شمشاد
لائبریرین
کون ماں باپ سوہنیا اوپر کی کہانی نہیں پڑھی پیدا کرتے ہیں انویسمنٹ کی طرح
یہ تمہاری سمجھ اور سوچ سے بہت دور کی بات ہے۔ جس کا دین ایمان ہی پیسہ ہو صرف پیسہ۔
کون ماں باپ سوہنیا اوپر کی کہانی نہیں پڑھی پیدا کرتے ہیں انویسمنٹ کی طرح
ساجد بھائی نیچے ربط دیا ہوا ہے آخری لائن میں میں نے۔ مگر وہاں پر بھی کہانی کے مصنف کا نام تو نہیں ہے۔بہت اچھی کہانی ہے نیرنگ خیال برادر ۔ ویسے کہانی گیر کا نام نہیں لکھا آپ نے۔
پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ یہ ہمارے پردیسی بھائی کی کہانی ہے وہ تو پڑھنے سے پتہ چلا کہ ایک پردیسی کوئی اور ہے۔
ہاں ہاں بس شاعریاں اور افسانوی بااتیں ہیں یارپھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
ہاں جی ہم نے بھی کامل ربطی آوارہ گردی کرنے کے بعد ہی ایسا بے ربط سوال پوچھا تھا آپ سےساجد بھائی نیچے ربط دیا ہوا ہے آخری لائن میں میں نے۔ مگر وہاں پر بھی کہانی کے مصنف کا نام تو نہیں ہے۔
نہیں بندہ جب بڑی بڑی چوٹیں بار بار کھاتا ہے تو دور جا بستا ہے آرام سے نئی زندگی شروع کرتا ہے زیرو سے جیسے مین نے 150 ریال یا 3000 روپے سے کی تھی اور پھر محنت لگن سے اپنا آپ کھڑا کرتا ہےہاں مگر نظام زندگی ویسا ہی ہے۔
جئے ہو پیسے کی جو تمام لوگوں کا پالنے والا ہےیہ تمہاری سمجھ اور سوچ سے بہت دور کی بات ہے۔ جس کا دین ایمان ہی پیسہ ہو صرف پیسہ۔
سرخ خیالات سے متفق ہوں اگرچہ سوشلسٹ نہیں ہوں۔ٹھیک ہے کوئی نہیں ہمیں روکنے ٹوکنے والا اس لیے جب دل کرتا ہے جہاز پر پیر رکھ دیتے ہین یہ رشتے ہوتے ہی لاچی اور مطلبی ہیں ہر کسی کو اپنی پڑی ہوتی ہے ۔فضول کے ایکسٹرا کریکٹر لائف میں ۔بھاڑ میں جائیں سب
اس پیج کے ایڈمن سے پوچھتا ہوںہاں جی ہم نے بھی کامل ربطی آوارہ گردی کرنے کے بعد ہی ایسا بے ربط سوال پوچھا تھا آپ سے
بالکل درست کہا آپ نے۔ مگر کچھ رشتے اٹوٹ ہوتے ہیں۔ خیر میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیوں کہ وہی جانتا ہوتا ہے جو گزرا ہوتا ہے حالات سے۔ باہر کا آدمی تو بس شدت کا اندازہ لگا سکتا ہے یا تسلی و تشفی کے دو بول بول سکتا ہے۔نہیں بندہ جب بڑی بڑی چوٹیں بار بار کھاتا ہے تو دور جا بستا ہے آرام سے نئی زندگی شروع کرتا ہے زیرو سے جیسے مین نے 150 ریال یا 3000 روپے سے کی تھی اور پھر محنت لگن سے اپنا آپ کھڑا کرتا ہے
جب بچہ چھوٹا ہوتا وہ کیا ایسے سوچتا ہے کیا ؟ جب لڑکا ہوتا ہے تو کیا وہ ایسا کرنے کا کوئی پلان بھی بنا سکتا ہے؟ ارے بھئی کچھ ہوتا ہے ایسا جو بندے کو مکمل ہر چیز سے بیگانہ کر دیتا ہے ہر چیز سے اور سب کچھ مطلب سب کچھ چھوڑ کر جانے پر مجبور کرتا ہے نا ۔ پھر Y وائی کی طرح راہیں جدا ہوتی ہیں تو واپس نہیں ملتی جتنا سفر کرو دور ہی جاتی ہیںبالکل درست کہا آپ نے۔ مگر کچھ رشتے اٹوٹ ہوتے ہیں۔ خیر میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیوں کہ وہی جانتا ہوتا ہے جو گزرا ہوتا ہے حالات سے۔ باہر کا آدمی تو بس شدت کا اندازہ لگا سکتا ہے یا تسلی و تشفی کے دو بول بول سکتا ہے۔
ہم بھی پردیسی ہوئے تھے 2400 ریال ماہانہ کے ایگریمنٹ پر۔ اچھے لوگوں کے پاس پہنچے تو ہمیں ایک ورق سائن کرنے کے لئے دیا گیا اور ورق میں لکھی تحریر کے مطابق بتا دیا گیا کہ 300 ریال پہ کام کرنا ہے تو کرو نہیں تو خروج لگا دیا جائے گا۔ زرداری کے مصداق ان کا بھی کم و بیش یہی مؤقف تھا کہ معاہدےقرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ پر ہمارے پاس ایک مضبوط سہارا تھا ہم نے ترکی بہ ترکی کہا ”تم خروج لگانے میں دیر نہ کرو تاکہ ہمیں 2 سالہ ایگریمنٹ کی پوری تنخواہ 2400 ریال کے حساب سے اسی مہینے مل جائے“۔ شیخ نے خروج تو نہ لگوایا لیکن اپنے منہ سے پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے بہت کچھ خارج کیا۔ بالآ خر جھگڑا چلتے چلتے ہم امریکیوں کے ہتھے چڑھ گئے اور ان کی کمپنی میں نقل ہو گئے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔نہیں بندہ جب بڑی بڑی چوٹیں بار بار کھاتا ہے تو دور جا بستا ہے آرام سے نئی زندگی شروع کرتا ہے زیرو سے جیسے مین نے 150 ریال یا 3000 روپے سے کی تھی اور پھر محنت لگن سے اپنا آپ کھڑا کرتا ہے
میں نے اسی لیئے لکھا تھا کہ جو پہنتا ہے وہی جانتا ہے کہ جوتا کہاں کاٹتا ہے۔جب بچہ چھوٹا ہوتا وہ کیا ایسے سوچتا ہے کیا ؟ جب لڑکا ہوتا ہے تو کیا وہ ایسا کرنے کا کوئی پلان بھی بنا سکتا ہے؟ ارے بھئی کچھ ہوتا ہے ایسا جو بندے کو مکمل ہر چیز سے بیگانہ کر دیتا ہے ہر چیز سے اور سب کچھ مطلب سب کچھ چھوڑ کر جانے پر مجبور کرتا ہے نا ۔ پھر Y وائی کی طرح راہیں جدا ہوتی ہیں تو واپس نہیں ملتی جتنا سفر کرو دور ہی جاتی ہیں
ہمارے ساتھ ایسا کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا نا ہی ہمارے منہ پر پاکستان کو کوئی کچھ کہتا ہے ورنہ اس کا انجام برا ہو گا ہمیں ایگریمنٹ کے بعد 3 گنا زیادہ پے کیا گیا اور ہم سے مار بھی کھائی انہوں نےہم بھی پردیسی ہوئے تھے 2400 ریال ماہانہ کے ایگریمنٹ پر۔ اچھے لوگوں کے پاس پہنچے تو ہمیں ایک ورق سائن کرنے کے لئے دیا گیا اور ورق میں لکھی تحریر کے مطابق بتا دیا گیا کہ 300 ریال پہ کام کرنا ہے تو کرو نہیں تو خروج لگا دیا جائے گا۔ زرداری کے مصداق ان کا بھی کم و بیش یہی مؤقف تھا کہ معاہدےقرآن و حدیث نہیں ہوتے۔ پر ہمارے پاس ایک مضبوط سہارا تھا ہم نے ترکی بہ ترکی کہا ”تم خروج لگانے میں دیر نہ کرو تاکہ ہمیں 2 سالہ ایگریمنٹ کی پوری تنخواہ 2400 ریال کے حساب سے اسی مہینے مل جائے“۔ شیخ نے خروج تو نہ لگوایا لیکن اپنے منہ سے پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے بہت کچھ خارج کیا۔ بالآ خر جھگڑا چلتے چلتے ہم امریکیوں کے ہتھے چڑھ گئے اور ان کی کمپنی میں نقل ہو گئے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
بری بات۔ اچھے بچے ایسا نہیں کہتے۔ہم نہیں مانتے کسی استاد کو ہم خود بہت بڑے استاد ہیں
بھئی ہم ہیں اصل میں ہم کیوں سیکھیںبری بات۔ اچھے بچے ایسا نہیں کہتے۔