نیلم
محفلین
بہت شکریہویسے اچھا دھاگہ ہے۔۔ساری ہی پوسٹس اچھی ہیں
بہت شکریہویسے اچھا دھاگہ ہے۔۔ساری ہی پوسٹس اچھی ہیں
زبردستعقل بھی قسمت والوں کو ملتی ہے۔۔اس حوالے سے تذکرہ غوثیہ میں درج ایک حکایت یاد آئی۔
کہتے ہیں کہ کسی شہر میں ایک نجیب الطرفین سید صاحب رہتے تھے جو حسن و جمال، نازک مزاجی، عقل و فہم اور علم و اخلاق میں اپنی مثال آپ تھے لیکن غربت اتنی تھی کہ گھر میں آئے دن فاقہ ہوتا تھا۔ جبکہ انہی کے مکان کے سامنے ایک موٹا تازہ بدشکل سا بگڑا ہوا رئیس رہتا تھا جسک کسی بات کی تمیز نہیں تھی لیکن مال و دولت کی بہتات تھی اسکے ہاں۔۔۔ اس شہر میں کسی درویش فقیر کا گذر ہوا۔ وہ سید صاحب اسکی شہرت سن کر اس کی زیارت کیلئے پہنچے اور انہوں نے اس درویش سے کہا کہ میرے ذہن میں ایک سوال ہے۔ درویش نے کہا کہ پوچھو۔۔۔
انہوں نے کہا کہ میں نجیب الطرفین سید ہوں۔ صاحبِ عقل و فہم ہوں۔ علمِ دین بھی ہے، خوبصورت بھی ہوں، لیکن فاقوں میں گذر ہورہی ہے۔ جبکہ میرا پڑوسی ان تمام صفات سے محروم ہے لیکن پھر بھی مال و دولت ٹوٹ کر برس رہے ہیں اسکے گھر۔۔۔ ایسا کیوں ہے ؟ یہ کیسا انصاف ہے؟
فقیر نے ایک لحظہ غور و فکر کیا اور کہا:
کہو تو بدل دوں ۔ اسے تمہارے جیسا اور تمہیں اس جیسا بنا دوں؟
سید صاحب یہ عجیب سا سوال سن کے بہت حیران ہوئے اور تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے کہ نہیں۔ مجھے یہ منظور نہیں کہ اتنی ساری خوبیاں سے محروم ہوکر مال و دولت کا مالک بن جاؤں۔ مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا ہے۔
فقیر مسکرایا اور کہنے لگا : کہ انصاف تو یہی ہے جو ہورہا ہے آپ کو اتنا کچھ ملا اور اس بیچارے کو ان سب سے محروم رکھا گیا۔ اب اسے مال و دولت بھی نہ دیا جاتا تو یہ بے انصافی ہوتی۔ چنانچہ مالک کے کسی فعل پر ناانصافی کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
تو آپ سب کی باتوں کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں جو بھی دکھ تکلیف یا خوشی ملتی ہے سب ہمارےنصیب سے ملتی ہے
اگر ایسا ہے تو پھر یہ بھی تو کہا جارہاہے کہ آج کا انسان اپنا نصیب خود بناتاہے،،ایسا کیوں ؟
جی میں نے بھی یہ پڑھ رکھا ہے کہ بالکل ایسے ہی کہ کچھ معاملات انسان کے بس میں ہوتے ہیں اور کچھ نہیں ،،اسی کو تقدیر کہتے ہیںحضرت علی سے کسی نے سوال کیا۔ کہ انسان کا کتنا اختیار خود پر ہے اور کتنا تقدیر پر۔ آپ نے فرمایا۔ اپنی اک ٹانگ ہوا میں معلق کرو۔ اس نے کر لی۔ آپ نے فرمایا۔ اب دوسری۔
تو اس شخص نے کہا یہ ممکن نہیں
آپ نے فرمایا۔ بس اتنا ہی خود پر اختیار ہے۔
پس تحریر: میں نے یہ واقعہ ایسا سنا۔ کوئی سند نہیں فی الوقت میرے پاس۔ اگر کسی اہل علم کے مطابق تصحیح کی گنجائش ہو تو ضرور کرے۔ جزاک اللہ
معاملاتجی میں نے بھی یہ پڑھ رکھا ہے کہ بالکل ایسے ہی کہ کچھ معملات انسان کے بس میں ہوتے ہیں اور کچھ نہیں ،،اسی کو تقدیر کہتے ہیں
میرے دوست کو پھنسایا جارہا ہے۔۔۔۔نین بھائی کو تو میں نے ابھی ذرا سیریس ڈوز دی ہوئی ہے
میری بہنا یہ جو کہتے ہیں کہ انسان اپنا نصیب خود بناتا ہے ۔ اس نصیب سے مراد کسی انسان کا اخلاقی معاشرتی رویوں کو نبھاتے کسی معاشرے میں اچھا یا برا مقام حاصل کرنا ہے ۔ اور یہ اچھا برا مقام ہی اس کو خوش نصیب یا بد نصیب بناتا ہے ۔تو آپ سب کی باتوں کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں جو بھی دکھ تکلیف یا خوشی ملتی ہے سب ہمارےنصیب سے ملتی ہے
اگر ایسا ہے تو پھر یہ بھی تو کہا جارہاہے کہ آج کا انسان اپنا نصیب خود بناتاہے،،ایسا کیوں ؟
سو ٹرو عینی!
واقعی اللہ کی دی ہوئی کوئی بھی چیز کبھی بھی بےمصرف نہیں ہوتی۔۔
عقل اور نصیب دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔۔
ابھی کچھ دن پہلے تیمور اپنے کسی جاننے والے کا ذکر کر رہے تھے پاکستان میں۔۔ جاب کرتے کرتے پتا نہیں انہیں کیا ہوا کہ سب کچھ چھوڑ چھڑا کر بیٹھ گئے۔ کہ جو رزق اللہ نے میرے نصیب میں لکھا ہے تو وہ گھر بیٹھے بٹھائے بھی دے گا۔ دو بچے، بیوی اور ان کے پیرنٹس بھی ان پر ہی ڈیپنڈ کرتے تھے۔۔ ناں خود جاب کرتے اور نہ ہی بیوی کو کرنے دیتے۔۔ اینڈ پر جب حالات زیادہ خراب ہو گئے تو ان کی بیوی نے ان سے خلع لے لی، اور اب جاب کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا خرچہ اٹھا رہی ہیں۔۔
تو کیا اب بندہ اس انتظار میں بیٹھا رہے کہ جو نصیب میں لکھا ہے وہ تو مل کر ہی رہے گا۔۔ آئی ڈاؤنٹ تھنک کہ صرف نصیب یا قسمت میں جو ہو ، وہی ملتا ہے۔۔ انسان کو کوشش کر کے، اپنی عقل کا استعمال کر کے خود کو اس کا اہل ثابت کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے
آپ پر تو سیریس اٹیک کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتامیرے دوست کو پھنسایا جارہا ہے۔۔۔ ۔
تو آپ سنیں۔۔۔ ۔
1۔ نصیب امیتابھ بچن کی فلم ہے اور عقل کوئی فلم نہیں۔۔۔
2۔ نصیب میں چار نقطے اور عقل میں دو۔۔۔
3۔ عقل کا مقابلہ جانور سے کیا جاتا ہے۔ کیا اوقات ہے بےچاری عقل کی۔۔۔ چچ چچ چچ چچ
سوال تو اچھا ہے جواب بھی دینا تھااچھا ہے ۔۔
بےچارے کے نصیب ہی خراب تھےسو ٹرو عینی!
واقعی اللہ کی دی ہوئی کوئی بھی چیز کبھی بھی بےمصرف نہیں ہوتی۔۔
عقل اور نصیب دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔۔
ابھی کچھ دن پہلے تیمور اپنے کسی جاننے والے کا ذکر کر رہے تھے پاکستان میں۔۔ جاب کرتے کرتے پتا نہیں انہیں کیا ہوا کہ سب کچھ چھوڑ چھڑا کر بیٹھ گئے۔ کہ جو رزق اللہ نے میرے نصیب میں لکھا ہے تو وہ گھر بیٹھے بٹھائے بھی دے گا۔ دو بچے، بیوی اور ان کے پیرنٹس بھی ان پر ہی ڈیپنڈ کرتے تھے۔۔ ناں خود جاب کرتے اور نہ ہی بیوی کو کرنے دیتے۔۔ اینڈ پر جب حالات زیادہ خراب ہو گئے تو ان کی بیوی نے ان سے خلع لے لی، اور اب جاب کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا خرچہ اٹھا رہی ہیں۔۔
تو کیا اب بندہ اس انتظار میں بیٹھا رہے کہ جو نصیب میں لکھا ہے وہ تو مل کر ہی رہے گا۔۔ آئی ڈاؤنٹ تھنک کہ صرف نصیب یا قسمت میں جو ہو ، وہی ملتا ہے۔۔ انسان کو کوشش کر کے، اپنی عقل کا استعمال کر کے خود کو اس کا اہل ثابت کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے