بچوں کے ساتھ بدسلوکی صرف غیروں کی جانب سے نہیں ہوتی، بلکہ بچے سب سے زیادہ خود اپنے والدین کے ہاتھوں بدسلوکی کا نشانہ بنتے ہیں، اور اس کے بچوں پر ایسے دیرپا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو ان کی شخصیت کو بری طرح توڑ پھوڑ سکتے ہیں۔
یہ بات پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسز کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتائی گئی ہے جس کے مطابق والدین کی جانب سے نفسیاتی تشدد کا شکار ہونے والے دس تا 49 فیصد بچوں میں مختلف قسم کے نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
اس موضوع پر دنیا کے مختلف ممالک میں بھی تحقیقات کی گئی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ والدین کی زبانی بدسلوکی اور گالم گلوچ کے اثرات ان کی نفسیات پر ایسے ہی پڑ سکتے ہیں جیسے جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں پر پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں والدین بچوں کو ڈانٹنا، گالم گلوچ سے ان کی تواضع کرنا، بلکہ مارنا پیٹنا تک اپنا حق سمجھتے ہیں، اور یہ کہا جاتا ہے کہ بچوں پر اگر سختی نہ کی جائے تو وہ بگڑ سکتے ہیں۔ ’کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ سے‘ جیسے ’اقوالِ زریں‘ اسی نقطۂ نظر سے تشکیل دیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں پر والدین کا جسمانی یا نفسیاتی تشدد گھریلو معاملہ بلکہ ان کی تربیت کا حصہ سمجھا جاتا ہے، اور اس میں باہر کے کسی شخص کی مداخلت گوارا نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے تشدد کو نہ تو کہیں رپورٹ کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا کہیں ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔
تحقیق کے دوران سرکاری اور نجی سکول کے 13 سے 17 سالہ بچوں کو خصوصی فارم دیے گئے
جرنل آف میڈیکل سائنسز میں شائع ہونے والی تحقیق سیدہ فریحہ ارم رضوی نجمہ نجم نے کی ہے۔ فریحہ رضوری نے بی بی سی کو بتایا: ’بچوں پر ڈانٹ پھٹکار، گالم گلوچ، توہین اور بے رخی جیسے برتاؤ سے شدید اثرات پڑتے ہیں، جن میں اضطراب، ڈپریشن، منشیات کی لت، جارحانہ و مجرمانہ رویہ اور قانون اور قواعد و ضوابط کو خاطر میں نہ لانا وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس سے بچوں کی تعلیمی کارکردگی پر بھی براہِ راست اثر پڑتا ہے، اور ان بچوں کے تعلیم ادھوری چھوڑنے کی شرح بھی عام بچوں کے مقابلے پر کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
’ایسے بچے نہ صرف اپنے خاندان پر معاشرے پر بھی بوجھ بن سکتے ہیں۔‘
تحقیق میں صرف ایسے بچوں کا مطالعہ کیا گیا جو اپنے دونوں والدین کے ساتھ رہتے تھے۔ فریحہ رضوی کا خیال ہے کہ صرف ماں یا صرف باپ کے ساتھ رہنے والے بچوں کی حالت اور بھی بری ہو سکتی ہے۔
نفسیاتی بدسلوکی کی اقسام
بدکلامی / ذات پر حملے
بے رخی / لاپروائی
امدادی رویے کا فقدان
دہشت زدہ کرنا
استحصال
وہ کہتی ہیں کہ یہ بات اس لیے اور بھی تشویش ناک ہے کہ ’ہمارے ملک میں نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے مناسب سہولیات موجود نہیں ہیں، جو خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کے لیے اور بھی کم ہیں۔‘
تحقیق کے دوران سرکاری اور نجی سکول کے 13 سے 17 سالہ بچوں کو خصوصی فارم دیے گئے جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی والدہ اور والدہ کی جانب سے کی جانے والی پانچ اقسام کی بدسلوکیوں کی تفصیل بیان کریں۔
جوابات کے سائنسی مطالعے اور بچوں کے نفسیاتی تجزیے سے معلوم ہوا کہ باپ کا دہشت خیز رویہ اور ماں کی جانب سے بدکلامی بچوں میں سب سے زیادہ نفسیاتی مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ تحقیق میں بچوں پر کی جانے والی شدید بدسلوکی میں ماں کا حصہ 15 فیصد اور باپ کا 17 فیصد پایا گیا۔
تحقیق میں والدین کی تعلیم کو بھی مدِنظر رکھا گیا تھا، تاہم معلوم ہوا کہ کم پڑھے لکھے اور زیادہ پڑھے لکھے دونوں اقسام کے والدین بچوں پر نفسیاتی تشدد کرتے ہیں۔ البتہ کم پڑھے لکھے اور کم آمدن والے والدین بچوں کو مارتے پیٹتے زیادہ ہیں۔
فریحہ رضوی نے کہا کہ یہ تحقیق صرف شہری بچوں پر کی گئی ہے، لیکن دیہات اور دور دراز علاقوں میں اسی قسم کی تحقیق کی جائے تو شاید کہیں زیادہ منفی نتائج سامنے آئیں گے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/02/140204_children_victim_parent_abuse_tim.shtml
یہ بات پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسز کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتائی گئی ہے جس کے مطابق والدین کی جانب سے نفسیاتی تشدد کا شکار ہونے والے دس تا 49 فیصد بچوں میں مختلف قسم کے نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
اس موضوع پر دنیا کے مختلف ممالک میں بھی تحقیقات کی گئی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ والدین کی زبانی بدسلوکی اور گالم گلوچ کے اثرات ان کی نفسیات پر ایسے ہی پڑ سکتے ہیں جیسے جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں پر پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں والدین بچوں کو ڈانٹنا، گالم گلوچ سے ان کی تواضع کرنا، بلکہ مارنا پیٹنا تک اپنا حق سمجھتے ہیں، اور یہ کہا جاتا ہے کہ بچوں پر اگر سختی نہ کی جائے تو وہ بگڑ سکتے ہیں۔ ’کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ سے‘ جیسے ’اقوالِ زریں‘ اسی نقطۂ نظر سے تشکیل دیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں پر والدین کا جسمانی یا نفسیاتی تشدد گھریلو معاملہ بلکہ ان کی تربیت کا حصہ سمجھا جاتا ہے، اور اس میں باہر کے کسی شخص کی مداخلت گوارا نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے تشدد کو نہ تو کہیں رپورٹ کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا کہیں ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔
تحقیق کے دوران سرکاری اور نجی سکول کے 13 سے 17 سالہ بچوں کو خصوصی فارم دیے گئے
جرنل آف میڈیکل سائنسز میں شائع ہونے والی تحقیق سیدہ فریحہ ارم رضوی نجمہ نجم نے کی ہے۔ فریحہ رضوری نے بی بی سی کو بتایا: ’بچوں پر ڈانٹ پھٹکار، گالم گلوچ، توہین اور بے رخی جیسے برتاؤ سے شدید اثرات پڑتے ہیں، جن میں اضطراب، ڈپریشن، منشیات کی لت، جارحانہ و مجرمانہ رویہ اور قانون اور قواعد و ضوابط کو خاطر میں نہ لانا وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس سے بچوں کی تعلیمی کارکردگی پر بھی براہِ راست اثر پڑتا ہے، اور ان بچوں کے تعلیم ادھوری چھوڑنے کی شرح بھی عام بچوں کے مقابلے پر کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
’ایسے بچے نہ صرف اپنے خاندان پر معاشرے پر بھی بوجھ بن سکتے ہیں۔‘
تحقیق میں صرف ایسے بچوں کا مطالعہ کیا گیا جو اپنے دونوں والدین کے ساتھ رہتے تھے۔ فریحہ رضوی کا خیال ہے کہ صرف ماں یا صرف باپ کے ساتھ رہنے والے بچوں کی حالت اور بھی بری ہو سکتی ہے۔
نفسیاتی بدسلوکی کی اقسام
بدکلامی / ذات پر حملے
بے رخی / لاپروائی
امدادی رویے کا فقدان
دہشت زدہ کرنا
استحصال
وہ کہتی ہیں کہ یہ بات اس لیے اور بھی تشویش ناک ہے کہ ’ہمارے ملک میں نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے مناسب سہولیات موجود نہیں ہیں، جو خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کے لیے اور بھی کم ہیں۔‘
تحقیق کے دوران سرکاری اور نجی سکول کے 13 سے 17 سالہ بچوں کو خصوصی فارم دیے گئے جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی والدہ اور والدہ کی جانب سے کی جانے والی پانچ اقسام کی بدسلوکیوں کی تفصیل بیان کریں۔
جوابات کے سائنسی مطالعے اور بچوں کے نفسیاتی تجزیے سے معلوم ہوا کہ باپ کا دہشت خیز رویہ اور ماں کی جانب سے بدکلامی بچوں میں سب سے زیادہ نفسیاتی مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ تحقیق میں بچوں پر کی جانے والی شدید بدسلوکی میں ماں کا حصہ 15 فیصد اور باپ کا 17 فیصد پایا گیا۔
تحقیق میں والدین کی تعلیم کو بھی مدِنظر رکھا گیا تھا، تاہم معلوم ہوا کہ کم پڑھے لکھے اور زیادہ پڑھے لکھے دونوں اقسام کے والدین بچوں پر نفسیاتی تشدد کرتے ہیں۔ البتہ کم پڑھے لکھے اور کم آمدن والے والدین بچوں کو مارتے پیٹتے زیادہ ہیں۔
فریحہ رضوی نے کہا کہ یہ تحقیق صرف شہری بچوں پر کی گئی ہے، لیکن دیہات اور دور دراز علاقوں میں اسی قسم کی تحقیق کی جائے تو شاید کہیں زیادہ منفی نتائج سامنے آئیں گے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/02/140204_children_victim_parent_abuse_tim.shtml