تعارف اپنی ذات میں انجمن: سرور عالم راز

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اردو شعر و ادب کے حال اور مستقبل کے حوالے سے جب کبھی گفتگو ہوتی ہے تواس صورتحال کے پس منظر میں کارفرما کئی اور عوامل کے ساتھ ساتھ قحط الرجال کا ایک شکوہ اکثر زبانوں پر نظر آتا ہے۔ یہ شکوہ کتنا حق بجانب ہے اسے پرکھنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اخبارات ، ریڈیو ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اردو زبان کی روز افزوں زوال پذیری سب کے سامنے ہے ۔ حالت اس وقت یہ ہے کہ اردو کی جنم بھومی ہندوستان اور اردو کے گہوارے پاکستان میں اس وقت معیاری ادبی جریدے نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ادبا اور شعرا کی ترجیحات بھی بوجوہ بدل چکی ہیں ۔ادبی روایات روز بروز دم توڑتی جارہی ہیں ۔مجموعی طور پر یہ صورتحال اگرچہ مایوس کن نظر آتی ہے لیکن امید پرست آنکھوں کے لیے اس تاریک منظر نامے پر اب بھی کچھ چمکتے دمکتےستارے موجود ہیں جو رہنمائی کا کام دے رہے ہیں ۔ سرور عالم راز سرورؔ ایسا ہی ایک چمکتا دمکتا رہنما ستارہ ہیں اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ ایک طویل عرصے کے بعد دوبارہ اردو محفل میں رونق افروز ہو ئے ہیں ۔ اردو انٹر نیٹ سے استفادہ کرنے والے طالبانِ شعر و ادب اور سنجیدہ قارئین کے لیے سرور عالم راز کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ان کی مؤقر اور معتبر ویبگاہ اردو انجمن (مرحوم) ایک زمانے میں اردو شعر و ادب کی ترقی و ترویج میں پیش پیش ہوا کرتی تھی ۔اس ویبگاہ کے توسط سے بے شمار شعرا نے ایک عرصے تک ان کے عروضی اسباق اور اصلاح سے استفادہ کیا ہے ۔ ان کی کتاب آسان عروض اور نکاتِ شاعری طالبانِ شعر میں قبول عام پاچکی ہے۔ سرور صاحب میرے بھی معنوی استاد ہیں ۔ میں ان کے خوشہ چینوں میں سے ہوں اور ان کی تحاریر سےاکتساب ِ فیض کا یہ عمل جاری و ساری ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ سرورصاحب اردو کی د م توڑتی ہوئی دیرینہ ادبی روایات اور تہذیب کے آخری روشن چراغوں میں سے ایک چراغ ہیں ، ایک ایسا چراغ جو بہت دیر سے بزمِ شعر و ادب میں لو دے رہا ہے اور کتنے ہی ذہنوں کو منور کرچکا ہے۔مختصر یہ کہ اردو شعر و ادب کے لیے ویسے تو ان کی خدمات سے ایک زمانہ واقف ہے لیکن نو واردان ِ بزم کا تعارف کروانا بھی ایک رسمِ کہن ہے اور آدابِ محفل میں شامل ہے۔ سو اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ سرور صاحب کے مختصر تعارف کا شرف حاصل کیا جائے۔ مزید جاننے کے خواہش مند شائقین کے لیے ان کا مفصل تعارف خود انہی کی زبانی ان کی ذاتی ویبگاہ www.sarwarraz.com پر موجود ہے۔
سرور صاحب نے ۱۹۳۵ء میں ہندوستان کے شہر جبل پور میں ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اوائلِ عمر ہی سے شعر گوئی کا شوق رہا اور اپنے والد راز ؔچاندپوری سےتربیت حاصل کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سائنس اور سول انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم امریکا میں حاصل کی ۔ وہاں سے تحصیلِ اسناد کے بعد کچھ عرصہ علی گڑھ یونیورسٹی میں لیکچرر کے طور پر خدمات ادا کیں اور پھر ۱۹۷۱ء میں امریکا مستقل ہجرت کر گئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پچھلے ۲۸ برسوں سے ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں مقیم ہیں ۔ انجینئرنگ کے موضوع پر ان کی دو کتابیں درسی نصاب میں شامل رہی ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی کتب بعنوانات حج و عمرہ اور کتاب جنائز انگریزی زبان میں ان موضوعات پر ا پنے طرز کی منفرد تصنیفات ہیں ۔ اپنے طویل ادبی سفر کے دوران سرور صاحب نے متعدد تحقیقی اور تنقیدی مضامین تصنیف کیے جو برصغیر کے مؤقر ادبی جرائد کی زینت بنے ۔ سرور صاحب کے کئی شعری مجموعے اور افسانوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ میری خوش قسمتی ہے کہ ان کی یہ تمام کتب ان کے دستخط اور انتساب کے ساتھ میرے پاس موجود ہیں ۔ میں بہت ممنون ہوں کہ میری درخواست پر وہ محفل میں رونق افروز ہونے پر تیار ہوگئے ۔ میں انہیں اردو محفل میں گرمجوشی کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ہمیں دیر تک ان کے شعر و نثر اور علم و ہنر سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ انہیں صحت و تندرستی سے مالا مال رکھے ، ان کےوقت اور توانائی میں برکت عطا فرمائے اور ان کا سایا تادیر سلامت رکھے۔ آمین !

پس نوشت:
سرور عالم راز كی ادبی كتب كی فہرست درجِ ذیل ہے ۔ طالبانِ فیض کے لیے یہ کتب ان کی ویبگاہ پر برقی صورت میں بھی موجود ہیں اور ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

۱۔ شہر نگار، رنگِ گلنار، درِّ شہوار، گلشنِ شیراز : غزلیات کے چار مجموعے
۲۔ تیسرا ہاتھ : افسانوں كا مجموعه
۳۔ باقیاتِ رازؔ : والد مرحوم رازؔ چاندپوری کی شاعری کا تعارف اور تنقید
۴۔ ہماری کہاوتیں : ہندوستانی کہاوتوں پر کتاب
۵۔ آسان عروض اور نکاتِ شاعری : عروض پر عام فہم کتاب ۔ (یہ کتاب ہندوستان اورپاکستان دونوں ملكوں میں شائع ہو چکی ہے)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس دور میں سروؔر عالم راز اردو شاعری کےمعدودے چند اساتذہ میں سے ایک ہیں ۔ عروض اور لسانی مسائل پر ان کی دسترس اور مہارت کا ثبوت ان کے مضامین اور کتب کی صورت میں موجود ہے ۔ اردو شعر اور خصوصاً غزل کی دیرینہ روایات کا التزام اور اس کی ترویج کی کوششیں ان کی قلمی مساعی کا خاص مرکز رہی ہیں۔ بدقسمتی سے اردو دنیا مردہ پرست دنیا ہے ۔ کسی مشہور شاعر و ادیب کے گزرجانے کے بعد ان کے نام کی شامیں منانا اور ان سے تعلق کی آڑ میں اپنا سکہ چمکانا ایک عام چلن ہے ۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ مشاہیر و اکابرین کو ان کی زندگی ہی میں کماحقہ مقام دیاجائے ۔ میں تمام شرکائے بزم کی توجہ اس طرف دلانا چاہوں گا کہ محفل میں سروؔر صاحب کو گرمجوشی اور ادب و احترام کے ساتھ خوش آمدید کہیں اور یہاں ان کی موجودگی سے مستفید ہوں کہ ان کا شریکِ بزم ہونا ہم سب کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ

بہت ہی اچھی خبر سنائی ظہیر بھائی آپ نے۔

انٹرنیٹ کے اردو دان طبقے میں ایسا کون ہے جو جناب سرور راز صاحب کو نہیں جانتا۔ خود مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ سرور راز صاحب نے کچھ اردو فورم پر میرے ناقص کلام کی اصلاح فرمائی ہے۔ اور نکاتِ سخن سے متعلق سرور صاحب کے مضامین بھی میرے زیرِ مطالعہ رہے ہیں۔

اردو محفل پر سرور صاحب کی آمد واقعتاً پر مسرت بات ہے۔

خاکسار دل کی گہرائیوں سے جناب سرور راز صاحب کو اردو محفل میں خوش آمدید کہتا ہے۔ :redheart:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اردو محفل میں سرور عالم صاحب کو تمام محفلین کی جانب سے دلکی گہرائیوں سے خوش آمدید۔
امید ہے کہ ہماری محفل کا تمام ادبی حلقہ آپ کی فیاضیوں سے فیضیاب ہو گا۔
ظہیر بھائی آپ کی اس سعیءپرخلوص کے لیے از حد نیک خواہشات۔
اللہ تعالی اساتذہکو صحت و سلامتی سے رکھے اور علمی سلسلے کو دوام بخشے۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ماشاءاللہ۔
سب سے پہلے تو سرور صاحب خوش آمدید۔
آپ سے متعلق گاہے بگاہے محفل میں ذکرِ خیر تو ہوتا رہا ہے اب خیر سے آپ کی موجودگی سے ہم جیسے مبتدی بھی مقدور بھر استفادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔دعا ہے کہ آپ کا سایہ طالبانِ ادب پر تا دیر سلامت رہے ۔ آمین
 

محمد وارث

لائبریرین
ارے واہ، کیا اچھی خبر سنائی ظہیر صاحب قبلہ۔

اردو محفل میں محترم سرور صاحب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے سعادت کی بات ہے۔کم و بیش ڈیڑھ دہائی قبل وہ گاہے گاہے یہاں اپنا کلام پیش کیا کرتے تھے جو یقیناً یہاں محفوظ ہوگا۔ محترم سرور صاحب کو بار دگر خوش آمدیر کہتا ہوں ۔
 

اکمل زیدی

محفلین
اُردو محفل سے وابستگی پر واقعی کبھی کبھی فخر ہوتا ہے کیسے کیسے نابغہ روزگار ہستیاں یہاں سے وابستہ ہیں اور وابستہ رہیں ۔۔ہماری تو وہ 12 جون 2015 گوگلنگ کی کوئی شبھ گھڑی تھی جو یہاں سے آگاہی ہوئی ۔۔۔ذوق نےلبیک کہا اور ہم نے یہاں کا رُکن بننے میں دیر نہیں لگائی۔۔ ابھی موصوف کے بارے میں معلوم ہوا تو یک گو نہ احساس ہوا ۔۔پھر کچھ ان کے بارے میں جانکاری کی کچھ اشعار نظر سے گذرے خاص کر یہ چار مصرعے ۔۔۔

پچھتانے سے کیا حاصل پچھتانے سے کیا ہو گا
کچھ تونے کیا ہوگا، کچھ تجھ سے ہوا ہو گا
جینے کا مزا جب ہے، جینے کا ہو کچھ حاصل
یوں لاکھ جیے کوئی، توجینے سے کیا ہوگا
خیر ہم کیا اور ہماری بساط کیا ہم تو صرف متاثر ہیں اور مستفید ہونے کی خواہش ہے باقی ظہیر بھائی کا شکریہ کے ان کو ایک بار پھر متعارف کروایا ۔ ۔ ہماری طرف سے دلی خوش آمدید
 

سید ذیشان

محفلین
بہت اچھی خبر ہے ظہیر بھائی۔ راز صاحب سے یہاں بھلا کون واقف نہیں ہو گا؟سرور راز صاحب کو اردو محفل پر دوبارہ خوش آمدید!
 

صریر

محفلین
بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے
داغؔ

محفل میں شامل ہونے سے قبل بھی آپ کے بارے میں سنتا رہا ہوں ۔ آپ کی تحاریر سے، شعر اور عروض کو سمجھنے میں کافی مدد ملی ۔ اللّٰہ آپ کو جزائے خیر دے، اور آپ کی عمر میں برکت دے۔
ہمیں خوشی ہے کے آپ محفل کا حصہ ہیں!!!💐😊
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
اھلا وسھلا مرحبا!
اے عظیم استاد،
استاد اعظم
میرے لیے یہ ایک بہت ہی بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں اردو محفل کے ذریعے ایک اپنے بہت پسندیدہ استاد سے مخاطب ہونے کا شرف حاصل کر رہی ہوں۔ شاعری کی دنیا میں میری آمد ایک محض اتفاقی حادثہ تھا۔ اشعار تھے کہ ذہن میں آتے جاتے تھے مگر دل میں یہ کھٹکا بلکہ قوی یقین تھا کہ شاعری میں بہت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ میرے خوش بختی مجھے اردو محفل پر لے آئی اور میرے اولین استاد استاد محترم ایف عین نے میری خاطر خواہ رہنمائی اور دلجوئی کی۔ یہاں شاعری کی بنیادی معلومات نہ ہونے کے سبب مجھے اپنے استاد محترم اور دوسرے مہربان محفلین کی باتیں سمجھنے میں کافی دقت کا سامنا ہوتا تھا۔ کئی راتیں جاگ کر اور رو رو کر گزاریں کہ کچھ تو سمجھ میں آجائے جیسا کہ اور دوسرے شاعروں کو پہلے سے معلوم ہے۔

اسی تگ و دو میں کئی پرانی لڑیوں میں جا کر سیکھنے کی کوشش کی اور بالآخر میرے ایک مراسلے کے نتیجے میں سید ذیشان صاحب نے مجھے استاد اعظم سرور راز صاحب کے اسباق کا لنک فراہم کیا۔ کیا لمحہ تھا! آج بھی اپنے خوشی کے آنسو یاد کرتی ہوں۔ میں نے ایک ایک لفظ دھیان اور توجہ سے پڑھا تو بہت سی باتیں خود بخود سمجھ میں آنے لگیں۔ یہ اور بات ہے کہ مجھے عروض کو بار بار پڑھنے کے لیے وقت کی قلت کا ہمیشہ سامنا رہا ہے۔ آج بھی کوئی مجھ سے تکنیکی امتحان لے تو مجھے یقین ہے کہ میں شاندار نمبروں سے فیل ہو جاؤں گی۔ مگر حیرت انگیز طور پر ذہن کی گرہیں کھلنے کے باعث میں اب وہ غلطیاں نہیں کرتی جو میرے اشعار کا لازمی جزو ہوا کرتی تھیں۔

استاذی جناب ظہیر احمد ظہیر ، میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے وہ کر دکھایا جو کہ میں نے کبھی خواب میں سوچا تھا۔ آپ نے جب بھی محفل میں استاد اعظم سرور صاحب کا تذکرہ خیر کیا آپ پر بے انتہا رشک آیا اور دل میں دعا کی کہ کاش میں بھی کبھی محترم سرور صاحب سے بات کر سکوں۔ اگرچہ ان کا نمبر غالبا ان کی ویب گاہ پر موجود دیکھ لیا تھا مگر بغیر کسی ریفرنس کے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ میں ایک بار پھر آپ کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتی ہوں۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو ایک طویل عمر صحت و تندرستی کے ساتھ عطا فرمائیں۔ آمین
 
آخری تدوین:
اردو محفل کے سبھی احباب کو آداب عرض :
میں اپنے مشفق دیرینہ ظہیر احمد صاحب کا ممنون احسان ہوں کہ انھوں نے مجھے اس محفل میں مدعو کیا اور آپ سب کا ممنون و متشکر کہ اتنی محبت اور خلوص سے یہاں میری پذیرائی کی۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کومیر سے صحبت نہیں رہی
انشا اللہ آپ سب سے نیاز حاصل ہوتا رہے گا اور میں اگر کوئی خدمت انجام دے سکا تو اس میں کوتاہی نہیں ہوگی۔ ظہیر صاحب نے اُردو کی موجودہ زبوں حالی کا ذکر کیا ہے۔ اس صورت حال کے ذمہ دار خوداہل اردو ہی ہیں۔ ہندوستان میں تو ایک زحمت حکومت اور اہل ہندی کی اُردو دشمنی کے حوالے سے ضرور ہے جس سے انکار ممکن نہیں لیکن پاکستان کی تو قومی زبان اُردو ہے پھر وہاں وہ کیوں بدحالی کا شکار ہے؟ اس پر غور کرنے اور اس صورت حال کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ اس موضوع پر گاہے گاہے گفتگو ہوتی رہے گی۔ اُردو کی زبوں حالی کا ذکر آپ سنتے ہی رہتے ہیں۔ میں چند خوش آئند باتوں کا مختصر ذکر کروں گا جو میرے ذاتی تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہیں۔
آپ میں سے اکثر و بیشتر احباب اس حقیقت سے شاید نا واقف ہوں گے کہ ۱۹۴۷ء تک برطانوی ہند کے سکوں پر ان کی رقم پانچ زبانوں میں درج ہوتی تھی۔[1 ٰٰ] انگریزی جو حاکم وقت کی زبان تھی،[3،2] شمالی ہند کی بنگالی اور اُردو اور [4، 5] جنوبی ہند کی تامل اور تیلگو۔ اس وقت تک ہندی زبان کا وجود بر صغیر میں نہ ہونے کے برابر تھا جب کہ اُردو وہاں کی مقبول ترین زبانوں میں شمار ہوتی تھی۔اُردو دشمنی، تعصب اور تشدد کے موجودہ دور میں بھی اُردو کی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ اس سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں اُردو زبان و ادب کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ فعال محفل : ریختہ: کے نام سے ایک غیر مسلم اُردو پرست شخص نے ہندوستان میں قائم کر رکھی ہے ۔ آپ اس کی وسعت اور ہمہ گیری دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے۔ مجھ کو یقین ہے کہ آپ میں سے بہت سے احباب اس :سائٹ: سے واقف ہوں گے اور جو نہیں ہیں ان سے گذارش ہے کہ انٹر نیٹ پر جا کر اس کو ضروردیکھیں۔
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
شمالی ہندوستان کے اکثر علاقوں میں عوامی زبان یعنی وہ زبان جو عام بول چال میں استعمال ہوتی ہے اب بھی آسان اُردو ہی ہے۔ وقت اور حالات کے ساتھ زبان اور اس کے معیار میں فرق آیا ہے لیکن آسان اردو سے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ ہندی کے بہت سے اخبار ٹکسالی اُردو کے ہزاروں الفاظ اور محاورے بے تکلفی سے لکھتےہیں کیونکہ عوام انھیں آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ وہ جتنے فارسی زدہ اُردو سے نا واقف ہیں اتنے ہی وہ سنسکرت زدہ ہندی سےبھی نا واقف ہیں۔ مدت سےاُردو کے ہزاروں الفاظ عوام کی زبان کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ ہندوستانی فلمیں اس کا ثبوت بہت صاف اور پر زور طریقے سے یوں بہم پہنچاتی ہیں کہ ان کے مکالمے اور گانے اُردو میں ہی ہوتے ہیں حالانکہ سرکاری سرنامہ پر فلم کی زبان :ہندی: لکھی ہوتی ہے۔
جنوں کا نام خرد رکھ دیا، خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ سازکرے
اُردو کے مشہور شعرا میر، غالب، ذوق، مومن، اقبال ، فراق وغیرہ کا کلام کتابی شکل میں ہندی رسم خط میں شائع ہو کر ہندوستان میں نہایت مقبول ہو رہا ہے ۔میں نے لوگوں کو ایسے کلام کے ہندی مجموعے ٹرین میں پڑھتے اورر دوسروں کو سناتے دیکھا ہے۔اس طرح کے کام میں غیر مسلم بہت آگے ہیں۔اس کی انتہا یہ ہے کہ حیدر آباد کے ایک شخص :سری نواس: نے جو تیلگو زبان میں غزل گا کر سنانے کے بہت شائق ہیں اور اسے انھوں نے بطور پیشہ اختیار کیا ہے اپنا نام بدل کر :غزل سری نواس: رکھ لیاہے۔ یہاں یہ ذکر نا مناسب نہ ہوگا کہ میری مدد اور صحبت سے تقریبا بارہ لوگوں نے جن کی مادری زبان اُردو نہیں ہے اُردو نہایت شوق سے سیکھی ہے اور ان میں سے چار دوستوں نے شعرکہنا سیکھ کر با قاعدہ شاعری شروع کر دی ہے۔ ایک صاحب نے تو اس قدر شوق اور محبت کا اظہار کیا کہ اُردو شعر و ادب کا ذوق اپنا کر فارسی سیکھنی شروع کر دی اوراب اس میں بھی ان کو خاصی مہارت حاصل ہو گئی ہے۔انھوں نے انٹر نیٹ پر اپنی چوپال بھی قائم کی ہے جو :دل ناداں۔کام: کے عنوان سے دیکھی جا سکتی ہے۔ موصوف کا تخلص :ناداں: ہے اور ان کی مادر ی زبان تیلگو ہے۔ اب موصوف مقامی مشاعروں کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ اُردو غزل ہندوستان میں بھی اس قدر مقبول ہے کہ اُردو کےعلاوہ ہندی، پنجابی، بنگالی، اُڑیا، گجراتی، مرہٹی ، تیلگو وغیرہ زبانوں میں بھی کہی اور شائع کی جا رہی ہے اور یہ صورت حال برابر ترقی پذیر ہے۔ ان خوش آئند اور ہمت افزاباتوں میں اہل اردو کا حصہ کتنا ہے؟ یہ سوال نہ صرف ٹیڑھا ہے بلکہ مایوس کن اور دل شکن بھی ہے۔ جہاں ہمیں اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے تھا وہاں ہماری ازلی بے حسی، نا اہلی ، سہل انگاری اورکاہلی نے ہمیں کسی مصرف کا نہیں رکھا۔ ہم صرف کھوکھلی باتوں اور نعروں کو ہر کام کی ابتدا اور انتہا سمجھتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیجئے کہ ہندوستان میں اچھے معیار کا ایک بھی اُردو ادبی رسالہ شائع نہیں ہوتا ہے۔:بے ادب: رسالوں کا فقدان البتہ نہیں ہے۔ نئی دہلی کی مشہورزمانہ یونی ورسٹی: جامعہ ملیہ اسلامیہ: کا ادبی پرچم :کتاب نما: بھی حال ہی میں بند ہوگیا ہے کیونکہ اس کو خرید کرپڑھنے والے نا پید ہو گئے ہیں۔ میرے علم کی حد تک یہ ہندوستان کا آخری معیاری ادبی رسالہ تھا الا ماشا اللہ ۔فاعتبرو یا اولی الابصار۔
اس مرحلہ پر یہ سوال مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات میں اہل اردو کا کیا فرض ہے؟ جب تک ہم سب خلوص نیت و دل اور باہمی تعاون سے اس اشد ضروری کام میں نہیں جٹیں گے یہ دال نہیں گلے گی اور ہماری یہ خوبصورت زبان اور اس کا ادبی و شعری خزانا قصہ پارینہ ہو کر رہ جائیں گے۔ یہ نہ بھولئے کہ ہمارا تہذیبی ، ثقافتی، تاریخی، مذہبی ، دینوی، علمی یعنی ہر طرح کا سرمایہ اردو میں ہی میسر اور محفوظ ہے اور ہم اُردو سے ہاتھ دھو کر گویا اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یہاں بات کو طول دینا مطلوب نہیں ہے۔میں فی الوقت صرف دو باتیں عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ باقی آئندہ ہوتی رہیں گی۔
اول تو یہ کہ ہم خلوص دل سے یہ کوشش کریں کہ امکانی حد تک اپنی بول چال اور روابط میں اُردو ہی استعمال کریں ۔ یہ :اردو لکھئے،اردو پڑھئے، اردو بولئے : کی عملی تعبیر کہی جا سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں دل جمعی، نیک نیتی اور نرم گفتاری سے کام لینا ہوگا۔ کسی سے کوئی بات منوانا مقصود نہیں ہے بلکہ خود کو اس پر آمادہ کرنا منظور ہے کہ ہم اپنی زبان کا حق ادا کریں ۔ہم اردو میں وہ سب کر سکتےہیں جو کسی اور زبان یا مختلف زبانوں کی کھچڑی سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوراکثرمنھ کے بل گر پڑتے ہیں۔ اس کام میں وقت لگے گا لیکن صبرو مستقل مزاجی سے یہ منزل آسان ہوجائے گی۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا؟
اُردو کی ایک بنیادی قوت یہ ہے کہ وہ دوسری زبانوں سے مناسب الفاظ مستعاارلے کر اپنے مطلب کا بنا لیتی ہے اور انھیں اپنے ڈھانچے میں جذب کر لیتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ انگریزی اور فرانسیسی کے ہزاروں الفاظ کس طرح اردو میں گھل مل گئے ہیں کہ آپ کو ایسے الفاظ استعمال کرتے وقت کسی اجنبیت کااحساس تک نہیں ہوتا۔ساتھ ہی ہماری ایک بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ دوسری زبانوں کے بہت سے ایسے الفاظ اپنانے کی بے ڈھنگی کوشش کرتے ہیں جن کی ہماری زبان کو ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کے خوبصورت اور آسان متبادل الفاظ ہمارےیہاں موجود ہیں ۔ فضول ٹھوسم ٹھاس مطلق بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔ اس عادت کو چھوڑنے کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے غیر ضروری الفاظ کو استعمال کرنے سے قبل سوچئے کہ کیا اس کا اردو متبادل لفظ موجود ہے ؟ اوراگر ہے تو اس کو اپنی مطلب بر آری کے لئے کیون نہ استعمال کریں اور اس طرح اپنی زبان کی عزت اور اپنے ذاتی وقار کو مزید بلندی سے آشناکریں؟ یہ منزل صبر، نفس کشی اور ریاضت کی منزل ہے اور وقت اور محنت سے سر ہو گی۔ ایسے کام کی ابتدا ہماری اس محفل سے ہو سکتی ہے ۔ اگر ہم غور کریں گے تو اس اقدام کی صلابت اور صداقت پر ایمان لانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ انشا اللہ۔ اس تحریر سے کسی کی دل آزاری مطلق مقصود نہیں ہے۔ اگرکوئی بات کسی دوست کو ناگوار گذری ہے تو میں تہ دل سےمعذرت خواہ ہوں۔
طے کر چکا ہوں راہ محبت کے مرحلے
اس سے زیادہ حاجت شرح وبیاں نہیں

خاکسار: سرور راز​
 

یاسر شاہ

محفلین
اردو محفل کے سبھی احباب کو آداب عرض :
میں اپنے مشفق دیرینہ ظہیر احمد صاحب کا ممنون احسان ہوں کہ انھوں نے مجھے اس محفل میں مدعو کیا اور آپ سب کا ممنون و متشکر کہ اتنی محبت اور خلوص سے یہاں میری پذیرائی کی۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کومیر سے صحبت نہیں رہی
انشا اللہ آپ سب سے نیاز حاصل ہوتا رہے گا اور میں اگر کوئی خدمت انجام دے سکا تو اس میں کوتاہی نہیں ہوگی۔ ظہیر صاحب نے اُردو کی موجودہ زبوں حالی کا ذکر کیا ہے۔ اس صورت حال کے ذمہ دار خوداہل اردو ہی ہیں۔ ہندوستان میں تو ایک زحمت حکومت اور اہل ہندی کی اُردو دشمنی کے حوالے سے ضرور ہے جس سے انکار ممکن نہیں لیکن پاکستان کی تو قومی زبان اُردو ہے پھر وہاں وہ کیوں بدحالی کا شکار ہے؟ اس پر غور کرنے اور اس صورت حال کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ اس موضوع پر گاہے گاہے گفتگو ہوتی رہے گی۔ اُردو کی زبوں حالی کا ذکر آپ سنتے ہی رہتے ہیں۔ میں چند خوش آئند باتوں کا مختصر ذکر کروں گا جو میرے ذاتی تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہیں۔
آپ میں سے اکثر و بیشتر احباب اس حقیقت سے شاید نا واقف ہوں گے کہ ۱۹۴۷ء تک برطانوی ہند کے سکوں پر ان کی رقم پانچ زبانوں میں درج ہوتی تھی۔[1 ٰٰ] انگریزی جو حاکم وقت کی زبان تھی،[3،2] شمالی ہند کی بنگالی اور اُردو اور [4، 5] جنوبی ہند کی تامل اور تیلگو۔ اس وقت تک ہندی زبان کا وجود بر صغیر میں نہ ہونے کے برابر تھا جب کہ اُردو وہاں کی مقبول ترین زبانوں میں شمار ہوتی تھی۔اُردو دشمنی، تعصب اور تشدد کے موجودہ دور میں بھی اُردو کی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ اس سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں اُردو زبان و ادب کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ فعال محفل : ریختہ: کے نام سے ایک غیر مسلم اُردو پرست شخص نے ہندوستان میں قائم کر رکھی ہے ۔ آپ اس کی وسعت اور ہمہ گیری دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے۔ مجھ کو یقین ہے کہ آپ میں سے بہت سے احباب اس :سائٹ: سے واقف ہوں گے اور جو نہیں ہیں ان سے گذارش ہے کہ انٹر نیٹ پر جا کر اس کو ضروردیکھیں۔
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
شمالی ہندوستان کے اکثر علاقوں میں عوامی زبان یعنی وہ زبان جو عام بول چال میں استعمال ہوتی ہے اب بھی آسان اُردو ہی ہے۔ وقت اور حالات کے ساتھ زبان اور اس کے معیار میں فرق آیا ہے لیکن آسان اردو سے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ ہندی کے بہت سے اخبار ٹکسالی اُردو کے ہزاروں الفاظ اور محاورے بے تکلفی سے لکھتےہیں کیونکہ عوام انھیں آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ وہ جتنے فارسی زدہ اُردو سے نا واقف ہیں اتنے ہی وہ سنسکرت زدہ ہندی سےبھی نا واقف ہیں۔ مدت سےاُردو کے ہزاروں الفاظ عوام کی زبان کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ ہندوستانی فلمیں اس کا ثبوت بہت صاف اور پر زور طریقے سے یوں بہم پہنچاتی ہیں کہ ان کے مکالمے اور گانے اُردو میں ہی ہوتے ہیں حالانکہ سرکاری سرنامہ پر فلم کی زبان :ہندی: لکھی ہوتی ہے۔
جنوں کا نام خرد رکھ دیا، خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ سازکرے
اُردو کے مشہور شعرا میر، غالب، ذوق، مومن، اقبال ، فراق وغیرہ کا کلام کتابی شکل میں ہندی رسم خط میں شائع ہو کر ہندوستان میں نہایت مقبول ہو رہا ہے ۔میں نے لوگوں کو ایسے کلام کے ہندی مجموعے ٹرین میں پڑھتے اورر دوسروں کو سناتے دیکھا ہے۔اس طرح کے کام میں غیر مسلم بہت آگے ہیں۔اس کی انتہا یہ ہے کہ حیدر آباد کے ایک شخص :سری نواس: نے جو تیلگو زبان میں غزل گا کر سنانے کے بہت شائق ہیں اور اسے انھوں نے بطور پیشہ اختیار کیا ہے اپنا نام بدل کر :غزل سری نواس: رکھ لیاہے۔ یہاں یہ ذکر نا مناسب نہ ہوگا کہ میری مدد اور صحبت سے تقریبا بارہ لوگوں نے جن کی مادری زبان اُردو نہیں ہے اُردو نہایت شوق سے سیکھی ہے اور ان میں سے چار دوستوں نے شعرکہنا سیکھ کر با قاعدہ شاعری شروع کر دی ہے۔ ایک صاحب نے تو اس قدر شوق اور محبت کا اظہار کیا کہ اُردو شعر و ادب کا ذوق اپنا کر فارسی سیکھنی شروع کر دی اوراب اس میں بھی ان کو خاصی مہارت حاصل ہو گئی ہے۔انھوں نے انٹر نیٹ پر اپنی چوپال بھی قائم کی ہے جو :دل ناداں۔کام: کے عنوان سے دیکھی جا سکتی ہے۔ موصوف کا تخلص :ناداں: ہے اور ان کی مادر ی زبان تیلگو ہے۔ اب موصوف مقامی مشاعروں کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ اُردو غزل ہندوستان میں بھی اس قدر مقبول ہے کہ اُردو کےعلاوہ ہندی، پنجابی، بنگالی، اُڑیا، گجراتی، مرہٹی ، تیلگو وغیرہ زبانوں میں بھی کہی اور شائع کی جا رہی ہے اور یہ صورت حال برابر ترقی پذیر ہے۔ ان خوش آئند اور ہمت افزاباتوں میں اہل اردو کا حصہ کتنا ہے؟ یہ سوال نہ صرف ٹیڑھا ہے بلکہ مایوس کن اور دل شکن بھی ہے۔ جہاں ہمیں اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے تھا وہاں ہماری ازلی بے حسی، نا اہلی ، سہل انگاری اورکاہلی نے ہمیں کسی مصرف کا نہیں رکھا۔ ہم صرف کھوکھلی باتوں اور نعروں کو ہر کام کی ابتدا اور انتہا سمجھتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیجئے کہ ہندوستان میں اچھے معیار کا ایک بھی اُردو ادبی رسالہ شائع نہیں ہوتا ہے۔:بے ادب: رسالوں کا فقدان البتہ نہیں ہے۔ نئی دہلی کی مشہورزمانہ یونی ورسٹی: جامعہ ملیہ اسلامیہ: کا ادبی پرچم :کتاب نما: بھی حال ہی میں بند ہوگیا ہے کیونکہ اس کو خرید کرپڑھنے والے نا پید ہو گئے ہیں۔ میرے علم کی حد تک یہ ہندوستان کا آخری معیاری ادبی رسالہ تھا الا ماشا اللہ ۔فاعتبرو یا اولی الابصار۔
اس مرحلہ پر یہ سوال مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات میں اہل اردو کا کیا فرض ہے؟ جب تک ہم سب خلوص نیت و دل اور باہمی تعاون سے اس اشد ضروری کام میں نہیں جٹیں گے یہ دال نہیں گلے گی اور ہماری یہ خوبصورت زبان اور اس کا ادبی و شعری خزانا قصہ پارینہ ہو کر رہ جائیں گے۔ یہ نہ بھولئے کہ ہمارا تہذیبی ، ثقافتی، تاریخی، مذہبی ، دینوی، علمی یعنی ہر طرح کا سرمایہ اردو میں ہی میسر اور محفوظ ہے اور ہم اُردو سے ہاتھ دھو کر گویا اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یہاں بات کو طول دینا مطلوب نہیں ہے۔میں فی الوقت صرف دو باتیں عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ باقی آئندہ ہوتی رہیں گی۔
اول تو یہ کہ ہم خلوص دل سے یہ کوشش کریں کہ امکانی حد تک اپنی بول چال اور روابط میں اُردو ہی استعمال کریں ۔ یہ :اردو لکھئے،اردو پڑھئے، اردو بولئے : کی عملی تعبیر کہی جا سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں دل جمعی، نیک نیتی اور نرم گفتاری سے کام لینا ہوگا۔ کسی سے کوئی بات منوانا مقصود نہیں ہے بلکہ خود کو اس پر آمادہ کرنا منظور ہے کہ ہم اپنی زبان کا حق ادا کریں ۔ہم اردو میں وہ سب کر سکتےہیں جو کسی اور زبان یا مختلف زبانوں کی کھچڑی سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوراکثرمنھ کے بل گر پڑتے ہیں۔ اس کام میں وقت لگے گا لیکن صبرو مستقل مزاجی سے یہ منزل آسان ہوجائے گی۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا؟
اُردو کی ایک بنیادی قوت یہ ہے کہ وہ دوسری زبانوں سے مناسب الفاظ مستعاارلے کر اپنے مطلب کا بنا لیتی ہے اور انھیں اپنے ڈھانچے میں جذب کر لیتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ انگریزی اور فرانسیسی کے ہزاروں الفاظ کس طرح اردو میں گھل مل گئے ہیں کہ آپ کو ایسے الفاظ استعمال کرتے وقت کسی اجنبیت کااحساس تک نہیں ہوتا۔ساتھ ہی ہماری ایک بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ دوسری زبانوں کے بہت سے ایسے الفاظ اپنانے کی بے ڈھنگی کوشش کرتے ہیں جن کی ہماری زبان کو ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کے خوبصورت اور آسان متبادل الفاظ ہمارےیہاں موجود ہیں ۔ فضول ٹھوسم ٹھاس مطلق بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔ اس عادت کو چھوڑنے کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے غیر ضروری الفاظ کو استعمال کرنے سے قبل سوچئے کہ کیا اس کا اردو متبادل لفظ موجود ہے ؟ اوراگر ہے تو اس کو اپنی مطلب بر آری کے لئے کیون نہ استعمال کریں اور اس طرح اپنی زبان کی عزت اور اپنے ذاتی وقار کو مزید بلندی سے آشناکریں؟ یہ منزل صبر، نفس کشی اور ریاضت کی منزل ہے اور وقت اور محنت سے سر ہو گی۔ ایسے کام کی ابتدا ہماری اس محفل سے ہو سکتی ہے ۔ اگر ہم غور کریں گے تو اس اقدام کی صلابت اور صداقت پر ایمان لانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ انشا اللہ۔ اس تحریر سے کسی کی دل آزاری مطلق مقصود نہیں ہے۔ اگرکوئی بات کسی دوست کو ناگوار گذری ہے تو میں تہ دل سےمعذرت خواہ ہوں۔
طے کر چکا ہوں راہ محبت کے مرحلے
اس سے زیادہ حاجت شرح وبیاں نہیں

خاکسار: سرور راز​
آپ کا مراسلہ آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہوا محترمی۔ تہہ دل سےخوش آمدید۔
 
مرشدی و استاذی جناب سرور صاحب کو یہاں دیکھ کر جتنی خوشی ہو رہی ہے اس کا بیان الفاظ میں مشکل ہے.
اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ وہ استاد محترم کا سایہ شفقت ہم پر تادیر بنائے رکھے. اہل اردو اگر احسان ناشناس نہ ہوتے تو شاید سرور صاحب کے اپنی زبان پر احسانات کا کچھ بدلہ چکا پاتے. سرور صاحب اردو کے لیے تنہا اتنی خدمات سر انجام دی ہیں جو کئی انجمنیں مل کر بھی نہیں کرسکیں گی.
استاد محترم کو محفل میں بار دگر شرکت پر آمادہ کرنے کے لیے مکرمی ظہیر بھائی بھی خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں. جزاک اللہ خیرا.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس مرحلہ پر یہ سوال مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات میں اہل اردو کا کیا فرض ہے؟ جب تک ہم سب خلوص نیت و دل اور باہمی تعاون سے اس اشد ضروری کام میں نہیں جٹیں گے یہ دال نہیں گلے گی اور ہماری یہ خوبصورت زبان اور اس کا ادبی و شعری خزانا قصہ پارینہ ہو کر رہ جائیں گے۔ یہ نہ بھولئے کہ ہمارا تہذیبی ، ثقافتی، تاریخی، مذہبی ، دینوی، علمی یعنی ہر طرح کا سرمایہ اردو میں ہی میسر اور محفوظ ہے اور ہم اُردو سے ہاتھ دھو کر گویا اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یہاں بات کو طول دینا مطلوب نہیں ہے۔میں فی الوقت صرف دو باتیں عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ باقی آئندہ ہوتی رہیں گی۔
اول تو یہ کہ ہم خلوص دل سے یہ کوشش کریں کہ امکانی حد تک اپنی بول چال اور روابط میں اُردو ہی استعمال کریں ۔ یہ :اردو لکھئے،اردو پڑھئے، اردو بولئے : کی عملی تعبیر کہی جا سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں دل جمعی، نیک نیتی اور نرم گفتاری سے کام لینا ہوگا۔ کسی سے کوئی بات منوانا مقصود نہیں ہے بلکہ خود کو اس پر آمادہ کرنا منظور ہے کہ ہم اپنی زبان کا حق ادا کریں ۔ہم اردو میں وہ سب کر سکتےہیں جو کسی اور زبان یا مختلف زبانوں کی کھچڑی سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوراکثرمنھ کے بل گر پڑتے ہیں۔ اس کام میں وقت لگے گا لیکن صبرو مستقل مزاجی سے یہ منزل آسان ہوجائے گی۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا؟

محترمی سرؔور راز صاحب کے اس پرمغز اور فکر انگیز مراسلےکو پڑھ کر غالب کا یہ شعر بے ساختہ زبان پر آیا کہ:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس مختصرسی تحریر میں سرورؔ صاحب نے اردو زبان کی موجودہ صورتحال ، اس کےبنیادی اسباب اور ممکنہ اصلاحی تدابیر کے اہم پہلوؤں کا احاطہ کیاہے۔ اس فکر انگیز تحریر سے اگر کوئی بات سیکھی جاسکتی ہے تو وہ یہ کہ اردو زبان کی ترقی کے لیے اردو سے محبت بنیادی شرط ہے ۔ اگر دل میں محبت ہو تو محبوب خودبخود اولین ترجیح بن جاتا ہے۔ ہمیں اردو کے سلسلے میں یہی محبت والا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے ۔ اردو میں سوچنا ، بولنا ، لکھنا پڑھنا اور اس کے استعمال پر فخر کرنا جب تک ہمارا وتیرہ نہیں بنتا تب تک ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ہی رہیں گی۔ بے شک کسی بھی زبان کی ترویج و ترقی کے لیے کئی اقدامات سرکاری اداروں ، جامعات اور ادبی تنظیموں کو کرنا ہوتے ہیں ، ان کے لیے وسائل کی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن انفرادی سطح پر بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے ۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے ۔ جیسا کہ سرورصاحب نے اپنے مراسلے میں کئی ذاتی مشاہدات اور مثالیں پیش کیں اردوکا بہت سارا کام کئی محبانِ اردو تنِ تنہا کیے جا رہے ہیں۔ ہم میں سے ہرشخص اپنے اپنے حلقۂ اثر میں اردو کی ترقی کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرسکتا ہے ۔ اردو محفل پر اس کی کئی زندہ مثالیں موجود ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری موجودہ دنیا انٹرنیٹ کی دنیا بنتی جارہی ہے ۔کمپیوٹر ٹیکنالوجی زندگی کے ہرشعبے میں تیزی سے تبدیلیاں لارہی ہے ۔بہت سارے دوسرے کاموں کے علاوہ اب اکثریت کا لکھنا پڑھنا بھی انٹرنیٹ پر ہی ہوتا ہے ۔ کتابیں آہستہ آہستہ مرتی جارہی ہیں ۔ خصوصاً ادبی کتب و جرائد کی اشاعت اور خریداری کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے جس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک دو نسلوں کے بعد شاید اردو شعر وا دب کی کتابیں شائع ہونا ہی بند ہوجائیں بلکہ کچھ لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ دو تین نسلوں بعد ممکن ہے بچوں کو لکھائی سیکھنے کی ضرورت بھی باقی نہ رہے ۔ اردو کی ترویج و ترقی کی کسی بھی کوشش میں اس بدلتی صورتحال کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر زبان کی صحت کو قائم رکھنا اشد ضروری ہے کہ ہماری آئندہ نسلیں یہیں سے اردو سیکھیں گی ۔
اردو محفل ایک عرصے سے اردو کی ایک معتبر اور معیاری ویبگاہ چلی آرہی ہے۔ الحمدللہ اس چوپال میں متعدد اہلِ علم و ہنر اور قابل لوگ اردو شعر و ادب کی بساط بھر خدمت میں مصروف ہیں ۔بے شمار اردو پڑھنے والے یہاں سے استفادہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ مجھ سمیت اس محفل کے تمام اراکین کے لیے ضروری ہے ہے کہ وہ حتی المقدور زبان کےمعیار کو قائم رکھنے کی کوشش کریں ۔ اردو کی کم از کم اتنی خدمت تو ہم میں سے ہرشخص ہی کرسکتا ہے ۔ گپ شپ اور ہنسی مذاق کے زمروں میں املا اور گرامر کی کی جو بنیادی اغلاط اکثر نظر آتی ہیں ان سے بہت حد تک بچا جاسکتا ہے ۔بس ذرا سی کوشش شرط ہے۔ کئی معیاری اور معتبر اردو لغات اب آنلائن موجود ہیں اور ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ مقتدرہ اردو پاکستان نے اب اردو صوتی لغت بھی آنلائن مہیا کردی ہےجو ایک بہت اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے ۔ اس صوتی لغت کی بدولت آئندہ نسلوں کے لیے اردو الفاظ کا معیار ی تلفظ محفوظ ہوگیا ہے۔( یہ الگ بات ہے کہ اس لغت کو بہتر بنانے اور اغلاط سے پاک کرنے کی ضرورت ابھی باقی ہے ۔) ۔
ایک آخری بات یہ کہ اگر چراغ بننا ممکن نہ ہو تو فانوس بن کر کسی چراغ کی حفاظت کرنا بھی قابلِ قدر اور لائقِ تحسین عمل ہے۔ یعنی وہ لوگ یا ادارے جو کسی نہ کسی صورت میں اردو کی ترقی و ترویج سے وابستہ ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں ہر ممکنہ تعاون فراہم کرنا بھی دراصل خدمت کی ایک صورت ہے۔ سو ضرورت اس بات کی ہے کہ محبانِ اردو سنجیدگی کے ساتھ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر حتی المقدور مصروفِ عمل ہوجائیں ۔
 
عزیزان مکرم: سلام علیکم
اس محفل میں نووارد ہوں اور اس کی بھول بھلیوں میں بارہا گم ہو چکا ہوں۔آپ کے مراسلوں نے اس سفر کو خوشگوار بنا رکھا ہے۔ یہاں کتنے ہی پرانے دوستوں اور رفیقوں سے ایک مدت کے بعد ملاقات ہوئی، پرانی یادیں تازہ ہوئیں اور ایک آدھ پرانی کسک بھی ابھر آئی۔ فردا فردا ہر عزیز کے خط کا جواب دینا بہت مشکل ہے۔ عمر عزیز کی اٹھاسی شامیں جھیلنے کے بعد اگر بقول غالب قویٰ مضمحل ہو گئے ہیں تو کیا حیرت ہے۔ چنانچہ میری کم ہمتی اور کم مائیگی کے پیش نظر آپ دل کی گہرائیوں سےمیرا ہدیہء تشکر قبول کریں اور میری کوتاہی کو معاف کردیں تو بڑی عنایت ہوگی۔ یہاں عزیزہ صابرہ امین کا ذکر ضروری ہے جن کےخط نے جہاں مسرت سے سرشار کیا وہیں میں احساس ندامت سے بھی آشنا ہوا۔ کچھ اس لئے کہ میں ان کے پرشکوہ الفاظ و القاب کا مستحق نہیں اور کچھ اس لئے کہ معلوم نہیں ان کو مجھ سے رابطہ کرنے میں اتنا تکلف کیوں ہوا۔ ان سے گذارش ہے کہ وہ جب چاہیں مجھ سے یہ خوش آئند رابطہ قائم کر سکتی ہیں۔
محفل کی سیر کے دوران سوچتا رہا کہ موضوع اور مضمون کی ایسی فراوانی میں یہاں کیا پیش کر سکتا ہوں ۔غزل یا نظم آسان کام ہیں اور مقالہ وقت چاہتا ہے ۔ ممکن ہے پرانی تہذیب سے متعلق وہ چند باتیں آپ کی دلچسپی کی ہوں جن سے میں اوائل عمر میں آشنا ہوا اورجن سے بزرگوں کے اکرام، اخلاق اور تربیت کے طریقوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اب یہ باتیں وقت کے تقاضوں اورمغربی تمدن کی یورش میں گم ہوگئی ہیں۔کچھ دوستوں کے لئے ان فرسودہ یادوں میں دلچسپی کا سامان ہوگا اور دوسروں کو بری یقینا نہیں لگیں گی کیونکہ اچھی بات اچھی ہی رہتی ہے۔ چنانچہ جلد ہی چند باتیں عرض کروں گا۔ گر قبول افتد، زہے عزو و شرف۔یار زندہ صحبت باقی۔
ابھی مکرم بندہ ظہیر صاحب کا مراسلہ پڑھا ۔ انھوں نے بڑی سود مند باتیں کی ہیں اور مفید مشوروں سے نوازا ہے۔ کام ہر شخص ہر سطح پر کر سکتا ہے ۔ امید ہے کہ ہم اردو اور اردو تہذیب کی محبت میں وہی سرگرمی دکھائیں گے جو دوسرے کاموں میں دکھاتے ہیں۔ کوئی کام صرف باتوں سے نہیں ہوتا، دامے ،درمے، قدمے ،سخنے مل جل کر محنت سے ہوتا ہے اورکوئی چارہ کار نہیں ہے۔ تو پھر کیوں دیر کی جائے؟
سرور راز
 

صابرہ امین

لائبریرین
وعلیکم السلام میرے محترم استاد،
کاش میں آپ کو بتا سکتی کہ آپ کا جوابی خط مجھے کتنا سرشار کر گیا ہے۔ قدم زمین پر ہی نہیں پڑتے۔ آپ کی کسر نفسی نے دل میں آپ کی عظمت اور بڑھا دی ہے۔
دل چاہ رہا ہے کہآپ سے ابھی بات کی جائے مگر برا ہو اس وائرل انفیکشن کا کہ جس نے پہلے صاحب اور بیٹی اور اب مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آواز بالکل بند ہو چکی ہے۔ اینٹی بائیوٹک سے امید ہے کہ جلد بہتری آئےگی اور میں آپ سے براہ راست گفتگو کا شرف حاصل کر سکوں گی۔ ان شا اللہ

اچانک سے کرسٹوفر کولمبس کی ْقدرومنزلت میں بھی بے انتہا اضافہ ہو گیا ہے جس کی دریافت نے میرے تین بہترین اساتذہ استاد محترم الف عین ، استاذی ظہیراحمدظہیر اور استاد اعظم سرور عالم راز کو ایک ملک میں اکھٹا کر دیا ہے ۔ اب دل میں ایک اور تمنا در آئی ہے کہ کسی ردز آپ سب کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا جائے۔ دل اس وقت تک بے چین ہی رہے گا!

روز آتے ہیں مجھ کو خواب نئے
اور قیامت بھی روز ڈھاتے ہیں

کیا کیجیے!!
ایک بار پھر شکریہ۔۔۔اے میرے عظیم استاد ۔ ۔ اللہ آپ سے راضی ہو اور آپ کا سایہ ہم پر، اردو محفل پر تادیر قائم رکھے۔ آمین
 
آخری تدوین:
ممکن ہے پرانی تہذیب سے متعلق وہ چند باتیں آپ کی دلچسپی کی ہوں جن سے میں اوائل عمر میں آشنا ہوا اورجن سے بزرگوں کے اکرام، اخلاق اور تربیت کے طریقوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اب یہ باتیں وقت کے تقاضوں اورمغربی تمدن کی یورش میں گم ہوگئی ہیں۔کچھ دوستوں کے لئے ان فرسودہ یادوں میں دلچسپی کا سامان ہوگا اور دوسروں کو بری یقینا نہیں لگیں گی کیونکہ اچھی بات اچھی ہی رہتی ہے۔
ہمیں شدت سے انتظار رہے گا ... میں تو ویسے بھی ماضی پرست آدمی ہوں :).
 
Top