اگر اردو کو تعلیمی زبان قرار دے دیا جائے تو محنت آدھی

سرکار سوفٹ ویئر انجینیئرنگ ہی فقط ترقی کی ضامن نہیں ہوتی۔ الیکٹرونک تو کیا پاکستان میں کوئی سی بھی انجینیئرنگ نہیں ہورہی جو ہو رہی ہے وہ بھی طریقے سے نہیں۔ سول کے شعبے کا کیا حال ہے حالانکہ یہ پاکستان میں قدیم پیشہ ہے۔ ہم دنیا کو بہترین سوفٹ وئیر آؤٹ سورس کر کے تو دے رہے ہیں مگر ایک معمولی سی سوئی بھی ہم چائنا سے منگواتے ہیں۔ بہر حال یہ گفتگو طوالت کی متقاضی ہے اور موضوع غیر متعلق ہوجائے گی۔ سائنس اور فنون کے کسی بھی شعبے میں کمال حاصل کرنے کے لیے اسے صنعتی درجہ اور سرپرستی حاصل ہونی چاہیے۔ میں صنعتی شعبے میں ملازم ہوں اور یقین جانیے ہمارے ملک میں صنعتی شعبے کی کوئی بھی چیز نہیں بنتی۔ ہر چیز ہم باہر سے منگواکر لگاتے ہیں۔ چاہے وہ الیکٹرکل کی ہو، الیکٹرونکس کی، انسٹرومینٹ ہو یا میکینیکل کا کچھ۔ ایک صنعتی والو تک ہمارے ملک میں نہیں بنتا۔ بہرحال اب بس کرتا ہوں ورنہ میری بحث معاشیات ککی طرف چلی جائے گی :)

میں پہلے ہی اس شعبہ میں اپنی کم علمی کا اعتراف کر چکاہوں مگر اس کا زبان سے زیادہ حکومتی سرپرستی اور ثقافت سے تعلق ہے کیونکہ اس وقت اعلی تعلیم تو انگریزی میں ہی ہو رہی ہے تو یہ اعتراض انگریزی پر زیادہ لاگو ہوگا بجائے اردو پر تنقید کے۔ بہرحال صنعتی شعبے کی زبوں حالی اظہر من الشمس ہے۔ اس کے علاوہ آپ ٹیلی کام کا شعبہ لے لیں ، اس میں اختراعات ہوتی رہتی ہیں ۔
ایئر فورس میں ایروناٹیکل کے شعبے میں کئی ایجادات ہیں مگر وہ فوج کے زیر انتظام ہی رہتی ہیں۔
پاکستان نے گاڑی ، ٹریکٹر ، ٹینک سے لے کر کروز میزائل تک بنایا ہے مگر یہ چیزیں حکومتی سرپرستی اور بہت زیادہ امداد اور حوصلہ افزائی مانگتی ہیں جو کہ نہیں ہوتی۔
کمپیوٹر کے شعبے میں جو کہ اب ہر ملک میں ترقی اور تحقیق کا لازمی جزو ہے اس میں کئی بہترین خیالات اور ماڈل پیش ہوئے مگر نہ حکومت نہ نجی کمپنیاں موقع دینے کو تیار ہوتی ہیں تو پھر وہ ہنر مند یا تو روایتی کام کرنے لگتے ہیں یا موقع ملنے پر باہر چلے جاتے ہیں۔

ابھی تک ہم نے مڈل کلاس اور اس سے بہتر طبقہ کی بات کی ہے جبکہ لوئر مڈل کلاس اور غریب آدمی کے لیے انگریزی سیکھنا کتنا دشوار ہے اس کا کبھی اندازہ کیجیے گا۔

بہت بڑی اکثریت میڑک، انٹرمیڈیٹ اور بی اے میں صرف انگریزی کی وجہ سے رہ جاتی ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
میں پہلے ہی اس شعبہ میں اپنی کم علمی کا اعتراف کر چکاہوں مگر اس کا زبان سے زیادہ حکومتی سرپرستی اور ثقافت سے تعلق ہے کیونکہ اس وقت اعلی تعلیم تو انگریزی میں ہی ہو رہی ہے تو یہ اعتراض انگریزی پر زیادہ لاگو ہوگا بجائے اردو پر تنقید کے۔ بہرحال صنعتی شعبے کی زبوں حالی اظہر من الشمس ہے۔ اس کے علاوہ آپ ٹیلی کام کا شعبہ لے لیں ، اس میں اختراعات ہوتی رہتی ہیں ۔
ایئر فورس میں ایروناٹیکل کے شعبے میں کئی ایجادات ہیں مگر وہ فوج کے زیر انتظام ہی رہتی ہیں۔
پاکستان نے گاڑی ، ٹریکٹر ، ٹینک سے لے کر کروز میزائل تک بنایا ہے مگر یہ چیزیں حکومتی سرپرستی اور بہت زیادہ امداد اور حوصلہ افزائی مانگتی ہیں جو کہ نہیں ہوتی۔
کمپیوٹر کے شعبے میں جو کہ اب ہر ملک میں ترقی اور تحقیق کا لازمی جزو ہے اس میں کئی بہترین خیالات اور ماڈل پیش ہوئے مگر نہ حکومت نہ نجی کمپنیاں موقع دینے کو تیار ہوتی ہیں تو پھر وہ ہنر مند یا تو روایتی کام کرنے لگتے ہیں یا موقع ملنے پر باہر چلے جاتے ہیں۔

ابھی تک ہم نے مڈل کلاس اور اس سے بہتر طبقہ کی بات کی ہے جبکہ لوئر مڈل کلاس اور غریب آدمی کے لیے انگریزی سیکھنا کتنا دشوار ہے اس کا کبھی اندازہ کیجیے گا۔

بہت بڑی اکثریت میڑک، انٹرمیڈیٹ اور بی اے میں صرف انگریزی کی وجہ سے رہ جاتی ہے۔

میں نے دفاعی شعبے کی نہیں صنعتی شعبے کی بات کی تھی :) ۔۔اور ائیر فورس کے شعبے میں "ایجادات" ۔۔۔۔ خیر ۔۔۔ چھوڑیں :) ۔۔۔ دفاعی شعبہ ضرورت ہے اور ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ہم نے صنعتی شعبے کو اپنی ضرورت نہیں سمجھا، اسلیے یہاں "ایجاد" کا عنصر مفقود ہے۔ دفاع کے شعبے میں بھی ہم چائنا اور دیگر ممالک کی ایجادات پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ Indigenously بہت کم چیزیں بنی ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ کوئی سا بھی شعبہ ہو، صنعتوں کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ دیکھیں محب بھائی یہ پوری ایک زنجیر ہے۔ طلباء کو جدید ضروریات سے ہم آہنگ تعلیم دی جائے جو کہ صنعتی شعبے سے بھی aided ہو اور پھر طلباء کی صلاحیتوں کا صنعتوں میں ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ میں استعمال ہو۔ صنعتیں یہاں اپنی ایجادات اختراعات کریں تو ہی معاشرے میں تخلیق کا عنصر پروان چڑھے گا۔ نہ ہی ہماری تعلیم عصری ضروریات سے ہم آہنگ ہے اور نہ ہی صنعتیں اپنی ذمے داری پوری کر رہی ہیں اور وہ کریں بھی کیوں۔۔ ایک زنجیر ہے نا "سپلائی اینڈ ڈیمانڈ" کی ۔۔۔ گدھا گاڑی پر چلنے والے ملک میں ہائیبرڈ کار ایجاد کرنے کا کوئی فائدہ ہوسکتا ہے؟

اور ٹیلیکوم کے شعبے میں اختراعات تو نہیں ۔۔۔ امپلی مینٹیشن ضرور ہورہی ہے۔ البتہ یہ بات بھی آپ کے علم میں ہوگی کہ پاکستان میں ابھی تک تھری جی امپلی پینٹ تو دور کی بات، لائسنس تک جاری نہیں ہوا۔

زحال مرزا بھائی کس بات سے متفق نہیں ہیں آپ وضاحت کردیتے تو میری اصلاح ہوجاتی :)
 
میں نے دفاعی شعبے کی نہیں صنعتی شعبے کی بات کی تھی :) ۔۔اور ائیر فورس کے شعبے میں "ایجادات" ۔۔۔ ۔ خیر ۔۔۔ چھوڑیں :) ۔۔۔ دفاعی شعبہ ضرورت ہے اور ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ہم نے صنعتی شعبے کو اپنی ضرورت نہیں سمجھا، اسلیے یہاں "ایجاد" کا عنصر مفقود ہے۔ دفاع کے شعبے میں بھی ہم چائنا اور دیگر ممالک کی ایجادات پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ Indigenously بہت کم چیزیں بنی ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ کوئی سا بھی شعبہ ہو، صنعتوں کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ دیکھیں محب بھائی یہ پوری ایک زنجیر ہے۔ طلباء کو جدید ضروریات سے ہم آہنگ تعلیم دی جائے جو کہ صنعتی شعبے سے بھی aided ہو اور پھر طلباء کی صلاحیتوں کا صنعتوں میں ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ میں استعمال ہو۔ صنعتیں یہاں اپنی ایجادات اختراعات کریں تو ہی معاشرے میں تخلیق کا عنصر پروان چڑھے گا۔ نہ ہی ہماری تعلیم عصری ضروریات سے ہم آہنگ ہے اور نہ ہی صنعتیں اپنی ذمے داری پوری کر رہی ہیں اور وہ کریں بھی کیوں۔۔ ایک زنجیر ہے نا "سپلائی اینڈ ڈیمانڈ" کی ۔۔۔ گدھا گاڑی پر چلنے والے ملک میں ہائیبرڈ کار ایجاد کرنے کا کوئی فائدہ ہوسکتا ہے؟

اور ٹیلیکوم کے شعبے میں اختراعات تو نہیں ۔۔۔ امپلی مینٹیشن ضرور ہورہی ہے۔ البتہ یہ بات بھی آپ کے علم میں ہوگی کہ پاکستان میں ابھی تک تھری جی امپلی پینٹ تو دور کی بات، لائسنس تک جاری نہیں ہوا۔

زحال مرزا بھائی کس بات سے متفق نہیں ہیں آپ وضاحت کردیتے تو میری اصلاح ہوجاتی :)


تمہاری باتوں سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے امین کہ جیسے تم پاکستان کی نہیں کسی دور پار صحرائی ملک کی بات کر رہے ہو جہاں تمام چیزیں درآمد ہوتی ہیں اور کوئی بھی شے نہ بنتی ہے نہ برآمد ہوتی ہے۔

ابھی میں نے ایک مثال دی تھی دفاعی شعبہ کی اور اس میں استعمال ہونے والی بہت سی اشیا "صنعتی" شعبے کے زمرے میں ہی آئے گی۔ قنوطیت کا شکار رہو گے تو ہر شے تاریک ہی نظر آئے گی۔ کوئی بھی ملک کوئی شے اسکریچ سے نہیں بناتا ، کچھ چیزیں در آمد ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں جوڑی جاتی ہیں اور کچھ پھر آخری شکل میں پیش کی جاتی ہیں۔

چائنا پر بھائی صاحب ساری دنیا بھروسہ کرتی ہے ، یہاں امریکہ میں بھی سوئی سے لے کر بہترین قسم کی الیکٹرونکس اور جانے کیا کیا چائنا سے ہی درآمد ہوتا ہے۔ اب امریکہ سے زیادہ کوئی اور صنعتی ترقی یافتہ ملک ہے تو بتا دو ۔چائنا نے امریکہ کی بہت سی صنعتوں کو ختم کر دیا ہے اور یہاں بھی بہت سے لوگ یہ رونا روتے ہیں کہ کبھی امریکہ دنیا کے بڑے مینوفیکچرنگ ممالک میں تھا اب نہیں رہا ، شکریہ چائنا کا :)۔
 
میں نے پاکستان میں کمپیوٹر سائنس میں تعلیم حاصل کی اور وہی کتابیں پڑھی جو جدید اور امریکہ میں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔

یہی حال مینیجمنٹ اور مارکیٹنگ سائسنز کا بھی ہے۔ میڈیکل سائنس بھی مختلف نہیں۔

ٹیلی کام میں بھی جدید مواد ہی پڑھایا جاتا ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
تمہاری باتوں سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے امین کہ جیسے تم پاکستان کی نہیں کسی دور پار صحرائی ملک کی بات کر رہے ہو جہاں تمام چیزیں درآمد ہوتی ہیں اور کوئی بھی شے نہ بنتی ہے نہ برآمد ہوتی ہے۔

ابھی میں نے ایک مثال دی تھی دفاعی شعبہ کی اور اس میں استعمال ہونے والی بہت سی اشیا "صنعتی" شعبے کے زمرے میں ہی آئے گی۔ قنوطیت کا شکار رہو گے تو ہر شے تاریک ہی نظر آئے گی۔ کوئی بھی ملک کوئی شے اسکریچ سے نہیں بناتا ، کچھ چیزیں در آمد ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں جوڑی جاتی ہیں اور کچھ پھر آخری شکل میں پیش کی جاتی ہیں۔

چائنا پر بھائی صاحب ساری دنیا بھروسہ کرتی ہے ، یہاں امریکہ میں بھی سوئی سے لے کر بہترین قسم کی الیکٹرونکس اور جانے کیا کیا چائنا سے ہی درآمد ہوتا ہے۔ اب امریکہ سے زیادہ کوئی اور صنعتی ترقی یافتہ ملک ہے تو بتا دو ۔چائنا نے امریکہ کی بہت سی صنعتوں کو ختم کر دیا ہے اور یہاں بھی بہت سے لوگ یہ رونا روتے ہیں کہ کبھی امریکہ دنیا کے بڑے مینوفیکچرنگ ممالک میں تھا اب نہیں رہا ، شکریہ چائنا کا :)۔


قنوطیت کا شکار نہیں ہوں۔ میں فقط موازنہ کرتا ہوں ان ممالک سے کہ جو پاکستان کے ہم پلہ ہیں۔ چائنا سے تو واقعی کوئی موازنہ نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارا دفاعی شعبہ بہت سے ممالک کو برآمدات بھی کرتا ہے۔ اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ کوئی بھی ملک تمام اشیاء اسکریچ سے نہیں بنا سکتا۔ میرا کہنے کا مقصد صرف تعلیمی اور صنعتی شعبہ جات کے آپس میں تعاون اور ربط کے مفقود ہونے کی طرف نشاندہی کرنا تھا۔ بات دوسری طرف نکل رہی ہے اسی لیے میں بار بار اسی پر زور دے رہا ہوں۔ امریکہ میں مینوفیکچرنگ کم ہوئی ہے مگر ریسرچ؟ ڈیولپمنٹ؟ تعلیم؟ ایجادات؟ یہ سب بھی کم ہوگئے ہیں کیا؟ ترقی مینوفیکچرنگ ہی کا تو نام نہیں نا۔۔اسی لیے میں نے اپنی پچھلی باتوں میں تعلیم میں صنعتی شعبے کی سرپرستی کی بات کی۔ 70 کی دہائی کے بعد سرکاری سطح پر کوئی بڑا کارخانہ نہیں لگا، جو لگے ہوئے تھے ان کو بھی تباہ کردیا گیا ہے۔ نجی کارخانے ہیں مگر ان میں بھی ڈیویلپمنٹ نہیں۔

آپ کو میری باتوں میں قنوطیت نظر آرہی ہے مگر میں ہرگز بھی پیسی مسٹ نہیں ہوں۔ امریکہ میں جامعات صنعتی شعبے کے لیے ریسرچ کرتی ہیں، اور پھر ان کی جامعات کو فنڈنگ بھی ویسی ہی ملتی ہے۔ جاپان میں 1991 میں جتنی جامعات تھیں، آج پاکستان بمشکل اس تعداد تک پہنچا ہے۔ مزید حال سیاسی جماعتوں اور "سرکاری پروفیسرز" نے پتلا کردیا ہے۔

پھر بھی۔۔۔ نہیں اقبال نا امید اپنی کشتِ ویراں سے۔۔۔
 
بہت سے اقدامات پاکستان میں تعلیمی لحاظ سے غلط ہیں اور مزید غلط ہو رہے ہیں۔ کچھ شعبہ جات میں عمدہ کام ہو رہا ہے مگر اسے مزید مربوط کرنے کی ضرورت ہے اور کچھ شعبے زوال پذیر ہیں وہاں بہت محنت اور جدت کی ضرورت ہے۔

مشرف دور میں تعلیم کا بجٹ بڑھایا گیا تھا اور ریسرچ کے لیے بھی فنڈ مہیا کیے گئے تھے جو کہ ماشاللہ زرداری حکومت نے بہت حد تک ختم یا کم کر دیے ہیں۔

خیر بات اردو اور انگریزی تعلیم کی ہو رہی تھی۔
 

عثمان

محفلین
میں نے پاکستان میں کمپیوٹر سائنس میں تعلیم حاصل کی اور وہی کتابیں پڑھی جو جدید اور امریکہ میں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔

یہی حال مینیجمنٹ اور مارکیٹنگ سائسنز کا بھی ہے۔ میڈیکل سائنس بھی مختلف نہیں۔

ٹیلی کام میں بھی جدید مواد ہی پڑھایا جاتا ہے۔
وہ کتابیں کن لوگوں نے لکھی ہیں ؟ :LOL:
 
صرف انگریزی میں تعلیم دینے سے امریکی یا یورپی سطح کے طالب علم پیدا نہیں ہو سکتے کیونکہ اصل فرق پڑھانے کا طریقہ اور پڑھنے کی لگن اور سہولیات سے پڑتا ہے۔

یورپ یا امریکہ میں پڑھانے کا طریقہ کافی فرق اور جدید ہے جس میں طالب علم کو دلچسپ انداز میں پڑھایا جاتا ہے اور کورس میں طالب علم کی دلچسپی پیدا کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مزید پڑھنے اور ریسرچ کے لیے سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان میں کچھ یونیورسٹیوں اور اداروں میں عمدہ کام ہوا ہے مگر اسے گورنمنٹ کے اداروں اور مزید نجی اداروں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔
 
میں نے جان بوجھ کر بحث کو طول دیا ہے تاکہ اور لوگ بھی شامل ہو سکیں مگر لگتا ہے اس دھاگے پر کم لوگ ہی تبصرے کرنا چاہ رہے ہیں ورنہ اہمیت کے لحاظ سے ہر کسی کو اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہیے۔

اردو میں تعلیم کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انگریزی ترک کرکے اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ انگریزی ایک لازمی مضمون کے آپ پہلی جماعت سے ساتھ لگا لیں اور آخر تک چلاتے جائیں مگر اسے تعلیم اور تحقیق میں معاون بننے کے لیے استعمال کریں نہ کہ اس میں لسانی مہارت پیدا کرنےمیں لگ جائیں اور ادب و شاعری پڑھانے لگ جائیں۔

انگریزی اصطلاحات سے واقفیت لازمی ہونی چاہیے حتی کہ اردو اصطلاح بھی موجود ہو۔
 

عثمان

محفلین
پہلی سے آٹھویں جماعت تک سات مضامین ہوتے ہیں۔ ان میں ریاضی ، سائنس اور انگریزی ہی انگریزی زبان میں ہو باقی چار اردو میں ہی رہیں تو خوب ہے۔
میٹرک میں تمام سائنس مضمامین بشمول ریاضی اور انگریزی لازمی کے علاوہ باقی تین مضامین ہی اردو میں رہنے چاہیں۔

سائنس کی کسی بھی اصطلاح کا اردو ترجمہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں یہ کر لیجیے کہ فرہنگ میں ایسی تمام اردو اصطلاحات ڈال دیں تاکہ اگر کوئی کسی لفظ پر ترجمہ سے رجوع کرنا چاہے تو فرہنگ دیکھ لیں۔ امتحان اور پڑھائی میں اصل انگریزی اصطلاح ہی چلے۔
ورنہ ترجمہ کا کیا ہے ، آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بھی اردو ترجمہ گھڑنے پر اصرار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن فائدہ کیا ہے ؟
 
عام فہم اصطلاحات تو ویسی ہی چلنی چاہیے جیسی کہ لوگوں میں معروف ہیں مگر بہت سے مضامین میں کئی ایسی اصطلاحات آئیں گی جن کا ترجمہ انہیں پڑھنے میں آسان کر دے گا اور سمجھنے میں بھی ۔ ایسا عموما مشکل انگریزی اصطلاح میں مفید ثابت ہوگا۔

ترجمہ گھڑنے کے میں بھی مخالف ہوں مگر کچھ الفاظ انگریزی میں آسان ہیں مگر اردو میں اصطلاح اور واضح کر دیتی ہے جیسے

variable = متغیر
constant = مستقل یا ساکن یا جامد
 

ساجد

محفلین
اردو زبان پر اس قسم کے مباحث اکثر بے نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ اردو کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کی وہ حقدار ہے۔ محب علوی نے بالکل درست کہا کہ سرکاری سرپرستی کے بغیر ایک زبان کیوں کر سائنس و ٹیکنا لوجی کی زبان بن سکتی ہے۔
میں اس سے متفق نہیں ہوں کہ اردو میں سائنس اور تیکنالوجی کی زبان بننے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے اور ہمیں اس کی فاتحہ پڑھ دینی چاہئے بلکہ امر واقعی یہ ہے کہ کسی زبان کو اس مقام تک لانے کے لئے جو محنت شاقہ اور لگن درکار ہوتی ہے اس کا ہمارے اندر نہ جذبہ ہے نہ حوصلہ۔ ہمارے ہاں جیسے دیگر اداروں کی تباہی ہوئی ہے اس طرح سے زبان کی ترویج اور تعلیم کے سرکاری ادارے بہت پہلے ہی سے تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔آج سے بھی کوئی ادارہ اس پر مکمل سرکاری سر پرستی میں خلوص کے ساتھ کام کرے تو شاید سائنسی اور تکنیکی اصطلاحات کا ترجمہ ممکن ہو سکے اس کی امید بھی معدوم ہے کہ یہ کب ہو گا۔
آپ اسے سائنس کی زبان بنانے کی بابت کیا سوچیں گے جبکہ ہمارے عوام اردو میں اب اپنا سادہ ما فی الضمیر بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ قومی اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے، حکومتی اداروں میں لگے اشتہارات دیکھ لیجئے یا پھر بسوں اور رکشوں پر لکھے غلط الفاظ؛ آپ کو اردو کی تباہی پہ رونا آئے گا۔
اردو کا یہ مسئلہ جب بھی درپیش ہوتا ہے تو میری رائے یہ ہوتی ہے کہ چلیں اگر سب کچھ انگریزی ہی میں چلانا ہے تو کیوں نہ انگریزی کو قومی زبان بنا لیں ۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ طبقاتی رعونت تو فوری ختم ہو جائے گی۔
 

زیک

مسافر
میں نے جان بوجھ کر بحث کو طول دیا ہے تاکہ اور لوگ بھی شامل ہو سکیں مگر لگتا ہے اس دھاگے پر کم لوگ ہی تبصرے کرنا چاہ رہے ہیں ورنہ اہمیت کے لحاظ سے ہر کسی کو اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہیے۔

اردو میں تعلیم کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انگریزی ترک کرکے اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ انگریزی ایک لازمی مضمون کے آپ پہلی جماعت سے ساتھ لگا لیں اور آخر تک چلاتے جائیں مگر اسے تعلیم اور تحقیق میں معاون بننے کے لیے استعمال کریں نہ کہ اس میں لسانی مہارت پیدا کرنےمیں لگ جائیں اور ادب و شاعری پڑھانے لگ جائیں۔

انگریزی اصطلاحات سے واقفیت لازمی ہونی چاہیے حتی کہ اردو اصطلاح بھی موجود ہو۔
میں تو دوسری بحث میں حصہ لینا چاہتا تھا جس میں عربی کا مطالبہ تھا مگر تم نے اس میں کوئ دلچسپی ہی نہ لی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ اسے سائنس کی زبان بنانے کی بابت کیا سوچیں گے جبکہ ہمارے عوام اردو میں اب اپنا سادہ ما فی الضمیر بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ قومی اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے، حکومتی اداروں میں لگے اشتہارات دیکھ لیجئے یا پھر بسوں اور رکشوں پر لکھے غلط الفاظ؛ آپ کو اردو کی تباہی پہ رونا آئے گا۔

یہ بات ٹھیک ہے اور شاید ایسی ہی کسی بات پر شاعر نے کہا تھا:

جانے کیا بات تھی ہر بات پر رونا آیا

اردو کا یہ مسئلہ جب بھی درپیش ہوتا ہے تو میری رائے یہ ہوتی ہے کہ چلیں اگر سب کچھ انگریزی ہی میں چلانا ہے تو کیوں نہ انگریزی کو قومی زبان بنا لیں ۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ طبقاتی رعونت تو فوری ختم ہو جائے گی۔

انگریزی کو قومی زبان بنانے سے عوام کو انگریزی تو نہیں آئے گی وہ تو آج بھی جاہل ہیں کل بھی ایسے ہی رہیں گے۔ کچھ واقعتا" جاہل ہیں اور کچھ پڑھے لکھے جاہل۔

رہی بات طبقاتی رعونت کی تو انگریزی طبقاتی رعونت کی وجہ نہیں بلکہ اس رعونت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور ہمارے "فراعین" کے پاس ایسے دیگر بہت سارے ذرائع موجود ہیں جن سے ان کے جذبہء رعونت کی تسکین ہو سکتی ہے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
سرکار سوفٹ ویئر انجینیئرنگ ہی فقط ترقی کی ضامن نہیں ہوتی۔ الیکٹرونک تو کیا پاکستان میں کوئی سی بھی انجینیئرنگ نہیں ہورہی جو ہو رہی ہے وہ بھی طریقے سے نہیں۔ سول کے شعبے کا کیا حال ہے حالانکہ یہ پاکستان میں قدیم پیشہ ہے۔ ہم دنیا کو بہترین سوفٹ وئیر آؤٹ سورس کر کے تو دے رہے ہیں مگر ایک معمولی سی سوئی بھی ہم چائنا سے منگواتے ہیں۔ بہر حال یہ گفتگو طوالت کی متقاضی ہے اور موضوع غیر متعلق ہوجائے گی۔ سائنس اور فنون کے کسی بھی شعبے میں کمال حاصل کرنے کے لیے اسے صنعتی درجہ اور سرپرستی حاصل ہونی چاہیے۔ میں صنعتی شعبے میں ملازم ہوں اور یقین جانیے ہمارے ملک میں صنعتی شعبے کی کوئی بھی چیز نہیں بنتی۔ ہر چیز ہم باہر سے منگواکر لگاتے ہیں۔ چاہے وہ الیکٹرکل کی ہو، الیکٹرونکس کی، انسٹرومینٹ ہو یا میکینیکل کا کچھ۔ ایک صنعتی والو تک ہمارے ملک میں نہیں بنتا۔ بہرحال اب بس کرتا ہوں ورنہ میری بحث معاشیات ککی طرف چلی جائے گی :)
پاکستان کی عالمی شہرت کی حامل مصنوعات جو برآمد کی جاتی ہیں ہے شاید آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کرپائیں- چند کا نام پیش ہے
چاول، کاٹن ، ماربل، جراحی کے آلات ، فائیبر، بجلی کی مصنوعات اور سرامکس ٹائیلز وغیرہ - اور سوئی سے لے کر ٹوسٹر تک تو امریکہ میں بھی
چائنا سے ہی آتا ہے
:) امین آپ نے پوچھا تھا کہ میں کس بات سے متفق نہیں تو اس لیے جواب دیا ہے جو موضوع سے براہراست تعلق نہیں رکھتا -
 

محمد امین

لائبریرین
پاکستان کی عالمی شہرت کی حامل مصنوعات جو برآمد کی جاتی ہیں ہے شاید آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کرپائیں- چند کا نام پیش ہے
چاول، کاٹن ، ماربل، جراحی کے آلات ، فائیبر، بجلی کی مصنوعات اور سرامکس ٹائیلز وغیرہ - اور سوئی سے لے کر ٹوسٹر تک تو امریکہ میں بھی
چائنا سے ہی آتا ہے
:) امین آپ نے پوچھا تھا کہ میں کس بات سے متفق نہیں تو اس لیے جواب دیا ہے جو موضوع سے براہراست تعلق نہیں رکھتا -
چاول، کاٹن، ٹائلز۔۔۔ یہ تو ٹھہرے قدرتی وسائل :)۔ جراحی کے آلات اور دیگر دو تین مصنوعات تک تو ٹھیک ہے۔ مگر میری بات کا مقصد وہی تھا جو میں نے اپنے پچھلے مراسلے میں لکھا، کہ ضروری نہیں کہ آپ کے ملک میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ بھی ہو۔ وہی امریکہ والی بات، کہ تحقیق اور ڈیویلپمنٹ کا عنصر تو وہاں بدرجہ اتم موجود ہے نا؟ انڈیا سے اگر پاکستان کا تقابل کیا جائے (قطعِ نظر آبادی اور اسکیل کے)، تو انڈیا میں بہت سی چیزوں کی مینوفیکچرنگ ہو رہی ہے۔ ہماری کمپنی جس سوئس کمپنی کی پاکستان میں نمائندہ ہے، اس کے پلانٹس جرمنی، چائنا اور انڈیا میں موجود ہیں۔ اور بہت ہی ہائی ٹیک صنعتی آلات بناتے ہیں۔ میکینیکل کی صنعت بھی انڈیا میں بہت وسیع ہے۔ اب میں آپ کو اس کی وجہ بتاتا ہوں۔ انڈیا میں لاکھ بھوکے اور بے گھر لوگ سہی۔ مگر وہاں کی جامعات بہت اعلیٰ معیار کی ہیں۔ آئی آئی ٹی کا جس طرح انڈیا میں جال پھیلا ہوا ہے، پاکستان اس سے ابھی بہت پیچھے ہے۔ پاکستان میں ایسا کوئی انقلابی قدم ابھی تک نہیں اٹھایا گیا، جبکہ انڈیا میں "مولانا آزاد" نے یہ قدم سن 50 میں اٹھایا تھا (وہ تو کانگریسی تھے نا اور ہندوؤں کے ایجنٹ!)۔ پاکستان میں کاروں، موٹرسائکلوں وغیرہ کا ایک بھی مقامی "ڈھنگ" کا برانڈ نہیں ہے، جبکہ انڈیا میں ایک چھوڑ دس موجود۔ خیر بحث دوسری طرف جا رہی ہے، اسی کا مجھے اپنی پہلی پوسٹ میں بھی خدشہ تھا۔ مگر میرا خیال ہے یہ ساری باتیں مربوط ہیں۔

ہم ابھی تک ایک "زنجیر" قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تعلیم، صنعت، معیشت اور دیگر شعبوں کے درمیان۔ بنیاد ظاہر ہے تعلیم کو ہی حاصل ہے۔ اور اس کی وجہ فرسودہ نظام ہے۔ کوئی تو انقلابی ہو؟
 

محمد امین

لائبریرین
صرف انگریزی میں تعلیم دینے سے امریکی یا یورپی سطح کے طالب علم پیدا نہیں ہو سکتے کیونکہ اصل فرق پڑھانے کا طریقہ اور پڑھنے کی لگن اور سہولیات سے پڑتا ہے۔

یورپ یا امریکہ میں پڑھانے کا طریقہ کافی فرق اور جدید ہے جس میں طالب علم کو دلچسپ انداز میں پڑھایا جاتا ہے اور کورس میں طالب علم کی دلچسپی پیدا کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مزید پڑھنے اور ریسرچ کے لیے سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان میں کچھ یونیورسٹیوں اور اداروں میں عمدہ کام ہوا ہے مگر اسے گورنمنٹ کے اداروں اور مزید نجی اداروں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔

ڈوکٹر پرویز ہود بھائی آپ کی بات سے متفق نہیں ہیں :) ۔۔۔ ان کے مطابق ہایئر ایجوکیشن کمیشن نے فنڈز اور وقت برباد کیا ہے :)
 

محمد امین

لائبریرین
اردو زبان پر اس قسم کے مباحث اکثر بے نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ اردو کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کی وہ حقدار ہے۔ محب علوی نے بالکل درست کہا کہ سرکاری سرپرستی کے بغیر ایک زبان کیوں کر سائنس و ٹیکنا لوجی کی زبان بن سکتی ہے۔
میں اس سے متفق نہیں ہوں کہ اردو میں سائنس اور تیکنالوجی کی زبان بننے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے اور ہمیں اس کی فاتحہ پڑھ دینی چاہئے بلکہ امر واقعی یہ ہے کہ کسی زبان کو اس مقام تک لانے کے لئے جو محنت شاقہ اور لگن درکار ہوتی ہے اس کا ہمارے اندر نہ جذبہ ہے نہ حوصلہ۔ ہمارے ہاں جیسے دیگر اداروں کی تباہی ہوئی ہے اس طرح سے زبان کی ترویج اور تعلیم کے سرکاری ادارے بہت پہلے ہی سے تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔آج سے بھی کوئی ادارہ اس پر مکمل سرکاری سر پرستی میں خلوص کے ساتھ کام کرے تو شاید سائنسی اور تکنیکی اصطلاحات کا ترجمہ ممکن ہو سکے اس کی امید بھی معدوم ہے کہ یہ کب ہو گا۔
آپ اسے سائنس کی زبان بنانے کی بابت کیا سوچیں گے جبکہ ہمارے عوام اردو میں اب اپنا سادہ ما فی الضمیر بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ قومی اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے، حکومتی اداروں میں لگے اشتہارات دیکھ لیجئے یا پھر بسوں اور رکشوں پر لکھے غلط الفاظ؛ آپ کو اردو کی تباہی پہ رونا آئے گا۔
اردو کا یہ مسئلہ جب بھی درپیش ہوتا ہے تو میری رائے یہ ہوتی ہے کہ چلیں اگر سب کچھ انگریزی ہی میں چلانا ہے تو کیوں نہ انگریزی کو قومی زبان بنا لیں ۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ طبقاتی رعونت تو فوری ختم ہو جائے گی۔

بالکل صحیح کہہ رہے ہیں ساجد بھائی دو سو فیصد متفق۔ مگر اردو کو سائنس و ٹیکنولوجی کی زبان بنانے کا فائدہ کسی کو بھی نہیں ہے۔ تعلیم تو اردو میں ہی ہوتی ہے 90 فیصدی۔ اصطلاحات کا ترجمہ ظاہر ہے آپکی 99 فیصد نوجوان آبادی کو سمجھ ہی نہیں آئے گا تو پڑھائیں گے کسے؟

اور سائنسی فرہنگ پر پاکستان میں بہت کام ہوچکا۔ اردو سائنس بورڈ نمک کے برابر اپنا حصہ تو ڈالتا ہی رہا ہے۔ مگر بات وہی ہے۔ "کاربن ڈائی آکسائڈ" کا کیا ترجمہ بنے گا؟ اور محب بھائی نے ویری ایبل کا ترجمہ متغیر بتایا۔ صنعتوں میں ایک Variable Speed Drive ہوتی ہے، اسے متغیر رفتارڈرائیو کہیں گے تو کون سمجھے گا اور بولے گا بھی کون؟ ظاہر ہے اس ڈیوائس کے اوپر جب VFD درج ہے۔۔۔یا تو آپ اپنے ملک میں مینوفیکچر کریں indigenously پھر آپ اسے کوئی بھی نام دیں وہ مقبول ضرور ہوگا۔۔۔

بنیادی نکتہ میرا یہی ہے۔ آپ کی زبان تب ہی رائج ہوسکے گی جب تحقیق آپ کی خانہ زاد ہوگی۔
 
Top