بڑی جذباتی باتیں ہورہی ہیں اس دھاگے میں۔ تو تھوڑی سی جذباتیت ہم بھی جھاڑ لیں۔
بھئی پہلی بات تو یہ ہے کہ پوری زمین اللہ کی ہے۔ (اس دھاگے نے تو ہمیں بھی جذباتی کردیا)
اور جب پوری زمین اللہ کی ہے تو پھر بندے کو جہاں مناسب لگے وہ جاسکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جس جگہ پیدا ہو کر ایک عمر گزرای ہو اس سے ایک لگاؤ رہتا ہے اور یہ بالکل فطری ہے۔ حدیث بھی ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ وطن صرف وہی نہیں ہوتا جہاں پیدا ہوئے پلے بڑھے۔ بلکہ اسے بھی وطن سمجھنا چاہئے جس نے آپ کو خراب معاشی اور دیگرحالات میں اپنے ہاں جگہ دی اور آگے بڑھنے کے مواقع دئیے۔ اس لئے جو لوگ اعلیٰ تعلیم کے لئے یا اچھے روزگار کے لئے بیرون ملک جاتے ہیں انہیں اس وطن کی تعمیروترقی میں بھی دل و جان سے حصہ لینا چاہئے کہ یہ ایک طرح سے اس ملک کے احسان کا بدلہ اچھے رنگ میں اتارنے کی ایک کوشش ہوگی۔ اور اپنا پیدائشی وطن تو بہرحال اپنا ہے ہی۔
اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر موقع ملے تو باہر جائیں گے یا نہیں۔ تو کوئی معقول وجہ ہو تو پھر تو جانے میں کوئی مضائقہ ہی نہیں لیکن اگر کوئی وجہ نہ بھی ہو تو سیروفی الارض کے تحت ہی سیاحت کے لئے نکل جانا چاہئے۔ بہرحال ہمیں ذاتی طور پر تو اپنا وطن پاکستان ہی اچھا لگتا ہے اگر موقع ملے تو پاکستانی شہریت کی قیمت پر تو بہرحال نہیں جائیں گے۔ کسی ضرورت یا مجبوری کو جانا پڑے تو پھر جو ملک ہمارے لئے اپنے دروازے کھولے گا اس ملک سے محبت پیدا ہونا بھی ضروری امر ہے لہٰذا اس ملک کے لئے بھی دعائیں اور عملی کوششیں جو ہوسکیں گی وہ بھی ضرور کریں گے چاہے کسی کو برا لگتا پھرے۔