اردو شعر و ادب کے حال اور مستقبل کے حوالے سے جب کبھی گفتگو ہوتی ہے تواس صورتحال کے پس منظر میں کارفرما کئی اور عوامل کے ساتھ ساتھ قحط الرجال کا ایک شکوہ اکثر زبانوں پر نظر آتا ہے۔ یہ شکوہ کتنا حق بجانب ہے اسے پرکھنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اخبارات ، ریڈیو ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اردو زبان کی روز افزوں زوال پذیری سب کے سامنے ہے ۔ حالت اس وقت یہ ہے کہ اردو کی جنم بھومی ہندوستان اور اردو کے گہوارے پاکستان میں اس وقت معیاری ادبی جریدے نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ادبا اور شعرا کی ترجیحات بھی بوجوہ بدل چکی ہیں ۔ادبی روایات روز بروز دم توڑتی جارہی ہیں ۔مجموعی طور پر یہ صورتحال اگرچہ مایوس کن نظر آتی ہے لیکن امید پرست آنکھوں کے لیے اس تاریک منظر نامے پر اب بھی کچھ چمکتے دمکتےستارے موجود ہیں جو رہنمائی کا کام دے رہے ہیں ۔ سرور عالم راز سرورؔ ایسا ہی ایک چمکتا دمکتا رہنما ستارہ ہیں اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ ایک طویل عرصے کے بعد دوبارہ اردو محفل میں رونق افروز ہو ئے ہیں ۔ اردو انٹر نیٹ سے استفادہ کرنے والے طالبانِ شعر و ادب اور سنجیدہ قارئین کے لیے سرور عالم راز کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ان کی مؤقر اور معتبر ویبگاہ اردو انجمن (مرحوم) ایک زمانے میں اردو شعر و ادب کی ترقی و ترویج میں پیش پیش ہوا کرتی تھی ۔اس ویبگاہ کے توسط سے بے شمار شعرا نے ایک عرصے تک ان کے عروضی اسباق اور اصلاح سے استفادہ کیا ہے ۔ ان کی کتاب آسان عروض اور نکاتِ شاعری طالبانِ شعر میں قبول عام پاچکی ہے۔ سرور صاحب میرے بھی معنوی استاد ہیں ۔ میں ان کے خوشہ چینوں میں سے ہوں اور ان کی تحاریر سےاکتساب ِ فیض کا یہ عمل جاری و ساری ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ سرورصاحب اردو کی د م توڑتی ہوئی دیرینہ ادبی روایات اور تہذیب کے آخری روشن چراغوں میں سے ایک چراغ ہیں ، ایک ایسا چراغ جو بہت دیر سے بزمِ شعر و ادب میں لو دے رہا ہے اور کتنے ہی ذہنوں کو منور کرچکا ہے۔مختصر یہ کہ اردو شعر و ادب کے لیے ویسے تو ان کی خدمات سے ایک زمانہ واقف ہے لیکن نو واردان ِ بزم کا تعارف کروانا بھی ایک رسمِ کہن ہے اور آدابِ محفل میں شامل ہے۔ سو اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ سرور صاحب کے مختصر تعارف کا شرف حاصل کیا جائے۔ مزید جاننے کے خواہش مند شائقین کے لیے ان کا مفصل تعارف خود انہی کی زبانی ان کی ذاتی ویبگاہ
www.sarwarraz.com پر موجود ہے۔
سرور صاحب نے ۱۹۳۵ء میں ہندوستان کے شہر جبل پور میں ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اوائلِ عمر ہی سے شعر گوئی کا شوق رہا اور اپنے والد راز ؔچاندپوری سےتربیت حاصل کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سائنس اور سول انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم امریکا میں حاصل کی ۔ وہاں سے تحصیلِ اسناد کے بعد کچھ عرصہ علی گڑھ یونیورسٹی میں لیکچرر کے طور پر خدمات ادا کیں اور پھر ۱۹۷۱ء میں امریکا مستقل ہجرت کر گئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پچھلے ۲۸ برسوں سے ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں مقیم ہیں ۔ انجینئرنگ کے موضوع پر ان کی دو کتابیں درسی نصاب میں شامل رہی ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی کتب بعنوانات حج و عمرہ اور کتاب جنائز انگریزی زبان میں ان موضوعات پر ا پنے طرز کی منفرد تصنیفات ہیں ۔ اپنے طویل ادبی سفر کے دوران سرور صاحب نے متعدد تحقیقی اور تنقیدی مضامین تصنیف کیے جو برصغیر کے مؤقر ادبی جرائد کی زینت بنے ۔ سرور صاحب کے کئی شعری مجموعے اور افسانوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ میری خوش قسمتی ہے کہ ان کی یہ تمام کتب ان کے دستخط اور انتساب کے ساتھ میرے پاس موجود ہیں ۔ میں بہت ممنون ہوں کہ میری درخواست پر وہ محفل میں رونق افروز ہونے پر تیار ہوگئے ۔ میں انہیں اردو محفل میں گرمجوشی کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ہمیں دیر تک ان کے شعر و نثر اور علم و ہنر سے مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ انہیں صحت و تندرستی سے مالا مال رکھے ، ان کےوقت اور توانائی میں برکت عطا فرمائے اور ان کا سایا تادیر سلامت رکھے۔ آمین !
پس نوشت:
سرور عالم راز كی ادبی كتب كی فہرست درجِ ذیل ہے ۔ طالبانِ فیض کے لیے یہ کتب ان کی ویبگاہ پر برقی صورت میں بھی موجود ہیں اور ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ شہر نگار، رنگِ گلنار، درِّ شہوار، گلشنِ شیراز : غزلیات کے چار مجموعے
۲۔ تیسرا ہاتھ : افسانوں كا مجموعه
۳۔ باقیاتِ رازؔ : والد مرحوم رازؔ چاندپوری کی شاعری کا تعارف اور تنقید
۴۔ ہماری کہاوتیں : ہندوستانی کہاوتوں پر کتاب
۵۔ آسان عروض اور نکاتِ شاعری : عروض پر عام فہم کتاب ۔ (یہ کتاب ہندوستان اورپاکستان دونوں ملكوں میں شائع ہو چکی ہے)