اٹک

نیلم

محفلین
کبھی اٹک آنے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن تصویروں سے بھلا لگ رہا ہے۔اب پتہ نہیں کہ علاقہ چھچھ کے لوگ کیسے ہوتے ہیں؟؟؟
ہر جگہ پہ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں بھائی ۔اچھے لوگ ہیں یہاں کے ملنسار اور مہمان نواز ۔آپ بھی تو قریب ہی ہو شائد یہاں سے ۔زیادہ دور نہیں آپ کا شہر ۔:)
 
ہر جگہ پہ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں بھائی ۔اچھے لوگ ہیں یہاں کے ملنسار اور مہمان نواز ۔آپ بھی تو قریب ہی ہو شائد یہاں سے ۔زیادہ دور نہیں آپ کا شہر ۔:)
جی بالکل اس میں کوئی شک نہیں ہے اٹک کا بہت ذکر سنا ہوا ہے خصوصا ملائی ٹولے اور بی بی انعام(اللہ غریقِ رحمت کرے) کی وجہ سے بھی اٹک بہت مشہور تھا ۔ اب تو اٹک میں کچھ نہیں رہا۔
 

منصور مکرم

محفلین
چند دن قبل میں بھی اٹک گیا تھا لیکن صرف دریا میں نہانے کیلئے ۔
تصاویر بنائی ہیں ، بس انکو ترتیب دئے کر اپلوڈنگ باقی ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
جی بالکل اس میں کوئی شک نہیں ہے اٹک کا بہت ذکر سنا ہوا ہے خصوصا ملائی ٹولے اور بی بی انعام(اللہ غریقِ رحمت کرے) کی وجہ سے بھی اٹک بہت مشہور تھا ۔ اب تو اٹک میں کچھ نہیں رہا۔
جناب، ہمارے علم کے لئے ان دونوں پر ذرا روشنی ڈالیں۔ شکریہ۔
شاکرالقادری
نیلم
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جناب، ہمارے علم کے لئے ان دونوں پر ذرا روشنی ڈالیں۔ شکریہ۔
شاکرالقادری
نیلم

بہت شکریہ نیلم! تم نے اتک کی کچھ تصاویر یہاں شیئر کیں
اب یہ میرے ذمہ قرض ہے کہ میں اٹک کے حوالے سے کچھ معلومات یہاں شیئر کرتا رہوں
=== بہت جلد===
فی الحال ایک بات بتاتا چلوں کہ جسے ملائی ٹولہ کہا گیا ہے وہ ملاحی ٹولہ ہے اور یہ ایک تاریخی قصبہ ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جی بالکل اس میں کوئی شک نہیں ہے اٹک کا بہت ذکر سنا ہوا ہے خصوصا ملائی ٹولے اور بی بی انعام(اللہ غریقِ رحمت کرے) کی وجہ سے بھی اٹک بہت مشہور تھا ۔ اب تو اٹک میں کچھ نہیں رہا۔
اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اب تو اٹک میں کچھ نہیں رہا ۔۔۔۔۔ میں ہوں نا ۔۔۔۔۔:)

اٹک وطن عزیز کا بازوئے شمشیر زن ہے
یہاں سیف و قلم دونوں اپنی اپنی کاٹ بھرپور طریقے سے دکھاتے ہیں
یہ علمأ کا دیس ہے
یہ مشائخ کا گھر ہے
یہ عساکر کا ٹھکانہ ہے
یہ ہنر مندوں کی بستی ہے
یہاں سے علوم و فنون کی ترویج ہوتی ہے
علم و ادب اور سیاست کے میدان میں اٹک صف اول میں رہا ہے
=========
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میں یہاں اپنے ایک مقالہ " تاریخ اٹک" کے کچھ اقتباس پیش کرتا رہونگا۔ مکمل مقالہ اس لیے نہیں دے رہا کہ ابھی یہ غیر مطبوعہ ہے

اٹک نام کی وجہ تسمیہ:

ضلع اٹک کا نام ’’اٹک‘‘ کیوں پڑا؟ اس بارے میں بہت سی روایات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ نام لفظ ’’خٹک‘‘ کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔جنرل کننگھم کے خیال میں یہ نام ’’ٹکا‘‘ نامی قبیلہ سے وابستہ ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر دریائے سندھ(جسے لاطینی اور انگریزی میں انڈسINDUS) کہا جاتا ہے) رُک رُک کر چلتا ہے اس لیے اس کا نام ’’ اٹک ‘‘ پڑ گیا۔ ایک روایت کے مطابق’’ اٹک کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق نیلاب(دریائے سندھ) کو پار کرنا منع ہے۔ لفظ ’’اٹک‘‘ کے معنی بھی یہی ہیں۔‘‘
ایک روایت یوں بیان کی جاتی ہے کہ’’ عہد شیر شاہ سوری میں کلکتہ سے پشاور تک طویل شاہراہ تعمیرہورہی تھی اور اٹک کے مقام پر پل کی تعمیر زیر غور تھی دریائے سندھ کی طوفانی موجیں ہر انسانی کوشش کو ناکام بنا رہی تھیں۔ کسی نے شیر شاہ سوری کو خبر دی کہ ایک ولی کامل تمہاری مشکل حل کر سکتا ہے۔ اس کا اشارہ حضرت سلطان مہدیؒ کی طرف تھا۔ جب شیر شاہ کے کارندے مجذوب کے بتائے ہوئے پتہ پر’’جھونگہ سلوئی‘‘ پہنچے اورحضرت سلطان مہدی سے تمام ماجرا کہہ سنایا۔ آپ تشریف لے گئے اور جہاں پل بنانا مقصود تھااس جگہ کھڑے ہوکر دریائے سندھ کی سرعت سے بہتی ہوئی موجوں کو بفضل تعالیٰ حکماً کہا ’’اٹک‘‘ یعنی رک جائو اور وہ رک گئیں۔ شیر شاہ سوری نے پل تعمیر کر لیا۔ مگر حضرت سلطان مہدیؒ کی اس کرامت کی یاد میں اس جگہ کا مستقل نام ’’اٹک‘‘ پڑ گیا۔‘‘
اس سلسلہ میں ایک اور روایت بھی بڑے شدومد کے ساتھ بیان کی جاتی ہے کہ مشہور صحابی حضرت مہلب بن ابی صفرہ العتکی الازدیؓ نے۵۰ ہجری نے وادی چھچھ کو فتح کرنے کے بعد اپنے نام سے ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا جو مرورزمانہ سے بدلتے بدلتے پہلے ’’اتک‘‘ اور بعد میں ’’اٹک‘‘ بن گیا۔بعض محققین کے نزدیک ’’اٹک‘‘ دراوڑی زبان کا لفظ ہے اور انگریزی،اردو اور کئی دیگر زبانوں میں اسی طرح لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔اس نام کی کئی اور توجیہات بھی پیش کی جا سکتی ہیں، تاریخی قدامت کے اعتبار سے اسے عربی کے لفظ ’’عتیق‘‘ یعنی قدیم سے ماخوذ بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور اس علاقے کا ہر دور میں بیرونی حملہ آوروں کی گزرگاہ اور زد میں ہونے کی بنا پر اسے انگریزی زبان کے لفظ ’’اٹیک‘‘(Attack) یعنی حملہ کی تبدیل شدہ صورت بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ تو تھیں وہ وہ تمام روایات اور توجیہات جو’’اٹک‘‘ نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بیان کی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ’’اٹک‘‘ کانام پنجاب اور سرحد کے سنگھم پر اکبری دور میں تعمیر کیے گئے قلعہ’’ اٹک بنارس‘‘ کی وجہ سے آغاز ہوا۔ اس بات کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ قلعہ’’اٹک بنارس‘‘ کی تعمیر سے پہلے اس علاقہ کو ’’اٹک‘‘ کے نام سے پکارے جانے کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔
مغل بادشاہ اکبر اعظم کے سوتیلے بھائی مرزا حکیم نے جو کہ کابل کا گورنر تھا، جب علم بغاوت بلند کیا تو اس فتنہ کو فرو کرنے کے لیے خود اکبر اعظم کو کابل جانا پڑا، لاہور سے کابل جاتے ہوئے جب اکبر اعظم اٹک پہنچا تو دریا میں شدید طغیانی کے باعث یہاں کشتیوں کا پل تعمیر کرنا ناممکن تھا۔ موسم بھی انتہائی گرم تھا ۔ مجبوراً اکبر اعظم کو شدید گرمی کے اس موسم میں یہاں پچاس دن قیام کرنا پڑا۔ یہاں اکبر اعظم کو احساس ہوا کہ لاہور اور کابل کے در میان یہ دامن کوہ کس قدر اہمیت کا حامل مقام ہے اور اگر کسی وجہ سے بادشاہ کو اس مقام پر رکنا پڑے تو یہاں قیام و طعام کا خاطر خواہ بندوبست موجود ہو۔ نیز چہار اطراف میں دشمن قبائل کی سکونت کی وجہ سے دفاعی اعتبار سے بھی اس مقام کی ایک خاص اہمیت ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب اکبر اعظم نے یہاں قلعہ بنانے کا حکم دیاجوکہ خواجہ شمس الدین خوافی کی نگرانی میں دوسال1581-1583) کے عرصہ میں تعمیر ہوا۔ اکبر اعظم نے اس قلعہ کا سنگ بنیاد خود اپنے ہاتھوں سے رکھا اور اس کا نام اپنی سلطنت کے مشرقی کنارے پر واقع قلعہ’’کٹک بنارس‘‘ کے نام پر رکھا۔ ’’کٹک بنارس‘‘ بھارتی صوبہ اڑیسہ کا دارالحکومت ہے۔
’’اٹک‘‘ ترکی زبان کے لفظ ’’اتک‘‘ (ETEK) کی صورت مبدل ہے ترکی زبان میں اس لفظ ’’اتک‘‘ کے معنی ہیں ’’دامن کوہ‘‘ اتک روسی ترکمانستان کے ایک ضلع کا نام بھی ہے جو خراسان کے سرحدی کوہستان(کوپت داغ) کی شمالی اترائی پرجورز(GAURS) اور دشک(DUSHAK) کے درمیان آباد ہے۔ ایرانی اس کو الف مفتوحہ کے ساتھ ’’اَتک‘‘ پڑھتے ہیں۔ہمارے اس خیال کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ مغلوں کی اصل زبان ترکی تھی اور جس مقام پر قلعہ تعمیر کرایا گیا وہ بھی دامن کوہ ہے اسی لیے اکبر اعظم نے اسے’’ اٹک بنارس‘‘ کا نام دیا۔ ترکی زبان کے اس لفظ ’’اتک‘‘ مقامی قوم’’ خٹک‘‘ اور اکبر کی سلطنت کے مشرقی کنارے پر واقع قلعہ’’ کٹک‘‘ تینوں کا ہم وزن و ہم قافیہ ہونا اکبر کی مزید پسندیدگی کا باعث بنا ہوگا۔ اور اس کے ساتھ بنارس کا لاحقہ لگا کر ’’اتک بنارس‘‘ نام رکھ دیا گیا ہوگا۔یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اکبر نے یہ نام صرف ’’ کٹک بنارس ‘‘ کا ہم وزن ہونے کی وجہ سے نہیں رکھا بلکہ اس لفظ مقامی توجیہات اور کثیر الجہت معانی بھی اس کے پیش نظر تھے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ضلع اٹک کا جغرافیہ
(یہ مقالہ چونکہ بہت پہلے لکھا گیا تھا اس لیےممکن ہے کہ ضلع اٹک کے حدود اربعہ کے بارے میں کچھ مندرجات درست نہ ہوں کیونکہ خود ضلع اٹک کے ساتھ ساتھ خیبر پختوں خواہ کے ان تمام علاقوں میں انتظامی تبدیلیاں آتی رہی ہیں جو اٹک کی سرحدات سے ملحق ہیں کہیں تحصیل کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو کہیں ٹاوں کمیٹی کو تحصیل کا درجہ ملا)
ضلع اٹک71.43درجہ طول بلد او ر32.36درجہ عرض بلد کے درمیان دریائے سند ھ اور جہلم کے میدانی علاقہ کا ایک حصہ ہے۔ یہ ضلع ، پانچ دریائوں کی سرزمین پنجاب کے دوسرے میدانی اضلاع کی نسبت زیادہ خوبصورت ہے۔ یہ ضلع صوبہ پنجاب شمال مغربی کونے میں دریائے سندھ کے کنارے شمالاً جنوباً واقع ہے۔ ضلع کے شمال میں دریائے سندھ 80کلومیڑ تک سرحدی پٹی کے طور پر بہتا ہے اور ضلع اٹک کو صوبہ سرحد کے اضلاع سے جدا کرتا ہے۔ یوں یہ ضلع صوبہ سرحد اور پنجاب کے سنگھم پر واقع ہونے کی بنا پر پنجاب کا آخری ضلع کہلاتا ہے۔ضلع اٹک سطح سمندر سے365.24میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ شمال میںاس ضلع کی حدود صوبہ سرحد کے دو اضلاع ہری پور، اور صوابی سے ملتی ہیں۔ ہری پور کا مشہور سلسلۂ کوہ’’گندگر‘‘ جس سے’’ راجہ رسالو‘‘ کی داستان کا کچھ حصہ وابستہ ہے ضلع اٹک کے شمال میں ہی واقع ہے۔ ضلع اٹک کا سب سے بڑا اور بلند پہاڑی سلسلہ ’’کالاچٹا‘‘ ہے جو کہ تحصیل اٹک کے مغرب میں واقع ہے۔ اس پہاڑی سلسلہ کے شمال میں پتھروں کا رنگ سفید اور جنوب میں گہرا سلیٹی ہے اسی مناسبت سے مقامی بولی میں اس کو’’ کالا چٹا‘‘ یعنی سیاہ و سفید کا نام دیا گیا ہے۔جنوب میں کھیری مورت کا سلسلہ کوہ ہے جب کہ کوہستان نمک کا سلسلہ بھی اس ضلع میں سکیسر کے مقام پر ملتا ہے۔دریائے سندھ کے قریب ہی ضلع کے مغربی علاقہ میںمکھڈجنڈال کی پہاڑیاں واقع ہیں جو کٹی پھٹی ہیں اور زیادہ بلند بھی نہیں۔ ضلع کے مغرب میں دریائے سند ھ کے اس پار صوبہ سرحد کے اضلاع نوشہرہ اور کوہاٹ ہیں۔جنوب میں میانوالی، جنوب مشرق میں چکوال اور مشرق میں ضلع راولپنڈی واقع ہیں اس طرح اس ضلع کی حدود سات اضلاع سے ملتی ہیں جن میں سے چار اضلاع کا تعلق صوبہ سرحد سے ہے اور باقی تین کا تعلق پنجاب سے۔ ضلع اٹک کا کل رقبہ2638.68مربع میل ہے۔ اس کی پانچ تحصیلیں ’’اٹک‘‘ ’’فتح جنگ‘‘ ’’ پنڈی گھیب‘‘ ’’جنڈ‘‘ اور’’حسن ابدال‘‘ ہیں جبکہ ’’حضرو‘‘ کو سب تحصیل کا درجہ حاصل ہے۔۱۹۸۱ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع اٹک کی آبادی۶۸ء۸ لاکھ ہے اور آبادی میں اضافے کی شرح ۲ فیصد ہے۔سطح زمین کے حوالے سے ضلع کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
شمالی میدان: یہ میدان چھوٹا مگر ہموار ہے اس کی مٹی نرم اور زرخیز ہے اور اس میں کھیتی باڑی خوب ہوتی ہے چھچھ کا خوبصورت اور زرخیز علاقہ اسی میدان میں واقع ہے۔ دریائے سندھ اور تربیلا ڈیم کے نذدیک ہونے کی وجہ سے اس علاقہ کی زمینیں سونا اگلتی ہیں۔
کالا چٹا پہاڑ:شمالی میدان کے جنوب میں کالا چٹا کا سلسلہ ہے جو شرقاً غرباً پھیلا ہوا ہے اس پہاڑی سلسلہ کی چٹانیں اور پتھر دو رنگوں پر مشتمل ہیں سیاہی مائل/ بھورے اور سفید اسی وجہ سے اس کا نام کالا چٹا ہے۔ یہ سلسلہ کوہ گھنے اور پستہ قد درختوں سے ڈھکا ہوا ہے لیکن کہیں کہیں سے بالکل سبزہ سے محروم نظر آتا ہے۔ اس پہاڑ ی سلسلہ میں مختلف درخت پائے جاتے ہیں جن میں سے قابل ذکرگنگھیر یا گنگور کا درخت ہے جس کے ساتھ کالے رنگ کا فالسے کے برابر پھل لگتا ہے جو بے حد لذید ہوتا ہے یہ درخت پاکستان میں اور کہیں نہیں ہوتا۔ یہاں ایک اور درخت ’’ کہو‘‘ بھی پایا جاتا ہے مقامی لوگ اس کے پتوں کی چائے اور قہوہ بنا کر بھی استعمال کرتے ہیں کچھ لوگ اس درخت کا تعلق زیتون کے درخت کے خاندان سے بتاتے ہیں ۔اس سلسلہ کوہ میں مختلف قسم کے جانور پائے جاتے ہیں جن میں ہرن، سانبھر، اڑیال وغیرہ بکثرت پائے جاتے ہیں پرندوں میں میں یہاں تیتر ، چکور اور باز ملتے ہیں۔
وادی سواں:یہ وادی دریائے سواں کے شمال میں واقع ہے۔ اس وادی میں کثیر تعداد میں ندیاں اور نالے بہتے ہیں جو تمام کے تما م دریائے سوان میں شامل ہو جاتے ہیں ان ندی نالوں کی وجہ سے یہاں کی زمین کٹی پھٹی اور نا ہموار ہے۔ ہموار اور قابل کاشت اراضی بہت کم ہے۔
مکھڈ جنڈال پہاڑیاں:دریائے سندھ کے کنارے جنوب مغرب کی جانب مکھڈ جنڈال کی پہاڑیوں کا سلسلہ ہے۔ جو کٹی پھٹی، پستہ قد اور بے بر گ و گیاہ ہونے کی بنا پر زیادہ مفید نہیں ہیں۔
 
آخری تدوین:
اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اب تو اٹک میں کچھ نہیں رہا ۔۔۔ ۔۔ میں ہوں نا ۔۔۔ ۔۔:)

اٹک وطن عزیز کا بازوئے شمشیر زن ہے
یہاں سیف و قلم دونوں اپنی اپنی کاٹ بھرپور طریقے سے دکھاتے ہیں
یہ علمأ کا دیس ہے
یہ مشائخ کا گھر ہے
یہ عساکر کا ٹھکانہ ہے
یہ ہنر مندوں کی بستی ہے
یہاں سے علوم و فنون کی ترویج ہوتی ہے
علم و ادب اور سیاست کے میدان میں اٹک صف اول میں رہا ہے
=========
بالکل جناب ۔۔۔۔ آپ ضرور ہیں ۔۔۔۔بھول گیا تھا سرکار
جس کے ساتھ کالے رنگ کا فالسے کے برابر پھل لگتا ہے جو بے حد لذید ہوتا ہے۔۔۔۔ کیا اس کو مقامی زبان میں گُرگرُے کہتے ہیں ؟؟؟
 

ابن توقیر

محفلین

یہ شاہد گرلز کالج ہے کیونکہ وہاں جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔یا پھر ڈگری کالج کا کوئی حصہ مگر یہ یاد نہیں آرہا۔ویسے تو کالج کا چھپا چھپا گھومے ہیں چار سالوں میں مگر گمان کیا جاسکتا ہے کہ "خیالی بڈھے" ہونے کی وجہ سے یاداشت نے ساتھ چھوڑ دیا ہے۔سمائلس

کبھی اٹک آنے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن تصویروں سے بھلا لگ رہا ہے۔اب پتہ نہیں کہ علاقہ چھچھ کے لوگ کیسے ہوتے ہیں؟؟؟

ہم سے۔
 
Top