جی بالکل ، اس لئے کہا ہے کہ انگریزی سے جان چھڑانے کی فکر حقیقت میں کوئی مثبت سوچ نہیں۔ اصل کو اصل حالت ہی میں قبول کیجیے۔
پہلی بات تو یہ کہ یہاں لسانیات (Linguistics) نہیں ، بلکہ محض ایک زبان سیکھنے پر بات ہو رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ آپ کے اس اعتراض میں کوئی حقیقت نہیں۔ ایک اچھا تخلیقی ذہن سائنس بھی سیکھ سکتا ہے اور زبان بھی۔ دنیا بھر میں سائنس کے طلبہ کا انگریزی جاننا اور سائنس پڑھنا اس کا ثبوت ہے۔ دنیا کی کئی معروف یونیورسٹیز میں تو سائنس میں پی ایچ ڈی کے لئے یہ ایک شرط ہے کہ آپ کو انگریزی زبان کے علاوہ ایک دو دوسری زبانوں سے بھی واقفیت ہو۔
یعنی دقیق سائنسی اصطلاحات کو دقیق ترین سائنسی اصطلاحات سے بدل دیا جائے ؟
۔ طلبہ میں تحقیقی صلاحیت کی کمی کا زبان دانی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ مسائل کی بڑی وجہ پاکستان کا بوسیدہ نظام تعلیم ہے۔ نیز وہ غیر سائنسی علوم جو اردو میں باآسانی پڑھے جا سکتے ہیں ان میں بھی ہمارے طلبہ نے دنیا میں کوئی کار ہائے نمایاں انجام نہیں دیا۔ تو پھر انگریزی کو الزام کیسا ؟
علوم نے ہمیشہ محققین کی زبان میں ترقی کی ہے، نقالوں کی زبان میں نہیں۔ مسلمانوں کی ترقی کے دور میں سائنس عربی میں اس لئے ترقی کر رہی تھی کہ مسلمان یا عرب مسلمان تحقیق کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ محض نقل پر اکتفا نہیں کررہے تھے۔ چین ، جاپان ، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک جو اپنی زبانوں میں تعلیم دیتے ہیں وہ اپنی زبانوں ہی میں تحقیق بھی کررہے ہیں۔ پھر ان لوگوں نے انگریزی سے قطعی جان نہیں چھڑائی ، وہاں تعلیمی اداروں میں انگریزی سیکھنے پر سخت محنت کروائی جاتی ہے۔ جاپان تو ہر سال کینیڈا اور امریکہ سے انگریزی کے ہزاروں اساتذہ کنٹریکٹ پر درآمد کرتا ہے۔
نقل تحقیق کا متبادل نہیں۔ نہ ہی نقل تحقیق کا پیش خیمہ ہے۔
پہلے بھی وضاحت ہو چکی ہے کہ طلبہ کو پہلے سے موجود انگریزی اصطلاحات کی بجائے ناقابل فہم نت نئی تراشیدہ دقیق اردو اصطلاحات پر لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میٹرک سے لے کر انجینئرنگ تک سارا نصاب اور ساری ریفرنس کتب انگریزی سے اردو میں نقل کر بھی لیں پھر بھی آپ کے مسائل حل نہیں ہونے لگے۔ اول تو یہ کہ آپ جناتی اصطلاحات میں کہاں تک نقل کریں گے ؟ پھر نقل کر بھی لیں تو عالمی حلقوں سے کٹ کر رہنے کا نقصان الگ ہے۔
زبان ، کوئی بھی زبان ہمیشہ ارتقاء کی حالت میں رہتی ہے۔ خود انگریزی زبان بھی خالص انگریزی یا لاطینی الفاظ پر مشتمل نہیں ، بلکہ ہرسال اس میں نت نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں جن کا ماخذ کئی دوسری زبانیں ہوتی ہیں۔ تاہم انگریزی کے پاس دنیا سے لینے کے عوض دنیا کو دینے کو بھی بہت کچھ ہے۔ اس لئے یہ اپنی مقبولیت اور اجاراداری برقرار رکھتی ہے۔
جبکہ اہل اردو اور کئی دیگران کی ہمت محض لینے اور نقل کرنے تک ہی محدود ہے۔ ہمارے پاس فی الوقت دنیا کو دینے کو کچھ نہیں۔ انگریزی اردو میں اپنا سر گھساتی رہے گی۔ آپ یہ سب محض نقل سازی کے زور پر روک نہ سکیں گے اور نہ ہی اس کا کچھ فائدہ ہے۔