اگر کہیں جو شبِ ہجر کی سحر ہوتی

نوید ناظم

محفلین
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ رتجگوں میں بھلا کس لیے بسر ہوتی
شبِ ہجر کی سحر ہو نہ جاتی گر ہوتی

دل اُن پہ آ تو گیا بن گئی مگر جاں پر
انھیں بھی کاش کہ بسمل کی کچھ خبر ہوتی

حضور ہم سے نہ یوں زندگی کا پوچھیں آپ
ہمیں تو ٹھیک تھی جتنی بھی مختصر ہوتی

گرا دیا ہے رکاوٹ سمجھ کے لوگوں نے
نہیں تو آج یہ دیوار میرا گھر ہوتی

پھر اس میں کیا تھا اگر ہم بھی تھوڑا جی لیتے
کبھی تو ہم پہ بھی کچھ آپ کی نظر ہوتی

نوید ہی کو محبت نہ ہو سکی اب تک
مگر یہ طے ہے کہ ہوتی انھی سے گر ہوتی
 
ہماری صلاح

مطلع کے دوسرے مصرع میں شبِ کو بہت کھینچ کر ابے تُبے کی مانند باندھا ہے ، اسی طرح ہِجر کو ہِجِر باندھا ہے۔
اتنا بھی کھینچ کر نہ باندھیے کہ مصرع ہی بحر کے پیمانے سے چھلکا پڑتا ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
ہماری صلاح

مطلع کے دوسرے مصرع میں شبِ کو بہت کھینچ کر ابے تُبے کی مانند باندھا ہے ، اسی طرح ہِجر کو ہِجِر باندھا ہے۔
اتنا بھی کھینچ کر نہ باندھیے کہ مصرع ہی بحر کے پیمانے سے چھلکا پڑتا ہے۔
ممنون ہوں کہ آپ نے توجہ فرمائی، بہت شکریہ،
ہجر کا نادانستہ ہوا، میں تو اسے ہِجر ہی سمجھ رہا تو مگر یہ کچھ اور ہی نکلا۔۔۔:)

اب مطلع ملاحظہ فرمایے گا۔۔۔

یہ رتجگوں میں بھلا کس لیے بسر ہوتی
اگر کہیں جو شبِ ہجر کی سحر ہوتی
 

راشد ماہیؔ

محفلین
اے میرے یار تری باہوں میں بسر ہوتی
کہیں کبھی جو شبِ ہجراں کی سحر ہوتی

اس سے ذرا مفہوم و تغزل بہتر نہ ہو جائیں گے؟
 
Top