سر جی بذف ہم نے نہیں کیا کسی اور نے کیا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اس لئے کہ شاید ہماری بات کی سچائی میں کڑواہٹ زیادہ تھی
میں نے یہ لکھا تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے فرمایا " حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔ بوسف لدھیانوی مرحوم کی تقریر سنی تھی اس سے ایک جملہ کوٹ کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"میں زمینی راستوں سے زیادہ اسمانی راستے جانتا ہوں، مجھ سے اسمانی راستوں کے بارے میں پوچھو"۔
پوچھنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ کیا اس بیان کی روشنی میں غیب کسے کہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا حضرت علی کرم اللہ وجہھ کو غیب کا علم تھا ۔۔۔۔ جب کہ قارئین کا کہنا یہ ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر زمین کا باسی اسمانی راستوں کی بات کیسے کر رہا ہے۔۔۔۔ اور وہ بھی ایک انتہائی جلیل ا لقدر پرسنالٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس حوالے سے کچھ کہنے کی جسارت کروں گا ۔ امید ہے یہاں دوستوں کو گراں نہیں گذرے گا ۔
سب سے پہلے تو اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ " غیب " کیا ہے ۔ ؟
اسباب سے ماوراء کسی چیز کو جان لینا ، " غیب " ہے ۔ یعنی ہمارے لیئے کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جو ہمارے سامنے ہوتیں ہیں ۔ قرآنِ مجید اس کو " شہادت" کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے ۔ یعنی ایسی چیزیں جن کا ہم براہِ راست مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ جو ہمارے حواس کی گرفت میں ہیں ، ہم ان سے واقف ہوتے ہیں ۔ اور کچھ چیزیں وہ ہوتیں ہیں ۔ جن کا ہم براہِ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے ۔ ان کو " غیب " سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اب ہم اسباب کے ذریعے اس غیب تک رسائی حاصل کریں گے ۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں دنیا میں آنے والے بچے کی جنس " غیب " کی اہمیت کی حامل تھی ۔ اب ہم نے اس " غیب " تک رسائی کے لیئے ، اسباب میں سے جو چیز حاصل کی وہ " الٹرا ساؤنڈ " ہے ۔ یعنی آج آپ بتا سکتے ہیں کہ دنیا میں آنے والے بچے کی جنس کیا ہے ۔
اللہ تعالی ہر چیز سے واقف ہے ۔ اس کے لیئے نہ کوئی غیب ہے ، نہ کوئی شہادت ہے ۔ یعنی ہر چیز کا اسے علم ہے ۔ کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے ، جو اس کے لیئے غیب ہوجائے ۔ لہذا یہ مطلب ہے کہ غیب کا سارا علم اللہ کے ہی پاس ہے ۔ اب اسباب کے تحت بھی انسان بہت سی چیزوں کا جانتا رہتا ہے ۔ کل بہت سی چیزیں ہمارے لیئے " غیب " تھیں ، آج نہیں ہیں ۔ بہت سی چیزوں کے بارے میں ہم آج معلومات نہیں رکھتے ، ہوسکتا ہے کل ان کا بھی علم ہوجائے ۔ یہ علم اسی طرح سے جاری رہے گا ۔ جیسے اب الٹرا ساؤنڈ مشین ، عالمِ اسباب کی چیز ہے ۔ سو عالمِ اسباب میں تو ہم اسباب پیدا کرتے جاتے ہیں اور اس کے ذریعے بہت سے غیب ہمارے لیئے شہادت بنتے چلے جاتے ہیں ۔ اور اللہ تعالی ان اسباب سے بلکل ماوراء ہے ۔ وہ ہر شے سے واقف ہے ۔
اسی بات کو روحانی تناظر سے دیکھیں ۔ کوئی شخص اس ظاہری دنیا کو بلکل اہمیت نہیں دیتا ۔ اسے یہ علم ہے کہ یہ امتحان کی جگہ ہے ۔ اور اس کو اپنا اصل مقام کا علم ہے ۔ لہذا اس کا زمینی اور آسمانی راستوں کا حوالہ دینا کسی مادی لحاظ سے آسمانی اور زمینی راستوں کی طرف اشارہ نہیں ہے ۔ بلکہ دنیا ( جو امتحان کی جگہ ہے ) اور ( آسمانی راستہ ) جو آخرت ہے ۔ ان کے مابین ایک فرق کو واضع کرنا ہے ۔