یہ سب سائنسی تاریخ کا حصہ ہے۔ خود مسلمانوں نے یہ علوم قدیم یونانیوں اور دیگر مفتوح اقوام سے مستعار لیکر، ان پر مزید تحقیق کر کے حاصل کئے تھے۔ جیسے دور حاضر کے اعداد جو کہ عام الفاظ میں Arabic Numeral کہلاتے ہیں سب سے پہلے قدیم بھارت میں ایجاد ہوئے تھے جنہیں مسلمانوں نے مستعار لیکر بہتر کیا اور اہل مغرب تک پہنچایا:
خوارزمی کی تحقیقات کا اصل میدان ریاضی ہے۔ ریاضی میں اسکی دو کتابیں "حساب" اور "الجبر و مقابلہ" یعنی "الجبرا (Algebra ) ہے۔ تاریخی حیثیت کی حامل ہیں۔ ازمنہ وسطیٰ میں اہل یورپ نے ریاضی میں جتنا کچھ ان کتابوں سے سیکھا ہے، کسی اور کتاب سے نہیں سیکھا۔ یونانیوں اور رومیوں کے زمانے میں سے اہل مغرب اعداد کو رومن طریقے سے لکھتے تھے جن سے حساب کے مختلف اعمال مثلا جمع (Addition)، تفریق (Subtraction) ، ضرب (Multiplication) ، تقسیم (Division) اور تحویل سخت مشکل اور پیچیدہ ہوجاتے تھے۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ ایک سو ساٹھ (160) سے اڑتیس (3
کو تفریق کرنا مطلوب ہے۔ رومن اور عربی طروز میں یہ سوال یوں لکھا جائے گا۔
عربی رومن
۱۶۰ CLX
۳۸ -XXXVIII -
ان دونوں تحریروں کو دیکھنے ہی سے پتہ چل جائے گا کہ عربی طرز میں تفریق کا عمل چشم زدن میں ہوجاتا ہے۔ رومن طرز میں وہ سخت دقت طلب بن جاتا ہے۔ پھر فرض کریں کہ ان دونوں یعنی ایک سو ساٹھ اور اڑتیس کو ضرب دینا مطلوب ہو۔ عربی طرز میں یہ عمل تین سطروں میں سادہ طور پر ہوجائے گا۔ لیکن رومن طرز میں اسے سرانجام دینے کے لئے بے حد مشکل ہوگی۔
موسیٰ خوارزمی کا "حساب" وہ کتاب تھی، جس سے اہل مغرب نے گنتی کے عربی طریقہ اخذ کیا اور پھر اسے اپنی علامتوں میں تبدیل کرکے رومن طریقے کے بجائے رائج کیا۔
چونکہ یورپ میں ریاضی کی ترقی کا آغاز (جس پر سائنس کی دوسری شاخوں کی ترقی کا انحصار ہے) اسی عہد سے ہوا، جب اہل یورپ نے اعداد کے رومن طریقوں کو ترک کرکے عربی طریقے کو اختیار کیا، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یورپ کے تمام لوگ کسی حد تک خوارزمی کے احسانمند ہیں۔
یہاں ایک اور امر کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
یورپ کے محقق گنتی کے موجودہ طریقے کو، جو اب تمام دنیا میں رائج ہے، ایک طویل عرصے تک عربی ہندسے (Arabic Numerals) کہتے رہے۔ لیکن جب صلیبی جنگوں کے دوران میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جذبہ پھیلا تو انہوں نے کوشش کی کہ ریاضی میں عربوں کے اس احسان سے، جسکے بوجھ تلے صدیوں سے انکی گردنیں جھکی ہوئی تھیں، چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے یہ فرضی نظریہ وضع کیا کہ گنتی کا یہ مروجہ طریقہ اگرچہ عرب سے یورپ آیا ہے، مگر یہ عربوں کا اپنا طریقہ نہیں ہے بلکہ عربوں نے اس طریقے کو اہل ہند سے سیکھا تھا اور اس لئے گنتی کے اس طریقے کے موجد "اہل ہند " ہیں۔
یہ نظریہ محض اس وجہ سے کہ اس پر مغرب کی چھاپ لگ چکی ہے، آج کل اسلامی ملکوں میں بھی پھیل چکا ہے۔ لیکن اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو خود یہ طریقہ ہی زبانِ حال سے کہہ رہا ہے کہ اسکی اصل عربی ہے، ہندی نہیں۔ ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔
ہندی یعنی دیوناگری اور یورپی یعنی رومن طرز تحریر میں یہ ہر لفظ بائیں سے دائیں طرف (Left to Right) لکھے جاتے ہیں۔ لیکن عربی طرز میں ہر لفظ کے حروف دائیں سے بائیں (Right to Left) طرف کو ملا کر رقم کئے جاتے ہیں۔ یہی صورت حرفی حساب میں بھی برقرار رکھی جاتی ہے۔ اب فرض کیجئے کہ حرفی حساب میں ہم
ا (الف) اور ب (باء) یا a اور b کا مجموعہ لکھنا چاہتے ہیں۔عربی طرز میں ہم اسے یوں لکھیں گے
(ا +ب) یعنی پہلا حرف دائیں طرف اوردوسرا حرف اسکے بائیں طرف ہوگا۔ لیکن انگریزی طرف میں ہم اسے یوں تحریر کریں گے
(a + b) یعنی پہلا حرف بائیں حرف ہوگا اور دوسرا حرف اسکے دائیں جانب ہوگا۔
اب دوہندسوں والے کسی بھی عدد مثلا ۴۷ پر غؤر کریں۔ یہ دراصل ۷اور ۴0کا مجوعہ ہے، اور حرفی رقم (ا +ب) کی وہ خاص صورت ہے، جس میں ا (الف) کی قیمت ۷ اور ب کی قیمت ۴0 لی گئی ہے۔ مثلا (ا + ب = ۷+۴0= ۴۷( اس مثال میں چونکہ الف دائیں کا پہلا حرف ہے، اس لئے اسکی قیمت ۷ دائیں طرف کو پہلے نمبر پر لکھی جاتی ہے، اور اب چونکہ اسکا بائیں کا دوسرا حرف ہے، اس لئے اسکی قیمت ۴0اس آگے بائیں جانب کو لکھی گئی ہے۔ اور صفر کو حدف کرنے کے بعد ان دونوں کے ملاپ سے ۴۷ کا عدد وجود میں آگیا ہے۔ جس میں اکائی کا ہندسہ ۷اور دہائی کا دوسرا ہندسہ ۴ ہے۔ ان دونوں کی ترتیب دائیں سے بائیں کو ہے، جیسی عربی رسم الخط میں ہوتی ہے۔
اب انگریزی طرز میں اسی عدد ۴۷پر غور کریں۔ یہ اصل میں
(a+ b) کی خاص صورت ہے جس میں پہلے حرف a کی قیمت ۷اور دوسرے حرف b کی قیمت ۴0ہے۔ اس لئے اگر انگریزی طرف کے مطابق ان دونوں کا ملاپ کیا جائے تو اسکی صورت یہ بنتی ہے۔
a + b = 7 + 04 = 74
یعنی چونکہ اس مثال میں پہلا حرف a انگریزی طرز کے مطابق بائیں طرف کے پہلے نمبر پر لکھا گیا ہے، اس لئے اسکی قیمت 4 بائیں طرف کو پہلے نمبر پر آتی ہے۔ دوسری حرف bچونکہ بائیں طرف سے دوسے نمبر پر لکھا گیا ہے، اس لئے اسکی قیمت چالیس جسے انگریزی کے اصول کے مطابق 04لکھا جانا چاہئے۔ اس کے آگے بائیں طرف سے دوسرا نمبر پر آنا چاہئے۔ اور دونوں کے ملاپ سے صفر حذف کرنے کے بعد سیتالیس کے عدد کو 74لکھا جانا چاہئے۔ کیونکہ انگریزی طرز تحریر میں ہر لفظ کا پہلا حرف بائیں طرف کا پہلا حرف اور دھائی اسکے دائیں طرف ہونا چاہئے۔
اب دونوں طرز تحریر کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھے کہ جو عدد سیتالیس 47 ہے، انگریزی میں (74) بن جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح سیتالیس کو عربی میں
۴۷ لکھا جاتا ہے، اسی طرح انگریزی طریقے کے برخلاف اور عربی طرز تحریر کے مطابق سینتالیس کو
47ہی لکھا جاتا ہے، اسمیں بھی اکائی کا ہندسہ عربی طرز کی پیروی کرتے ہوئے دائیں طرف کا پہلا ہندسہ مانا جاتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے تمام ممالک میں گنتی کا موجودہ طریقہ عربی سے اخذ کیا گیا ہے، جسے وہاں کے ریاضی دانوں نے دائیں سے بائیں طرز میں برقرار رکھا۔ حالانکہ انکی اپنی تحریر کا طریقہ بائیں سے دائیں طرف کا تھا۔
اب یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ سنسکرت اور ہندی طرز تحریر بھی انگریزی کی طرح بائیں سے دائیں کو چلتی ہے، لیکن گنتی میں وہ بھی عربی طرز کی پیروی کرتے ہیں۔ یعنی انکے ہاں بھی اکائی دھائی سینکڑہ ہزار، دائیں سے بائیں طرف کو لکھے جاتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں انگریزی اور سنسکرت دونوں میں جمع اور تفریق کے عمل بھی عربی طرز تحریر کے مطابقت میں دائیں سے بائیں طرف کو ہوتے ہیں۔
اگر اعداد کے موجودہ طریقے کے موجد عربی بولنے والے عرب نہ ہوتے بلکہ سنسکرت کے بولنے والے اہل ہند ہوتے تو اکائی دھائی سینکڑہ وغیرہ کے ہندسے سنسکرت طرز عمل تحریر کے مطابق بائیں سے دائیں طرف کو آتے اور پہلے عرب اور اہل یورپ انکی پیروی کرتے۔ جسکا نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ صرف انگریزی میں سینتالیس کو 74 لکھا جاتا بلکہ عربی میں بھی اسے ۷۴ہی لکھا جاتا۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ یعنی اہل عرب سینتالیس کو اپنے طرز تحریر کے مطابق صحیح طور پر۴۷ لکھتے ہیں او ر اہل یورپ بھی انہی کی پیروی کرتے ہوئے اسے 47رقم کرتے ہیں۔
اوپر کی تشریح سےواضح ہوگیا ہوگا کہ اعداد نویس کا موجودہ طریقہ جو مشرق مغرب میں جاری ہے، خود زبانِ حال سے اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ اسکی ایجاد دائیں سے بائیں لکھنے والے عربوں کی رھین منت ہے۔ اور یہ عرب سے یورپ میں وہ ازمنہ وسطی میں پھیلا، مگر ہند میں وہ اس سے قدیم زمانے میں پہنچ گیا تھا۔
خورازمی کے ایک اور رسالے میں زاویوں کے (Sine, Sinθ) اور جیوب (Tangents, tanθ) کے نقشے دئیے گئے ہیں جو ٹرگنومیڑی میں اسکی مہارت کا ثبوت ہیں۔ خورازمی کے الجبرے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہےکہ اس میں الجبرے کے متعدد سوالات کو جیومیٹری کی اشکال سے بھی حل کیا گیا ہے اوریہ خوارزمی کی خاص اختراع ہے، جسکا اتباع مغرب کے ریاضی دانوں نے کیا ہے۔
از پروفیسر حمید عسکری
اور محفل میں شئیر کیا جناب
حمیر یوسف نے