اپریل 1933ء کا ایک واقعہ: بین الاقوامی مالیاتی نظام میں روپے اور دولت کی قانونی چوری

حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری بحث اس وقت متعلق نہیں

بہتر ہے کہ پاکستان جیسے ممالک اپنی اپ کو درست کریں۔ لوگوں کو ڈسپلن کریں اور ہیڈ ڈاون کرکے محنت کرتے رہیں
جب معشیت بہتر ہوجائے اور اتنی ہوجائے کہ دنیا پر اثرانداز ہونا شروع ہوجائے تو پھر یہ بحث بنتی بھی ہے

اس سے پہلے صرف وقت کا ضیاع ہے۔ قوم جاہل ہوتی جارہی ہے اور بحث یہ ہورہی ہے کہ ڈالر کے بدلے سونے کو میعار بنایاجائے
 

الف نظامی

لائبریرین
996927_10151769355649927_490392169_n.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ غریبوں کو اور زیادہ غریب کرنے اور امیروں کو اور زیادہ امیر بنانے والے سرمایہ داری نظام کا معجزہ ہے کہ سال2009ء اور2013ء کے درمیانی چار سالوں میں دنیا کے ارب پتیوں کی تعداد اور مجموعی دولت میں دو گنااضافہ ہوگیا ہے۔ دنیا کے ڈالروں میں ارب پتی لوگوں کی مجموعی دولت انسانی زندگی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ساڑھے چھ ٹریلین ڈالروں تک پہنچ چکی ہے جو دنیا کی امریکہ کے بعد دوسری سب سے بڑی معیشت(چین) کی’’جی ڈی پی‘‘ کے برابر ہے۔ جی ڈی پی کسی ملک کی مجموعی سالانہ پیداوار کو کہتے ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ سال2009ء میں یعنی چار سال پہلے دنیا کے ارب اور کھرب پتی لوگوں کی تعداد ایک ہزار تین سو ساٹھ تھی جو2013ء میں دو ہزار ایک سو ستر ہوچکی ہے۔ ان خوفناک حد تک امیر ترین لوگوں کی تعداد میں یہ اضافہ سٹاک مارکیٹ کے جوئے اور ٹریکل ڈاون معیشت کی بدنظمی کے ذریعے دولت کی غلط بخشی کا مرہون منت ہے۔ دنیا کی امیر شماری میں اس حیرتناک اضافہ کی ایک بڑی وجہ امریکی فیڈرل ریزور اور دیگر مرکزی بینکوں کی دھڑا دھڑ کرنسی کی چھپائی بھی بتائی جاتی ہے جس سے مغلیہ دور حکومت کے بابر بادشاہ کے بیٹے ہمایوں بادشاہ کے زمانے میں نظام سقہ کی ایک دن کی بادشاہی یاد آتی ہے۔
کہا جاتا ہے اور شاید اس میں صداقت بھی ہو کہ ہمایوں بادشاہ کو دریا کی طغیانی میں ڈوبنے سے بچانے پر بادشاہ نے نظام سقہ سے کہا’’مانگ کیا مانگتا ہے‘‘ ۔نظام سقہ نے اپنی خواہشوں میں دبی ہوئی ایک خواہش کو باہر نکالا اور کہا’’ایک دن کی بادشاہی دے دیں‘‘ بادشاہ نے بغیر سوچے سمجھے نظام سقہ کو ایک دن کی بادشاہی دینے کا وعدہ کرلیا۔چند روز بعد نظام الدین نام کا ماشکی ہمایوں بادشاہ کے دربار میں انہیں ان کا وعدہ یاد دلانے پہنچ گیا اور بادشاہ سلامت کو ان کا وعدہ یاد دلایا۔ بادشاہ سلامت اچھے موڈ میں تھے اس کی گردن ا ڑا دینے کا حکم دینے کی بجائے اس کی خواہش پوری کردینے کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی اپنے وزیر خزانہ یا مشیر خزانہ کو یہ حکم بھی دیا کہ نظام سقے کو اس کی بادشاہت کے ایک دن کے دوران دن کے آغاز سے انجام تک سرکاری خزانے سے ایک دھیلہ بھی ادا نہ کیا جائے۔
مغلیہ دور حکومت میں ایک دن کی مداخلت کرنے والے نظام سقہ نے بادشاہ بننے کے فوراً بعد اپنے ملک کے غریبوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے ان میں دولت بانٹنے کا پروگرام بنایا مگر انہیں بتایا گیا کہ مغلیہ سلطنت کے خزانے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ بادشاہ نظام الدین ماشکی نے پوچھا کہ جب کسی سلطنت کے پاس خزانہ نہیں ہوتا تو وہ کیا کرتی ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ’’نوٹ چھاپتی ہے‘‘ بادشاہ نظام الدین ماشکی نے کہا کہ نوٹ چھاپے جائیں، بتایا گیا کہ نو ٹ چھاپنے کے لئے کاغذ نہیں ہیں۔ بادشاہ نظام الدین ماشکی نے حکم دیا کہ ان کی پانی بھرنے کے لئے استعمال ہونے والی مشک سے کرنسی نوٹ چھاپے جائیں اور ان کے فرمان کے مطابق چام کے دام وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے ،فرق صرف یہ ہے کہ اب انسانوں کی چمڑی سے بھی سکے بنائے جاتے ہیں اور مارکیٹ میں چلتے ہیں اور کرہ ارض پر ساڑھے چھ ٹریلین ڈالرز کی ملکیت رکھنے والے ارب پتیوں کی تعداد دو ہزار ایک سو ستر تک پہنچ چکی ہے اور نظام سقے ہزاروں، لاکھوں کروڑوں سے بڑھ کر دنیا کی ا یک تہائی آبادی یعنی چار ارب سے بھی تجاوز کرچکے ہیں۔بادشاہوں کو ڈوبنے سے بچانے اور لوگوں کے گھروں میں پانی بھرنے کا کام کرتے ہیں اور بادشاہ بننے کے خوابوں سے نجات پاچکے ہیں کیونکہ پوری دنیا کی بادشاہت دو ہزار ایک سو ستر ارب پتی سنبھال چکے ہیں۔
 
میں یہاں دجال کی بات کروں گا تو کئی دوست چیں بہ جبیں ہوں گے۔
پہلا فتنہ کاغذی زر کا اجراء تھا، یہ اسی کا دوسرا باب ہے کہ زر رکھنا ہے تو کاغذی رکھو کہ تمہارا اپنا کچھ بھی نہ رہے، جب کسی سرکار کا جی چاہے زردار کو بے زر بنا دے۔
تیسرا قدم آگے آتا ہے۔ کاغذی زر رکھنے کو بھی خصوصی اجازت درکار ہو گی، سب کچھ آن لائن چلے گا، کریڈٹ کارڈ اس کی ابتدا ہے اور ابھی ترغیب کے مرحلے میں ہے۔ ایسا ہی کوئی کارڈ یا شاید صرف ایک کوڈ نمبر ہو گا، جو میری آپ کی نسلوں کا نصیب ہو گا۔ وہ کوڈ نمبر بلاک تو بندہ ہلاک!
۔۔۔ ۔۔۔
الف نظامی

حضرت اب تو کریڈٹ کارڈ کا بھی بیڑا غرق ہونے جا رہا ہے۔
بِٹ کوائن کے مکمل آنے کے بعد بینکاری صنعت بھی ختم ہو جائے گی۔
اس وقت ایک عدد بِٹ کوائن کی قیمت 630 ڈالر ہے، ماضی میں قیمت 1300 ڈالر بھی رہی ہے
آپ بِٹ کوائن کو ورچول virtualکرنسی بھی کہہ سکتے ہیں۔
 
حضرت اب تو کریڈٹ کارڈ کا بھی بیڑا غرق ہونے جا رہا ہے۔
بِٹ کوائن کے مکمل آنے کے بعد بینکاری صنعت بھی ختم ہو جائے گی۔
اس وقت ایک عدد بِٹ کوائن کی قیمت 630 ڈالر ہے، ماضی میں قیمت 1300 ڈالر بھی رہی ہے
آپ بِٹ کوائن کو ورچول virtualکرنسی بھی کہہ سکتے ہیں۔
وہ آ گئی نا، بات! عمر فاروق صاحب۔
 
میرا خیال ہے اسمارٹ فون پر اسائن ایک بارکوڈ بھی شاید کرنسی کے لیے استمعال ہونا شروع ہوجاوے

ایک مرتبہ ایک کرسچین ارگنائزیشن کا اشتہار بھی دیکھا تھا کہ انسان کی کھوپڑی پر بار کوڈ امپرنٹ کرکے سب کام اسی کے ذریعہ ہویں
 
میں یہاں دجال کی بات کروں گا تو کئی دوست چیں بہ جبیں ہوں گے۔
پہلا فتنہ کاغذی زر کا اجراء تھا، یہ اسی کا دوسرا باب ہے کہ زر رکھنا ہے تو کاغذی رکھو کہ تمہارا اپنا کچھ بھی نہ رہے، جب کسی سرکار کا جی چاہے زردار کو بے زر بنا دے۔
تیسرا قدم آگے آتا ہے۔ کاغذی زر رکھنے کو بھی خصوصی اجازت درکار ہو گی، سب کچھ آن لائن چلے گا، کریڈٹ کارڈ اس کی ابتدا ہے اور ابھی ترغیب کے مرحلے میں ہے۔ ایسا ہی کوئی کارڈ یا شاید صرف ایک کوڈ نمبر ہو گا، جو میری آپ کی نسلوں کا نصیب ہو گا۔ وہ کوڈ نمبر بلاک تو بندہ ہلاک!
۔۔۔ ۔۔۔
الف نظامی

کچھ لوگ مذاق کر رہے ہیں۔ کرتے رہیں!
 

ابن رضا

لائبریرین
اسلام اور غیر اسلام سے قطع نظر پیپرکرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی نے جہاں لین دین میں تبادلے کی ارزاں ، محفوظ اور تیز تر ترسیل کے ذرائع فراہم کیے ہیں وہاں اس کے ساتھ افراطِ زر کی صورت میں نظر سے پوشیدہ ہی سہی مگر گھمبیر مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں۔ ایک سادہ سی مثال اگرآج کسی کے پاس 10ملین پاکستانی روپے ہیں تو وہ تو کروڑ پتی اور صاحب بہاد ر شمار ہوئے۔ مزید محنت اور کارو بار کر کے موصوف اگر اس کے ساتھ کچھ اور ملین بھی جوڑ لے مگر حکومتی سطح پر کم پیداوار اور برامدت و درامدات میں غیر مفید عدم توازن ہے تو ہر گزرتے دن کے ساتھ ملکی کرنسی کی مالیت میں کمی آتی جائےگی اور موصوف کے ہاتھ میں کروڑوں کے کاغذ تو ہوں گے مگر ان کی قوتِ خرید یا مالیت ہو سکتا ہے اسے کروڑ سے لاکھ پتی یا پھر ککھ پتی ہی بنادے۔اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ میں ہماری بدنیتی کے علاوہ یہ پیپر کرنسی ہی تو فساد کی جڑ ہے جس کی وجہ سے سود کی لعنت کو ختم کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
جی محترم نظامی صاحب
زرِ اعتبار کی تخلیق اپنی جگہ مگر افراطِ زر کو تقویت زرِ مبادلہ کے ذخائر سے قطع نظر اندھا دھند کرنسی نوٹس کی چھپائی اور سرکولیشن ہے۔حکومتی بد دیانتی اور نااہلی کے سبب زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپی جاتی ہے یہی چھپائی افراط زر کی روح رواں ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جب دنیا کے چند امیر (ڈاکیومینٹڈ) لوگوں میں سے ہر ایک واحد شخص لاکھوں غربت سے مرتے لوگوں کی تا حیات کفالت کرسکتا ہے۔اپنی دولت میں کوئی معتد بہ نقصان کے بغیر۔تو پھر اس گلوبلائزیشن کی بہشت کو کسی زوزخ میں نہ پھینک دیا جائے۔
 

زیک

مسافر
اسلام اور غیر اسلام سے قطع نظر پیپرکرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی نے جہاں لین دین میں تبادلے کی ارزاں ، محفوظ اور تیز تر ترسیل کے ذرائع فراہم کیے ہیں وہاں اس کے ساتھ افراطِ زر کی صورت میں نظر سے پوشیدہ ہی سہی مگر گھمبیر مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں۔ ایک سادہ سی مثال اگرآج کسی کے پاس 10ملین پاکستانی روپے ہیں تو وہ تو کروڑ پتی اور صاحب بہاد ر شمار ہوئے۔ مزید محنت اور کارو بار کر کے موصوف اگر اس کے ساتھ کچھ اور ملین بھی جوڑ لے مگر حکومتی سطح پر کم پیداوار اور برامدت و درامدات میں غیر مفید عدم توازن ہے تو ہر گزرتے دن کے ساتھ ملکی کرنسی کی مالیت میں کمی آتی جائےگی اور موصوف کے ہاتھ میں کروڑوں کے کاغذ تو ہوں گے مگر ان کی قوتِ خرید یا مالیت ہو سکتا ہے اسے کروڑ سے لاکھ پتی یا پھر ککھ پتی ہی بنادے۔اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ میں ہماری بدنیتی کے علاوہ یہ پیپر کرنسی ہی تو فساد کی جڑ ہے جس کی وجہ سے سود کی لعنت کو ختم کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔
اگر آپ سونے کو کرنسی کے طور پر استعمال کریں اور آپ کے پاس سونے کی کانیں نکل آئیں تو افراط زر اس سے بھی بہت زیادہ ہو گا۔
 

arifkarim

معطل
حضرت اب تو کریڈٹ کارڈ کا بھی بیڑا غرق ہونے جا رہا ہے۔
بِٹ کوائن کے مکمل آنے کے بعد بینکاری صنعت بھی ختم ہو جائے گی۔
اس وقت ایک عدد بِٹ کوائن کی قیمت 630 ڈالر ہے، ماضی میں قیمت 1300 ڈالر بھی رہی ہے
آپ بِٹ کوائن کو ورچول virtualکرنسی بھی کہہ سکتے ہیں۔


بٹ کائن دور جدید کا گولڈ بگ ہے۔ یعنی جو جتنا بٹ کائن کی جتنا لمبا عرصہ ذخیرہ اندوزی کرے گا، وہ مستقبل میں اتنا ہی امیر ہوگا۔ 2010 میں بٹ کائن ایک ڈالر کا بھی نہیں تھا۔ 2011 میں یہ ایک ڈالر کا ہوا۔ 2012 میں 10 ڈالر کا اور 2013 میں اچانک 1000 ڈالر کا ہوکر دھڑام سے سے گرا۔ آجکل ایک بٹ کائن 600 ڈالر کا ہے۔ یعنی یہ سیدھا سادھا اقتصادی بلبلہ ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اسمیں سرمایہ کاری کرنے والے اپنا سرمایہ کسی وقت بھی کھو سکتے ہیں۔ حال ہی میں بٹ کائن کی سب سے پرانی اور مشہور ایکسچینج لاکھوں بٹ کائنز کی چوری کے بعد بند ہو چکی ہے اور وہاں پر موجود لاکھوں ٹریڈرز کا پیسا ڈبو چکی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Mt._Gox
https://blockchain.info/charts/market-price
 

arifkarim

معطل
اگر آپ سونے کو کرنسی کے طور پر استعمال کریں اور آپ کے پاس سونے کی کانیں نکل آئیں تو افراط زر اس سے بھی بہت زیادہ ہو گا۔

نہیں ہوگا۔ خالی سونے کی نئی کانیں دریافت کر لینے سے سونے کی قیمت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جب تک زمین میں دفن سونا بہت ساری سرمایہ کاری کے بعد وہاں سے نکل کر مارکیٹ میں نہیں آجاتا! مجھے لگتا ہے جیسے آپ نے سونے کی قیمت کا 100 سالہ تاریخی چارٹ نہیں دیکھا:
http://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/f/ff/Gold-nominal-constant-usd.svg

اسکے برعکس آپکے پسندیدہ ردی ڈالر کی 100 سالہ قوت خرید کا چارٹ:
http://4.bp.blogspot.com/-YTyPGaEsB...JI8/s1600/Purchasing+Power+of+U.S.+Dollar.jpg

امید ہے صورت حال واضح ہو گئی ہوگی۔ امریکہ کی معاشی اور اقتصادی صورتحال:
http://theeconomiccollapseblog.com/...just-prior-to-the-last-great-financial-crisis
 

زیک

مسافر
نہیں ہوگا۔ خالی سونے کی نئی کانیں دریافت کر لینے سے سونے کی قیمت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جب تک زمین میں دفن سونا بہت ساری سرمایہ کاری کے بعد وہاں سے نکل کر مارکیٹ میں نہیں آجاتا! مجھے لگتا ہے جیسے آپ نے سونے کی قیمت کا 100 سالہ تاریخی چارٹ نہیں دیکھا:
http://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/f/ff/Gold-nominal-constant-usd.svg

اسکے برعکس آپکے پسندیدہ ردی ڈالر کی 100 سالہ قوت خرید کا چارٹ:
http://4.bp.blogspot.com/-YTyPGaEsBcw/T0Kd1nS9zJI/AAAAAAAABQw/MhD1cWnfJI8/s1600/Purchasing+Power+of+U.S.+Dollar.jpg

امید ہے صورت حال واضح ہو گئی ہوگی۔ امریکہ کی معاشی اور اقتصادی صورتحال:
http://theeconomiccollapseblog.com/...just-prior-to-the-last-great-financial-crisis
ذرا سپین کی امریکہ آنے کے بارے میں بھی کچھ پڑھیں۔
 
Top