اردو محفل کے سبھی
احباب کو آداب عرض :
میں اپنے مشفق دیرینہ ظہیر احمد صاحب کا ممنون احسان ہوں کہ انھوں نے مجھے اس محفل میں مدعو کیا اور آپ سب کا ممنون و متشکر کہ اتنی محبت اور خلوص سے یہاں میری پذیرائی کی۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کومیر سے صحبت نہیں رہی
انشا اللہ آپ سب سے نیاز حاصل ہوتا رہے گا اور میں اگر کوئی خدمت انجام دے سکا تو اس میں کوتاہی نہیں ہوگی۔ ظہیر صاحب نے اُردو کی موجودہ زبوں حالی کا ذکر کیا ہے۔ اس صورت حال کے ذمہ دار خوداہل اردو ہی ہیں۔ ہندوستان میں تو ایک زحمت حکومت اور اہل ہندی کی اُردو دشمنی کے حوالے سے ضرور ہے جس سے انکار ممکن نہیں لیکن پاکستان کی تو قومی زبان اُردو ہے پھر وہاں وہ کیوں بدحالی کا شکار ہے؟ اس پر غور کرنے اور اس صورت حال کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ اس موضوع پر گاہے گاہے گفتگو ہوتی رہے گی۔ اُردو کی زبوں حالی کا ذکر آپ سنتے ہی رہتے ہیں۔ میں چند خوش آئند باتوں کا مختصر ذکر کروں گا جو میرے ذاتی تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہیں۔
آپ میں سے اکثر و بیشتر احباب اس حقیقت سے شاید نا واقف ہوں گے کہ ۱۹۴۷ء تک برطانوی ہند کے سکوں پر ان کی رقم پانچ زبانوں میں درج ہوتی تھی۔[1 ٰٰ] انگریزی جو حاکم وقت کی زبان تھی،[3،2] شمالی ہند کی بنگالی اور اُردو اور [4، 5] جنوبی ہند کی تامل اور تیلگو۔ اس وقت تک ہندی زبان کا وجود بر صغیر میں نہ ہونے کے برابر تھا جب کہ اُردو وہاں کی مقبول ترین زبانوں میں شمار ہوتی تھی۔اُردو دشمنی، تعصب اور تشدد کے موجودہ دور میں بھی اُردو کی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ اس سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں اُردو زبان و ادب کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ فعال محفل : ریختہ: کے نام سے ایک غیر مسلم اُردو پرست شخص نے ہندوستان میں قائم کر رکھی ہے ۔ آپ اس کی وسعت اور ہمہ گیری دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے۔ مجھ کو یقین ہے کہ آپ میں سے بہت سے احباب اس :سائٹ: سے واقف ہوں گے اور جو نہیں ہیں ان سے گذارش ہے کہ انٹر نیٹ پر جا کر اس کو ضروردیکھیں۔
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
شمالی ہندوستان کے اکثر علاقوں میں عوامی زبان یعنی وہ زبان جو عام بول چال میں استعمال ہوتی ہے اب بھی آسان اُردو ہی ہے۔ وقت اور حالات کے ساتھ زبان اور اس کے معیار میں فرق آیا ہے لیکن آسان اردو سے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ ہندی کے بہت سے اخبار ٹکسالی اُردو کے ہزاروں الفاظ اور محاورے بے تکلفی سے لکھتےہیں کیونکہ عوام انھیں آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ وہ جتنے فارسی زدہ اُردو سے نا واقف ہیں اتنے ہی وہ سنسکرت زدہ ہندی سےبھی نا واقف ہیں۔ مدت سےاُردو کے ہزاروں الفاظ عوام کی زبان کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ ہندوستانی فلمیں اس کا ثبوت بہت صاف اور پر زور طریقے سے یوں بہم پہنچاتی ہیں کہ ان کے مکالمے اور گانے اُردو میں ہی ہوتے ہیں حالانکہ سرکاری سرنامہ پر فلم کی زبان :ہندی: لکھی ہوتی ہے۔
جنوں کا نام خرد رکھ دیا، خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ سازکرے
اُردو کے مشہور شعرا میر، غالب، ذوق، مومن، اقبال ، فراق وغیرہ کا کلام کتابی شکل میں ہندی رسم خط میں شائع ہو کر ہندوستان میں نہایت مقبول ہو رہا ہے ۔میں نے لوگوں کو ایسے کلام کے ہندی مجموعے ٹرین میں پڑھتے اورر دوسروں کو سناتے دیکھا ہے۔اس طرح کے کام میں غیر مسلم بہت آگے ہیں۔اس کی انتہا یہ ہے کہ حیدر آباد کے ایک شخص :سری نواس: نے جو تیلگو زبان میں غزل گا کر سنانے کے بہت شائق ہیں اور اسے انھوں نے بطور پیشہ اختیار کیا ہے اپنا نام بدل کر :غزل سری نواس: رکھ لیاہے۔ یہاں یہ ذکر نا مناسب نہ ہوگا کہ میری مدد اور صحبت سے تقریبا بارہ لوگوں نے جن کی مادری زبان اُردو نہیں ہے اُردو نہایت شوق سے سیکھی ہے اور ان میں سے چار دوستوں نے شعرکہنا سیکھ کر با قاعدہ شاعری شروع کر دی ہے۔ ایک صاحب نے تو اس قدر شوق اور محبت کا اظہار کیا کہ اُردو شعر و ادب کا ذوق اپنا کر فارسی سیکھنی شروع کر دی اوراب اس میں بھی ان کو خاصی مہارت حاصل ہو گئی ہے۔انھوں نے انٹر نیٹ پر اپنی چوپال بھی قائم کی ہے جو :دل ناداں۔کام: کے عنوان سے دیکھی جا سکتی ہے۔ موصوف کا تخلص :ناداں: ہے اور ان کی مادر ی زبان تیلگو ہے۔ اب موصوف مقامی مشاعروں کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ اُردو غزل ہندوستان میں بھی اس قدر مقبول ہے کہ اُردو کےعلاوہ ہندی، پنجابی، بنگالی، اُڑیا، گجراتی، مرہٹی ، تیلگو وغیرہ زبانوں میں بھی کہی اور شائع کی جا رہی ہے اور یہ صورت حال برابر ترقی پذیر ہے۔ ان خوش آئند اور ہمت افزاباتوں میں اہل اردو کا حصہ کتنا ہے؟ یہ سوال نہ صرف ٹیڑھا ہے بلکہ مایوس کن اور دل شکن بھی ہے۔ جہاں ہمیں اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے تھا وہاں ہماری ازلی بے حسی، نا اہلی ، سہل انگاری اورکاہلی نے ہمیں کسی مصرف کا نہیں رکھا۔ ہم صرف کھوکھلی باتوں اور نعروں کو ہر کام کی ابتدا اور انتہا سمجھتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیجئے کہ ہندوستان میں اچھے معیار کا ایک بھی اُردو ادبی رسالہ شائع نہیں ہوتا ہے۔:بے ادب: رسالوں کا فقدان البتہ نہیں ہے۔ نئی دہلی کی مشہورزمانہ یونی ورسٹی: جامعہ ملیہ اسلامیہ: کا ادبی پرچم :کتاب نما: بھی حال ہی میں بند ہوگیا ہے کیونکہ اس کو خرید کرپڑھنے والے نا پید ہو گئے ہیں۔ میرے علم کی حد تک یہ ہندوستان کا آخری معیاری ادبی رسالہ تھا الا ماشا اللہ ۔فاعتبرو یا اولی الابصار۔
اس مرحلہ پر یہ سوال مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات میں اہل اردو کا کیا فرض ہے؟ جب تک ہم سب خلوص نیت و دل اور باہمی تعاون سے اس اشد ضروری کام میں نہیں جٹیں گے یہ دال نہیں گلے گی اور ہماری یہ خوبصورت زبان اور اس کا ادبی و شعری خزانا قصہ پارینہ ہو کر رہ جائیں گے۔ یہ نہ بھولئے کہ ہمارا تہذیبی ، ثقافتی، تاریخی، مذہبی ، دینوی، علمی یعنی ہر طرح کا سرمایہ اردو میں ہی میسر اور محفوظ ہے اور ہم اُردو سے ہاتھ دھو کر گویا اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یہاں بات کو طول دینا مطلوب نہیں ہے۔میں فی الوقت صرف دو باتیں عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ باقی آئندہ ہوتی رہیں گی۔
اول تو یہ کہ ہم خلوص دل سے یہ کوشش کریں کہ امکانی حد تک اپنی بول چال اور روابط میں اُردو ہی استعمال کریں ۔ یہ :اردو لکھئے،اردو پڑھئے، اردو بولئے : کی عملی تعبیر کہی جا سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں دل جمعی، نیک نیتی اور نرم گفتاری سے کام لینا ہوگا۔ کسی سے کوئی بات منوانا مقصود نہیں ہے بلکہ خود کو اس پر آمادہ کرنا منظور ہے کہ ہم اپنی زبان کا حق ادا کریں ۔ہم اردو میں وہ سب کر سکتےہیں جو کسی اور زبان یا مختلف زبانوں کی کھچڑی سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوراکثرمنھ کے بل گر پڑتے ہیں۔ اس کام میں وقت لگے گا لیکن صبرو مستقل مزاجی سے یہ منزل آسان ہوجائے گی۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا؟
اُردو کی ایک بنیادی قوت یہ ہے کہ وہ دوسری زبانوں سے مناسب الفاظ مستعاارلے کر اپنے مطلب کا بنا لیتی ہے اور انھیں اپنے ڈھانچے میں جذب کر لیتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ انگریزی اور فرانسیسی کے ہزاروں الفاظ کس طرح اردو میں گھل مل گئے ہیں کہ آپ کو ایسے الفاظ استعمال کرتے وقت کسی اجنبیت کااحساس تک نہیں ہوتا۔ساتھ ہی ہماری ایک بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ دوسری زبانوں کے بہت سے ایسے الفاظ اپنانے کی بے ڈھنگی کوشش کرتے ہیں جن کی ہماری زبان کو ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کے خوبصورت اور آسان متبادل الفاظ ہمارےیہاں موجود ہیں ۔ فضول ٹھوسم ٹھاس مطلق بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔ اس عادت کو چھوڑنے کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے غیر ضروری الفاظ کو استعمال کرنے سے قبل سوچئے کہ کیا اس کا اردو متبادل لفظ موجود ہے ؟ اوراگر ہے تو اس کو اپنی مطلب بر آری کے لئے کیون نہ استعمال کریں اور اس طرح اپنی زبان کی عزت اور اپنے ذاتی وقار کو مزید بلندی سے آشناکریں؟ یہ منزل صبر، نفس کشی اور ریاضت کی منزل ہے اور وقت اور محنت سے سر ہو گی۔ ایسے کام کی ابتدا ہماری اس محفل سے ہو سکتی ہے ۔ اگر ہم غور کریں گے تو اس اقدام کی صلابت اور صداقت پر ایمان لانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ انشا اللہ۔ اس تحریر سے کسی کی دل آزاری مطلق مقصود نہیں ہے۔ اگرکوئی بات کسی دوست کو ناگوار گذری ہے تو میں تہ دل سےمعذرت خواہ ہوں۔
طے کر چکا ہوں راہ محبت کے مرحلے
اس سے زیادہ حاجت شرح وبیاں نہیں
خاکسار: سرور راز