فاخر
محفلین
مرزا صاحب ! چھری تو مقدمہ بہاولپور میں بھی چلی تھی۔ یاد بھی ہے کچھ؟ جب غیر مسلم مناظر آسمان دیکھتا رہ گیا تھا۔ہیں۔ یہ والی قربانی کی چھری کی طرح بکرے سے چھپا کر چلائی جاتی ہے
مرزا صاحب ! چھری تو مقدمہ بہاولپور میں بھی چلی تھی۔ یاد بھی ہے کچھ؟ جب غیر مسلم مناظر آسمان دیکھتا رہ گیا تھا۔ہیں۔ یہ والی قربانی کی چھری کی طرح بکرے سے چھپا کر چلائی جاتی ہے
اوہو۔۔۔ اپ کے لیے تو خصوصاً لکھنا چاہئیے تھا، معذرت قبول کیجیے۔مجھے پنجابی آتی نہیں ہے اس لیے براہ کرم آپ سے گزارش ہے کہ:’آپ اردو عربی فارسی ہندی‘ میں جو چاہے لکھے، البتہ پنجابی نہیں آتی ہے اس لیے پنجابی ٹائپ کرتے ہوئےاس کا ترجمہ بھی بین القوسین میں لکھ دیا کرے ۔
اوہو۔۔۔ اپ کے لیے تو خصوصاً لکھنا چاہئیے تھا، معذرت قبول کیجیے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ اکثر گڑ کھانے والا کبھی کبھار شکر کھانے والے کو ذیابیطس سے ڈرا رہا ہو۔
اس کا مطلب تو مجھے بھی نہیں پتہ! البتہ مجاہدآزادی و سرخیل جنگ آزادی شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ (اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ،آمین) اپنے مراسلہ جات وغیرہ میں’’ننگ اسلاف ‘‘ لکھا کرتے تھے ، اس لیے بندہ عاصی نے ’’ننگ اسلاف ‘‘ لکھ دیا ہے۔ شاید ممکن ہے کہ ان کہنے کا مطلب یہ رہا ہوگا کہ:’ ان کی وجہ سے ان کے بزرگوں کی توہین ہورہی ہے‘۔اور کچھ بعید نہیں کہ میری وجہ سے بھی میرے بزرگوں کی توہین ہورہی ہو‘۔
بک بک جھک جھک سے کیا فائدہ؟ اسے پڑھیں اور مسکرائیں۔ہنسنا منع ہے
جوبھی ہنسے گا اسے پا کستان بھیج دیا جائےگا
یہ خدا کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ :’ ملک کے عوام کو دو وقت کی روٹی ملے یانہ ملے ؛لیکن تفریح کاسامان ضرور مل جاتا ہے۔ کبھی تو ہمیں غصہ بھی آتا ہے اور کبھی ہنسی بھی چھوٹ جاتی ہے کہ ملک کے سوالاکھ (جی ہاں ! جب ہمارے ملک کی اعلیٰ کرسی پر بیٹھے لوگ غلط سلط بول جاتے ہیں تو ہمیں بھی جان بوجھ کر بولنا ہی چاہیے، ویسے اس سوا لاکھ کو سوا ارب پڑھ سکتے ہیں ) لوگوں نے ’پردھان منتری ‘ چنا تھا یا ’منورنجن منتری‘؟ وکاس (ترقی ) کی بات نہ ہواس سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے ۔ ویسے یوں بھی آج کل پی ایم کی تقریر سے ’وکاس‘ گم ہوگیا ہے۔یوں بھی ہندوستانی عوام کا پیٹ ’سامانِ تفریح ‘سے ہی بھر جاتا ہے ؛ اس لیے اب موضوع پر بات ہی نہ کرنی چاہیے۔ خیر !مودی نے اپنے ایک چہیتے ٹی وی چینل کے رپورٹوں کو انٹرویو دیا اور کئی انکشاف کرڈالے مثلاً :’ 1987میں سب سے پہلے انہوں نے ڈیجیٹل کیمرہ کا استعمال کرتے ہوئے ای میل کے ذریعہ’ فائل اٹیچنگ‘ کے عمل کو انجام دیا تھا۔ اڈوانی کے ایک پروگرام کی تصویر دہلی بھیجی تھی ‘ ۔ گویا سب سے پہلے انہون نے نیٹ کا استعمال کیا ،سب سے پہلے انہوں نے ڈیجیٹل کیمرہ کا استعمال کیا اور یہی نہیں ؛بلکہ سب سے پہلے انہوں نے ہی ای میل کے ذریعہ فائل وہ بھی امیج اٹیچ کیا تھا ۔پھر کیا تھا ! ایک ایک کرکے تمام موجدین پکار اٹھے کہ بھائی !ہمیں جو اعزازات ملے ہیں ، ہم ا نہیں آپ کے نام کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے مارک ذکر برگ نے اپنے فیس بک پر کلمات تحسین ادا کرتے ہوئے فخریہ لکھا کہ :’جب میں نے4فروری 2004 میں فیس بک بنایا تھا تو اس وقت بھارتی وزیر اعظم مودی کی طرف سے فرینڈ ریکویسٹ آئی ہوئی تھی‘۔ بیچارہ نیوٹن بھلا کیوں چپ رہتا ؟ا س نے بھی چپی تو ڑتے ہوئے کہا کہ:’کشش ثقل کی شناخت در اصل مودی کی ہی دین ہے ،میں نے ان سے یہ نظریہ ’سرقہ‘ ما ر کیا تھا ۔‘ یہی نہیں ؛بلکہ بندہ کو اس سے زیادہ بڑا انعام اس وقت ملا،جب ریڈیو کا موجد مارکونی نے اپنی قبر سے یہ صدالگائی کہ:’ جب میں نے ریڈیو بنایا تھا تو اس وقت آل انڈیا ریڈیو پر مودی کا معروف پروگرام ’’من کی بات‘‘ نشر ہورہا تھا۔ ’اسرو‘سے بھی خاموش نہ رہا گیا،اس نے بھی چیخ کر اپنی پرانی فائل کے ملگجے ورق دکھاتے ہوئے کہا کہ :’ مودی کا اس تنظیم سے پرانا رشتہ ہے ۔یہ وہی شخص ہیں جنہیں خلائی مشین میں بٹھاکر فضا کی سیرکروائی گئی تھی تاکہ حریف(پاکستان) کے رڈار سے بچاجاسکے ‘۔اس شور میں امریکہ اور جاپان گم صم کھڑااس سوچ میں دوہرا ہوا جارہا تھا کہ :’جب 1987میں ڈیجیٹل کیمرہ کا ایجاد ہی نہیں ہوا تھا تو اس وقت گجرات کے ایک آدمی کے پاس ’ڈیجیٹل کیمرہ ‘ بھی تھا ،جو بعد میں ہندوستان کا پی ایم بنا ۔اب اس میں کون سی برائی ہے ؟اگر کاغذ ایجاد کرنے والے چینی شخص نے یہ کہہ دیا کہ :’ جب میں لکڑی ،بانس اور گھاس پھوس کو جمع کرکے دن رات مشقت کرکے ایک نئی چیز دریافت کرنے کی کوشش کررہا تھا تو اس وقت بھارتی وزیر اعظم اس کاغذ پر ’مہابھارت‘ کی کہانی ترتیب دے رہے تھے‘ ۔ گراہم بیل نےتو اس کا انکشاف کرکے دھماکہ ہی کردیا۔ جب اس نے کہا کہ :’جب میں لینڈلائن ریسور فون ایجاد کیا تھا تو اس وقت بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے 5مسڈکال آئی ہوئی تھی ‘۔ خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،غضب اس وقت ہوگیاجب تری پورہ کے وزیر اعلیٰ وپلب داس ،اور بی جے پی کے معزز رہنما جنہوں نے مہابھارت (قدیم ہندوستان) میں انٹر نیٹ ایجادکرکے انٹر نیٹ کے بانی اور دریافت کنندگان کو شرمندہ کردیا تھا،وہ کہنے لگے کہ :’جب مہابھارت کے عہد میں انٹر نیٹ دستیاب ہوچکا تھا تو مودی نے ’ای میل‘ بھیجنے میں اتنی دیر کیوں کردی ؟ ۔ اس شور شرابے میں پاکستان سے رہا ہوئے ابھی نندن نامی ونگ کمانڈر سے رہا نہ گیا ،اس کے پیٹ میں مروڑ پیدا ہونے لگا ؛کیوں کہ اس نے پاکستانی چائے پی کر نظام ہضم کو بگاڑلیا تھا،اپنی بدہضمی یوں بیان کرنے لگا کہ :’ ہمیں مسٹر رڈار سے یہ حکم ملا تھا کہ :’جب وہ (پاکستان)پیچھے پڑے تو لیفٹ(LEFT) کا انڈیگیٹردباکر رائٹ(RIGHT) کو مڑجانا ؛لیکن بدقسمتی تھی کہ مسٹر رڈار کی ہدایت ناکام ثابت ہوئی اور مجھے پاکستان کی سرزمین پر اتارلیا گیا ‘۔ اسی شور شرابے میں اسرو کے سا ئنسدان نے شگوفہ چھوڑ کر محفل کو اور بھی قہقہہ زار بنادیا کہ :’ جب اس نے مسٹر رڈار سے یہ پوچھا کہ:’شمس نامی سیارہ پر راکٹ کیسے بھیجوں؛ جب کہ وہ ہمیشہ گرم رہتا ہے۔ تو ’مسٹر رڈار‘ کے جواب نے مجھے سکتہ میں ڈال دیا۔ مسٹر رڈار نے کہا کہ:’اس میں لگا کیا ہے ، جب دن میں شمس سیارہ گرم ہو تو را کٹ کو رات کے وقت میں بھیجو۔اس وقت چندرما(قمرسیارہ) کی ٹھنڈک کا اثر رہتا ہے ۔ خیال رہے کہ :’یہ سب لطائف آنے والی نسلوں کے لیے ورثہ ہیں ،بچوں کو ہنسنے کی اجازت ہے ۔اگر کسی بڑی عمر والوں نے ہنسنے کی خطا کی تو اسے بطورسزا’دیش دروہ ‘ (غدار وطن) ثابت کرکے پاکستان بھیج دیا جائے گا‘ ۔اور تو اور ان دو مرد و خاتون صحافی تو ابھی تک بے ہوش ہیں ،جنہوں نے پہلے سے کاغذ پر لکھے سوال پڑھ کراسے دہرایا تھا کہ:’ کیا ہم یہ جا ن سکتے ہیں کہ:’ کوی (شاعر) مودی نے کون سی نئی کویتا (نظم) لکھی ہے؟ مودی کے جواب سے قبل ہی میر تقی میرؔ اور مرزاغالبؔ اپنے قبروں سے گرد جھاڑتے ہوئے نکلے اور ہم آواز ہوکر کہا کہ:’برخوردار! ہم دونوں نے جو اپنی اپنی کلیات اور دواوین ترکہ میں چھوڑے ہیں وہ در اصل ان ہی معزز صاحبِ کرسی کی کہی ہوئی غزلوں کا مجموعہ ہیں‘!۔ جن کو ہم دونوں نے باری باری سے سرقہ کرکے اپنے اپنے نام سے محفلوں اور مشاعروں میں سنایا تھا اور’ نالائق‘ ناشروں نے انہیں ہم دونوں کے نام سے چھاپ بھی دیا ،جس پر ہم ان معزز ناشروں کے مشکور ہیں۔ مرزا غالبؔ جنہوں نے مغلیہ سلطنت کے بجھتے چراغ کی آخری لو میں اپنی پوری زندگی گزار دی تھی؛لیکن مرزائی خوبو ان میں موجود تھی۔ تمکنت عود کر آئی ، انہوں نے تنک کر کہا کہ:’ برخوردار! جو ’کوئی امید بر نہیں آتی ،کوئی صورت نظر نہیں آتی ‘،نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا‘ وغیرہ غزلیں میرے نام منسوب ہیں وہ ان ہی ’صاحبِ سلامت‘ کی لکھی ہوئی ہیں۔جن کو ہم نے سرقہ کرکے ظلِ الٰہی بہادر شاہ ظفرؔ علیہ الرحمہ کی خدمت میں بھی پیش کیا تھا اور وہاں سے بھی داد مع خلعت و بخشش نوازے گئے تھے ۔
کوئی گل نہیں جی، آپے آتی جاتی رہے گی۔ ویسے تو نا بھی سمجھ آئی تو جنت جہنم کے فیصلے پر اثر انداز ہونے والی شے نہیں ہے۔’’ویسے بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ کی سرائیکی شاعری اور بلہے شاہ وغیرہ کا پنجابی کلام نصرت فتح علی خان کی زبانی سنتا رہتا ہوں۔ تو اس وقت سمجھ میں آتی ہے کہ نصرت فتح علی خان کیا گارہے ہیں،ورنہ ان کے علاوہ کوئی پنجابی گائے یا پڑھے یا لکھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا( باستثنائے آنجناب) ۔ بلکہ بسا اوقات تو الجھن بھی ہونے لگتی ہے۔
اچھا اچھا۔۔۔۔یہ محفل کے دوسرے زیک ہیں۔ ان کو بھی پنجابی سے سخت چڑ ہے۔
جاہد آزادی و سرخیل جنگ آزادی شیخ الاسلام علیہ رحمہ کہاں کی آزادی کے مجاہد تھے، اور انھوں نے کونسی جنگ آزادی لڑی تھی؟ 1857 والی!
لاحول ولا قوہ الا باللہ العلی العظیم استعفراللہ ربی من کل ذنب و ا توب الیہ !یہ محفل کے دوسرے زیک ہیں۔ ان کو بھی پنجابی سے سخت چڑ ہے۔
1857 میں ابھی موصوف پیدا بھی نہیں ہوئے تھےمجاہد آزادی و سرخیل جنگ آزادی شیخ الاسلام علیہ رحمہ کہاں کی آزادی کے مجاہد تھے، اور انھوں نے کونسی جنگ آزادی لڑی تھی؟ 1857 والی!
ریشمی رومال پر مرقوم خط کے پکڑے جانے کے نتیجہ میں برطانوی رکارڈ کے مطابق برطانوی سلطنت کے خلاف بغاوت اور شورش کے جرم میں ملک بھر سے ۲۲۲/ قائد علماء گرفتار کئے گئے۔ (مقام محمود، ۲۹۷، ۲۹۸) حضرت شیخ الہند اور ان کے رفقامولانا وحید احمد فیض آبادی، مولانا عزیز گل، حکیم سید نصرت حسین اور مولانا حسین احمد مدنی ۲۳ /صفر ۱۳۳۵ کومکہ میںگرفتار ہوئے اور انھیں ۲۹ /ربیع الثانی ۱۳۳۵ ہجری مطابق ۱۲ /فروری ۱۹۱۷ء کو قاہرہ کے راستے بذریعہ بحری جہاز مالٹا بھیج دیا گیا جہاں انھیں تین سال چار ماہ کے لئے قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں۔رہائی کے بعد وہ ۸ /جون ۱۹۲۰ ء کو ممبئی پہونچے۔ مگر مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا محمد میاں منصور انصاری کو کئی برسوں تک جلا وطن رہنا پڑا۔ (سفرنامہ مالٹا: ۱۱۸، ۱۲۷ ، اسیران مالٹا ۵۱، نقش حیات جلد ۲، ص ۱۳۵)سردست شیخ الاسلام حضرت مولانا مدنی علیہ الرحمہ کے متعلق ویکی پیڈیا میں درج معلومات کا لنک پیش کررہا ہوں ویسے ان کے متعلق کئی کتابیں بھی ہیں، اس کا بھی لنک پیش کردوں گا۔ و یسے کچھ حد تک اس پر معلومات درست ہیں۔
محفل فروغ اردو کا فارم ہے اور یہاں اردو ہی لکھنی چاہئے۔ مگر کبھی کبھار پنجابی یا انگریزی لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔لاحول ولا قوہ الا باللہ العلی العظیم استعفراللہ ربی من کل ذنب و ا توب الیہ !
کسی زبان سے کسی کو اگر چڑ ہوتی ہے تو وہ شخص ’’اجہل الجاہلین‘‘ اور متعصب ہے۔ اگر مجھے پنجابی سے چڑ ہوتی تو میں پھر نصرت فتح علی خان کے 20 -20 منٹ کی قوالیاں کیوں سنتا؟ کیا آپ کو علم نہیں ہے کہ:’ وماارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لھم‘‘ تو پھر چڑ کیسی؟ اس سے میں اتفاق نہیں رکھتا۔ ہر زبان کی اپنی خاصیت ہے اور اپنی چاشنی ہے۔
جی، میں بھی آپ کی طرح محفل کا ’ٹرول‘ مشہور ہوںاس سے پہلے کسی مناظرہ میں حصہ لیا ہے کیا؟
جی، میں بھی آپ کی طرح محفل کا ’ٹرول‘ مشہور ہوں
لیجیے! ڈاکٹر اقبال بھی آ نے والے ہیں لپیٹے میں۔ویسے ڈاکٹر اقبال نے کس پیرائے میں کہا تھا ۔
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبیست؟
مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او ندسیدی تمام بو لہبیست ۔
یہ محض سوال ہے۔شاید میری یادداشت ڈھلتی عمر اور کچھ آلام روز و شب کی نذر ہو رہی ہے ؟ اسے کچھ اور نہ سمجھا جاوے۔
کیا مطلب ہوا جی؟ویسے ڈاکٹر اقبال نے کس پیرائے میں کہا تھا ۔
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبیست؟
مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او ندسیدی تمام بو لہبیست ۔
یہ محض سوال ہے۔شاید میری یادداشت ڈھلتی عمر اور کچھ آلام روز و شب کی نذر ہو رہی ہے ؟ اسے کچھ اور نہ سمجھا جاوے۔
میں اس کا بھی ذکر کرنا چاہ رہا تھا کہ یہ وہی حسین احمد مدنی ہیں جن کے با رے میں اقبالؔ نے ’بہت‘ کچھ کہا تھا۔ میں یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ کہیں پھر دو ملکوں اور مسئلہ قومیت کی جنگ نہ چھڑ نہ جائے ۔ اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا تھا؛لیکن آپ نے اس کا ذکر کرکے احسان فرمایا۔ اب تو اس کے لیے پرانی تاریخ پڑھنا ہوگی کہ اقبالؔ نے اسے کس پیرایے میں اور کس تناظر میں کہا ہے۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ لاہور سے وارد ہوئے اس تلخی کا جواب مرادآباد کے کسی مرید شاعر نے دیا تھا۔ ڈھونڈتا ہوں اگر مجھے کہیں مل گیا تو پیش کروں گا۔ اور پھر اسی مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سفرپاکستان میں لاہور کی ایک مسجد میں مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا،(اس کامفہوم پیش کررہا ہوں) مسجد بنانے میں کوئی اختلاف نہیں تھا بس اختلاف تھا تو یہ تھا کہ مسجد کس جگہ بنائی جائے۔ اب جب کہ پاکستان کا قیام عمل میں آچکا ہے تو تمام مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے کہ پاکستان کے تحفظ ،بقا اور اس کی حفاظت کریں‘۔ویسے ڈاکٹر اقبال نے کس پیرائے میں کہا تھا ۔
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبیست؟
مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او ندسیدی تمام بو لہبیست ۔
یہ محض سوال ہے۔شاید میری یادداشت ڈھلتی عمر اور کچھ آلام روز و شب کی نذر ہو رہی ہے ؟ اسے کچھ اور نہ سمجھا جاوے۔
آپ کی وجہ سے آپ کے بزرگوں کی ہونے والی ممکنہ توہین پر اظہار تاسف کو مابدولت ازبس ضروری گردانتے ہوئے ان کی بلندیء اقبال کے لیے دست بہ دعا ہیں ۔اور کچھ بعید نہیں کہ میری وجہ سے بھی میرے بزرگوں کی توہین ہورہی ہو‘۔