اپنے ہومیو پیتھی تجربات شئیر کریں!

فاتح

لائبریرین
ذہنی امراض یقینا دماغ کی قوت سے ٹھیک ہو جاتے ہوں گے۔ مگر دیگر جسمانی بیماریوں کو دماغ کیسے ٹھیک کر سکتا ہے؟
یقیناً تمام امراض دماغی قوت سے ٹھیک نہیں ہو سکتے مثلاً کینسر وغیرہ لیکن بہت سے ایسے (جسمانی) امراض ہیں جن میں صرف دماغی قوت یا سوچ کی مدد سے افاقہ ہو جاتا ہے۔
یہ پڑھیے:
Why do placebos work?
اور اگر مقالہ پڑھنے کا موڈ ہو تو یہ دیکھیے:
Prescribing “placebo treatments”: results of national survey of US internists and rheumatologists
 

سین خے

محفلین
ایک کیس اور سننے میں آیا ہے۔ ایک ۲۵ سالہ کرکٹر کی ٹانگ پر چوٹ لگی۔ چھوٹا سا زخم تھا۔ اس لڑکے کے والد اسے ہاسپٹل لے کر گئے، ہاسپٹل والوں نے سخت اینٹی بائیوٹک کورس بتایا۔ والدہ راضی نہیں ہوئیں۔ ایک مہینے اسے ہومیوپیتھی کی دوائیں کھلاتی رہیں مگر اس کی تکلیف بڑھتی ہی رہی۔ آخر میں جب اس کی حالت بہت زیادہ خراب ہوئی تو اسے ایڈمٹ کروایا۔ ٹیسٹس سے معلوم ہوا کہ MRSA بیکٹیریا تھا۔ باقی MRSA کے بارے میں جو لوگ جانتے ہیں وہ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ یہ کتنا خطرناک کیس تھا۔
 
ایک کیس اور سننے میں آیا ہے۔ ایک ۲۵ سالہ کرکٹر کی ٹانگ پر چوٹ لگی۔ چھوٹا سا زخم تھا۔ اس لڑکے کے والد اسے ہاسپٹل لے کر گئے، ہاسپٹل والوں نے سخت اینٹی بائیوٹک کورس بتایا۔ والدہ راضی نہیں ہوئیں۔ ایک مہینے اسے ہومیوپیتھی کی دوائیں کھلاتی رہیں مگر اس کی تکلیف بڑھتی ہی رہی۔ آخر میں جب اس کی حالت بہت زیادہ خراب ہوئی تو اسے ایڈمٹ کروایا۔ ٹیسٹس سے معلوم ہوا کہ MRSA بیکٹیریا تھا۔ باقی MRSA کے بارے میں جو لوگ جانتے ہیں وہ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ یہ کتنا خطرناک کیس تھا۔
کیا آپ کے علم میں ایسا کوئی کیس آیا ہے جس میں ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر نے مرض کی غلط تشخیص کی اور پھر دوسرے ایلوپیتھک ڈاکٹر نے درست تشخیص کردی؟
 

سین خے

محفلین
کیا آپ کے علم میں ایسا کوئی کیس آیا ہے جس میں ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر نے مرض کی غلط تشخیص کی اور پھر دوسرے ایلوپیتھک ڈاکٹر نے درست تشخیص کردی؟

بالکل ہیں۔ بلکہ کافی ہیں۔

مگر آپ کا اشارہ اگر یہاں اس کیس میں ڈائیگنوسز کی جانب ہے تو ہومیوپیتھی میں کوئی ٹیسٹس وغیرہ کا کانسپٹ نہیں ہے۔ کس قسم کا بیکٹیریا ہے یا وائرس اس کے بارے میں نہیں دیکھا جاتا ہے بلکہ صرف symptoms پر غور کر کے ایک ایسی دوا دی جاتی ہے جو کہ وہی symptoms جسم میں پیدا کرتی ہے اور اس طرح بیماری کا جسم علاج کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ ہومیوپیتھی کا دعوہ ہے۔

Homeopathy or homœopathy is a system of alternative medicine created in 1796 by Samuel Hahnemann, based on his doctrine of like cures like (similia similibus curentur), a claim that a substance that causes the symptoms of a disease in healthy people would cure similar symptoms in sick people

اور دوا میں کہا جاتا ہے اصل دوا کی روح موجود ہے کیونکہ اسے اس قدر dilute کیا جاتا ہے۔

symptoms بہت ساری بیماریوں کے تقریباً ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ ایسے میں آپ خود سوچئے کتنے فیصد ٹھیک علاج کے چانسز ہوتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کسی کو برڈ فلو ہو لیکن ایک عام بخار سمجھ کر دوا دے دی جائے تو پھر؟ برڈ فلو کے لئے ویکسین موجود ہے اور لوگ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اگر برڈ فلو کا علاج نہ ہو تو انسان مر بھی سکتا ہے۔ باقی شفا دینے والا اللہ ہے۔

ایلوپیتھی اس بارے میں کیا کہتی ہے اسے اٹھا کر کچھ دیر کے لئے الگ رکھ دیتے ہیں۔ سارا مسئلہ یہ ہے کہ ہومیوپیتھی ہو سکتا ہے کام کرتی ہو پر اس کو جس طرح آج تک چلایا گیا ہے تکوں پر، تو کیا خطرناک بیماریوں کا علاج واقعی ہومیوپیتھی سے کروانا چاہئے؟ اس پر ٹھیک طرح ریسرچ نہیں کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے آگے ہو جائے تو یہ قابلِ اعتبار علاج کے طور پر سامنے آئے مگر بدقسمتی ایسا ہو نہیں رہا ہے۔

کوئی چھوٹی موٹی بیماریاں ہوں یا کسی ڈر و خوف کی وجہ سے کوئی چھوٹی موٹی بیماری ہو تو چلیں آپ ٹرائے کر لیجئے لیکن میرے نزدیک یہی بہتر ہے کہ ایک بار آپ ڈاکٹر کے پاس ضرور جائیں۔ اپنے ٹیسٹس کروائیں اور پھر فیصلہ کریں کہ آپ کو کرنا کیا ہے۔
 

سین خے

محفلین
اگر ایک ڈاکٹر کوئی بیماری غلط ڈائیگنوز کرتا ہے تو یہ اس کی بھول ہو سکتی ہے یا پھر غفلت اور قابلیت میں کمی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک ڈاکٹر نہ سہی دوسرے کے پاس چلے جائیں کیونکہ ایلوپیتھی میں کم از کم چانس پر علاج تو نہیں ہوتا ہے نا۔ یہ تو نہیں ہے نا کہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ ہی موجود نہ ہو اور صرف symptoms کی بنیاد پر دوا دی جاتی رہے اور سوچا جاتا رہے کہ یہ ٹھیک ہو جائے گا۔

ایلوپیتھی میں بھی ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ ابھی بہت بیماریاں ہیں جن کا کامیاب علاج معلوم کرنا باقی ہے۔ ایلوپیتھی میں بھی مسلسل ریسرچ جاری رہتی ہے تاکہ بہتر سے بہتر طریقہ علاج معلوم کیا جا سکے۔ پرانے طریقوں کی جگہ نئے طریقے آجاتے ہیں۔

صحت اور شفا، موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن انسان کو اپنے لئے سب سے بہترین راستہ آخری وقت تک استعمال کرنا چاہئے۔ کوشش پوری کرنی چاہئے۔
 
بالکل ہیں۔ بلکہ کافی ہیں۔

مگر آپ کا اشارہ اگر یہاں اس کیس میں ڈائیگنوسز کی جانب ہے تو ہومیوپیتھی میں کوئی ٹیسٹس وغیرہ کا کانسپٹ نہیں ہے۔ کس قسم کا بیکٹیریا ہے یا وائرس اس کے بارے میں نہیں دیکھا جاتا ہے بلکہ صرف symptoms پر غور کر کے ایک ایسی دوا دی جاتی ہے جو کہ وہی symptoms جسم میں پیدا کرتی ہے اور اس طرح بیماری کا جسم علاج کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ ہومیوپیتھی کا دعوہ ہے۔



اور دوا میں کہا جاتا ہے اصل دوا کی روح موجود ہے کیونکہ اسے اس قدر dilute کیا جاتا ہے۔

symptoms بہت ساری بیماریوں کے تقریباً ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ ایسے میں آپ خود سوچئے کتنے فیصد ٹھیک علاج کے چانسز ہوتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کسی کو برڈ فلو ہو لیکن ایک عام بخار سمجھ کر دوا دے دی جائے تو پھر؟ برڈ فلو کے لئے ویکسین موجود ہے اور لوگ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اگر برڈ فلو کا علاج نہ ہو تو انسان مر بھی سکتا ہے۔ باقی شفا دینے والا اللہ ہے۔

ایلوپیتھی اس بارے میں کیا کہتی ہے اسے اٹھا کر کچھ دیر کے لئے الگ رکھ دیتے ہیں۔ سارا مسئلہ یہ ہے کہ ہومیوپیتھی ہو سکتا ہے کام کرتی ہو پر اس کو جس طرح آج تک چلایا گیا ہے تکوں پر، تو کیا خطرناک بیماریوں کا علاج واقعی ہومیوپیتھی سے کروانا چاہئے؟ اس پر ٹھیک طرح ریسرچ نہیں کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے آگے ہو جائے تو یہ قابلِ اعتبار علاج کے طور پر سامنے آئے مگر بدقسمتی ایسا ہو نہیں رہا ہے۔

کوئی چھوٹی موٹی بیماریاں ہوں یا کسی ڈر و خوف کی وجہ سے کوئی چھوٹی موٹی بیماری ہو تو چلیں آپ ٹرائے کر لیجئے لیکن میرے نزدیک یہی بہتر ہے کہ ایک بار آپ ڈاکٹر کے پاس ضرور جائیں۔ اپنے ٹیسٹس کروائیں اور پھر فیصلہ کریں کہ آپ کو کرنا کیا ہے۔
مراسلہ لکھ کر ڈیلیٹ کیا گیا تاکہ سکون کی نیند آسکے۔ :):):)
 
اگر آپ اختلاف رکھتے ہیں تو ہزار بار اختلاف کیجئے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ :) جس کو جو بات سمجھ آئے گی وہ اسے درست سمجھ لے گا۔
کچھ خاص اختلاف نہیں۔
مختصر یہ کہ جزئی مثالوں سے کچھ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اسی انداز کی کوشش اوپر ہومیو پیتھی کے لیے کی جاچکی ہے۔
اصل چیز اصولی تجزیہ ہے، میں نے اسی طرف آپ کو متوجہ کیا۔ :)
اور اسی پر آکر یہاں بار بار بات اٹک رہی ہے۔ :)
 

سین خے

محفلین
کچھ خاص اختلاف نہیں۔
مختصر یہ کہ جزئی مثالوں سے کچھ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اسی انداز کی کوشش اوپر ہومیو پیتھی کے لیے کی جاچکی ہے۔
اصل چیز اصولی تجزیہ ہے، میں نے اسی طرف آپ کو متوجہ کیا۔ :)
اور اسی پر آکر یہاں بار بار بات اٹک رہی ہے۔ :)

تجزیہ ہر کسی کے ذاتی معیارات کے مطابق اصولی ہوتا ہے۔ بات جہاں آکر اٹک رہی ہے وہاں پر خود سوچنا سمجھنا پڑتا ہے اور فیصلہ کرنا پڑتا ہے :)

جہاں تک ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی کے تقابلی جائزے کی بات ہے تو دونوں کے mode of action کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دونوں طرف کے دلائل پڑھیں جہاں جھول ہوئے تو سمجھ آہی جائیں گے۔ یہ کافی محنت طلب کام ہے :D یعنی اتنا ترجمہ کرنا میرے لئے تو کافی مشکل ہوگا۔ البتہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں طرف کی اپنے اپنے طریقہ علاج پر ریسرچز کے لنکس دے دئیے جائیں :) کہ کونسی دوا جسم میں کیا کام کرتی ہے۔
 
سن ۲۰۰۷ میں جب خاکسار پیتھالوجیکل لیبارٹری میں جاب کرتا تھا تو ماتھے پر بالکل درمیان میں ایک گومڑ نکلنا شروع ہوا۔ ابتدا میں تو معمولی تھا۔ خیال تھا کہ خود ہی ختم ہوجائے گا لیکن وہ وقت کے ساتھ ساتھ اتنا بڑھ گیا کہ سجدے میں ماتھا زمین پر ٹھیک سے نہ رکھ پاتا۔ یہاں تک کہ ایک بار تو مسجد میں ایک صاحب نے نماز کے بعد ٹوکا بھی کہ تم سجدہ ٹھیک نہیں کرتے۔ ان کی توجہ ماتھے کی طرف مبذول کرائی کہ یہ وجہ ہے۔ بہرحال ایک بار مشورہ کیا تو پتہ لگا کہ معمولی سی سرجری کرانی پڑے گی لیکن ماتھے پر سرجری کا سن کر ہی ڈر لگتا تھا اس لئے ایسے ہی معاملہ چلتا رہا۔تقریبا چار سال ایسے ہی گزرگئے۔ کراچی میں سمن آباد میں ڈاکٹر انصاری صاحب کا کلینک ہے۔ کافی ان کا نام سنا ہوا تھا۔ اس لئے ایک دن ویسے ہی چلے گئے۔ انہوں نے چیک کرکے ایک ہفتے کی دوا دے دی۔ ایک ہفتے میں کچھ فرق محسوس ہوا۔ لہذا پھر دو ہفتے میں دو مزید چکر لگائے۔ تیسرے ہفتے کے اختتام تک گومڑ ختم ہوچکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے بھی ڈاکٹر انصاری کے کلینک جانا چھوڑ دیا کہ ہر ہفتے دو سو روپے خرچ ہوتے تھے فیس کی مد میں۔ اب تو کوئی پہچان بھی نہیں سکتا کہ اس ماتھے پر کبھی اچھا خاصا گومڑ ہوا کرتا تھا۔:) ان کے پاس بعد میں بھی جاتے رہے چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے لئے مثلا نزلہ، بخار اور ہڈیوں میں درد کے مسائل تھے۔ لیکن اس معاملے میں کچھ فائدہ نہ ہوا۔ لیکن ماتھے پر گومڑ والا معاملہ ایسا واضح تھا کہ احساس ہوا کہ ہومیوپیتھی میں کچھ تو اثر ہے۔

اِس واقعے کو پڑھ کو ایسا لگا کہ ہمیں بھی ہومیو پیتھک کی طرف توجہ دینی چاھئیے پر دوسرا واقعہ پڑھا تو معلوم ہوا کہ آپ کو بھی دوبارہ افاقہ نہیں ہو رہا
 
Top