الف عین
لائبریرین
**
رواں تھیں یاد سمندر میں کشتیاں کیا کیا
سنا رہی تھی ہمیں شب کہانیاں کیا کیا
پسِ بہار تمہارے یہ چاہنے والے
لئے پھرے ہیں گریباں کی دھجیاں کیا کیا
بتا کے اور طبیعت ملال کر بیٹھے
شکستِ خواب سے پہلے تھیں شوخیاں کیا کیا
عجیب دن تھے کہ ہم آشیاں میں رہتے تھے
تلاش میں رہا کرتی تھیں بجلیاں کیا کیا
یہ سیلِ آب جو اُترے تو پھر بتائیں ہم
کہاں کہاں ہوا کرتیں تھیں بستیاں کیا کیا
سراغ پھر بھی نہ پایا اگرچہ باندھی تھیں
ہوائے شوخ کے پاؤں میں گھنٹیاں کیا کیا
سراب کتنے سرِ شہر خواب اُگتے رہے
فریب دیتی رہیں ہم کو دوریاں کیا کیا
یہ کیسی آہٹیں شب بھر جگائے رکھتیں ہیں
کھنکتی رہتی ہیں کانوں میں چوڑیاں کیا کیا
ہمیں تو ہونا تھا آخر کو در بدر عظمیؔ
اُٹھائیں اس پہ بھی لوگوں نے انگلیاں کیا کیا
رواں تھیں یاد سمندر میں کشتیاں کیا کیا
سنا رہی تھی ہمیں شب کہانیاں کیا کیا
پسِ بہار تمہارے یہ چاہنے والے
لئے پھرے ہیں گریباں کی دھجیاں کیا کیا
بتا کے اور طبیعت ملال کر بیٹھے
شکستِ خواب سے پہلے تھیں شوخیاں کیا کیا
عجیب دن تھے کہ ہم آشیاں میں رہتے تھے
تلاش میں رہا کرتی تھیں بجلیاں کیا کیا
یہ سیلِ آب جو اُترے تو پھر بتائیں ہم
کہاں کہاں ہوا کرتیں تھیں بستیاں کیا کیا
سراغ پھر بھی نہ پایا اگرچہ باندھی تھیں
ہوائے شوخ کے پاؤں میں گھنٹیاں کیا کیا
سراب کتنے سرِ شہر خواب اُگتے رہے
فریب دیتی رہیں ہم کو دوریاں کیا کیا
یہ کیسی آہٹیں شب بھر جگائے رکھتیں ہیں
کھنکتی رہتی ہیں کانوں میں چوڑیاں کیا کیا
ہمیں تو ہونا تھا آخر کو در بدر عظمیؔ
اُٹھائیں اس پہ بھی لوگوں نے انگلیاں کیا کیا