السلام علیکم،
گزشتہ دنوں میرا واسطہ اپنی تباہی کے منتظر انتہائی بیش قیمت خزانے سے پڑا، تب سے بے چین تھا کہ محفل کے دوستوں سے سب احوال شئیر کروں۔

ہم سوشل اور ڈیویلپمنٹ سیکٹر کے لوگ بھی گورکن کی سی مثال ہیں۔ جیسے گورکن نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے پیٹ کی خاطر کسی کے مرنے کا منتظر رہتا ہے۔ بس ویسے ہی یہ کچھ سیکٹرز کی روزی روٹی کا دارومدار قدرتی و غیر آفات ، ان کے انتظام و انصرام سے متعلق ہوتا ہے۔ اور عوام پر اللہ کی رحمت کے سبب کچھ عرصہ سے پاکستان کسی بھی قسم کی بڑی آفت سے محفوظ رہا ہے۔ نتیجتاً اب ہم نے روزی روٹی کے لیے اپنے تجربے اور کیرئر کو چھوڑ ایک سائڈ پر رکھ چھوڑا اور اپنے شوق کو ذریعہ معاش بناتے ہوئے ویب ڈیولپمنٹ کے لیے شکار ڈھونڈنے شروع کر دیے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ہمارے ایک سابقہ کولیگ نے ہم سے اپنے ایک ادارے جو کہ ایک بک یعنی کتابوں کا آرکائیو ہے کے لیے ویب سائٹ بنانے کی درخواست کی۔ ان سے پوری تفصیلات اور آرکائیوز ملاحظہ کرنے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اس آرکائیو کے بانی، روحِ رواں اور کرتا دھرتا احمد سلیم صاحب ہیں جن سے ہماری بارہا آفیشل ملاقاتیں رہیں آفس میں اور نیز وہ ڈیویلپمنٹ سیکٹر سے متعلقین ممیں سے ہونےکے علاوہ ایک ادیب، شاعر ، استاد، صحافی اور آرکائیوسٹ بھی ہیں۔ یہ ساری کتب ، رسائل اور اخبارات کا ذخیرہ انہی کی کاوش ہے۔

احمد سلیم صاحب کی ذات کے بارے میں تفصیلی مواد آپ کو کئی اخبارات کے آن لائن ایڈیشنز میں مل جائے گا محترم گوگل کے طفیل۔
بس میں یہاں بتانا چاہوں گا ان کی جمع کردہ کتب، رسائل، جرائد، اور اخبارات کے آرکائیوز کے بارے میں۔
ہزاروں کے حساب سے تاریخی، نایاب اور نادر کتب کا وسیع ذخیرہ دیکھا میں نے جس کا سنبھلنا ایک تنہا اکیلے شخص کے بس سے باہر نظر آیا مجھے۔ انڈیکسنگ سے بے نیاز سیاست، تاریخ، فلسفہ، شاعری، مقالاجات، اخبارات، رسائل، سپریم کورٹ آف پاکستان کی قانونی دستاویزات اور کیسز کی ہسٹری، سرکاری دستاویزات، تعزیرات، قبل و بعد از تقسیم کتب کا ذخیرہ، ہندوستان کی تاریخی کتب، انگریزوں کے تحت جاری کردہ سالانہ ہندوستان رپورٹس، قیام پاکستان سے لیکر کر اب تک کے چیدہ اخبارات کے روزناموں کا ذخیرہ اور نہ جانے کیا کچھ۔ ریسرچ اور انالیسسز، اور اس کے ساتھ ساتھ تقسیم سے پہلے اور بعد کی تاریخی تصاویر کا بہت بڑا ذخیرہ جو ابھی تک میں بھی نہیں دیکھ پایا۔

ان کا واحد ذریعہ آمدنی یونیورسٹیز کے طلباء کو ریسرچ اور تھسزز وغیرہ میں درکار مواد کی کچھ فیس اور ریسرچ اداروں کے حکام کچھ فیس کے عوض یہاں سے اسکین اور فوٹو کاپیز کر کے لے جاتے ہیں۔ کچھ ادارے سنا ہے ان کے ریسرچ پیپرز کو شائع کر کے نام بھی کما چکے لیکن ان کا ذکر تک نہیں کیا۔

احمد سلیم صاحب اپنی عمر کے اس حصے میں ہیں کہ اب انہیں اس اثاثہ کی فکر کھائے جا رہی ہے کہ میرے بعد یہ تباہ ہو جائے گا اور کوئی لوگ ان کتابوں کو بیچ کر ختم کر دیں گے۔ ان کا مقصد ایک ادارے کے طور پر اس آرکائیو کو اسٹیبلیش کرنے کا ہے تاکہ یہاں کی ہر چیز محفوظ (پریزرو)کی جا سکے اور آئندہ نسلوں تک کے استعمال میں آ سکے۔
وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے کتب کا انتہائی برا حال ہے ایک اچھے خاصے کرائے کی کوٹھی لے کر اس میں کتابیں بھر دی گئی ہیں جو کہ اس سب کے لیے بہت کم جگہ ہے، جس کا کرایہ بھی احمد سلیم صاحب کے ہی توسط سے ممکن ہے۔ باقی ان کے گھر میں بھی میں نے اخبارات ، رسائل و جرائد کا ذخیرہ دیکھا جو اسٹورز اور جانے کہاں کہاں رکھا تھا۔
میری خدمات کا معاوضہ بھی بس سروسز کے بجائے اسپیس اور ڈومین کے معاوضے تک ہی ہے۔ باقی فی سبیل اللہ۔ اللہ کرے کچھ اچھا تیار کر پاؤں۔

میں جو ویب سائٹ تیار کر رہا تھا وہ یہ رہی http://sarrc.org.pk/
ان کے خیال میں ان کے پاس جو انٹرنیز کی ایم ایس ورڈ میں تیار کردہ لسٹس موجود ہیں انہی کو سمپلی اَپ لوڈ کر دوں۔ لیکن میں نے ان کو مشورہ یہ دیا کہ نہیں ایک ایک کتاب کے حساب سے الگ الگ انٹریز کریں۔ ٹائٹل کے ساتھ اور پھر ہر کتاب کے ساتھ اس کی قیمت بھی لکھ دیں ڈاؤن لوڈ ایبل اور اسکین یا فوٹو کاپی سے پرنٹڈ کاپی کی بھی۔ اور پھر اگر کوئی آرڈر آتا ہے آپ کے پاس تو اس کے مطابق کسی کو بھی لگا کر اس کو اسکین کروا کر فائل بھجوا دیں یا پھر پرنٹڈ کاپی بھجوا دیں۔ اس مشورے کو انہوں نے تسلیم تو کر لیا ہے۔
اب سب سے بڑا مسئلہ کتب و جرائد کی فہرست بنانے کا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ ٹائٹل کی تصویر اسکین کرنے کا بھی ہے۔ ویب سائٹ کا پلیٹ فارم چونکہ ورڈ پریس ہے اس لیے مائیکرو سافٹ ایکسل میں بنائی گئی لسٹ بھی امپورٹ کی جا سکتی ہے بطور کسٹم پوسٹ ٹائپ کے جو کہ یہاں کتاب ہے۔
کچھ تصاویر شئیر کر رہا ہوں
اس کے بعد دوستوں کی آراء کی اشد ضرورت ہے کہ میں ویب سائٹ کو کس طرح مزید ایسا بنا سکتا ہوں کہ کم محنت میں سب کچھ کور ہو سکے اور اس کے علاوہ ان کے آرکائیوز کو پریزرو یا محفوظ بنانے کے لے کیا کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔


مجلد اخبارات

7760_807568679259029_1843523086_n.jpg


482535_807568682592362_788274004_n.jpg


1610103_807568685925695_1102299199_n.jpg


1017629_807568742592356_1090450018_n.jpg


62928_807568765925687_1507012052_n.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
اس خزانے میں بیشمار ایسی کتابیں ہو سکتی ہیں جن کی مجھے ازلوں سے تلاش ہے، میں منتظر ہوں کہ اس کی کوئی فہرست بن جائے یا اگر بنی ہوئی ہے تو مہیا ہو جائے۔
 
یہ تو بلاشبہ ایک خزانہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت یا کوئی بڑے پائے کی یونیورسٹی اس اثاثے کو خرید لے۔ اور اس تمام مواد کو ڈیجٹلائز کر کے طلباء اور محقیقین کے لئے محفوظ کر لیا جائے۔
 

سید ذیشان

محفلین
لگتا تو یہی ہے کہ کافی نادر قسم کی کتب اس میں موجود ہوں گی۔ اس کا محفوظ کرنے سے کافی لوگوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
خوشی بهی ہوئی اتنا بڑا ذخیرہ کتب دیکه کر اور فکر بهی کہ یہ کیسے سنبهالی جائیں گی. میں بهی فہرست کی منتظر ہوں.
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت معلوماتی دھاگہ ہے ۔
یہ کام تو ایک ٹرسٹ کی تشکیل و انتظام سے ہی ممکن نظر آتا ہے۔ اللہ ہی کوئی صورت نکالے۔ آمین
 

بھلکڑ

لائبریرین
بہت معلوماتی دھاگہ ہے ۔
یہ کام تو ایک ٹرسٹ کی تشکیل و انتظام سے ہی ممکن نظر آتا ہے۔ اللہ ہی کوئی صورت نکالے۔ آمین
بھائی اس پوسٹ سے بالکل اووپر ۔۔۔۔ فرحت آپا کے دستخط میں یہ شعر نظر آرہا ہے ۔۔۔:love::love:۔ ؎
شکوۂ ظُلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے!
:grin::grin::grin:
مجھے لگتا ہے شاید ادھر ہی کوئی گٹھ جوڑ کیا جاسکتا ہے :bighug::bighug:
 
آخری تدوین:

جیہ

لائبریرین
یہ ایک اہم پراجیکٹ ہے اور ایک آدمی کی بس کی بات نہیں۔ ویب سائٹ تو خیر بعد میں بھی بن سکتی ہے۔ سب سے اہم کام ہے فہرست بنانے کی ۔ میرے خیال میں مائکروسافٹ ایکسس میں فہرست بنائی جائے۔ کیسی بنائی جائے اس کے لئے کسی لائبریری سائنس کے ماہر سے مدد لے جا سکتی ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ ایک اہم پراجیکٹ ہے اور ایک آدمی کی بس کی بات نہیں۔ ویب سائٹ تو خیر بعد میں بھی بن سکتی ہے۔ سب سے اہم کام ہے فہرست بنانے کی ۔ میرے خیال میں مائکروسافٹ ایکسس میں فہرست بنائی جائے۔ کیسی بنائی جائے اس کے لئے کسی لائبریری سائنس کے ماہر سے مدد لے جا سکتی ہے
شاکرالقادری
 
Top