رانا
محفلین
ہومیو پیتھی ایک ایسا طریقہ علاج ہے جس پر مختلف طبقوں کی طرف سے کافی تنقید کی جاتی ہے، جن میں ایلوپیتھک ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہومیوپیتھی کے بانی اور پھر ان کے کام کو آگے بڑھانے والوں میں نامی گرامی ایلوپیتھک معالجین شامل تھے۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہومیوپیتھی پر اعتراضات کرنے والوں کا جو سب سے بڑا اعتراض ہوتا ہے کہ ہومیوپیتھی کی ہائی پوٹینسی میں اصل دوا کا تو کوئی ایٹم بھی موجود نہیں ہوتا، اس بات کو خود ہومیوپیتھک معالجین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ہومیوپیتھک معالجین کے مطابق دوا کی اونچی طاقتوں میں اصل دوا کی صرف ایک یاد ہی باقی رہ جاتی ہے اور اس پیغام کو سمجھنا جسم کے بس کی بات نہیں ہوتی لیکن اس یاد کے پیغام کو روح سمجھ جاتی ہے اور اس کے تابع جسم ردعمل دکھاتا ہے۔
اس دھاگے کو کھولنے کا مقصد یہ ہے کہ جن محفلین کو ہومیو طریق علاج پر یقین ہے، ان کے تجربے میں اگر ایسے واقعات ہیں جس میں ان کو شفا ہوئی تھی تو ان کا ذکر کریں۔ خیال رہے کہ سُنے سنائے واقعات بیان کرنے سے پرہیز کریں۔ بلکہ صرف اپنے واقعات شئیر کریں یا پھر کسی ایسے شخص کے جسے آپ خود جانتے ہوں۔ تاکہ دھاگے میں صرف سچے واقعات ہی جمع ہوں۔
حسب روایت پہلے دو واقعات خاکسار کی طرف سے جن میں سے دوسرا واقعہ حال ہی کا ہے اسی سے اس دھاگے کی طرف توجہ ہوئی۔
سن ۲۰۰۷ میں جب خاکسار پیتھالوجیکل لیبارٹری میں جاب کرتا تھا تو ماتھے پر بالکل درمیان میں ایک گومڑ نکلنا شروع ہوا۔ ابتدا میں تو معمولی تھا۔ خیال تھا کہ خود ہی ختم ہوجائے گا لیکن وہ وقت کے ساتھ ساتھ اتنا بڑھ گیا کہ سجدے میں ماتھا زمین پر ٹھیک سے نہ رکھ پاتا۔ یہاں تک کہ ایک بار تو مسجد میں ایک صاحب نے نماز کے بعد ٹوکا بھی کہ تم سجدہ ٹھیک نہیں کرتے۔ ان کی توجہ ماتھے کی طرف مبذول کرائی کہ یہ وجہ ہے۔ بہرحال ایک بار مشورہ کیا تو پتہ لگا کہ معمولی سی سرجری کرانی پڑے گی لیکن ماتھے پر سرجری کا سن کر ہی ڈر لگتا تھا اس لئے ایسے ہی معاملہ چلتا رہا۔تقریبا چار سال ایسے ہی گزرگئے۔ کراچی میں سمن آباد میں ڈاکٹر انصاری صاحب کا کلینک ہے۔ کافی ان کا نام سنا ہوا تھا۔ اس لئے ایک دن ویسے ہی چلے گئے۔ انہوں نے چیک کرکے ایک ہفتے کی دوا دے دی۔ ایک ہفتے میں کچھ فرق محسوس ہوا۔ لہذا پھر دو ہفتے میں دو مزید چکر لگائے۔ تیسرے ہفتے کے اختتام تک گومڑ ختم ہوچکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے بھی ڈاکٹر انصاری کے کلینک جانا چھوڑ دیا کہ ہر ہفتے دو سو روپے خرچ ہوتے تھے فیس کی مد میں۔ اب تو کوئی پہچان بھی نہیں سکتا کہ اس ماتھے پر کبھی اچھا خاصا گومڑ ہوا کرتا تھا۔ ان کے پاس بعد میں بھی جاتے رہے چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے لئے مثلا نزلہ، بخار اور ہڈیوں میں درد کے مسائل تھے۔ لیکن اس معاملے میں کچھ فائدہ نہ ہوا۔ لیکن ماتھے پر گومڑ والا معاملہ ایسا واضح تھا کہ احساس ہوا کہ ہومیوپیتھی میں کچھ تو اثر ہے۔
سن ۲۰۰۷ کی ہی بات ہے کہ خاکسار کو سردیوں میں کھانسی کی ایسی شکایت ہوئی کہ دو ہفتے تک کسی دوا سے فرق نہ پڑا۔ کبھی زندگی میں اتنے لمبے عرصے کے لئے کھانسی نہ ہوئی تھی۔ سیفی اسپتال میں ایک چیسٹ اسپیشلسٹ کے زیر علاج تین ماہ تک رہے تو کھانسی ختم ہوئی۔ لیکن پھر تو یہ معمول ہوگیا کہ ہر سردیوں میں ہمیں کھانسی شروع ہوتی اور پورا سردیاں مسلسل یہ تکلیف رہتی۔ دس سال تک ساری سردیوں کے موسم اس تکلیف میں گزارے۔ ہمیں کھانسی سے زیادہ یہ پریشانی ہوتی تھی کہ آفس میں دوسرے لوگ ہماری کھانسی سے مستقل ڈسٹرب ہوتے۔ بہرحال جیسے تیسے سردیاں گزارا کرتے۔ اور سردیوں کے بعد سب کچھ نارمل ہوجاتا۔ اب تو ہم اس کھانسی سے سمجھوتہ کرچکے تھے کہ یہ زندگی بھر کا ساتھ ہے۔
لیکن ان سردیوں میں پنجاب آنا ہوا۔ اور یہاں آتے ہی چند دن تو سکون سے گزرے اور پھر وہی کھانسی کا دورہ شروع ہوگیا۔ ہمیں تو پتہ تھا کہ اپنا پرانا ساتھی ہے اب سردیاں ساتھ ہی گزار کر جائے گا۔ لیکن یہاں کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ یہاں ہومیو پیتھک ڈسپنسری میں دکھادو۔ ڈسپنسری میں گئے تو پتہ لگا کہ ٹوکن ٹائم ویسے تو بارہ بجے تک کا ہے لیکن اگر واقعی ہمیں ٹوکن چاہئے تو فجر سے پہلے آکر لائن میں لگ جائیں کہ ڈسپنسری کھلتے ہی سب ٹوکن ختم ہوجاتے ہیں۔ اب فجر سے پہلے جاکر لائن میں لگنے کی تو ہمت نہ تھی لیکن ایک دوست نے یہ مشکل آسان کرادی۔ بہرحال ڈاکٹر کو دکھایا۔ مختلف سوال پوچھنے کے بعد کہنے لگے کبھی ٹائفائیڈ تو نہیں ہوا تھا۔ ہمیں اچانک یاد آیا کہ سن ۲۰۰۷ میں ہی ہمیں ٹائیفائیڈ ہوا تھا۔ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ یہی تو اصل بات ہے۔ بعض اوقات ٹائیفائیڈ اپنے بد اثرات پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ کہنے لگے ایک دوا تجویز کررہا ہوں ایک مہینہ کے لئے۔ اگر تو ایک ہفتے میں معمولی سا بھی فرق محسوس ہو تو اسے کم از کم چھ ماہ استعمال کرنا۔ لیکن اگر ایک ہفتے میں ذرا بھی فرق نہ محسوس ہو تو دوا فورا روک دینا اور دوبارہ آکر چیک کرانا۔ ایک ہفتہ دوا استعمال کی۔ ڈانواڈول کی سی کیفیت رہی۔ کبھی لگتا کہ کچھ فرق پڑا ہے کبھی لگتا کہ نہیں۔ بہرحال اگلے ہفتے بھی دوا جاری رکھی اور کچھ فرق محسوس ہوا۔ ایک ماہ میں تو کافی زیادہ فرق محسوس ہوا۔ دوبارہ ڈسپنسری جانے کی تو ہمت نہ تھی لہذا وہی دوا بازار سے لے کر دوبارہ استعمال کی۔ اور ابھی سردیوں کا موسم چل ہی رہا ہے لیکن خاکسار کی کھانسی محض اللہ کے فضل سے ختم ہوچکی ہے۔ دس سال پرانی بیماری سے جب اللہ کے فضل سے جان چھوٹی ہے تو اب تو یقین ہوگیا ہے کہ ہومیوپیتھی خواہ سمجھ میں آئے یا نہ لیکن بہرحال اس میں حقیقت تو ہے۔
دیگر محفلین بھی اپنے واقعات شئیر کریں۔
اس دھاگے کو کھولنے کا مقصد یہ ہے کہ جن محفلین کو ہومیو طریق علاج پر یقین ہے، ان کے تجربے میں اگر ایسے واقعات ہیں جس میں ان کو شفا ہوئی تھی تو ان کا ذکر کریں۔ خیال رہے کہ سُنے سنائے واقعات بیان کرنے سے پرہیز کریں۔ بلکہ صرف اپنے واقعات شئیر کریں یا پھر کسی ایسے شخص کے جسے آپ خود جانتے ہوں۔ تاکہ دھاگے میں صرف سچے واقعات ہی جمع ہوں۔
حسب روایت پہلے دو واقعات خاکسار کی طرف سے جن میں سے دوسرا واقعہ حال ہی کا ہے اسی سے اس دھاگے کی طرف توجہ ہوئی۔
سن ۲۰۰۷ میں جب خاکسار پیتھالوجیکل لیبارٹری میں جاب کرتا تھا تو ماتھے پر بالکل درمیان میں ایک گومڑ نکلنا شروع ہوا۔ ابتدا میں تو معمولی تھا۔ خیال تھا کہ خود ہی ختم ہوجائے گا لیکن وہ وقت کے ساتھ ساتھ اتنا بڑھ گیا کہ سجدے میں ماتھا زمین پر ٹھیک سے نہ رکھ پاتا۔ یہاں تک کہ ایک بار تو مسجد میں ایک صاحب نے نماز کے بعد ٹوکا بھی کہ تم سجدہ ٹھیک نہیں کرتے۔ ان کی توجہ ماتھے کی طرف مبذول کرائی کہ یہ وجہ ہے۔ بہرحال ایک بار مشورہ کیا تو پتہ لگا کہ معمولی سی سرجری کرانی پڑے گی لیکن ماتھے پر سرجری کا سن کر ہی ڈر لگتا تھا اس لئے ایسے ہی معاملہ چلتا رہا۔تقریبا چار سال ایسے ہی گزرگئے۔ کراچی میں سمن آباد میں ڈاکٹر انصاری صاحب کا کلینک ہے۔ کافی ان کا نام سنا ہوا تھا۔ اس لئے ایک دن ویسے ہی چلے گئے۔ انہوں نے چیک کرکے ایک ہفتے کی دوا دے دی۔ ایک ہفتے میں کچھ فرق محسوس ہوا۔ لہذا پھر دو ہفتے میں دو مزید چکر لگائے۔ تیسرے ہفتے کے اختتام تک گومڑ ختم ہوچکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے بھی ڈاکٹر انصاری کے کلینک جانا چھوڑ دیا کہ ہر ہفتے دو سو روپے خرچ ہوتے تھے فیس کی مد میں۔ اب تو کوئی پہچان بھی نہیں سکتا کہ اس ماتھے پر کبھی اچھا خاصا گومڑ ہوا کرتا تھا۔ ان کے پاس بعد میں بھی جاتے رہے چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے لئے مثلا نزلہ، بخار اور ہڈیوں میں درد کے مسائل تھے۔ لیکن اس معاملے میں کچھ فائدہ نہ ہوا۔ لیکن ماتھے پر گومڑ والا معاملہ ایسا واضح تھا کہ احساس ہوا کہ ہومیوپیتھی میں کچھ تو اثر ہے۔
سن ۲۰۰۷ کی ہی بات ہے کہ خاکسار کو سردیوں میں کھانسی کی ایسی شکایت ہوئی کہ دو ہفتے تک کسی دوا سے فرق نہ پڑا۔ کبھی زندگی میں اتنے لمبے عرصے کے لئے کھانسی نہ ہوئی تھی۔ سیفی اسپتال میں ایک چیسٹ اسپیشلسٹ کے زیر علاج تین ماہ تک رہے تو کھانسی ختم ہوئی۔ لیکن پھر تو یہ معمول ہوگیا کہ ہر سردیوں میں ہمیں کھانسی شروع ہوتی اور پورا سردیاں مسلسل یہ تکلیف رہتی۔ دس سال تک ساری سردیوں کے موسم اس تکلیف میں گزارے۔ ہمیں کھانسی سے زیادہ یہ پریشانی ہوتی تھی کہ آفس میں دوسرے لوگ ہماری کھانسی سے مستقل ڈسٹرب ہوتے۔ بہرحال جیسے تیسے سردیاں گزارا کرتے۔ اور سردیوں کے بعد سب کچھ نارمل ہوجاتا۔ اب تو ہم اس کھانسی سے سمجھوتہ کرچکے تھے کہ یہ زندگی بھر کا ساتھ ہے۔
لیکن ان سردیوں میں پنجاب آنا ہوا۔ اور یہاں آتے ہی چند دن تو سکون سے گزرے اور پھر وہی کھانسی کا دورہ شروع ہوگیا۔ ہمیں تو پتہ تھا کہ اپنا پرانا ساتھی ہے اب سردیاں ساتھ ہی گزار کر جائے گا۔ لیکن یہاں کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ یہاں ہومیو پیتھک ڈسپنسری میں دکھادو۔ ڈسپنسری میں گئے تو پتہ لگا کہ ٹوکن ٹائم ویسے تو بارہ بجے تک کا ہے لیکن اگر واقعی ہمیں ٹوکن چاہئے تو فجر سے پہلے آکر لائن میں لگ جائیں کہ ڈسپنسری کھلتے ہی سب ٹوکن ختم ہوجاتے ہیں۔ اب فجر سے پہلے جاکر لائن میں لگنے کی تو ہمت نہ تھی لیکن ایک دوست نے یہ مشکل آسان کرادی۔ بہرحال ڈاکٹر کو دکھایا۔ مختلف سوال پوچھنے کے بعد کہنے لگے کبھی ٹائفائیڈ تو نہیں ہوا تھا۔ ہمیں اچانک یاد آیا کہ سن ۲۰۰۷ میں ہی ہمیں ٹائیفائیڈ ہوا تھا۔ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ یہی تو اصل بات ہے۔ بعض اوقات ٹائیفائیڈ اپنے بد اثرات پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ کہنے لگے ایک دوا تجویز کررہا ہوں ایک مہینہ کے لئے۔ اگر تو ایک ہفتے میں معمولی سا بھی فرق محسوس ہو تو اسے کم از کم چھ ماہ استعمال کرنا۔ لیکن اگر ایک ہفتے میں ذرا بھی فرق نہ محسوس ہو تو دوا فورا روک دینا اور دوبارہ آکر چیک کرانا۔ ایک ہفتہ دوا استعمال کی۔ ڈانواڈول کی سی کیفیت رہی۔ کبھی لگتا کہ کچھ فرق پڑا ہے کبھی لگتا کہ نہیں۔ بہرحال اگلے ہفتے بھی دوا جاری رکھی اور کچھ فرق محسوس ہوا۔ ایک ماہ میں تو کافی زیادہ فرق محسوس ہوا۔ دوبارہ ڈسپنسری جانے کی تو ہمت نہ تھی لہذا وہی دوا بازار سے لے کر دوبارہ استعمال کی۔ اور ابھی سردیوں کا موسم چل ہی رہا ہے لیکن خاکسار کی کھانسی محض اللہ کے فضل سے ختم ہوچکی ہے۔ دس سال پرانی بیماری سے جب اللہ کے فضل سے جان چھوٹی ہے تو اب تو یقین ہوگیا ہے کہ ہومیوپیتھی خواہ سمجھ میں آئے یا نہ لیکن بہرحال اس میں حقیقت تو ہے۔
دیگر محفلین بھی اپنے واقعات شئیر کریں۔