ایک بادشاہ بڑے طمطراق کے ساتھ اپنے سپہ سالاروں اور غلاموں کے جلوس میں نہایت قیمتی کپڑوں اور بہترین گھوڑے پر سوار ہو کر محل سے باہر نکلا تو یکایک اس کے سامنے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک بوڑھا آگیا اور آداب بجا لایا مگر مغرور بادشاہ نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ بوڑھے نے بادشاہ کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر چلتے گھوڑے کو روک دیا اور بادشاہ سے کہا "مجھے آپ سے کچھ عرض کرنا ہے"۔ ۔ ۔
بادشاہ نخوت و کبر کے ساتھ بولا "بات کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے۔ جلوس ختم ہونے کا انتظار کر"۔ ۔ ۔
بوڑھے نے کہا "مجھے جو کچھ کہنا ہے اس کے لئے میں انتظار نہیں کر سکتا" بورھے کے لہجے میں ایسا رعب تھا کہ بادشاہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے کہا "بولو! کیا بولتے ہو؟"
بوڑھے نے کہا "جو بات میں تم سے کہنا چاہتا ہوں وہ کسی اور کو معلوم نہیں ہونا چاہیے" بادشاہ نے سر ہلا کر رضامندی بھر لی۔ ۔ بوڑھے نے سرگوشی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "اے مغرور بادشاہ میں ملک الموت ہوں" بادشاہ کے اوپر جیسے سکتہ طاری ہوگیا اور اس نے منت سماجت شروع کردی ۔ ۔ رو کر کہا ۔ ۔ ۔ ۔"مجھے تھوڑی مہلت دے دو تاکہ میں بیوی بچوں کو آخری مرتبہ دیکھ لوں"۔ ۔ ۔ بوڑھا بولا۔۔۔۔"ایک لمحہ کی مہلت نہیں دی جائے گی۔ اب تم کسی بھی طرح بیوی بچوں کو نہیں دیکھ سکو گے کیونکہ تمہاری ساری عمر کا صرف ایک لمحہ باقی رہ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے بادشاہ کو ہچکی آتی اور گھوڑے پر سے زمین پر گر پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ملک الموت ایک دین دار غریب آدمی کے پاس گیا۔۔ جاکر دین دار بندے کو سلام کیا اور کہا ۔۔۔۔"مجھے آپ سے ایک راز کی بات کرنے ہے"۔۔۔۔ دین دار آدمی نے خوش دلی کے ساتھ کہا "بتاؤمیں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ ۔۔۔۔۔
بوڑھے آدمی نے کہا "میں ملک الموت ہوں۔ آپ کے سلام کے لئے حاضر ہوا ہوں" دین دار آدمی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔ "الحمد اللہ ! تم آگئے۔ ۔ میں عرصہ سے تمہارا انتظار کر رہا تھاکہ تم آؤ اور میں اپنے اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کر سکوں"۔۔۔۔۔
ملک الموت نے عرض کیا ۔۔۔
"آپ مجھے بتائیں کہ میں کس طرح آپ کی روح آپ کے جسم سے الگ کرکے لے جاؤں؟ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن بندے نے کہا۔۔۔"مجھے مہلت دو کہ میں وضو کرکے سجدے میں اللہ کے حضور چلا جاؤں اور تم میری روح نکال لو"۔۔۔۔
عزرائیل۴ نے ایسا ہی کیا اور مومن بندے کے روح اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں حاضر کردی۔۔۔۔
ایک آدمی زندگی بھر مال و دولت جمع کرتا رہا۔۔۔۔ بے انتہا زروجواہر جمع کرکے اس نے ایک علیشان محل بنایا۔ ۔ محل کے آہنی مضبوط دروازے پر دو طاقتور دربان مقرر کئے۔ ۔ ایک دن دولت مند آدمی کو خیال آیا۔۔۔۔۔۔۔ کہ عزیز رشتہ داروں اور دوست احباب کو اپنی شان و شوکت دکھانی چاہیے۔ ۔ ۔ اس نے سب کو ایک پر تکلف کھانے پر مدعو کیا۔۔۔۔ اور مجلس میں خود زربفت کے گول تکیے سے کمر لگا کر بیٹھ گیا۔۔۔ لوگ جمع ہو گئے۔۔۔۔ انواع و اقسام کے کھانے دستر خوان پر چنے ہوئے تھے۔۔۔۔ لذیذ غذائیں لوگ کھانے میں مصروف تھے کہ ایک فقیر آیا۔۔۔ اور دروازے پر دستک دی۔۔۔۔
پتہ نہیں کس قسم کی دستک تھی کہ لگا زلزلہ آگیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دروازے بجنے لگے۔۔۔۔ دیواریں ہلنے لگیں اور حاضرین کے دل دہل گئے۔۔۔ دروازے پر کھڑے مہیب صورت دربانوں نے گرج دار آواز میں فقیر کو ڈانٹا اور کہا ۔۔۔۔۔۔ صبر کر ! ہم تجھے بھی کھانے کو دیں گے۔۔۔۔۔ فقیر درویش نے کہا۔۔۔"اپنے مالک سے کہو کہ مجھے اس سے ایک ضروری کام ہے"۔۔۔۔۔۔۔
بہت رد و قضا کے بعد ایک دربان نے مالک کو خبر دی کہ ایک درویش آپ سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔ امیر کو یہ بات پسند نہ آئی ۔۔۔ اس نے دربان کو ڈانٹ کر کہا ۔۔۔"یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔ جاؤ اسے کچھ دے دلا کر واپس کر دو"۔۔۔۔۔ دربان جب واپس آیا تو درویش جلال میں آگیا اور اس نے کہا ۔۔۔۔۔"اپنے مالک سے کہ دے ۔۔۔۔ میں ملک الموت ہوں"۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر ڈائننگ ہال میں موجود تمام لوگ خوفزدہ ہو گئے۔ ۔ ہاتھوں میں لرزہ آگیا اور پیر ٹھنڈے پڑ گئے۔ امیر نے کہا "کیا تمہارے لئے میرا کوئی بدل ہو سکتا ہے ؟"۔ ۔ ۔
درویش بولا۔ ۔ ۔ ۔ "نہیں ! امیر نے اپنی ساری دولت، سونے کے جواہرات، نقدی، چاندی کے زیورات، طلائی برتن، ہیروں جڑی انگوٹھیاں سب جمع کر دیں اور کہا یہ سب لے جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ درویش نے کہا یہ سب تیری دشمن ہیں۔ تیرے ساتھ نہ پہلے اس نے وفا کی نہ اب وفا کرے گی"۔ ۔ ۔ ۔ امیر نے بڑی حسرت سے دولت کی طرف دیکھااور کہا ۔ ۔ ۔ "اے دولت ! تم نے مجھے دھوکا دیا۔ ۔ میں سمجھتا تھا کہ تو میری ساتھی ہے، میرے کام آئے گی۔ ۔ ۔ لیکن آج حقیقت کھلی کہ تو میرے لئے حسرت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ۔ میں تجھے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اور تیرے اوپر لعنت بھیجتا ہوں"۔
دولت کو اللہ تعالی نے زبان عطا کی۔ اور دولت گویا ہوئی "میرے اوپر کیوں لعنت بھیجتا ہے۔ ۔ ۔ اپنے اوپر بھیج۔ ۔ ۔ میں تو تیرے پاس اس لئے آئی تھی کہ تو میرے ذریعہ آخرت کا سامان کرے ۔ ۔ ۔ غریبوں کو خیرات دے۔ ۔ ۔ مساجد اور پل تعمیر کرے۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ ۔ تونے مجھے اپنے خزانے میں قید کیا ۔ ۔ ۔ ۔" ابھی دولت امیر مرد کو لعن طعن کر رہی تھی کہ امیر آدمی سر کے بل تخت سے نیچے گرا اور مرگیا۔ ۔ ۔
حضرت عزرائیل۴ ایک دن حضرت سلیمان۴ کے پاس آئے اور کئی مرتبہ ان کے مصاحب کو گھور کر دیکھا۔ حضرت عزرائیل۴ کے جانے کےبعد مصاحب نے حضرت سلیمان۴ سے پوچھا "یہ کون شخص تھا اور مجھے گھور گھور کر کیوں دیکھ رہا تھا"۔ ۔ ۔ ۔ حضرت سلیمان۴ نے جواب دیا ۔ ۔ ۔"یہ ملک الموت تھا"۔ ۔ ۔ مصاحب نے حضرت سلیمان۴ سے عرض کیا ۔ ۔ "مجھے خوف آرہا ہے کہ ملک الموت مجھے لے جائے گا آپ کو اللہ نے بہت بڑی طاقت دی ہے۔ ہوا پر آپ کی حکمرانی ہے۔ آپ ہوا کو حکم دیں کہ مجھے اڑا کر ہندوستان لے جائے تاکہ میں ملک الموت کی دسترس سے بچ سکوں"۔ ۔ ۔ حضرت سلیمان۴ نے ہوا کو حکم دیا اور ہوا نے مصاحب کو اڑا لیا اور ہندوستان پہنچادیا ۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عزرائیل۴ پھر آگئے اور حضرت سلیمان۴ نے ان سے پوچھا کہ "تم اس آدمی کی طرف بار بار گھور کر کیوں دیکھ رہے تھے؟"۔ ۔۔ ۔ حضرت عزرائیل۴ نے عرض کیا۔ ۔ ۔ "مجھے حکم تھا کہ اس بندے کی روح میں ہندوستان میں قبض کروں میں تردد میں تھا کہ ہندوستان تو یہاں سے بہت دور ہے یہ بندہ وھاں تک کیسے پہنچے گا۔ ۔ آخر کار اللہ کے حکم سے آپ نے ہوا کو حکم دیا۔ ۔ ۔ اس بندے کو ہوا ہندوستان لے گئی میں اس کے تعاقب میں ہندوستان پہنچا اور وھاں میں نے اس کی روح قبض کر لی ۔ ۔ ۔ ۔
شداد نے پہلے خدائی دعوی کیا اور پھر جنت کی تعمیر شروع کی،۔ ۔ ۔ حیرت اس بات پر ہےکہ شداد کو کبھی خیال نہیں آیا کہ اس کی پیدائش کس طرح ہوئی۔۔۔۔؟۔۔۔ نو مہینے تک ماں کے پیٹ میں اس نے کون سی غذا حاصل کرکے نشوونما پائی ؟۔ ۔ پیدائش کے بعد خون کی بدلی ہوئی صورت ماں کا دودھ پیتا رہا اور خدائی کا دعوی کرتے وقت اسے یہ خیال کبھی نہ آیا کہ ہر وقت اس کے پیٹ میں ڈھائی سیر پاخانہ بھرا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ پیشاب کی حاجت اسے ہوتی تھی۔ ۔ ۔ پسینہ سے اس کے بدبو آتی تھی۔ ۔ ۔ نہا کر بالوں میں کنگھی نہ کرے تو کوئی اس کے قریب نہیں بیٹھ سکتا۔ ۔ ۔ ۔ بہرحال اس ظالم ، جاہل اور ناشکرے انسان نے پہلے خدائی کا دعوی کیا ۔ ۔ ۔ اللہ کی مخلوق سے خود کو سجدہ کروایا۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کے لئے جن سے وہ خوش تھا جنت بنانا شروع کی۔ ۔ ۔
جنت بناتے وقت اسے خیال آیا۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے میں جنت دیکھ ہی نہ سکوں۔ جنت کی تعمیر پوری ہونے سے پہلے مر جاؤں تو اس نے محل سے نکل کر جنگل کی راہ لی۔ ۔ ۔ وہاں شاہی لباس اور قیمتی زیورات اتار کر معمولی لباس پہنا۔ ۔ ۔ اور اللہ تعالی کے حضور گڑگڑایا۔ ۔ ۔عاجزی اور انکساری سے بارگاہ ایزدی میں التجا کی "بارالہا ! آپ سے التجا کرتا ہوںکہ میری موت میرے چاہنے کے مطابق آتے"۔ ۔
اللہ تعالی بڑا ہے۔ ۔ ۔ اور بہت بڑا ہے۔ ۔ ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ۔ ۔ ۔"مانگ ! کیا مانگتا ہے ؟" ۔ ۔ ۔ شداد نے باتھ جوڑکر عرض کیا۔ ۔ ۔ "میری موت اس طرح آئے کہ میں نہ بیٹھا ہوں، نہ کھڑا ہوں، نہ لیٹا ہوں۔ نہ چل رہا ہوں نہ گھر میں ہوں، نہ باہر ہوں نہ دروازے پر ہوں، نہ اندر ہوں نہ خلا میں ہوں، نہ زمیں پر ہوں نہ سواری پر ہوں،۔ ۔ ۔ " غرض یہ کہ اس نے اپنی دانست میں وہ تمام باتیں اللہ تعالی کے حضور پیش کردیں جس سے اس کو یقین ہوگیا کہ اب میں مر نہیں سکتا اللہ تعالی نے یہ باتیں قبول کر لیں۔ ۔ شداد بڑا خوش ہوا کہ اب میں مر ہی نہیں سکتا زیادہ سے زیادہ میرے بندے ہونگے۔ ۔ میں ان کا خدا ہونگا میں جس طرح چاہوں گا لوگوں پر حکم چلاؤں گا جسے چاہونگا قتل کرنگا جسے چاہوں گا جنت میں بھیج دونگا۔ ۔ ۔
قصہ کوتاہ۔ ۔ ۔ ۔ جنت تیار ہوگئی اور جنت کے معائنہ کے لئے ایک دن مقرر ھو گیا۔ ۔ ۔ دبدبے اور پوری شان و شوکت سے حشم و خدم، فوج اور درباریوں کے ساتھ جنت دیکھنے کے لئے گھوڑے پر سوار شداد صاحب خراماں خراماں محل سے باہر آئے۔۔ ۔ ۔ جنت کے دروازے میں ابھی گھوڑے نے اگلے دو پیر رکھے تھے کہ گھوڑا اڑیل ٹٹو بن گیا۔ ۔ ۔ اسے جب مارا پیٹا گیا ، لگام کھینچی تو گھوڑا منہ زور ہوگیا اور دو ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا۔ جب اس بات کا خطرہ پیدا ہوا کہ شداد گر کر مر جائے گا تو رائے یہ ہوئی کہ شداد گھوڑے پر سے اتار لیا جائے۔ ۔ غلام آگے بڑھے اور شداد نے رکاب سے پیر نکالا اور پیر غلاموں کے باتھوں پر رکھا۔ ۔ ایک پیر غلاموں کے باتھ میں تھا اور دوسرا رکاب میں تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ ہوا تو ملک الموت کو رحم آّیا۔ ۔ ۔ اور ملک الموت نے اللہ تعالی سے عرض کیا ۔ ۔ ۔"یا اللہ آپ بڑے ہیں کائنات سے بھی بڑے۔ ۔ ۔ ۔ سب ہی سے بڑے ہیں، اگر آپ اس کو جنت دیکھنے دیتے تو یہ حسرت میں نہ مرتا "۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالی نے فرمایا "تو جانتا ہے یہ کون ہے ؟۔ ۔ ۔ اور دیکھ زمین پر دیکھ "ملک الموت نے دیکھا ۔ ۔ ۔
کہ پانی کا ایک جہاز ہے اس جہاز پر دریائی قزاق چڑھ دوڑے ۔ ۔ انہوں نے وہاں لوٹ مار کی۔ ۔ اس لوٹ مار میں اور شور و غوغا میں جہاز کا توازن برقرار نہ رہا۔ ۔ اور مسافروں اور ڈاکوؤں سمیت پانی میں ڈوب گیا۔ ۔ جہاز میں ایک نوزائیدہ بچہ بھی تھا،۔ ۔ اللہ تعالی نے ملک الموت سے "اس بچے کو تختے پرلٹا کر سمندر میں چھوڑ دو"۔ ۔ ۔ ملک الموت نے حکم کی تعمیل کی لیکن ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ یہ بچہ محفوظ کیسے رہے گا؟۔ ۔ ۔
اللہ تعالی نے فرمایا یہ وہی بچہ ہے جس کے بارے میں تجھے خیال تھا کہ یہ کس طرح زندہ رہے گا۔ ۔ ۔ ہم نے اس کی حفاظت کی اس کی پرورش کی اس کو طاقت دی اور اس نے خدائی دعوی کر کے جنت بنا لی اور دعا مانگی کہ اس کی موت نہ آئے اس نے ہمارے ساتھ مکر کیا"۔ ۔ ۔
محمد عظیم البرخیا اس کو کچہ یوں فرماتے ہیں
ذرات میں شاہوں کا سراپا ہے یہ
اک معرکہ اجل کی دنیا ہے یہ
اڑتی ہے جو گرد پاؤں کی ٹھوکر سے
خاکستر اسکندر و دارا ہے یہ
دس لاکھ برس جو چل چکا ہے وہ بھی
کل جس نے کہ آغاز کیا ہے وہ بھی
یہ راہ فنا ہے سب اس میں ہیں ہمراہ
پہلے جو چلا ہے اب جو چلا ہے وہ بھی
کہتا ہے کوئی غمزدگی اچھی ہے
کہتا ہے کوئی کہ بے خودی اچھی ہے
اک آن میں کر دیتی ہے کل قصہ پاک
میں کہتا ہوں سب سے موت اچھی ہے
(والسلام ۔۔۔۔۔ اہل محفل کو تھوڑے سے تفکر کی دعوت۔۔۔۔ ایک بار پھر انتہائی سلیس اردو میں ۔۔۔۔ یہ اک چھوٹا سا کنکر ہے جو ہم آپ کے دل کی جھیل میں پھینک رہے ہیں اب پیدا شدہ دائروں کی وسعتوں میں اپنے من کی گہرائی کا اندازہ آپ خود لگائیے گا )
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مجبور کے اوقات
بادشاہ نخوت و کبر کے ساتھ بولا "بات کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے۔ جلوس ختم ہونے کا انتظار کر"۔ ۔ ۔
بوڑھے نے کہا "مجھے جو کچھ کہنا ہے اس کے لئے میں انتظار نہیں کر سکتا" بورھے کے لہجے میں ایسا رعب تھا کہ بادشاہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے کہا "بولو! کیا بولتے ہو؟"
بوڑھے نے کہا "جو بات میں تم سے کہنا چاہتا ہوں وہ کسی اور کو معلوم نہیں ہونا چاہیے" بادشاہ نے سر ہلا کر رضامندی بھر لی۔ ۔ بوڑھے نے سرگوشی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "اے مغرور بادشاہ میں ملک الموت ہوں" بادشاہ کے اوپر جیسے سکتہ طاری ہوگیا اور اس نے منت سماجت شروع کردی ۔ ۔ رو کر کہا ۔ ۔ ۔ ۔"مجھے تھوڑی مہلت دے دو تاکہ میں بیوی بچوں کو آخری مرتبہ دیکھ لوں"۔ ۔ ۔ بوڑھا بولا۔۔۔۔"ایک لمحہ کی مہلت نہیں دی جائے گی۔ اب تم کسی بھی طرح بیوی بچوں کو نہیں دیکھ سکو گے کیونکہ تمہاری ساری عمر کا صرف ایک لمحہ باقی رہ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے بادشاہ کو ہچکی آتی اور گھوڑے پر سے زمین پر گر پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ملک الموت ایک دین دار غریب آدمی کے پاس گیا۔۔ جاکر دین دار بندے کو سلام کیا اور کہا ۔۔۔۔"مجھے آپ سے ایک راز کی بات کرنے ہے"۔۔۔۔ دین دار آدمی نے خوش دلی کے ساتھ کہا "بتاؤمیں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ ۔۔۔۔۔
بوڑھے آدمی نے کہا "میں ملک الموت ہوں۔ آپ کے سلام کے لئے حاضر ہوا ہوں" دین دار آدمی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔ "الحمد اللہ ! تم آگئے۔ ۔ میں عرصہ سے تمہارا انتظار کر رہا تھاکہ تم آؤ اور میں اپنے اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کر سکوں"۔۔۔۔۔
ملک الموت نے عرض کیا ۔۔۔
"آپ مجھے بتائیں کہ میں کس طرح آپ کی روح آپ کے جسم سے الگ کرکے لے جاؤں؟ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن بندے نے کہا۔۔۔"مجھے مہلت دو کہ میں وضو کرکے سجدے میں اللہ کے حضور چلا جاؤں اور تم میری روح نکال لو"۔۔۔۔
عزرائیل۴ نے ایسا ہی کیا اور مومن بندے کے روح اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں حاضر کردی۔۔۔۔
ایک آدمی زندگی بھر مال و دولت جمع کرتا رہا۔۔۔۔ بے انتہا زروجواہر جمع کرکے اس نے ایک علیشان محل بنایا۔ ۔ محل کے آہنی مضبوط دروازے پر دو طاقتور دربان مقرر کئے۔ ۔ ایک دن دولت مند آدمی کو خیال آیا۔۔۔۔۔۔۔ کہ عزیز رشتہ داروں اور دوست احباب کو اپنی شان و شوکت دکھانی چاہیے۔ ۔ ۔ اس نے سب کو ایک پر تکلف کھانے پر مدعو کیا۔۔۔۔ اور مجلس میں خود زربفت کے گول تکیے سے کمر لگا کر بیٹھ گیا۔۔۔ لوگ جمع ہو گئے۔۔۔۔ انواع و اقسام کے کھانے دستر خوان پر چنے ہوئے تھے۔۔۔۔ لذیذ غذائیں لوگ کھانے میں مصروف تھے کہ ایک فقیر آیا۔۔۔ اور دروازے پر دستک دی۔۔۔۔
پتہ نہیں کس قسم کی دستک تھی کہ لگا زلزلہ آگیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دروازے بجنے لگے۔۔۔۔ دیواریں ہلنے لگیں اور حاضرین کے دل دہل گئے۔۔۔ دروازے پر کھڑے مہیب صورت دربانوں نے گرج دار آواز میں فقیر کو ڈانٹا اور کہا ۔۔۔۔۔۔ صبر کر ! ہم تجھے بھی کھانے کو دیں گے۔۔۔۔۔ فقیر درویش نے کہا۔۔۔"اپنے مالک سے کہو کہ مجھے اس سے ایک ضروری کام ہے"۔۔۔۔۔۔۔
بہت رد و قضا کے بعد ایک دربان نے مالک کو خبر دی کہ ایک درویش آپ سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔ امیر کو یہ بات پسند نہ آئی ۔۔۔ اس نے دربان کو ڈانٹ کر کہا ۔۔۔"یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔ جاؤ اسے کچھ دے دلا کر واپس کر دو"۔۔۔۔۔ دربان جب واپس آیا تو درویش جلال میں آگیا اور اس نے کہا ۔۔۔۔۔"اپنے مالک سے کہ دے ۔۔۔۔ میں ملک الموت ہوں"۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر ڈائننگ ہال میں موجود تمام لوگ خوفزدہ ہو گئے۔ ۔ ہاتھوں میں لرزہ آگیا اور پیر ٹھنڈے پڑ گئے۔ امیر نے کہا "کیا تمہارے لئے میرا کوئی بدل ہو سکتا ہے ؟"۔ ۔ ۔
درویش بولا۔ ۔ ۔ ۔ "نہیں ! امیر نے اپنی ساری دولت، سونے کے جواہرات، نقدی، چاندی کے زیورات، طلائی برتن، ہیروں جڑی انگوٹھیاں سب جمع کر دیں اور کہا یہ سب لے جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ درویش نے کہا یہ سب تیری دشمن ہیں۔ تیرے ساتھ نہ پہلے اس نے وفا کی نہ اب وفا کرے گی"۔ ۔ ۔ ۔ امیر نے بڑی حسرت سے دولت کی طرف دیکھااور کہا ۔ ۔ ۔ "اے دولت ! تم نے مجھے دھوکا دیا۔ ۔ میں سمجھتا تھا کہ تو میری ساتھی ہے، میرے کام آئے گی۔ ۔ ۔ لیکن آج حقیقت کھلی کہ تو میرے لئے حسرت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ۔ میں تجھے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اور تیرے اوپر لعنت بھیجتا ہوں"۔
دولت کو اللہ تعالی نے زبان عطا کی۔ اور دولت گویا ہوئی "میرے اوپر کیوں لعنت بھیجتا ہے۔ ۔ ۔ اپنے اوپر بھیج۔ ۔ ۔ میں تو تیرے پاس اس لئے آئی تھی کہ تو میرے ذریعہ آخرت کا سامان کرے ۔ ۔ ۔ غریبوں کو خیرات دے۔ ۔ ۔ مساجد اور پل تعمیر کرے۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ ۔ تونے مجھے اپنے خزانے میں قید کیا ۔ ۔ ۔ ۔" ابھی دولت امیر مرد کو لعن طعن کر رہی تھی کہ امیر آدمی سر کے بل تخت سے نیچے گرا اور مرگیا۔ ۔ ۔
حضرت عزرائیل۴ ایک دن حضرت سلیمان۴ کے پاس آئے اور کئی مرتبہ ان کے مصاحب کو گھور کر دیکھا۔ حضرت عزرائیل۴ کے جانے کےبعد مصاحب نے حضرت سلیمان۴ سے پوچھا "یہ کون شخص تھا اور مجھے گھور گھور کر کیوں دیکھ رہا تھا"۔ ۔ ۔ ۔ حضرت سلیمان۴ نے جواب دیا ۔ ۔ ۔"یہ ملک الموت تھا"۔ ۔ ۔ مصاحب نے حضرت سلیمان۴ سے عرض کیا ۔ ۔ "مجھے خوف آرہا ہے کہ ملک الموت مجھے لے جائے گا آپ کو اللہ نے بہت بڑی طاقت دی ہے۔ ہوا پر آپ کی حکمرانی ہے۔ آپ ہوا کو حکم دیں کہ مجھے اڑا کر ہندوستان لے جائے تاکہ میں ملک الموت کی دسترس سے بچ سکوں"۔ ۔ ۔ حضرت سلیمان۴ نے ہوا کو حکم دیا اور ہوا نے مصاحب کو اڑا لیا اور ہندوستان پہنچادیا ۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عزرائیل۴ پھر آگئے اور حضرت سلیمان۴ نے ان سے پوچھا کہ "تم اس آدمی کی طرف بار بار گھور کر کیوں دیکھ رہے تھے؟"۔ ۔۔ ۔ حضرت عزرائیل۴ نے عرض کیا۔ ۔ ۔ "مجھے حکم تھا کہ اس بندے کی روح میں ہندوستان میں قبض کروں میں تردد میں تھا کہ ہندوستان تو یہاں سے بہت دور ہے یہ بندہ وھاں تک کیسے پہنچے گا۔ ۔ آخر کار اللہ کے حکم سے آپ نے ہوا کو حکم دیا۔ ۔ ۔ اس بندے کو ہوا ہندوستان لے گئی میں اس کے تعاقب میں ہندوستان پہنچا اور وھاں میں نے اس کی روح قبض کر لی ۔ ۔ ۔ ۔
شداد نے پہلے خدائی دعوی کیا اور پھر جنت کی تعمیر شروع کی،۔ ۔ ۔ حیرت اس بات پر ہےکہ شداد کو کبھی خیال نہیں آیا کہ اس کی پیدائش کس طرح ہوئی۔۔۔۔؟۔۔۔ نو مہینے تک ماں کے پیٹ میں اس نے کون سی غذا حاصل کرکے نشوونما پائی ؟۔ ۔ پیدائش کے بعد خون کی بدلی ہوئی صورت ماں کا دودھ پیتا رہا اور خدائی کا دعوی کرتے وقت اسے یہ خیال کبھی نہ آیا کہ ہر وقت اس کے پیٹ میں ڈھائی سیر پاخانہ بھرا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ پیشاب کی حاجت اسے ہوتی تھی۔ ۔ ۔ پسینہ سے اس کے بدبو آتی تھی۔ ۔ ۔ نہا کر بالوں میں کنگھی نہ کرے تو کوئی اس کے قریب نہیں بیٹھ سکتا۔ ۔ ۔ ۔ بہرحال اس ظالم ، جاہل اور ناشکرے انسان نے پہلے خدائی کا دعوی کیا ۔ ۔ ۔ اللہ کی مخلوق سے خود کو سجدہ کروایا۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کے لئے جن سے وہ خوش تھا جنت بنانا شروع کی۔ ۔ ۔
جنت بناتے وقت اسے خیال آیا۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے میں جنت دیکھ ہی نہ سکوں۔ جنت کی تعمیر پوری ہونے سے پہلے مر جاؤں تو اس نے محل سے نکل کر جنگل کی راہ لی۔ ۔ ۔ وہاں شاہی لباس اور قیمتی زیورات اتار کر معمولی لباس پہنا۔ ۔ ۔ اور اللہ تعالی کے حضور گڑگڑایا۔ ۔ ۔عاجزی اور انکساری سے بارگاہ ایزدی میں التجا کی "بارالہا ! آپ سے التجا کرتا ہوںکہ میری موت میرے چاہنے کے مطابق آتے"۔ ۔
اللہ تعالی بڑا ہے۔ ۔ ۔ اور بہت بڑا ہے۔ ۔ ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ۔ ۔ ۔"مانگ ! کیا مانگتا ہے ؟" ۔ ۔ ۔ شداد نے باتھ جوڑکر عرض کیا۔ ۔ ۔ "میری موت اس طرح آئے کہ میں نہ بیٹھا ہوں، نہ کھڑا ہوں، نہ لیٹا ہوں۔ نہ چل رہا ہوں نہ گھر میں ہوں، نہ باہر ہوں نہ دروازے پر ہوں، نہ اندر ہوں نہ خلا میں ہوں، نہ زمیں پر ہوں نہ سواری پر ہوں،۔ ۔ ۔ " غرض یہ کہ اس نے اپنی دانست میں وہ تمام باتیں اللہ تعالی کے حضور پیش کردیں جس سے اس کو یقین ہوگیا کہ اب میں مر نہیں سکتا اللہ تعالی نے یہ باتیں قبول کر لیں۔ ۔ شداد بڑا خوش ہوا کہ اب میں مر ہی نہیں سکتا زیادہ سے زیادہ میرے بندے ہونگے۔ ۔ میں ان کا خدا ہونگا میں جس طرح چاہوں گا لوگوں پر حکم چلاؤں گا جسے چاہونگا قتل کرنگا جسے چاہوں گا جنت میں بھیج دونگا۔ ۔ ۔
قصہ کوتاہ۔ ۔ ۔ ۔ جنت تیار ہوگئی اور جنت کے معائنہ کے لئے ایک دن مقرر ھو گیا۔ ۔ ۔ دبدبے اور پوری شان و شوکت سے حشم و خدم، فوج اور درباریوں کے ساتھ جنت دیکھنے کے لئے گھوڑے پر سوار شداد صاحب خراماں خراماں محل سے باہر آئے۔۔ ۔ ۔ جنت کے دروازے میں ابھی گھوڑے نے اگلے دو پیر رکھے تھے کہ گھوڑا اڑیل ٹٹو بن گیا۔ ۔ ۔ اسے جب مارا پیٹا گیا ، لگام کھینچی تو گھوڑا منہ زور ہوگیا اور دو ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا۔ جب اس بات کا خطرہ پیدا ہوا کہ شداد گر کر مر جائے گا تو رائے یہ ہوئی کہ شداد گھوڑے پر سے اتار لیا جائے۔ ۔ غلام آگے بڑھے اور شداد نے رکاب سے پیر نکالا اور پیر غلاموں کے باتھوں پر رکھا۔ ۔ ایک پیر غلاموں کے باتھ میں تھا اور دوسرا رکاب میں تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ ہوا تو ملک الموت کو رحم آّیا۔ ۔ ۔ اور ملک الموت نے اللہ تعالی سے عرض کیا ۔ ۔ ۔"یا اللہ آپ بڑے ہیں کائنات سے بھی بڑے۔ ۔ ۔ ۔ سب ہی سے بڑے ہیں، اگر آپ اس کو جنت دیکھنے دیتے تو یہ حسرت میں نہ مرتا "۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالی نے فرمایا "تو جانتا ہے یہ کون ہے ؟۔ ۔ ۔ اور دیکھ زمین پر دیکھ "ملک الموت نے دیکھا ۔ ۔ ۔
کہ پانی کا ایک جہاز ہے اس جہاز پر دریائی قزاق چڑھ دوڑے ۔ ۔ انہوں نے وہاں لوٹ مار کی۔ ۔ اس لوٹ مار میں اور شور و غوغا میں جہاز کا توازن برقرار نہ رہا۔ ۔ اور مسافروں اور ڈاکوؤں سمیت پانی میں ڈوب گیا۔ ۔ جہاز میں ایک نوزائیدہ بچہ بھی تھا،۔ ۔ اللہ تعالی نے ملک الموت سے "اس بچے کو تختے پرلٹا کر سمندر میں چھوڑ دو"۔ ۔ ۔ ملک الموت نے حکم کی تعمیل کی لیکن ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ یہ بچہ محفوظ کیسے رہے گا؟۔ ۔ ۔
اللہ تعالی نے فرمایا یہ وہی بچہ ہے جس کے بارے میں تجھے خیال تھا کہ یہ کس طرح زندہ رہے گا۔ ۔ ۔ ہم نے اس کی حفاظت کی اس کی پرورش کی اس کو طاقت دی اور اس نے خدائی دعوی کر کے جنت بنا لی اور دعا مانگی کہ اس کی موت نہ آئے اس نے ہمارے ساتھ مکر کیا"۔ ۔ ۔
محمد عظیم البرخیا اس کو کچہ یوں فرماتے ہیں
ذرات میں شاہوں کا سراپا ہے یہ
اک معرکہ اجل کی دنیا ہے یہ
اڑتی ہے جو گرد پاؤں کی ٹھوکر سے
خاکستر اسکندر و دارا ہے یہ
دس لاکھ برس جو چل چکا ہے وہ بھی
کل جس نے کہ آغاز کیا ہے وہ بھی
یہ راہ فنا ہے سب اس میں ہیں ہمراہ
پہلے جو چلا ہے اب جو چلا ہے وہ بھی
کہتا ہے کوئی غمزدگی اچھی ہے
کہتا ہے کوئی کہ بے خودی اچھی ہے
اک آن میں کر دیتی ہے کل قصہ پاک
میں کہتا ہوں سب سے موت اچھی ہے
(والسلام ۔۔۔۔۔ اہل محفل کو تھوڑے سے تفکر کی دعوت۔۔۔۔ ایک بار پھر انتہائی سلیس اردو میں ۔۔۔۔ یہ اک چھوٹا سا کنکر ہے جو ہم آپ کے دل کی جھیل میں پھینک رہے ہیں اب پیدا شدہ دائروں کی وسعتوں میں اپنے من کی گہرائی کا اندازہ آپ خود لگائیے گا )
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مجبور کے اوقات