فاخر
محفلین
ہنسنا منع ہے
جوبھی ہنسے گا اسے پا کستان بھیج دیا جائےگا
یہ خدا کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ :’ ملک کے عوام کو دو وقت کی روٹی ملے یانہ ملے ؛لیکن تفریح کاسامان ضرور مل جاتا ہے۔ کبھی تو ہمیں غصہ بھی آتا ہے اور کبھی ہنسی بھی چھوٹ جاتی ہے کہ ملک کے سوالاکھ (جی ہاں ! جب ہمارے ملک کی اعلیٰ کرسی پر بیٹھے لوگ غلط سلط بول جاتے ہیں تو ہمیں بھی جان بوجھ کر بولنا ہی چاہیے، ویسے اس سوا لاکھ کو سوا ارب پڑھ سکتے ہیں ) لوگوں نے ’پردھان منتری ‘ چنا تھا یا ’منورنجن منتری‘؟ وکاس (ترقی ) کی بات نہ ہواس سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے ۔ ویسے یوں بھی آج کل پی ایم کی تقریر سے ’وکاس‘ گم ہوگیا ہے۔یوں بھی ہندوستانی عوام کا پیٹ ’سامانِ تفریح ‘سے ہی بھر جاتا ہے ؛ اس لیے اب موضوع پر بات ہی نہ کرنی چاہیے۔ خیر !مودی نے اپنے ایک چہیتے ٹی وی چینل کے رپورٹوں کو انٹرویو دیا اور کئی انکشاف کرڈالے مثلاً :’ 1987میں سب سے پہلے انہوں نے ڈیجیٹل کیمرہ کا استعمال کرتے ہوئے ای میل کے ذریعہ’ فائل اٹیچنگ‘ کے عمل کو انجام دیا تھا۔ اڈوانی کے ایک پروگرام کی تصویر دہلی بھیجی تھی ‘ ۔ گویا سب سے پہلے انہون نے نیٹ کا استعمال کیا ،سب سے پہلے انہوں نے ڈیجیٹل کیمرہ کا استعمال کیا اور یہی نہیں ؛بلکہ سب سے پہلے انہوں نے ہی ای میل کے ذریعہ فائل وہ بھی امیج اٹیچ کیا تھا ۔پھر کیا تھا ! ایک ایک کرکے تمام موجدین پکار اٹھے کہ بھائی !ہمیں جو اعزازات ملے ہیں ، ہم ا نہیں آپ کے نام کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے مارک ذکر برگ نے اپنے فیس بک پر کلمات تحسین ادا کرتے ہوئے فخریہ لکھا کہ :’جب میں نے4فروری 2004 میں فیس بک بنایا تھا تو اس وقت بھارتی وزیر اعظم مودی کی طرف سے فرینڈ ریکویسٹ آئی ہوئی تھی‘۔ بیچارہ نیوٹن بھلا کیوں چپ رہتا ؟ا س نے بھی چپی تو ڑتے ہوئے کہا کہ:’کشش ثقل کی شناخت در اصل مودی کی ہی دین ہے ،میں نے ان سے یہ نظریہ ’سرقہ‘ ما ر کیا تھا ۔‘ یہی نہیں ؛بلکہ بندہ کو اس سے زیادہ بڑا انعام اس وقت ملا،جب ریڈیو کا موجد مارکونی نے اپنی قبر سے یہ صدالگائی کہ:’ جب میں نے ریڈیو بنایا تھا تو اس وقت آل انڈیا ریڈیو پر مودی کا معروف پروگرام ’’من کی بات‘‘ نشر ہورہا تھا۔ ’اسرو‘سے بھی خاموش نہ رہا گیا،اس نے بھی چیخ کر اپنی پرانی فائل کے ملگجے ورق دکھاتے ہوئے کہا کہ :’ مودی کا اس تنظیم سے پرانا رشتہ ہے ۔یہ وہی شخص ہیں جنہیں خلائی مشین میں بٹھاکر فضا کی سیرکروائی گئی تھی تاکہ حریف(پاکستان) کے رڈار سے بچاجاسکے ‘۔اس شور میں امریکہ اور جاپان گم صم کھڑااس سوچ میں دوہرا ہوا جارہا تھا کہ :’جب 1987میں ڈیجیٹل کیمرہ کا ایجاد ہی نہیں ہوا تھا تو اس وقت گجرات کے ایک آدمی کے پاس ’ڈیجیٹل کیمرہ ‘ بھی تھا ،جو بعد میں ہندوستان کا پی ایم بنا ۔اب اس میں کون سی برائی ہے ؟اگر کاغذ ایجاد کرنے والے چینی شخص نے یہ کہہ دیا کہ :’ جب میں لکڑی ،بانس اور گھاس پھوس کو جمع کرکے دن رات مشقت کرکے ایک نئی چیز دریافت کرنے کی کوشش کررہا تھا تو اس وقت بھارتی وزیر اعظم اس کاغذ پر ’مہابھارت‘ کی کہانی ترتیب دے رہے تھے‘ ۔ گراہم بیل نےتو اس کا انکشاف کرکے دھماکہ ہی کردیا۔ جب اس نے کہا کہ :’جب میں لینڈلائن ریسور فون ایجاد کیا تھا تو اس وقت بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے 5مسڈکال آئی ہوئی تھی ‘۔ خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،غضب اس وقت ہوگیاجب تری پورہ کے وزیر اعلیٰ وپلب داس ،اور بی جے پی کے معزز رہنما جنہوں نے مہابھارت (قدیم ہندوستان) میں انٹر نیٹ ایجادکرکے انٹر نیٹ کے بانی اور دریافت کنندگان کو شرمندہ کردیا تھا،وہ کہنے لگے کہ :’جب مہابھارت کے عہد میں انٹر نیٹ دستیاب ہوچکا تھا تو مودی نے ’ای میل‘ بھیجنے میں اتنی دیر کیوں کردی ؟ ۔ اس شور شرابے میں پاکستان سے رہا ہوئے ابھی نندن نامی ونگ کمانڈر سے رہا نہ گیا ،اس کے پیٹ میں مروڑ پیدا ہونے لگا ؛کیوں کہ اس نے پاکستانی چائے پی کر نظام ہضم کو بگاڑلیا تھا،اپنی بدہضمی یوں بیان کرنے لگا کہ :’ ہمیں مسٹر رڈار سے یہ حکم ملا تھا کہ :’جب وہ (پاکستان)پیچھے پڑے تو لیفٹ(LEFT) کا انڈیگیٹردباکر رائٹ(RIGHT) کو مڑجانا ؛لیکن بدقسمتی تھی کہ مسٹر رڈار کی ہدایت ناکام ثابت ہوئی اور مجھے پاکستان کی سرزمین پر اتارلیا گیا ‘۔ اسی شور شرابے میں اسرو کے سا ئنسدان نے شگوفہ چھوڑ کر محفل کو اور بھی قہقہہ زار بنادیا کہ :’ جب اس نے مسٹر رڈار سے یہ پوچھا کہ:’شمس نامی سیارہ پر راکٹ کیسے بھیجوں؛ جب کہ وہ ہمیشہ گرم رہتا ہے۔ تو ’مسٹر رڈار‘ کے جواب نے مجھے سکتہ میں ڈال دیا۔ مسٹر رڈار نے کہا کہ:’اس میں لگا کیا ہے ، جب دن میں شمس سیارہ گرم ہو تو را کٹ کو رات کے وقت میں بھیجو۔اس وقت چندرما(قمرسیارہ) کی ٹھنڈک کا اثر رہتا ہے ۔ خیال رہے کہ :’یہ سب لطائف آنے والی نسلوں کے لیے ورثہ ہیں ،بچوں کو ہنسنے کی اجازت ہے ۔اگر کسی بڑی عمر والوں نے ہنسنے کی خطا کی تو اسے بطورسزا’دیش دروہ ‘ (غدار وطن) ثابت کرکے پاکستان بھیج دیا جائے گا‘ ۔اور تو اور ان دو مرد و خاتون صحافی تو ابھی تک بے ہوش ہیں ،جنہوں نے پہلے سے کاغذ پر لکھے سوال پڑھ کراسے دہرایا تھا کہ:’ کیا ہم یہ جا ن سکتے ہیں کہ:’ کوی (شاعر) مودی نے کون سی نئی کویتا (نظم) لکھی ہے؟ مودی کے جواب سے قبل ہی میر تقی میرؔ اور مرزاغالبؔ اپنے قبروں سے گرد جھاڑتے ہوئے نکلے اور ہم آواز ہوکر کہا کہ:’برخوردار! ہم دونوں نے جو اپنی اپنی کلیات اور دواوین ترکہ میں چھوڑے ہیں وہ در اصل ان ہی معزز صاحبِ کرسی کی کہی ہوئی غزلوں کا مجموعہ ہیں‘!۔ جن کو ہم دونوں نے باری باری سے سرقہ کرکے اپنے اپنے نام سے محفلوں اور مشاعروں میں سنایا تھا اور’ نالائق‘ ناشروں نے انہیں ہم دونوں کے نام سے چھاپ بھی دیا ،جس پر ہم ان معزز ناشروں کے مشکور ہیں۔ مرزا غالبؔ جنہوں نے مغلیہ سلطنت کے بجھتے چراغ کی آخری لو میں اپنی پوری زندگی گزار دی تھی؛لیکن مرزائی خوبو ان میں موجود تھی۔ تمکنت عود کر آئی ، انہوں نے تنک کر کہا کہ:’ برخوردار! جو ’کوئی امید بر نہیں آتی ،کوئی صورت نظر نہیں آتی ‘،نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا‘ وغیرہ غزلیں میرے نام منسوب ہیں وہ ان ہی ’صاحبِ سلامت‘ کی لکھی ہوئی ہیں۔جن کو ہم نے سرقہ کرکے ظلِ الٰہی بہادر شاہ ظفرؔ علیہ الرحمہ کی خدمت میں بھی پیش کیا تھا اور وہاں سے بھی داد مع خلعت و بخشش نوازے گئے تھے ۔
مدیر کی آخری تدوین: