اک التماس ......

نور وجدان

لائبریرین
السلام علیکم محترم خواتین و حضرات

محفل کے ستون اور پرانے دوست جن کا خواب بھی اک دیوانے کا خواب مگر دیوانوں نے ملکر خواب کو حقیقت میں، گمان کو حقیقت میں تبدیل کردیا. ان پرانے محفلین میں سے ایک نہایت محترم و درویش صفت انسان محترمی قبلہ سید نایاب حُسین نقوی بھی ...... میرا یقین ہے کہ میرے ساتھ ساتھ انہوں نے بُہت سے لوگوں کو دعا سے نوازا ہوگا. ایک درویش اور اللہ والا، جب کسی کو دعا دیتا ہے تب اسکا یعنی اللہ کا امر ربی فیکون کی چابی کو لاگو کردیتا ہے.

سید یعنی سردار شاہ صاحب کی میرے ساتھ کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو رہی ہے. موضوئے حیات اور اللہ کی تلاش سے لیکر شش جہت یعنی چوتھی ڈائمینشن کا تعلق ....

بس ایک جملے پر غور کرنے پر اس شخص کی رمزیہ زندگی عیاں ہوجاتی ہے

جب مجھے غصہ آتا ہے میں اک بار درود پڑھ لیتا ہوں


صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

میں نے بھی ابھی درود پڑھا ہے. میرا پڑھا درود مجھے حضوری میسر نہیں کرتا جبکہ انکی پڑھت ان کو حضوری کی وہ خوشی دیتی ہے. ایک کیف کے آگے ساری کیفیات ہیچ!


وہ کون تھے؟
شاید خدا میرے قلم کو چابکدست کردے اور میں وہ لکھ ڈالوں، جو پوشیدہ ہے. ان کے بارے میں اس سال ازسر نور کاوش کی ہے.میسجز سے لیکر شش جہت تک ہر بات کی تحریک و تجسس میں مبتلا ہوتے لکھی گئی اور پڑھی گئی تحاریر ہیں ... ابھی ایک ماہ یعنی جولائی یا جون شاید کا ماہ مکمل ہوا ہے اور پندرہ سولہ اقساط میں تحریر کرچکی ہوں ...... میرے یوٹیوب چینل پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے.


مری لکھت کا مقصد ان کے متعلق گفتگو ہے.آپ بحثیت محفلین اپنے تجربات شئیر کیجیے یا وہ گفتگو والے دھاگے جن میں آپ نے ان سے کچھ پایا


میرے نزدیک لفظ مکمل نور لیے ہوتے ہیں اگر سینہ قندیل نما ہو. اور پھر وہ شخص محض "بہت دعائیں " بھی لکھ ڈالے، موثر ہوجاتا ہے....آج تک میں اس لفظ "بہت دعائیں " کے حصار سے نکل نَہیں سکی ......

آپ لنکس شئیر کرسکتے ہیں ان سے ہوئی گفتگو کے...
 
نایاب بھائی کا 28 جولائی 2018 کو آخری کیفیت نامہ:
وہ جن سے ہم نے کچھ سیکھا ہو ان کی جانب سے سراہا جانا خوش کن ہوتا ہے ۔ دل سے دعا نکلتی ہے سلامت رہیں وہ جن سے سیکھا ہم نے ۔۔۔۔۔ بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
نایاب بھائی کا 28 جولائی 2018 کو آخری کیفیت نامہ:
وہ جن سے ہم نے کچھ سیکھا ہو ان کی جانب سے سراہا جانا خوش کن ہوتا ہے ۔ دل سے دعا نکلتی ہے سلامت رہیں وہ جن سے سیکھا ہم نے ۔۔۔۔۔ بہت دعائیں
محبت تو صبح صادق کی روشنی ہے
قول سید .....
 
بلا شک بیٹی اللہ کی رحمت ہے۔ اک ایسی ہستی جس میں ممتا سے بھرا احساس پیار ہوتا ہے ۔

میرے نزدیک تو اردو محفل اک مدرسے کی مانند ہے ۔ اور ہم سب علم حاصل کرتے علم کی تقسیم کرتے ہیں ۔

جب تک ہے آباد یہ اردو محفل
لفظوں کی صورت ہم بھی زندہ رہیں گے ۔۔۔۔۔

کسی بھی مقام کی اپنی کوئی اہمیت نہیں اس کی اہمیئت ہمیشہ اس کے مقیم سے وجود میں آتی ہے ۔

بلا شک میں نے زندگی کو اپنی مرضی سے بتاتے ٹھوکریں کھاتے اپنے علم میں مہارت تو حاصل کر لی مگر میرے پاس وہ کاغذ کا ٹکرا نہیں جسے سند کہتے ہیں ۔ اور دنیا کے نظام میں ان پڑھوں میں قرار پاتا ہوں ۔
بلا شک ماں سچ کہتی تھی اس حقیقت کا جب علم ہوا تو بہت دیر ہوچکی تھی وقت گزر چکا تھا ۔ ۔

اب پرائمری پاس کر مڈل میں آ گیا تھا ۔ اور " انکا " اقابلا " ہمزاد " جیسے سلسلوں سے دوستی ہو چکی تھی ۔ خواہش اپنا قبضہ جما رہی تھی کہ میں جو کہ خود میں بہت ذہین ہوں میں بھی کچھ ایسے وظیفے عمل کروں کہ میرے پاس بھی ماورائی طاقتیں آ جائیں ۔ اور یہ جو میرے محلے کی ماں بہنیں مجھے " سید سردار ۔ سید باشاہ ۔ پیر و مرشد کی سیڑھی چڑھا موقع با موقع گھر بلا دودھ پلا حلوہ کھلا مجھ سے اپنے لیئے آسانی کی دعا کرواتی ہیں ۔ ان کے مسلوں کو حل کروں ۔
 
پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ چرب زبان بہت ہوں اور کچھ ہی دیر میں کسی کو بھی شیشے میں اتار اپنا مقصود حاصل کرنے میں ہمیشہ کامیاب ہی رہتا ہوں ۔

والد کی جیب والدہ کا پرس دادی کے تکیئے بہنوں کی گلگ میری دسترس سے کبھی دور نہ تھے جب موقع ملا پیسے اڑا لیئے ۔

دنیا کو کھلاتے پلاتے اپنی دوستی بناتے اپنا مقصود حاصل کر لیتا ۔ ویسے بھی فطرتی طور پر انسان دوست ہوں اور انسان کی خدمت کرتے کبھی جھجھک نہیں ہوتی چاہے کسی کو وقت پر جوتے ہی کیوں نہ صاف کر کے دے دوں ۔ اور یہ خدمت مجھے بہت جلد انسان کی نگاہ میں لے آتی ہے ۔ اور مجھے توجہ ملتی ہے ۔

خود بہت چالاکی کے ساتھ دنیا کو دھوکہ دیتے اپنی خواہش پوری کرنے کی سوچ کا اسیر تھا ۔

بظاہر احمق سادہ معصوم اور باطن میں اس سے برعکس ۔

چاند کی آخری راتوں میں کبھی پیپل و برگد کے نیچے بیٹھ ویران پرانے قبرستان میں کسی قبر کے سرہانے کبھی پائینتی بیٹھ کسی سے ملے کچھ الفاظ و جملے جو کہ کسی حد تک شرکیہ بھی ہوتے پڑھتے رہنا ۔

پچھل پیریاں دیکھیں شتونگڑوں سے ملاقات رہی چھلاوے نے بہ بھگا بھگا تھکا کر اپنی صحبت سے نوازا ۔ روحوں بد روحوں سے ملاقات ہوئی ۔ ان سب سے گزر خود کو عامل کامل جان لیا مان لیا ۔ مجھ بے وقوف کو اس حقیقت کا کہاں علم تھا کہ آیت الکرسی اور درود شریف کا ذکر مسلسل مجھے پناہ میں لیئے ہوئے ہے ۔اور اس ذکر پاک کی یہ رحمت ہے کہ جنات بھی ملاقات کو آ جاتے ہیں ۔

اس عمر میں پہنچ یہ کہنے میں کوئی ڈر جھجھک نہیں کہ گمراہی میں ڈوب گیا تھا ۔ اپنے یقین کو چھوڑ واہموں میں الجھ گیا تھا ۔ کیسے یہ حقیقت کھلی ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد
قدم قدم آباد تجھے، قدم قدم آباد

تیرا ہر اِک ذرّہ ہم کو اپنی جان سے پیارا
تیرے دَم سے شان ہماری تُجھ سے نام ہمارا
جب تک ہے یہ دُنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تُجھے
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد
قدم قدم آباد تُجھے، قدم قدم آباد

دھڑکن دھڑکن پیار ہے تیرا قدم قدم پر گِیت رے
بستی بستی تیرا چرچا نگر نگر اے مِیت رے
جب تک ہے یہ دُنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تجھے
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد
قدم قدم آباد تُجھے، قدم قدم آباد

تیری پیاری سج دھج کی ہم اتنی شان بڑھائیں
آنے والی نسلیں تیری عظمت کے گُن گائیں
جب تک ہے یہ دُنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تجھے
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد
قدم قدم آباد تُجھے، قدم قدم آباد

پورا پاکستان میرا گھر میرا شہر ہے ۔۔۔۔۔۔
اب کسی اک شہر کا کیا ذکر کروں ۔۔۔۔۔۔۔

میرا شہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
جہاں جنم لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مری
جہاں آنکھ کھول اس جہان رنگ و بو کے سحر سے آشنا ہوا ۔۔؟راولپنڈی
جہاں خود کی تلاش میں دیوانہ وار مستانہ وار آوارہ پھرتے زندگی کی صبح دوپہر میں بدلی۔جہاں عشق نے کر کے رسوا گلی گلی تماشا بنایا ۔۔۔۔۔؟ لاہور
جہاں سے زندگی کا سب سے بڑا سچ ملا اور جہاں میری زندگی مکین ہے ۔۔۔ ڈسکہ
یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شہر جہاں زندگی کی شام ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الریاض سعودی عرب
 

نور وجدان

لائبریرین
نیرنگی خیال تو دیکھئے کہاں تھے کہاں پہنچا دیا ۔۔
کسی کا کہا یاد آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں بھولے ابھی تک گاوں کی اُجلی حسیں صبحیں
پہاڑوں پر اُترتی شام کا منظر نہیں بھولے
وہ جس کے سائے کے نیچے بہت کھیلے تھے بچپن میں
تُم اس بیری کا کہتے ہو ہمیں کنکر نہیں بھولے

محمود احمد غزنوی بھائی
انس و محبت سے مہکتے لفظ

ساجد بھائی
مدلل اور صاف کھرے لفظ
کنکر کہوں یا پھول ۔ سچ میں یاد آتے ہیں
اللہ سوہنا سدا اپنی امان میں رکھے آمین
بہت دعائیں

وقت کا گزرتا ہر پل مجھے گزارتے ماضی بنتے میرے نامہ اعمال میں تحریر ہوا چلا جاتا ہے ۔
گزرے سال میں بھی سب کچھ ہی ملا اور دکھا ۔
کبھی خوشی کبھی غم ۔۔۔ کھٹا میٹھا انگور کا دانہ ۔۔۔
کچھ پر میری حقیقت کھلی کچھ کی حقیقت مجھے ملی ۔
نیت ارادہ کوشش ہی میرے بس میں ۔۔
باقی آزادی کے نام پر بہلایا ہوا مجبور اور کر بھی کیا سکتا ہے ،۔؟
سو خواب بن لیئے ہیں خواہشیں جگا لی ہیں ۔ اب وقت کب کیا کرے یہ وقت کا مالک ہی جانے ،۔۔۔۔
بہت دعائیں
8 جنوری 2017
 

نور وجدان

لائبریرین
آئینے کے سو ٹکڑے کر کے ہم نے دیکھے
اک میں بھی تنہا ہزار میں بھی اکیلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئینے سے باتیں کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا تفریق صنف کون ہے ایسا جسے اس عمل سے خوشی نہ ملتی ہو ۔
مکالمے میں شرکت کے لیئے تو ہر دم تیار بیٹھے ہیں ہم ۔
صرف سوال کرنے ہیں خود سے ۔۔۔۔۔؟
یا کسی کو جواب بھی دینا ہے ۔۔۔۔۔؟
مجھے تو آئینہ اکثر ہی یہ سوال کرتا ہے ۔
تو کہ اپنی ذات میں اک انجمن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر اس قدر تنہا کیوں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

شاید کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجر و تشنگی جب " جہل " کے صحرا میں بھٹکتے کسی سراب میں الجھتے ہیں تو " کب کیسے کیوں " کے سہارے بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اور سوال جنم لے لیتا ہے ۔۔۔۔ سوال ہی زندگی کا سب سے بڑا سچ اور سچی ترین حقیقت ہے ۔ سوال نہ ہوتا تو جواب کی تلاش میں ہلکان کیوں کوئی ہوتا ۔۔۔۔ زندگی میں رنگ کیسے بکھرتے ۔۔۔۔۔۔۔سوال ہی حق ہے ۔۔۔

محترم مرزا بھائی
ہم کہ ٹھہرے سدا کے" نظر انداز "
اتنا کہے بنا رہ نہیں سکتے کہ " صبر کے ساتھ حق سے پیوستگی " ہی " تیسری راہ
جب معاف کرنے کی چاہ اور بدلہ لینے کی راہ نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
خونی رشتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون سے کہلاتے ہیں ۔ ؟
1 ۔ نسبی طور پر براہ راست ان میں " دادا دادی نانا نانی ماں باپ اور بھائی بہن " شامل ہوتے ہیں ۔
خاندانی خونی رشتے ۔ ان میں "بھتیجے بھتیجیاں بھانجے بھانجیاں " تایا چچا ماموں خالہ پھوپھی اور انکی آل اولاد شامل ہوتی ہے ۔
اگر خون کے رشتوں کو ذرا تفصیل سے دیکھا جائے تو ۔۔۔۔۔ دادا پردادا نگر دادا ۔ نانا پرنانا نگر نانا یہ شجرہ آگے کی جانب پھیلتا جاتا ہے ۔ اور جناب نوح علیہ السلام جنہیں آدم ثانی کے لقب سے جانا جاتا ہے ۔ تک پہنچ جاتا ہے ۔ اور یہاں سے گھومتے جناب آدم علیہ السلام اور جناب اماں حوا علیہ السلام تک پہنچ نسل انسانی کی ابتدا کی علامت بنتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ حضرت حوّا سے جڑواں بچے (ایک لڑکی اور لڑکا) پیدا ہوتے تھے، آپ جناب آدم علیہ السلام ایک بار پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لڑکی اور لڑکے سے کردیتے تھے۔اور نسل انسانی کا سلسلہ جاری رہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔
سو " ابن آدم یا بنت حوا " سب ہی خونی رشتوں میں شامل ہیں ۔
اب سوال کی صورت کچھ بدل گئی ۔
سوال یہ ہوا کہ " اس دنیا میں وہ کون سا رشتہ ہے جو کہ کسی بھی لالچ سے دور رہتے انسان کا خیر خواہ اور ہمدرد ہوسکتا ہے ۔" "
یہ خونی رشتے اکثر اوقات ہمارے سامنے ہمارے خاندانی رشتوں کی صورت آتے ہیں ۔ اور یہ اپنی توجہ محبت و خلوص سے ہمیں اپنی خیرخواہی اور ہمدردی کا یقین دلاتے ہیں ۔ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ یہ سب رشتے کہیں نہ کہیں کسی مفاد سے پیوست ہوتے ہیں ۔ " ماں "کے علاوہ کوئی رشتہ بھی لالچ و مفاد سے پاک نہیں ہوتا ۔
دوسرا رشتہ جسے " دوست " کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ اور جو قسمت سے نصیب والوں کو میسر ہوتا ہے ۔ اور رشتہ " دوستی " کا وقت پڑنے پر اپنی خیر خواہی اور ہمدردی کا بے لوث بے لاگ اظہار کر دیتا ہے ۔ یہ " دوست " براہ راست خونی رشتوں سے بھی مربوط ہوسکتا ہے ۔ اور خاندانی خونی رشتوں سے بھی ۔ اور عام طور پر "اجنبی غیر " کہلانے والا کسی بھی خاندانی خونی رشتے سے بہت دور ۔
اور اگر ہم اس سوال کو جسم انسانی کی قید سے آزاد کر دیں تو اک ہی رشتہ بچتا ہے ۔ جو کہ " خالق و مخلوق " کا رشتہ ہے ۔ اور وہ " خلاق العظیم " بے نیاز رہتے اپنی مخلوق کا بنا کسی لالچ و مفاد کے " خیر خواہ اور ہمدرد " ٹھہرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اختلاف کا حق سب محترم اراکین رکھتے ہیں " کیونکہ مجھے علم کی تلاش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام
سدا خوش رہیں اور ایسے ہی علم کی تقسیم جاری رکھیں سدا آمین
محترم بھائی " شریکہ " پنجابی میں عام کہا جاتا ہے ۔
یہ " شریکہ " کن پر مشتمل ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان پر غور کر لیں ۔ اور یہی " شریکہ " اخلاص کی مکمل نفی کرتے " مفاد " پر استوار ہوتا ہے ۔
ماں کبھی بھی " شریک " نہیں بنتی ۔ باقی سب رشتے باپ سمیت " شریکے " میں شامل ہو سکتے ہیں ۔
ماں بھی اک لالچ رکھتی ہے اپنی اولاد سے ۔ لیکن وہ لالچ بھی اولاد کی بہتر نگہداشت کی بنیاد بنتا ہے ۔ اس لیئے اسے " اخلاص " ہی مانا جاتا ہے ۔
آپ کا اختلاف کرنا بہت اچھا لگا بہت دعائیں

محترم التباس بھائی ۔ سوال چونکہ بیانیہ انداز میں ہے اس لیئے مجھے تو سمجھنے میں مشکل کا سامنا ہے ۔
کیا آپ کا سوال کچھ ایسے کہ
" کیا آج کے مسلم معاشرے اور فرد کے لیئے بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بدلتے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا لازم ہے یا نہیں " ؟
اگر جواب " ہاں " تو کیسے ۔؟ اگر نہیں تو " کیوں " ؟
یہ "cope" بھی سمجھ نہ آیا ۔۔۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام
جسمانی طور پر کسی سے بھی نہیں ۔ لیکن روحانی طور پر کم و بیش سب ہی سے ملاقات ہو چکی ہے ۔ کوئی اجنبی لگتا ہی نہیں ۔
محترم شمشاد بھائی بہت قریب ہوتے ہیں مگر آج تک کوئی بہانہ بن ہی نہ پایا ملاقات کا ۔
کچھ محترم محفلین کے عزیزوں اور دوستوں سے ملاقات ہو چکی ہے ۔

محترم نبیل بھائی چونکہ کھرے کھرے حکمیہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں ۔ اس لیئے کچھ رعب محسوس کرتا ہوں ۔
ابن سعید بھائی تو تولہ کونین پر چھٹانک شکر چڑھا ایسے کھلا دیتے ہیں کہ بندہ یہ سوچ پیچھے پیچھے پھرتا رہے کہ جانے اب کب ملے گی دوا ۔۔۔
محترم شمشاد بھائی کی ذات تو گھنے اونچے شجر کی مثال ۔جس کے سائے میں آتے ہی ایسا سکون ملتا ہے کہ بندہ ان کے سائے سے ہلنا بھی نہیں چاہتا ۔

اگر محترم شاکر القادری صاحب یا محترم سید زبیر بھائی کی میزبانی کا شرف ملے تو بہت ذوق و شوق سے " بھنڈارہ دال " بنا کر انہیں کھلاؤں ۔ اور اپنی پیاس بجھاؤں ۔۔۔۔۔۔۔

شاعری کہنے میں تو اک سے بڑھ اک ہستی ہے یہاں ۔ تین کا چناؤ ممکن نہیں میرے لیئے ۔۔۔

متحرک اراکین میں محترم نیرنگ خیال بھائی ۔ محترم دوست بھائی ۔۔ اور معصوم سی خالہ جان


محترم حسان بھائی ۔ محترم نیلم بہنا ۔ محترم ظفری بھائی


میرے اک بہت ہی عزیز و معصوم دوست محترم عزیزامین نے مجھے اردو محفل تک پہنچایا ۔ اور محترم ظفری بھائی کی شاعری اور گفتگو مجھے یہاں کا اسیر کر گئی ۔


دل تو ڈھونڈتا رہتا ہے ہر پل فرصت ۔۔۔ جیسے ہی فرصت ملتی ہے صبح ہو یا شام محفل سج جاتی ہے ۔ اور وقت گزرنے کا احساس کبھی صحبت یار میں ہوا ہی نہیں ۔ جب بھی اٹھو اس محفل سے ایسا لگے جیسے ابھی دل نہیں بھرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


قریب ہر سیکشن ہی پسند ہے ۔ پیاسا تو نگر نگر پھرے اپنی پیاس بجھانے کو ۔۔۔۔۔۔۔


محترم سیدہ شگفتہ بہنا ۔ محترم تعبیر بہنا ۔ محترم فرحت کیانی بہنا ۔ ان سے محفل میں اٹھنا بیٹھنا سیکھا ۔ اللہ تعالی سدا انہیں اپنی امان میں رکھتے ان کی زندگی کی راہوں میں اپنی رحمتوں برکتوں کا سایہ رکھے آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
کچھ نہ سمجھے کوئی خدا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب لکھ دیا اب چاہے اس کا سوال سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرہ لوگوں کے ایسے گروہ کو کہتے ہیں جن میں کچھ قدریں مشترک ہوں جیسےتہذیب، زبان، لباس ، رہن سہن کا طریقہ، دین و مذہب ، ماضی وغیرہ ۔ مسلم معاشرے میں دین جوکہ " قران پاک " کے پیغام کو مکمل ترین قبول کرتے اس پر عمل پیرا رہنا اک ایسا اساسی رکن ہے ۔ جو اس معاشرے کو اک عالمگیر حیثیت عطا کرتے " اسلامی معاشرہ " قائم کرتا ہے ۔ اور تہذیب زبان لباس رہن سہن سے صرف نظر کرتے صرف " کلمہ طیبہ " کے اقرار پر تمام قسم کے اختلافات کو پیچھے رکھتے صرف " فلاح انسانیت " کے جذبے و کوشش کو سراہتے اسے " مشترک " قرار دیتا ہے ۔
وقت کیا ہے ؟ یہ اک لمبی بحث ہے ۔ سائینس فلسفہ اپنی اپنی تحقیق پر اس کی تعریف بیان کرتے ہیں ۔
اس کائنات میں گزرتے وقت پر غور کرتے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ " حضرت انساں ہی اس وقت گزرتے وقت کو پوری معنویت سے محسوس کرتا ہے ۔ اس کے دل کی ہر دھڑکن اسے اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ " ناداں گردوں نے اک گھڑی اور گھٹا دی " اک وقت آئے گا کہ یہ دھڑکن اپنی دھڑکنوں کو مکمل کر لے گی ۔ اور زندگی موت میں بدل جائے گی ۔ ہر فرد پر انفرادی طور پر گزرتا یہ وقت فرد کو اس کوشش پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے جیسے افراد پر مشتمل معاشرے کے لیئے کچھ ایسا کر جائے جو کہ معاشرے میں آسانیوں کا سبب بن سکے ۔
بحیثیت مسلمان یا غیر مسلم جب " دین " اسلام کی ابتدا پر غور کیا جاتا ہے ۔ تو اک فرد واحد سامنے نظر آتا ہے ۔ جس نے " توریت زبور انجیل اور دیگر مذہبی صحیفوں کی تحریف شدہ تعلیمات پر استوار اک روایتی معاشرے کی بنیادوں کو اپنی صدائے حق سے ایسا ہلایا کہ صدیوں سے تاریکیوں میں ڈوبا معاشرہ نور سے جگمگانے لگا ۔ نقش کہن مٹ گئے ۔ اور انسان فکری و ذہنی و جسمانی طور پر آزاد اور مساوات کے قابل ٹھہرا ۔
نزول قران پاک سے پہلے کا معاشرہ اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش میں کن حالات سے گزرا ۔ معاشرے نے ہر ممکن اپنی وہ کوشش کی جس سے وہ اپنی روایتی اقدار کو قائم رکھ سکے ۔ لیکن چونکہ بدلتے وقت نے " قران پاک " کی صورت اک ایسی شمع روشن کر دی تھی ۔ جس کی روشن کرنوں نے اس روایتی بدکرداری کی تاریکی میں ڈوبے معاشرے میں اپنے نور سے ایسی روشنی پھیلا دی تھی جس سے کوئی فرد بھی تاریکی میں نہ رہا ۔
وقت جو کہ " حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا علیہ السلام " کے زمین پر اترنے کے بعد اس " وعدے " پر " گزرنا" شروع ہوا کہ " تمیں اک مقررہ وقت تک یہاں رہنا ہے "یہ وقت سدا رواں رہتا ہے ۔ کبھی نہیں رکتا ۔ کبھی اپنی فطرت نہیں بدلتا ۔ یہ وقت " فرد " کے ادا کردہ ( نیک و بد )ہر دو کرداروں کو " آنے والے وقت " کے لیئے امر کرتے اک یاد اک مثال بنا رکھتا ہے ۔۔۔۔
انسانی زندگی ابتدا سے لیکر اب تک جانے کتنے روپ بدل چکی ہے ۔ اوزاروں کے ایجاد نے انسانی زندگی پر مشتمل معاشرے کو بہت سی آسانیاں فراہم کیں ۔ وقت کا سفر " غاروں " سے آغاز کرتے آج کے " جدید دور " تک آن پہنچا ہے ۔
وقت کی ترجیحات بدل چکی ہیں ۔ زمانہ جو کہ وقت کا مالک و خالق ہے ۔ہر لمحہ اس کے کارخانے سے " صدائے کن و فیکون " ابھرتی ہے ۔ انسان کی عقل حرکت کرتی ہے اور جسمانی آسانی کا کوئی ذریعہ ایجاد ہوجاتا ہے ۔
" مسلم معاشرہ " اپنے وجود میں آنے کی چودہ صدیاں مکمل کر چکا ہے ۔ روحانیات کی نسبت سائینس آج کے وقت میں بلندیوں پر ہے اور اپنی حقیقت کو ہر لمحہ منوا رہی ہے ۔ اور آج کا اسلامی معاشرہ " روایات پر استوار اور ان میں تبدیلی " کی کشمکش کا شکار ہے ۔
" وقت " کا اپنا اک اٹل قانون ہے کہ وہ ایسے ہر دو معاشروں کو فنا کی جانب دھکیلتا جاتا ہے جو معاشرے
1۔۔۔صرف اپنی " روایات " پر قائم رہیں اور ان مین کسی بھی قسم کی تبدیلی برداشت نہ کریں ۔
2 ۔۔۔ جو تبدیلیوں پر لمحہ رواں رہیں اور اپنی روایات کو بالکل پس پشت ڈال دیں ۔
کسی بھی معاشرے کے مضبوط و مستحکم رہنے کے لیئے یہ اک ضروری امر ہے کہ " روایت اور تبدیلی " میں اعتدال رہے ۔ اور اس اعتدال کو قائم رکھنے کے لیئے مسلم معاشرے کے فرد کو " اجتہاد " سے رہنمائی ملتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
مسلم معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ " مسلم " سورت العصر " وقت کے مالک زمانے کے پیغام کو فراموش کرتے فروعی اختلاف میں الجھتے آج کے جدید دور میں دوسروں سے کہیں پیچھے رہ گیا ہے ۔ پیغام تو یہ تھا کہ ( کہ زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے سوا ان کے جو ایمان لائے نیک عمل کیئے حق بات کہی اور صبر کرتے رہے ۔)
اپنی روایات پر قائم رہتے بدلتے وقت کے ساتھ بدلنا اسلامی معاشرے کی بقا کا ضامن ہے ۔
علم حاصل کرنے کے لیئے اسلام میں کہیں کوئی روک نہیں ۔ علم نام ہے جاننے کا ۔ وہ جاننا جو کہ انسانیت کے لیئے آسانیاں پیدا کرنے کا سبب ہو ۔

محترم سید زبیر بھائی
سرخ کیئے گئے جملے کو " غیر متفق "کی ریٹنگ کا حامل جانیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلا شبہ آپ نے درست نشان دہی کی کہ اگر " مسلم فرد " دین کے ستون کو مکمل اخلاص سے قائم کرنے کی کوشش کرے ۔ اور نماز کے اوقات کو " وقت پر قائم کرے " تو بلاشبہ انفرادی طور پر فلاح پاتے معاشرے کے لیئے بھلائی کی علامت ٹھہرتا ہے ۔ روایت خالص رہتی ہے اور وقت کا فرض ادا ہوجاتا ہے ۔ اور وقت " فرد " کو آسانیوں کی تقسیم کی جانب دھکیل دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم اراکین محفل آپ سب سے التجا ہے کہ میرے لکھے پر تنقیدی نگاہ رکھا کریں ۔ تاکہ میری سوچ کی " کجی " درست ہو ۔
اپنی تحریر سے آپ کا اختلاف میرے لیئے باعث آگہی ٹھہرے گا ۔ مجھے اک " طفل مکتب " ہی جانیئے جو کہ " اپنی حقیقت کی تلاش " میں سرگرداں ہے ۔۔۔۔۔۔۔


کسی حساس شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
تا حد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے

اک اور شاعر نے کچھ ایسے کہا کہ

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گُل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا
جب اسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا۔ آنکھ سے اوجھل نکلا
اک ملاقات تھی جو دل کوسدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے وہ اک پل نکلا
وہ جو افسانہء غم سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنا روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا
ہم سکوں ڈھونڈنے نکلے تھے، پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوب پریشاں نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ،دل سینے میں بے کل نکلا
کوئی " پریشانی سی پریشانی ہے " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کے صحرا میں رقصاں وقت کے بگولوں کے مقابل انسان کی مثال ریت کے ذرے جیسی ہے ۔ جسے وقت کے بگولے اپنے ساتھ اڑائے پھرتے زندگی کو رواں رکھتے ہیں ۔ وقت کے بگولوں پر سوار انسان کی زندگی کا سفر " غاروں کی صدی " سے شروع ہوا ۔ " اوزاروں کی صدیوں " سے گزرتے " تہذیبو ں کی صدیوں " تک پہنچتے " روحانیت کی صدیوں " سے آگہی پاتے " ایجادات کی صدی " سے گزر " ترقی کی صدی " میں قدم رکھا تو " پریشانی کی صدی " کا سامنا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کے بگولوں نے انسانی زندگی کو روزمرہ کے مسائل و مشکلات میں الجھاتے عجیب و غریب حوادث کا شکار بناتے " ذہنی دباؤ کھنچاؤ تناؤ " کے جال میں پھنسا دیا ۔
بنی نوع انسان کا " مسائل الجھنوں پریشانیوں " کا شکار ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ الجھنیں یہ روزمرہ کے مسائل انسانی زندگی کے آغاز سے ہی حضرت انساں کے ساتھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ "آج کے مادی دور اورتیز رفتار زندگی میں ’’یہ مسائل ‘‘ ہر انسان کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہو چکے ہیں ۔
سکول کے بچے ہوں یا کالج یونیورسٹی کے طالب علم اپنے مشکوک مستقبل کے احساس سے پریشان ۔۔۔
سند یافتہ بے کار نوجوان تلاش روزگار میں سرگرداں و پریشان ۔
عام لوگ اور ملازمت پیشہ افراد نامساعد حالات اور اپنے کام کاج سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ۔
تجارت پیشہ افراد نفع و نقصان کی دوڑ میں شامل ہو تےپریشا ں ۔
عمر رسیدہ لوگ زندگی سے بیزار ہو کر احساس تنہائی اورگمشدگی عمر سے پریشان ۔
امیر و غریب ہر دو اپنے اپنے اخراجات پورے کرنے کی فکر میں پریشان ۔۔
گویا کہ
’’ جو پریشان نہیں وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان کہ وہ کیوں نہیں پریشان ‘‘۔
اور ہر جانب سے صرف اک یہی صدا " سکون کہیں نہیں "
غرض ہر انسان زندگی کی شاہراہ پر چلتے چلتے پریشانی کو اپنے ہمراہ سائے کی طرح ساتھ لئے چل رہا ہے اور اگر کوئی پریشان نہیں ہے تو شاید آج کی اصطلاح میں وہ ’’نارمل انسان‘‘ کہلانے کا مستحق نہیں ہے یعنی پریشانی اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ پریشان ہونے کے باوجود اگر انسان اپنے روز مرہ کے معمولات بخود احسن انجام دے پارہا ہے تو کوئی بات نہیں مگر جب پریشانی زندگی کے روز مرہ معمولات میں دخل اندازی کرنے لگے تو یہ ایک بیماری یا نفسیاتی مسئلہ بن جاتی ہے۔
اگر مندرجہ بالا " انسانی زندگی کی حقیقتوں " کو کسی " حکیم" کے سامنے رکھا جائے تو اس کی " تشخیص " صرف یہی ہوگی کہ یہ سب " مسائل پریشانیاں خوف " صرف اور صرف " توکل و قناعت " پر یقین نہ رکھنے سے جنم لیتے ہیں ۔ " وہ جو سب کا مالک و خالق " ہے ۔ اس نے انسانوں تک اپنے چنیدہ انسانوں کی وساطت سے ان مسائل سے چھٹکارے کا علاج پہنچا دیا ہے ۔ ہر الہامی آسمانی کتب میں اس حقیقت کو کھلے طور بیان کر دیا گیا ہے کہ " توکل و قناعت " اختیار کیئے بنا " بے چینی و بے سکونی " سے بچنا محال ہے ۔
قران پاک میں " ایمان والوں " سے خطاب فرماتے فرمایا گیا ہے کہ

الذين امنوا وتطمئن قلوبهم بذكر الله
الا بذكر الله تطمئن القلوب
جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔
یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے (28)سورة الرعد
بلاشک یہ سچا فرمان ہے۔

یہ بھی اک حقیقت ہے کہ " ذکر سے اطمینان و سکون " حاصل ہونے کا یقین صرف تسبیحات سے حاصل نہیں ہوتا ۔۔۔ اکثر یہ شکایت کرتے ملتے ہیں کہ " صبح و شام " تسبیحات " کرتے ہیں ۔ ورد میں محو رہتے ہیں ۔ مگر " زندگی " سے " حزن و ملا ل بے چینی و بے سکونی " دور نہیں ہوتی ۔
اللہ کا ذکر کوئی نشہ نہیں جو کہ احساس سے بیگانہ کرتے " مصنوعی سکون " طاری کر دے ۔ اللہ کا ذکر صرف " ور د " پر موقوف نہیں بلکہ ۔ اک حساس روح کے حامل وجود کا اپنے خالق کی تعلیمات پر بے و چون و چرا عمل کرتے انسانیت کی خدمت کرنا ہے ۔ اپنے خالق کی یاد میں اس سے ملاقات کے یقین سے جینا ہے ۔ "اسمائے الحسنی " کی مالا نہیں جپنی بلکہ ان میں پنہاں صفات کو اپنی ذات پر ایسے لاگو کرنا ہے ۔ انسانیت کو فلاح پہنچے ۔۔۔۔ صرف زبان کو تر نہیں کرنا ۔ تسبیح نہیں پھیرنی ۔ بلکہ اپنے کامل وجود کو انسان کی خدمت میں مصروف کرنا ہے ۔ پھر یہ " ذکر " اطمینان کا باعث ۔۔ اور " توکل و قناعت " کا زینہ بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
پھر انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے، جس کو اس نے اپنا رب اور اپنا معبود ماناہے، و ہی در حقیقت خالق و مالک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہی ہے ۔اور جس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا، اللہ تعالیٰ اسے کبھی رسوا اور محروم نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس کا یہ وعدہ سچا ہے کہ

الا ان اولياء الله لا خوف عليهم ولا هم یحزنون O الذين امنوا وكانوا يتقون O لهم البشري في الحياة الدنيا وفي الاخرة لا تبديل لكلمات الله ذلك هو الفوز العظيم O(یونس 62-63 -64)
سن رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (یعنی) جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگار رہے ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتیں بدلتی نہیں۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
محترم بہنا سدا خوش و آباد ہنستی مسکراتی رہیں آمین
" عالم " کہاں " جاہل مطلق " ہوں آگہی کی راہ پر ۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو بہنوں کے کان کھیچنے سے بچنے کے لیئے درسی کتب کے غلاف میں چھپا کر " ڈائجسٹوں " کے پڑھنے کا کمال ہے ۔
ذریعہ تعلیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تجسس اور سب کچھ جاننے کی خواہش میں جو بھی کتاب ملی ۔ سرسری پڑھ ڈالی ۔
رسمی تعلیم ۔۔۔۔۔؟ بھگوڑا نمبر ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگتے دوڑتے کلاس پنجم میں وظیفہ اور پرائیویٹ انڈر میٹرک
یعنی " پی پی ایم ایف " ( پرائمری پاس میٹرک فیل )کی ڈگری ۔
اساتذہ تو بلاشبہ سب ہی بہت اچھے اور توجہ دینے والے ملے ۔ مگر " فیض " میری قسمت میں نہ تھا ۔۔۔
مطالعہ ۔ لائبریریز پھرنا ۔۔ اخبارات کھنگالنا ۔ ہمہ اقسام ناول ۔ داستانیں ۔ ڈائجسٹ پڑھنا ۔
اور آج کل انٹر نیٹ پہ بکھرے لفظوں کے موتی چننا ۔۔۔ اور اردو محفل پہ لفاظی کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشک " اردو محفل میرے لیئے کسی " مکتب کسی مدرسے " سے کم نہیں ۔ اس محفل میں روشن علم کے چراغ غیر محسوس انداز میں شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں ۔ آگہی سے نوازتے ہیں ۔ میں بھی ان سب کے نور سے مستفید ہوتے " پڑھا نہ لکھا نام محمد فاضل " رکھ لکھ دیتا ہوں جو میرے دل میں آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام
سدا خوش و شادوآباد ہنستی مسکراتی رہیں محترم ہنا ۔
تاخیر کی معذرت کیا کرنی کہ " گر ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا "


انسان کی حیثیت اک کائنات میں اک ذرے سے زیادہ نہیں ۔ اس ذرے کے گردوہیش میں وقت کے میدان میں ہمہ رنگ ہنگامہ ہائے زندگی نے اپنے اپنے سٹیج سجائے ہوئے ہیں ۔ جب کوئی انسان اپنے گردوپیش میں سجے سٹیجزپر چل رہے مناظر پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو ان مناظر میں مشغول " اداکار " اپنے اپنے فن کو بلندیوں پر پہنچانے کے لیئے اپنے اپنے کرداروں میں محو نظر آتے ہیں ۔
ان کی محویت دیکھنے والی آنکھ میں یہ سوال پیدا کر دیتی ہے کہ " یہ کون ہیں ۔؟ ان کی اپنے کرداروں اتنی محویت کس لیئے ہے ۔ ؟ یہ کس کے لکھے کردار ادا کر رہے ہیں ۔ ؟کیا میں بھی کسی دیکھنے والی آنکھ کے لیئے اک کردار ہوں ۔؟
کائنات کے وسیع و عریض سٹیج پر یہ مناظر یہ کردار کس نے لکھے ۔؟ کون ہے جو ان کی ہدایت کاری کرتا ہے ۔ ؟ مجھے میرا کردار کس نے سونپا ۔ ؟کون ہے جو پردے میں رہتے مجھے ہدایات دے رہا ہے ۔؟
دیکھنے والی آنکھ تجسس میں الجھ جاتی ہے ۔ حقیقت کی تلاش میں نکل پڑتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ۔۔ کیا حقیقت ہے ان تمام سجے سٹیجز کی ۔۔۔؟
2 ۔۔ کس نے سجائے یہ تمام سٹیجز ۔۔؟ اور کون ہے ان سٹیجز کا " ہدایتکار "؟
کیا شروط ہیں جن پر عمل کرتے " اداکار " اپنا " کردار " امر کر سکتا ہے ۔؟
4 ۔۔ اپنا کردار درست نبھانے پر کیا صلہ ملتا ہے ؟
اور جو ان سوالوں کے جوابوں سے واقف ہوتے اپنے کردار کو ہدایتکار کے من پسند طریقے سے ادا کرتا ہے ۔ وہی " کامیاب " قرار پاتا ہے ۔۔۔
کسی نے کیا خوب کامیاب انسان کی تعریف کی ہے ۔کہ
ایس دنیا اچ رکھ ایسا بہن کھلون ۔۔۔۔۔ تو ہوویں تسے ہنسن لوکی نہ ہوویں تے رون ۔
اس دنیا میں اپنا عمل و کردار ایسا رکھ کہ تیری موجودگی میں سب خوش رہیں اور تیری غیر موجودگی میں تجھے یاد رکھیں ۔
آج مادی دور میں تو کامیاب انسان کی شناخت اس کے بنگلے کار بینک بیلنس سے کی جاتی ہے ۔ جو جتنا زیادہ امیر وہ اتنا ہی کامیاب ۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ ضروری نہیں کہ ہر مال و دولت رکھنے والا اپنی نگاہ میں بھی کامیاب و کامران ہو ۔ یہ وہ ہی جانتا ہے کہ اس نے اس مادی کامیابی کے لیئے " حلال و حرام اور جائز و ناجائز " میں کتنی تفریق رکھی ۔ حق داروں کو حق دیا کہ حق داروں کا حق بھی کھایا ۔۔؟
اصل کامیاب انسان وہ ہوتا ہے ۔ جو خود تو مشکلوں امتحانوں آزمائیشوں سے گزرے مگر عجز و اخلاق کو ہمراہ رکھتے صبر قناعت توکل کی راہ چلتے اپنے کردار و عمل کی ایسی شمع روشن کرجائے ۔ جس سے دوسرے انسانوں کو نفع پہنچے ۔ اور دوسرے اس کی اقتدا کو اپنے لیئے کامیابی کا ذریعہ تسلیم کریں ۔ اور یہ انسان خود اپنے ضمیر و روح کو مطمئن پائے۔۔
متفقہ کامیاب ترین انسانوں میں وہ چار عظیم ہستیاں شامل ہیں جو کہ اللہ کا رسول قرار پائیں ۔
حضرت موسی علیہ السلام ۔۔۔۔۔ طور پر آگ لینے کی نیت سے گئے اور صاحب کتاب ٹھہرے ۔
حضرت داؤد علیہ السلام ۔۔۔۔ بہت خوش الحان ہوتے اور لوہے کو نرم کرنے والی خوبی سے واقف ہوتے انسانوں کے لیئے آسانی پیدا کرتے صاحب کتاب ٹھہرے ۔
حضرت عیسی علیہ السلام ۔۔ اللہ کی جانب سے کلمہ ٹھہرتے مہد میں لوگوں سے کلام کرتے صاحب کتاب ٹھہرے ۔۔
اور ان سب میں جو صاحب فضیلت ٹھہرے ۔ وہ یتیم و یسیر ہوتے صادق و امین قرار پاتے تجارت کرتے اپنے اخلاق و تواضح سے انسانوں کی خدمت کرتے اونٹ بکریاں چراتے چالیس سال تک غار حرا میں محو فکر رہتے " اقراء " کے حکم سے سرفراز ہوئے ۔ اور انسانوں کو ان حقیقی خالق و مالک کے پیغام سے آگاہ کرتے انسانوں کو کامیابی و کامرانی کی راہوں سے واقف کیا ۔ اور خالق حقیقی نے اس ہستی کی زندگی کو انسانوں کے لیئے " اسوہ حسنہ " قرار دیتے " کامیاب ترین انسان " ہونے کی گواہی دے دی ۔۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پاک کسی بھی " کامیاب انسان " کو پرکھنے کی بہترین کسوٹی ہے ۔
اللہ ہم سب کو بھی " اسوہ حسنہ " پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازتے ہمیں " کامیاب انسان " بنائے آمین

میری محترم بٹیا
اس دھاگے کے شریک اک بہت پیاری ہستی محترم " تلمیذ " بھائی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔
اب ان کی یاد ہے ہمارے پاس اور ان کی مغفرت کی دعائیں
اللہ سوہنا مرحوم تلمیذ بھائی کو جنت عالیہ میں بلند درجہ عطا فرمائے آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔

میری محترم بٹیا
" ولا تجسسو " کا حکم جس آیت مبارکہ کے ذریعے سامنے آتا ہے وہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌO
’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
الحجرات، 49 : 12
غیب بارے تجسس کی مناہی ہے ۔ غیب صرف یقین پر استوار ہے ۔
یقین ہی کافی ہوتا ہے ۔ کہ حق الیقین کے درجے پر پہنچ حساب سخت ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

قران پاک میں فرمان ہے کہ
اے اہل کتاب اپنے دین (کی بات) میں حد سے نہ بڑھو اور خدا کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (نہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے بلکہ) خدا کے رسول اوراللہ کا کلمہٴ (بشارت) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے تو خدا اوراس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور (یہ) نہ کہو (کہ خدا) تین (ہیں۔ اس اعتقاد سے) باز آؤ کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ خدا ہی معبود واحد ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کے اولاد ہو۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ اور خدا ہی کارساز کافی ہے

مسیح عیسی بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے مریم کی طرف القاء کیا گیا ہے اور وہ اس کی طرف سے ایک روح ہیں۔"
حضرت عیسی علیہ السلام کو " روح اللہ " بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔
ان کے ایک نام کے طور پر لفظ "روح اللہ" استعمال کیا گیا ہے۔
روح کو قران پاک میں " امر " کہا گیا ہے ۔ اور انسانی عقل کو محدود قرار دیا گیا ہے روح کی حقیقت سمجھنے کو ۔۔۔۔۔
قران پاک میں روح کوبہت سے مقامات سے ذکر کیا گیا ہے ۔
اللہ سوہنے کا وہ مقرب فرشتہ جو خدا کے پیغام کو انبیاء تک پہنچاتا ہے [نحل، 102]۔
آسمانی کتاب[شوری، 52]۔
اللہ سوہنے کی جانب سےاس کے بندوں کے لیے غیبی امداد[مجادلہ، 22؛ بقره، 87]۔
باقی " کلمہ " کی حقیقت رب سچا ہی جانتا ہے ۔۔۔۔۔

قران پاک جناب داؤد علیہ السلام بارے بیان کرتا ہے کہ
جب آپ جذب سے بھرپور خوش الحانی سے اﷲ کا ذکر کرتے تو پہاڑ آپ کے ساتھ ہم آواز ہو جاتے ۔۔
آپ جب موسیقی بھری ترنم آفریں آواز سے ذکرِ الٰہی کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی مدح و ثنا میں بلند کرتے تو اس کو سن کر پہاڑ بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر ذکر کرتے ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایسی آواز سے نواز اجو دیگر تمام آوازوں پر برتری اور فوقیت اتنی شیریں اور جذب سے بھرپور ہوتی کہ آپ کی صدا سے بکھری زبور کی تلاوت سن کر جنگلی جانور ان کے اس قدر قریب آجاتے کہ آپ انہیں گردن سے پکڑ سکتے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کی یہ شیریں اور دل کو موہ لینے والی آواز اللہ کی جانب سے آپ کو اک عطا تھی نعمت تھی ۔
کہتے ہیں کہ روزِ قیامت اﷲ تعالیٰ حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دے گا کہ اسی خوش الحانی کے ساتھ اہل محشر کے سامنے میری تقدیس بیان کرو،
جیسے دنیا میں تم تورات کی تلاوت کرتے تھے۔
نہج البلاغہ میں جناب علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ
حضرت داوٴد علیہ السَّلام جنت کے خوش الحان لوگوں کے سردار ہوں گے۔"



یہ آگ استعارہ تھی یا کہ حقیقت تھی یہ اللہ ہی جانتا ہے ۔۔
قران پاک میں اس آگ بارے بیان کچھ ایسے ہے کہ
جناب موسیٰ علیہ السلام جب آگ کے پاس گئے اور غور کیا تودیکھا کہ درخت کی سبز شاخوں میں آگ چمک رہی ہے ۔ اور لحظہ بہ لحظہ اس کی تابش اور درخشندگی بڑھتی جاتی ہے جو عصا ان کے ہاتھ میں تھا۔ اس کے سہارے آپ نے چاہا کچھ آگ لے لیں ۔ تو آگ موسیٰ علیہ السلام کی طرف بڑھی جناب موسیٰ علیہ السلام ڈرے اور پیچھے ہٹ گئے اس وقت حالت یہ تھی کہ کبھی موسیٰ علیہ السلام آگ کی طرف بڑھتے تھے اور کبھی آگ ان کی طرف
اور پھر صدائے حق آپ نے سنی کہ
""میں تیرا پروردگار هوں، اپنے جوتے اتاردے کیونکہ تو مقدس سرزمین ”طویٰ“ میں ہے ""۔۔۔
سو یہ آگ اور اس کی حقیقت بارے صرف رب سچا ہی جانتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
Top