اپریل 1933ء کا ایک واقعہ: بین الاقوامی مالیاتی نظام میں روپے اور دولت کی قانونی چوری

arifkarim

معطل

بے شک۔ ہم نے سونے یا چاندی کی اشرفیوں کو ہاتھ میں لیکر نہیں پھرنا۔ لیکن ہم یہ کیسے یقین کر لیں کہ کاغذی کرنسی کی جو مقدار قومی بینک جاری کر رہا ہے وہ وہی ہے جتنا اسکے پاس سونا یا چاندی موجود ہے؟ یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی ڈالر کو سونے کی قوت خرید کیساتھ جوڑ دیا گیا تھا جبکہ باقی کرنسیوں نے اپنے آپکو ڈالر کے اسٹینڈرڈ پر ڈال دیا کیونکہ اسوقت ڈالر اتنا ہی قیمتی تھا جتنا سونا۔ لیکن 1971 کے بعد اچانک امریکہ نے ڈالر کی قوت خرید کو سونے کی قیمت سے الگ کر دیا۔ یوں اسوقت سے ابتک پوری دنیا کی تمام کرنسیاں ردی نوٹ ہی ہیں۔
http://history.state.gov/milestones/1969-1976/nixon-shock
 

آبی ٹوکول

محفلین
اوہ توہاڈا پلا ہوجائے ریاضی ہمیشہ سے میرے لیے زہریلا مضمون رہا ہے یہ سب میرے سر کہ اوپر سے گذر جاتا ہے سو معافی حضور معافی حضور والسلام
 
صاحب، سونے سے ڈالر کا منسلک ہونا 1933 سے 1971 کی بات ہے۔ اب ڈالر سونے سے بھی منسلک نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے تیل سے منسلک ہے۔ کہ تیل کی تمام تجارت ڈالر میں ہی ہوگی بلکہ دنیا کی تمام تجارت ڈالر میں ہی ہوگی۔ 1971 سے اب 2015 تک لگ بھگ 40 سال گذر گئے ہیں۔ دنیا کا مالیاتی نظام لگ بھگ ہر 40 سال کے بعد تبدیل ہو جاتا ہے ۔ آج کی کرنسی ہوا مییں ہے کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ جس کے پاس بھی کرنسی ہے، اس کرنسی کی قیمت گرتی جارہی ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
https%3A%2F%2Fs3-us-west-2.amazonaws.com%2Fmaven-user-photos%2Fmishtalk%2Feconomics%2FzmfATcSa4EegwR7v_znq6Q%2FS-3GCFQVD0OeYu7a7Cc-Ow

Nixon Shock, the Reserve Currency Curse, and a Pending Dollar Crisis
 

جان

محفلین
علم ایک بہت بڑی طاقت ہے اور موجودہ معاشرے میں اس کی طاقت سے انکار ممکن نہیں، یہ علم ہی ہے جس کی بدولت کچھ قومیں آج صاحبِ اقتدار و اختیار ہیں اور کچھ قومیں غلام و بھکاری ہیں۔ اس حقیت سے بھی انکار نہیں کہ پاکسانی معاشرے میں عالموں کی بہتات ہے، اس قدر بہتات کہ کبھی کبھی گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید یہاں انسان کم اور عالم زیادہ ہیں۔ یاد رہے کہ عالم سے یہاں مراد قطعی مذہبی عالم نہ ہے بلکہ میرے نزدیک پاکستانی معاشرے میں اس کی تعریف کچھ یوں ہے کہ ہر وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب سمجھتا ہے عالم ہے۔ پاکستان کی تنزلی کے پیچھے اگر نظر دوڑائی جائے تو اس کے پیچھے سب سے بڑا فیکٹر ان عالموں کا ہے۔ جس طرح آدھا سچ جھوٹ سے زیادہ خطرناک، نیم حکیم خطرہ جان ہوتا ہے بلکہ اسی طرح آدھا علم معاشرے کے لیے زہر کی مانند ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں ٹیلنٹ کی کمی ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس ٹیلنٹ کی حدود متعین کرنے والا کوئی نہیں مثلا اگر ایک شخص اگر اچھا صحافی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اچھا طببیب بھی ہو گا، اکانومسٹ بھی ہو گا، ماہر سیاست و معاشرت بھی ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ دنیا میں علم کی ان گنت شاخیں ہیں اور ہر شخص کے نیچے علم کی اتنی پرتیں ہیں کہ انسان چاہے بھی تو پوری حیات ان میں غرق کر دے تو بھی وہ کسی ایک شاخ کا مکمل علم حاصل نہیں کر سکتا لیکن ہمارے ہاں معاملہ بالکل اس کے بر عکس ہے، یہاں جس کو اگر محض پڑھنا بھی آ جائے تو اس میں یہ خوش فہمی اس قدر تیزی سے جنم لیتی ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ سب سمجھتا ہے حالانکہ درحقیقت وہ بہت کم سمجھتا ہے۔
سائیکالوجی یہ کہتی ہے کہ انسان کو وہ چیزیں سب سے زیادہ ایفیکٹ کرتی ہیں جو اس کے جذبات سے منسلک ہوتی ہیں۔ ہمارا مذہب جو ہر چیز پہ دلیل طلب کرتا ہے اسے ہم نے جذبات کا گڑھ بنا دیا ہے اور ایسا کرنے میں ہمارا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اس کے نام لے کر کچھ بھی کرتے جاؤ حتی کہ زہر میں بھی اسلام کی ملاوٹ کر کے پلا دو تو ہم پی جانے کو تیار ہیں۔ کوئی بھی لکھاری ہیں جب بھی مضمون لکھتا ہے وہ اس میں مذہب کے عنصر کی شمولیت کو ضروری سمجھتا ہے تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ لوگوں پہ اثر انداز ہو اور کچھ یہی حال اس صاحبِ مضمون کا ہے۔ اس دھوکے سے باہر نکلیے اور سمجھیے کہ حقیقی مسئلہ ہماری ہڈ حرامی میں ہے، وہ معاشرہ سب سے خوشحال ہو گا جو سب سے زیادہ محنت کرے گا اور جس کی محنت درست سمت میں ہو گی ورنہ امریکہ کو کبھی بھی چین سے اس طرح ٹریڈ وار نہ کرنی پڑتی، یقینا محنت میں عظمت ہے اور جو قوم اس راز کو جان لیتی ہے وہ دنیا پہ حکومت کرتی ہے اور جو اس پہ محض ڈھول بجاتی ہے وہ ہمیشہ ذلیل ہوتی رہتی ہے۔ یوں امریکی اور یورپی معاشرے کو تنقید کا سہرا پہنانے سے نہ تو ملکی مسائل حل ہونگے اور نہ امریکہ یا یورپ اپنے معیار سے نیچے آ جائے گا۔ کیا آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ وہ معاشرہ دو عالمی جنگیں لڑنے کے بعد بھی ہم سے اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ اب دنیا اس کے گرد گھومتی ہے اور ہمارے گرد محض باتیں ہی گھومتی ہیں۔ اگر دنیا سے آگے نکلنا ہے تو کچھ کیجیے، کچھ کر دکھائیے، کچھ ایسا کہ دنیا آپ کے کیے کو تسلیم کرے اور آپ دنیا کا قبلہ ہو جائیں لیکن محض باتوں اور گفتار کے غازی سے کچھ بھی نہیں ہونے والا!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اس دھوکے سے باہر نکلیے اور سمجھیے کہ مسئلہ نہ تو زر میں ہے اور نہ کرنسی میں بلکہ مسئلہ ہماری ہڈ حرامی میں ہے، وہ معاشرہ سب سے خوشحال ہو گا جو سب سے زیادہ محنت کرے گا اور جس کی محنت کی سمت درست سمت میں ہو گی۔ اگر مسئلہ سونے یا کرنسی میں ہوتا امریکہ کو کبھی بھی چین سے اس طرح ٹریڈ وار نہ کرنی پڑتی، یقینا محنت میں عظمت ہے اور جو قوم اس راز کو جان لیتی ہے وہ دنیا کو رول کرتی ہے اور جو اس پہ محض ڈھول بجاتی ہے وہ ہمیشہ ذلیل ہوتی رہتی ہے!
خیر یہ تو عمومی سی بات ہے جو کہ درست ہے۔ البتہ زر و کرنسی کا مسئلہ بہرحال موجود ہے۔ اوپر حقائق پر مبنی ڈیٹا پوسٹ کر چکا ہوں کہ کیسے امریکی ڈالر سونے سے الگ کرنے کے بعد اس کی معیشت کو تہس نہس کر گیا
https%3A%2F%2Fs3-us-west-2.amazonaws.com%2Fmaven-user-photos%2Fmishtalk%2Feconomics%2FzmfATcSa4EegwR7v_znq6Q%2FS-3GCFQVD0OeYu7a7Cc-Ow

https%3A%2F%2Fs3-us-west-2.amazonaws.com%2Fmaven-user-photos%2Fmishtalk%2Feconomics%2FzmfATcSa4EegwR7v_znq6Q%2FraVqfkwcqE-9iVYwkf7lEw

ایسا نہیں ہے کہ 1971 کے بعد امریکی عوام سست اور کاہل ہو گئی تھی اور چینی قوم یکدم چست و توانا ہو گئی تھی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈالر کو سونے سے الگ کرنے کی وجہ سے امریکی بجٹ میں خسارہ بے لگام گھوڑا بن گیا۔ معیشت کا پہیہ مثبت ایکٹیویٹز کی بجائے جنگی جنون، مالیاتی اثاثوں کی قیمتیں بڑھانے، اسٹاک ایکسچینج کے سٹے بازوں کو بونس دینے اور بڑی بڑی کارپوریشنز کی طرف جھک گیا۔ جسکی وجہ سے عوام کی اکثریت قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی۔
saupload_428250-13363801587809994-Michael-Clark.png

یہی وجہ ہے کہ امریکی مرکزی بینک نے کئی سالوں سے شرح سود 0 فیصد کے آس پاس رکھی ہوئی ہے۔ اگر اسے نارمل یعنی 5 فیصد کیا گیا تو 2008 والا مالیاتی بحران واپس آجائے گا۔
 

جان

محفلین
خیر یہ تو عمومی سی بات ہے جو کہ درست ہے۔ البتہ زر و کرنسی کا مسئلہ بہرحال موجود ہے۔ اوپر حقائق پر مبنی ڈیٹا پوسٹ کر چکا ہوں کہ کیسے امریکی ڈالر سونے سے الگ کرنے کے بعد اس کی معیشت کو تہس نہس کر گیا
https%3A%2F%2Fs3-us-west-2.amazonaws.com%2Fmaven-user-photos%2Fmishtalk%2Feconomics%2FzmfATcSa4EegwR7v_znq6Q%2FS-3GCFQVD0OeYu7a7Cc-Ow

https%3A%2F%2Fs3-us-west-2.amazonaws.com%2Fmaven-user-photos%2Fmishtalk%2Feconomics%2FzmfATcSa4EegwR7v_znq6Q%2FraVqfkwcqE-9iVYwkf7lEw

ایسا نہیں ہے کہ 1971 کے بعد پوری امریکہ عوام یکدم سست اور کاہل ہو گئی تھی اور چینی قوم یکدم چست و توانا ہو گئی تھی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈالر کو سونے سے الگ کرنے کی وجہ سے امریکی بجٹ بے لگام گھوڑا بن گیا۔ معیشت کا پہیہ مثبت ایکٹیویٹز کی بجائے جنگی جنون، مالیاتی اثاثوں کی قیمتیں بڑھانے، اسٹاک ایکسچینج کے سٹے بازوں اور بڑی بڑی کارپوریشنز کی طرف جھک گیا۔ جسکی وجہ سے عوام کی اکثریت قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی۔
saupload_428250-13363801587809994-Michael-Clark.png

یہی وجہ ہے کہ امریکی سینٹرل بینک نے کئی سالوں سے شرح سود 0 فیصد کے آس پاس رکھی ہوئی ہے۔ اگر اسے نارمل یعنی 5 فیصد کیا گیا تو 2008 والا مالیاتی بحران واپس آجائے گا۔
میں آپ سے مکمل متفق نہیں۔اول یقینا جب آپ مالیاتی نظام تبدیل کرتے ہیں تو اسے تبدیل کرنے کے پیچھے بہت سے محرکات ہوتے ہیں اور اس تبدیلی سے اس وقت رپل ضرور پیدا ہوتا ہے کیونکہ مارکیٹ میں انسرٹینیٹی کا عنصر بڑھ جاتا ہے لیکن جیسے ہی مالیاتی نظام پہ کانفیڈنس بحال ہوتا جاتا ہے سٹیبیلیٹی اس قدر بڑھتی جاتی ہے، یقینا یہ سٹیبیلیٹی دائمی نہیں کیونکہ کرنسی فلوٹ کر رہی ہے (بیکنگ نہ ہونے کے سبب اور پروڈکشن، سروسز اور اخراجات میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے) اور جیسے جیسے اوپر نیچے ہو گی سٹیبیلیٹی اسی طرح متاثر ہو گی۔ دوم اکانمک ریسیشن کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں زر کی سرکولیشن رک جانا ہے اور سرکولیشن رک جانے سے کام رک جاتا ہے، کام رکنے سے ترقی رک جاتی ہے جس سے ریسیشن کا رپل پیدا ہوتا ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھ لیجیے کہ کوئی بھی شخص کام اس لیے کرتا ہے کہ وہ اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرے اور اس کا رائج وسیلہ زر ہے یعنی وہ اتنا کام کرے تو اس کو اتنا زر ملے گا جو اس کی اتنی ضروریات پوری کرے گا، زر محض ایک ریفرنس ہے اصل قیمت تو اس کے کام کی ہے جو کر کے وہ اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری کرتا ہے۔ اب جب معاشرے میں پیسے کی ترسیل رک جائے گی تو بنیادی طور پر کام رک جائے گا، کام رکنے کا مقصد معاشرہ حرکت سے ساکت ہونے کی طرف چلا گیا ہے، اور جب ایسا ہوتا ہے تو زندگی کا پہیہ جام ہو جاتا ہے جس سے انسان اپنی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر سکتا، ڈاؤن سائزنگ سے نوکریاں چلی جاتی ہیں اور یہ ایفیکٹ نہ صرف پورے معاشرے پہ اثر انداز ہوتا ہے بلکہ تمام انٹیگریٹڈ مارکیٹس اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ اب آپ خود اس بات پہ غور کریں کہ یہ شرح صفر فیصد کے قریب کیوں رکھی گئی ہے اور نارمل کی تعریف کیا ہے؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اب آپ خود اس بات پہ غور کریں کہ یہ شرح صفر فیصد کے قریب کیوں رکھی گئی ہے اور نارمل کی تعریف کیا ہے؟
شرح سود صفر کے ارد گرد زیادہ دیر تک رکھنا اس لئے سود مند نہیں کیونکہ یہ پہلے سے موجود مالیاتی اثاثوں میں سرمایہ کاری کی غیر ضروری ترغیب دیتا ہے۔ یاد رہے کہ کرنسی کی سونے سے بیکنگ ہٹانے کے بعد اس کی اصل قدر کا تعین محض وہ "اعتماد" ہے جو کرنسی جاری کرنے والی ممالک عوام کو دیتے ہیں۔ جب کسی ملک کا مرکزی بینک شرح سود صفر یا منفی کر دیتا ہے تو اس کا یہی مطلب لیا جاتا ہے کہ اب اس کی کرنسی مستقبل میں کسی کام کی نہیں رہی۔ جس کا اثر آپ ان ممالک کے جاری کردہ بانڈز کے "منافع" میں دیکھ سکتے ہیں۔ سویٹزر لینڈ، جرمنی، فرانس، جاپان اور سویڈن کے بانڈز آپ کو دس سالوں میں "منفی" منافع دیں گے :)
http-com-ft-imagepublish-upp-prod-eu-s3-amazonaws.png

International-Interest-Rates-Sept2019-800x371.png

 
آخری تدوین:
Top