کیا کوئی دوائی اثر رکھتی ہے اس کے لئے تجربات باقاعدہ پروٹوکال کے تحت کئے جاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا bias نہ ہو۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی علاج نہ بھی کیا جائے یا مریض کو محض چینی، پانی یا ہوا دے دی جائے تو بھی اکثر وہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں ثابت کیا جاتا ہے کہ ماڈرن میڈیسن کی کوئی دوائی کسی خاص مرض کے لئے فائدہ مند ہے یا نہیں۔ ایسے تجربات ہومیوپیتھ نہیں کرتے اور جب ریسرچرز نے ہومیوپیتھی کی دوائیوں پر ایسے تجربات کئے ہیں تو ان کو پلاسیبو سے بہتر نہیں پایا۔
ہومیوپیتھی والے بھی دواؤں کو چیک کرنے کے لئے تجربات کرتے ہیں ۔ وہ تجربات ہوسکتا ہے کہ ایلوپیتھی طریق کار سے مختلف ہوں لیکن بہرحال ہومیوپیتھک میں باقاعدہ پروونگ کا ایک طریق کار موجود ہے جس کے تحت دوا کے اثرات کو جانچا جاتا ہے۔ ایک دوا کی پوٹنسی بنانے کے بعد اسے مختلف صحت مند انسانوں کو استعمال کرائی جاتی ہے۔ ہومیوپیتھی کے بنیادی اصول کے تحت جسم اس پوٹنسی کے خلاف ردعمل دکھاتا ہے۔ یہ دوا مسلسل کچھ وقفوں سے استعمال کرائی جاتی ہے۔ اور جتنے افراد اس پروونگ کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں ان میں سے کسی کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اسے دوا دی جارہی ہے یا سادہ پانی۔ لیکن پروونگ کرنے والوں کو علم ہوتا ہے کہ کن مریضوں کو دوا دی جارہی ہے۔ پھر ان سب کی علامات کا جائزہ لے کر بہت چھان بین کرکے ایک جیسی علامات کو اس دوا کے تحت لکھا جاتا ہے۔ پھر انہی علامات والے مریضوں پر اسے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایسا ایک ٹرائل اتفاقی بھی ہوسکتا ہے۔ اسی لئے ایسے کئی تجربات جو پبلش ہوئے ہوں ان کا باقاعدہ جائزہ لے کر سسٹمیٹک ریویو کیا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر دوائی کا اثر کیسا ہے۔
چونکہ ہوائی کیپسول سے بھی کئی مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ کسی دوائی کا اثر پلاسیبو سے خاطرخواہ بہتر ہو۔
پھر کیا وجہ ہے کہ پلاسیبو ہر جگہ نہیں چلتا۔ مثلا کھانسی کی بیماری کے لئے کراچی کے ہومیوپیتھ کو بھی دکھایا لیکن اثر نہ ہوا۔ پھر ابھی جب کھانسی دوبارہ ہوئی تو ایک کتاب سے ملتی جلتی علامات کے تحت پانچ دوائیں منتخب کیں اور ایک دوا کی علامات تو اتنی ملتی تھیں کہ یقین تھا کہ اس سے ٹھیک ہوجاؤں گا۔ لیکن اس دوا نے کچھ بھی فائدہ نہ کیا۔ جب ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے جو دوا دی وہ بھی وہی تھی جو خاکسار پہلے ہی استعمال کررہا تھا۔ فرق تھا تو صرف طاقت کا۔ خاکسار تیس میں استعمال کررہا تھا جبکہ ڈاکٹر کو علم بھی نہیں تھا کہ میں وہ دوا استعمال کررہا ہوں لیکن اس نے وہی دوا ایک ہزار طاقت میں تجویز کی۔ یہ بھی ہومیوپیتھی کا ہی ایک اصول ہے کہ لمبے عرصے سے چلتی ہوئی بیماریوں میں اونچی طاقت کام کرتی ہے۔ کیا وجہ کے کراچی کے ڈاکٹر کے ہاتھوں گومڑ تو ٹھیک ہوگیا لیکن کھانسی پر پلاسبو اثر نہ ہوسکا۔ خاکسار کی اپنی تجویز کردہ دوا سے بھی پلاسبو اثر نہ ہوا حالانکہ علامات ملتی تھیں۔ لیکن دوسرے ڈاکٹر نے وہی دوا ایک ہزار طاقت میں دی تو اثر ہوا۔ اس سے پہلے اونچی طاقت کا یہ اصول خاکسار کو بھی ذہن میں نہیں تھا۔
پلاسیبو کے اثر کے تحت مرض جب ختم ہوتا ہے تو اس کی سائنسی وجہ کیا ہے؟ کیونکہ آپ کو سب سے بڑا اعتراض ہی یہی ہے کہ مادہ یا ایٹم تو اس دوا میں موجود ہی نہیں تھا تو پھر مرض کیسے ٹھیک ہوگیا؟ تو پلاسیبو کے تحت ٹھیک ہونے والے مرض کی وضاحت درکار ہے کہ کونسا مادہ اس کی وجہ بنا؟
میں واقعی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہومیوپیتھی کو صحیح طریقے سے تجربات کر کے پرکھنے کی بجائے اس پر خدا کی طرح بن دیکھے ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے؟
آپ سے کس نے کہا کہ بن دیکھے ایمان لایا جاتا ہے۔
1- اوپر پروونگ کا طریق کار بیان کیا ہے وہ پرکھنے کے لئے ہی ہے۔
2- جب اتنے مریض شفا یاب ہورہے ہوں تو پھر بن دیکھے ایمان لانا کیسے ہوگیا۔ مجھے ابھی تک جواب نہیں ملا کہ ماتھے کے گومڑ کا دور ہونا اور دوسری صورت میں مسلسل سالوں تک اس کو ماتھے پر سجائے رکھنا۔ کیا یہ ثبوت نہیں؟ یہ تو ذاتی مثال ہے ورنہ ایسی کتنی ہی لوگوں کی مثالیں ہیں۔
آپ کا کہنا صرف یہ ہے کہ یہ پلاسبو اثر ہے۔ اس کی جب تک آپ وضاحت نہیں کرتے کہ پلاسبو اثر کے تحت ماتھے کا فزیکل وجود رکھنے والا گومڑ کیسے گھل گیا یا دس سال کی کھانسی بغیر کسی مادے کے استعمال کے کیسے دور ہوگئی، اس پر مزید بات کرنا لاحاصل ہے۔ کہ مرض کا دور ہونا آپ کو بھی مسلم ہے۔ دوا میں ایٹموں کا نہ ہونا ہومیو معالجین کو مسلم ہے۔