نوید ناظم
محفلین
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ رتجگوں میں بھلا کس لیے بسر ہوتی
شبِ ہجر کی سحر ہو نہ جاتی گر ہوتی
دل اُن پہ آ تو گیا بن گئی مگر جاں پر
انھیں بھی کاش کہ بسمل کی کچھ خبر ہوتی
حضور ہم سے نہ یوں زندگی کا پوچھیں آپ
ہمیں تو ٹھیک تھی جتنی بھی مختصر ہوتی
گرا دیا ہے رکاوٹ سمجھ کے لوگوں نے
نہیں تو آج یہ دیوار میرا گھر ہوتی
پھر اس میں کیا تھا اگر ہم بھی تھوڑا جی لیتے
کبھی تو ہم پہ بھی کچھ آپ کی نظر ہوتی
نوید ہی کو محبت نہ ہو سکی اب تک
مگر یہ طے ہے کہ ہوتی انھی سے گر ہوتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ رتجگوں میں بھلا کس لیے بسر ہوتی
شبِ ہجر کی سحر ہو نہ جاتی گر ہوتی
دل اُن پہ آ تو گیا بن گئی مگر جاں پر
انھیں بھی کاش کہ بسمل کی کچھ خبر ہوتی
حضور ہم سے نہ یوں زندگی کا پوچھیں آپ
ہمیں تو ٹھیک تھی جتنی بھی مختصر ہوتی
گرا دیا ہے رکاوٹ سمجھ کے لوگوں نے
نہیں تو آج یہ دیوار میرا گھر ہوتی
پھر اس میں کیا تھا اگر ہم بھی تھوڑا جی لیتے
کبھی تو ہم پہ بھی کچھ آپ کی نظر ہوتی
نوید ہی کو محبت نہ ہو سکی اب تک
مگر یہ طے ہے کہ ہوتی انھی سے گر ہوتی