اس پر لازم تھا کہ مضبوط بنیادوں پر قائم مملکت کی تعمیر کرے ، اپنے گرد کے علاقوں میں مملکت کو توسیع دے اور اپنے پیروکاروں کو ایک قوم میں تبدیل کرے ۔


والد کی وصیت:


عثمانی مصادر کے مطابق عثمان نے اپنے بیٹے اورخان کیلئے تحریری وصیت چھوڑی جس میں اسے رومیوں کے خلاف جنگ و جہاد کا سفر مکمل کرنے ، شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کی پابندی ، علماءکی صحبت رعایا کےساتھ عدل اور اسلام اور اس کے پیغام کے ساتھ مخلص رہنے کی وصیت کی اس طرح اس کی وصیت میں اپنے تمام بیٹوں اور اپنے ان ساتھیوں کیلئے بھی نصیحتیں کی گئی جو اس کے ساتھ جنگوں میں شریک تھے۔اس وصیت میں لکھا تھا:


میرے بیٹے : خبردار ایسی چیز میں مشغول مت ہو جانا جس کا اللہ رب العالمین نے حکم نہیں دیا، اور اپنی حکومتی معاملے میں کسی دشواری کا سامنا ہو تو علماء دین سے مشورہ لینا۔ میرے بیٹے اپنے اطاعت گزاروں کو اعزاز اور سپاہیوں کو انعامات سے نوازنا، اور شیطان تمہیں اپنی سپاہ اور مال کی وجہ سے دھوکے میں نہ مبتلا کر دے ۔ اور خبردار اہل شریعت سے دوری مت اختیار کرنا۔ میرے بیٹے تم جانتے ہو ہمار ا مقصد اللہ رب العالمین کی خوشنودی حاصل کرنا ہے اور جہاد ہمارے دین کے نور کو تمام آفاق میں پھیلاتا ہے اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے ۔ میرے بیٹے ! ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو حکومت یا افراد پر تسلط کی شہوت میں جنگیں لڑتے ہیں ، ہمارا جینا بھی اسلام کیلئے اور مرنا بھی اسلام کیلئے ۔ اور میرے بیٹے تم اس کے اہل نہیں ۔ میرے بیٹے جان لو کہ اسلام کی نشر واشاعت ، اور لوگوں کی اس جانب رہنمائی کرنا ، مسلمانوں کی مال وعزت کی حفاظت تمہاری گردن میں امانت ہے جس کے بارے میں اللہ تم سے سوال کرے گا۔ میرے بیٹے : میں اپنے رب کے پاس اس حال میں جا رہا ہوں کہ مجھے فخر ہے کہ تم اپنی رعایا میں عادل ، اللہ کے رستے میں دین اسلام کی نشرواشاعت کیلئے جہاد کرنے والے ہو گے۔ میرے بیٹے میں تمہیں علماء امت کی وصیت کرتا ہوں ۔ ان کا ہمیشہ خیال رکھنا ،ان کی تعظیم کرنا ، ان سے مشاورت کرنا وہ تمہیں خیر کا ہی حکم دیں گے ۔ میرے بیٹے کوئی بھی ایسا کام مت کرنا جو اللہ کی رضا کے خلاف ہو ۔ اگر کسی معاملے میں دشواری ہوتو علماء شریعت سے سوال کرنا وہ تمہاری خیر کی جانب رہنمائی کریں گے ۔ میرے بیٹے جان لو کہ اس دنیا میں ہمارا واحد راستہ اللہ کا راستہ ہے ۔ ہمارا واحد مقصد اللہ کے دین کی اشاعت ہے ہے ہم دنیا کی جاہ وحشمت کے طالب نہیں ۔ میری اپنے بیٹوں اور دوستوں کو وصیت ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ پر گامزن رہ کر دین اسلام کی سربلندی کا کام جاری رکھیں ۔جہاد کے راستے میں دین اسلام کا پرچم سربلند رکھیں ۔ ہمیشہ اسلام کی خدمت کریں کیونکہ اللہ نے مجھ جیسے کمزور بندے کو ان علاقوں کی فتح کی ذمہ داری سونپی تم آگے بڑھو اور جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے دور دراز کے علاقوں تک کلمہ توحید کو لے جاؤ۔ اور میری نسل میں سے جو بھی راہ حق وعدل سے انحراف کرے گا وہ یوم حشر کو رسول اعظم ﷺ کی سفارش سے محروم ہو گا۔میرے بیٹے اس دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اپنی گردن موت کیلئے نہ جھکائے ، اللہ کے حکم سے میری موت کا وقت قریب آگیا ہے میں یہ مملکت تمہارے حوالے کرتا ہوں اور تمہیں اپنے رب کے سپرد۔ اپنے تمام معاملات میں عدل سے کام لو۔




انکشاریہ لشکر کی بنیاد

 انکشاری




اورخان نے اپنی امارت کو منظم کرنے اور اس کی بنیادیں مضبوط کرنے پر خصوصی توجہ دی ، اور اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں امارت کی حفاظت کیلئے قوانین کے اجراء اورضروری تنظیم نو کی جانب متوجہ ہوا ، اسے ادراک تھا کہ اس کے کندھے پر ڈالا گیا بوجھ اس کی صلاحیتوں اور وسائل سے کہیں زیادہ ہے ، خصوصا جبکہ بازنطینی سلطنت اس کی جانب شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھتی تھی ، اس لئے اس نے سب سے پہلی توجہ لشکر کو منظم کرنے کی جانب دی جو کہ کسی بھی مملکت کیلئے بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے ،اسے کسی ایسے ذریعے کی ضرورت تھی جس کی مدد سے زیادہ تعداد میں افراد میسر آئیں اور ایسا مخصوص گروہ میسر ہو جس کی مملکت سے وابستگی اور اخلاص پختہ ہو۔ امارت عثمانیہ کے قیام کے وقت کوئی باقاعدہ فوج موجود نہیں تھا ۔ ابتدائی تمام تر فتوحات کا بوجھ مجاہدین اور درویشوں کی جماعتوں کے کندھوں پر تھا جن کی گزر بسر مال غنیمت پر ہوتی تھی ۔ یہ تمام کے تمام سوار تھے ، جو منادی کے ذریعے ایک مخصوص جگہ پر اکٹھے ہوتے اور پھر جنگ کیلئے نکلتے ، جنگ ختم ہونے پر بکھر جاتے اور ہر شخص اپنے بنیادی کام کی جانب متوجہ ہوجاتا ۔ درحقیقت عثمانیوں نے تاریخ میں اپنے ظہور کے آغاز کے ساتھ ہی " جاگیرداری نظام " پر انحصار کیا تھا ، جس کا مقصداپنے لشکر کو سپاہیوں کی کمک کا مستقل مصدر محفوظ بنانا تھا جو ایک مستقل لشکر قائم کرنے سے کافی ہو اور اس لشکر کے اخراجات پورے کرے ۔ اس نظام میں جنگجوؤں یا مجاہدین کو زرعی زمین سونپی جاتی تھی جس کے بدلے وہ اس بات کے پابند تھے کہ جب بھی انھیں جنگ کیلئے پکارا جائے وہ اپنے ماتحت شہسواروں کے ساتھ جس کی تعداد کا انحصار انھیں عطا کردہ زمین پر ہوتا تھا اس جنگ پر نکلنے کیلئے تیار ہوں اور انھیں درکار سامان حرب اور گھوڑوں کی فراہمی بھی ان کے ذمہ تھی ۔


اسی بنیاد پر صدر اعظم علاء الدین پاشا نے اپنے بھائی سلطان اورخان کے ماتحت لشکروں کو منظم کرکے انھیں مستقل کر دیا ، اسی طرح انھیں دس ، سو اور ہزار افراد کے دستوں میں تقسیم کیا ، مال غنیمت کا پانچواں حصہ ان پر خرچ کرنے کیلئے خاص کیا ، ان کی تربیت کیلئے خصوصی مراکز قائم کئے جہاں ان کی تربیت کی جاتی تھی ۔


لیکن اورخان کو اپنی سابقہ عسکری کاروائیوں سے ادراک ہو چکا تھا کہ اسے ایک پیادہ (انفنٹری ) فوج کی ضرورت ہے جس کے ذریعے سے وہ قلعوں کو فتح کرسکے اور مضبوط اور بلندفصیلوں پر حملہ آور ہو سکے ، ترک شہسواروں کو پیادہ سپاہ میں تبدیل کرنے کی اس کی کوششیں اپنے بھائی علاء الدین کی تنظیم نو کے باوجود ناکام ہو چکی تھیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے جاگیر داروں کی جانب سے شہسواروں کے میدان جنگ میں طے شدہ وقت سے تاخیر سے آنے ، طویل محاصرے جیسی کاروائیوں کے متحمل نہ ہونے جیسی مشکلات کا سامنا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی زمینوں سے دوردراز کے علاقوں میں انھیں خصوصی مراعات کا لالچ دیئے بغیر ساتھ نہیں ملایا جاسکتا تھا ۔اسی طرح علاء الدین کو اس نوآموزلشکر میں ایک اور خطرناک معاملے کا ادراک ہوا وہ یہ کہ سپاہیوں کا ہر گروہ اپنے قبیلہ کی بنیاد پر تعصب رکھتا تھا چنانچہ اسے اس بات کا خوف محسوس ہوا کہ کہیں عثمانیوں کی وحدت پارہ پارہ نہ ہو جائے جس کیلئے وہ اور اس کا بھائی سلطان اورخان کوشاں تھے ۔ اس لئے یہ فطری بات تھی کہ یہ دونوں افراد ایسے لشکر کی تشکیل کیلئے کوشاں ہوتے جو کہ پیشہ ورانہ مہارت سے آراستہ ہو اور مستقل ہو۔


14 ویں صدی کے نصف اول کے حالات اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے سازگار تھے ۔ اس کیلئے غیر مسلم اور غیر ترک افراد کو استعما ل کیا گیا،یہ جدید عسکری نظام تھا جو اس سے پہلے ترک اسلامی ممالک میں موجود نہیں تھا ۔ یہ سوچ سب سے پہلے "خلیل پاشا جندرلی" نے پیش کی جو کہ اورخان کا مشیر تھا ۔اس کی تجویز تھی کہ جنگ میں قیدی بننے والے رومی نوجوانوں میں سے پانچواں حصہ ان پر عائد ٹیکس کے بدلے وصول کرے


اسی طرح یورپی اور رومی یتیم اور لاوارث بچوں کو لے کر انھیں ایسے سب ماحول سے الگ تھلگ رکھا جائے گا جو انھیں ان کی قوم ، اور اصلیت یاد دلائے اور ان کی اسلامی تربیت کی جائے جس میں نظریاتی اور جسمانی تربیت دونوں شامل ہوں ، دین اسلام کی بنیادیں ان کے قلوب ونفوس میں اس مضبوطی سے راسخ کی جائیں کہ وہ سلطان کے علاوہ کسی کو اپنا باپ جہاد و جنگ کے علاوہ کسی کو اپنا پیشہ نا مانیں ۔سخت جسمانی تربیت سے گزارا جائے جس کا مقصد جسمانی مضبوطی اور سخت کوشی کا عادی بناناہو ۔ یہاں تک کہ جب وہ عسکری خدمت کے لائق عمر کو پہنچیں تو انھیں لشکر کے دستوں میں شامل کر لیا جائے ۔اور خان کو اس تجویز کے پسند آنے کی وجہ یہ تھی کہ ان بچوں کے بارے میں کسی عصبیت کا خوف نہیں ہوگا ان کی مکمل وفاداری صرف اور صرف مملکت سلطان اور اسلام سے ہو گی اور رشتہ داروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کی جانب میلان کا بھی ڈر نہ ہوگا ، اسی طرح اس کے بھائی علاء الدین کو بھی یہ نظام بہت بھایا۔


اور خان نے 731 ھ / 1330 ء میں اس نئے لشکر کی تاسیس شروع کی ، چنانچہ یتیم اور لاوارث بچوں اور نوجوانوں کو مخصوص بیرکوں میں رکھا جاتا جنہیں اوطۃ کا نام دیا گیا تھا ۔جنہیں بعد میں عربی میں "اوضۃ" کہا جانے لگا یعنی غرفۃ (کمرہ )۔


انھیں حربی مدرسہ میں بنیادی عسکری تربیت دی جانے لگی جو کہ " اوجاق " کے نام سے معروف تھا ، ان کیلئے مخصوص قانون وضع کیا گیا جو کہ 14 شقوں پر مشتمل تھا ، جو ان کے اندرونی نظام اور افراد کے باہمی تعلقات کی تنظیم کو واضح کرتا تھا ، اسی طرح سلطان کی مطلق اطاعت اور مکمل وفاداری کو بیان کرتا تھا ۔ان کیلئے شادی ممنوع تھی ، ہر شخص خاندان بنانے کی امید دل سے نکال کر جیتا تھا ، اسی طرح معاشرے سے اختلاط ممنوع تھا ، انھوں نے اپنی جانوں کو دین اسلام ، مسلم امت اورسلطان کے دفاع کیلئے وقف کر دیا تھا ۔ پس اسلام ان کا عقیدہ ، قرآن ان کی کتاب ، سلطان ان کا باپ ،فوجی بیرک ان کی پناہ گاہ اور ٹھکانہ اور جنگ ان کا پیشہ تھی ۔


مشہور واقعہ ہے کہ اورخان غازی کے پاس ان سپاہیوں کی جب کافی تعداد جمع ہو گئی تو وہ انھیں لے کر سید محمد بن ابراہیم الخراسانی جو کہ حاجی بکطاش ولی ( بکطاشیہ طریقہ کے شیخ ) کے نام سے مشہور ہیں کے پاس اماسیا گئے ، تاکہ شیخ ان کیلئے برکت اور خیر کی دعا کریں ۔شیخ نے ان کیلئے برکت وخیر ، دشمنوں پر فتح کی دعا کی اور ان کے چہرے روشن کرے ان کی تلواریں دشمن کیلئے تیز دھار رہیں ۔ اور ان میں سے ہر ایک کو اپنی قباء کا ایک ٹکڑا عطا کیا جو ان کے سروں پر تبرک کے طور پر لٹکایا گیا۔ ان کے سروں پر موجود ٹوپیوں میں کپڑے کا ٹکڑا نھی کی جانب منسوب کیا جاتا ہے ۔ ان کیلئے دعائے برکت کرنے کے بعد انھیں کہا : کہ ان کا نام یکی یچری ہونا چاہئے یعنی نیا لشکر یا نئے سپاہی ۔ یہ نام دو الفاظ پر مشتمل ہے یکی یعنی نیا اور چری یعنی فوج یا سپاہی۔ اسے عربی میں منتقل کرتے ہوئے نون سے بدل دیا گیا یہ کاف مثلث ہے ۔ اسے لکھا یکی چری جاتا ہے اور بولنے میں ینی چری ۔کچھ مؤرخین اورخان کے حاجی بکطاش ولی کے ساتھ اس ملاقات کے واقعہ کی صحت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کی تردید کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صوفی اس لشکر کی تشکیل سے لگ بھگ ایک دہائی قبل ہی وفات پا گئے تھے اور ان کے بعد ان کے خلفاء میں سے کسی نے دعائے برکت کی ۔



انکشاری پرچم اور اس پر ذوالفقار تلوار



نئی فوج کا پرچم سرخ کپڑے پر مشتمل تھا جس کے وسط میں ہلال تھا ۔ ہلال کے نیچے تلوار کی شکل تھی جس کا نام ذوالفقار( خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی تلوار سے برکت لیتے ہوئے ) رکھا گیا۔ اورخان نے جہادی مہمات اور بازنطینیوں کے خلاف لڑائیوں میں اضافے کے بعد اس نئے لشکر کی تعداد بڑھانے پر توجہ دی ۔چنانچہ بہت سے ایسے بازنطینی نوجوان جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور اپنے کردار میں اچھائی دکھائی ان کا چناؤ کیا گیا اور انھیں اس لشکر میں شامل کیا گیا ۔ ان کی اسلامی اور جہادی تربیت پر خاص توجہ دی گئی ۔ اور کچھ ہی عرصے میں اس لشکر کی تعداد بڑھ کر ہزاروں سپاہیوں تک جا پہنچی ۔ انھیں عشری نظام کے تحت تقسیم کیا گیا ۔ دس سپاہیوں پر مشتمل دستے کے سالار کو اونباشی ، 100 سپاہیوں کے سالار کو یوزباشی اور ہزار سپاہیوں کے دستے کے سالار کو بنباشی کہا جاتا ۔ مورخین کے خیال میں انکشاری فوج پہلی باقاعدہ فوج ہے جس کے افراد باقاعدہ انتظام کے تحت عہدے حاصل کرتے جبکہ یورپ میں ایک سوسال بعدشاہ فرانس چارلس ہفتم کے زمانے میں مستقل فوج کا نظام وضع کیا گیا جس کے بارے میں غالبا غلطی سے کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے قدیم باقاعدہ منظم فوج ہے۔(جاری ہے )
 
Top