اک نظم

عاطف بٹ

محفلین
تیرے مگروں میرئیے مائیں
ایس دنیا دے تِلکن ویہڑے
جد وی ڈِگیاں، آپے اُٹھیاں
'بسم اللہ!' دی واج نئیں آئی
نہ کیڑی دا آٹا ڈُلہیائے
پچھوکڑی لکھت: کسے دوست نوں شاعر دا ناں پتا ہووے تے دس کے ممنون فرماوے۔
 

نایاب

لائبریرین
مائے نی میں کنوں آکھاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ۔
بٹ جی لکھولکھ دعاواں ۔۔۔۔ ہسدے وسدے رووووووو ۔آمین
 

تلمیذ

لائبریرین
پچھوکڑی لکھت: کسے دوست نوں شاعر دا ناں پتا ہووے تے دس کے ممنون فرماوے۔

بٹ جی، مجھے یاد آرہا ہے کہ میں نے حال ہی میں یہ نظم کسی کالم میں پڑھی ہے۔
آپ کا ڈاکٹر اختر شمار صاحب سے ضرور رابطہ ہوتا ہوگا۔ شاید ان کا کالم تھا۔ اگر نہیں تو وہ ضرور اس سلسلے میں آپ کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ (ہمیں بھی بتائیے گا)۔
 

اوشو

لائبریرین
1378618_722180137812919_1126705165_n.jpg
 

عاطف بٹ

محفلین
بٹ جی، مجھے یاد آرہا ہے کہ میں نے حال ہی میں یہ نظم کسی کالم میں پڑھی ہے۔
آپ کا ڈاکٹر اختر شمار صاحب سے ضرور رابطہ ہوتا ہوگا۔ شاید ان کا کالم تھا۔ اگر نہیں تو وہ ضرور اس سلسلے میں آپ کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ (ہمیں بھی بتائیے گا)۔
سر، بےحد شکریہ۔ میں شمار صاب نوں پچھ لینا واں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
علم، اس نظم کو ترجمہ کرنا اس اعتبار سے انتہائی مشکل کام ہے کہ اس کے آخری مصرعے میں جو پنجابی محاورہ(/روزمرہ) استعمال ہوا اس کا اردو یا کسی بھی دوسری زبان میں متبادل ملنا میرے خیال میں قریب قریب ناممکن ہے۔ نثری صورت میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
ماں، تمہارے بعد اس دنیا کے آنگن میں میں جب بھی پھسل کر گرا ہوں، خود ہی اٹھا ہوں۔ نہ تو مجھے گرتے دیکھ کر کسی نے 'بسم اللہ!' کہا ہے (پنجابی روزمرہ میں عموماً کسی کی آمد، بچے یا کسی شے کے گرنے پر اور بعض دیگر مواقع پر 'بسم اللہ!' کہا جاتا ہے جو بیک وقت کئی مفاہیم ادا کرتا ہے)، اور نہ ہی چیونٹی کا آٹا گرا ہے (ویسے تو 'کیڑی دا آٹا ڈُلھ گیا' کو 'چیونٹی کا آٹا گرگیا' کہنے پر مجھے پھانسی کی سزا ملنی چاہئے کیونکہ اس سے پنجابی کے اس انتہائی خوبصورت محاورے کا قتل ہوگیا ہے مگر بات سمجھانے کے لئے اس کے سوا چارہ بھی کوئی نہیں۔ پنجابی گھرانوں میں عموماً جب بچہ زمین پر گرتا ہے تو اسے حوصلہ دینے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ کچھ بھی نہیں ہوا، بالعموم سب بڑے اور بالخصوص مائیں کہتی ہیں 'کیڑی دا آٹا ڈُلھ گیا۔۔۔')
اس سلسلے میں مزید راہنمائی کے لئے سر تلمیذ صاحب سے مدد لی جاسکتی ہے۔
 

نایاب

لائبریرین

تیرے مگروں میرئیے مائے
تیرے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اے میری ماں
ایس دنیا دے تِلکن ویہڑے
اس دنیا کے پھسلا دینے والے صحن میں
جد وی ڈِگیاں، آپے اُٹھیاں
میں جب بھی گرا ۔۔ خود ہی اٹھا
'بسم اللہ!' دی واج نئیں آئی
کہیں سے سلامتی بھری صدا نہ ابھری
نہ کیڑی دا آٹا ڈُلہیائے
نہ چیونٹی کا آٹا گرا
صاحب کلام اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثات پر دنیا کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل پر اپنی والدہ کے اس ردعمل کو یاد کر رہا ہے ۔ جب کبھی بچپن میں وہ کھیلتے کھیلتے کبھی گرتا تھا ۔ تو اس کی والدہ بھاگ کر اسے اٹھا لیتی تھی اور " بسم اللہ " کی صدا کے ساتھ اس کی توجہ " چیونٹی " کی جانب مبذول کرا دیتی تھی ۔ کہ " چیونٹی " کا آٹا " ڈلھ" گیا ہے ۔ اور وہ اپنا گرنے کا درد چوٹ بھول کر اس چیونٹی کو تلاش کرنے میں محو جاتا تھا ۔ جس کا آٹا " ڈلھ " گیا ہوتا ہے ۔
یہاں " ڈلھنا " عجب انوکھی بات کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔۔
پنجابی زبان میں " گرنے " کے لیئے " ڈگنا اور ڈھینا" استعمال ہوتا ہے ۔​
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ عاطف بھائی، نایاب بھائی ۔۔۔۔!

بچوں کے گرنے پر بسمہ اللہ کہنا تو ہمارے ہاں کی خواتین کا بھی معمول رہا ہے۔ ساتھ ساتھ بچوں کا دھیان بٹانے کے لئے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ 'وہ دیکھو چیونٹی مر گئی" ۔

رہی بات "ڈُلنے" یا "ڈُلھنے" کی تو کسی زمانے میں ہمارے ایک پڑوسی کے بچے یہ یا اس سے ملتا جُلتا لفظ استعمال کرتے تھے پانی گرجانے پر کہ "پانی ڈُل گیا ہے" ۔ عموماً برتن میں موجود کسی رقیق شے کے گر جانے پر یہ اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔

باقی آپ لوگ اہلِ زبان ہیں زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
ماشاءاللہ، بہت قابل ترجمہ کار ہیں ہمارے ہاں۔

’کیڑی د اآٹا ڈلہنے‘ (’ڈ ‘کے اوپر پیش) کے محاورے بارے میں بٹ صاحب کے ترجمے میں جس بات کا اضافہ کرنا چاہتا تھا، وہ پہلے ہی جناب نایاب, صاحب اور محترم @ محمد احمد, صاحب نے پیش کر دیا ہے۔ یعنی بچے کے گر جانے پر اس کو رونے سے بچانے اور اس کا دھیان بٹانے کے لیے اس کی توجہ یہ کہہ کر دوسری جانب مبذول کرد ی جاتی ہے کہ ’ اوہو، اوہ دیکھو، کیڑی دا آٹا ڈھل گیا اے‘۔ اور وہ زمین پر تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے کہ کیڑی (چیونٹی) کہاں پر ہے اور اس کا آٹا کیسے گر گیا ہے۔
میراخیال ہے، اب اصلاحی صاحب کو اس نظم کی ساری کیفیت واضح ہو گئی ہوگی۔
 
Top