یقیناً تمام امراض دماغی قوت سے ٹھیک نہیں ہو سکتے مثلاً کینسر وغیرہ لیکن بہت سے ایسے (جسمانی) امراض ہیں جن میں صرف دماغی قوت یا سوچ کی مدد سے افاقہ ہو جاتا ہے۔ذہنی امراض یقینا دماغ کی قوت سے ٹھیک ہو جاتے ہوں گے۔ مگر دیگر جسمانی بیماریوں کو دماغ کیسے ٹھیک کر سکتا ہے؟
کیا آپ کے علم میں ایسا کوئی کیس آیا ہے جس میں ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر نے مرض کی غلط تشخیص کی اور پھر دوسرے ایلوپیتھک ڈاکٹر نے درست تشخیص کردی؟ایک کیس اور سننے میں آیا ہے۔ ایک ۲۵ سالہ کرکٹر کی ٹانگ پر چوٹ لگی۔ چھوٹا سا زخم تھا۔ اس لڑکے کے والد اسے ہاسپٹل لے کر گئے، ہاسپٹل والوں نے سخت اینٹی بائیوٹک کورس بتایا۔ والدہ راضی نہیں ہوئیں۔ ایک مہینے اسے ہومیوپیتھی کی دوائیں کھلاتی رہیں مگر اس کی تکلیف بڑھتی ہی رہی۔ آخر میں جب اس کی حالت بہت زیادہ خراب ہوئی تو اسے ایڈمٹ کروایا۔ ٹیسٹس سے معلوم ہوا کہ MRSA بیکٹیریا تھا۔ باقی MRSA کے بارے میں جو لوگ جانتے ہیں وہ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ یہ کتنا خطرناک کیس تھا۔
کیا آپ کے علم میں ایسا کوئی کیس آیا ہے جس میں ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر نے مرض کی غلط تشخیص کی اور پھر دوسرے ایلوپیتھک ڈاکٹر نے درست تشخیص کردی؟
Homeopathy or homœopathy is a system of alternative medicine created in 1796 by Samuel Hahnemann, based on his doctrine of like cures like (similia similibus curentur), a claim that a substance that causes the symptoms of a disease in healthy people would cure similar symptoms in sick people
بالکل ہیں۔ بلکہ کافی ہیں۔
مگر آپ کا اشارہ اگر یہاں اس کیس میں ڈائیگنوسز کی جانب ہے تو ہومیوپیتھی میں کوئی ٹیسٹس وغیرہ کا کانسپٹ نہیں ہے۔ کس قسم کا بیکٹیریا ہے یا وائرس اس کے بارے میں نہیں دیکھا جاتا ہے بلکہ صرف symptoms پر غور کر کے ایک ایسی دوا دی جاتی ہے جو کہ وہی symptoms جسم میں پیدا کرتی ہے اور اس طرح بیماری کا جسم علاج کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ ہومیوپیتھی کا دعوہ ہے۔
اور دوا میں کہا جاتا ہے اصل دوا کی روح موجود ہے کیونکہ اسے اس قدر dilute کیا جاتا ہے۔
symptoms بہت ساری بیماریوں کے تقریباً ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ ایسے میں آپ خود سوچئے کتنے فیصد ٹھیک علاج کے چانسز ہوتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کسی کو برڈ فلو ہو لیکن ایک عام بخار سمجھ کر دوا دے دی جائے تو پھر؟ برڈ فلو کے لئے ویکسین موجود ہے اور لوگ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اگر برڈ فلو کا علاج نہ ہو تو انسان مر بھی سکتا ہے۔ باقی شفا دینے والا اللہ ہے۔
ایلوپیتھی اس بارے میں کیا کہتی ہے اسے اٹھا کر کچھ دیر کے لئے الگ رکھ دیتے ہیں۔ سارا مسئلہ یہ ہے کہ ہومیوپیتھی ہو سکتا ہے کام کرتی ہو پر اس کو جس طرح آج تک چلایا گیا ہے تکوں پر، تو کیا خطرناک بیماریوں کا علاج واقعی ہومیوپیتھی سے کروانا چاہئے؟ اس پر ٹھیک طرح ریسرچ نہیں کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے آگے ہو جائے تو یہ قابلِ اعتبار علاج کے طور پر سامنے آئے مگر بدقسمتی ایسا ہو نہیں رہا ہے۔
کوئی چھوٹی موٹی بیماریاں ہوں یا کسی ڈر و خوف کی وجہ سے کوئی چھوٹی موٹی بیماری ہو تو چلیں آپ ٹرائے کر لیجئے لیکن میرے نزدیک یہی بہتر ہے کہ ایک بار آپ ڈاکٹر کے پاس ضرور جائیں۔ اپنے ٹیسٹس کروائیں اور پھر فیصلہ کریں کہ آپ کو کرنا کیا ہے۔
مراسلہ لکھ کر ڈیلیٹ کیا گیا تاکہ سکون کی نیند آسکے۔
کچھ خاص اختلاف نہیں۔اگر آپ اختلاف رکھتے ہیں تو ہزار بار اختلاف کیجئے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جس کو جو بات سمجھ آئے گی وہ اسے درست سمجھ لے گا۔
کچھ خاص اختلاف نہیں۔
مختصر یہ کہ جزئی مثالوں سے کچھ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اسی انداز کی کوشش اوپر ہومیو پیتھی کے لیے کی جاچکی ہے۔
اصل چیز اصولی تجزیہ ہے، میں نے اسی طرف آپ کو متوجہ کیا۔
اور اسی پر آکر یہاں بار بار بات اٹک رہی ہے۔