انصاری آفاق احمد
محفلین
آپ کے سوال میں غور طلب چند نقاط جن کی روشنی میں جواب دینا آسان ہے۔میرا ایک دوست ہے۔اس کے ساتھ ایک مسئلہ ہوگیا ہے۔جس کی وجہ سے بہت پریشان ہے۔سوچا آپ سے بھی شئیر کیاجائے شاید کوئی مناسب حل نکل آئے۔
مسئلہ کچھ یوں ہے۔کہ
اس دوست کی منگنی کچھ ماہ قبل ایک لڑکی سے ہوگئی۔پاکستان میں عموماً لڑکی کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔قصّہ مختصر کہ موصوف لڑکی کو نہ دیکھ پائے۔اپنے گھر والوں پر چھوڑ دیا۔گھر والوں نے کہا مناسب ہی ہے،لیکن اخلاق اچھے ہيں۔وغیرہ وغیرہ۔اور خاندان بھی اچھا ہے۔دوست کے ابّو نے جلدی سے منگنی کردی۔حالانکہ گھروالے چاہتے تھے کہ ابھی مزید غور کرلیا جائے۔لیکن ابو نے کسی کی نہ سُنی۔لڑکی والے ضرورت سے زیادہ ہی لڑکے پر فِدا ہیں۔بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔پھر کچھ عرصے بعد اُس دوست نے کسی طریقے سے لڑکی کو دیکھ لیا تو اسے پسند نہیں آئی۔
اب شادی سےانکار کرنے کی صورت میں کچھ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔جیسے
1-لڑکی کا دِل دُکھےگا۔کیونکہ لڑکی کے بارے میں بھی سُنا گیا ہے کہ وہ لڑکے کو بہت زیادہ پسند کرتی ہے۔شاید خودکُشی کرلے اگر لڑکا انکار کرے تو۔
2-لڑکی کے خاندان والوں سے جو تعلقات ہیں،وہ بھی خراب ہوں گے۔دلوں میں قدورتیں بڑھیں گی۔شاید لڑائی ہوجائے کہ لڑکی والے کہيں کہ اگر شادی نہیں کرنی تو منگنی کیوں کی تھی؟
میرے خیال میں ان باتوں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرا دوست کس قسم کی مشکلات سے دوچار ہے۔اگر کسی رکن کی پاس اس کا کوئی حل ہو تو ضرور بتائیں۔
یا کیا وہ لڑکی کو اپنا لے۔کہ مجھے پسند نہیں تو کیا ہوا۔وہ لڑکی تو اُسے محبت کرتی ہے۔بیچاری کا دِل دُکھے گا۔اور ویسے بھی کہتے ہیں کہ۔۔
''شادی اُس سے کرو جو تمہیں چاہے۔''
کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جو لڑکی اسےپسند آئے ،وہ لڑکی اُسے پسند نہ کرے۔
ایسا کم ہی ہوتا ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے کو ایک جیسا ہی پیار کریں۔
1۔لڑکی کو گنجائش دین کے باوجود رواج کی بنیاد ہر نہیں دیکھا۔
2۔موصوف نے حق اقرار اپنی مرضی سے دوسروں کے سپرد کیا۔
3-" ضرورت سے زیادہ " کا استعمال آپ کے رجحان طرف داری کو جھلکاتا ہے
4-کسی طریقہ سے دیکھ لیا۔ سے مراد صورت سے ہی ہوگا۔ جو پسند نہیں آئی۔
5۔ صورتِ انکار میں پیدہ ہونے والے مسائل اور ان کی گمبھیر صورت
ان تمام نقاط میں سرف ایک نمبر4 ایسا ہے جو آپکے دوست کے خیالِ انکار کو ووٹ دیتا ہے وہ بھی مجہول اجازت
باقی اس کے مقابلہ میں سارے نقاط اپکے دوست کے خیال کے خلاف ہیں اب اگر وہ اپنے خیال کی افادیت پر غور کرے اور اس کی مضبوطی اور کمزوری دونوں پر نظر کرے کہ بسا اوقات ان کا محرق وہ ایڈیل پیکر ہوتا (صورت وشکل( جو صرف پردہ سیمیں یا کہانی کے کرداروں میں اور اس سے بھی پڑھ کر خوابوں اور خیالوں میں تراشہ جاتا ہے حقیقت میں اسکا وجود محال یا دوسری کمزوریاں لئے ہوتا ہے جو شکل کی بہتری کے مقابلہ میں کردار ا اخلاق کی پستی کی صورت میں ہوتیں ہیں یا پھر سماجی نا برابری جو بڑے مسائیل کی جڑ بن جاتی ہیں۔سومئی قسمت کہ اکشر یہی ہوتا ہے کہ جسنے نکاح کرنا ہوتا ہے اسکے جذبات ایک خاص حدود میں ہی اسکے ذہن کو دوڑاتے ہیں۔ جبکہ نکاح کی غرض و غایت میں انکا حصّہ بہت محدود ہوتا ہے اور اس شکل میں تو ہوتا ہی نہیں جو نکاح کرنے والے کے ذہن میں ہوتا ہے۔وسیع پیمانے پر سوچنا یہ متعلقین کے ہی لئے عموماً ممکن ہوتا جن پر لڑکوں کی نظر بھی نہیں جاتی۔ ہاں بشریت سے کوئی فیصلہ غلطی سے خالی نہیں ہوتا۔اٹھائے گئے اقدام بھی نتائج پر اثر ڈالتے ہیں
اب آپ کا دوست یا وہ سب لوگ جو اس سے ملتے جلتے مسلئے سے دوچار ہوں وہ ان کو تولیں اور جس جانب وزن زیادہ ہو اس عمل کو اختیار کریں استخارہ بھی کریں۔
جو اب تک اس مسلئے سے دوچار نہیں ہوئے وہ ان سے سبق لیں اور شروعات سے ہی رسم رواج کی قباحت و سنّت کی افادیت کو سمجھیں ایک ایک اینٹ ہلتے ہلتے سدِ راہ منہدم ضرور ہوگی۔ اور اخلاص اسمیں مرضی و مدد الٰہی کو شامل کرے گا۔ جو کسی بھی کام کے پایہِ تکمیل تک پہنچانے کا جزؤِ اعظم ہے۔
دعائے خیر سب کے لئے اور اسکی درخواست سب سے میرے لئے۔