ربیع م
محفلین
مملکت عثمانیہ کے بارے میں مطالعہ کرنے کا عرصہ دراز سے ہی شوق تھا ، لیکن یہ بھی دوسرے کئی خوابوں کی طرح پایہ تکمیل تک نہ پہنچا پایا ہوں اور نہ ہی زمانہ قریب میں کوئی امید ہے ۔
لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ "جھاتیاں " دائیں بائیں مارتا ہی رہتا ہوں ۔
مملکت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ کے بارے میں" سامی بن عبداللہ مغلوث " نے ایک شاندار اٹلس لکھی ہے ، جس کے مطالعہ سے مجھ جیسے نالائق کے بھی کچھ نہ کچھ پلے پڑ ہی جاتا ہے ، ورنہ تاریخ جیسے خشک موضوع کا مطالعہ کرتے وقت ساری باتیں اوپر سے ہی گزر جاتی ہیں ۔
سامی بن عبداللہ مغلوث نے کئی اٹلس تحریر کی ہیں ، جن میں تمام خلفائے راشدین کی الگ الگ اٹلس ، خلافت بنو امیہ اور خلافت عباسیہ کے بارے بارے میں الگ الگ اٹلس اور مملکت عثمانیہ کے بارے میں اٹلس ۔
اٹلس مملکت عثمانیہ کافی ضخیم کتاب ہے تقریبا 800 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ، اور چونکہ میں چاہتا ہوں کہ صرف اس کے مطالعہ میں میں ہی کھجل خوار نہ ہوں ، بلکہ محفلین کو بھی کچھ نہ کچھ حصہ ضرور پہنچنا چاہئے ، اس لئے مجبورا آپ کو بھی یہ لڑی برداشت کرنی پڑے گی ، جس کی برداشت سے باہر ہو جائے وہ پھر نظر انداز کے آپشن سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
بہرحال کچھ نہ کچھ اقتباسات بمع نقشہ جات کے پیش کرتا رہوں گا ، امید ہے میری اغلاط کی نشاندہی ہوتی رہے گی ۔
عثمانیوں کی اصل:
ترک عثمانی" زرد نسل "یا "منگول نسل "کی جانب منسوب ہیں ، یہ وہ نسل ہے جس کی جانب منگول ، چینی اور مشرقی ایشیا کی دوسری اقوام منسوب ہیں ، ترکوں کا پہلا وطن وسطی ایشیا میں مشرق میں الطائی پہاڑی سلسلےسے مغرب میں بحرقزوین کے درمیان واقع علاقے تھے ، یہ مختلف قبائل اور خاندانوں میں منقسم تھے ، جن میں سے ایک قایی قبیلہ تھا یہ اغوز ترک()ghuz Turks) ہیں جنہوں نے نے اپنے سردار کندز الپ کے زمانے میں آرمینیا کے شمال مغرب میں واقع چراگاہوں کی جانب خلاط شہر کی جانب ہجرت کی ، جب منگولوں نے چنگیز خان کی قیادت میں خراسان پر قبضہ کیا۔
جبکہ بہت سے مؤرخین کے نزدیک اس خاندان کی سیاسی زندگی پردہ اغماض میں چھپی ہے اور حقائق سے زیادہ کہانیاں منسوب ہیں ، اور ان کے بارے میں بس اتنا ہی معلوم ہے کہ یہ خاندان اس علاقے میں کچھ عرصہ ٹھہرا رہا، اس قول کی صداقت ان بہت سے پتھروں اور قبروں سے ہوتی ہے جن کی خاندان عثمان کے اجداد کی جانب نسبت کی جاتی ہے ، دستیاب معلومات سے پتا چلتا ہے کہ اس خاندان نے خلاط کے علاقے کو تقریبا 1229 ء میں سلطان جلال الدین خوارزمی کی بپا کردہ جنگوں کے نتیجے میں اس علاقے کے بدلتے عسکری حالات کے دباؤ تلے چھوڑ دیا تھا ، اور دریائے دجلہ کے حوض کی جانب کے علاقوں کی جانب یہ ہجرت کر آئے تھے ، ڈاکٹر محمد سہیل طقوش : تاریخ العثمانیین ص 25
"کندز الپ "اپنے خاندان کی حوض دجلہ کی جانب ہجرت کے اگلے سال ہی فوت ہو گیا ، اس کے بعدا س خاندان کی سربراہی اس کے بیٹے سلیمان اور پھر اس کے بعد اس کے پوتے ارطغرل نے سنبھال لی ، جس نے اپنے خاندان کے ساتھ ارزینجان شہر کی جانب سفر کیا جو کہ سلاجقہ اور خوارزمیوں کے درمیان میدان جنگ تھا، وہاں ارطغرل عظیم سلجوقی مملکت کے بکھرنے کے بعد بننے والی مختلف سلجوق امارتوں میں سے ایک سلجوقی امارت سلطان قونیہ کے سلطان علاء الدین سلجوقی کی خدمت میں پیش ہوا ، اور خوارزمیوں کے خلاف جنگوں میں اس کی مدد کی ، جس نے بدلے میں اسے انقرۃ شہر کے قریب کچھ سرسبز علاقے جاگیر کے طور پر عطا کئے ، ارطغرل سلجوقیوں کا حلیف رہا ، یہاں تک کہ سلجوقی سلطان نے اناضول کے انتہائی شمال مغر ب میں بازنطینی مملکت کی سرحدوں کے قریب " اسکی شہر" کے گرد سکود کے علاقے میں جاگیر عطا کی ، اور ارطغرل کو "اوج بکی" یعنی سرحدوں کے محافظ کا لقب دیا، یہ لقب سلجوقی حکومت کی رسوم کے مطابق تھا جو کہ کسی بھی قبیلے کے سردار کو دیا جاتا تھا جس کے حکم کی تعظیم کی جاتی اور اس کے ماتحت کئی چھوٹے خاندان ہوتے ، اس طرح سے اس خاندان نے یہاں ترکمان امارتوں کے پڑوس میں اپنی نئی زندگی شروع کی ۔
اس طرح سے سلجوقیوں نے رومیوں کے خلاف ایک طاقتور حلیف پیدا کر لیا جو رومیوں کے خلاف جہاد میں شریک ہوتا ، یہ تعلق ارطغرل کی ساری زندگی قائم رہا ،یہاں تک کہ 699ھ/1299 ء میں اس کی وفات ہوئی تو اس کے بعد سیادت اس کے بیٹے عثمان نے سنبھالی جو کہ اپنے باپ کی بازنطینی رومیوں کے علاقوں میں توسیع کی سیاست پر گامزن رہا۔
مغربی اناطولیہ میں عثمانی امارت کا قیام :
عثمانی امارت دوسری ترکمان امارتوں کی طرح قائم ہوئی جنہوں نے سلاجقہ روم کے بطن سے جنم لیا ، اس کا آغاز ان کے سردار ارطغرل کی سلجوقی سلطان علاء الدین کیبقاد کی خدمات کے نتیجے میں ہوا۔(616 -634 ھ / 1219- 1237 م)
یہ امارت چھوٹے رقبہ پر پھیلی ہونے کے باوجود مندرجہ ذیل خوبیوں سے ممتاز تھی ۔
اس معروف تجارتی راستے کے قریب تھی جو بازنطینی علاقوں کو مشرق کے ان علاقوں سے ملاتا تھا جن پر منگولوں کا قبضہ تھا ۔
یہ واحد امارت تھی جس نے بازنطینی علاقوں کے لئے سرحدی محافظ کا کام کیا تھا جو ابھی تلک فتح نہیں ہوئے تھے ، اس خصوصیت کی بنا جہاد و جنگ کے شوقین ترکمان رضاکار ، درویش ، منگولوں کے ظلم وجبر سے بھاگے کاشت کار جنہیں اپنی زرعی سرگرمیوں کیلئے یہ زرخیز زمین مناسب معلوم ہوئی ان کی جانب کھنچے چلے آئے ۔
امارت کی وحدت کا بطور خاص خیال رکھنا ، بالخصوص انتقال اقتدار کے موقع پر ایک وارث کی جانب منتقلی ، اس سیاست نے دوسری ہمسایہ امارتوں کے مقابلے میں اہم خوبی کی شکل اختیار کی جو انتقال اقتدار کے وقت مختلف ٹکڑوں میں بٹ جایا کرتی تھیں ۔
حکومت میں مرکزیت کی سیاست کا نفاذ اس کے ساتھ ساتھ علاقے کی دوسری سیاسی اور معاشرتی قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد قائم کرنے کا اسلوب۔
چونکہ ارطغرل عالی ہمت شخص تھا ، چنانچہ اس نے سلجوقی سلطان کے عطا کردہ علاقے اس کے دئیے گئے لقب اور سرحد کی نگرانی اور حفاظت پر ہی اکتفا نہ کیا ؛ بلکہ سلطان کے نام سے اناضول میں بازنطینی علاقوں پر حملے شروع کر دئیے ، چنانچہ اسکی شہر پر قبضہ کیا ، اور اسے اپنی امارت میں شامل کر دیا ، اس طرح سے نصف صدی تک جو کہ اس نے اس سرحدی علاقے پر امیر کی طرح گزارے اپنی امارت کو توسیع دیتا رہا اور 680 ھ / 1281ء کو لگ بھگ 90 سال کی عمر میں وفات پائی ۔
عثمانی امارت کے محل وقوع کی اہمیت:
اپنے باپ کی وفات کے بعد عثمان نے منصب سیادت سنبھالا اور ان کی ہی جانب یہ مملکت منسوب ہوئی ، جو کہ حقیقی معنوں میں اس مملکت کے بانی تھے ، ان کے زمانے میں ہی عثمانی ترکوں کی عسکری اور سیاسی بنیادیں طے ہوئیں ، جبکہ دینی بنیاد وسطی اور مغربی ایشیا میں ترک ماحول میں پھیلے اسلامی اثرورسوخ کے باعث پہلے ہی مضبوطی سے قائم ہو چکی تھی ۔
عسکری پہلو سے امارت عثمانیہ کے محل وقوع کا اس کی کامیابی میں گہرا ہاتھ تھا ۔ سوغوت (سکود) شہر بلندی پر واقع تھا ، جس سے ایک تو اس کا دفاع آسان تھا ، اور دوسری جانب یہ قسطنطنیہ سے قونیہ جانے والے مرکزی راستے پر تھا ، اس مرکز کی اہمیت اس علاقے کی انتشار کی شکار سیاست میں اس مرکز کی اہمیت پنہاں تھی ، جس نے چھوٹی چھوٹی اکائیوں کو پہلے سے زیادہ اہمیت دے رکھی تھی ۔
بازنطینی مملکت کی ہمسائیگی نے جنگ و جہاد کی سرگرمیوں کو بڑھانے اور سلاجقہ روم کی مملکت کا تمام بازنطینی علاقوں کی فتح اور انھیں اسلامی مملکت میں شامل کرنے کا خواب پورا کرنے کا موقع فراہم کر رکھا تھا ، اس خواب کی تکمیل میں بازنطینی مملکت اور اس کے ارکان میں نمودار ہونے والی کمزوری نے مزید تحریض پیدا کی ، جس نے مغربی اناضول میں توسیع میں آسانی اور دردانیال عبور کر کے جنوب مشرقی یورپ میں داخلے کی راہ ہموار کی بجائے اس کے کہ اپنے مسلم ہمسایہ ریاستوں کی جانب توجہ کی جائے ، اس کے ساتھ ساتھ بازنطینی یورپ میں جنگوں میں مشغول تھے ، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس علاقے میں بازنطینی مملکت کی قوت کی کمزوری میں زیادہ مبالغہ آرائی نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے امارت عثمانیہ کی سٹریٹجک اہمیت پر منفی اثر پڑتا ہے ۔
اور یہ حقیقت ہے کہ کہ بازنطینیوں نے میخائل ہشتم اور اندرونیکوس دوم ( 681- 728 ھ / 1282- 1328ء) میں سے ہر ایک کے دور میں بیثینیا (Bithynia)کے علاقے میں ترکی یلغار کو روکنے کیلئے سرحدوں کو قلعہ بند کیا جو کہ دریائے سقاریا کو عبور کر کے اس علاقے کے شہروں تک آتے تھے ، لیکن یہ قلعہ بندیاں اس دریا کے پورے بہاؤ پر جنوب سے لے کر شمال اور مغرب تک عثمانی نقل وحرکت کے سامنے بے فائدہ تھیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی دو بڑی مملکتیں سلجوقی مملکت اور بازنطینی مملکت اپنی طویل باہمی کشمکش کے نتیجے میں کمزوری کی حالت کو پہنچ چکی تھیں ، پہلی مملکت کو تاتاری یلغار کا سامنا تھا اور دوسری مملکت کو لاطینی حملوں کا سامنا تھا جس نے اناضول میں سیاسی اور عسکری خلا پیدا کر رکھا تھا ، جس نے ایسی مملکت کے ظہور کا موقع فراہم کیا جو ان دونوں بکھرتی مملکتوں کے ملبے پر اس خلا کو پورا کر سکے ۔
جبکہ سیاسی پہلو سے عثمان نے اپنی امارت کو منظم کرنے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا ، کیونکہ اس کے عہد میں ہی عثمانیوں نے قبائلی خانہ بدوش نظام سے مستقل حکومتی نظام کی جانب جست لگائی تھی ، جس نے اس کے مرکز کو مضبوط کرنے اور تیزی سے ایک عظیم مملکت بننے میں مدد کی ، پھر اس امارت کے مرکز کا نصرانی دنیا کے ہمسائے میں اناضول کے شمال مغرب میں واقع ہونے نے عثمانیوں پر سرحدی امارت ہونے کی وجہ سے مخصوص سیاسی اورعسکری نہج اپنانا لازم کر دیا تھا ، اور اناضول کی تاریخ میں یہ معروف ہے کہ وہ امارتیں جو سرحدوں پر پروان چڑھیں ان میں اندرونی امارتوں کی نسبت پروان چڑھنے اور پھیلاؤ کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے ، سلجوقی سلطان علاء الدین کیبقاد سوم ( 696 – 701 ھ / 1296 – 1301 ء ) نے عثمان کی خدمات کا تہہ دل سے مشکور ہو ا ، اور اسے عثمان غازی ، عثمان پاشا اور حارس الحدود العالی الجاہ کا لقب عنایت کیا۔
اسکی شہر : عثمانیوں کا پہلا دارلحکومت:
یہ ترک شہر ہے جو کہ اناطولیہ ( اناضول ) کے شمال مغرب میں دریائے بورسک کے کنارے انقرۃ سے تقریبا 206 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے ۔ یہ اسی نام کے صوبے کا دارلحکومت بھی ہے ، اسکی شہر کا مطلب ہے قدیم شہر ، یہ Dorylaeum شہر کی جگہ پر قائم ہو ا جو عربوں کے ہاں دورلیہ (Dorylee) کے نام سے معروف تھا ، جسےاموی قائد عباس بن ولید نے 89 ھ / 708 ء میں فتح کیا ، اور حسن بن قحطبہ 161 ھ /778 ء میں یہاں پہنچے ۔
گیارہویں صدی عیسوی میں اسکی شہر سلجوقیوں اور صلیبیوں کے درمیان فیصلہ کن معرکوں کا میدان جنگ تھا ، 1175 ء میں شاہ مانویل کومنینوس (Manuel I komnenos) نے یوروک قبائل کو یہاں سے نکالنے کے بعد جو کہ شہر کے پڑوس میں مقیم تھے اسے قلعہ بند کیا ، مگر اگلے سال ہی سلجوقی سلطان قلج ارسلان کے دباؤ تلے وہ ان قلعہ بندیوں کو منہدم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ 13 ویں صدی کے دوسرے نصف میں ارطغرل بیگ عثمانیوں کے جدامجد نے اس کے ہمسائے میں اپنے قائم کئے ، 14 ویں صدی میں یہ شہر مملکت عثمانیہ کا پہلا دارلحکومت بن گیا ۔ 1877 کی جنگ کے بعد بلقان کے علاقوں سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے اس کی جانب ہجرت کی ، جس نے اس کی اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے اور باسیوں کی تعداد پر مثبت اثر ڈالا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران عثمانیوں نے بہت سے لبنانیوں کو یہاں ہجرت پر مجبور کیا ، جن کے مملکت کے ساتھ مخلص ہونے میں شک تھا اور خوف تھا کہ وہ مخالف تحریک بپا کر سکتے ہیں ۔
لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ "جھاتیاں " دائیں بائیں مارتا ہی رہتا ہوں ۔
مملکت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ کے بارے میں" سامی بن عبداللہ مغلوث " نے ایک شاندار اٹلس لکھی ہے ، جس کے مطالعہ سے مجھ جیسے نالائق کے بھی کچھ نہ کچھ پلے پڑ ہی جاتا ہے ، ورنہ تاریخ جیسے خشک موضوع کا مطالعہ کرتے وقت ساری باتیں اوپر سے ہی گزر جاتی ہیں ۔
سامی بن عبداللہ مغلوث نے کئی اٹلس تحریر کی ہیں ، جن میں تمام خلفائے راشدین کی الگ الگ اٹلس ، خلافت بنو امیہ اور خلافت عباسیہ کے بارے بارے میں الگ الگ اٹلس اور مملکت عثمانیہ کے بارے میں اٹلس ۔
اٹلس مملکت عثمانیہ کافی ضخیم کتاب ہے تقریبا 800 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ، اور چونکہ میں چاہتا ہوں کہ صرف اس کے مطالعہ میں میں ہی کھجل خوار نہ ہوں ، بلکہ محفلین کو بھی کچھ نہ کچھ حصہ ضرور پہنچنا چاہئے ، اس لئے مجبورا آپ کو بھی یہ لڑی برداشت کرنی پڑے گی ، جس کی برداشت سے باہر ہو جائے وہ پھر نظر انداز کے آپشن سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
بہرحال کچھ نہ کچھ اقتباسات بمع نقشہ جات کے پیش کرتا رہوں گا ، امید ہے میری اغلاط کی نشاندہی ہوتی رہے گی ۔
عثمانیوں کی اصل:
ترک عثمانی" زرد نسل "یا "منگول نسل "کی جانب منسوب ہیں ، یہ وہ نسل ہے جس کی جانب منگول ، چینی اور مشرقی ایشیا کی دوسری اقوام منسوب ہیں ، ترکوں کا پہلا وطن وسطی ایشیا میں مشرق میں الطائی پہاڑی سلسلےسے مغرب میں بحرقزوین کے درمیان واقع علاقے تھے ، یہ مختلف قبائل اور خاندانوں میں منقسم تھے ، جن میں سے ایک قایی قبیلہ تھا یہ اغوز ترک()ghuz Turks) ہیں جنہوں نے نے اپنے سردار کندز الپ کے زمانے میں آرمینیا کے شمال مغرب میں واقع چراگاہوں کی جانب خلاط شہر کی جانب ہجرت کی ، جب منگولوں نے چنگیز خان کی قیادت میں خراسان پر قبضہ کیا۔
جبکہ بہت سے مؤرخین کے نزدیک اس خاندان کی سیاسی زندگی پردہ اغماض میں چھپی ہے اور حقائق سے زیادہ کہانیاں منسوب ہیں ، اور ان کے بارے میں بس اتنا ہی معلوم ہے کہ یہ خاندان اس علاقے میں کچھ عرصہ ٹھہرا رہا، اس قول کی صداقت ان بہت سے پتھروں اور قبروں سے ہوتی ہے جن کی خاندان عثمان کے اجداد کی جانب نسبت کی جاتی ہے ، دستیاب معلومات سے پتا چلتا ہے کہ اس خاندان نے خلاط کے علاقے کو تقریبا 1229 ء میں سلطان جلال الدین خوارزمی کی بپا کردہ جنگوں کے نتیجے میں اس علاقے کے بدلتے عسکری حالات کے دباؤ تلے چھوڑ دیا تھا ، اور دریائے دجلہ کے حوض کی جانب کے علاقوں کی جانب یہ ہجرت کر آئے تھے ، ڈاکٹر محمد سہیل طقوش : تاریخ العثمانیین ص 25
"کندز الپ "اپنے خاندان کی حوض دجلہ کی جانب ہجرت کے اگلے سال ہی فوت ہو گیا ، اس کے بعدا س خاندان کی سربراہی اس کے بیٹے سلیمان اور پھر اس کے بعد اس کے پوتے ارطغرل نے سنبھال لی ، جس نے اپنے خاندان کے ساتھ ارزینجان شہر کی جانب سفر کیا جو کہ سلاجقہ اور خوارزمیوں کے درمیان میدان جنگ تھا، وہاں ارطغرل عظیم سلجوقی مملکت کے بکھرنے کے بعد بننے والی مختلف سلجوق امارتوں میں سے ایک سلجوقی امارت سلطان قونیہ کے سلطان علاء الدین سلجوقی کی خدمت میں پیش ہوا ، اور خوارزمیوں کے خلاف جنگوں میں اس کی مدد کی ، جس نے بدلے میں اسے انقرۃ شہر کے قریب کچھ سرسبز علاقے جاگیر کے طور پر عطا کئے ، ارطغرل سلجوقیوں کا حلیف رہا ، یہاں تک کہ سلجوقی سلطان نے اناضول کے انتہائی شمال مغر ب میں بازنطینی مملکت کی سرحدوں کے قریب " اسکی شہر" کے گرد سکود کے علاقے میں جاگیر عطا کی ، اور ارطغرل کو "اوج بکی" یعنی سرحدوں کے محافظ کا لقب دیا، یہ لقب سلجوقی حکومت کی رسوم کے مطابق تھا جو کہ کسی بھی قبیلے کے سردار کو دیا جاتا تھا جس کے حکم کی تعظیم کی جاتی اور اس کے ماتحت کئی چھوٹے خاندان ہوتے ، اس طرح سے اس خاندان نے یہاں ترکمان امارتوں کے پڑوس میں اپنی نئی زندگی شروع کی ۔
اس طرح سے سلجوقیوں نے رومیوں کے خلاف ایک طاقتور حلیف پیدا کر لیا جو رومیوں کے خلاف جہاد میں شریک ہوتا ، یہ تعلق ارطغرل کی ساری زندگی قائم رہا ،یہاں تک کہ 699ھ/1299 ء میں اس کی وفات ہوئی تو اس کے بعد سیادت اس کے بیٹے عثمان نے سنبھالی جو کہ اپنے باپ کی بازنطینی رومیوں کے علاقوں میں توسیع کی سیاست پر گامزن رہا۔
مغربی اناطولیہ میں عثمانی امارت کا قیام :
عثمانی امارت دوسری ترکمان امارتوں کی طرح قائم ہوئی جنہوں نے سلاجقہ روم کے بطن سے جنم لیا ، اس کا آغاز ان کے سردار ارطغرل کی سلجوقی سلطان علاء الدین کیبقاد کی خدمات کے نتیجے میں ہوا۔(616 -634 ھ / 1219- 1237 م)
یہ امارت چھوٹے رقبہ پر پھیلی ہونے کے باوجود مندرجہ ذیل خوبیوں سے ممتاز تھی ۔
اس معروف تجارتی راستے کے قریب تھی جو بازنطینی علاقوں کو مشرق کے ان علاقوں سے ملاتا تھا جن پر منگولوں کا قبضہ تھا ۔
یہ واحد امارت تھی جس نے بازنطینی علاقوں کے لئے سرحدی محافظ کا کام کیا تھا جو ابھی تلک فتح نہیں ہوئے تھے ، اس خصوصیت کی بنا جہاد و جنگ کے شوقین ترکمان رضاکار ، درویش ، منگولوں کے ظلم وجبر سے بھاگے کاشت کار جنہیں اپنی زرعی سرگرمیوں کیلئے یہ زرخیز زمین مناسب معلوم ہوئی ان کی جانب کھنچے چلے آئے ۔
امارت کی وحدت کا بطور خاص خیال رکھنا ، بالخصوص انتقال اقتدار کے موقع پر ایک وارث کی جانب منتقلی ، اس سیاست نے دوسری ہمسایہ امارتوں کے مقابلے میں اہم خوبی کی شکل اختیار کی جو انتقال اقتدار کے وقت مختلف ٹکڑوں میں بٹ جایا کرتی تھیں ۔
حکومت میں مرکزیت کی سیاست کا نفاذ اس کے ساتھ ساتھ علاقے کی دوسری سیاسی اور معاشرتی قوتوں کے ساتھ لچکدار اتحاد قائم کرنے کا اسلوب۔
چونکہ ارطغرل عالی ہمت شخص تھا ، چنانچہ اس نے سلجوقی سلطان کے عطا کردہ علاقے اس کے دئیے گئے لقب اور سرحد کی نگرانی اور حفاظت پر ہی اکتفا نہ کیا ؛ بلکہ سلطان کے نام سے اناضول میں بازنطینی علاقوں پر حملے شروع کر دئیے ، چنانچہ اسکی شہر پر قبضہ کیا ، اور اسے اپنی امارت میں شامل کر دیا ، اس طرح سے نصف صدی تک جو کہ اس نے اس سرحدی علاقے پر امیر کی طرح گزارے اپنی امارت کو توسیع دیتا رہا اور 680 ھ / 1281ء کو لگ بھگ 90 سال کی عمر میں وفات پائی ۔
عثمانی امارت کے محل وقوع کی اہمیت:
اپنے باپ کی وفات کے بعد عثمان نے منصب سیادت سنبھالا اور ان کی ہی جانب یہ مملکت منسوب ہوئی ، جو کہ حقیقی معنوں میں اس مملکت کے بانی تھے ، ان کے زمانے میں ہی عثمانی ترکوں کی عسکری اور سیاسی بنیادیں طے ہوئیں ، جبکہ دینی بنیاد وسطی اور مغربی ایشیا میں ترک ماحول میں پھیلے اسلامی اثرورسوخ کے باعث پہلے ہی مضبوطی سے قائم ہو چکی تھی ۔
عسکری پہلو سے امارت عثمانیہ کے محل وقوع کا اس کی کامیابی میں گہرا ہاتھ تھا ۔ سوغوت (سکود) شہر بلندی پر واقع تھا ، جس سے ایک تو اس کا دفاع آسان تھا ، اور دوسری جانب یہ قسطنطنیہ سے قونیہ جانے والے مرکزی راستے پر تھا ، اس مرکز کی اہمیت اس علاقے کی انتشار کی شکار سیاست میں اس مرکز کی اہمیت پنہاں تھی ، جس نے چھوٹی چھوٹی اکائیوں کو پہلے سے زیادہ اہمیت دے رکھی تھی ۔
بازنطینی مملکت کی ہمسائیگی نے جنگ و جہاد کی سرگرمیوں کو بڑھانے اور سلاجقہ روم کی مملکت کا تمام بازنطینی علاقوں کی فتح اور انھیں اسلامی مملکت میں شامل کرنے کا خواب پورا کرنے کا موقع فراہم کر رکھا تھا ، اس خواب کی تکمیل میں بازنطینی مملکت اور اس کے ارکان میں نمودار ہونے والی کمزوری نے مزید تحریض پیدا کی ، جس نے مغربی اناضول میں توسیع میں آسانی اور دردانیال عبور کر کے جنوب مشرقی یورپ میں داخلے کی راہ ہموار کی بجائے اس کے کہ اپنے مسلم ہمسایہ ریاستوں کی جانب توجہ کی جائے ، اس کے ساتھ ساتھ بازنطینی یورپ میں جنگوں میں مشغول تھے ، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس علاقے میں بازنطینی مملکت کی قوت کی کمزوری میں زیادہ مبالغہ آرائی نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے امارت عثمانیہ کی سٹریٹجک اہمیت پر منفی اثر پڑتا ہے ۔
اور یہ حقیقت ہے کہ کہ بازنطینیوں نے میخائل ہشتم اور اندرونیکوس دوم ( 681- 728 ھ / 1282- 1328ء) میں سے ہر ایک کے دور میں بیثینیا (Bithynia)کے علاقے میں ترکی یلغار کو روکنے کیلئے سرحدوں کو قلعہ بند کیا جو کہ دریائے سقاریا کو عبور کر کے اس علاقے کے شہروں تک آتے تھے ، لیکن یہ قلعہ بندیاں اس دریا کے پورے بہاؤ پر جنوب سے لے کر شمال اور مغرب تک عثمانی نقل وحرکت کے سامنے بے فائدہ تھیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی دو بڑی مملکتیں سلجوقی مملکت اور بازنطینی مملکت اپنی طویل باہمی کشمکش کے نتیجے میں کمزوری کی حالت کو پہنچ چکی تھیں ، پہلی مملکت کو تاتاری یلغار کا سامنا تھا اور دوسری مملکت کو لاطینی حملوں کا سامنا تھا جس نے اناضول میں سیاسی اور عسکری خلا پیدا کر رکھا تھا ، جس نے ایسی مملکت کے ظہور کا موقع فراہم کیا جو ان دونوں بکھرتی مملکتوں کے ملبے پر اس خلا کو پورا کر سکے ۔
جبکہ سیاسی پہلو سے عثمان نے اپنی امارت کو منظم کرنے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا ، کیونکہ اس کے عہد میں ہی عثمانیوں نے قبائلی خانہ بدوش نظام سے مستقل حکومتی نظام کی جانب جست لگائی تھی ، جس نے اس کے مرکز کو مضبوط کرنے اور تیزی سے ایک عظیم مملکت بننے میں مدد کی ، پھر اس امارت کے مرکز کا نصرانی دنیا کے ہمسائے میں اناضول کے شمال مغرب میں واقع ہونے نے عثمانیوں پر سرحدی امارت ہونے کی وجہ سے مخصوص سیاسی اورعسکری نہج اپنانا لازم کر دیا تھا ، اور اناضول کی تاریخ میں یہ معروف ہے کہ وہ امارتیں جو سرحدوں پر پروان چڑھیں ان میں اندرونی امارتوں کی نسبت پروان چڑھنے اور پھیلاؤ کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے ، سلجوقی سلطان علاء الدین کیبقاد سوم ( 696 – 701 ھ / 1296 – 1301 ء ) نے عثمان کی خدمات کا تہہ دل سے مشکور ہو ا ، اور اسے عثمان غازی ، عثمان پاشا اور حارس الحدود العالی الجاہ کا لقب عنایت کیا۔
اسکی شہر : عثمانیوں کا پہلا دارلحکومت:
یہ ترک شہر ہے جو کہ اناطولیہ ( اناضول ) کے شمال مغرب میں دریائے بورسک کے کنارے انقرۃ سے تقریبا 206 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے ۔ یہ اسی نام کے صوبے کا دارلحکومت بھی ہے ، اسکی شہر کا مطلب ہے قدیم شہر ، یہ Dorylaeum شہر کی جگہ پر قائم ہو ا جو عربوں کے ہاں دورلیہ (Dorylee) کے نام سے معروف تھا ، جسےاموی قائد عباس بن ولید نے 89 ھ / 708 ء میں فتح کیا ، اور حسن بن قحطبہ 161 ھ /778 ء میں یہاں پہنچے ۔
گیارہویں صدی عیسوی میں اسکی شہر سلجوقیوں اور صلیبیوں کے درمیان فیصلہ کن معرکوں کا میدان جنگ تھا ، 1175 ء میں شاہ مانویل کومنینوس (Manuel I komnenos) نے یوروک قبائل کو یہاں سے نکالنے کے بعد جو کہ شہر کے پڑوس میں مقیم تھے اسے قلعہ بند کیا ، مگر اگلے سال ہی سلجوقی سلطان قلج ارسلان کے دباؤ تلے وہ ان قلعہ بندیوں کو منہدم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ 13 ویں صدی کے دوسرے نصف میں ارطغرل بیگ عثمانیوں کے جدامجد نے اس کے ہمسائے میں اپنے قائم کئے ، 14 ویں صدی میں یہ شہر مملکت عثمانیہ کا پہلا دارلحکومت بن گیا ۔ 1877 کی جنگ کے بعد بلقان کے علاقوں سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے اس کی جانب ہجرت کی ، جس نے اس کی اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے اور باسیوں کی تعداد پر مثبت اثر ڈالا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران عثمانیوں نے بہت سے لبنانیوں کو یہاں ہجرت پر مجبور کیا ، جن کے مملکت کے ساتھ مخلص ہونے میں شک تھا اور خوف تھا کہ وہ مخالف تحریک بپا کر سکتے ہیں ۔
مدیر کی آخری تدوین: