قیصرانی
لائبریرین
اگر بی جمالو کا بھائی بننے سے رپیوٹیشن نہیں خراب ہوتی تو پیر بن کر بھی نہیں ہوگیلیکن بی جمالو کو مرید کرنے سے آپ کی ہی رپوٹیشن خراب ہونی ہے بھیا
اگر بی جمالو کا بھائی بننے سے رپیوٹیشن نہیں خراب ہوتی تو پیر بن کر بھی نہیں ہوگیلیکن بی جمالو کو مرید کرنے سے آپ کی ہی رپوٹیشن خراب ہونی ہے بھیا
کام مکمل ہو یا نا ہو۔ ہم نے تو فوجی جوانوں کی طرح یس سر ہی کہنا ہے۔ پہلے بولنا تو دور کی بات۔
ہا ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہہاہہاااابہت اچھاکہتے ہیں کہ بڑے سیانے ہوتے ہیں ان سے آگے نہیں بولنا چاہیے
کیونکہ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﻠﺰ ﻣﯿﻦ،ﺍﯾﮏ ﺍﮐﺎﺅﻧﭩﻨﭧ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺑﺎﺱ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﻨﯿﺠﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ کہﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺗﻞ ﻣﻠﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﻦ ﺑﺮﺁﻣﺪ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖِ ﻗﺪﯾﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ۔
ﺳﯿﻠﺰ مین ﺟﮭﭧ ﺑﻮﻝ ﺍﭨﮭﺎ کہ ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﺟﺰﯾﺰﮮ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﺎﮞ ﮔﺰﺍﺭﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻮﺝ ﮨﯽ ﻣﻮﺝ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺘﯽ ﮨﯽ ﻣﺴﺘﯽ ﮨﻮ۔ ﺟﻦ ﻧﮯ ﭘﮭﻮﻧﮏ ﻣﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﻠﺰ ﻣﯿﻦ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﮐﺎﺅﻧﭩﻨﭧ ﺑﻮﻻ،ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ،ﻣﯿﺮﯼ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﺧﻮراک ﺍﻭﺭ ﮈﺭﻧﮑﺲ ﮨﻮﮞ،ﭨﯽ ﻭﯼ ﮨﻮ، ﻣﯿﻮﺯﮎ ﮨﻮ،ﻓﻠﻤﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻨﮓ نہﮐﺮﮮ،ﺟﻦ ﻧﮯ ﭘﮭﻮﻧﮏ ﻣﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﮐﺎﺅﻧﭩﻨﭧ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﺏ ﺑﺎﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﮭﯽ،ﻭﮦ منہ ﺑﻨﺎ ﮐﮯ ﺑﻮﻻ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﻗﻔﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻓﺘﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔
نتیجہ،،ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﺱ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺒﮭﯽ منہ نہ کھولیں۔۔
لگتا ہے کہ آپ نے جاسوسی کے صفحہ اول والی وہ داستان نہیں پڑھی۔ اس میں بھی ایک سیانا اسی چکر میں پڑکرخواہشوں کے ایسے جال میں پھنس جاتا ہے کہ جہاں اس کا سوچنا بھی خواہش بن جاتا ہے اور داستان کے آخر میں داستان کی ہیروئن سے یہ جملہ کہنے کے بعد "کہ کاش وقت رک جائے اور میں تمھیں دیکھتا رہوں" خواہشوں کے لامتناہی منظر میں کھو جاتا ہےمیں ایک خواہش کے بدلے کہتا کہ میری دس خواہشیں پوری کرو، ہر خواہش میں مزید دس دس۔۔۔ زیادہ کا لالچ نہیں اس لئے دس کافی ہیں
کہتے ہیں کہ بڑے سیانے ہوتے ہیں ان سے آگے نہیں بولنا چاہیے
کیونکہ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﻠﺰ ﻣﯿﻦ،ﺍﯾﮏ ﺍﮐﺎﺅﻧﭩﻨﭧ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺑﺎﺱ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﻨﯿﺠﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ کہﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺗﻞ ﻣﻠﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﻦ ﺑﺮﺁﻣﺪ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖِ ﻗﺪﯾﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ۔
ﺳﯿﻠﺰ مین ﺟﮭﭧ ﺑﻮﻝ ﺍﭨﮭﺎ کہ ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﺟﺰﯾﺰﮮ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﺎﮞ ﮔﺰﺍﺭﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻮﺝ ﮨﯽ ﻣﻮﺝ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺘﯽ ﮨﯽ ﻣﺴﺘﯽ ﮨﻮ۔ ﺟﻦ ﻧﮯ ﭘﮭﻮﻧﮏ ﻣﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﻠﺰ ﻣﯿﻦ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﮐﺎﺅﻧﭩﻨﭧ ﺑﻮﻻ،ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ،ﻣﯿﺮﯼ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﺧﻮراک ﺍﻭﺭ ﮈﺭﻧﮑﺲ ﮨﻮﮞ،ﭨﯽ ﻭﯼ ﮨﻮ، ﻣﯿﻮﺯﮎ ﮨﻮ،ﻓﻠﻤﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻨﮓ نہﮐﺮﮮ،ﺟﻦ ﻧﮯ ﭘﮭﻮﻧﮏ ﻣﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﮐﺎﺅﻧﭩﻨﭧ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﺏ ﺑﺎﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﮭﯽ،ﻭﮦ منہ ﺑﻨﺎ ﮐﮯ ﺑﻮﻻ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﻗﻔﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻓﺘﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔
نتیجہ،،ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﺱ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺒﮭﯽ منہ نہ کھولیں۔۔
یہ علیم الحق حقی کی کہانی تھیلگتا ہے کہ آپ نے جاسوسی کے صفحہ اول والی وہ داستان نہیں پڑھی۔ اس میں بھی ایک سیانا اسی چکر میں پڑکرخواہشوں کے ایسے جال میں پھنس جاتا ہے کہ جہاں اس کا سوچنا بھی خواہش بن جاتا ہے اور داستان کے آخر میں داستان کی ہیروئن سے یہ جملہ کہنے کے بعد "کہ کاش وقت رک جائے اور میں تمھیں دیکھتا رہوں" خواہشوں کے لامتناہی منظر میں کھو جاتا ہے
بہت شکریہہا ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہہاہہاااابہت اچھا
آپ کو کس نے کہا ہیں کے اپنے باس سے پنگا لیں۔ ہا ہاہا ہا
کتنا سڑیل اور روایتی باس تھا، اسے کہتے ہیں حاکمیت، اپنے رعب کی خاطرخود بھی گولڈن چانس مس کر گیا۔
بالکلدرست ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔