نمرہ
محفلین
خدا جانے اس میں کوئی بھلائی دنیا کی ہے کہ برائی ہماری کہ ہم جب جہاں رہتے ہیں، اکیلے رہتے ہیں۔ اکیلے ہوں تو اکیلے ہوتے ہیں۔ لوگوں میں ہوں تو اور بھی اکیلے ہوتے ہیں۔
یوں تو اکیلے رہنے میں کوئی خاص برائی نہیں، فوائد خاص ہیں البتہ۔ لوگوں کی بھیڑ میں رہنے سے انسان، انسان نہیں رہتا بلکہ بھیڑ بن رہ جاتا ہے، جو گروہ کے ساتھ چلتی ہیں اور ساتھ رکتی ہیں۔ آدمیت کے تقاضوں کے علاوہ انفرادیت کا بھی خون ہو کر رہ جاتا ہے جب کسی کا نہ اپنا چہرہ باقی رہتا ہے نہ اپنی آواز۔ لیکن پھر انفرادیت سے اور کچھ ملے نہ ملے، خوشی ہرگز نہیں ملتی۔
ہمیں دنیا سے یہ شکایت تو ہمیشہ رہی ہے کہ یہ ہمیں الگ رکھتی ہے اپنے حلقوں سے لیکن پھر انصاف کی بات تو یہ ہے کہ دنیا کو بھی بہت سی شکایتیں ہوں گی ہم سے جو آج تک ہم نے سمجھنے دور کرنے کی تو جانے دیجیے، سننے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اپنے دفاع میں ہم اتنا کہیں گے کہ زندگی میں وقت اتنا کم ہوتا ہے اور سننے سمجھنے کا سامان اتنا زیادہ کہ ہم ایسی باریکیوں پر غور کرنے سے قاصر پاتے ہیں اپنے آپ کو کہ دنیا کیا سوچتی ہے اور وہ بھی ہمارے بارے میں۔ اپنے بارے میں تو ہم خود گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی اور کیوں کرے اور کرے تو ہم کیوں سنیں۔
اکیلے پھرنے کا یہ فائدہ ہمیں ضرور نظر آتا ہے کہ ہمیں وہ کچھ دکھائی دیتا ہے جو لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا، مثلا وجوہات کی وجوہات۔ مثال کے طور پر کوئی ہمارے ساتھ معیار سے کم اچھا سلوک کرے تو پانچ سیکنڈ خوب خوب بل کھانے کے بعد ہم سوچنا شروع کرتے ہیں کہ فلاں نے ہمارے ساتھ برا کیا تو کیوں کیا ۔ اگر عادت سے مجبور ہو کر تو عادت کی بھی کیا وجہ ہے اور جن حالات میں یہ عادت پروان چڑھی ان کا باعث کیا کہاں کی خرابی تھی۔ پھر یہ کہ وہ خرابی اگر نظام میں تھی تو کتنی غیر منصفانہ تھی اور یہ کہ نظام میں مزید کہاں کہاں خرابیاں ہیں۔ نا انصافی دنیا میں کس قدر چھائی ہوئی ہے اور اس کی جڑیں کس قدر گہری ہیں اور پھر تماشا یہ کہ لوگوں کو بالکل نظر بھی نہیں آتی کیونکہ لوگ وہی اور صرف وہی کچھ دیکھتے ہیں جو گروپ دیکھتا ہے اور گروپ سٹیٹس کو کس طور دیکھ سکتا ہے بھلا۔
خیال کی رو کی اس قدر آوارہ گردی کے بعد ظاہر ہے غصہ کس کافر کو آ سکتا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ یہاں پہنچ کر ہمارا دل پگھل چکا ہوتا ہے، شخص مذکورہ سے لے کر تمام بنی آدم تک کے لیے۔ اب ہم اس کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں کہ اگلی مرتبہ اس انسان سے کوئی معاملہ پیش آئے تو اسے معمول سے زیادہ میٹھی مسکراہٹ دیں اور اوسط سے زیادہ چھوٹ کیونکہ ہمارے ذہن کے پردے پر اس کی تمام زندگی کی پروبیبل کہانی لہرا رہی ہو گی۔
اتنی لمبی چوڑی ذہنی مشق کے بعد بھی اگر ہمارے اندر بدمزگی کی کوئی بھولی بھٹکی رمق رہ جائے تو ہم اپنے آپ کو بتاتے ہیں کہ غیر کی بد تمیزی میں ہمارا گیا ہی کیا۔ اگر نقصان ہوا تو کیا فرق پڑتا ہے، اگر تلخ کلامی ہوئی تو ہماری مسکراہٹ کی شیرینی تو وہی رہی اس کے بعد بھی۔ یوں بھی ہم کلی طور پر امیون ہیں، دنیا کی تعریف و تنقیص دونوں سے، اور یکساں طور پر۔ دنیا کے ساتھ رویہ ہمارا اس کے بعد بھی وہی رہتا ہے، یعنی بزرگانہ۔
لوگ بڑی فریکوینسی سے تشخیص کرتے ہیں کہ ہم دل کی کمی کا شکار ہیں لیکن یہاں ہم انھیں ثبوت دے سکتے ہیں کہ بعض غم ، بعض محرومیاں ایسی ہوتی ہیں کہ دل کو بھلائے نہیں بھولتیں۔ ہم لاکھ مسکرائیں زمانے کے سامنے لیکن شامیں کسی کو مانگتی ہیں آج بھی فراق۔ ایک دو ہفتے پہلے کی بات ہے، ہم ایک نئی جگہ پر فریج میں کچھ آم کا جوس رکھ گئے رات بھر کے لیے۔ ہم ہر کسی پر اعتبار کرتے ہیں مگر وہ بوتل قابل بھروسا نہ نکلی اور غائب ہو گی راتوں رات۔ ہمیں آموں کا غم نہیں، تو نہیں اور سہی ، اور نہیں اور سہی۔ دکھ تو ہمیں اعتبار کا ہے جس کی مرمت کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوا کرتا ہے اور جسے ہم اسی مارے گنتی کی بیش قیمت اشیا میں شمار کرتے ہیں۔
اسی طرح بات تو کچھ ایسی نہیں ہوتی لیکن لوگ کبھی کبھی بہت تنگ سا حلقہ بنا کر ہمیں بالکل الگ چھوڑ دیتے ہیں تو ہمیں کچھ زیادہ پریشانی ہو جاتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اسے کوئی اور محسوس بھی نہ کرتا ہو لیکن ہم کہ کشادہ دلی اور کشادہ ذہنی کے قائل ہیں، ایسے معاملات پر بہت دھیان دیتے ہیں۔ ایسے اوقات میں ہم اکیلے بیٹھتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ ہمارے کہاں کہاں کانٹے ہیں۔ برا ہو اوور تھنکنگ کا کہ پھر ہمیں اپنے وہ سارے کانٹے بھی نظر آتے ہیں جو وجود نہیں رکھتے۔ اوورتھنکنگ ایسی ہی بلا ہے کچھ۔
واقعات تو ایسے بہت سارے ہیں اور ہماری ساری زندگی پر محیط ہیں۔ کبھی لوگ کھانا کھاتے ہوئے ہمیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، کبھی کھانا کھانے کے لیے۔ کبھی کہیں جاتے ہوئے، کبھی کہیں سے واپس آتے ہوئے۔ اب تو ہم نے بہت حد تک سمجھوتا کر لیا ہے کہ ہم جہاں سے گزریں گے، اکیلے ہی گزریں گے لیکن پھر وہی عادت شکایت کرنے کی۔
ہمیں اکیلے رہنے پر اعتراض نہیں لیکن دنیا سے وہی غالب والی درخواست کریں گے کہ ہم کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو۔ ہم ہنسنے ہنسانے کو بیکار کام سمجھتے ہیں اور گفتگو کرنے کو سعی لاحاصل لیکن جب لوگوں کو ایک دوسرے پر مسکراتے اور آپس میں بات کرتے دیکھتے ہیں تو ہمیں کچھ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی ایک کمرے میں بہہ رہی ہے، اڑ رہی ہے اور مسکرا رہی ہے جبکہ ہم کھڑکی کے باہر برف میں کھڑے ہیں اور صرف ایک تماشائی ہیں۔
ہم اپنے آپ کو یوں بھی نوع انسانی کا سکالر کہا کرتے ہیں ، تو ایسے بھی ٹھیک ہے ۔ ہاں کبھی کبھی ہمیں یہ احساس ستاتا ہے کہ شاید، شاید زندگی اپنی اصل میں برتنے اور محسوس کرنے کی چیز ہے،مطالعہ کرنے کی نہیں۔
پھر ہمیں گڈ ریڈز پر دیکھی گئی کوئی کتاب یاد آ جاتی ہے یا اپنے بک کلب کی کوئی بحث۔ دنیا میں کتنے مسائل ہیں اور کتنے عجائب! ابھی ابھی لوگوں نے سو ملین پرانا سانپ دریافت کیا ہے اور زمین کی تہہ کے نیچے بہت سے ہیرے۔ پیش پا افتادہ قریے، سر برآوردہ شجر، سو بہانے دل لگانے کے لیے موجود ہیں! لوگ ہمیں نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں، یوں بھی ہم کوئی غلط قسم کی ایکوئزن ہیں اور انھیں تو پھر کون ہی سمجھ سکتا ہے۔ اور پھر لوگوں نے سمجھ کر بھی کسی غریب کا بھلا تو نہیں کیا آج تک، بلکہ اس سے اپنی باتیں ہی منسوب کی ہیں۔
کمیونیکشن اینالگ ڈیجیٹل کی عینک سے دیکھی جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کے علاوہ ہمیں سب کچھ بیکار ہی لگتا ہے۔ ایک تو انسان اپنی سستی کے دائرے سے باہر نکلے اور انسانوں سے گفتگو کرنے کی کوشش کرے، چاہے شعر میں، چاہے نثر میں۔ نتیجہ ہر دو کا ایک ہی نکلا کرتا ہے، یعنی غلط۔ لوگ ہماری بات سنیں گے تو اول تو سمجھیں گے نہیں۔ پھر اگر کبھی کبھار سمجھ بھی لیں تو وہ ہرگز نہیں سمجھتے جو ہم سمجھانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ اب ایسے میں ہم کمیونیکشن کو مس کمیونیکشن قرار نہ دیں تو اور کیا کریں۔ دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور!
خیر یہ بھی ہم غالب کا حسب عادت ہی حوالہ دیتے ہیں ورنہ چاہتے تو یہی ہیں کہ نہ کہیں دل میں تبدیلی ہو اور نہ کہیں زبان میں کہ تبدیلی اپنی اصل میں بے حد، بے حد نایاب شے ہے اور دنیا عموما ہمیشہ ہی دھوکے پر تبدیلی کا قیاس کیا کرتی ہے۔ خیر کرتی ہے تو کرتی رہے، ہم تو عام طور پر دو لفظ منہ سے نکالنے کے روادار نہیں ہوتے۔ ہوتے تو خاص طور پر بھی نہیں، لیکن پھر لوگ مل کر بریانی کھایا کرتے ہیں اور ہم صرف ایک کونے میں بیٹھ کر کمیونی کیشن کے مسائل پر غور کرتے ہیں، از ما مپرس لذت تنہا گریستن!
یوں تو اکیلے رہنے میں کوئی خاص برائی نہیں، فوائد خاص ہیں البتہ۔ لوگوں کی بھیڑ میں رہنے سے انسان، انسان نہیں رہتا بلکہ بھیڑ بن رہ جاتا ہے، جو گروہ کے ساتھ چلتی ہیں اور ساتھ رکتی ہیں۔ آدمیت کے تقاضوں کے علاوہ انفرادیت کا بھی خون ہو کر رہ جاتا ہے جب کسی کا نہ اپنا چہرہ باقی رہتا ہے نہ اپنی آواز۔ لیکن پھر انفرادیت سے اور کچھ ملے نہ ملے، خوشی ہرگز نہیں ملتی۔
ہمیں دنیا سے یہ شکایت تو ہمیشہ رہی ہے کہ یہ ہمیں الگ رکھتی ہے اپنے حلقوں سے لیکن پھر انصاف کی بات تو یہ ہے کہ دنیا کو بھی بہت سی شکایتیں ہوں گی ہم سے جو آج تک ہم نے سمجھنے دور کرنے کی تو جانے دیجیے، سننے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اپنے دفاع میں ہم اتنا کہیں گے کہ زندگی میں وقت اتنا کم ہوتا ہے اور سننے سمجھنے کا سامان اتنا زیادہ کہ ہم ایسی باریکیوں پر غور کرنے سے قاصر پاتے ہیں اپنے آپ کو کہ دنیا کیا سوچتی ہے اور وہ بھی ہمارے بارے میں۔ اپنے بارے میں تو ہم خود گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی اور کیوں کرے اور کرے تو ہم کیوں سنیں۔
اکیلے پھرنے کا یہ فائدہ ہمیں ضرور نظر آتا ہے کہ ہمیں وہ کچھ دکھائی دیتا ہے جو لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا، مثلا وجوہات کی وجوہات۔ مثال کے طور پر کوئی ہمارے ساتھ معیار سے کم اچھا سلوک کرے تو پانچ سیکنڈ خوب خوب بل کھانے کے بعد ہم سوچنا شروع کرتے ہیں کہ فلاں نے ہمارے ساتھ برا کیا تو کیوں کیا ۔ اگر عادت سے مجبور ہو کر تو عادت کی بھی کیا وجہ ہے اور جن حالات میں یہ عادت پروان چڑھی ان کا باعث کیا کہاں کی خرابی تھی۔ پھر یہ کہ وہ خرابی اگر نظام میں تھی تو کتنی غیر منصفانہ تھی اور یہ کہ نظام میں مزید کہاں کہاں خرابیاں ہیں۔ نا انصافی دنیا میں کس قدر چھائی ہوئی ہے اور اس کی جڑیں کس قدر گہری ہیں اور پھر تماشا یہ کہ لوگوں کو بالکل نظر بھی نہیں آتی کیونکہ لوگ وہی اور صرف وہی کچھ دیکھتے ہیں جو گروپ دیکھتا ہے اور گروپ سٹیٹس کو کس طور دیکھ سکتا ہے بھلا۔
خیال کی رو کی اس قدر آوارہ گردی کے بعد ظاہر ہے غصہ کس کافر کو آ سکتا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ یہاں پہنچ کر ہمارا دل پگھل چکا ہوتا ہے، شخص مذکورہ سے لے کر تمام بنی آدم تک کے لیے۔ اب ہم اس کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں کہ اگلی مرتبہ اس انسان سے کوئی معاملہ پیش آئے تو اسے معمول سے زیادہ میٹھی مسکراہٹ دیں اور اوسط سے زیادہ چھوٹ کیونکہ ہمارے ذہن کے پردے پر اس کی تمام زندگی کی پروبیبل کہانی لہرا رہی ہو گی۔
اتنی لمبی چوڑی ذہنی مشق کے بعد بھی اگر ہمارے اندر بدمزگی کی کوئی بھولی بھٹکی رمق رہ جائے تو ہم اپنے آپ کو بتاتے ہیں کہ غیر کی بد تمیزی میں ہمارا گیا ہی کیا۔ اگر نقصان ہوا تو کیا فرق پڑتا ہے، اگر تلخ کلامی ہوئی تو ہماری مسکراہٹ کی شیرینی تو وہی رہی اس کے بعد بھی۔ یوں بھی ہم کلی طور پر امیون ہیں، دنیا کی تعریف و تنقیص دونوں سے، اور یکساں طور پر۔ دنیا کے ساتھ رویہ ہمارا اس کے بعد بھی وہی رہتا ہے، یعنی بزرگانہ۔
لوگ بڑی فریکوینسی سے تشخیص کرتے ہیں کہ ہم دل کی کمی کا شکار ہیں لیکن یہاں ہم انھیں ثبوت دے سکتے ہیں کہ بعض غم ، بعض محرومیاں ایسی ہوتی ہیں کہ دل کو بھلائے نہیں بھولتیں۔ ہم لاکھ مسکرائیں زمانے کے سامنے لیکن شامیں کسی کو مانگتی ہیں آج بھی فراق۔ ایک دو ہفتے پہلے کی بات ہے، ہم ایک نئی جگہ پر فریج میں کچھ آم کا جوس رکھ گئے رات بھر کے لیے۔ ہم ہر کسی پر اعتبار کرتے ہیں مگر وہ بوتل قابل بھروسا نہ نکلی اور غائب ہو گی راتوں رات۔ ہمیں آموں کا غم نہیں، تو نہیں اور سہی ، اور نہیں اور سہی۔ دکھ تو ہمیں اعتبار کا ہے جس کی مرمت کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوا کرتا ہے اور جسے ہم اسی مارے گنتی کی بیش قیمت اشیا میں شمار کرتے ہیں۔
اسی طرح بات تو کچھ ایسی نہیں ہوتی لیکن لوگ کبھی کبھی بہت تنگ سا حلقہ بنا کر ہمیں بالکل الگ چھوڑ دیتے ہیں تو ہمیں کچھ زیادہ پریشانی ہو جاتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اسے کوئی اور محسوس بھی نہ کرتا ہو لیکن ہم کہ کشادہ دلی اور کشادہ ذہنی کے قائل ہیں، ایسے معاملات پر بہت دھیان دیتے ہیں۔ ایسے اوقات میں ہم اکیلے بیٹھتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ ہمارے کہاں کہاں کانٹے ہیں۔ برا ہو اوور تھنکنگ کا کہ پھر ہمیں اپنے وہ سارے کانٹے بھی نظر آتے ہیں جو وجود نہیں رکھتے۔ اوورتھنکنگ ایسی ہی بلا ہے کچھ۔
واقعات تو ایسے بہت سارے ہیں اور ہماری ساری زندگی پر محیط ہیں۔ کبھی لوگ کھانا کھاتے ہوئے ہمیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، کبھی کھانا کھانے کے لیے۔ کبھی کہیں جاتے ہوئے، کبھی کہیں سے واپس آتے ہوئے۔ اب تو ہم نے بہت حد تک سمجھوتا کر لیا ہے کہ ہم جہاں سے گزریں گے، اکیلے ہی گزریں گے لیکن پھر وہی عادت شکایت کرنے کی۔
ہمیں اکیلے رہنے پر اعتراض نہیں لیکن دنیا سے وہی غالب والی درخواست کریں گے کہ ہم کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو۔ ہم ہنسنے ہنسانے کو بیکار کام سمجھتے ہیں اور گفتگو کرنے کو سعی لاحاصل لیکن جب لوگوں کو ایک دوسرے پر مسکراتے اور آپس میں بات کرتے دیکھتے ہیں تو ہمیں کچھ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی ایک کمرے میں بہہ رہی ہے، اڑ رہی ہے اور مسکرا رہی ہے جبکہ ہم کھڑکی کے باہر برف میں کھڑے ہیں اور صرف ایک تماشائی ہیں۔
ہم اپنے آپ کو یوں بھی نوع انسانی کا سکالر کہا کرتے ہیں ، تو ایسے بھی ٹھیک ہے ۔ ہاں کبھی کبھی ہمیں یہ احساس ستاتا ہے کہ شاید، شاید زندگی اپنی اصل میں برتنے اور محسوس کرنے کی چیز ہے،مطالعہ کرنے کی نہیں۔
پھر ہمیں گڈ ریڈز پر دیکھی گئی کوئی کتاب یاد آ جاتی ہے یا اپنے بک کلب کی کوئی بحث۔ دنیا میں کتنے مسائل ہیں اور کتنے عجائب! ابھی ابھی لوگوں نے سو ملین پرانا سانپ دریافت کیا ہے اور زمین کی تہہ کے نیچے بہت سے ہیرے۔ پیش پا افتادہ قریے، سر برآوردہ شجر، سو بہانے دل لگانے کے لیے موجود ہیں! لوگ ہمیں نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں، یوں بھی ہم کوئی غلط قسم کی ایکوئزن ہیں اور انھیں تو پھر کون ہی سمجھ سکتا ہے۔ اور پھر لوگوں نے سمجھ کر بھی کسی غریب کا بھلا تو نہیں کیا آج تک، بلکہ اس سے اپنی باتیں ہی منسوب کی ہیں۔
کمیونیکشن اینالگ ڈیجیٹل کی عینک سے دیکھی جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کے علاوہ ہمیں سب کچھ بیکار ہی لگتا ہے۔ ایک تو انسان اپنی سستی کے دائرے سے باہر نکلے اور انسانوں سے گفتگو کرنے کی کوشش کرے، چاہے شعر میں، چاہے نثر میں۔ نتیجہ ہر دو کا ایک ہی نکلا کرتا ہے، یعنی غلط۔ لوگ ہماری بات سنیں گے تو اول تو سمجھیں گے نہیں۔ پھر اگر کبھی کبھار سمجھ بھی لیں تو وہ ہرگز نہیں سمجھتے جو ہم سمجھانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ اب ایسے میں ہم کمیونیکشن کو مس کمیونیکشن قرار نہ دیں تو اور کیا کریں۔ دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور!
خیر یہ بھی ہم غالب کا حسب عادت ہی حوالہ دیتے ہیں ورنہ چاہتے تو یہی ہیں کہ نہ کہیں دل میں تبدیلی ہو اور نہ کہیں زبان میں کہ تبدیلی اپنی اصل میں بے حد، بے حد نایاب شے ہے اور دنیا عموما ہمیشہ ہی دھوکے پر تبدیلی کا قیاس کیا کرتی ہے۔ خیر کرتی ہے تو کرتی رہے، ہم تو عام طور پر دو لفظ منہ سے نکالنے کے روادار نہیں ہوتے۔ ہوتے تو خاص طور پر بھی نہیں، لیکن پھر لوگ مل کر بریانی کھایا کرتے ہیں اور ہم صرف ایک کونے میں بیٹھ کر کمیونی کیشن کے مسائل پر غور کرتے ہیں، از ما مپرس لذت تنہا گریستن!