اپنے ہومیو پیتھی تجربات شئیر کریں!

رانا

محفلین
ہومیو پیتھی ایک ایسا طریقہ علاج ہے جس پر مختلف طبقوں کی طرف سے کافی تنقید کی جاتی ہے، جن میں ایلوپیتھک ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہومیوپیتھی کے بانی اور پھر ان کے کام کو آگے بڑھانے والوں میں نامی گرامی ایلوپیتھک معالجین شامل تھے۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہومیوپیتھی پر اعتراضات کرنے والوں کا جو سب سے بڑا اعتراض ہوتا ہے کہ ہومیوپیتھی کی ہائی پوٹینسی میں اصل دوا کا تو کوئی ایٹم بھی موجود نہیں ہوتا، اس بات کو خود ہومیوپیتھک معالجین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ہومیوپیتھک معالجین کے مطابق دوا کی اونچی طاقتوں میں اصل دوا کی صرف ایک یاد ہی باقی رہ جاتی ہے اور اس پیغام کو سمجھنا جسم کے بس کی بات نہیں ہوتی لیکن اس یاد کے پیغام کو روح سمجھ جاتی ہے اور اس کے تابع جسم ردعمل دکھاتا ہے۔

اس دھاگے کو کھولنے کا مقصد یہ ہے کہ جن محفلین کو ہومیو طریق علاج پر یقین ہے، ان کے تجربے میں اگر ایسے واقعات ہیں جس میں ان کو شفا ہوئی تھی تو ان کا ذکر کریں۔ خیال رہے کہ سُنے سنائے واقعات بیان کرنے سے پرہیز کریں۔ بلکہ صرف اپنے واقعات شئیر کریں یا پھر کسی ایسے شخص کے جسے آپ خود جانتے ہوں۔ تاکہ دھاگے میں صرف سچے واقعات ہی جمع ہوں۔

حسب روایت پہلے دو واقعات خاکسار کی طرف سے جن میں سے دوسرا واقعہ حال ہی کا ہے اسی سے اس دھاگے کی طرف توجہ ہوئی۔

سن ۲۰۰۷ میں جب خاکسار پیتھالوجیکل لیبارٹری میں جاب کرتا تھا تو ماتھے پر بالکل درمیان میں ایک گومڑ نکلنا شروع ہوا۔ ابتدا میں تو معمولی تھا۔ خیال تھا کہ خود ہی ختم ہوجائے گا لیکن وہ وقت کے ساتھ ساتھ اتنا بڑھ گیا کہ سجدے میں ماتھا زمین پر ٹھیک سے نہ رکھ پاتا۔ یہاں تک کہ ایک بار تو مسجد میں ایک صاحب نے نماز کے بعد ٹوکا بھی کہ تم سجدہ ٹھیک نہیں کرتے۔ ان کی توجہ ماتھے کی طرف مبذول کرائی کہ یہ وجہ ہے۔ بہرحال ایک بار مشورہ کیا تو پتہ لگا کہ معمولی سی سرجری کرانی پڑے گی لیکن ماتھے پر سرجری کا سن کر ہی ڈر لگتا تھا اس لئے ایسے ہی معاملہ چلتا رہا۔تقریبا چار سال ایسے ہی گزرگئے۔ کراچی میں سمن آباد میں ڈاکٹر انصاری صاحب کا کلینک ہے۔ کافی ان کا نام سنا ہوا تھا۔ اس لئے ایک دن ویسے ہی چلے گئے۔ انہوں نے چیک کرکے ایک ہفتے کی دوا دے دی۔ ایک ہفتے میں کچھ فرق محسوس ہوا۔ لہذا پھر دو ہفتے میں دو مزید چکر لگائے۔ تیسرے ہفتے کے اختتام تک گومڑ ختم ہوچکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے بھی ڈاکٹر انصاری کے کلینک جانا چھوڑ دیا کہ ہر ہفتے دو سو روپے خرچ ہوتے تھے فیس کی مد میں۔ اب تو کوئی پہچان بھی نہیں سکتا کہ اس ماتھے پر کبھی اچھا خاصا گومڑ ہوا کرتا تھا۔:) ان کے پاس بعد میں بھی جاتے رہے چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے لئے مثلا نزلہ، بخار اور ہڈیوں میں درد کے مسائل تھے۔ لیکن اس معاملے میں کچھ فائدہ نہ ہوا۔ لیکن ماتھے پر گومڑ والا معاملہ ایسا واضح تھا کہ احساس ہوا کہ ہومیوپیتھی میں کچھ تو اثر ہے۔

سن ۲۰۰۷ کی ہی بات ہے کہ خاکسار کو سردیوں میں کھانسی کی ایسی شکایت ہوئی کہ دو ہفتے تک کسی دوا سے فرق نہ پڑا۔ کبھی زندگی میں اتنے لمبے عرصے کے لئے کھانسی نہ ہوئی تھی۔ سیفی اسپتال میں ایک چیسٹ اسپیشلسٹ کے زیر علاج تین ماہ تک رہے تو کھانسی ختم ہوئی۔ لیکن پھر تو یہ معمول ہوگیا کہ ہر سردیوں میں ہمیں کھانسی شروع ہوتی اور پورا سردیاں مسلسل یہ تکلیف رہتی۔ دس سال تک ساری سردیوں کے موسم اس تکلیف میں گزارے۔ ہمیں کھانسی سے زیادہ یہ پریشانی ہوتی تھی کہ آفس میں دوسرے لوگ ہماری کھانسی سے مستقل ڈسٹرب ہوتے۔ بہرحال جیسے تیسے سردیاں گزارا کرتے۔ اور سردیوں کے بعد سب کچھ نارمل ہوجاتا۔ اب تو ہم اس کھانسی سے سمجھوتہ کرچکے تھے کہ یہ زندگی بھر کا ساتھ ہے۔

لیکن ان سردیوں میں پنجاب آنا ہوا۔ اور یہاں آتے ہی چند دن تو سکون سے گزرے اور پھر وہی کھانسی کا دورہ شروع ہوگیا۔ ہمیں تو پتہ تھا کہ اپنا پرانا ساتھی ہے اب سردیاں ساتھ ہی گزار کر جائے گا۔ لیکن یہاں کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ یہاں ہومیو پیتھک ڈسپنسری میں دکھادو۔ ڈسپنسری میں گئے تو پتہ لگا کہ ٹوکن ٹائم ویسے تو بارہ بجے تک کا ہے لیکن اگر واقعی ہمیں ٹوکن چاہئے تو فجر سے پہلے آکر لائن میں لگ جائیں کہ ڈسپنسری کھلتے ہی سب ٹوکن ختم ہوجاتے ہیں۔ اب فجر سے پہلے جاکر لائن میں لگنے کی تو ہمت نہ تھی لیکن ایک دوست نے یہ مشکل آسان کرادی۔ بہرحال ڈاکٹر کو دکھایا۔ مختلف سوال پوچھنے کے بعد کہنے لگے کبھی ٹائفائیڈ تو نہیں ہوا تھا۔ ہمیں اچانک یاد آیا کہ سن ۲۰۰۷ میں ہی ہمیں ٹائیفائیڈ ہوا تھا۔ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ یہی تو اصل بات ہے۔ بعض اوقات ٹائیفائیڈ اپنے بد اثرات پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ کہنے لگے ایک دوا تجویز کررہا ہوں ایک مہینہ کے لئے۔ اگر تو ایک ہفتے میں معمولی سا بھی فرق محسوس ہو تو اسے کم از کم چھ ماہ استعمال کرنا۔ لیکن اگر ایک ہفتے میں ذرا بھی فرق نہ محسوس ہو تو دوا فورا روک دینا اور دوبارہ آکر چیک کرانا۔ ایک ہفتہ دوا استعمال کی۔ ڈانواڈول کی سی کیفیت رہی۔ کبھی لگتا کہ کچھ فرق پڑا ہے کبھی لگتا کہ نہیں۔ بہرحال اگلے ہفتے بھی دوا جاری رکھی اور کچھ فرق محسوس ہوا۔ ایک ماہ میں تو کافی زیادہ فرق محسوس ہوا۔ دوبارہ ڈسپنسری جانے کی تو ہمت نہ تھی لہذا وہی دوا بازار سے لے کر دوبارہ استعمال کی۔ اور ابھی سردیوں کا موسم چل ہی رہا ہے لیکن خاکسار کی کھانسی محض اللہ کے فضل سے ختم ہوچکی ہے۔ دس سال پرانی بیماری سے جب اللہ کے فضل سے جان چھوٹی ہے تو اب تو یقین ہوگیا ہے کہ ہومیوپیتھی خواہ سمجھ میں آئے یا نہ لیکن بہرحال اس میں حقیقت تو ہے۔

دیگر محفلین بھی اپنے واقعات شئیر کریں۔
 

زیک

مسافر
ایک دن مجھے بہت شدید بھوک لگی تھی۔ کچھ نہیں تھا سوائے دودھ کے آدھ کپ کے۔ اس سے کیا پیٹ بھرنا تھا۔ سو میں نے دودھ پوری بالٹی پانی میں ملا دیا۔ پھر اس بالٹی میں سے ایک قطرہ لے کر پانی کے ایک جگ میں ڈالا۔ ایک جگ خود پیا۔ مزید جگ محلے کے لوگوں کو پلائے۔ اس دن پورے شہر میں کوئی شخص بھوکا نہیں سویا۔
 
آخری تدوین:
ایک دن مجھے بہت شدید بھوک لگی تھی۔ کچھ نہیں تھا سوائے دودھ کے آدھ کپ کے۔ اس سے کیا پیٹ بھرنا تھا۔ سو میں نے دودھ پوری بالٹی پانی میں ملا دیا۔ پھر اس بالٹی میں سے ایک قطرہ لے کر پانے کے ایک جگ میں ڈالا۔ ایک جگ خود پیا۔ مزید جگ محلے کے لوگوں کو پلائے۔ اس دن پورے شہر میں کوئی شخص بھوکا نہیں سویا۔
واہ کیا خوب نسخہ کیمیاء عطا فرمایا ،مزید تفصیل درکار ہے حضور۔
 
ایک دن مجھے بہت شدید بھوک لگی تھی۔ کچھ نہیں تھا سوائے دودھ کے آدھ کپ کے۔ اس سے کیا پیٹ بھرنا تھا۔ سو میں نے دودھ پوری بالٹی پانی میں ملا دیا۔ پھر اس بالٹی میں سے ایک قطرہ لے کر پانی کے ایک جگ میں ڈالا۔ ایک جگ خود پیا۔ مزید جگ محلے کے لوگوں کو پلائے۔ اس دن پورے شہر میں کوئی شخص بھوکا نہیں سویا۔
سائنٹفک کی ریٹنگ موجود نہیں ہے۔ اس لیے لکھ کر۔۔۔
"ویری سائنٹفک":)
 
ہومیو پیتھی ایک ایسا طریقہ علاج ہے جس پر مختلف طبقوں کی طرف سے کافی تنقید کی جاتی ہے، جن میں ایلوپیتھک ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہومیوپیتھی کے بانی اور پھر ان کے کام کو آگے بڑھانے والوں میں نامی گرامی ایلوپیتھک معالجین شامل تھے۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہومیوپیتھی پر اعتراضات کرنے والوں کا جو سب سے بڑا اعتراض ہوتا ہے کہ ہومیوپیتھی کی ہائی پوٹینسی میں اصل دوا کا تو کوئی ایٹم بھی موجود نہیں ہوتا، اس بات کو خود ہومیوپیتھک معالجین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ہومیوپیتھک معالجین کے مطابق دوا کی اونچی طاقتوں میں اصل دوا کی صرف ایک یاد ہی باقی رہ جاتی ہے اور اس پیغام کو سمجھنا جسم کے بس کی بات نہیں ہوتی لیکن اس یاد کے پیغام کو روح سمجھ جاتی ہے اور اس کے تابع جسم ردعمل دکھاتا ہے۔

اس دھاگے کو کھولنے کا مقصد یہ ہے کہ جن محفلین کو ہومیو طریق علاج پر یقین ہے، ان کے تجربے میں اگر ایسے واقعات ہیں جس میں ان کو شفا ہوئی تھی تو ان کا ذکر کریں۔ خیال رہے کہ سُنے سنائے واقعات بیان کرنے سے پرہیز کریں۔ بلکہ صرف اپنے واقعات شئیر کریں یا پھر کسی ایسے شخص کے جسے آپ خود جانتے ہوں۔ تاکہ دھاگے میں صرف سچے واقعات ہی جمع ہوں۔

حسب روایت پہلے دو واقعات خاکسار کی طرف سے جن میں سے دوسرا واقعہ حال ہی کا ہے اسی سے اس دھاگے کی طرف توجہ ہوئی۔

سن ۲۰۰۷ میں جب خاکسار پیتھالوجیکل لیبارٹری میں جاب کرتا تھا تو ماتھے پر بالکل درمیان میں ایک گومڑ نکلنا شروع ہوا۔ ابتدا میں تو معمولی تھا۔ خیال تھا کہ خود ہی ختم ہوجائے گا لیکن وہ وقت کے ساتھ ساتھ اتنا بڑھ گیا کہ سجدے میں ماتھا زمین پر ٹھیک سے نہ رکھ پاتا۔ یہاں تک کہ ایک بار تو مسجد میں ایک صاحب نے نماز کے بعد ٹوکا بھی کہ تم سجدہ ٹھیک نہیں کرتے۔ ان کی توجہ ماتھے کی طرف مبذول کرائی کہ یہ وجہ ہے۔ بہرحال ایک بار مشورہ کیا تو پتہ لگا کہ معمولی سی سرجری کرانی پڑے گی لیکن ماتھے پر سرجری کا سن کر ہی ڈر لگتا تھا اس لئے ایسے ہی معاملہ چلتا رہا۔تقریبا چار سال ایسے ہی گزرگئے۔ کراچی میں سمن آباد میں ڈاکٹر انصاری صاحب کا کلینک ہے۔ کافی ان کا نام سنا ہوا تھا۔ اس لئے ایک دن ویسے ہی چلے گئے۔ انہوں نے چیک کرکے ایک ہفتے کی دوا دے دی۔ ایک ہفتے میں کچھ فرق محسوس ہوا۔ لہذا پھر دو ہفتے میں دو مزید چکر لگائے۔ تیسرے ہفتے کے اختتام تک گومڑ ختم ہوچکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے بھی ڈاکٹر انصاری کے کلینک جانا چھوڑ دیا کہ ہر ہفتے دو سو روپے خرچ ہوتے تھے فیس کی مد میں۔ اب تو کوئی پہچان بھی نہیں سکتا کہ اس ماتھے پر کبھی اچھا خاصا گومڑ ہوا کرتا تھا۔:) ان کے پاس بعد میں بھی جاتے رہے چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے لئے مثلا نزلہ، بخار اور ہڈیوں میں درد کے مسائل تھے۔ لیکن اس معاملے میں کچھ فائدہ نہ ہوا۔ لیکن ماتھے پر گومڑ والا معاملہ ایسا واضح تھا کہ احساس ہوا کہ ہومیوپیتھی میں کچھ تو اثر ہے۔

سن ۲۰۰۷ کی ہی بات ہے کہ خاکسار کو سردیوں میں کھانسی کی ایسی شکایت ہوئی کہ دو ہفتے تک کسی دوا سے فرق نہ پڑا۔ کبھی زندگی میں اتنے لمبے عرصے کے لئے کھانسی نہ ہوئی تھی۔ سیفی اسپتال میں ایک چیسٹ اسپیشلسٹ کے زیر علاج تین ماہ تک رہے تو کھانسی ختم ہوئی۔ لیکن پھر تو یہ معمول ہوگیا کہ ہر سردیوں میں ہمیں کھانسی شروع ہوتی اور پورا سردیاں مسلسل یہ تکلیف رہتی۔ دس سال تک ساری سردیوں کے موسم اس تکلیف میں گزارے۔ ہمیں کھانسی سے زیادہ یہ پریشانی ہوتی تھی کہ آفس میں دوسرے لوگ ہماری کھانسی سے مستقل ڈسٹرب ہوتے۔ بہرحال جیسے تیسے سردیاں گزارا کرتے۔ اور سردیوں کے بعد سب کچھ نارمل ہوجاتا۔ اب تو ہم اس کھانسی سے سمجھوتہ کرچکے تھے کہ یہ زندگی بھر کا ساتھ ہے۔

لیکن ان سردیوں میں پنجاب آنا ہوا۔ اور یہاں آتے ہی چند دن تو سکون سے گزرے اور پھر وہی کھانسی کا دورہ شروع ہوگیا۔ ہمیں تو پتہ تھا کہ اپنا پرانا ساتھی ہے اب سردیاں ساتھ ہی گزار کر جائے گا۔ لیکن یہاں کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ یہاں ہومیو پیتھک ڈسپنسری میں دکھادو۔ ڈسپنسری میں گئے تو پتہ لگا کہ ٹوکن ٹائم ویسے تو بارہ بجے تک کا ہے لیکن اگر واقعی ہمیں ٹوکن چاہئے تو فجر سے پہلے آکر لائن میں لگ جائیں کہ ڈسپنسری کھلتے ہی سب ٹوکن ختم ہوجاتے ہیں۔ اب فجر سے پہلے جاکر لائن میں لگنے کی تو ہمت نہ تھی لیکن ایک دوست نے یہ مشکل آسان کرادی۔ بہرحال ڈاکٹر کو دکھایا۔ مختلف سوال پوچھنے کے بعد کہنے لگے کبھی ٹائفائیڈ تو نہیں ہوا تھا۔ ہمیں اچانک یاد آیا کہ سن ۲۰۰۷ میں ہی ہمیں ٹائیفائیڈ ہوا تھا۔ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ یہی تو اصل بات ہے۔ بعض اوقات ٹائیفائیڈ اپنے بد اثرات پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ کہنے لگے ایک دوا تجویز کررہا ہوں ایک مہینہ کے لئے۔ اگر تو ایک ہفتے میں معمولی سا بھی فرق محسوس ہو تو اسے کم از کم چھ ماہ استعمال کرنا۔ لیکن اگر ایک ہفتے میں ذرا بھی فرق نہ محسوس ہو تو دوا فورا روک دینا اور دوبارہ آکر چیک کرانا۔ ایک ہفتہ دوا استعمال کی۔ ڈانواڈول کی سی کیفیت رہی۔ کبھی لگتا کہ کچھ فرق پڑا ہے کبھی لگتا کہ نہیں۔ بہرحال اگلے ہفتے بھی دوا جاری رکھی اور کچھ فرق محسوس ہوا۔ ایک ماہ میں تو کافی زیادہ فرق محسوس ہوا۔ دوبارہ ڈسپنسری جانے کی تو ہمت نہ تھی لہذا وہی دوا بازار سے لے کر دوبارہ استعمال کی۔ اور ابھی سردیوں کا موسم چل ہی رہا ہے لیکن خاکسار کی کھانسی محض اللہ کے فضل سے ختم ہوچکی ہے۔ دس سال پرانی بیماری سے جب اللہ کے فضل سے جان چھوٹی ہے تو اب تو یقین ہوگیا ہے کہ ہومیوپیتھی خواہ سمجھ میں آئے یا نہ لیکن بہرحال اس میں حقیقت تو ہے۔

دیگر محفلین بھی اپنے واقعات شئیر کریں۔
واقعات تو ہمارے بھی بہت سے ہیں اور ہمارے جاننے والوں کے بھی، لیکن آلکسی لکھنے سے آڑے ہے۔ ویسے بھی اللہ بھلا کرے زیک بھائی کا! وہ ایک بھلی سی سائنسی اصطلاح انہوں نے بتائی تھی کہ جب ہم دوائی کھاتے ہیں تو آرام آ جاتا ہے چاہے خالی کیپسول ہی کیوں نہ ہو:) یااللہ تیرا شکر
 

رانا

محفلین
ایک دن مجھے بہت شدید بھوک لگی تھی۔ کچھ نہیں تھا سوائے دودھ کے آدھ کپ کے۔ اس سے کیا پیٹ بھرنا تھا۔ سو میں نے دودھ پوری بالٹی پانی میں ملا دیا۔ پھر اس بالٹی میں سے ایک قطرہ لے کر پانی کے ایک جگ میں ڈالا۔ ایک جگ خود پیا۔ مزید جگ محلے کے لوگوں کو پلائے۔ اس دن پورے شہر میں کوئی شخص بھوکا نہیں سویا۔
زیک، بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر کتابیں پڑھے ہونے اور اتنا علم حاصل کرنے کے باوجود بعض اوقات آپ بالکل ایسی بات کرجاتے ہیں کہ بے ساختہ کتابوں کا ڈھیر اٹھائے ہوئے شخص کی مثال یاد آجاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسی بات کرنے سے کہ جس سے اگلے کے نقطہ نظر کا مضحکہ اڑانا مقصود ہو، کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ آپ کوئی علمی بات اس حوالے سے کرتے۔ شائد آپ یہ کہیں کہ آپ علمی رنگ میں پہلے ہی کہیں اور اظہار خیال کرچکے ہیں اس لئے دوبارہ ضرورت محسوس نہ کی، تو یہ مضحکہ اڑاتی مثال بھی تو آپ پہلے ہی ایک دوسرے دھاگے میں بھی پیش کرچکے ہیں لہذا اس کی بھی ضرورت نہ تھی۔ خاکسار ابتدا ہی میں ہومیوپیتھی پر اعتراضات کا ذکر کرچکا تھا اور تسلیم بھی کرچکا تھا کہ سائنسی لحاظ سے ہومیومعالجین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اونچی طاقتوں میں دوا کا اصل جز باقی نہیں رہتا۔

یہ اصول آپ نے کہاں سے اخذ کیا کہ جو طریق علاج درست ہے وہ بھوک بھی مٹاسکتا ہو؟ صرف اتنا بتادیجئے کہ ایلوپیتھی طریق علاج کی افادیت کے تو آپ بھی قائل ہیں۔ تو چلیں اسی مثال کو آپ پر الٹاتے ہیں کہ ڈسپرین کی دو گولیاں کھاکر آپ کی بھوک ختم ہوجائے گی؟ نہیں!! چلیں دو کم ہیں تو پوری بالٹی کرلیں۔ ایک بالٹی ڈسپرین آپ کی بھوک مٹادے گی؟؟ اب بھی نہیں!!! کیوں؟ کیا کہا ایلوپیتھی طریق علاج کا دعویٰ بھوک مٹانے کا نہیں!! تو میرے بھائی ہومیوپیتھی نے کب یہ دعویٰ کیا؟ کوئی حوالہ دے سکیں تو مشکور ہوں گا۔

اب ذرا آپ کی اس مثال کا تجزیہ بھی کر لیتے ہیں جس کو آپ بڑے فخر سے پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس مثال کے پیش کرنے سے لگتا ہے کہ آپ کو ہومیوپیتھی کے بنیادی اصول کا ہی علم نہیں۔ (اگر علم ہے تو پھر اسی مراسلے کی پہلی سطر پڑھ لیں)۔ ہومیو پیتھی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جسم میں موجود قدرتی دفاع کی طاقت (جس کا سائنس کو بھی اقرار ہے) کو ابھارا جائے کہ وہ جسم میں موجود بیماری کے خلاف ایکشن لے۔ یہ بات سائنس کے تحت بھی مسلم ہے (مجھے خوشی ہوگی اگر آپ اس کا انکار کریں) کہ ایک شخص میں اگر قدرتی قوت دفاع مضبوط ہو تو وہ دوسرے کمزور شخص کی نسبت کم ہی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے کیونکہ انسانی جسم میں بیماریوں سے لڑنے کے خلاف قدرتی طاقت اور مدافعت پائی جاتی ہے اور اکثر صورتوں میں دوا کے بغیر ہی جسم بیماری سے لڑ کر اس پر غالب آجاتا ہے۔ ہومیوپیتھی صرف اس قدرتی قوت دفاع کو ابھار کر اسے بیماری کے خلاف جدوجہد کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ لیکن شائد آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ دوا بذات خود ایلوپیتھی کی طرز پر بیماری کے خلاف جنگ کرتی ہے۔ اس قدرکتابیں پڑھنے کے بعد ابھی تک آپ کو اتنا علم بھی نہیں ہوا کہ مثال ہمیشہ ایسی پیش کرنی چاہئے جس کا کچھ نہ کچھ تعلق اس بات سے ہو؟ بات بیماری اور علاج کی ہورہی ہے۔ اور مثال آپ دے رہے ہیں بھوک کی؟ کیا انسان کو فطری طور پر جو بھوک لگتی ہے وہ کوئی بیماری ہے؟ کیا وہ جسم کی وائٹل فورس یا قدرتی دفاع کی طاقت سے دور ہوتی ہے یا بیرونی خوراک سے؟ کیا کوئی دور کا بھی سینس ہے اس مثال میں؟ کیا آپ کو اتنا بھی علم نہیں کہ بھوک دراصل جسم کو درکار انرجی کی ضرورت کا احساس ہے جو لازمی ہے کہ جسم کے باہر سے پوری کی جائے۔ پس کیسا یہ احمقانہ خیال ہے کہ میں نے دودھ کی ہومیو پوٹینسی بنائی لیکن میری بھوک دور نہ ہوئی۔ ایسی شاندار مثال اور اپنے تئیں ایسی لاجواب مثال پیش کرنے والے کو ہم کیا کہیں، افسوس ہی کرسکتے ہیں۔

ہومیوپیتھی کے حوالے سے تنازع کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1- اس علاج کا طریق اور اصول جس پر دوا بنائی جاتی ہے۔ یہاں کوئی اختلاف ہی نہیں۔ ہومیوپیتھ یہ مانتے ہیں کہ اونچی طاقت میں اصل دوا کا کوئی جز باقی نہیں رہتا سوائے ایک موہوم سی یاد کے، جس کو روح سمجھ لیتی ہے۔ اور اس اصول کے تحت کہ جسم ہر بیرونی حملہ آور کے خلاف ایکشن دکھاتا ہے، وہ اس انتہائی کمزور حملے کے خلاف باآسانی حرکت میں آجاتا ہے اور اسی سے ملتی جلتی بیماری جو پہلے ہی جسم میں موجود ہوتی ہے وہ بھی جسم کے اس دفاع کی زد میں آجاتی ہے۔ اب اگر یہ یاد کا پیغام اور روح سائنس کے دائرہ کار میں آتی ہے تو شوق سے آئیں اور گفتگو کریں۔ اگر نہیں اور جبکہ خاکسار اوپر اس طریقہ علاج کا تعلق ’’روح‘‘ سے جوڑ چکا تھا تو کیا روح اور یاد کے پیغام کا سائنس کی دنیا میں کوئی وجود ہے؟ جبکہ ایک چیز آپ (سائنس) کے دائرہ کار سے ہی باہر ہے اور ہومیومعالجین کو بھی تسلیم ہے تو پھر ایک سائنسدان بار بار اپنی جگہ سے اٹھ اٹھ کر ہومیو ہم خیالوں کی چوپال میں آکر اپنے سائنسی نظریات کی گردان کرنا شروع کردے تو فرمائیے اس کی کیا سزا ہونی چاہئے؟

2- دوسرا حصہ اس طریق علاج کے نتائج ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جو سائنس کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ تو جناب ان نتائج پر گفتگو کی جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ خاکسار نے اپنے دو واقعات شئیر کیئے ہیں ان کی کوئی سائنسی توجیہ کریں بہت مناسب ہوگا۔
 

زیک

مسافر
زیک، بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر کتابیں پڑھے ہونے اور اتنا علم حاصل کرنے کے باوجود بعض اوقات آپ بالکل ایسی بات کرجاتے ہیں کہ بے ساختہ کتابوں کا ڈھیر اٹھائے ہوئے شخص کی مثال یاد آجاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسی بات کرنے سے کہ جس سے اگلے کے نقطہ نظر کا مضحکہ اڑانا مقصود ہو، کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ آپ کوئی علمی بات اس حوالے سے کرتے۔ شائد آپ یہ کہیں کہ آپ علمی رنگ میں پہلے ہی کہیں اور اظہار خیال کرچکے ہیں اس لئے دوبارہ ضرورت محسوس نہ کی، تو یہ مضحکہ اڑاتی مثال بھی تو آپ پہلے ہی ایک دوسرے دھاگے میں بھی پیش کرچکے ہیں لہذا اس کی بھی ضرورت نہ تھی۔ خاکسار ابتدا ہی میں ہومیوپیتھی پر اعتراضات کا ذکر کرچکا تھا اور تسلیم بھی کرچکا تھا کہ سائنسی لحاظ سے ہومیومعالجین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اونچی طاقتوں میں دوا کا اصل جز باقی نہیں رہتا۔

یہ اصول آپ نے کہاں سے اخذ کیا کہ جو طریق علاج درست ہے وہ بھوک بھی مٹاسکتا ہو؟ صرف اتنا بتادیجئے کہ ایلوپیتھی طریق علاج کی افادیت کے تو آپ بھی قائل ہیں۔ تو چلیں اسی مثال کو آپ پر الٹاتے ہیں کہ ڈسپرین کی دو گولیاں کھاکر آپ کی بھوک ختم ہوجائے گی؟ نہیں!! چلیں دو کم ہیں تو پوری بالٹی کرلیں۔ ایک بالٹی ڈسپرین آپ کی بھوک مٹادے گی؟؟ اب بھی نہیں!!! کیوں؟ کیا کہا ایلوپیتھی طریق علاج کا دعویٰ بھوک مٹانے کا نہیں!! تو میرے بھائی ہومیوپیتھی نے کب یہ دعویٰ کیا؟ کوئی حوالہ دے سکیں تو مشکور ہوں گا۔

اب ذرا آپ کی اس مثال کا تجزیہ بھی کر لیتے ہیں جس کو آپ بڑے فخر سے پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس مثال کے پیش کرنے سے لگتا ہے کہ آپ کو ہومیوپیتھی کے بنیادی اصول کا ہی علم نہیں۔ (اگر علم ہے تو پھر اسی مراسلے کی پہلی سطر پڑھ لیں)۔ ہومیو پیتھی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جسم میں موجود قدرتی دفاع کی طاقت (جس کا سائنس کو بھی اقرار ہے) کو ابھارا جائے کہ وہ جسم میں موجود بیماری کے خلاف ایکشن لے۔ یہ بات سائنس کے تحت بھی مسلم ہے (مجھے خوشی ہوگی اگر آپ اس کا انکار کریں) کہ ایک شخص میں اگر قدرتی قوت دفاع مضبوط ہو تو وہ دوسرے کمزور شخص کی نسبت کم ہی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے کیونکہ انسانی جسم میں بیماریوں سے لڑنے کے خلاف قدرتی طاقت اور مدافعت پائی جاتی ہے اور اکثر صورتوں میں دوا کے بغیر ہی جسم بیماری سے لڑ کر اس پر غالب آجاتا ہے۔ ہومیوپیتھی صرف اس قدرتی قوت دفاع کو ابھار کر اسے بیماری کے خلاف جدوجہد کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ لیکن شائد آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ دوا بذات خود ایلوپیتھی کی طرز پر بیماری کے خلاف جنگ کرتی ہے۔ اس قدرکتابیں پڑھنے کے بعد ابھی تک آپ کو اتنا علم بھی نہیں ہوا کہ مثال ہمیشہ ایسی پیش کرنی چاہئے جس کا کچھ نہ کچھ تعلق اس بات سے ہو؟ بات بیماری اور علاج کی ہورہی ہے۔ اور مثال آپ دے رہے ہیں بھوک کی؟ کیا انسان کو فطری طور پر جو بھوک لگتی ہے وہ کوئی بیماری ہے؟ کیا وہ جسم کی وائٹل فورس یا قدرتی دفاع کی طاقت سے دور ہوتی ہے یا بیرونی خوراک سے؟ کیا کوئی دور کا بھی سینس ہے اس مثال میں؟ کیا آپ کو اتنا بھی علم نہیں کہ بھوک دراصل جسم کو درکار انرجی کی ضرورت کا احساس ہے جو لازمی ہے کہ جسم کے باہر سے پوری کی جائے۔ پس کیسا یہ احمقانہ خیال ہے کہ میں نے دودھ کی ہومیو پوٹینسی بنائی لیکن میری بھوک دور نہ ہوئی۔ ایسی شاندار مثال اور اپنے تئیں ایسی لاجواب مثال پیش کرنے والے کو ہم کیا کہیں، افسوس ہی کرسکتے ہیں۔

ہومیوپیتھی کے حوالے سے تنازع کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1- اس علاج کا طریق اور اصول جس پر دوا بنائی جاتی ہے۔ یہاں کوئی اختلاف ہی نہیں۔ ہومیوپیتھ یہ مانتے ہیں کہ اونچی طاقت میں اصل دوا کا کوئی جز باقی نہیں رہتا سوائے ایک موہوم سی یاد کے، جس کو روح سمجھ لیتی ہے۔ اور اس اصول کے تحت کہ جسم ہر بیرونی حملہ آور کے خلاف ایکشن دکھاتا ہے، وہ اس انتہائی کمزور حملے کے خلاف باآسانی حرکت میں آجاتا ہے اور اسی سے ملتی جلتی بیماری جو پہلے ہی جسم میں موجود ہوتی ہے وہ بھی جسم کے اس دفاع کی زد میں آجاتی ہے۔ اب اگر یہ یاد کا پیغام اور روح سائنس کے دائرہ کار میں آتی ہے تو شوق سے آئیں اور گفتگو کریں۔ اگر نہیں اور جبکہ خاکسار اوپر اس طریقہ علاج کا تعلق ’’روح‘‘ سے جوڑ چکا تھا تو کیا روح اور یاد کے پیغام کا سائنس کی دنیا میں کوئی وجود ہے؟ جبکہ ایک چیز آپ (سائنس) کے دائرہ کار سے ہی باہر ہے اور ہومیومعالجین کو بھی تسلیم ہے تو پھر ایک سائنسدان بار بار اپنی جگہ سے اٹھ اٹھ کر ہومیو ہم خیالوں کی چوپال میں آکر اپنے سائنسی نظریات کی گردان کرنا شروع کردے تو فرمائیے اس کی کیا سزا ہونی چاہئے؟

2- دوسرا حصہ اس طریق علاج کے نتائج ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جو سائنس کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ تو جناب ان نتائج پر گفتگو کی جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ خاکسار نے اپنے دو واقعات شئیر کیئے ہیں ان کی کوئی سائنسی توجیہ کریں بہت مناسب ہوگا۔
ہومیوپیتھی کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ روحانی طریقہ علاج ہے۔ کیا آپ یا کوئی اور سائنسی تجربے کی بنیاد پر ہومیوپیتھی طریقہ علاج کا ثبوت فراہم کر سکتا ہے؟

افسوس ہوتا ہے جب آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ ایسی کہانیوں پر یقین کرتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ آپ نے سائنس امتحان پاس کرنے کے لئے پڑھی اور اس سے کچھ نہیں سیکھا۔

رہی بات آپ کی بیماری کے علاج کی تو شاید آپ نے پلاسیبو ایفیکٹ کا نام سنا ہو۔
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
چلو جی کوئی حکیم صاحب تلاش کر لائیں، یہاں تو جھگڑا ہو چلا۔۔۔ کوئی حکیم صاحب محفل پہ ہیں تو ٹیگ کر دیں کوئی صاحب۔۔۔۔ ان حکیم صاحب کو اس لڑی میں۔
 

رانا

محفلین
ہومیوپیتھی کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ روحانی طریقہ علاج ہے۔ کیا آپ یا کوئی اور سائنسی تجربے کی بنیاد پر ہومیوپیتھی طریقہ علاج کا ثبوت فراہم کر سکتا ہے؟
ایسا لگتا ہے جیسے میں اب تک بطخ کے پروں پر پانی پھینکتا رہا۔ یا پھر پوری رات لیلیٰ مجنوں کی کہانی سن کر مجنوں کی صنف کے متعلق پوچھنے والے کی مثال یاد آگئی۔ سر باادب گزارش ہے کہ خاکسار نے اپنے پہلے مراسلے میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ ہومیوپیتھی کی بنیاد بہرحال روح کا وجود مانے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتی کہ سائنس کے تحت تو ہمیں بھی تسلیم ہے کہ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ پھر اسی بات کا اعادہ خاکسار نے اپنے دوسرے مراسلے میں بہت وضاحت سے کیا تھا۔ اسکے بعد پھر یہ ایسے پوچھا جارہا ہے کہ جیسے میں نے کہیں اس کو سائنس سے ثابت کرنے کی کوشش کی تھی!!!

کیا آپ یا کوئی اور سائنسی تجربے کی بنیاد پر ہومیوپیتھی طریقہ علاج کا ثبوت فراہم کر سکتا ہے؟
علاج کی افادیت کا ثبوت ماننا ہے تو اسکے عوض شفایاب مریض ہی پیش کئے جاسکتے ہیں۔ مزید ارشاد فرمائیے کس قسم کا ثبوت درکار ہے؟ شائد آپ دوا میں موجود ایٹموں کا ثبوت مانگ رہے ہیں تو ایک بار پھر گذارش کہ ہمیں تسلیم ہے کہ وہاں ایٹم نہیں ہوتے۔ ورنہ ہم اسے روحانی طریق علاج کیوں کہتے!!!
اگر آپ کو ضد ہے کہ نتائج چاہے ہومیوپیتھی کے حق میں ہوں جب تک شفا دینے والے مادے کا وجود ثابت نہ ہو نتائج تسلیم نہیں کئے جاسکتے تو سر کیا فرمائیں گے اس بارے میں کہ عدم سے مادہ وجود میں نہیں آسکتا لیکن یہ کائنات موجود ہے؟ جب عدم ہی ثابت نہیں تو امید ہے کہ اس مادے کا بھی آپ کو انکار ہوگا۔


افسوس ہوتا ہے جب آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ ایسی کہانیوں پر یقین کرتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ آپ نے سائنس امتحان پاس کرنے کے لئے پڑھی اور اس سے کچھ نہیں سیکھا۔
پہلی بات تو یہ کہ خاکسار نے یہاں اپنے تجربات بیان کئے تھے ناکہ کسی کی کہانی سنائی تھی جس پر بقول آپ کے صرف سن کر یقین کرلیا تھا۔ پتہ نہیں آج آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ کسی بات میں ربط ہی نہیں رہا۔
آپ نے تو دو ٹوک بات کردی کہ جو چیز سائنس سے ثابت نہ ہو اس پر ایمان لانے والے پر افسوس کرنا چاہئے۔ تو سائنس تو خدا کا وجود بھی نہیں مانتی۔ اب ذرا یہاں پر ایک دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان تو کردیں کہ آپ خدا کے وجود سے انکاری ہیں۔ کسی دوسرے دھاگے میں ایک صاحب نے آپ کے متعلق بڑے وثوق سے گواہی دی تھی کہ آپ خدا کو مانتے ہیں، چلیں اس بہانے وہ ابہام بھی دور ہوجائے گا۔ اس بات کا خیال رہے کہ خدا کا وجود ماننے کے بعد اسی اصول پر آپ کو اپنے آپ پر افسوس بھی کرنا ہے اسی دھاگے میں۔ خیال رہے کہ انکار کرنے کے بعد بھی آپ میرے لئے ویسے ہی محترم رہیں گے جیسے پہلے تھے۔ یہ بات صرف آپ کی غلطی کی توجہ دلانے کے لئے کی ہے لیکن اگر آپ واقعی خدا کا انکار کرتے ہیں تو پھر یہ ساری بحث ہی لاحاصل ہوجائے گی کہ میں روح پر یقین رکھتا ہوں اور آپ نہیں۔ لہذا ایسی صورت میں گفتگو ختم شد کہ ہم دونوں ایک پیج پر ہی نہیں آسکیں گے۔

رہی بات آپ کی بیماری کے علاج کی تو شاید آپ نے پلاسیبو ایفیکٹ کا نام سنا ہو۔
جی ابھی سرچ کیا تو یہ دو مراسلے ملے، ایک آپ کا اور ایک فاتح بھائی کا جس میں سے صرف پہلی تعریف لی ہے اختصار کی غرض سے۔
مریض کو علاج کے لئے کچھ بھی دیا جائے تو وہ بہتر ہو جاتا ہے یا بہتر محسوس کرتا ہے چاہے خالی کیپسول ہی ہو۔

اب یہ بتائیے کہ ہومیوپیتھی کہتی ہے کہ
1- اصل دوا میں کوئی ایٹم موجود نہیں صرف ایک یاد ہے جو جسم کے دفاع کو ابھارے گی اور جسم کا دفاع مرض کو ٹھیک کردے گا۔
2- مرض واقعی ٹھیک ہوجاتا ہے۔ آپ کی دی گئی تعریف کے مطابق اور اس کی علامات ختم ہوکر پیتھالوجیکل رپورٹس ایک دم کلئیر۔

تو بھائی پھر جھگڑا کیا ہے؟ کس وجہ سے ایسی لایعنی مثالیں دے کر اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کررہے ہیں۔
مرض کا ختم یا بہتر ہونا آپ کو بھی تسلیم ہے۔ صرف یہ کہ آپ اس کو پلاسبو ایفیکٹ کا نام دے رہے ہیں اور ہومیوپیتھی اسے دوا کا اثر کہتی ہے۔
اب سوال آپ سے ہے کہ جب دوا میں کوئی اثر ہی نہیں تھا۔ اور کوئی مادہ بھی جسم پر اثر انداز نہیں ہوا تو مرض کیسے ختم ہوگیا؟؟؟ (آپ کی ہی تعریف کے مطابق مرض ختم ہوجاتا ہے۔) مثلا میرے ماتھے کا گومڑ ختم ہوا تو اس کی سائنسی وجہ ارشاد ہو۔ خاکسار ہمہ تن گوش ہے۔
 

زیک

مسافر
اب یہ بتائیے کہ ہومیوپیتھی کہتی ہے کہ
1- اصل دوا میں کوئی ایٹم موجود نہیں صرف ایک یاد ہے جو جسم کے دفاع کو ابھارے گی اور جسم کا دفاع مرض کو ٹھیک کردے گا۔
2- مرض واقعی ٹھیک ہوجاتا ہے۔ آپ کی دی گئی تعریف کے مطابق اور اس کی علامات ختم ہوکر پیتھالوجیکل رپورٹس ایک دم کلئیر۔

تو بھائی پھر جھگڑا کیا ہے؟ کس وجہ سے ایسی لایعنی مثالیں دے کر اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کررہے ہیں۔
مرض کا ختم یا بہتر ہونا آپ کو بھی تسلیم ہے۔ صرف یہ کہ آپ اس کو پلاسبو ایفیکٹ کا نام دے رہے ہیں اور ہومیوپیتھی اسے دوا کا اثر کہتی ہے۔
اب سوال آپ سے ہے کہ جب دوا میں کوئی اثر ہی نہیں تھا۔ اور کوئی مادہ بھی جسم پر اثر انداز نہیں ہوا تو مرض کیسے ختم ہوگیا؟؟؟ (آپ کی ہی تعریف کے مطابق مرض ختم ہوجاتا ہے۔) مثلا میرے ماتھے کا گومڑ ختم ہوا تو اس کی سائنسی وجہ ارشاد ہو۔ خاکسار ہمہ تن گوش ہے۔
پھر ہومیوپیتھی کی دوائی کی کیا ضرورت ہے؟ چینی کھلا دیں یا پانی پلا دیں۔ بلکہ ہوا سے بھرا خالی کیپسول بھی چلے گا۔ ان سب کا اثر ہومیوپیتھی کی دوائی کے برابر ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ چیزیں برابر ہیں؟
 

زیک

مسافر
آپ نے تو دو ٹوک بات کردی کہ جو چیز سائنس سے ثابت نہ ہو اس پر ایمان لانے والے پر افسوس کرنا چاہئے۔ تو سائنس تو خدا کا وجود بھی نہیں مانتی۔ اب ذرا یہاں پر ایک دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان تو کردیں کہ آپ خدا کے وجود سے انکاری ہیں۔ کسی دوسرے دھاگے میں ایک صاحب نے آپ کے متعلق بڑے وثوق سے گواہی دی تھی کہ آپ خدا کو مانتے ہیں، چلیں اس بہانے وہ ابہام بھی دور ہوجائے گا۔ اس بات کا خیال رہے کہ خدا کا وجود ماننے کے بعد اسی اصول پر آپ کو اپنے آپ پر افسوس بھی کرنا ہے اسی دھاگے میں۔ خیال رہے کہ انکار کرنے کے بعد بھی آپ میرے لئے ویسے ہی محترم رہیں گے جیسے پہلے تھے۔ یہ بات صرف آپ کی غلطی کی توجہ دلانے کے لئے کی ہے لیکن اگر آپ واقعی خدا کا انکار کرتے ہیں تو پھر یہ ساری بحث ہی لاحاصل ہوجائے گی کہ میں روح پر یقین رکھتا ہوں اور آپ نہیں۔ لہذا ایسی صورت میں گفتگو ختم شد کہ ہم دونوں ایک پیج پر ہی نہیں آسکیں گے۔
یہ پیرا ہے جس کی وجہ سے آپ کے مراسلے کو ریٹنگ دی ہے۔

کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کا ہومیوپیتھی پر ویسا ہی ایمان ہے جیسا خدا پر ہے؟
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
systematic review اور randomized control trial اور placebo control وغیرہ کا ذکر سنا ہے آپ نے؟
جی نہیں سنا اور انگریزی بھی کمزور ہے۔ اسی لئے سادہ اردو میں اپنے تجربات شئیر کئے ہیں آپ بھی سادہ اردو میں اپنا مدعا بیان کردیجئے بجائے ادق اصطلاحات کے استعمال کے جو عموما اپنی علمیت جھاڑنے کی غرض سے استعمال کی جاتی ہیں۔

پھر ہومیوپیتھی کی دوائی کی کیا ضرورت ہے؟ چینی کھلا دیں یا پانی پلا دیں۔ بلکہ ہوا سے بھرا خالی کیپسول بھی چلے گا۔ ان سب کا اثر ہومیوپیتھی کی دوائی کے برابر ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ چیزیں برابر ہیں؟
لگتا ہے آپ کو اپنی ہردلعزیز مثال کے بخیئے ادھیڑنا شدید ناگوار گزرا ہے جو اب مسلسل ایک کے بعد ایک بے ربط سوالات پوچھے جارہے ہیں۔ سر اپنا مراسلہ ہی دوبارہ اقتباس میں دے دیتا ہوں۔
خاکسار نے اوپر دوسرے مراسلے میں عرض کیا تھا کہ:
ہومیوپیتھ یہ مانتے ہیں کہ اونچی طاقت میں اصل دوا کا کوئی جز باقی نہیں رہتا سوائے ایک موہوم سی یاد کے، جس کو روح سمجھ لیتی ہے۔ اور اس اصول کے تحت کہ جسم ہر بیرونی حملہ آور کے خلاف ایکشن دکھاتا ہے، وہ اس انتہائی کمزور حملے کے خلاف باآسانی حرکت میں آجاتا ہے اور اسی سے ملتی جلتی بیماری جو پہلے ہی جسم میں موجود ہوتی ہے وہ بھی جسم کے اس دفاع کی زد میں آجاتی ہے۔ اب اگر یہ یاد کا پیغام اور روح سائنس کے دائرہ کار میں آتی ہے تو شوق سے آئیں اور گفتگو کریں۔

مجبورا ایک جملے کو زیادہ بڑے فانٹ میں دکھانا پڑا ہے کہ تاکہ آپ کو سمجھ آجائے کہ بھائی جان یہ ہوا کا کیپسول ہومیو دوا کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ کیا اس کیپسول میں مثلا آرنیکا کے مادے کی یاد موجود ہوگی؟ خدارا ہومیوپیتھی کے بنیادی اصول کو ایک بار اچھے سے پڑھ لیں تاکہ بار بار لایعنی سوالات کرنے سے بچ سکیں۔

یہ پیرا ہے جس کی وجہ سے آپ کے مراسلے کو ریٹنگ دی ہے۔
کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کا ہومیوپیتھی پ ویسا ہی ایمان ہے جیسا خدا پر ہے؟
زیک، بہت ادب سے گذارش کروں گا کہ الفاظ سےکھیل کر اصل سوال کو الجھانے کا طریق آپ پر نہیں جچے گا۔ بچگانہ طریق ہے۔ میرا سوال بہت واضح ہے کہ آپ کے بقول جو چیز سائنس سے ثابت نہ ہو اس پر یقین کرنے والے پر افسوس کرنا چاہئے۔ جواب درکار ہے کہ خدا پر آپ یقین رکھتے ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ خدا سائنس سے ثابت نہیں۔ دو ہی صورتیں ہیں۔ یا تو یہ اصول غلط ہے جو آپ نے پیش کیا ہے اور یا اصول درست ہے لیکن آپ واقعی اسی اصول پر خدا کو نہیں مانتے۔ مکرر عرض کروں گا کہ الجھائے بغیر جرات اور ایمانداری سے جواب دیں۔
 

زیک

مسافر
جی نہیں سنا اور انگریزی بھی کمزور ہے۔ اسی لئے سادہ اردو میں اپنے تجربات شئیر کئے ہیں آپ بھی سادہ اردو میں اپنا مدعا بیان کردیجئے بجائے ادق اصطلاحات کے استعمال کے جو عموما اپنی علمیت جھاڑنے کی غرض سے استعمال کی جاتی ہیں۔
کیا کوئی دوائی اثر رکھتی ہے اس کے لئے تجربات باقاعدہ پروٹوکال کے تحت کئے جاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا bias نہ ہو۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی علاج نہ بھی کیا جائے یا مریض کو محض چینی، پانی یا ہوا دے دی جائے تو بھی اکثر وہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں ثابت کیا جاتا ہے کہ ماڈرن میڈیسن کی کوئی دوائی کسی خاص مرض کے لئے فائدہ مند ہے یا نہیں۔ ایسے تجربات ہومیوپیتھ نہیں کرتے اور جب ریسرچرز نے ہومیوپیتھی کی دوائیوں پر ایسے تجربات کئے ہیں تو ان کو پلاسیبو سے بہتر نہیں پایا۔

ایسا ایک ٹرائل اتفاقی بھی ہوسکتا ہے۔ اسی لئے ایسے کئی تجربات جو پبلش ہوئے ہوں ان کا باقاعدہ جائزہ لے کر سسٹمیٹک ریویو کیا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر دوائی کا اثر کیسا ہے۔

چونکہ ہوائی کیپسول سے بھی کئی مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ کسی دوائی کا اثر پلاسیبو سے خاطرخواہ بہتر ہو۔

اسی سلسلے میں کچھ ریسرچ کے روابط اسی لڑی میں پوسٹ کئے تھے۔

آخری بات یہ کہ جارگن اور اصطلاحات صرف رعب جھاڑنے کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ یہ کسی بھی فیلڈ سے متعلق علم جاننے میں معاون ہوتی ہیں۔ اگر آپ میری پوسٹ والی اصطلاحات کو گوگل کرتے تو علم میں کافی اضافہ ہونے کی امید تھی۔ ہر کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ ایک ہی بات پر بار بار تفصیل بیان کرے۔ اگر کوئی علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے خود ڈھونڈنا ہو گا ہم صرف اشارہ ہی کر سکتے ہیں
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
ہومیوپیتھ یہ مانتے ہیں کہ اونچی طاقت میں اصل دوا کا کوئی جز باقی نہیں رہتا سوائے ایک موہوم سی یاد کے، جس کو روح سمجھ لیتی ہے۔ اور اس اصول کے تحت کہ جسم ہر بیرونی حملہ آور کے خلاف ایکشن دکھاتا ہے، وہ اس انتہائی کمزور حملے کے خلاف باآسانی حرکت میں آجاتا ہے اور اسی سے ملتی جلتی بیماری جو پہلے ہی جسم میں موجود ہوتی ہے وہ بھی جسم کے اس دفاع کی زد میں آجاتی ہے۔ اب اگر یہ یاد کا پیغام اور روح سائنس کے دائرہ کار میں آتی ہے تو شوق سے آئیں اور گفتگو کریں۔
ہومیوپیتھ کے یہ ماننے کا کوئی جواز نہیں۔ تجربات سے ثابت ہے کہ ہومیوپیتھی کی دوائی اور پلاسیبو میں کوئی فرق نہیں۔
 

یاز

محفلین
السلام علیکم
معلوماتی ٹاپک ہے بھائی۔
ہومیوپیتھی پہ میرا یقین ہو یا نہ ہو، لیکن اس بابت بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
شاید کچھ معلومات میں ہی اضافہ ہو۔ (ہو سکتا ہے کہ وہ اضافہ اتنا ہی ہو کہ ۔۔۔۔ ہومیوپیتھی کی بابت بات نہ کرنا ہی بہتر ہے)۔
 

یاز

محفلین
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں بیمار ہوا۔ کوئی دوائی نہیں لی، پھر بھی ٹھیک ہو گیا۔
سمجھ نہیں آ رہا کہ کونسی پیتھی کو اس کا کریڈٹ جانا چاہئے۔
 

رانا

محفلین
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں بیمار ہوا۔ کوئی دوائی نہیں لی، پھر بھی ٹھیک ہو گیا۔
سمجھ نہیں آ رہا کہ کونسی پیتھی کو اس کا کریڈٹ جانا چاہئے۔
وائٹل فورس یا جسم کی قدرتی قوت دفاع کو۔
یہی ہومیوپیتھی دوا کرتی ہے کہ اگر کسی وجہ سے جسم کی دفاعی قوت نے مرض کو نظر انداز کردیا ہے تو اس کو جگادے۔ باقی کام پھر جسم کا ہی ہے۔ آپ کے معاملے میں جسم کی قوت پہلے ہی مرض کے خلاف ایکشن لے چکی تھی۔
 
Top