محب علوی
مدیر
سرکار سوفٹ ویئر انجینیئرنگ ہی فقط ترقی کی ضامن نہیں ہوتی۔ الیکٹرونک تو کیا پاکستان میں کوئی سی بھی انجینیئرنگ نہیں ہورہی جو ہو رہی ہے وہ بھی طریقے سے نہیں۔ سول کے شعبے کا کیا حال ہے حالانکہ یہ پاکستان میں قدیم پیشہ ہے۔ ہم دنیا کو بہترین سوفٹ وئیر آؤٹ سورس کر کے تو دے رہے ہیں مگر ایک معمولی سی سوئی بھی ہم چائنا سے منگواتے ہیں۔ بہر حال یہ گفتگو طوالت کی متقاضی ہے اور موضوع غیر متعلق ہوجائے گی۔ سائنس اور فنون کے کسی بھی شعبے میں کمال حاصل کرنے کے لیے اسے صنعتی درجہ اور سرپرستی حاصل ہونی چاہیے۔ میں صنعتی شعبے میں ملازم ہوں اور یقین جانیے ہمارے ملک میں صنعتی شعبے کی کوئی بھی چیز نہیں بنتی۔ ہر چیز ہم باہر سے منگواکر لگاتے ہیں۔ چاہے وہ الیکٹرکل کی ہو، الیکٹرونکس کی، انسٹرومینٹ ہو یا میکینیکل کا کچھ۔ ایک صنعتی والو تک ہمارے ملک میں نہیں بنتا۔ بہرحال اب بس کرتا ہوں ورنہ میری بحث معاشیات ککی طرف چلی جائے گی
میں پہلے ہی اس شعبہ میں اپنی کم علمی کا اعتراف کر چکاہوں مگر اس کا زبان سے زیادہ حکومتی سرپرستی اور ثقافت سے تعلق ہے کیونکہ اس وقت اعلی تعلیم تو انگریزی میں ہی ہو رہی ہے تو یہ اعتراض انگریزی پر زیادہ لاگو ہوگا بجائے اردو پر تنقید کے۔ بہرحال صنعتی شعبے کی زبوں حالی اظہر من الشمس ہے۔ اس کے علاوہ آپ ٹیلی کام کا شعبہ لے لیں ، اس میں اختراعات ہوتی رہتی ہیں ۔
ایئر فورس میں ایروناٹیکل کے شعبے میں کئی ایجادات ہیں مگر وہ فوج کے زیر انتظام ہی رہتی ہیں۔
پاکستان نے گاڑی ، ٹریکٹر ، ٹینک سے لے کر کروز میزائل تک بنایا ہے مگر یہ چیزیں حکومتی سرپرستی اور بہت زیادہ امداد اور حوصلہ افزائی مانگتی ہیں جو کہ نہیں ہوتی۔
کمپیوٹر کے شعبے میں جو کہ اب ہر ملک میں ترقی اور تحقیق کا لازمی جزو ہے اس میں کئی بہترین خیالات اور ماڈل پیش ہوئے مگر نہ حکومت نہ نجی کمپنیاں موقع دینے کو تیار ہوتی ہیں تو پھر وہ ہنر مند یا تو روایتی کام کرنے لگتے ہیں یا موقع ملنے پر باہر چلے جاتے ہیں۔
ابھی تک ہم نے مڈل کلاس اور اس سے بہتر طبقہ کی بات کی ہے جبکہ لوئر مڈل کلاس اور غریب آدمی کے لیے انگریزی سیکھنا کتنا دشوار ہے اس کا کبھی اندازہ کیجیے گا۔
بہت بڑی اکثریت میڑک، انٹرمیڈیٹ اور بی اے میں صرف انگریزی کی وجہ سے رہ جاتی ہے۔