ربیع م
محفلین
اگر آپ دس ملین افراد قتل کریں …تب بھی کوئی آپ کو ہٹلر نہیں کہے گا!!!
اس تصویر کو بغور دیکھیے:
اکثر لوگ اسے نہیں جانتے اور نہ ہی اس کے بارے میں سنا ہو گا
لیکن آپ کیلئے اسے جاننا لازم تھا ، اور اس کے بار ے میں بھی آپ کے وہی احساسات ہوتے جو کسی بھی ڈکٹیٹر کے بارے میں ہوتے ہیں مثلا: ہٹلر یا میسولینی ۔
زیادہ حیران مت ہوں ، اس آدمی نے کانگو میں 10 ملین سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔
یہ بیلجئم کا بادشاہ لیوپولڈ دوم ہے۔
یہ شخص مملکت بیلجئیم پر اپنی حکومت کے دوران 1885 سے 1909 کے دوران کانگو پر بھی حکومت کرتا رہا۔ ایشیا اور افریقہ میں استعماری ناکام کوششوں کے بعد اس نے کانگو کا اپنے ہدف کے طور پر انتخاب کیا ۔ جس کے لئے اس کا پہلا قدم کانگو کو خریدنا اور وہاں کے باسیوں کو اپنا غلام بنانا تھا۔
اس وقت کانگو کا رقبہ بلجیکا کے رقبہ سے 72 گنا زیادہ تھا اور وہاں قبائل کے باسی پڑھنے لکھنے سے ناواقف تھے ، لیوپولڈ نے انھیں معاہدہ پر دستخط کرنے کیلئے کیا دھوکہ دیا ملاحظہ کیجئے:
ہر ماہ لباس کے ایک جوڑے کے بدلہ، جو کہ ان تمام زعماء قبائل کو پیش کیا جائے گا جن کے نیچے دستخط موجود ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان میں سے ہر ایک کیلئے ملبوسات کے تحائف کے بدلہ تمام زعماء قبائل اپنی خوشی اور رضامندی کے ساتھ اپنے ورثہ اور سابقہ لوگوں کی وراثت …اپنی تمام تر اراضی کے تمام حقوق سے جمعیت کے حق میں (لیوپولڈ کی سربراہی میں) … دستبردار ہوتے ہیں۔ اور یہ ان سے طلب کی گئی ہر مزدوری یا اس کے علاوہ دوسرے کاموں مرمت اصلاحات یا جمعیت کی جانب سے اعلان کردہ عسکری مہمات کی ادائیگی کیلئے ہر وقت اور ہر جگہ میں پابند ہوں گے …تمام راستے اور آبی گذگاہیں جو اس ملک سے گذرتی ہیں اور ان سے ٹیکس حاصل کرنے کاحق ،حیوانات اورمچھلیوں کے شکار کے تمام حقوق اورجنگل تمام کے تمام مطلقا جمعیت کی ملکیت ہیں۔
ہم نے اپنے تعلیمی اداروں میں لیوپولڈ دوم کے بارے میں کچھ نہیں پڑھا ، اور نہ ہی میڈیا میں اس سے متعلق کچھ سنا ، اسی طرح نہ ہی ظلم وستم اور اجتماعی قتل عام کی مروجہ روایات میں اسے کوئی قابل ذکر حصہ ملا( مثال کےطور پر دوسری جنگ عظیم میں ہولو کوسٹ کا واقعہ) یہ افریقہ میں استعماری تاریخ ، غلامی اور اجتماعی مذبح خانوں کا ایک جزو ہے جو سفید فام انسان کے دنیا کے بارے میں مروجہ وژن اور دوسری نسلوں پر تاریخی برتری سے بالکل متعارض ہے۔
لیوپولڈ کیلئے کانگو اس وقت ایک نایاب اور بیش قیمت دولت کا مرکز تھا ، دنیا اس وقت ربڑ کے ٹائروں کی ایجاد سے مستفید ہو رہی تھی اس لئے ربڑ کی طلب میں بے حد اضافہ ہو گیا تھا ۔ ربڑ کے درخت کے بارے میں سب سے پہلی بات یہ کہ اسے کاشت کے بعد کم از کم 15 سال کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ استعمال کے قابل ہوسکے۔ کانگو کی زمین اس کیلئے مثالی انتخاب تھی ، جس میں بکثرت جنگل اور ربڑ کے درخت پائے جاتے تھے۔
لیوپولڈ کا دولت کے حصول کا طریقہ انتہائی وحشیانہ تھا ۔ اس کے سپاہی اس سرزمین میں موجود افریقی قبائل کی بستیوں پر حملہ آور ہوتے جسے انھوں نے "آزاد مملکت کانگو" کانام دے رکھا تھا۔ عورتوں کو گروی رکھا جاتا ،تاکہ مردوں کو جنگلات کی جانب منتقل کرنے پر مجبور کیا جاسکے تاکہ وہ ربڑ کا عرق نچوڑ کر جمع کر سکیں اور جب کسی جگہ سے کوئی درخت بالکل ختم ہو جاتا تو انھیں مجبور کیا جاتا کہ وہ اسے جنگلوں کے درمیان سے کہیں دور لے جائیں ۔
کام میں سستی یا کوتاہی کی سزا انتہائی سخت تھی لیوپولڈ نے اپنی ایک تنخواہ یافتہ فوج بھرتی کر رکھی تھیجس کا نام “عوامی فوج " تھا تاکہ وہ کام کے دوران غلاموں کی نگرانی کر سکیں ، اور جب انھیں مطلوبہ نتیجہ نہ ملتا تو وہ غلام کو کوڑوں سے پیٹتے ، یہاں تک کہ موت تک ، یا ان کے ہاتھ بالکل کاٹ دئیے جاتے ، اور جو تشدد کی وجہ سے نہ مرتے ان کی موت طویل دورانئے تک مسلسل کام کرنے کی وجہ سے جو بسا اوقات بغیر کھانے یا پینے کے ہوتا تھا تھکاوٹ کی وجہ سے ہو جاتی ۔
جبکہ گروی عورتیں بھی حالت امن میں نہ تھیں ، ان کی آبروریزی ، تشدد ، موت تک بھوکا رکھنا ایک عام بات تھی۔
یہ سارا عمل ان بھونڈے بہانوں اور دلائل کی آڑمیں ہورہا تھا جسے لیوپولڈ دوم نے کونگو پر استعماری قبضہ کے دوران رواج دیا ۔جس کی ابتداء فلاحی کاموں اور مسیحیت کی نشر واشاعت سے ہوئی اور اختتام غلاموں کی تجارت پر۔
لیکن لیوپولڈ کی سخت ترین مہمات ہی موت کا براہ راست واحد سبب نہ تھیں ۔ صحت مند مردوں کو کام کی جانب سختی سے لے جانے کے بعد کھانے کی پیداور عورتوں ، بچوں اور بوڑھیوں اور بستی میں باقی ماندہ کمزور مردوں کی ضروریات پورا کرنے کیلئے کافی نہ ہوتی ، جو بھوک کے ہاتھوں کمزور ہوتے جاتے اور آہستہ آہستہ موت کے منہ کے قریب ۔ بھوک اور قحط سالی نے کانگو کی سرزمیں کو گھیر لیا تھا۔ جس کے نتیجے میں بہت سی وبائیں پھیل گئیں جنہوں نے کئی ملین افراد کواپنی لپیٹ میں لےلیا۔ مثلا: تپ دق ، چیچک ، اور پھیپھڑے کے امراض
1905 میں مارک ٹوین Mark Twain مشہور امریکی مصنف ایک طویل مضمون لکھتا ہے جس میں لیوپولڈ اپنے آپ سے مخاطب ہے اور کانگو پر اپنی حکومت کا دفاع کرتا ہے، اس میں اس نے بیلجئم کے بادشاہ کے خوں ریز اقدامات کو نشانہ بنایا اور افریقہ کی زمین کو استعمال کرنے کامذاق اڑایا ، اس میں لیوپولڈ کی زبانی کہتا ہے:
جب وہ بھوک ، بیماری ، ناامیدی اور مسلسل بغیر کسی راحت کے تھکا دینےوالے کام کی وجہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور اپنے گھروں کو چھوڑکر جنگلات کا رخ کرتے ہیں تاکہ میری سزا سے بچ سکیں تو میرے سیاہ فام سپاہی ان کا پیچھا کرتےہیں ، انھیں ذبح کرتے ہیں اور ان کی بستیوں کو جلا ڈالتے ہیں ، اور ان میں سے کچھ نوجوان لڑکیا ں گروی رکھ لیتے ہیں ، اور اس کے ساتھ وہ زبان حال سے کہہ رہے ہوتے: میں کس طرح ساری قوم کو کوڑوں سے پیٹوں ، اس دنیا کی ہی ایک" قوم" دوستوں سے محروم ، چنانچہ میں ان کا زندگی سے خاتمہ کر دیتا ہوں ، اور قتل کے ہر ذرائع اختیار کر کے لذت حاصل کرتا ہوں تاکہ اپنی خواہشات کی آگ بھڑکا سکوں ۔
مگر آپ نے یہ تحریر کہیں بھی نہیں پڑھی ہوگی ، باوجودیکہ مارک ٹوین ایک عالمی لکھاری ہے ، اور نہ ہی امریکا میں طلباء نے اس کے بارے میں کچھ سنا ہو گا ، باوجودیکہ مارک ٹوین کی تحریریں امریکی تعلیمی اداروں میں کافی مشہور ہیں سوائے اس کی سیاسی کتابوں کے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ اگر آپ 10 ملین افریقی انسانوں کو قتل کریں آپ کو کوئی نہیں کہے گا کہ آپ ہٹلر جیسے ہیں ، آپ کا نام شر کے مترادف کے طور پر استعمال نہیں ہو گا ، آپ کی تصویر خوف ناپسندیدگی یا یہاں تک کہ افسوس کے جذبات تک نہیں پیدا کرے گی ، کوئی بھی آپ کے مقتولین کے بارے میں بات نہیں کرے گا ، اور آپ کا نام تاریخ فراموش کردے گی ۔
لیوپولڈ کے مذبح خانوں کے بارے میں بی بی سی کی تیار کردہ ڈاکومنٹری فلم ، جس کا عنوان ہے سفید بادشاہ ، سرخ ربڑ ، اور سیاہ موت:
اردو استفادہ از:When You Kill Ten Million Africans You Aren’t Called ‘Hitler’
حين تقتل 10 ملايين أفريقي لا يدعوك أحد «هتلر»
مدیر کی آخری تدوین: