طاہر حسین
محفلین
چلیں مشترکہ کوشش کر لیتے ہیں بونگیاں مارنے کی۔
یا پھر آدھا آدھا میدان مار لیتے ہیں۔
چلیں مشترکہ کوشش کر لیتے ہیں بونگیاں مارنے کی۔
یا پھر آدھا آدھا میدان مار لیتے ہیں۔
خوش آمدید طاہر حسین صاحببہت اچھی بات
ہوہوہوہوہووووو۔۔۔ یعنی بمقابلہ۔۔۔چلیں مشترکہ کوشش کر لیتے ہیں بونگیاں مارنے کی۔
یا پھر آدھا آدھا میدان مار لیتے ہیں۔
شکریہ دوستخوش آمدید طاہر حسین صاحب
ہوہوہوہوہووووو۔۔۔ یعنی بمقابلہ۔۔۔
حساب برابر رکھنے کو تین دونوں طرف لگائے ہیں۔یعنی تین ڈیش بمقابلہ تین ڈیش؟!!
نین بھائی یہ تو مجھے جیومیٹری کا کوئی مسئلۂ غیثا فورث لگ رہا ہے ۔
چچا شفیق کی یہی فینٹسیاں ہمیں فیسینیٹ کرتی ہیں!!!مجھے یقین ہے کہ ہر رات ایک نئی کائنات تخلیق ہوتی ہے، جب انسان سو جاتے ہیں تو چاندنی میں پریاں اترتی ہیں۔ دنیا کا گوشہ گوشہ نقشے میں موجود ہے، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ کہیں نہ کہیں ایک ایسا جزیرہ ضرور ہے جس میں انسان نے آج تک قدم نہیں رکھا۔ اس جزیرے میں ایسے ایسے رنگ ہیں جو انسانی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھے۔ طرح طرح کے خوشنما پرندے ہیں جن کے چہچہوں میں ایسی موسیقی ہے جس سے انسان ناآشنا ہے۔ اس کا کونہ کونہ پراسرار اور مسحور ہے اور وہ جزیرہ اس سیّاح کا منتظر ہے جو کسی دن کشتی لے کر چپکے سے آجائے گا۔
اقتباس از بےبی
کتاب: حماقتیں
مصنف: شفیق الرحمن
بھائی !!!!!!شفیق الرحمٰن کے کام کو ہم مندرجہ ذیل چار کیٹیگریز میں تقسیم کرتے ہیں۔
- عشقیہ افسانے( حور اور زیب النسا ٹائپ)
- مزاحیہ مضامین
- شیطان کے مزاحیہ قصے، ہمارے پسندیدہ
- سفر نامے جن میں برساتی اور ڈینیوب ہمارے پسندیدہ ترین ہیں، جنھیں بارھا پڑھنے کے باوجود سیری نہیں ہوئی۔
جناب نیرنگ !!!!رئیس صاحب کے قلم سے شعر ٹپکتے تھے۔ شہر کے نوجوان مشاعروں میں پڑھنے کے لئے ان سے غزلیں لکھوا کر لے جاتے تھے۔ ایک بار ایسے ہی ایک نوجوان نے، جو کسی طرح سے بھی شاعر نہیں لگتا تھا، پیچھے پڑ کر رئیس صاحب سے غزل لکھوا لی اور رات کو اسی مشاعرے میں سنانے پہنچ گیا جس میں رئیس صاحب بھی موجود تھے اور وہیں اسٹیج پر بیٹھے تھے۔
اس لڑکے نے غضب یہ کیا کہ غزل اپنے ہاتھ سے بھی نہیں لکھی بلکہ رئیس امروہوی صاحب کے ہاتھ کی تحریر لے کر پڑھنے لگا۔
پڑھتے پڑھتے ایک مصرعہ کچھ یوں پڑھا
اے کہ تیری حَپّوں سے برہمی برستی ہےسارے مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ کہیں سے آواز آئی، پھر سے پڑھیے میاں صاحب زادے۔ مصرعہ پھر سے پڑھا گیا۔
اے کہ تیری حَپّوں سےبرہمی برستی ہےاس بار کئی آوازیں ابھریں۔ واہ وا۔ مکرر ارشاد
اس نے پھر پڑھا اور زیادہ لہک کر پڑھا
اے کہ تیری حَپّوں سے برہمی برستی ہےبس پھر کیا تھا۔ مجمع نے یہ مصرعہ بار بار پڑھوانا شروع کیا اور شاعر کی سرشاری بڑھتی گئی۔ قریب ہی اسٹیج پر بیٹھے ہوئے رئیس امروہوی صاحب پہلے تو کھنکھارتے رہے، آخر ان سے نہ رہا گیا اور مصرعے کو درست کرتے ہوئے بولے
اے کہ تیرے چتون سے۔۔۔۔ چتون سے۔۔۔۔
اس پر شاعر کی باچھیں کھل اٹھیں اور رئیس صاحب کی طرف منہ کر کے بولا۔ "رئیس صاحب، چتون بھی ٹھیک ہوگا مگر حَپّوں بھی مزا دے ریا ہے۔"
از "مشاعروں کی بودوباش"
تصنیف: اردو کا حال
مصنف: رضا علی عابدی
مجھے یقین ہے کہ ہر رات ایک نئی کائنات تخلیق ہوتی ہے، جب انسان سو جاتے ہیں تو چاندنی میں پریاں اترتی ہیں۔ دنیا کا گوشہ گوشہ نقشے میں موجود ہے، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ کہیں نہ کہیں ایک ایسا جزیرہ ضرور ہے جس میں انسان نے آج تک قدم نہیں رکھا۔ اس جزیرے میں ایسے ایسے رنگ ہیں جو انسانی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھے۔ طرح طرح کے خوشنما پرندے ہیں جن کے چہچہوں میں ایسی موسیقی ہے جس سے انسان ناآشنا ہے۔ اس کا کونہ کونہ پراسرار اور مسحور ہے اور وہ جزیرہ اس سیّاح کا منتظر ہے جو کسی دن کشتی لے کر چپکے سے آجائے گا۔
اقتباس از بےبی
کتاب: حماقتیں
مصنف: شفیق الرحمن
ذوا لقرنین ، اگر شفیق الرحمٰن پر یہ مضمون اگلے ایک سال تک آپ کے قلم سے سرزد نہ ہوا تو میں رنگ کا ڈبہ اور برش لے کر شہر کی دیواروں پر کچھ نعرے لکھنے کے نکل کھڑا ہوں گا ۔ مجھے امید ہے کہ احمد بھائی بھی اپنی کُوچی لے کر میرا ساتھ دے رہے ہوں گے ۔
جاسمن جی !!!!!ہائے!!! مجھے شفیق الرحمٰن کا یہ انداز بے حد، بے حد پسند ہے۔ ان کی نثر میں رومانیت کا یہ پہلو تو بس جان لے لیتا ہے۔
جی چاہتا ہے کہ بس پنکھ لگ جائیں اور ہم ان اجنبی دیسوں کی اور جائیں جہاں ایسے رنگ ہیں جو ہم نے پہلے نہیں دیکھے۔ جہاں ایسے خوشنما پرندے ہیں کہ جن کے چہچہوں میں وہ موسیقی ہے جس سے ہم نا آشنا ہیں۔ کیا میں ہی وہ سیّاح ہوں!!!
ہاں میں کسی دن کشتی لے کے جاؤں گی چپکے سے اس اجنبی جزیرے پہ۔
میں نے کچھ لکھا تو تھا۔۔۔۔یاد دہانی