اقتباسات اگر ان بچوں کے بس میں ہوتا تو۔۔۔۔

اگر ان بچوں کے بس میں ہوتا تو وہ اس عقیدے کے ماں باپ کے گھر میں ہرگز پیدا نہ ہوتے جنہوں نے پچھلے پانچ برسوں میں ایک نیل کٹر بھی ایجاد نہ کیا تھا۔ وہ محض آسمانی مدد کے طلب گار اپنے رب کے آگے سجدے کرتے رہے، گڑگڑاتے رہے اور "اے رب! ان کفار کو نیست و نابود کردے" کی دعائیں مانگتے رہے۔
لیکن ادھ آسمانوں سے، غیب سے فرشتوں نے کہاں اترنا تھا۔ ٹیکنالوجی نے ان فرشتوں کے پر جلا دیے تھے۔


مستنصر حسین تارڑ
خس و خاشاک زمانے
 
میرے خیال میں یہ تحریر اگر مکمل سچائی پر نہیں تو مکمل جھوٹ پر بھی مبنی نہیں ہے. ہمارے رویے تو کچھ ایسے ہی ہیں جس سے انکار ممکن نہیں.
 

arifkarim

معطل
اگر ان بچوں کے بس میں ہوتا تو وہ اس عقیدے کے ماں باپ کے گھر میں ہرگز پیدا نہ ہوتے جنہوں نے پچھلے پانچ برسوں میں ایک نیل کٹر بھی ایجاد نہ کیا تھا۔ وہ محض آسمانی مدد کے طلب گار اپنے رب کے آگے سجدے کرتے رہے، گڑگڑاتے رہے اور "اے رب! ان کفار کو نیست و نابود کردے" کی دعائیں مانگتے رہے۔
لیکن ادھ آسمانوں سے، غیب سے فرشتوں نے کہاں اترنا تھا۔ ٹیکنالوجی نے ان فرشتوں کے پر جلا دیے تھے۔
پانچ یا پچھلے پانچ سو برسوں میں؟ بات تو سچ ہے پر رسوائی کی۔ بندہ اسرائیلیوں سے ہی سبق سیکھ لیتا ہے جنہیں وجود میں آئے پاکستان جتنا ہی عرصہ ہوا ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی میں تمام امت مسلمہ سے آگے ہے:
http://www.israel21c.org/technology/israels-top-45-greatest-inventions-of-all-time-2/
 

عبدالمغیث

محفلین
نیل کٹر ایجاد نہ کرنے اور ٹکنالوجی میں پیچھے رھنے کی وجوھات بہت سی ہیں مگر ہم نشانہ صرف سجدے کرنے والوں کو ہی کیوں بناتے ہیں۔ ظالم جاگردار، بے حس حکمران، خود غرض صنعت کار، رشوت خور افسران، وغیرہ وغیرہ سب ذمہ دار ہو سکتے ہیں مگر شاید سجدے کرنے والوں کو نشانہ بنانا ایک ایسا فیشن بن چکا ہے جسے اپنانے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
نیل کٹر ایجاد نہ کرنے اور ٹکنالوجی میں پیچھے رھنے کی وجوھات بہت سی ہیں مگر ہم نشانہ صرف سجدے کرنے والوں کو ہی کیوں بناتے ہیں۔ ظالم جاگردار، بے حس حکمران، خود غرض صنعت کار، رشوت خور افسران، وغیرہ وغیرہ سب ذمہ دار ہو سکتے ہیں مگر شاید سجدے کرنے والوں کو نشانہ بنانا ایک ایسا فیشن بن چکا ہے جسے اپنانے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔
کیونکہ سجدے کرنے والے اپنی مذہبی رسومات سے بڑھ کر ملکی معاملات میں مداخلت کرتے چلے آئے ہیں۔ 14 ویں صدی ہی میں سلطنت عثمانیہ کو انقلابی مغربی ایجاد ”پرنٹنگ پریس“ کے بارہ میں معلوم تھا اور ایک چھاپہ خانہ اس غرض سے کھولا بھی گیا کہ علوم کا فروغ ہوگا مگر جلد ہی اس وقت کے علماء اسلام کی مخالفت سے اسے بند کر دیا گیا۔ اور جب اسے دوبارہ 18 ویں صدی میں عام کیا گیا تو تب تک عالم اسلام 400 سال پیچھے جا چکا تھا :)
http://www.robertfulford.com/Islam.html
 
نیل کٹر ایجاد نہ کرنے اور ٹکنالوجی میں پیچھے رھنے کی وجوھات بہت سی ہیں مگر ہم نشانہ صرف سجدے کرنے والوں کو ہی کیوں بناتے ہیں۔ ظالم جاگردار، بے حس حکمران، خود غرض صنعت کار، رشوت خور افسران، وغیرہ وغیرہ سب ذمہ دار ہو سکتے ہیں مگر شاید سجدے کرنے والوں کو نشانہ بنانا ایک ایسا فیشن بن چکا ہے جسے اپنانے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔
ویسے پوسٹ میں موجود الفاظ میرے نہیں بلکہ مستنصر حسین تارڑ کے ہیں۔ لیکن اگر جانب داری اور حجت بازی سے بالا تر ہو کر صرف پیغام کی طرف نظر کی جائے تو یہ کوئی بری بات نہیں۔ جس طبقے کا آپ دفاع کر رہے ہیں میں بھی اسی طبقے کا ایک حصہ ہوں۔ یعنی آپ میرا بھی دفاع کر رہے ہیں۔
مگر یہ ساری خرابیاں پانچ صدیاں پرانی نہیں ہیں۔ اپنی خامیوں کو جتنے جلدی مان لیا جائے اتنا اچھا ہوتا ہے۔ پستی کی انتہا یہ ہے کہ اپنی پستی کا احساس اور اس سے نکلنے کی جستجو بھی چھوڑ دی جائے۔ اور یہ کام خامیوں کا اقرار کیے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ جاگیر دار، حکمران، صنعت کار، اور افسران کوئی آسمان سے نازل نہیں ہوتے۔ یہ تو ہمارے ہی گھروں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی خرابی گھر کے اندر ہی کہیں ہے۔ تو تنقید گھر والوں پر ہی کی جانی چاہیے۔
بہر حال۔ سب کی اپنی اپنی رائے ہے۔
 

تجمل حسین

محفلین
وہ محض آسمانی مدد کے طلب گار اپنے رب کے آگے سجدے کرتے رہے، گڑگڑاتے رہے اور "اے رب! ان کفار کو نیست و نابود کردے" کی دعائیں مانگتے رہے۔
مگر ہم نشانہ صرف سجدے کرنے والوں کو ہی کیوں بناتے ہیں۔

محترم اس میں مراد یہ ہے کہ صرف باتیں، دعائیں اور سجدے کرنے سے کام نہیں بنتا بلکہ اگر کوئی چیز مقصود ہو، کسی چیز کی خواہش ہو تو اس کے لیے عملی کوشش کرنی چاہیے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اگر اس اقتباس کا جائزہ لیا جائے تو محض قیاس نہیں۔ایمان تقدیر اور تدبیر کے درمیان ہے ..۔اسلام دعا اور دوا دونوں ساتھ لے کر چلتا ہے۔۔سچ ہے
 
تقدیر تو تدبیر کے بعد ہی آتی ہے ۔ تدبیر کئے بغیر تقدیر پر بھروسہ کرنا نہ تو اسلام کی تعلیم ہے اور نہ ہمارے اسلاف کا عمل۔ معاشرے کے کسی ایک طبقے کو اپنی پسماندگی کا ذمہ دار قرار دینا نا انصافی ہے ۔ معاشرہ کی تالی تمام ہاتھوں سے مل کر بجتی ہے ۔
ہم میں سے اگر ہر شخص اپنی ذمہ داری پوری پوری طرح نبھائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی نہ کرسکیں ۔
 

نعمان خالد

محفلین
کیونکہ سجدے کرنے والے اپنی مذہبی رسومات سے بڑھ کر ملکی معاملات میں مداخلت کرتے چلے آئے ہیں۔ 14 ویں صدی ہی میں سلطنت عثمانیہ کو انقلابی مغربی ایجاد ”پرنٹنگ پریس“ کے بارہ میں معلوم تھا اور ایک چھاپہ خانہ اس غرض سے کھولا بھی گیا کہ علوم کا فروغ ہوگا مگر جلد ہی اس وقت کے علماء اسلام کی مخالفت سے اسے بند کر دیا گیا۔ اور جب اسے دوبارہ 18 ویں صدی میں عام کیا گیا تو تب تک عالم اسلام 400 سال پیچھے جا چکا تھا :)
http://www.robertfulford.com/Islam.html
لیکن انہی سجدے کرنے والوں، اور اہل مدرسہ نے جدید سائنس کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ دوران خون، آنکھ کی بناوٹ، روشنی کے انعکاس اور انعطاف کے قوانین، تکونیات، الجبرا، فلکیات، پودوں میں ضیائی تالیف (Photosynthesis) اور علم کیمیا کے بنیادی اصول دریافت کیے۔ جابر بن حیان کو آج بھی اہل مغرب بابائے کیمیا مانتے ہیں۔ عباسی دور کے سرکاری ہسپتال میں موجودہ دور سے ملتا جلتا وارڈ سسٹم اور آلات جراحی کی Sterilization کا تذکرہ ملتا ہے۔ تاریخ میں ابن خلدون کی اصول التاریخ وہ پہلی کتاب تسلیم کی جاتی ہے جس میں تاریخ کو قلم بند کرنے، اور اس کو پرکھنے کے اصول و قوانین پر بحث کی گئی ہے۔ آپ صرف دور زوال کی ہی مثالیں لے کر امت کی اجتماعی ناکامی کا سارا ملبہ ایک خاص طبقے پر کیوں ڈالتے ہیں؟ جب حکمران علم دوست تھے تو انہوں نے جامعات، تجربہ گاہیں اور رصد گاہیں تعمیر کرائیں، علم اور علما کی سرپرستی کی اور طلبا کے وظائف مقرر کیے تو انہی سجدے کرنے والوں میں سے ابن الہیثم، خوارزمی، بوعلی سینا، البیرونی جیسے نابغہ روزگار پیدا ہوئے۔ اور جب حکمران خود عیاش پرست اور کاہل ہو گئے تو پھر یہی ہونا تھا جو ہو رہا ہے۔ ہندوستان پر مسلمانوں نے ہزار سال کے لگ بھگ حکومت کی۔ ان ہزار سالوں میں کوئی ایک جامعہ بنی ہو؟ کوئی ایک تجربہ گاہ یا رصد گاہ بنی ہو؟ کیا یہ بھی سجدے کرنے والوں کا قصور تھا؟
 

arifkarim

معطل
لیکن انہی سجدے کرنے والوں، اور اہل مدرسہ نے جدید سائنس کی بنیاد بھی رکھی تھی۔
جدید سائنس کی بنیاد اہل مغرب نے رکھی۔ اسلامی دور میں سائنسی طریقہ ایجاد ضرور ہوا تھا جسے اہل مغرب نے مستعار لیکر آگے بڑھایا:
http://www.nytimes.com/2001/10/30/science/how-islam-won-and-lost-the-lead-in-science.html

دوران خون، آنکھ کی بناوٹ، روشنی کے انعکاس اور انعطاف کے قوانین، تکونیات، الجبرا، فلکیات، پودوں میں ضیائی تالیف (Photosynthesis) اور علم کیمیا کے بنیادی اصول دریافت کیے۔ جابر بن حیان کو آج بھی اہل مغرب بابائے کیمیا مانتے ہیں۔ عباسی دور کے سرکاری ہسپتال میں موجودہ دور سے ملتا جلتا وارڈ سسٹم اور آلات جراحی کی Sterilization کا تذکرہ ملتا ہے۔ تاریخ میں ابن خلدون کی اصول التاریخ وہ پہلی کتاب تسلیم کی جاتی ہے جس میں تاریخ کو قلم بند کرنے، اور اس کو پرکھنے کے اصول و قوانین پر بحث کی گئی ہے۔
یہ سب سائنسی تاریخ کا حصہ ہے۔ خود مسلمانوں نے یہ علوم قدیم یونانیوں اور دیگر مفتوح اقوام سے مستعار لیکر، ان پر مزید تحقیق کر کے حاصل کئے تھے۔ جیسے دور حاضر کے اعداد جو کہ عام الفاظ میں Arabic Numeral کہلاتے ہیں سب سے پہلے قدیم بھارت میں ایجاد ہوئے تھے جنہیں مسلمانوں نے مستعار لیکر بہتر کیا اور اہل مغرب تک پہنچایا:
hindu_arabic_numerals.gif


آپ صرف دور زوال کی ہی مثالیں لے کر امت کی اجتماعی ناکامی کا سارا ملبہ ایک خاص طبقے پر کیوں ڈالتے ہیں؟
کیونکہ یہ ایک خاص مذہبی طبقہ مغربی جدید سائنس کی تشریف آوری کے کئی سو سال بعد آج بھی اسکی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ خواہ وہ سائنسی مسئلہ مذہب و دین سے متعلق ہو یا نہ ہو، یہ علماء کرام وہاں اپنے فتوں اور "ماہرانہ" رائے کیساتھ نازل ہو جاتے ہیں۔ زمین ساکن ہے کو "اثبوت" کیساتھ ثابت کرنے والے سعودی عالم کی درگت سوشل میڈیا پر بن چکی ہے:
http://rt.com/news/233063-saudi-cleric-earth-sun/

اب جبکہ مغربی سائنسدان انسان کی پیدائش اور کائنات کی شروعات سے متعلق بہت سے نا قابل تردید حقائق تک پہنچ چکے ہیں تو بلا وجہ مذہبی و دینی بنیادوں پر ان علوم کی مخالفت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ساری سائنس اسلام میں پہلے سے موجود ہے تو پھر قدیم مسلمان سائنسدانوں نے اس دنیاوی دلدل میں پھنسنے کی کوشش ہی کیوں کی؟ کیا وہ حالیہ لمبی داڑھی والے مسلمانوں سے کم مومن تھے؟

جب حکمران علم دوست تھے تو انہوں نے جامعات، تجربہ گاہیں اور رصد گاہیں تعمیر کرائیں، علم اور علما کی سرپرستی کی اور طلبا کے وظائف مقرر کیے تو انہی سجدے کرنے والوں میں سے ابن الہیثم، خوارزمی، بوعلی سینا، البیرونی جیسے نابغہ روزگار پیدا ہوئے۔
یہ بات کافی حد تک درست ہے اور اسلامی دنیا میں زوال سائنس کی ایک بڑی وجہ بھی۔ دوسری بڑی وجہ اوپر بیان کر چکا ہوں۔

اور جب حکمران خود عیاش پرست اور کاہل ہو گئے تو پھر یہی ہونا تھا جو ہو رہا ہے۔
بالکل۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے بعد ایران میں سائنس و ٹیکنالوجی دیگر دنیا کے مقابلہ میں سب سے زیادہ رفتار سے ترقی کر رہی ہے:
http://www.newscientist.com/article/dn20291-iran-is-top-of-the-world-in-science-growth.html

وہاں فرق یہ ہے کہ انکے علماء سائنسی ترقی کی راہ میں روڑے نہیں اٹکاتے۔

ہندوستان پر مسلمانوں نے ہزار سال کے لگ بھگ حکومت کی۔ ان ہزار سالوں میں کوئی ایک جامعہ بنی ہو؟ کوئی ایک تجربہ گاہ یا رصد گاہ بنی ہو؟ کیا یہ بھی سجدے کرنے والوں کا قصور تھا؟
نہیں اس میں سرا سر ان مسلمان حکمرانوں کا قصور تھا جنہوں نے تعلیم کے فروغ کی بجائے محلات پر توجہ مرکوز رکھی۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
تقدیر تو تدبیر کے بعد ہی آتی ہے ۔ تدبیر کئے بغیر تقدیر پر بھروسہ کرنا نہ تو اسلام کی تعلیم ہے اور نہ ہمارے اسلاف کا عمل۔ معاشرے کے کسی ایک طبقے کو اپنی پسماندگی کا ذمہ دار قرار دینا نا انصافی ہے ۔ معاشرہ کی تالی تمام ہاتھوں سے مل کر بجتی ہے ۔
ہم میں سے اگر ہر شخص اپنی ذمہ داری پوری پوری طرح نبھائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی نہ کرسکیں ۔
کچھ ایسا ہی میں نے کہا ۔۔مثلا یہ ہے دعا بھی تدبیر میں آتی ہے:):):)


یہاں زوال کی وجہ سائنس بتائی گئی ہے کبھی قرانِ پاک کھولا ہم نے ...سائنس آج جینیاتی تبدیلیوں ، انسانی ارتقاء کی جدید تھیوریاں پیش کرتی ہے جس میں ڈارون کی جدیدیت کی تھیوری بری طرح رد کر دی گئی اس انسانی ارتقاء سے لے کر فلکی نظام کے متعلق تمام تر معلومات قران پاک میں موجود ہیں .اسی میں انوارئیمنٹل سائنس ،علمِ حیاتیات و نباتات موجود ہے . ہم نے قران پاک کو کبھی دریافت نہیں کیا .ڈاکٹر کیتھے مور کہتے ہیں کہ انہوں نے علمِ حیاتیات میں جتنی دریافتیں کی اگر وہ قرانِ پاک پڑھ لیتے تو انہیں یہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی .
اس لیے اقبا ل فرماتے ہیں
قران میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ تجھ کو عطا کرے جدتِ کردار
گرتومی خواہی مسلماں زیستین
نیست ممکن نہیں بجز قراں زیستین

بات رہی دریافت تک تو اس کا علم قران پاک سے ملتا ہے اب اس علم کو انسانی صلاحیتیں بروئے کار کیسے لاتی ہیں یہ انسان پہ منحصر ہے وہ اچھی ایجاد بھی کر سکتا ہے اور بری بھی ...


کیا ایجاد کا ہونا ہی تدبیر ہے؟؟؟؟؟؟؟
 

جاسمن

لائبریرین
لاکهوں کی تعداد میں هیں وه مسلمان جو نه صرف یه که سجدے نہیں کرتے بلکہ اپنی اپنی ناقص عقل کی کسوٹی په اسلام کو پرکهنے کی کوشش میں لگے رہتے هیں...... آئیے آپ ایجادیں کیجئے! ایک فریق اگر ایک انتہا په هے تو دوسرےکی ترقی بھی صرف فلموں،میوزک،اور فیشن وغیره کے میدانوں میں هے. سجدے نه کرنے والوں نے سائنس میں جو تیر مارے هیں، ایک جهلک دکھا دیں.
 
یہ سب سائنسی تاریخ کا حصہ ہے۔ خود مسلمانوں نے یہ علوم قدیم یونانیوں اور دیگر مفتوح اقوام سے مستعار لیکر، ان پر مزید تحقیق کر کے حاصل کئے تھے۔ جیسے دور حاضر کے اعداد جو کہ عام الفاظ میں Arabic Numeral کہلاتے ہیں سب سے پہلے قدیم بھارت میں ایجاد ہوئے تھے جنہیں مسلمانوں نے مستعار لیکر بہتر کیا اور اہل مغرب تک پہنچایا:
خوارزمی کی تحقیقات کا اصل میدان ریاضی ہے۔ ریاضی میں اسکی دو کتابیں "حساب" اور "الجبر و مقابلہ" یعنی "الجبرا (Algebra ) ہے۔ تاریخی حیثیت کی حامل ہیں۔ ازمنہ وسطیٰ میں اہل یورپ نے ریاضی میں جتنا کچھ ان کتابوں سے سیکھا ہے، کسی اور کتاب سے نہیں سیکھا۔ یونانیوں اور رومیوں کے زمانے میں سے اہل مغرب اعداد کو رومن طریقے سے لکھتے تھے جن سے حساب کے مختلف اعمال مثلا جمع (Addition)، تفریق (Subtraction) ، ضرب (Multiplication) ، تقسیم (Division) اور تحویل سخت مشکل اور پیچیدہ ہوجاتے تھے۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ ایک سو ساٹھ (160) سے اڑتیس (38) کو تفریق کرنا مطلوب ہے۔ رومن اور عربی طروز میں یہ سوال یوں لکھا جائے گا۔

عربی رومن

۱۶۰ CLX
۳۸ -XXXVIII -

ان دونوں تحریروں کو دیکھنے ہی سے پتہ چل جائے گا کہ عربی طرز میں تفریق کا عمل چشم زدن میں ہوجاتا ہے۔ رومن طرز میں وہ سخت دقت طلب بن جاتا ہے۔ پھر فرض کریں کہ ان دونوں یعنی ایک سو ساٹھ اور اڑتیس کو ضرب دینا مطلوب ہو۔ عربی طرز میں یہ عمل تین سطروں میں سادہ طور پر ہوجائے گا۔ لیکن رومن طرز میں اسے سرانجام دینے کے لئے بے حد مشکل ہوگی۔

موسیٰ خوارزمی کا "حساب" وہ کتاب تھی، جس سے اہل مغرب نے گنتی کے عربی طریقہ اخذ کیا اور پھر اسے اپنی علامتوں میں تبدیل کرکے رومن طریقے کے بجائے رائج کیا۔ چونکہ یورپ میں ریاضی کی ترقی کا آغاز (جس پر سائنس کی دوسری شاخوں کی ترقی کا انحصار ہے) اسی عہد سے ہوا، جب اہل یورپ نے اعداد کے رومن طریقوں کو ترک کرکے عربی طریقے کو اختیار کیا، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یورپ کے تمام لوگ کسی حد تک خوارزمی کے احسانمند ہیں۔

یہاں ایک اور امر کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یورپ کے محقق گنتی کے موجودہ طریقے کو، جو اب تمام دنیا میں رائج ہے، ایک طویل عرصے تک عربی ہندسے (Arabic Numerals) کہتے رہے۔ لیکن جب صلیبی جنگوں کے دوران میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جذبہ پھیلا تو انہوں نے کوشش کی کہ ریاضی میں عربوں کے اس احسان سے، جسکے بوجھ تلے صدیوں سے انکی گردنیں جھکی ہوئی تھیں، چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے یہ فرضی نظریہ وضع کیا کہ گنتی کا یہ مروجہ طریقہ اگرچہ عرب سے یورپ آیا ہے، مگر یہ عربوں کا اپنا طریقہ نہیں ہے بلکہ عربوں نے اس طریقے کو اہل ہند سے سیکھا تھا اور اس لئے گنتی کے اس طریقے کے موجد "اہل ہند " ہیں۔ یہ نظریہ محض اس وجہ سے کہ اس پر مغرب کی چھاپ لگ چکی ہے، آج کل اسلامی ملکوں میں بھی پھیل چکا ہے۔ لیکن اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو خود یہ طریقہ ہی زبانِ حال سے کہہ رہا ہے کہ اسکی اصل عربی ہے، ہندی نہیں۔ ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔

ہندی یعنی دیوناگری اور یورپی یعنی رومن طرز تحریر میں یہ ہر لفظ بائیں سے دائیں طرف (Left to Right) لکھے جاتے ہیں۔ لیکن عربی طرز میں ہر لفظ کے حروف دائیں سے بائیں (Right to Left) طرف کو ملا کر رقم کئے جاتے ہیں۔ یہی صورت حرفی حساب میں بھی برقرار رکھی جاتی ہے۔ اب فرض کیجئے کہ حرفی حساب میں ہم ا (الف) اور ب (باء) یا a اور b کا مجموعہ لکھنا چاہتے ہیں۔عربی طرز میں ہم اسے یوں لکھیں گے (ا +ب) یعنی پہلا حرف دائیں طرف اوردوسرا حرف اسکے بائیں طرف ہوگا۔ لیکن انگریزی طرف میں ہم اسے یوں تحریر کریں گے (a + b) یعنی پہلا حرف بائیں حرف ہوگا اور دوسرا حرف اسکے دائیں جانب ہوگا۔

اب دوہندسوں والے کسی بھی عدد مثلا ۴۷ پر غؤر کریں۔ یہ دراصل ۷اور ۴0کا مجوعہ ہے، اور حرفی رقم (ا +ب) کی وہ خاص صورت ہے، جس میں ا (الف) کی قیمت ۷ اور ب کی قیمت ۴0 لی گئی ہے۔ مثلا (ا + ب = ۷+۴0= ۴۷( اس مثال میں چونکہ الف دائیں کا پہلا حرف ہے، اس لئے اسکی قیمت ۷ دائیں طرف کو پہلے نمبر پر لکھی جاتی ہے، اور اب چونکہ اسکا بائیں کا دوسرا حرف ہے، اس لئے اسکی قیمت ۴0اس آگے بائیں جانب کو لکھی گئی ہے۔ اور صفر کو حدف کرنے کے بعد ان دونوں کے ملاپ سے ۴۷ کا عدد وجود میں آگیا ہے۔ جس میں اکائی کا ہندسہ ۷اور دہائی کا دوسرا ہندسہ ۴ ہے۔ ان دونوں کی ترتیب دائیں سے بائیں کو ہے، جیسی عربی رسم الخط میں ہوتی ہے۔

اب انگریزی طرز میں اسی عدد ۴۷پر غور کریں۔ یہ اصل میں (a+ b) کی خاص صورت ہے جس میں پہلے حرف a کی قیمت ۷اور دوسرے حرف b کی قیمت ۴0ہے۔ اس لئے اگر انگریزی طرف کے مطابق ان دونوں کا ملاپ کیا جائے تو اسکی صورت یہ بنتی ہے۔

a + b = 7 + 04 = 74

یعنی چونکہ اس مثال میں پہلا حرف a انگریزی طرز کے مطابق بائیں طرف کے پہلے نمبر پر لکھا گیا ہے، اس لئے اسکی قیمت 4 بائیں طرف کو پہلے نمبر پر آتی ہے۔ دوسری حرف bچونکہ بائیں طرف سے دوسے نمبر پر لکھا گیا ہے، اس لئے اسکی قیمت چالیس جسے انگریزی کے اصول کے مطابق 04لکھا جانا چاہئے۔ اس کے آگے بائیں طرف سے دوسرا نمبر پر آنا چاہئے۔ اور دونوں کے ملاپ سے صفر حذف کرنے کے بعد سیتالیس کے عدد کو 74لکھا جانا چاہئے۔ کیونکہ انگریزی طرز تحریر میں ہر لفظ کا پہلا حرف بائیں طرف کا پہلا حرف اور دھائی اسکے دائیں طرف ہونا چاہئے۔

اب دونوں طرز تحریر کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھے کہ جو عدد سیتالیس 47 ہے، انگریزی میں (74) بن جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح سیتالیس کو عربی میں ۴۷ لکھا جاتا ہے، اسی طرح انگریزی طریقے کے برخلاف اور عربی طرز تحریر کے مطابق سینتالیس کو 47ہی لکھا جاتا ہے، اسمیں بھی اکائی کا ہندسہ عربی طرز کی پیروی کرتے ہوئے دائیں طرف کا پہلا ہندسہ مانا جاتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے تمام ممالک میں گنتی کا موجودہ طریقہ عربی سے اخذ کیا گیا ہے، جسے وہاں کے ریاضی دانوں نے دائیں سے بائیں طرز میں برقرار رکھا۔ حالانکہ انکی اپنی تحریر کا طریقہ بائیں سے دائیں طرف کا تھا۔

اب یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ سنسکرت اور ہندی طرز تحریر بھی انگریزی کی طرح بائیں سے دائیں کو چلتی ہے، لیکن گنتی میں وہ بھی عربی طرز کی پیروی کرتے ہیں۔ یعنی انکے ہاں بھی اکائی دھائی سینکڑہ ہزار، دائیں سے بائیں طرف کو لکھے جاتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں انگریزی اور سنسکرت دونوں میں جمع اور تفریق کے عمل بھی عربی طرز تحریر کے مطابقت میں دائیں سے بائیں طرف کو ہوتے ہیں۔

اگر اعداد کے موجودہ طریقے کے موجد عربی بولنے والے عرب نہ ہوتے بلکہ سنسکرت کے بولنے والے اہل ہند ہوتے تو اکائی دھائی سینکڑہ وغیرہ کے ہندسے سنسکرت طرز عمل تحریر کے مطابق بائیں سے دائیں طرف کو آتے اور پہلے عرب اور اہل یورپ انکی پیروی کرتے۔ جسکا نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ صرف انگریزی میں سینتالیس کو 74 لکھا جاتا بلکہ عربی میں بھی اسے ۷۴ہی لکھا جاتا۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ یعنی اہل عرب سینتالیس کو اپنے طرز تحریر کے مطابق صحیح طور پر۴۷ لکھتے ہیں او ر اہل یورپ بھی انہی کی پیروی کرتے ہوئے اسے 47رقم کرتے ہیں۔

اوپر کی تشریح سےواضح ہوگیا ہوگا کہ اعداد نویس کا موجودہ طریقہ جو مشرق مغرب میں جاری ہے، خود زبانِ حال سے اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ اسکی ایجاد دائیں سے بائیں لکھنے والے عربوں کی رھین منت ہے۔ اور یہ عرب سے یورپ میں وہ ازمنہ وسطی میں پھیلا، مگر ہند میں وہ اس سے قدیم زمانے میں پہنچ گیا تھا۔

خورازمی کے ایک اور رسالے میں زاویوں کے (Sine, Sinθ) اور جیوب (Tangents, tanθ) کے نقشے دئیے گئے ہیں جو ٹرگنومیڑی میں اسکی مہارت کا ثبوت ہیں۔ خورازمی کے الجبرے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہےکہ اس میں الجبرے کے متعدد سوالات کو جیومیٹری کی اشکال سے بھی حل کیا گیا ہے اوریہ خوارزمی کی خاص اختراع ہے، جسکا اتباع مغرب کے ریاضی دانوں نے کیا ہے۔
از پروفیسر حمید عسکری
اور محفل میں شئیر کیا جناب حمیر یوسف نے
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
سائنس آج جینیاتی تبدیلیوں ، انسانی ارتقاء کی جدید تھیوریاں پیش کرتی ہے جس میں ڈارون کی جدیدیت کی تھیوری بری طرح رد کر دی گئی اس انسانی ارتقاء سے لے کر فلکی نظام کے متعلق تمام تر معلومات قران پاک میں موجود ہیں .
ڈارون کا نظریہ ارتقاء کہاں رد ہوا ہے؟ بلکہ اسکے حق میں آئے روز مزید شواہد مل رہے ہیں۔ اگر ڈارون کا نظریہ غلط ہے تو اسکے جواب میں متبادل نظریہ ضرور پیش کریں کہ آخر دنیا میں انگنت مخلوقات کیسے وجود میں آئیں؟ اس موضوع پر تفصیلی بحث یہیں محفل پر ہو چکی ہے:
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/77506/

اسی میں انوارئیمنٹل سائنس ،علمِ حیاتیات و نباتات موجود ہے . ہم نے قران پاک کو کبھی دریافت نہیں کیا .ڈاکٹر کیتھے مور کہتے ہیں کہ انہوں نے علمِ حیاتیات میں جتنی دریافتیں کی اگر وہ قرانِ پاک پڑھ لیتے تو انہیں یہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی .
اگر تمام سائنسی معلومات قرآن پاک میں موجود ہیں تو علماء کرام نت نئی سائنسی دریافتیں کرنے سے کیوں عاری ہیں؟ قرآن با ترجمہ و تفسیر تو سب ہی پڑھ لیتے ہیں لیکن نئی دریافت مسلمانوں کے حصے میں نہیں آتی بلکہ ہر نئی سائنسی دریافت کے بعد یہی کہا جاتا ہے کہ یہ توہمیں پہلے سے معلوم تھا، قرآن میں لکھا ہے :)
بات رہی دریافت تک تو اس کا علم قران پاک سے ملتا ہے اب اس علم کو انسانی صلاحیتیں بروئے کار کیسے لاتی ہیں یہ انسان پہ منحصر ہے وہ اچھی ایجاد بھی کر سکتا ہے اور بری بھی ...
کیا تمام سائنسی دریافتیں جو اب تک ہوئی ہیں یا آئندہ ہوں گی قرآن پاک میں موجود ہیں؟ قرآن پاک ایک دینی ، الٰہی کتاب ہے۔ یہ سائنسی کتاب کب بنی؟
کیا ایجاد کا ہونا ہی تدبیر ہے؟؟؟؟؟؟؟
بالکل۔ کوئی بھی نئی سائنسی ایجاد یا دریافت تدبیر کے بغیر ناممکن ہے!
یہاں ایک اور امر کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یورپ کے محقق گنتی کے موجودہ طریقے کو، جو اب تمام دنیا میں رائج ہے، ایک طویل عرصے تک عربی ہندسے (Arabic Numerals) کہتے رہے۔ لیکن جب صلیبی جنگوں کے دوران میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جذبہ پھیلا تو انہوں نے کوشش کی کہ ریاضی میں عربوں کے اس احسان سے، جسکے بوجھ تلے صدیوں سے انکی گردنیں جھکی ہوئی تھیں، چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے یہ فرضی نظریہ وضع کیا کہ گنتی کا یہ مروجہ طریقہ اگرچہ عرب سے یورپ آیا ہے، مگر یہ عربوں کا اپنا طریقہ نہیں ہے بلکہ عربوں نے اس طریقے کو اہل ہند سے سیکھا تھا اور اس لئے گنتی کے اس طریقے کے موجد "اہل ہند " ہیں۔ یہ نظریہ محض اس وجہ سے کہ اس پر مغرب کی چھاپ لگ چکی ہے، آج کل اسلامی ملکوں میں بھی پھیل چکا ہے۔ لیکن اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو خود یہ طریقہ ہی زبانِ حال سے کہہ رہا ہے کہ اسکی اصل عربی ہے، ہندی نہیں۔ ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔
گوگل پر Arabic numerals لکھ کر سرچ کریں۔ 99 فیصد مضامین حالیہ دور میں رائج اعداد کو عربی ہی مانتے ہیں گو کہ انکا مؤجد ہندوستانی تھے، عربی نہیں۔
اگر اعداد کے موجودہ طریقے کے موجد عربی بولنے والے عرب نہ ہوتے بلکہ سنسکرت کے بولنے والے اہل ہند ہوتے تو اکائی دھائی سینکڑہ وغیرہ کے ہندسے سنسکرت طرز عمل تحریر کے مطابق بائیں سے دائیں طرف کو آتے اور پہلے عرب اور اہل یورپ انکی پیروی کرتے۔ جسکا نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ صرف انگریزی میں سینتالیس کو 74 لکھا جاتا بلکہ عربی میں بھی اسے ۷۴ہی لکھا جاتا۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ یعنی اہل عرب سینتالیس کو اپنے طرز تحریر کے مطابق صحیح طور پر۴۷ لکھتے ہیں او ر اہل یورپ بھی انہی کی پیروی کرتے ہوئے اسے 47رقم کرتے ہیں۔
قدیم ہندو کتب اٹھا کر دیکھ لیں۔ وہاں گنتی ایسے ہی لکھی گئی ہے جیسے آجکل رائج العام ہے۔ دیوناگری میں اعداد کا نظام ایسے ہی تھا جسے عربوں نے مستعار لیکر آگے پھیلایا:
nagarinumbers.jpg
 
آخری تدوین:
یہ بغض وتعصب زدہ پوسٹ جان بوجھ کر کی گئی ہے؟
آپ کرو تو رام لیلا ہم کریں تو کریکٹر ڈھیلا
پہلے پوسٹ کو اچھی طرح سمجھ لیں پھر جواب دیں ۔ بغض ، تعصب ، دقیانوسیت ایسے الفاظ آپ کی پوسٹ کے بارے میں فٹ آتے ہیں۔ نہ کہ ہماری
قدیم ہندو کتب اٹھا کر دیکھ لیں۔ وہاں گنتی ایسے ہی لکھی گئی ہے جیسے آجکل رائج العام ہے۔ دیوناگری میں اعداد کا نظام ایسے ہی تھا جسے عربوں نے مستعار لیکر آگے پھیلایا:
پہلے مضمون پورا پڑھ لیں پھر اسکے خلاف میں دلیل لائیں ۔
ہندی یعنی دیوناگری اور یورپی یعنی رومن طرز تحریر میں یہ ہر لفظ بائیں سے دائیں طرف (Left to Right) لکھے جاتے ہیں۔ لیکن عربی طرز میں ہر لفظ کے حروف دائیں سے بائیں (Right to Left) طرف کو ملا کر رقم کئے جاتے ہیں۔ یہی صورت حرفی حساب میں بھی برقرار رکھی جاتی ہے۔ اب فرض کیجئے کہ حرفی حساب میں ہم ا (الف) اور ب (باء) یا a اور b کا مجموعہ لکھنا چاہتے ہیں۔عربی طرز میں ہم اسے یوں لکھیں گے (ا +ب) یعنی پہلا حرف دائیں طرف اوردوسرا حرف اسکے بائیں طرف ہوگا۔ لیکن انگریزی طرف میں ہم اسے یوں تحریر کریں گے (a + b) یعنی پہلا حرف بائیں حرف ہوگا اور دوسرا حرف اسکے دائیں جانب ہوگا۔

اب دوہندسوں والے کسی بھی عدد مثلا ۴۷ پر غؤر کریں۔ یہ دراصل ۷اور ۴0کا مجوعہ ہے، اور حرفی رقم (ا +ب) کی وہ خاص صورت ہے، جس میں ا (الف) کی قیمت ۷ اور ب کی قیمت ۴0 لی گئی ہے۔ مثلا (ا + ب = ۷+۴0= ۴۷( اس مثال میں چونکہ الف دائیں کا پہلا حرف ہے، اس لئے اسکی قیمت ۷ دائیں طرف کو پہلے نمبر پر لکھی جاتی ہے، اور اب چونکہ اسکا بائیں کا دوسرا حرف ہے، اس لئے اسکی قیمت ۴0اس آگے بائیں جانب کو لکھی گئی ہے۔ اور صفر کو حدف کرنے کے بعد ان دونوں کے ملاپ سے ۴۷ کا عدد وجود میں آگیا ہے۔ جس میں اکائی کا ہندسہ ۷اور دہائی کا دوسرا ہندسہ ۴ ہے۔ ان دونوں کی ترتیب دائیں سے بائیں کو ہے، جیسی عربی رسم الخط میں ہوتی ہے۔

اب انگریزی طرز میں اسی عدد ۴۷پر غور کریں۔ یہ اصل میں (a+ b) کی خاص صورت ہے جس میں پہلے حرف a کی قیمت ۷اور دوسرے حرف b کی قیمت ۴0ہے۔ اس لئے اگر انگریزی طرف کے مطابق ان دونوں کا ملاپ کیا جائے تو اسکی صورت یہ بنتی ہے۔

a + b = 7 + 04 = 74

یعنی چونکہ اس مثال میں پہلا حرف a انگریزی طرز کے مطابق بائیں طرف کے پہلے نمبر پر لکھا گیا ہے، اس لئے اسکی قیمت 4 بائیں طرف کو پہلے نمبر پر آتی ہے۔ دوسری حرف bچونکہ بائیں طرف سے دوسے نمبر پر لکھا گیا ہے، اس لئے اسکی قیمت چالیس جسے انگریزی کے اصول کے مطابق 04لکھا جانا چاہئے۔ اس کے آگے بائیں طرف سے دوسرا نمبر پر آنا چاہئے۔ اور دونوں کے ملاپ سے صفر حذف کرنے کے بعد سیتالیس کے عدد کو 74لکھا جانا چاہئے۔ کیونکہ انگریزی طرز تحریر میں ہر لفظ کا پہلا حرف بائیں طرف کا پہلا حرف اور دھائی اسکے دائیں طرف ہونا چاہئے۔
 
آخری تدوین:
Top